تقدیر برحق ہے، اس کو ماننا شرطِ ایمان ہے
س ۱:…آدمی کے دنیا میں تشریف لانے سے پہلے تقدیر لکھ دی جاتی ہے کہ یہ آدمی دنیا میں یہ کام کرے گا، کیا تقدیر میں لکھا ہوتا ہے کہ جب دنیا فانی سے رخصت ہوگا تو اس کی اتنی نیکیاں اور اتنی بدیاں ہوں گی؟ تو پھر نامہٴ اعمال اور تقدیر میں کیا فرق ہے؟
۲:…اگر کوئی آدمی مصائب و آلام میں مبتلا ہو تو کہتے ہیں کہ اس کی تقدیر لکھی ہی اس طرح ہوگی، اور اگر کوئی عیش و عشرت سے زندگی گزار رہا ہو تو کہتے ہیں کہ اس کی تقدیر اچھی ہے، جبکہ فرمانِ الٰہی ہے کہ: جتنی کسی نے کوشش کی اتنا ہی اس نے پایا۔ تو تقدیر کیا ہے؟
۳:…اور ایک جگہ پڑھا ہے کہ تقدیر میں جو کچھ لکھ دیا جاتا ہے وہ بدل نہیں سکتا، جبکہ امام المرسلین نے فرمایا کہ: “مظلوم کی دعا رد نہیں ہوتی، اس کی دعا کے لئے آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ: قسم ہے اپنی عزت کی! میں تیری مدد کروں گا۔” تو کیا اس کا مطلب یہی ہے کہ دعا سے تقدیر بدل جاتی ہے؟
۴:…نجومی یا عامل وغیرہ ہاتھ کی لکیریں دیکھ کر بتاتے ہیں کہ آپ کی تقدیر ایسی ہے، اسی طرح کچھ فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں کہ طوطے کے ذریعے فال معلوم کریں اور عوام کو بیوقوف بناتے ہیں، کیا اللہ کے سوا کسی کو معلوم ہے کہ آنے والا وقت کیا ہوگا؟
۵:…المختصر یہ کہ کیا تقدیر آدمی پر منحصر ہے جیسی بنائے یا پہلے لکھ دی جاتی ہے، اگر پہلے لکھ دی جاتی ہے تو کیا بدل سکتی ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں کیونکہ ہوگا وہی جو تقدیر میں لکھا ہوگا۔
ج… تقدیر برحق ہے۔ اور اس کو ماننا شرطِ ایمان ہے۔ لیکن تقدیر کا مسئلہ بے حد نازک اور باریک ہے، کیونکہ تقدیر اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، اور آدمی صفاتِ الٰہیہ کا پورا احاطہ نہیں کرسکتا۔ بس اتنا عقیدہ رکھا جائے کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ کو پہلے سے اس کا علم تھا، اور اللہ تعالیٰ نے اس کو پہلے سے لوحِ محفوظ میں لکھ رکھا تھا۔ پھر دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اس کی دو قسمیں ہیں۔ بعض میں انسان کے ارادہ و اختیار کا بھی دخل ہے، اور بعض میں نہیں۔ جن کاموں میں انسان کے ارادہ و اختیار کو دخل ہے، ان میں سے کرنے کے کاموں کو کرنے کا حکم ہے، اگر انہیں اپنے ارادہ و اختیار سے ترک کرے گا تو اس پر موٴاخذہ ہوگا، اور جن کاموں کو چھوڑنے کا حکم ہے ان کو اپنے ارادہ و اختیار سے چھوڑنا ضروری ہے، نہیں چھوڑے گا تو موٴاخذہ ہوگا۔ الغرض جو کچھ ہوتا ہے تقدیر کے مطابق ہی ہوتا ہے لیکن اختیاری امور پر چونکہ انسان کے ارادہ و اختیار کو بھی دخل ہے، اس لئے نیک و بد اعمال پر جزا و سزا ہوگی، ہمارے لئے اس سے زیادہ اس مسئلہ پر کھود کرید جائز نہیں، نہ اس کا کوئی فائدہ ہے۔