Home » » یزید پر لعنت بھیجنے کا کیا حکم ہے؟

یزید پر لعنت بھیجنے کا کیا حکم ہے؟


یزید پر لعنت بھیجنے کا کیا حکم ہے؟
س… کیا یزید پر لعنت بھیجنا جائز ہے؟
ج… اہل سنت کے نزدیک یزید پر لعنت کرنا جائز نہیں، یہ رافضیوں کا شعار ہے، قصیدہ بدء الامالی، جو اہل سنت کے عقائد میں ہے، اس کا شعر ہے:
ولم یلعن یزیداً بعد موت
سوی المکثارر فی الاغراء غال
اس کی شرح میں علامہ علی قاری لکھتے ہیں کہ: “یزید پر سلف میں سے کسی نے لعنت نہیں کی سوائے رافضیوں، خارجیوں اور بعض معتزلہ کے، جنہوں نے فضول گوئی میں مبالغہ سے کام لیا ہے۔” اور اس مسئلہ پر طویل بحث کے بعد لکھتے ہیں:
“فلا شک ان السکوت اسلم۔”
“اس لئے اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ نہ تو یزید پر لعنت کی جائے، نہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں اس کی مدح و توصیف کی جائے۔”
یزید اور مسلکِ اعتدال
یزید کے بارے میں اوپر جو دو سوال و جواب ذکر کئے گئے ہیں ان پر ہمیں دو متضاد مکتوب موصول ہوئے، ذیل میں پہلے وہ دونوں مکتوب درج کئے جاتے ہیں، اس کے بعد ان پر تبصرہ کیا جائے گا۔
پہلا خط
محترمی مولانا محمد یوسف لدھیانوی صاحب
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ!
امید ہے کہ مزاجِ گرامی بخیر ہوگا، چند دن ہوئے ایک دوست نے بڑے گہرے تاسف کے ساتھ تذکرہ کیا کہ مولانا یوسف لدھیانوی صاحب بھی غیرارادی اور غیرشعوری طور پر “شیعوں” کو خوش کرنے کے لئے عام قسم کی خلافِ حقیقت باتیں کرنے لگے، کریدنے پر پتہ چلا کہ آپ نے کسی ہفتگی میں “یزید پلید” لکھا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے، کوئی اور چکر ہوگا۔ مولانا یوسف لدھیانوی جیسا عالم و محقق شخص ایسی بات نہیں کہہ سکتا، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ “یزید” ایک جلیل القدر صحابی کا فرزند اور ہزارہا صحابہ کا معتمد ہے، اس کی ولی عہدی کی تجویز، دین و ملت کے دور رس اور وسیع تر مفاد کی خاطر خود اصحابِ بیعتِ رضوان نے پیش کی، اس وقت موجود تمام صحابہ کرام اور تقریباً نصف درجن ازواجِ مطہرات نے اس تجویز کو پسند فرمایا، چنانچہ چھٹے خلیفہ راشد امامِ عادل حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بحیثیت خلیفہٴ وقت اس متفقہ تجویز کا اعلان فرمایا، بیعت ہوئی، دس سال بعد جب “یزید” عملاً خلیفہ بنا تو اسی طے شدہ پالیسی کے مطابق پوری سلطنت میں آٹومیٹک طریقہ سے بیعتِ خلافت عمل میں آگئی۔ اس وقت موجود سینکڑوں جلیل القدر صحابہ نے بیعت فرمائی، اعتماد کیا، تعاون کیا، اکّا دکّا کی اختلافی آواز ظاہر ہے اس پونے سو سے بھی زائد اتفاق و اتحاد کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس جیسے جید اور عالم فاضل صحابہ کو کوئی “پلیدی” نظر نہیں آئی جو حقیقی بزرگ اور عینی شاہد ہیں۔ یہ بعد کے “ننھے منے” بزرگوں کو “پلیدی” کہاں سے نظر آگئی۔ پھر حضرت حسین کے جوان العمر، متقی و پارسا صاحبزادے جو اس دور اور کوفی منافقوں کی برپا کردہ “کربلا” کے عینی شاہد ہیں وہ بھی کوئی بات نہیں فرماتے، نہ قاتل کہتے ہیں نہ پلید، بلکہ بیعت فرماتے ہیں اور اخیر تک مکمل وفاداری کے ساتھ تعاون فرماتے ہیں۔ مزید عرض کیا کہ بھائی، یہ سب دشمنانِ صحابہ رافضیوں کا پروپیگنڈہ اور مسلمانوں کی سادہ لوحی ہے۔ ورنہ تابعین کی صف اول کی شخصیت، حج و جہاد کا قائد، متفقہ خلیفہ، “پلید” وغیرہ کیسے ہوسکتا ہے؟ ایسی عامیانہ بات مولانا لدھیانوی نہیں کہہ سکتے۔ “میرا وعظ” بڑے تحمل سے سنا اور پھر چند گھنٹے بعد ہفت روزہ “ختم نبوت” کا شمارہ میرے سامنے رکھ دیا، میں یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ اس کی بات درست تھی، واقعی آپ سے “سہو” ہوگیا، میں کبھی آپ کا اسم گرامی دیکھتا اور کبھی “یزید پلید” کا عنوان! یا للعجب!
حضرت! لاپرواہیاں چھوڑ دیجئے! شیعیت، کفریات کا مجموعہ ہے، مگر صدیاں گزر گئیں، نہ ان کی تکفیر کی گئی، نہ ان کو امتِ مسلمہ سے کاٹا گیا، “اسلامی فرقہ” سمجھا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے اپنے دجل و فریب سے سنی مسلمانوں کے دل و دماغ پر بھی قبضہ کیا ہوا ہے، ماتم کے علاوہ خیالات میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ مولانا بنوری مرحوم نے مودودیت کو چالیس سال بعد پہچانا! مولانا منظور نعمانی نے “شیعیت” کو اب آکر پہچانا! آپ کتنا عرصہ لگائیں گے؟
خدا کے لئے سبائیت زدگی چھوڑئیے، صحابہ، تابعین، تبع تابعین کے عز و شرف کا تحفظ فرمائیے، من گھڑت بہتانات کو پہچانئے۔ والسلام
ارشاد احمد علوی ایم اے
ہوائی اڈہ روڈ، نزد مسجد اقصیٰ، رحیم یار خان
دوسرا خط
محترم مولانا صاحب دامت برکاتہم
رمضان و شوال ۱۴۰۱ھ، بمطابق اگست ۱۹۸۱ء کا شمارہ نمبر:۳-۴/ج:۳۹ زیر نظر ہے۔ مسائل و احکام کے زیر عنوان فضل القیوم نامی سائل کے ایک اہم سوال کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ:
“اہل سنت کے نزدیک یزید پر لعنت کرنا جائز نہیں، یہ رافضیوں کا شعار ہے۔” (ص:۶۲ - ۷۷)۔
آپ کو معلوم ہے کہ محمود احمد عباسی کی تشدد آمیز تحقیق اور مودودی کی منافقانہ تالیف “خلافت و ملوکیت” کے بعد اس طرح کے یہ مسائل ایک خاص اہمیت حاصل کرچکے ہیں، اس لئے میں اس عریضہ کے توسط سے مزید تحقیق اور روایات کی تطبیق کا متمنی ہوں۔
آپ کے اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل سنت میں سے کوئی بھی جواز لعنت یزید کا قائل نہیں۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ اپنی شہرہٴ آفاق کتاب “السیف المسلول” میں فرماتے ہیں:
