کیا ظاہری اسباب تقدیر کے خلاف ہیں؟
س… تقدیر پر ایمان لانا ہر مسلمان کا فرض ہے، یعنی اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لانا لیکن جب اسے نقصان پہنچے یا مصیبت میں گرفتار ہو تو وہ ظاہری اسباب کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے، وہ کیوں ایسے کہتا ہے کہ: “اگر ایسا نہیں ایسا کیا جاتا تو ایسا ہوتا اور یہ نقصان نہ ہوتا اور یہ مصیبت نہ آتی” تو کیا اس طرح کہنے سے گناہ تو نہیں ہوتا؟ اور تقدیر پر ایمان رکھنے کے سلسلہ میں اس طرح کہنے سے اس کی ایمانیت میں تو کوئی فرق نہیں پڑتا؟ اور کیا انسان کو تقدیر کے بارے میں سوچنا نہیں چاہئے؟
ج… شرعی حکم یہ ہے کہ جو کام کرو خوب سوچ سمجھ کر بیدار مغزی کے ساتھ کرو، اس کے جتنے جائز اسباب مہیا کئے جاسکتے ہیں ان میں بھی کوتاہی نہ کرو۔ جب اپنی ہمت و بساط اور قدرت و اختیار کی حد تک جو کچھ تم کرسکتے ہو کرلیا، اس کے بعد نتیجہ خدا کے حوالے کردو، اگر خدانخواستہ کوئی نقصان وغیرہ کی صورت پیش آجائے تو یوں خیال کرو کہ اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا، جو کچھ اللہ تعالیٰ کو منظور تھا وہ ہوا، اور اسی میں حکمت تھی۔ ایسی صورت میں یہ کہنا کہ اگر یوں کرلیتے تو یوں ہوجاتا، اس سے طبیعت بلاوجہ بدمزہ اور پریشان ہوگی، جو کچھ ہونا تھا وہ تو ہوچکا، اسے تو کسی صورت میں واپس نہیں لایا جاسکتا، تو اب “اگر، مگر” کا چکر سوائے بدمزگی و پریشانی کے اور کیا ہے؟ اس لئے حدیث میں اس کی ممانعت فرمائی گئی ہے، اور اس کو “عمل شیطان” کی کنجی فرمایا گیا ہے۔ درحقیقت یہ ضعفِ ایمان، ضعفِ ہمت، حق تعالیٰ شانہ سے صحیح تعلق نہ ہونے کی علامت ہے۔