نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک
س… نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک کیسا تھا؟ اور آپ کے لباس اور بالوں کے متعلق تفصیل سے بیان فرمائیں۔
ج… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارک شمائل ترمذی میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منقول ہے، اس کو “خصائل نبوی” سے نقل کیا جاتا ہے۔
“ابراہیم بن محمد، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے ہیں (یعنی پوتے ہیں)، وہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارک کا بیان فرماتے تو کہا کرتے تھے کہ: حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نہ زیادہ لانبے تھے، نہ زیادہ پستہ قد، بلکہ میانہ قد لوگوں میں تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک نہ بالکل پیچ دار تھے نہ بالکل سیدھے تھے، بلکہ تھوڑی سی پیچیدگی لئے ہوئے تھے۔ نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم موٹے بدن کے تھے، نہ گول چہرہ کے، البتہ تھوڑی سی گولائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک میں تھی، یعنی (چہرہٴ انور بالکل گول نہ تھا، نہ بالکل لانبا بلکہ دونوں کے درمیان تھا) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ سفید سرخی مائل تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک آنکھیں نہایت سیاہ تھیں اور پلکیں دراز، بدن کے جوڑوں کے ملنے کی ہڈیاں موٹی تھیں (مثلاً: کہنیاں اور گھٹنے)، اور ایسے ہی دونوں مونڈھوں کے درمیان کی جگہ بھی موٹی اور پُرگوشت تھی۔ آپ کے بدنِ مبارک پر (معمولی طور سے زائد) بال نہیں تھے (یعنی بعض آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے بدن پر بال زیادہ ہوجاتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بدنِ مبارک پر خاص خاص جگہوں کے علاوہ جیسے بازو، پنڈلیاں، وغیرہ ان کے علاوہ اور کہیں بال نہیں تھے)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ مبارک سے ناف تک بالوں کی لکیر تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اور قدم مبارک پُرگوشت تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے چلتے تو قدموں کو قوت سے اٹھاتے گویا کہ پستی کی طرف چل رہے ہیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی طرف توجہ فرماتے تو پورے بدنِ مبارک کے ساتھ توجہ فرماتے (یعنی یہ کہ گردن پھیر کر کسی کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے، اس لئے کہ اس طرح دوسرے کے ساتھ لاپرواہی ظاہر ہوتی ہے، اور بعض اوقات متکبرانہ حالت ہوجاتی ہے، بلکہ سینہ مبارک سمیت اس طرف توجہ فرماتے۔ بعض علماء نے اس کا مطلب یہ بھی فرمایا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم توجہ فرماتے تو تمام چہرہ مبارک سے فرماتے، کن انکھیوں سے نہیں ملاحظہ فرماتے تھے، مگر یہ مطلب اچھا نہیں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں مبارک شانوں کے درمیان مہرِ نبوت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ختم کرنے والے تھے نبیوں کے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ سخی دل والے تھے اور سب سے زیادہ سچی زبان والے، سب سے زیادہ نرم طبیعت والے تھے اور سب سے زیادہ شریف گھرانے والے تھے (غرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم دل و زبان، طبیعت، خاندان، اوصافِ ذاتی اور نسبی ہر چیز میں سب سے افضل تھے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو شخص یکایک دیکھتا مرعوب ہوجاتا تھا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وقار اس قدر زیادہ تھا کہ اول وہلہ میں دیکھنے والا رعب کی وجہ سے ہیبت میں آجاتا تھا، اول تو جمال و خوبصورتی کے لئے بھی رعب ہوتا ہے:
شوق افزوں مانع عرض تمنا داب حسن
بارہا دل نے اٹھائے ایسی لذت کے مزے
اس کے ساتھ جب کمالات کا اضافہ ہو تو پھر رعب کا کیا پوچھنا! اس کے علاوہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو جو مخصوص چیزیں عطا ہوئیں، ان میں رعب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا گیا)۔ البتہ جو شخص پہچان کر میل جول کرتا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ کریمانہ و اوصاف کا گھائل ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب بنالیتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ بیان کرنے والا صرف یہ کہہ سکتا ہے کہ: میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا باجمال و باکمال نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے دیکھا، نہ بعد میں دیکھا (صلی اللہ علیہ وسلم)۔”
a:…اور لباس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معمول مبارک کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ لباس میں اکثر سوتی کرتا زیب تن فرماتے تھے، جس کی آستینیں عموماً گٹوں تک اور لمبائی آدھی پنڈلی تک ہوتی تھی۔ ایک بار رومی ساخت کا جبہ بھی، جس کی آستینیں آگے سے تنگ تھیں، استعمال فرمایا۔ سفید لباس کو پسند فرماتے تھے اور اس کی ترغیب دیتے تھے، اکثر لنگی استعمال فرماتے تھے، یمانی چادروں کو پسند فرماتے تھے، شلوار کا خریدنا اور پسند فرمانا ثابت ہے، مگر پہننا ثابت نہیں۔ سبز چادریں بھی استعمال فرمائیں، گاہے سرخ دھاریوں والی دو چادریں بھی استعمال فرمائیں، بالوں کی بنی ہوئی سیاہ چادر (کالی کملی) بھی استعمال فرمائی، سر مبارک پر کپڑے کی کلاہ اور اس کے اوپر دستار پہننے کا معمول تھا۔
a:…سر مبارک پر پٹے رکھنے کا معمول تھا، جو اکثر و بیشتر نرمہ گوش (کانوں کی لو) تک ہوتے اور کبھی کم و بیش بھی ہوتے تھے۔ حج و عمرہ کا احرام کھولنے کے موقع پر سر کے بال استرے سے صاف کرادئیے جاتے اور موئے مبارک رفقاء و احباب میں تقسیم فرمادئیے جاتے، صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین!
نعلین شریفین رنگے ہوئے چمڑے کے ہوتے تھے، جن میں دو تسمے ہوا کرتے تھے