شوہر کو لبیں تراشنے پر برا کہنے سے سنت کے استخفاف کا جرم ہوا جو کفر ہے
س… ایک شخص نے سنت کے مطابق اپنی لبیں تراش لیں، اس کی بیوی نے دیکھ کر کہا کہ: “یہ کیا منحوسوں والی شکل بنالی ہے؟” اور دوسرے موقع پر کہا کہ: “کیا یہ آدمیوں والی شکل ہے؟” اس شخص کو کسی نے بتایا کہ یہ کلمہ کفر ہے اور اس سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے، لہٰذا اس کو شبہ ہوگیا ہے کہ اس کا نکاح باقی ہے یا نہیں؟ از روئے شرع شریف اس کا حکم بیان فرمایا جائے کہ اس شخص کو کیا کرنا چاہئے؟
ج… اس سوال میں چند امور قابل غور ہیں:
اول:…لبیں تراشنا انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو اس کا تاکیدی حکم فرمایا ہے اور مونچھیں بڑھانے کو مجوس اور مشرکین کا شعار قرار دیا ہے، اور جو شخص مونچھیں بڑھائے اور لبیں نہ تراشے اس کو اپنی امت سے خارج قرار دیا ہے۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل روایات سے واضح ہے:
“عن عائشة رضی الله عنہا قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: عشر من الفطرة، قص الشارب واعفاء اللحیة ․․․․․ الحدیث۔”
(صحیح مسلم ج:۱ ص:۱۲۹، ابوداوٴد، ترمذی، نسائی ج:۲ ص:۲۷۴ وفی روایة: “عشرة من السنّة ․․․․ الخ۔” نسائی ج:۲ ص:۲۷۴)
ترجمہ:…”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دس چیزیں فطرت میں داخل ہیں۔ مونچھیں تراشنا اور داڑھی بڑھانا ․․․․․ الخ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ: “دس چیزیں سنت میں سے ہیں۔ مسواک کرنا، لبیں تراشنا، داڑھی بڑھانا ․․․․․ الخ۔”
“قال الخطابی فسر اکثر العلماء الفطرة فی الحدیث بالسنة (قلت کما فی روایة النسائی المذکورة) وتأویلہ ان ھذہ الخصال من سنن الانبیاء الذین امرنا ان نقتدی بہم۔”
(معالم السنن مع مختصر سنن ابی داوٴد ج:۱ ص:۴۲)
ترجمہ:…”امام خطابی فرماتے ہیں کہ اکثر علماء نے اس حدیث میں فطرت کی تفسیر سنت سے کی ہے (اور یہ نسائی کی روایت میں مصرح ہے) جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ باتیں انبیاء کرام علیہم السلام کی سنتوں میں سے ہیں، جن کی اقتدا کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔”
“وفی المرقاة قولہ: “عشر من الفطرة” اي عشر خصال من سنة الانبیاء الذین امرنا ان نقتدی بھم، فکانا فطرنا علیھا۔” (حاشیہ مشکوٰة ص:۴۴)
ترجمہ:…”اور حاشیہ مشکوٰة میں مرقات سے نقل کیا ہے کہ: “دس امور فطرت میں داخل ہیں” اس سے مراد یہ ہے کہ یہ امور انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہیں، جن کی اقتدا کا ہمیں حکم دیا گیا ہے، پس یہ امور گویا ہماری فطرت میں داخل ہیں۔”
“وفی مجمع البحار نقلا عن الکرمانی اي من السنة القدیمة التی اختارھا الانبیاء علیھم السلام واتفقت علیھا الشرائع فکانھا امر جبلی فطروا علیہ، منھا قص الشارب۔ فسبحانہ ما اسخف عقول قوم طولوا الشارب واحفو اللحیٰ عکس ما علیہ الفطرة جمیع الامم قد بدلوا فطرتھم، نعوذ بالله!”
