علمائے دیوبند کے مسلک ومزاج کی خصوصیت: اعتدال
تحریر :شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم الله خان مدظلہ
برصغیر میں اسلامی تاریخ کے عروج وزوال کی داستان بہت طویل ہے ، یہاں صدیوں تک مسلمان بادشاہوں کی حکم رانی رہی او رہند کے تمام خطوں میں اسلامی تہذیب وثقافت اور اسلامی حکومت وقیادت کا جھنڈا لہراتا رہا ، دوسری قوموں اور دوسرے مذاہب کی حیثیت یہاں ثانوی درجے کی ضرور رہی، لیکن قیادت وسیادت اور حکومت وسلطنت کی باگ ڈور مسلمانوں کے ہاتھ میں رہی ، یہاں تک کہ تجارت کی غرض سے برصغیر میں داخل ہونے والے انگریزوں نے اپنے وسائل او راپنی مکاری وعیاری سے طویل جدوجہد کے بعد یہاں قبضہ کر لیا اور برصغیر کے مزاج زندگی او رنظام تعلیم وتربیت کو بدلنے او راسے انگریزی اور فرنگی سانچے میں ڈھالنے کے لیے ٹھوس اور طویل المیعاد منصوبہ بندی کی ، یہ برصغیر میں اسلامی تہذیب وثقافت، اسلامی تعلیم وتربیت او رمسلمانوں کے امتیازی تشخص کو مٹانے او رختم کرنے او رمسلمانوں کی نئی نسل کو فرنگی مزاج میں رنگنے کا سوچا سمجھا خطرناک منصوبہ تھا، تب الله کے چند نیک او رمخلص بندوں نے” دیوبند“ نامی بستی میں دفاعی لائحہ عمل کے طور پر ہند میں اسلامی تشخص اور اسلامی نظام تعلیم وتربیت کو برقرار رکھنے کے لیے بے سروسامانی کے عالم میں خالص الله پر توکل کرتے ہوئے ایک ” دینی مدرسہ“ کی بنیاد رکھی ، یہ مدرسہ جوانار کے درخت کے نیچے سنہ1268ھ میں ایک استاذ او رایک شاگرد سے شروع ہوا تھا، بعد میں ”ازہر ہند“ دارالعلوم دیوبند کے نام سے جانا او رپہچانا گیا، اس کی شاخیں او را س کے نہج پر قائم ہونے والے مدارس کا پورے برصغیر میں ایک جال بچھتا چلا گیا، فرنگی منصوبہ بندی کے نتائج سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے حفاظتی اور دفاعی جال! … پھر ان مدارس میں تعلیم وتربیت حاصل کرنے اور یہاں کے رنگ میں رنگنے والوں نے برصغیر میں مسلمانوں کے امتیازی تشخص کو برقرار رکھنے کا فریضہ تو انجام دیا ہی، تاہم انہوں نے صرف اس پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ فرنگی ملکوں میں جاکر ان کی تہذیب وکلچر پر یلغار کا اقدام بھی کیا، تب سے ان مدارس کو اغیار اپنی راہ کا کانٹا او راپنی منصوبہ بندی کی کام یابی کے لیے سب سے بڑی روکاٹ سمجھتے ہیں او ربجا سمجھتے ہیں۔دارالعلوم دیوبند او راس عظیم ادارے کی طرف منسوب اکابر علمائے دیوبند کی بہت سی خصوصیات تھیں ،اخلاص وللہیت، دیانت وامانت، اسلامی علوم میں پختگی ومہارت، ان کی ترویج واشاعت،خود داری واستغناء، حق کی حمایت، باطل کی تردید ، اسلاف پر اعتماد ، اتباع سنت، یہ سب صفات ان میں بدرجہ اتم موجود تھیں ، لیکن مجھے آج ان کی جس صفت اور جس خصوصیت کو ذکر کرنا ہے وہ ” اعتدال“ ہے۔ علمائے دیوبند کے مسلک ومزاج میں ”اعتدال“ وہ بنیادی عنصرو خصوصیت ہے جو انہیں افراط وتفریط سے بچا کر ٹھیک اسی راستے تک لے جاتی ہے جو ”ماأنا علیہ وأصحابی“ کا مصداق ہے او رجس پر چلنے والے ” اہل سنت والجماعت“ کہلاتے ہیں، اعتدال کی یہ صفت ان کی زندگی کے ہر ہر شعبے میں جھلکتی ہے۔راہ اعتدال پر چلنے والوں کے لیے ایک مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ افراط والے انہیں تفریط میں مبتلا سمجھتے ہیں اور اہل تفریط انہیں افراط کے زمرے میں شمار کرتے ہیں، علمائے دیوبند کے ساتھ بھی ایسا ہوا اور ہو رہا ہے، مثلاً علمائے دیوبند ، قرآن وحدیث پر ایمان کامل او رعمل صالح کے ساتھ اسلاف پر بھرپور اعتماد کرتے ہیں اور قرآن وحدیث کی تشریح میں اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانے کے بجائے ان کے اقوال وتشریحات کو مرکزی حیثیت دیتے ہیں، لیکن اس اعتماد اور عقیدت میں وہ اس قدر غلو نہیں کرتے کہ وہ شخصیت پرستی یا عبادت کے رتبے کو چھولے، بلکہ یہ اعتماد اور عقیدت، فرق مراتب کو ملحوظ رکھ کر ،اعتدال کی حدود کے اندر ہی اندر رہتی ہے۔افراط تفریط میں مبتلا دونوں فریقوں نے علمائے دیوبند کے خلاف پروپیگنڈہ کیا، افراط والوں نے انہیں اہل تفریط میں شمار کیا او رتفریط والوں نے ان پر افراط کا الزام لگایا، چناں چہ ” حسام الحرمین“ نامی ایک کتاب لکھی گئی جس میں علمائے دیوبند پر گستاخ رسول ہونے کا الزام عائد کیا گیا اور پروپیگنڈہ کیا گیا کہ یہ لوگ اولیاء الله کو نہیں مانتے، ان کے دلوں میں اولیا کے لیے عقیدت واحترام کے جذبات نہیں ہیں ۔ اس کے بالکل برعکس ایک دوسرے فریق کی طرف سے علمائے دیوبند کے خلاف کتابوں کا سلسلہ چل نکلا، جن میں باور کرایا گیا کہ یہ قبر پرست اور اسلاف واکابر کی شخصیت پرستی میں مبتلا جماعت ہے، ” الدیوبندیہ…“ نامی کتاب اسی پروپیگنڈہ پر مشتمل ہے ، لیکن الحمدلله! علمائے دیوبند ادھر ہیں ، نہ ادھر، نہ گستاخی کے مرتکب ہیں، نہ شخصیت پرستی میں مبتلا، بلکہ وہ درمیان کی راہ اعتدال کے راہی ہیں۔اسلام کے بنیادی اہداف ومقاصد کے حصول کے لیے طریقہ کاراور لائحہ عمل اختیار کرنے میں بسا اوقات رائے کا اختلاف ہو جاتا ہے ، ایک فریق اپنے تجربات ، اپنی بصیرت اور علم کی روشنی میں ان بنیادی اہداف ومقاصد کے حصول کے لیے جو طریقہ اختیار کرتا ہے ، دوسرا فریق اس طریقہ کو مفید نہیں سمجھتا او راس سے مختلف لائحہ عمل اختیار کرنے کو ترجیح دیتا ہے، رائے کا اس طرح کا اختلاف اکابر علمائے دیوبند میں بھی مختلف مواقع پر ہوا ہے ، عموماً اس طرح کے اختلاف کے موقع پر جادہٴ اعتدال سے دونوں فریق ہٹ جاتے ہیں او رحالت