تعلیم
القرآن سانحہ کے رد عمل میں جامعہ اسلامیہ راولپنڈی میں علمائے کرام کی دس
بجے میٹنگ بلائی گئی۔ جس میں مولانا اشرف علی صاحب مہتمم تعلیم القران،
مولانا قاضی عبد الرشید صاحب، مولانا ظہور علوی صاحب، مولانانذیر فاروقی
صاحب، مولانا عبدلغفار جامعہ فریدیہ، مولانا تاج محمد صاحب، مولانا شاکر محمود صاحب، اور مولانا ادریس حقانی صاحب سمیت ایک ہزار کے قریب علما و طلبا شامل تھے۔
مولانا اشرف علی صاحب اور مفتی امان اللہ صاحب نے اصل واقعہ کی تفصیلات بتائیں۔
ہر سال ماتمی جلوس عصر کے وقت نکالا جاتا رہا، لیکن اس سال ایک منظم منصوبے کے تحت ماتمی جلوس دن ۲ بجے سے پہلے جامعہ تعلیم القرآن پہنچ گیا۔ جلوس کی طرف سے تبرا اور پتھراو کے بعد جب مسجد سے انہیں روکنے کی کوشش کی گئی تو ڈیوٹی پر مامور ایس ایچ او نے جلوس کو روکنے کے بجائے مسجد میں آکر سپیکر بند کرنے کا کہا۔ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اور امن بحال کرنے کے لیے سپیکر بند کرنے کے باوجود ایس ایچ او کی موجودگی میں ماتمی جلوس میں موجود دہشت گردوں نے پولیس سے اسلحہ چھین لیا [بعض اطلاعات کے مطابق پولیس نے خود رضاکارانہ طور پر اسلحہ ماتمی دہشت گردوں کے حوالے کیا] اور نمازیوں پر فاِرنگ شروع کر دی۔ مسجد میں گھسنے سے پہلے مسجد کے چوکیدار کو مزاحمت کرنے پر ذبح کر دیا گیا۔ مدرسے کو آگ لگا دی گئی اور طلبا کو شدید تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے بعض طلبا کی گردنییں کاٹی گئیں اور بعض کی زبانیں کاٹی گئیں۔ طلبا کو سڑکوں پر گھسیٹتے ہوئے انہیں ڈنڈوں، چھریوں اور کدالوں سے پیٹا گیا۔ مسجد و مدرسہ کی عمارت کو شدید نقصان پہنچا۔ مدرسہ سے ملحقہ مارکیٹس، کتب خانے میں موجود کتابیں جل کر راکھ ہو گئیں۔ اس سب ظلم و بربریت کے مقابلے میں مدرسہ و مسجد میں موجود نہتے طلبا و نمازیوں کی طرف سے کوئی مزاحمت نہیں کی جا سکی۔ علما کے نمائیندہ اجلاس میں سی پی او اور ڈی پی او خود موجود تھے۔ سی پی او نے برملا اس بات کا اعتراف کیا کہ ہماری انتظامیہ کی طرف سے بہت بڑی کوتاہی ہوئی۔ جس کی وجہ سے یہ سانحہ پیش آیا۔ اور سی پی او کا کہنا ہے کہ اسے بھی حملہ آور دہشت گردوں نے زودوکوب کیا۔ سی پی او نے حلفا اقرار کیا کہ دارالعلوم تعلیم القرآن کی طرف سے کوئی مزاحمت نہیں ہوئی۔ اور ان کے پاس ایک پسٹل تک بھی نہیں تھا۔ سی پی او کے اس بیان کو ریکارڈ کر لیا گیا۔ یہ اجلاس تین بجے تک جاری رہا اور پھر اس کے بعد علما کے وفد نے جامعہ تعلیم القرآن کی طرف جانے کی کوشش کی جسے سٹی صدر روڈ پر موجود فوج نے روک دیا اور اندھا دھند فائرنگ کر کے علما و طلبا کے وفد کو منتشر کر دیا۔ خیال رہے کہ کرفیو کے تفاذ کے بعد اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ سانحہ لال مسجد کی طرح اس سانحے کی ثبوت بھی مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
سانحے کے بعد علاقہ مکینوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ سانحے کے رد عمل کے طور پر کچھ لوگوں نے انفرادی طور پر غم و غصہ کا اظہار کیا جس کے نتیجے میں شیعی املاک کے نقصان کی بھی اطلاعات ہیں۔
