Home » » آپکے مسائل اور انکا حل موت کے بعد کیا ہوتا ہے؟

آپکے مسائل اور انکا حل موت کے بعد کیا ہوتا ہے؟


موت کے بعد کیا ہوتا ہے؟


موت کی حقیقت
س… موت کی اصل حقیقت کیا ہے؟
ج… موت کی حقیقت مرنے سے معلوم ہوگی، اس سے پہلے اس کا سمجھنا سمجھانا مشکل ہے، ویسے عام معنوں میں روح و بدن کی جدائی کا نام موت ہے۔
مقررہ وقت پر انسان کی موت
س… قرآن و سنت کی روشنی میں بتایا جائے کہ انسان کی موت وقت پر آتی ہے یا وقت سے پہلے بھی ہوجاتی ہے؟
ج… ہر شخص کی موت وقت مقرر ہی پر آتی ہے، ایک لمحہ کا بھی آگا پیچھا نہیں ہوسکتا۔
اگر مرتے وقت مسلمان کلمہ طیبہ نہ پڑھ سکے تو کیا ہوگا؟
س… اگر کوئی مسلمان مرتے وقت کلمہ طیبہ نہ پڑھ سکے اور بغیر پڑھے انتقال کرجائے تو کیا وہ مسلمان مرا یا اس کی حیثیت کچھ اور ہوگی؟
ج… اگر وہ زندگی بھر مسلمان رہا ہے تو اسے مسلمان ہی سمجھا جائے گا اور مسلمانوں کا برتاوٴ اس کے ساتھ کیا جائے گا۔
کیا قبر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شبیہ دکھائی جاتی ہے؟
س… ہماری فیکٹری میں ایک صاحب فرمانے لگے کہ جب کسی مسلمان کا انتقال ہوجائے اور اس سے سوال جواب شروع ہوتے ہیں تو جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو قبر میں بذاتِ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے ہیں۔ تو اس پر دوسرے صاحب کہنے لگے کہ نہیں! حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود نہیں آتے بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شبیہ مردہ کے سامنے پیش کی جاتی ہے۔ تو مولانا صاحب! ذرا آپ وضاحت فرمادیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پورے جسمانی وجود کے ساتھ قبر میں آتے ہیں یا ان کی ایک طرح سے تصویر مردے کے سامنے پیش کی جاتی ہے، اور اس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا جاتا ہے؟
ج… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خود تشریف لانا یا آپ کی شبیہ کا دکھایا جانا کسی روایت سے ثابت نہیں۔
مردہ دفن کرنے والوں کے جوتوں کی آہٹ سنتا ہے
س… بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص مرجاتا ہے تو اس کو دفن کیا جاتا ہے اور دفن کرنے والے لوگ جب واپس آتے ہیں تو مردہ ان واپس جانے والوں کی چپل کی آواز سنتا ہے، عذابِ قبر حق ہے یا نہیں؟
ج… عذابِ قبر حق ہے، اور مردے کا واپس ہونے والوں کے جوتے کی آہٹ کو سننا صحیح بخاری کی حدیث میں آیا ہے۔ (ج:۱ ص:۱۷۸)
کیا مردے سلام سنتے ہیں؟
س… سنا ہے کہ قبرستان میں جب گزر ہو تو کہو: “السلام علیکم یا اہل القبور” جس شہر خاموشی میں آپ حضرات غفلت کی نیند سو رہے ہیں، اسی میں میں بھی انشاء اللہ آکر سووٴں گا۔ سوال یہ ہے کہ جب مردے سنتے نہیں تو سلام کیسے سن لیتے ہیں؟ اور اگر سلام سن لیتے ہیں تو ان سے اپنے لئے دعا کرنے کو بھی کہا جاسکتا ہے؟
