Home » » صراطِ مستقیم سے کیا مراد ہے

صراطِ مستقیم سے کیا مراد ہے


صراطِ مستقیم سے کیا مراد ہے؟
س… اکثر بزرگوں نے صراطِ مستقیم کو صرف مسجد تک محدود رکھا، نیک کام صرف روزہ، زکوٰة اور نماز کو قرار دیا، جو شخص نماز نہیں پڑھتا اس کو کافر کہنا کیا درست ہے؟ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کو کافر قرار دینا کیا صحیح ہے؟ نماز فرض ہے، فرض کریں اگر کوئی شخص دریا میں ڈوب رہا ہے اور چیخ چیخ کر بچاوٴ بچاوٴ پکار رہا ہے اور یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کو بچالیں اور ایک فرض نماز ہے اگر دو منٹ ہم نے صرف کر دئیے تو قضا ہوجائے گی، کیا ہم ایسے میں مصلیٰ بچھاکر دریا کے کنارے نماز ادا کریں گے؟ یا اس ڈوبتے ہوئے انسان کی زندگی بچائیں گے؟
خداوند کریم نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ، ترجمہ … دکھا ہم کو سیدھا راستہ، یہ سورہٴ فاتحہ میں آیا ہے، جسے الحمد شریف کہا جاتا ہے، جو ہر ایک نماز میں پڑھی جاتی ہے، جس کے نہ پڑھنے سے نماز نامکمل ہوتی ہے جسے ہم ہر نماز میں پانچ وقت پڑھتے ہیں کہ دکھا ہم کو سیدھا راستہ، کیا ہم غلط راستے پر ہیں؟ اگر نہیں تو ہم کون سا صحیح راستہ مانگ رہے ہیں؟ اس کا مطلب ہے کہ صراطِ مستقیم کوئی اور ہے، سیدھی راہ کوئی اور ہے جو جنت کی طرف جاتی ہے؟ کیا ہم اس راہ پر چل رہے ہیں جو صرف مسجد تک جاتی ہے؟
براہ کرم آپ ہمیں وہ طور اور طریقے بتائیں جن پر عمل کرکے ہم سیدھے راستے یعنی صراطِ مستقیم پر چل سکتے ہیں۔
ج… قرآن کریم نے جہاں ہمیں یہ دعا سکھائی ہے: “دکھا ہمیں سیدھا راستہ”، وہیں اس سیدھی راہ کی یہ کہہ کر وضاحت بھی کردی ہے: “راہ ان لوگوں کی کہ انعام فرمایا آپ نے ان پر، نہ ان پر غضب ہوا اور نہ وہ گمراہ ہوئے۔”
اس سے معلوم ہوا کہ صراطِ مستقیم نام ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام اور بزرگانِ دین کے راستہ کا، اسی صراطِ مستقیم کا مختصر عنوان اسلام ہے اور قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک ارشادات اسی کی تشریح کرتے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے پاکر جتنے اعمال امت کو بتائے ہیں اور جس جس وقت کے لئے جو جو عمل بتایا، اپنے اپنے درجہ کے مطابق ان سب کا بجالانا ضروری ہے، اور ان میں سے کسی ایک کو بھی معمولی اور حقیر سمجھنا درست نہیں، اگر ایک ہی وقت میں کئی عمل جمع ہوجائیں تو ہمیں یہ اصول بھی بتادیا گیا ہے کہ کس کو مقدم کیا جائے گا اور کس کو موٴخر؟ مثلاً: آپ نے جو مثال لکھی ہے ایک شخص ڈوب رہا ہے تو اس وقت اس کو بچانا پہلا فرض ہے، اسی طرح اگر کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو اور اس کے سامنے کوئی نابینا آدمی کنویں یا کسی گڑھے میں گرنے لگے تو نماز کو توڑ کر اس کی جان بچانا فرض ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ صراطِ مستقیم مسجد تک محدود نہیں اور وہ شخص احمق ہے جو اسلام کو مسجد تک محدود سمجھتا ہے، لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ مسجد والے اعمال ایک زائد اور فالتو چیز ہیں، بلاشبہ اسلام صرف نماز، روزے اور حج و زکوٰة کا نام نہیں، لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ یہ چیزیں غیرضروری ہیں، نہیں! بلکہ یہ اسلام کے اعلیٰ ترین شعائر اور اس کی سب سے نمایاں علامتیں ہیں، جو شخص دعویٴ مسلمانی کے ساتھ نماز اور روزے کا بوجھ نہیں اٹھاتا اس کے قدم “صراطِ مستقیم” کی ابتدائی سیڑھیوں پر بھی نہیں، کجا کہ اسے صراطِ مستقیم پر قرار و ثبات نصیب ہوتا۔