(مجمع البحار ج:۴ ص:۱۵۵ طبع جدید)
ترجمہ:…”اور مجمع البحار میں کرمانی سے نقل کیا ہے کہ ان امور کے فطرت میں داخل ہونے کا یہ مطلب ہے کہ یہ امور اس قدیم سنت میں داخل ہیں جس کو انبیاء کرام علیہم السلام نے اختیار کیا اور تمام شریعتیں ان پر متفق ہیں، پس گویا یہ فطری امور ہیں، جو انسانوں کی فطرت میں داخل ہیں۔ سبحان اللہ! وہ لوگ کس قدر کم عقل ہیں جو تمام امتوں کی فطرت کے برعکس مونچھیں تو بڑھاتے ہیں اور داڑھی کا صفایا کرتے ہیں، ان لوگوں نے اپنی فطرت کو مسخ کرلیا، ہم اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں۔”
“عن ابن عباس رضی الله عنہما قال: کان النبی صلی الله علیہ وسلم یقص او یأخذ من شاربہ وکان ابراھیم خلیل الرحمٰن صلٰوات الرحمٰن علیہ یفعلہ۔رواہ الترمذی۔” (مشکوٰة ص:۳۸۱)
ترجمہ:…”حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لبیں تراشا کرتے تھے اور حضرت ابراہیم خلیل الرحمن علیٰ نبینا وعلیہ السلام بھی یہی کرتے تھے۔”
“عن ابن عمر رضی الله عنہما، قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: خالفوا المشرکین اوفروا اللحیٰ واحفوا الشوارب۔ متفق علیہ۔”
(مشکوٰة ص:۳۸۰)
ترجمہ:…”حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مشرکوں کی مخالفت کرو، داڑھیاں بڑھاوٴ اور مونچھیں صاف کراوٴ۔”
“عن ابی ھریرة رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: جزوا الشوارب وارخوا اللحیٰ خالفوا المجوس۔” (صحیح مسلم ج:۱ ص:۱۲۹)
ترجمہ:…”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مونچھیں کٹاوٴ اور داڑھیاں بڑھاوٴ، مجوسیوں کی مخالفت کرو۔”
“عن زید بن ارقم رضی الله عنہ: ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: من لم یأخذ من شاربہ فلیس منا۔ رواہ احمد والترمذی والنسائی۔”
(مشکوٰة ص:۳۸۱ واسنادہ جید وقال الترمذی: ہذا حدیث حسن صحیح۔ کما فی حاشیة جامع الاصول ج:۴ص:۷۶۵)
ترجمہ:…”حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: جو شخص اپنی لبیں نہ تراشے وہ ہم میں سے نہیں۔”
دوم:…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا مذاق اڑانا یا اس کی تحقیر کرنا کفر ہے۔
“ففی الشامیة نقلا عن المسایرة کفر الحنفیة بالفاظ کثیرة (الیٰ) او استقباحھا کمن استقبح من آخر جعل بعض العمامة تحت حلقہ او احفاء شاربہ۔”
(ج:۴ ص:۲۲۲)
ترجمہ:…”چنانچہ فتاویٰ شامی نے مسایرہ سے نقل کیا ہے کہ: حنفیہ نے بہت سے الفاظ کو کفر قرار دیا ہے، مثلاً: کسی سنت کو برا کہنا جیسے کسی شخص نے عمامہ کا کچھ حصہ حلق کے نیچے کرلیا ہو، کوئی شخص اس کو برا سمجھے یا مونچھیں تراشنے کو برا کہے تو یہ کفر ہے۔”
“وفی البحر: وباستخفافہ بسنة من السنن۔”
(ج:۵ ص:۱۳۰)
ترجمہ:…”اور البحر الرائق میں ہے: اور کسی سنت کی تحقیر کرنے سے آدمی کافر ہوجاتا ہے۔”