ج… سلام کہنے کا تو حکم ہے، بعض روایات میں ہے کہ وہ جواب بھی دیتے ہیں، اور سلام کہنے والے کو پہچانتے بھی ہیں، مگر ہم چونکہ ان کے حال سے واقف نہیں، اس لئے ہمیں صرف اس چیز پر اکتفا کرنا چاہئے جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ہے۔
قبر کا عذاب برحق ہے؟
س… فرض کریں تین اشخاص ہیں تینوں کی عمریں برابر ہیں اور تینوں برابر کے گناہ کرتے ہیں لیکن پہلا شخص صدیوں پہلے مرچکا ہے، دوسرا قیامت سے ایک روز پہلے مرے گا اور جبکہ تیسرا قیامت تک زندہ رہتا ہے۔ اگر قبر کا عذاب برحق ہے اور قیامت تک ہوتا رہے گا تو اس رو سے پہلا شخص صدیوں سے قیامت تک قبر کے عذاب میں رہے گا، دوسرا شخص صرف ایک دن قبر کا عذاب اٹھائے گا، جبکہ تیسرا قبر کے عذاب سے بچ جائے گا، کیونکہ وہ قیامت تک زندہ رہتا ہے، لیکن قبر کے عذاب میں یہ تفریق نہیں ہوسکتی کیونکہ تینوں کی عمریں برابر ہیں اور گناہ بھی برابر ہیں۔ آپ قرآن اور حدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔
ج… قبر کا عذاب و ثواب برحق ہے اورا س بارے میں قرآن کریم کی متعدد آیات اور احادیث متواترہ وارد ہیں، ایسے امور کو محض عقلی شبہات کے ذریعہ ردّ کرنا صحیح نہیں، ہر شخص کے لئے برزخ کی جتنی سزا حکمتِ الٰہی کے مطابق مقرر ہے وہ اس کو مل جائے گی، خواہ اس کو وقت کم ملا ہو یا زیادہ، کیونکہ جن لوگوں کا وقت کم ہو، ہوسکتا ہے کہ ان کی سزا میں اسی تناسب سے اضافہ کردیا جائے۔ عذابِ قبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنی چاہئے، اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس سے محفوظ رکھے۔
قبر کے حالات برحق ہیں
س… شریعت میں قبر سے کیا مراد ہے؟ سنا ہے کہ قبر جنت کے باغوں میں ایک باغ ہوتی ہے یا جہنم کا ایک گڑھا۔ ایک ایک قبر میں کئی کئی مردے ہوتے ہیں، اگر ایک کے لئے باغ ہے تو اس میں دوسرے کے لئے گڑھا کس طرح ہوگی؟
۲:…سنتے ہیں کہ فرشتے مردے کو اٹھاکر قبر میں بٹھادیتے ہیں، تو کیا قبر اتنی کشادہ اور اونچی ہوجاتی ہے؟
۳:…سنا ہے سانس نکلتے ہی فرشتے روح آسمان پر لے جاتے ہیں پھر وہ واپس کس طرح اور کیوں آتی ہے؟ قبر کے سوال و جواب کے بعد کہاں ہوتی ہے؟
ج… قبر سے مراد وہ گڑھا ہے جس میں میت کو دفن کیا جاتا ہے اور “قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے، یا دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔” یہ حدیث کے الفاظ ہیں۔ ایک ایک قبر میں اگر کئی کئی مردے ہوں تو ہر ایک کے ساتھ معاملہ ان کے اعمال کے مطابق ہوگا، اس کی حسی مثال خواب ہے، ایک ہی بستر پر دو آدمی سو رہے ہیں، ایک تو خواب میں باغات کی سیر کرتا ہے اور دوسرا سخت گرمی میں جلتا ہے، جب خواب میں یہ مشاہدے روزمرہ ہیں تو قبر کا عذاب و ثواب تو عالمِ غیب کی چیز ہے اس میں کیوں اشکال کیا جائے؟
۲:…جی ہاں! مردے کے حق میں اتنی کشادہ ہوجاتی ہے، ویسے آپ نے کبھی قبر دیکھی ہو تو آپ کو معلوم ہوگا کہ قبر اتنی ہی بنائی جاتی ہے جس میں آدمی بیٹھ سکے۔