یہ ہو جاتی ہے کہ فریق مخالف کی اچھائی بھی برائی نظر آنے لگتی ہے ، جب کہ دوسری طرف اپنی جماعت کی شرعی قباحتوں کو بھی نظر انداز کرنے کا معمول بن جاتا ہے لیکن آفرین ہے اکابر علمائے دیوبند پر کہ انہوں نے رائے کے شدید اختلاف کے باوجود اعتدال کا دامن کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ہندوستان کے مسلمانوں میں دو نظریے تقسیم ہند سے بہت پہلے سے چلے آرہے تھے، ایک یہ کہ مسلمان اقلیت میں ہیں ، ان کو ہندوستان میں دوسری اقوام کے ساتھ مل کر سیاسی وجدوجہد کرنی چاہیے، ورنہ اکثریت کے خلاف رہ کر کسی سعی و کوشش کا کام یاب وبار آور ہونا بڑا مشکل ہے ، دوسرا نظریہ یہ تھا کہ ہندوایک تنگ نظر قوم ہے ، اس کے ساتھ اتحاد کرکے مسلم قوم کسی مقصد تک نہیں پہنچ سکتی ، اس لیے مسلمانوں کو اپنی جدوجہد الگ او رمستقل کرنی چاہیے ، اکابر علمائے دیوبند ان دونوں نظریوں میں مختلف رہے ، دونوں طرف اکابر بھی تھے اور دلائل بھی تھے ، مقصد دونوں کا ایک تھا، لیکن لائحہ عمل اور طریقہ کار میں رائے اختلاف تھا۔جب آزادی کی تحریک اپنے انجام کے قریب پہنچ رہی تھی ، تو تقسیم ہند کی تحریک نے بھی زور پکڑا، مسلم لیگ نے تقسیم کا پرچم اٹھایا تو حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی ، حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی ، حضرت مولانا قاری محمدطیب مہتمم دارالعلوم دیوبند او ران کے ہم خیال علماء نے تقسیم ملک کی حمایت میں مسلم لیگ کی تائید کی ، جنہیں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کی حمایت وتائید حاصل تھی ۔ دوسری طرف جمعیت علما ہند نے تقسیم ملک کو مسلمانوں کے مستقبل کے لیے ضرر رساں باور کیا، اس لیے انہوں نے تقسیم کی مخالفت کی۔ ان علماء کی قیادت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی اور حضرت مولانا مفتی کفایت الله کر رہے تھے، یہاں سوال پاکستا ن کی مخالفت یا حمایت کا نہیں تھا ، جیسا کہ پروپیگنڈائی شوروغوغا کے ذریعے باور کیا او رکرایا جارہا ہے ۔ بلکہ سوال دراصل یہ تھا کہ آزادی کی کون سی صورت مسلمانوں کے لیے مستقبل میں مفید ، بہتر او رکام یابی کی ضامن ہو گی ؟ اس میں وحی تو کسی پر نازل نہیں ہو رہی تھی ، فیصلہ انسانی سوچ اور رائے ہی کو کرنا تھا اور انسانی رائے میں خطا وصواب دونوں کا احتمال ہوتا ہے۔تقسیم کی حمایت کرنے والے یہ سمجھ رہے تھے کہ مغربی تہذیب سے نجات پانے، مسلمانوں کے اپنے اسلام پر عمل پیرا ہونے او راپنی زندگیوں کو قرآن وسنت کے مطابق ڈھالنے کی واحد صورت یہی ہے کہ ملک کو تقسیم کرکے مسلمانوں کو ایک علیحدہ خطہ زمین دے دیا جائے ، جہاں وہ اپنے دین کو نافذ کرنے او راس پر عمل پیرا ہونے میں آزاد ہوں، تقسیم کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا تھا کہ انگریز سے صرف آزادی حاصل کر واور کچھ نہ کراؤ، اگر اس سے بٹوارہ کرایا گیا تو وہ یقینا مسلمانوں کے حق میں ڈنڈی مارے گا او رپھر ساری زندگی پچھتانا پڑے گا۔ لیکن رائے کے اس شدید اختلاف کے دور میں بھی دونوں طرف کے بزرگوں کے آپس کے اکرام واحترام او رعقیدت ومحبت کے یہ چند واقعات ملاحظہ ہوں:ایک مرتبہ حضرت مدنی رحمہ الله گرفتار ہوئے، حضرت تھانوی رحمہ الله ، اسارت کی خبر سن کر بہت غمگین ہوئے اوراس کا اظہا رکرتے ہوئے فرمایا۔” مجھے خیال نہیں تھا کہ مولانا مدنی سے مجھے اتنی محبت ہے ۔“ حاضرین میں سے کسی نے کہا کہ مولانا مدنی تو اپنی خوشی سے گرفتار ہوئے ہیں تو حضرت تھانوی نے فرمایا ” آپ مجھے اس جملے سے تسلی دینا چاہتے ہیں ، کیا حضرت حسین ، یزید کے مقابلے میں اپنی خوشی سے نہیں گئے تھے؟ مگر آج تک کو ن ایسا شخص ہو گا جس کو اس حادثہ سے رنج نہ ہوا ہو ۔“ (شیخ الاسلام کے حیرت انگیز واقعات، ص:3)ایک بار حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب صاحب رحمة الله علیہ سے حضرت تھانوی رحمہ الله نے فرمایا: ” میں مولانا حسین احمد کو ان کے سیاسی کاموں میں مخلص اورمتدین سمجھتا ہوں ، البتہ مجھے ان سے حجت ( دلیل) کے ساتھ اختلاف ہے، اگر وہ اختلاف رفع ہو جائے تو میں ان کے ماتحت ایک ادنی سپاہی بن کر کام کرنے کے لیے تیار ہوں۔“ (مقدمہ مکتوبات شیخ الاسلام جلد اول ، ص:3,2)ایک اور موقع پر فرمایا:” میں اپنی جماعت میں مفتی کفایت الله صاحب کے حسن تدبرکا اور مولانا حسین احمد صاحب کے جوش عمل کا معتقد ہوں۔“ایک مرتبہ حضرت مولانا خیر محمد صاحب جالندھری رحمہ الله سے فرمایا:” ہمارے اکابر دیوبند کی بفضلہ تعالیٰ کچھ خصوصیات ہوتی ہیں، چنا ں چہ شیخ مدنی کے دو خداداد خصوصی کمال ہیں، جو ان میں بدرجہ اتم موجود ہیں، ایک تو مجاہدہ، جو کسی دوسرے میں اتنا نہیں ہے ، دوسرے تواضع ، چناں چہ سب کچھ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتے۔“ ( حاشیہ مکتوبات شیخ الاسلام جلد دوم، ص:172)ایک مرتبہ فرمایا:” مجھ کو اپنی موت پر بھی فکر تھی کہ بعد میں باطنی دنیا کی خدمت کرنے والا کون ہے ؟ مگر حضرت مدنی کو دیکھ کر تسلی ہو گئی کہ یہ دنیا ان سے زندہ رہے گی ۔“ (حوالہ بالا)سنہ1346ء میں دارالعلوم دیوبند سے حضرت مولانا سید انور شاہ کشمیری رحمہ الله ، مفتی عزیز الرحمن او رمولانا شبیر احمد عثمانی چلے گئے اور دارالعلوم دیوبند شدید بحران کا شکار ہوا ، حضرت تھانوی رحمہ الله اس زمانے میں دارالعلوم دیوبند کے سرپرست بھی تھے او رمجلس شوریٰ کے رکن بھی ، چناں چہ حضرت تھانوی رحمہ الله ہی نے سرپرست کی حیثیت سے اس