رہی یہ بات کہ جب ہم صراطِ مستقیم پر قائم ہیں تو پھر اس کی دعا کیوں کی جاتی ہے کہ: “دکھا ہم کو سیدھی راہ”، اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں دو چیزیں الگ الگ ہیں۔ ایک ہے صراطِ مستقیم پر قائم ہوجانا اور دوسری چیز ہے صراطِ مستقیم پر قائم رہنا۔ یہ دونوں باتیں بالکل جدا جدا ہیں، بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص آج صراطِ مستقیم پر ہے لیکن خدانخواستہ کل اس کا قدم صراطِ مستقیم سے پھسل جاتا ہے اور وہ گمراہی کے گڑھے میں گر جاتا ہے۔ قرآن کریم کی تلقین کردہ دعا “اھدنا الصراط المستقیم” حال اور مستقبل دونوں کو جامع ہے اور مطلب یہ ہے کہ چونکہ آئندہ کا کوئی بھروسہ نہیں، اس لئے آئندہ کے لئے صراطِ مستقیم پر قائم رہنے کی دعا کی جاتی ہے کہ: “اے اللہ! جس طرح آپ نے محض اپنے لطف و کرم سے ہمیں اپنے مقبول بندوں کے راستہ صراطِ مستقیم پر ڈال دیا ہے، آئندہ بھی ہمیں مرتے دم تک اسی پر قائم رکھئے۔”
آپ نے دریافت کیا ہے کہ جو شخص نماز نہیں پڑھتا اس کو کافر کہنا کیا درست ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جو شخص نماز نہیں پڑھتا لیکن وہ نماز کی فرضیت کا قائل ہو اور یہ سمجھتا ہو کہ میں اس اعلیٰ ترین فریضہٴ خداوندی کو ترک کرکے بہت بڑے گناہ کا مرتکب ہو رہا ہوں اور میں قصور وار اور مجرم ہوں، ایسے شخص کو کافر نہیں کہا جائے گا اور نہ اسے کوئی کافر کہنے کی جرأت کرتا ہے۔
لیکن یہ شخص اگر نماز کو فرض ہی نہ سمجھتا ہو اور نہ نماز کے چھوڑنے کو وہ کوئی گناہ اور جرم سمجھتا ہو، تو آپ ہی فرمائیے کہ اس کو مسلمان کون کہے گا؟ کیونکہ اس کو مسلمان سمجھنے کے معنی یہ ہیں کہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مسلمانوں پر نماز فرض ہونا ذکر فرمایا ہے، وہ نعوذ باللہ! غلط ہے، کیا خدا اور رسول کی بات کو غلط کہہ کر بھی کوئی شخص مسلمان رہ سکتا ہے․․․؟
آپ نے دریافت فرمایا ہے کہ کیا ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کو کافر کہنا صحیح ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہرگز صحیح نہیں، بلکہ گناہِ کبیرہ ہے، مگر یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ مسلمان کون ہوتا ہے؟
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ سے پاکر جو دین امت کو دیا ہے، اس پورے کے پورے دین کو اور اس کی ایک ایک بات کو ماننا اسلام ہے، اور ماننے والے کو مسلمان کہتے ہیں اور دینِ اسلام کی جو باتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں ان میں سے کسی ایک بات کو نہ ماننا یا اس میں شک و تردد کا اظہار کرنا کفر کہلاتا ہے۔ پس جو شخص دینِ اسلام کی کسی قطعی اور یقینی بات کو جھٹلاتا ہے یا اس کا مذاق اڑاتا ہے وہ مسلمان نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے پورے دین کو ماننے کا مختصر عنوان کلمہ طیبہ “لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ” ہے۔ مسلمان یہ کلمہ پڑھ کر خدا تعالیٰ کی توحید اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت کا اقرار کرتا ہے، اور اس اقرار کے یہی معنی ہیں کہ وہ خدا کے ہر حکم کو مانے گا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر فرمان کو خدا کا فرمان سمجھے گا، اس کلمہ طیبہ کے پڑھ لینے کے باوجود جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات کو نعوذ باللہ! غلط کہتا ہے وہ اپنے اس اقرار میں قطعاً جھوٹا ہے، اس لئے ایسے شخص کو مسلمان کہنا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ نہ کسی مسلمان کو کافر کہنے کی اجازت ہے اور نہ کسی بے ایمان کافر کو مسلمان کہنے کی گنجائش ہے۔ قرآن کریم میں ہے:
ترجمہ:…”اے نبی! کہہ دیجئے کہ حق تمہارے رب کی طرف سے آچکا، اب جس کا جی چاہے (اس حق کو مان کر) موٴمن بنے اور جس کا جی چاہے (اس کا انکار کردے) کافر بنے۔ (مگر یہ یاد رکھے کہ) بے شک ہم نے (ایسے) ظالموں کے لئے (جو حق کا انکار کرتے ہیں) آگ تیار کر رکھی ہے۔”
(الکہف:۲۹)
Share this article :
 

Copyright © 2011. Al Asir Channel Urdu Islamic Websites Tarjuman Maslak e Deoband - All Rights Reserved
Template Created by piscean Solutions Published by AL Asir Channel
Proudly powered by AL Asir Channel