۳:…حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ روح میت میں لوٹائی جاتی ہے، اب روح خواہ علّییّن یا سجین میں ہو اس کا ایک خاص تعلق بدن سے قائم کردیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے بدن کو بھی ثواب یا عذاب کا احساس ہوتا ہے، مگر یہ معاملہ عالمِ غیب کا ہے، اس لئے ہمیں میت کے احساس کا عام طور سے شعور نہیں ہوتا۔ عالمِ غیب کی جو باتیں ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہیں، ہمیں ان پر ایمان لانا چاہئے۔ (صحیح مسلم ج:۲ ص:۳۸۶) کی حدیث ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: “اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم مردوں کو دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ تم کو بھی عذابِ قبر سنادے جو میں سنتا ہوں۔”
اس حدیث سے چند باتیں معلوم ہوئیں:
الف:…قبر کا عذاب برحق ہے۔
ب:…یہ عذاب سنا جاسکتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کو سنتے تھے، یہ حق تعالیٰ شانہ کی حکمت اور غایت رحمت ہے کہ ہم لوگوں کو عام طور سے اس عذاب کا مشاہدہ نہیں ہوتا، ورنہ ہماری زندگی اجیرن ہوجاتی اور غیب، غیب نہ رہتا، مشاہدہ میں تبدیل ہوجاتا۔
ج:…یہ عذاب اسی گڑھے میں ہوتا ہے جس میں مردے کو دفن کیا جاتا ہے اور جس کو عرفِ عام میں قبر کہتے ہیں، ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہ فرماتے کہ: “اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم مردوں کو دفن کرنا چھوڑ دو گے تو ․․․․․․” ظاہر ہے کہ اگر عذاب اس گڑھے کے علاوہ کسی اور “برزخی قبر” میں ہوا کرتا تو تدفین کو ترک کرنے کے کوئی معنی نہیں تھے۔
قبر کا عذاب و ثواب برحق ہے
س… جنگ اخبار میں آپ نے ایک سوال کے جواب میں قبر کے عذاب و ثواب کو قرآن و حدیث سے قطعی ثابت ہونے کو فرمایا ہے، اور یہ کہ اس پر ایمان رکھنا واجب ہے۔ میں اس گتھی کو سمجھنے کے لئے برس ہا برس سے کوشش کر رہا ہوں اور کئی علماء کو خط لکھے مگر تسلی بخش جواب نہ مل سکا۔ قرآن حکیم میں کئی جگہ کچھ اس طرح آیا ہے کہ ہم نے زندگی دی ہے، پھر تمہیں موت دیں گے اور پھر قیامت کے روز اٹھائیں گے، یا سورہٴ بقرہ میں دو موت اور دو زندگی کا ذکر ہے یعنی تم مردہ تھے ہم نے زندگی عطا کی پھر تمہیں موت دیں گے اور قیامت کے دن پھر اٹھائیں گے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ ایک تو دنیا کی زندگی ہے، دوسری آخرت کی۔ جب یہ صرف دو زندگیاں ہیں تو قبر کی زندگی کون سی ہے؟ میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ حساب کے دن ہی فیصلہ ہوگا اس سے پیشتر کیا فیصلہ؟
ج… اہل سنت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ قبر کا عذاب و ثواب برحق ہے اور یہ مضمون متواتر احادیث طیبہ میں وارد ہے، ظاہر ہے کہ برزخ کے حالات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے بہتر جانتے تھے۔ اس لئے اس عقیدہ پر ایمان لانا ضروری ہے اور محض شبہات کی بنا پر اس کا انکار صحیح نہیں، رہا آپ کایہ شبہ کہ قرآن کریم میں دو موتوں اور دو زندگیوں کا ذکر آتا ہے، یہ استدلال عذابِ قبر کی نفی نہیں کرتا کیونکہ قبر کی زندگی محسوس و مشاہد نہیں، اسی لئے اس کو برزخی زندگی کہا جاتا ہے، اور قرآن کریم کی جن آیات میں دو زندگیوں کا ذکر ہے اس سے محسوس و مشاہد زندگیاں مراد ہیں۔