وقت کے مہتمم اور نائب مہتمم کو مشورہ دیا کہ حضرت مدنی کو دارالعلوم دیوبند کی صدارت تدریس کا عہدہ سنبھالنے کے لیے لایا جائے، چنا ں چہ آپ کے مشورے پر عمل کیا گیا، مجلس شوریٰ نے ایک تجویز منظور کی ، اس میں حضرت مدنی کے لیے بلند کلمات تحریر کیے گئے او ران سے یہ عہدہ سنبھالنے کی درخواست کی گئی ، حضرت مدنی نے کچھ شرطیں پیش کیں، وہ تمام شرطیں حضرت تھانوی او رمجلس شوریٰ نے منظور فرمائی او راس طرح حضرت مدنی نے دارالعلوم دیوبند میں آکر اپنی شان دار اور وقیع تدریسی خدمات کا آغاز فرمایا۔یہ تو حضرت تھانوی رحمہ الله کے چند واقعات تھے، اب دوسری طرف حضرت مدنی رحمہ الله کا ان کے ساتھ احترام وعقیدت کا حال ملاحظہ فرمائیں، ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں:” واقعہ یہ ہے کہ یہ ناکارہ حضرت مولانا ( تھانوی) دامت برکاتہم کا نہایت معتقد او ران کی تعظیم واحترام کو نہایت ضروری سمجھتا ہے ، ان کی قابلیت او رکمالات کے سامنے اتنی بھی نسبت نہیں رکھتا جو کہ طفلِ دبستان کو افلاطون سے ہو سکتی ہے … میں مولانا کو اپنا مقتدیٰ اور اپنے اکابرین میں سمجھتا ہوں ۔“ (مکتوبات شیخ الاسلام، جلد اول، ص:143)حضرت مدنی رحمہ الله ایک اور خط میں تحریر فرماتے ہیں:” حضرت مولانا اشرف علی صاحب دامت برکاتہم سے ہمارا سیاسی اختلاف ہے اور بہت زیادہ اختلاف ہے ، مگر جزئیات اور فروع اوراسلامک لاء جن کو سیاست سے تعلق نہیں ہے ، ان میں ان کا قول قابل اعتماد ہو گا، مولانا موصوف کا اسلامی تفقہ اور علوم وفنون میں تمام عمر مصروف رہنا، ان کی تعلیم دینا، ان میں اعلیٰ سے اعلیٰ ڈگری حاصل کرنا، ان میں بے شمار مفید اورکار آمد تصانیف کرکے علالم اسلامی او رخلائق کو فیض یاب بنانا آفتاب کی طرح دنیا میں روشن ہے اور ہو چکا ہے ۔“ (مکتوبات شیخ الاسلام، جلد اول ، ص:43)ایک مرتبہ حضرت مدنی رحمہ الله کے بھتیجے مولانا سید فرید وحیدی صاحب نے ان سے پوچھا: ” حضرت ! کیا حکیم الامت میں شان مجددیت تھی؟“ حضرت مدنی رحمہ الله نے انتہائی سنجیدگی سے فرمایا:”بے شک وہ مجدد تھے ، انہو ں نے ایسے وقت میں دین کی خدمت کی جب کہ دین کو بہت احتیاج تھی۔“ ( تکملہٴ الاعتدال فی مراتب الرجال، ص:21)مولانا عبدالماجد دریا آبادی مرحوم، حضرت مدنی رحمہ الله علیہ کی خدمت میں بیعت کی نیت سے حاضر ہوئے، حضرت مدنی رحمہ الله خود بیعت کرنے کے بجائے ان کو حضرت تھانوی رحمہ الله کی خدمت میں لے گئے او رانہیں بیعت کرنے کے لیے سفار ش فرمائی، مولانا دریا آبادی نے حضرت تھانوی رحمہ الله کو پوری صورت حال بتائی کہ ” بیعت کے لیے جو بزرگ ہماری نظر میں ہیں ، ان میں نمبراول پر مولانا حسین احمد صاحب ہیں، اب آگے جناب کا جیسا ارشاد ہو “۔ حضرت تھانوی رحمہ الله نے فرمایا:”آپ کا انتخاب بالکل صحیح ہے، میں اس سے بالکل اتفاق کرتا ہوں، آپ مولانا حسین احمد صاحب کے ہاتھ پر بیعت کیجیے۔“حضرت مدنی رحمہ الله نے فرمایا:” لیکن مجھ میں اس کی بالکل اہلیت نہیں او رجناب کے ہوتے ہوئے کسی اور کی طرف رخ کرنے کے کوئی معنی ہی نہیں۔“ حضرت تھانوی رحمہ الله نے فرمایا ” مگر مجھ پر تو آپ کو اعتماد ہے او رمیں شہادت دیتا ہوں کہ آپ میں اہلیت ہے۔“اب آپ اندازہ کریں کہ ان بزرگوں میں شدید سیاسی اختلاف کے باوجود آپس کے احترام وعقیدت، ایک دوسرے کے مرتبے کی پہچان اور حدود کی رعایت کا کیا عالم تھا ، مولانا دریا آبادی صاحب نے دونوں بزرگوں کی ملاقات کا منظر یوں لکھا ہے :” لوگ کہتے تھے کہ ان میں بے لطفی ہے ، ناچاقی ہے، لیکن اس وقت آنکھیں یہ دیکھ رہی تھیں کہ دو دشمن نہیں، بلکہ دو دوست گلے مل رہے ہیں، تعظیم وتکریم مولانا حسین احمد صاحب کی طرف سے توخیر ہوتی ہی، عادت طبعی کی بنا پر بھی اور سن میں چھوٹے ہونے کی بنا پر بھی ، لیکن مشاہدہ یہ ہو رہا تھا کہ ادھر سے بھی آداب رسم وتکریم میں کوئی کمی نہ تھی، لاحول ولا قوة، لوگ بھی کیسی کیسی بے پر کی اڑایا کرتے ہیں اور لوگ بھی کون ؟ عوام کالانعام نہیں، اچھے خاصے پڑھے لکھے، ثقہ راوی ، خود ان دونوں حضرات کے خدام ومریدین، بعض راوی زبانِ قال سے اور بعض زبانِ حال سے۔ الحمدلله کہ دونوں روایتیں غلط نکلیں۔“ (حکیم الامت از دریا آبادی، ص:3)دارالعلوم دیوبند میں مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ الله کی رہائش گاہ کے پاس حضرت مدنی رحمہ الله کے حامی طلبہ نے چند پرچیاں پھینکیں، جن میں نامناسب اور ناشائستہ جملے لکھے گئے تھے،حضرت مدنی رحمہ الله کو جب اس کا علم ہوا تو تمام طلبہ کو مسجد میں جمع کرکے حضرت عثمانی کے مقام ومرتبہ سے انہیں آگاہ کرتے ہوئے خطاب فرمایا اور آخر میں فرمایا: ” جن طلبہ نے یہ پرچیاں پھینکیں، میں اور تو کچھ نہیں کرسکتا، البتہ رات کے آخری حصے میں اٹھ کر ان کے لیے بد دعا کروں گا۔“الله اکبر! اندازہ کیجیے سیاست میں شدید اختلاف کے باوجود حضرت عثمانی کی شان میں گستاخی کرنے سے حضرت مدنی کو کس قدر تکلیف پہنچی، اس سے ان بزرگوں کے مقام ومرتبہ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ہمارے استاذ ومربی حضرت مولانا مسیح الهس خان صاحب رحمہ الله حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ الله کے اکابر خلفاء میں سے تھے ، ہم نے درجہ رابعہ تک ابتدائی کتابیں ان ہی کے پاس پڑھیں اور پھر ان کے مشورے سے دارالعلوم دیوبند گئے اور وہاں دورہٴ حدیث میں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے شرف تلمذ سے بہرہ ور اور سرفراز ہوئے ، حضرت مولانا مسیح الله خان صاحب دورہ حدیث پڑھنے کے لیے دارالعلوم دیوبند جانے کا مشورہ دیا کرتے تھے، کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا:” شیخ مدنی کے ہوتے ہوئے کہیں او رحدیث پڑھنے کا مشورہ میں کیسے دے سکتا ہوں؟