آج شام پاکستان بھر سے علما کی نمائندہ قیادت کا اجلاس جاری ہے۔ جس میں وفاق المدارس العربیہ کے جنرل سیکٹری قاری حفیظ جالندھری صاحب، جماعت اہلسنت کے امیر مولانا محمد احمد لدھیانوی، مولانا معاویہ اعظم، وفاقی وزیر سردار مہتاب خان جمیعت علمائے اسلام اور دیگر علما کرام شامل ہیں۔
مولانا اشرف علی صاحب اور مفتی امان اللہ صاحب نے اصل واقعہ کی تفصیلات بتائیں۔
ہر سال ماتمی جلوس عصر کے وقت نکالا جاتا رہا، لیکن اس سال ایک منظم منصوبے کے تحت ماتمی جلوس دن ۲ بجے سے پہلے جامعہ تعلیم القرآن پہنچ گیا۔ جلوس کی طرف سے تبرا اور پتھراو کے بعد جب مسجد سے انہیں روکنے کی کوشش کی گئی تو ڈیوٹی پر مامور ایس ایچ او نے جلوس کو روکنے کے بجائے مسجد میں آکر سپیکر بند کرنے کا کہا۔ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اور امن بحال کرنے کے لیے سپیکر بند کرنے کے باوجود ایس ایچ او کی موجودگی میں ماتمی جلوس میں موجود دہشت گردوں نے پولیس سے اسلحہ چھین لیا [بعض اطلاعات کے مطابق پولیس نے خود رضاکارانہ طور پر اسلحہ ماتمی دہشت گردوں کے حوالے کیا] اور نمازیوں پر فاِرنگ شروع کر دی۔ مسجد میں گھسنے سے پہلے مسجد کے چوکیدار کو مزاحمت کرنے پر ذبح کر دیا گیا۔ مدرسے کو آگ لگا دی گئی اور طلبا کو شدید تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے بعض طلبا کی گردنییں کاٹی گئیں اور بعض کی زبانیں کاٹی گئیں۔ طلبا کو سڑکوں پر گھسیٹتے ہوئے انہیں ڈنڈوں، چھریوں اور کدالوں سے پیٹا گیا۔ مسجد و مدرسہ کی عمارت کو شدید نقصان پہنچا۔ مدرسہ سے ملحقہ مارکیٹس، کتب خانے میں موجود کتابیں جل کر راکھ ہو گئیں۔ اس سب ظلم و بربریت کے مقابلے میں مدرسہ و مسجد میں موجود نہتے طلبا و نمازیوں کی طرف سے کوئی مزاحمت نہیں کی جا سکی۔ علما کے نمائیندہ اجلاس میں سی پی او اور ڈی پی او خود موجود تھے۔ سی پی او نے برملا اس بات کا اعتراف کیا کہ ہماری انتظامیہ کی طرف سے بہت بڑی کوتاہی ہوئی۔ جس کی وجہ سے یہ سانحہ پیش آیا۔ اور سی پی او کا کہنا ہے کہ اسے بھی حملہ آور دہشت گردوں نے زودوکوب کیا۔ سی پی او نے حلفا اقرار کیا کہ دارالعلوم تعلیم القرآن کی طرف سے کوئی مزاحمت نہیں ہوئی۔ اور ان کے پاس ایک پسٹل تک بھی نہیں تھا۔ سی پی او کے اس بیان کو ریکارڈ کر لیا گیا۔ یہ اجلاس تین بجے تک جاری رہا اور پھر اس کے بعد علما کے وفد نے جامعہ تعلیم القرآن کی طرف جانے کی کوشش کی جسے سٹی صدر روڈ پر موجود فوج نے روک دیا اور اندھا دھند فائرنگ کر کے علما و طلبا کے وفد کو منتشر کر دیا۔ خیال رہے کہ کرفیو کے تفاذ کے بعد اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ سانحہ لال مسجد کی طرح اس سانحے کی ثبوت بھی مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
سانحے کے بعد علاقہ مکینوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ سانحے کے رد عمل کے طور پر کچھ لوگوں نے انفرادی طور پر غم و غصہ کا اظہار کیا جس کے نتیجے میں شیعی املاک کے نقصان کی بھی اطلاعات ہیں۔
آج شام پاکستان بھر سے علما کی نمائندہ قیادت کا اجلاس جاری ہے۔ جس میں وفاق المدارس العربیہ کے جنرل سیکٹری قاری حفیظ جالندھری صاحب، جماعت اہلسنت کے امیر مولانا محمد احمد لدھیانوی، مولانا معاویہ اعظم، وفاقی وزیر سردار مہتاب خان جمیعت علمائے اسلام اور دیگر علما کرام شامل ہیں۔