“فقیر کے نزدیک مختار بات یہ ہے کہ یزید پر لعنت کرنا جائز ہے اور محققین اہل حدیث کا مذہب بھی یہی ہے۔ ان میں امام ابوالفرج ابن جوزی بھی ہیں، علم و جلالت شان میں بہت اونچے، انہوں نے اس مسئلہ پر ایک کتاب بھی لکھی ہے جس کا نام ہے: “الرد علی المتعصب العنید المانع من ذم یزید” صفحہ: ۴۸۸۔
ترجمان مسلک اہل دیوبند حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب مدظلہ العالی “شہید کربلا اور یزید” میں فرماتے ہیں:
“یہ سب شہادتیں ہم نے اس لئے نہیں پیش کیں کہ ہمیں یزید پر لعنت کرنے سے کوئی خاص دلچسپی ہے، نہ ہم نے آج تک کبھی لعنت کی، نہ آئندہ ارادہ ہے، اور نہ ان لعنت ثابت کرنے والے علماء وائمہ کا منشاء یزید کی لعنت کو بطورِ وظیفہ کے پیش کرنا ہے، ان کا منشاء صرف یزید کو ان غیرمعمولی ناشائستگیوں کی وجہ سے مستحق لعنت قرار دینا یا زیادہ سے زیادہ لعنت کا جواز ثابت کرنا ہے۔” صفحہ: ۱۴۵۔
علامہ آلوسی رحمہ اللہ تعالیٰ صاحب روح المعانی فرماتے ہیں:
“ان الامام احمد لما سألہ ولدہ عبدالله عن لعن یزید، قال: کیف لا یلعن من لعنہ الله تعالیٰ فی کتابہ؟ فقال عبدالله: قد قرأت کتاب الله عز وجل فلم اجد فیہ لعن یزید! فقال الامام: ان الله تعالیٰ یقول:
“فھل عسیتم ان تولیتم ان تفسدوا فی الارض وتقطعوا ارحامکم۔ اولئک الذین لعنھم الله․․․․۔” (محمد:۲۲،۲۳)۔
وای فساد وقطعیة اشد مما فعلہ یزید۔”
چند سطروں کے بعد فرماتے ہیں:
“وقد جزم بکفرہ وصرح بلعنہ جماعة من العلماء فمنھم الحافظ ناصر السنة ابن الجوزی وسبقہ القاضی ابویعلیٰ وقال العلامة التفتازانی:
“لا نتوقف فی شانہ بل فی ایمانہ لعنة الله علیہ وعلیٰ انصارہ واعوانہ۔” وممن صرح بلعنہ الجلال السیوطی علیہ الرحمة۔ (ج:۲۶ ص:۷۲)۔
وانا اقول الذی یغلب علیٰ ظنی ان الخبیث لم یکن مصدقاً برسالة النبی صلی الله علیہ وسلم وان مجموع ما فعل مع اھل حرم الله تعالیٰ واھل حرم نبیہ علیہ الصلوٰة والسلام وعترتہ الطیبین الطاھرین فی الحیاة وبعد المماة وما صدر منہ من المخازی لیس باضعف دلالة علیٰ عدم تصدیقہ من القاء ورقة من المصحف الشریف فی قذر۔ ولا اظن ان امرہ کان خافیا علیٰ اجلة المسلمین اذ ذاک ولکن کانوا مغلوبین مقھورین لم یسعھم الا الصبر لیقضی الله امرا کان مفعولًا ولو سلم ان الخبیث کان مسلماً فھو مسلم جمع من الکبائر ما لا یحیط بہ نطاق البیان وانا اذھب الیٰ جواز لعن مثلہ علی التعیین۔” (ج:۲۶ ص:۷۳)۔
آپ جیسے معتدل اور متین صاحبِ علم پر ضروری ہے کہ اس مسئلہ کی تنقیح فرماکر جواب عنایت فرمادیں اور اکابرین اہل سنت کے ان مختلف اقوال کے درمیان تطبیق دے کر ذہنی الجھن کو دور فرماویں۔
احقر
عبدالحق رحیم یار خان
