Home » » حضرت ہارون علیہ السلام کے قول کی تشریح

حضرت ہارون علیہ السلام کے قول کی تشریح


حضرت ہارون علیہ السلام کے قول کی تشریح
س… ایک مولوی صاحب مسجد میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کا واقعہ بیان فرما رہے تھے۔ جس میں حضرت موسیٰ کی دعا قبول ہوئی اور حضرت ہارون پیغمبر بنادئیے گئے، اس کے بعد حضرت موسیٰ خدا سے ہم کلام ہونے کے لئے تشریف لے گئے تو ان کے بعد سامری نے ایک بچھڑا بنایا اور اسے بنی اسرائیل کے سامنے پیش کیا کہ یہی خدا ہے۔ اب بنی اسرائیل میں دو گروہ پیدا ہوگئے، ایک جو بچھڑے کو خدا مانتا تھا اور دوسرا وہ جو اس کی پوجا نہیں کرتا تھا۔ حضرت ہارون انہیں اس سے باز نہ رکھ سکے اور جب حضرت موسیٰواپس تشریف لائے تو وہ حضرت ہارون پر ناراض ہوئے کہ تو نے منع کیوں نہ کیا؟ تو حضرت ہارون نے فرمایا:
ترجمہ:…”اے میری ماں کے بیٹے! نہ پکڑ میری داڑھی اور نہ سر، میں ڈرا کہ تو کہے گا کہ پھوٹ ڈال دی تو نے بنی اسرائیل میں اور یاد نہ رکھا میری بات کو۔”
مولوی صاحب نے اس کے بعد لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: “لوگو! دیکھا تم نے تفرقہ کتنی بری چیز ہے کہ ایک پیغمبر نے وقتی طور پر شرک کو قبول کرلیا، لیکن تفرقے کو قبول نہ کیا۔” کیا مولوی کی یہ تشریح صحیح ہے؟
ج… مولوی صاحب نے حضرت ہارون علیہ السلام کے ارشاد کا صحیح مدعا نہیں سمجھا، اس لئے نتیجہ بھی صحیح اخذ نہیں کیا۔ حضرت ہارون علیہ السلام کا توقف کرنا اور گوسالہ پرستوں کے خلاف کوئی کاروائی نہ کرنا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے انتظار میں تھا، موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر جاتے وقت ان کو نصیحت کر گئے تھے کہ قوم کو متفق اور متحد رکھنا اور کسی ایسی بات سے احتراز کرنا جو قوم میں تفرقہ کا موجب ہو۔ حضرت ہارون علیہ السلام کو توقع تھی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی واپسی پر قوم کی اصلاح ہوجائے گی اور اگر ان کی غیرحاضری میں ان لوگوں سے قتل و قتال یا مقاطعہ کی کاروائی کی گئی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی اصلاح ناممکن ہوجائے کیونکہ وہ لوگ بھی کہہ چکے تھے کہ موسیٰ علیہ السلام کی واپسی تک ہم اس سے باز نہیں آئیں گے۔ اس لئے حضرت ہارون علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی واپسی تک ان لوگوں کے خلاف کوئی کاروائی کرنا مناسب نہ سمجھا بلکہ صرف زبانی فہمائش پر اکتفا کیا۔ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب “معارف القرآن” میں لکھتے ہیں:
“اس واقعہ میں حضرت موسیٰ کی رائے ازروئے اجتہاد یہ تھی کہ اس حالت میں حضرت ہارون علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو اس مشرک قوم کے ساتھ نہیں رہنا چاہئے تھا، ان کو چھوڑ کر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آجاتے، جس سے ان کے عمل میں مکمل بیزاری کا اظہار ہوجاتا۔
حضرت ہارون علیہ السلام کی رائے از روئے اجتہاد یہ تھی کہ اگر ایسا کیا گیا تو ہمیشہ کے لئے بنی اسرائیل کے ٹکڑے ہوجائیں گے اور تفرقہ قائم ہوجائے گا اور چونکہ ان کی اصلاح کا یہ احتمال موجود تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی واپسی کے بعد ان کے اثر سے یہ سب پھر ایمان اور توحید کی طرف لوٹ آویں، اس لئے کچھ دنوں کے لئے ان کے ساتھ مساھلت اور مساکنت کو ان کی اصلاح کی توقع تک گوارا کیا جائے، دونوں کا مقصد اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل، ایمان و توحید پر لوگوں کو قائم کرنا تھا، مگر ایک نے مفارقت اور مقاطعہ کو اس کی تدبیر سمجھا، دوسرے نے اصلاحِ حال کی امید تک ان کے ساتھ مساھلت اور نرمی کے معاملہ کو اس مقصد کے لئے نافع سمجھا۔” (ج:۶ ص:۱۴۲)
Share this article :
 

Copyright © 2011. Al Asir Channel Urdu Islamic Websites Tarjuman Maslak e Deoband - All Rights Reserved
Template Created by piscean Solutions Published by AL Asir Channel
Proudly powered by AL Asir Channel