Home » » کیا پاکستانی آئین کے مطابق کسی کو مصلح یا مجدد ماننا کفر ہے؟

کیا پاکستانی آئین کے مطابق کسی کو مصلح یا مجدد ماننا کفر ہے؟


کیا پاکستانی آئین کے مطابق کسی کو مصلح یا مجدد ماننا کفر ہے؟
س… آپ کے اور میرے علم کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مہدی علیہ السلام دنیا میں تشریف لائیں گے، لیکن پاکستانی آئین کے مطابق، جو بھٹو دور میں بنا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی مصلح، کوئی مجدد یا کوئی نبی نہیں آسکتا۔ اگر کوئی شخص اس بات پر یقین رکھتا ہے تو وہ غیرمسلم ہے۔ اس لحاظ سے تو میں اور آپ بھی غیرمسلم ہوئے، کیونکہ آپ نے بعض سوالات کے جوابات میں کہا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مہدی تشریف لائیں گے، براہ مہربانی اس مسئلہ پر روشنی ڈالیں۔
ج… جناب نے آئین پاکستان کی جس دفعہ کا حوالہ دیا ہے اس کے سمجھنے میں آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے، اور آپ نے اس کو نقل بھی غلط کیا ہے۔ آئین کی دفعہ ۲۶۰ (۳) کا پورا متن یہ ہے:
“جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم (جو آخری نبی ہیں) کے خاتم النبیین ہونے پر قطعی اور غیرمشروط طور پر ایمان نہیں رکھتا یا جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی بھی مفہوم میں یا کسی بھی قسم کا نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے یا جو شخص کسی ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح تسلیم کرتا ہے وہ آئین یا قانون کی اغراض کے لئے مسلمان نہیں ہے۔”
آئین کی اس دفعہ میں ایک ایسے شخص کو غیرمسلم کہا گیا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت جاری ہونے کا قائل ہو، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کے حصول کا مدعی ہو یا ایسے مدعیٴ نبوت کو اپنا دینی پیشوا تسلیم کرتا ہو۔
حضرت مہدی رضی اللہ عنہ نبی نہیں ہوں گے، نہ نبوت کا دعویٰ کریں گے، اور نہ کوئی ان کو نبی مانتا ہے۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام بلاشبہ نبی ہیں، مگر ان کو نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں ملی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے چھ سو سال پہلے مل چکی ہے۔ مسلمان ان کی تشریف آوری کے بعد ان کی نبوت پر ایمان نہیں لائیں گے بلکہ مسلمانوں کا ان کی نبوت پر پہلے سے ایمان ہے، جس طرح حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور دیگر انبیاء کرام کی نبوت پر ایمان ہے (علیٰ نبینا وعلیہم الصلوٰت والتسلیمات)۔ اس لئے آئینِ پاکستان کی اس دفعہ کا اطلاق نہ تو حضرت مہدی رضی اللہ عنہ پر ہوتا ہے، کیونکہ وہ مدعیٴ نبوت نہیں ہوں گے، نہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ہوتا ہے، کیونکہ ان کی نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کی ہے نہ کہ بعد کی، اور نہ ان مسلمانوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جو ان حضرات کی تشریف آوری کے قائل ہیں۔
اس دفعہ کا اطلاق ان لوگوں پر ہوتا ہے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حاصل ہونے والی نبوت کا دعویٰ کیا۔ “یا ایھا الناس انی رسول الله الیکم جمیعا۔” (الاعراف:۱۵۸) کا نعرہ لگایا، اور لوگوں کو اس نئی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی، نیز اس کا اطلاق ان لوگوں پر ہوتا ہے جنہوں نے ایسے لوگوں کو اپنا دینی مصلح اور پیشوا تسلیم کیا اور ان کی جماعت میں داخل ہوئے۔
امید ہے یہ مختصر سی وضاحت آپ کی غلط فہمی رفع کرنے کے لئے کافی ہوگی۔
Share this article :
 

Copyright © 2011. Al Asir Channel Urdu Islamic Websites Tarjuman Maslak e Deoband - All Rights Reserved
Template Created by piscean Solutions Published by AL Asir Channel
Proudly powered by AL Asir Channel