ج… یہ دونوں خط یزید کے بارے میں افراط و تفریط کے دو انتہائی سروں کی نمائندگی کرتے ہیں، ایک فریق “حب یزید” میں یہاں تک آگے نکل گیا ہے کہ “مدحِ یزید” کو اہل سنت کا شعار ثابت کرنے لگا ہے، اس کی خواہش ہے کہ یزید کا شمار اگر “خلفائے راشدین” میں نہیں تو کم از کم “خلفائے عادلین” میں ضرور کیا جانا چاہئے، اور یزید کے سہ سالہ دور میں جو سنگین واقعات رونما ہوئے، یعنی حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور دیگر اہل بیت کا قتل، واقعہٴ حرہ میں اہل مدینہ کا قتل عام اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے مقابلہ میں حرمِ کعبہ پر یورش، ان واقعات میں یزید کو برحق اور اس کے مقابلہ میں اکابر صحابہ کو امامِ برحق کے باغی قرار دیا جائے۔
دوسرا فریق “بغضِ یزید” میں آخری سرے پر ہے، اس کے نزدیک یزید کی سیاہ کاریوں کی مذمت کا حق ادا نہیں ہوتا، جب تک کہ یزید کو دین و ایمان سے خارج اور کافر و ملعون نہ کہا جائے۔ یہ فریق یزید کو اس عام دعائے مغفرت و رحمت طلبی کا مستحق بھی نہیں سمجھتا جو امتِ محمدیہ (علیٰ صاحبہا الصلوٰة والسلام) کے گناہ گاروں کے لئے کی جاتی ہے۔
لیکن اعتدال و توسط کا راستہ شاید ان دونوں انتہاوٴں کے بیچ میں سے ہوکر گزرتا ہے، اور وہ یہ کہ یزید کی مدح سرائی سے احتراز کیا جائے، اس کے مقابلہ میں حضرت حسین، حضرت عبداللہ بن زبیر اور دیگر اجلّہٴ صحابہ و تابعین (جو یزیدی فوجوں کی تیغِ ظلم سے شہید ہوئے) کے موٴقف کو برحق سمجھا جائے، لیکن اس کی تمام تر سیاہ کاریوں کے باوجود چونکہ اس کا خاتمہ برکفر کسی دلیل قطعی سے ثابت نہیں ہے، اس لئے اس کے کفر میں توقف کیا جائے، اور اس کا نام لے کر لعنت سے اجتناب کیا جائے، جمہور اہل سنت اور اکابر دیوبند کا یہی مسلک ہے اور یہی سلامتی کی راہ ہے۔ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری نور اللہ مرقدہ“معارف السنن” میں لکھتے ہیں:
“ویزید لا ریب فی کونہ فاسقاً ولعلماء السلف فی یزید وقتلہ الامام الحسین خلاف فی اللعن والتوقف۔ قال ابن الصلاح: فی یزید ثلاث فرق: فرقة تحبہ، وفرقة تسبہ، وفرقة متوسطة لا تتولاہ ولا تلعنہ۔ قال: وھذہ الفرقة ھی المصیبة․․․․ الخ۔” (ج:۶ ص:۸)
ترجمہ:…”یزید کے فاسق ہونے میں تو کوئی شک نہیں، اور علمائے سلف کا اس میں اختلاف ہے کہ یزید پر اور امام حسین کے قاتلین پر لعنت کی جائے یا توقف کیا جائے۔ ابن صلاح کہتے ہیں کہ: یزید کے بارے میں تین فرقے ہیں: ایک فرقہ اس سے محبت رکھتا ہے، ایک فرقہ اس سے بغض رکھتا ہے اور اسے گالیاں دیتا ہے، اور ایک فرقہ میانہ رو ہے، وہ نہ اسے اچھا جانتا ہے اور نہ اس پر لعنت کرتا ہے۔ ابن صلاح کہتے ہیں کہ: یہی فرقہ جادہٴ صواب پر ہے۔”
حضرت بنوری قدس سرہ کی اس تحریر سے معلوم ہوا کہ یزید کے فسق پر تو اہل سنت کا قریب قریب اجماع ہے، البتہ اس میں اختلاف رہا ہے کہ یزید پر لعنت کی جائے یا اس کے معاملے میں توقف کیا جائے؟ مکتوب دوم میں اس فریق کی نمائندگی کی گئی ہے جو یزید کے ایمان میں بھی شک رکھتا ہے اور بلاتردد اس پر لعنت کے جواز کا قائل ہے۔ اگرچہ یہ قول بھی سلف کی ایک جماعت نے اختیار کیا ہے، لیکن جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں، جمہور اکابر اہل سنت اور اکابر دیوبند اس کو گناہ گار مسلمان سمجھتے ہوئے اس پر لعنت کے بارے میں توقف ہی کے قائل ہیں۔
