نسخ قرآن کے بارہ میں جمہور اہل سنت کا مسلک
س…مسئلہ یہ ہے کہ مولانا محمد تقی صاحب عثمانی مدظلہ “علوم القرآن” ص:۱۶۴ پر رقم طراز ہیں کہ: “جمہور اہل سنت کا مسلک یہ ہے کہ قرآن کریم میں ایسی آیات موجود ہیں جن کا حکم منسوخ ہوچکا ہے۔ لیکن معتزلہ میں سے ابومسلم اصفہانی کا کہنا یہ ہے کہ قرآن کریم کی کوئی آیت منسوخ نہیں ہوئی بلکہ تمام آیات اب بھی واجب العمل ہیں۔ ابومسلم کی اتباع میں بعض دوسرے حضرات نے بھی یہی رائے ظاہر کی ہے۔ اور ہمارے زمانے کے اکثر تجدد پسند حضرات اسی کے قائل ہیں۔ چنانچہ جن آیتوں میں نسخ معلوم ہوتا ہے یہ حضرات ان کی ایسی تشریح کرتے ہیں جن سے نسخ تسلیم نہ کرنا پڑے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ موقف دلائل کے لحاظ سے کمزور ہے اور اسے اختیار کرنے کے بعد بعض قرآنی آیات کی تفسیر میں ایسی کھینچ تان کرنی پڑتی ہے جو اصولِ تفسیر کے بالکل خلاف ہے۔” یہ تو تھا تقی صاحب کا بیان۔ ادھر حضرت مولانا انور شاہ صاحب کشمیری “فیض الباری” ج:۳ ص:۱۴۷ پر فرماتے ہیں:
“انکرت النسخ راساً وادعیت ان النسخ لم یرد فی القراٰن راساً۔”
آگے اس کی تشریح فرماتے ہیں:
“اعنی بالنسخ کون الاٰیة منسوخة فی جمیع ماحوتہ بحیث لا تبقی معمولة فی جزئیّ من جزئیاتھا فذالک عندی غیر واقع وما من اٰیة منسوخة الا وھی معمولة بوجہ من الوجوہ وجھة من الجھات۔”
(فیض الباری ج:۳ ص:۱۴۷)
برائے کرم یہ بتائیں کہ مولانا محمد انور شاہ صاحب کے بارے میں کیا تاویل کریں گے؟ کیا یہ صریح نسخ کا انکار نہیں ہے؟ واللہ! میرا ان کے بارے میں حسن ظن ہی ہے، صرف اپنے ناقص ذہن کی تشفی چاہتی ہوں۔ نیز ناچیز لڑکیوں کو پڑھاتی ہے تو اس قسم کے مسائل میں توجیہ بہت مشکل ہوتی ہے۔ برائے کرم یہ بتائیں کہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے نزدیک مندرجہ ذیل آیت کی کون سی جزئی پر عمل باقی ہے:
“یٰٓاَیھا الذین اٰمنوا اذا ناجیتم الرسول فقدموا بین یدی نجواکم صدقة، ذالک خیر لکم واطھر، فان لم تجدوا فان الله غفور رحیم۔” (المجادلة:۱۲)
میرے کہنے کا مقصود یہ ہے کہ اِدھر مولانا محمد تقی صاحب کا فرمان ہے کہ بجز معتزلہ یا ان کے ہم مشرب کے کسی نے نسخ کا انکار نہیں کیا، اور اُدھر دیوبند کے جلیل القدر اور چوٹی کے بزرگ یہ فرمائیں:
“ان النسخ لم یرد فی القراٰن راساً۔”
تو توجیہ مجھ جیسی ناقص العقل والدّین کے لئے بہت مشکل ہے، اس الجھن کو حل فرماکر ثوابِ دارین حاصل کریں۔
ج… معتزلہ کے مذہب اور حضرت شاہ صاحب نور اللہ مرقدہ کے مسلک کے درمیان فرق یہ ہے کہ معتزلہ تو نسخ فی القرآن کے سرے سے منکر ہیں۔ جیسا کہ آج کل قادیانی اور نیچری بھی یہی رائے رکھتے ہیں، ان کے نزدیک قرآن کریم میں جو حکم ایک بار نازل کردیا گیا اس کی جگہ پھر کبھی دوسرا حکم نازل نہیں ہوا، حضرت شاہ صاحب دیگر اہل حق کی طرح نسخ فی القرآن کے قائل ہیں، مگر وہ یہ فرماتے ہیں کہ آیاتِ منسوخہ کو جو قرآن کریم میں باقی رکھا گیا اس میں حکمت یہ ہے کہ ان آیات کے مشمولات میں کسی نہ کسی وقت کوئی نہ کوئی جزئی معمول بہ ہوتی ہے، یہ نہیں ہوا کہ کسی آیت کو اس طرح منسوخ کردیا جائے کہ اس کے مشمولات و جزئیات میں سے کوئی فرد کسی حال میں بھی معمول بہ نہ رہے، مثلاً: آیتِ فدیہٴ صوم کا حکم ان لوگوں کے حق میں منسوخ ہے جو روزے کی طاقت رکھتے ہوں، خواہ ان کو روزے میں تکلیف و مشقت برداشت کرنا پڑتی ہو۔ مگر شیخ فانی وغیرہ کے حق میں روزے کا فدیہ اب بھی جائز ہے اور وہ اسی آیت کے تحت مندرج ہے۔ اس لئے یہ آیت اپنے بعض مشمولات کے اعتبار سے تو منسوخ ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ میں اس کی تصریح موجود ہے، لیکن اس کے بعض جزئیات اب بھی زیر عمل ہیں۔ اس لئے یہ بالکلیہ منسوخ نہیں، بلکہ بعض اعتبارات و جزئیات کے اعتبار سے منسوخ ہے۔ اس کی دوسری مثال آیاتِ مناجات ہے:
“یٰٓاَیھا الذین اٰمنوا اذا ناجیتم الرسول․․․الخ۔”
جو آپ نے نقل کی ہے، آیت میں جو حکم دیا گیا ہے وہ پہلے واجب تھا، جسے منسوخ کردیا گیا اور اس کے نسخ کی تصریح اس کے مابعد کی آیت میں موجود ہے۔ مگر اس کا استحباب بعد میں بھی باقی رہا، اس لئے اس آیت میں بھی “نسخ بالکلیہ” نہیں ہوا، بلکہ اپنے بعض مشمولات و جزئیات کے اعتبار سے یہ آیت بعد میں بھی معمول بہا رہی۔
الغرض حضرت شاہ صاحب نور اللہ مرقدہ کے ارشاد: “ان النسخ لم یرد فی القراٰن راساً” کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن کریم میں نازل ہونے کے بعد کبھی کوئی حکم منسوخ نہیں ہوا، جیسا کہ معتزلہ کہتے ہیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کی جو آیات منسوخ ہوئیں ان میں “نسخ من کل الوجوہ” یا “نسخ بالکلیہ” نہیں ہوا کہ ان آیات کے مشمولات و جزئیات میں سے کوئی جزئیہ کسی حال اور کسی صورت میں بھی معمول بہا نہ رہے، بلکہ ایسی آیات میں “نسخ فی الجملہ” ہوا ہے، یعنی یہ آیات اپنے بعض محتویات و مشمولات کے اعتبار سے اگرچہ منسوخ ہیں، مگر ان کے بعض جزئیات و مشمولات بدستور معمول بہا ہیں۔ حضرت شاہ صاحب کے ارشاد کی یہ تشریح خود ان کی اس عبارت سے واضح ہے جو آپ نے نقل کی ہے، چنانچہ فرماتے ہیں:
“ان النسخ لم یرد فی القراٰن راساً، اعنی بالنسخ کون الاٰیة منسوخة فی جمیع ماحوتہ بحیث لا تبقیٰ معمولة فی جزئی من جزئیاتھا۔ فذالک عندی غیر واقع وما من اٰیة منسوخة الا وھی معمولة بوجہ من الوجوہ من الجہات۔”
ترجمہ:…”بے شک قرآن کریم میں نسخ بالکلیہ واقع نہیں ہوا اور اس نسخ بالکلیہ سے میری مراد یہ ہے کہ کوئی آیت اپنے تمام مشمولات کے اعتبار سے منسوخ ہوجائے کہ اس کی جزئیات میں سے کوئی جزئی بھی معمول بہ نہ رہے، ایسا نسخ میرے نزدیک واقع نہیں، بلکہ جو آیت بھی منسوخ ہے وہ کسی نہ کسی وجہ اور کسی نہ کسی جہت سے معمول بہا ہے۔
اس ضمن میں آیتِ فدیہ کی مثال دینے کے بعد فرماتے ہیں:
“وبالجملة جنس الفدیة لم ینسخ بالکلیة فھی باقیة الی الاٰن فی عدة مسائل ولیس لھا ماخذ عندی غیر تلک الاٰیة فدل علیٰ انھا لم تنسخ بمعنی عدم بقاء حکمھا فی محل ونحوہ۔”
ترجمہ:…”خلاصہ یہ ہے کہ جنس فدیہ بالکلیہ منسوخ نہیں ہوا بلکہ فدیہ متعدد مسائل میں اب تک باقی ہے اور ان مسائل میں فدیہ کا مأخذ میرے نزدیک اس آیت کے سوا نہیں، پس اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ آیت بایں معنی منسوخ نہیں ہوئی کہ اس کا حکم کسی محل میں بھی باقی نہ رہا ہو۔”