“وفی شرح الفقہ الاکبر: ومن الظھیرة: من قال لفقیہ اخذ شاربہ: “ما اعجب قبحا او اشد قبحا قص الشارب ولف طرف العمامة تحت الذقن!” یکفر، لأنہ استخفاف بالعلماء یعنی وھو مستلزم لاستخفاف الانبیاء لان العلماء ورثة الانبیاء، وقص الشارب من سنن الانبیاء فتقبیحہ کفر بلا اختلاف بین العلماء۔”
(ص:۲۱۳)
ترجمہ:…”اور شرح فقہ اکبر میں فتاویٰ ظہیریہ سے نقل کیا ہے کہ: کسی فقیہ نے لبیں تراش لیں، اس کو دیکھ کر کسی نے کہا کہ: “لبیں تراشنا اور ٹھوڑی کے نیچے عمامہ لپیٹنا کتنا برا لگتا ہے!” تو کہنے والا کافر ہوجائے گا، کیونکہ یہ علماء کی تحقیر ہے اور یہ مستلزم ہے انبیاء کرام علیہم السلام کی تحقیر کو، کیونکہ علماء انبیاء کے وارث ہیں (پس ان کی تحقیر انبیاء کی تحقیر ہے اور انبیاء کی تحقیر کفر ہے) نیز لبیں تراشنا انبیاء کرام علیہم السلام کی سنتوں میں سے ہے، پس اس کو برا کہنا بغیر کسی اختلاف کے کفر ہے۔”
سوم:…جو مسلمان کلمہ کفر بکے وہ مرتد ہوجاتا ہے، میاں بیوی میں سے کسی ایک نے کلمہ کفر کہا تو نکاح فسخ ہوجاتا ہے، اس پر ایمان کی تجدید لازم ہے اور توبہ کے بعد نکاح دوبارہ کرنا ضروری ہے، چنانچہ درمختار میں ہے:
“وفی شرح الوھبانیة للشرنبلانی ما یکون کفرا اتفاقاً یبطل العمل والنکاح واولادہ اولاد زنا، وما فیہ خلاف یوٴمر بالاستغفار والتوبة وتجدید النکاح۔”
(شامی ج:۴ ص:۲۴۶)
ترجمہ:…”اور شرح وہبانیہ للشرنبلانی میں ہے کہ جو چیز کہ بالاتفاق کفر ہو اس سے تمام اعمال باطل ہوجاتے ہیں اور نکاح ٹوٹ جاتا ہے اور (اگر اسی حالت میں صحبت کرتے رہے تو) اس کی اولاد ناجائز ہوگی، اور جس چیز کے کفر ہونے میں اختلاف ہو اس سے توبہ و استغفار اور دوبارہ نکاح کرنے کا حکم دیا جائے گا۔”
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
“ولو اجرت کلمة الکفر علی لسانھا مغایظة لزوجھا (الیٰ قولہ) تحرم علیٰ زوجھا فتجبر علی الاسلام ولکل قاض ان یجدد النکاح بادنیٰ شیء ولو بدینار سخطت او رضیت ولیس لھا ان تتزوج الا بزوجھا۔” (ج:۱ ص:۲۳۹)
ترجمہ:…”اور اگر عورت نے اپنے شوہر سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے زبان سے کلمہ کفر بک دیا تو وہ اپنے شوہر پر حرام ہوجائے گی، اس کو تجدید ایمان (اور تجدید نکاح) پر مجبور کیا جائے گا اور ہر قاضی کو حق ہوگا کہ (اس کو توبہ کرانے کے بعد) معمولی مہر پر دوبارہ نکاح کردے، خواہ مہر ایک ہی دینار ہو، خواہ عورت راضی ہو یا نہ ہو، اور عورت کو اپنے شوہر کے علاوہ کسی اور سے شادی کرنے کا حق نہیں۔”
مندرجہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ صورتِ مسئولہ میں یہ عورت، سنت نبوی اور سنت انبیاء کا مذاق اڑانے اور اس کی تحقیر کرنے کی وجہ سے مرتد ہوگئی، اس کو توبہ کی تلقین کی جائے اور توبہ کے بعد نکاح کی تجدید کی جائے، جب تک عورت اپنی غلطی کا احساس کرکے سچے سے دل تائب نہ ہو اور دوبارہ نکاح نہ ہوجائے اس وقت تک شوہر اس سے ازدواجی تعلق نہ رکھے۔