مدحِ یزید کو اہل سنت کا شعار قرار دینا، جیسا کہ ہمارے علوی صاحب کی تحریر سے مترشح ہے، ایک نیا انکشاف ہے، جو کم از کم ہماری عقل و فہم سے بالا تر چیز ہے۔
ہمارے بعض اکابر کے قلم سے “یزید پلید” کا لفظ نکل جاتا ہے، میرا جو مضمون ہفت روزہ “ختم نبوت” میں ایک سوال کے جواب میں شائع ہوا تھا، اس میں ان اکابر کے اس طرزِ عمل کی توجیہ کی گئی تھی کہ یہ یزید کی سیاہ کاریوں کے خلاف بے ساختہ نفرت و غیظ کا اظہار ہے۔ چنانچہ امام ربانی مجدد الف ثانی، مکتوبات شریفہ میں بڑے اہتمام کے ساتھ یزید کے نام کے ساتھ “بے دولت” کا لفظ لکھتے ہیں، شاہ عبدالحق محدث دہلوی، مسند الہند شاہ عبدالعزیز دہلوی، حجة الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی، قطب العالم حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی اور دیگر اکابر “یزید پلید” کا لفظ لکھتے ہیں۔ ہمارے علوی صاحب انکشاف فرماتے ہیں کہ یہ سب “ننھے منے بزرگ” تھے، ما شاء اللہ! چشم بددور! اپنے اکابر کا ادب و احترام ہو تو ایسا ہو! میرے لئے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ اگر یہ تمام اکابر “ننھے منے بزرگ” تھے، تو ان کے مقابلے میں محمد یوسف لدھیانوی یا جناب ارشاد علوی صاحب کی کیا اہمیت ہے؟ اگر ان اکابر نے حدیث و تاریخ، حالاتِ صحابہ اور عقائد اہل سنت کو نہیں سمجھا تھا تو ما و شما کی “تحقیق” کا کیا وزن رہ جاتا ہے؟ شاید وہ ہمارے علوی صاحب کے نزدیک “حضرت یزید رحمة اللہ علیہ” کے مقابلے میں حضرت حسین، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت ابوشریح اور واقعہ حرہ کے تمام صحابہ و تابعین بھی “ننھے منے بزرگ” ہی ہوں گے، بلکہ خود حرمِ مدینہ، حرمِ مکہ اور حرمتِ بیتِ النبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی یزید کے مقابلہ میں “ننھی منی سی چیز” ہی ہوگی۔ کیونکہ یزید نے آلِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کو بھی ملحوظ نہیں رکھا، حرمِ مدینہ کو بھی پامال کیا، اور حرمِ کعبہ پر بھی چڑھائی کی، اگر یہ تمام چیزیں یزید کے مقابلے میں “ننھی منی” ہیں تو ہمیں یقین رکھنا چاہئے کہ بس “یزید کی محبت” ہی اسلام کا ایسا مقدس عقیدہ ہے کہ جس کے مقابلہ میں نہ حرمِ مکہ کی کوئی عظمت ہے، نہ حرمِ مدینہ کی، نہ خانوادہٴ نبوت کی، نہ اجلہ صحابہ و تابعین کی، اور نہ بعد کے تیرہ سو سالہ اکابر امت کی․․․․․․ رہا علوی صاحب کا یہ شبہ کہ بہت سے صحابہ و تابعین نے یزید کی بیعت کی تھی، ان کے بنائے ہوئے خلیفہ کو “پلید” کیسے کہا جاسکتا ہے؟ اس ناکارہ کے خیال میں یہ شبہ ایسا نہیں کہ کوئی ذی فہم آدمی اس میں الجھ کر رہ جائے۔