اور آپ کا یہ کہنا تو صحیح ہے کہ: “حساب کے دن ہی فیصلہ ہوگا” مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ دنیا میں یا برزخ میں نیک و بد اعمال کا کوئی ثمرہ ہی مرتب نہ ہو، قرآن و حدیث کے بے شمار نصوص شاہد ہیں کہ برزخ تو برزخ، دنیا میں بھی نیک و بد اعمال پر جزا و سزا مرتب ہوتی ہے، اور برزخی زندگی کا تعلق دنیا سے زیادہ آخرت سے ہے، اس لئے اس میں جزا و سزا کے ثمرات کا مرتب ہونا بالکل قرین قیاس ہے۔
عذابِ قبر پر چند اشکالات اور ان کے جوابات
س… جمعہ ایڈیشن میں “عذابِ قبر” کے عنوان سے آپ نے ایک سوال کا جواب دیا ہے، اس میں کئی طرح کے اشکالات ہیں:
۱:…آپ نے ان صاحب کے سوال کا جواب قرآن یا صحیح حدیث کی روشنی میں نہیں دیا۔
۲:…سورہٴ یونس میں اللہ نے فرعون کے متعلق فرمایا ہے کہ اب تو ہم تیرے بدن کو بچائیں گے تاکہ تو اپنے بعد کے آنے والوں کے لئے نشانِ عبرت بنے (سورہٴ یونس:۹۲)۔ اور یہ بات سب ہی کو معلوم ہے کہ فرعون کی ممی آج تک موجود ہے مگر اس فرعون کے متعلق سورة الموٴمن میں اللہ نے فرمایا ہے: “دوزخ کی آگ ہے جس کے سامنے صبح و شام وہ (آل فرعون) پیش کئے جاتے ہیں اور جب قیامت کی گھڑی آجائے گی تو حکم ہوگا کہ آل فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کرو۔” (الموٴمن:۴۶)۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فرعون اور آل فرعون کو عذاب کہاں دیا جارہا ہے؟ پھر ہم اس دنیا میں بھی دیکھتے ہیں کہ ہندو، چینی، اور غالباً روسی بھی اپنے مردے جلادیتے ہیں، اور بہت سے لوگ جو جل کر مرجائیں، فضائی حادثے کا شکار ہوجائیں یا جنہیں سمندر کی مچھلیاں کھاجائیں تو انہیں تو قبر ملتی ہی نہیں، انہیں عذاب کہاں دیا جاتا ہے؟
۳:…قرآن، مردوں کے متعلق یہ بتاتا ہے:
“مردے میں جان کی رمق تک نہیں ہے، انہیں اپنے متعلق یہ تک نہیں معلوم کہ وہ کب (دوبارہ زندہ کر کے) اٹھائے جائیں گے۔” (النحل:۲۱)۔
اور فرمایا:
“(اے نبی) آپ ان لوگوں کو نہیں سناسکتے جو قبروں میں مدفون ہیں۔” (فاطر:۲۲)۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن میں جان کی رمق تک نہیں اور جو سن تک نہیں سکتے، ان کو عذاب کیسے دیا جارہا ہے؟
ج… جناب نے میرے جواب کو یا تو پڑھا نہیں یا پھر سمجھا نہیں، ورنہ آپ نے جتنے شبہات پیش کئے ہیں ان میں ایک شبہ بھی آپ کو پیش نہ آتا، میں نے اپنے جواب میں لکھا تھا:
“اہل سنت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ قبر کا عذاب و ثواب برحق ہے اور یہ مضمون متواتر احادیثِ طیبہ میں وارد ہے۔”