“ان واقعات کو ذکر کرنے کا مقصد اختلاف رائے کے موقع پر علمائے دیوبند کے معتدل مسلک ومزاج کو واضح کرنا ہے ، ایسے مواقع پر عموماً ایک دوسرے پر کیچڑاچھالنے ، سب وشتم کرنے، بے جا الزامات لگانے اور پروپیگنڈہ کرنے کا ایک طوفان کھڑا کر دیا جاتا ہے اور دونوں فریق ایک دوسرے کے اکابر کی شان میں گستاخی سے بھی دریغ نہیں کرتے، علمائے دیوبند کا مسلک ومزاج او ران کا ذوق ومشرب اس قسم کی بے راہ روی سے کوسوں دور ہے ، تقسیم ہند کے متعلق اکابر علمائے دیوبند کے اختلاف اوران کے مسلک کو ان چند واقعات کے آئینے میں آپ دیکھ سکتے ہیں ، یہ ان کے اعتدال کی صرف ایک مثال ہے، رائے کے اختلاف کے دوسرے مواقع میں بھی ان کے اعتدال کا یہی عالم رہا ، اب اگر کوئی شخص تقسیم ہند کے وقت دو نظریوں میں سے کسی ایک کا حامی ہے ، لیکن دوسرے نظریے کے اکابر کی عقیدت واحترام اس کے دل میں نہیں ، ایسے شخص کو آپ خالص ”کانگریسی “ یا خالص ” مسلم لیگی“ تو کہہ سکتے ہیں، لیکن حضرت مدنی اور حضرت تھانوی کی طرف انہیں اپنی نسبت کرنے کا کوئی حق نہیں ۔ رائے کے اختلاف کے مواقع پر جو بھی شخص حدود سے تجاوز کرے ، ذاتیات پر اتر آئے او راکابر کی شان میں دریدہ دہنی یا بدگمانی کا شکار ہو ، یقینا ایسا شخص اکابر دیوبند کے معتدل مسلک ومزاج سے ہٹا ہوا ہے او راگر وہ ان کی طرف اپنا انتساب کرتا ہے تو اس معتدل مسلک ومزاج کے مطابق اپنی تربیت کا انتظام واہتمام کرے۔آج جب کہ علمائے دیوبند کی طرف نسبت کرنے والوں میں طریقہ کار کے اختلاف سے کئی سیاسی، جہادی اور سماجی جماعتیں بن گئی ہیں، اس لیے اعتدال کی تربیت کی اشد ضرورت ہے ، مختلف جماعتوں کے ساتھ یہ وابستگی عموماً جذباتی ہوتی ہے اور جذبات کے بہاؤ کو حدود کے اندر رکھنے کے لیے اعتدال کے بہت مضبوط بند کی ضرورت ہوتی ہے۔اس لیے میری مختلف جماعتوں اور تنظیموں سے درد مندانہ گزارش ہے کہ وہ اپنے کارکنوں اور اپنی جماعت سے وابستہ نوجوانوں کو اعتدال کی تربیت دیں ، اسی طرح اہل مدارس، طلبہ کی تربیت کرتے ہوئے، ان میں اعتدال پیدا کرنے کی طرف خاص توجہ دیں کہ اعتدال سے ہٹ کر یا افراط ہے یا تفریط اور وہ دونوں گمراہی کے راستے ہیں، اعتدال ہی اس امت کی خصوصیت بھی ہے او رراہ نجات بھی ۔ ﴿وکذلک جعلنا کم امة وسطا﴾ (اور ہم نے تم کو ایک ایسی جماعت بنا دیا ہے جو نہایت اعتدال پر ہے)۔وصلی الله تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین
Post a Comment