جناب علوی صاحب غور فرمائیں کہ یہاں دو بحثیں الگ الگ ہیں۔ ایک یہ کہ یزید کا استخلاف صحیح تھا یا نہیں؟ اور دوسرے یہ کہ خلیفہ بن جانے کے بعد اس نے جو کارنامے انجام دئیے وہ لائق تحسین ہیں یا لائق نفرت؟ اور ان کارناموں کی بنا پر وہ اہل ایمان کی محبت اور مدح و ستائش کا مستحق ہے، یا نفرت و بیزاری اور مذمت و تقبیح کا؟
جناب علوی صاحب کا استدلال اگر کچھ مفید ہوسکتا ہے تو پہلی بحث میں ہوسکتا ہے کہ چونکہ بہت سے صحابہ و تابعین نے اس سے بیعت کرلی تھی، اس لئے اس کے استخلاف کو صحیح سمجھنا چاہئے، ہرچند کہ اس استدلال پر بھی جرح و قدح کی کافی گنجائش ہے، لیکن یہاں استخلافِ یزید کا مسئلہ سرے سے زیر بحث ہی نہیں، اس لئے علوی صاحب کا یہ شبہ قطعی طور پر بے محل ہے۔ یہاں تو بحث یزید کے استخلاف کے بعد کے کارناموں سے ہے کہ مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد اس نے جو کچھ کیا، وہ خیر و برکت کے اعمال تھے یا فسق و فجور کے؟ ان کی وجہ سے وہ “طاہر و مطہر” کہلانے کا مستحق ہے یا “پلید و ملعون” کہلانے کا؟ اور ان کارناموں کے بعد اس کے بارے میں اکابر امت نے کیا رائے قائم کی؟ میں اوپر بتاچکا ہوں کہ اس کے سہ سالہ دور کے تین واقعات مشہور ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب نواسہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل بیت کا قتل، حرمِ مدینہ کی پامالی اور اہل مدینہ کا قتل عام، حرمِ کعبہ پر فوج کشی۔ کیا کوئی ایسا شخص جس کے دل میں ایمان کی رمق ہو، ان سنگین واقعات کے بعد بھی اس کے دل میں یزید کی محبت اور اس کی عزت و عظمت باقی رہ سکتی ہے؟ کیا ہمارے علوی صاحب کسی صحابی یا کسی جلیل القدر تابعی کا حوالہ پیش کرسکتے ہیں، کہ انہوں نے ان واقعات پر یزید کو دادِ تحسین دی ہو؟ اور کیا یہ واقعات ہمارے علوی صاحب کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذاء کے موجب نہیں ہوئے ہوں گے؟ یزید کی حمایت و مخالفت سے ذہن کو فارغ کرکے ذرا ٹھنڈے دل سے سوچئے کہ جب خانوادہٴ نبوت کو خاک و خون میں تڑپایا جارہا ہو، جب مدینة الرسول میں صحابہ کرام اور ان کی اولاد کو تہ تیغ کیا جارہا ہو، اور حرمِ کعبہ پر فوج کشی کرکے اس کی حرمت کو مٹایا جارہا ہو اور پھر یہ واقعات ایک کے بعد ایک، پے در پے ہو رہے ہوں، تو کون مسلمان ہوگا جو یزید کے کردار پر صدائے آفرین بلند کرے؟ اور ان تمام سیاہ کاریوں کے باوجود یزید کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان ہو۔ حق تعالیٰ شانہ ہمیں اپنی مرضیات کی توفیق عطا فرمائیں۔
Share this article :
 

Copyright © 2011. Al Asir Channel Urdu Islamic Websites Tarjuman Maslak e Deoband - All Rights Reserved
Template Created by piscean Solutions Published by AL Asir Channel
Proudly powered by AL Asir Channel