بسم اللہ الرحمن الرحیم
بریلوی ملاں اور مفتی، احمد یار گجراتی لکھتے ہیں کہ خنزیر کو اللہ تعالی نے حرام فرمایا اور کتے پلے حضور ﷺ کیلئے رکھ چھوڑے تاکہ وہ اس کو حرام فرماویں اصل عبارت ملاحظہ ہو:
رب کی مرضی یہ تھی کہ سور کا گوشت میں حرام کروں اور اس کے باقی اجزاء(پوست،مغز ،گردہ ،منہ۔۔از ناقل)میرے حبيب حرام فرماویں ،جیسے اس نے صرف سور کو حرام کیا اور باقی کتا،پلااس کے حبيب نے (حرام کیا۔۔از ناقل)۔ نور العرفان ص32
شريعت کے مسائل میں کیا خدا اور رسول ﷺ ایک دوسرے کے قسیم ہیں۔۔؟؟جن میں تقسیم کار جاری ہوئی یا اللہ کے رسول اللہ کے ماتحت ہوتے ہیں ؟؟؟۔پھر رضاخانیوں نے اگر حضور ﷺ کو خدا کے مقابل ہی رکھنا تھا تو آپ ﷺ کی کارکردگی کیلئے انھوں نے کتے اور پلے ہی منتخب کرنے تھے؟۔
رضاخانیوں شرم کرو اور اپنے گریبان میں منہ ڈال کر سوچو کہ اتنی بے ادبيوں پر اور گستاخیوں کے ساتھ میدان محشر میں حضور ﷺ کو کیا منہ دکھاؤگے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟۔
کیا رضاخانی ملاں کو کتے اور پلے کے سوا کسی اور چیز کا نام ہی یاد نہ تھا جس کیلئے وہ پیغمبر ﷺ کو منتخب کررہے تھے اور جس انداز سے رضاخانی ملاں نے حضور ﷺ کو ذکر کیا ہے کیا یہ حضور ﷺ کی شان میں کھلی گستاخی نہیں؟کیا امام الانبياء ﷺ دنيا میں کتے اور پلے حرام کرنے آئے تھے ؟؟۔(معاذ اللہ)۔
اہل سنت والجماعت علمائے دیوبند کا عقیدہ ہے کہ جو چیز بھی مومنوں کیلئے حلا ل ہوئی وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہوئی ہے اور جو چیز بھی حرام ہوئی ہے وہ بھی اللہ تعالی ہی نے حرام کی ہے ،اور اس پر قرآن شاہد ہے کہ حضور ﷺ کے اختيار میں تحلیل و تحريم نہ تھا مگر رضاخانی مذہب کی بنياد ہی گمراہی کی تعلیم دینا ہے اور اس پر دعوی عاشق رسول ﷺ ہونے کا افسوس۔
Post a Comment