میں “متواتر احادیث” کا حوالہ دے رہا ہوں لیکن آنجناب فرماتے ہیں کہ میں نے یہ جواب قرآن یا صحیح حدیث کی روشنی میں نہیں دیا۔ فرمائیے! کہ “متواتر احادیث” کو “صحیح حدیث” نہیں کہتے؟ اور اس کے بعد آپ نے جو شبہات پیش کئے ہیں میں نے ان کے جواب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا تھا:
“ظاہر ہے کہ برزخ کے حالات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے بہتر جانتے تھے، اس لئے اس عقیدہ پر ایمان لانا ضروری ہے، اور محض شبہات کی بنا پر اس کا انکار درست نہیں۔”
اگر آپ میرے اس فقرے پر غور کرتے تو آپ کے لئے یہ سمجھنا مشکل نہ ہوتا کہ جس عقیدے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شمار احادیث میں بیان فرمایا ہو اور پوری امت کے اکابر جس عقیدے پر متفق چلے آئے ہوں وہ قرآن کریم کے خلاف کیسے ہوسکتا ہے؟ اسی سے آپ یہ بھی سمجھ سکتے تھے کہ عذابِ قبر کی نفی پر آپ نے جن آیات کا حوالہ دیا، آپ نے ان کا مطلب نہیں سمجھا اور غلط فہمی کی بنا پر آپ کو شبہ پیش آیا۔
عذابِ قبر کی نفی وہی شخص کرسکتا ہے جو یہ نہ جانتا ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متواتر ارشادات اس کے بارے میں موجود ہیں، اور اگر اس بات کو جان لینے کے بعد کوئی شخص اس کا قائل نہیں تو اس کے معنی اس کے سوا کیا ہیں کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے، صحابہ کرام سے اور چودہ صدیوں کے اکابر امت سے بڑھ کر قرآن فہمی کا مدعی ہو؟ جو آیات آپ نے عذابِ قبر کی نفی پر پیش کی ہیں اگر ان سے واقعی عذابِ قبر کی نفی ثابت ہوتی تو یہ تمام اکابر عذابِ قبر کے کیسے قائل ہوسکتے تھے؟
چونکہ آپ کو اس اجمالی جواب سے تشفی نہیں ہوئی، اس لئے مناسب ہے کہ آپ کے شبہات کا تفصیلی جواب بھی عرض کیا جائے، آپ نے یہ تسلیم کیا ہے کہ فرعون اور آلِ فرعون کو صبح و شام (علی الدوام) آگ پر پیش کیا جاتا ہے، یہی عذابِ قبر ہے جس کو قرآن کریم میں بھی ذکر کیا گیا ہے۔ رہا یہ شبہ کہ فرعون کی لاش تو محفوظ ہے، اس کو عذاب ہوتا ہوا ہمیں نظر نہیں آتا، پھر فرعون اور آلِ فرعون کو عذاب کہاں ہو رہا ہے؟
اس کو یوں سمجھ لیجئے کہ ایک شخص آپ کے پہلو میں لیٹے ہوئے کوئی مہیب خواب دیکھ رہا ہے، آگ میں جل رہا ہے، پانی میں ڈوب رہا ہے، سانپ اس کے پیچھے دوڑ رہا ہے، درندے اس پر حملہ آور ہو رہے ہیں، اسے پکڑ کر پابندِ سلاسل کردیا جاتا ہے، طرح طرح کی سزائیں اسے دی جارہی ہیں، وہ ایک زور کی چیخ مار کر خواب سے بیدار ہوجاتا ہے، اس کے بدن پر لرزہ طاری ہے، جسم پسینے میں شرابور ہو رہا ہے، آپ اس سے پوچھتے ہیں کیا ہوا؟ وہ اپنا خواب بیان کرتا ہے، آپ اس سے کہتے ہیں کہ: تم بڑے جھوٹے ہو! میں تمہارے پاس بیٹھا ہوا تھا، مجھے تو نہ تمہاری آگ کے شعلے نظر آئے، نہ پانی کی لہریں دکھائی دیں، نہ میں نے تمہارے سانپ کی پھنکار سنی، نہ تمہارے درندوں کی دھاڑیں میرے کان میں پڑیں، نہ میں نے تمہارے طوق و سلاسل کو دیکھا․․․ فرمائیے! کیا آپ کی اس منطق سے وہ اپنے خواب کو جھٹلادے گا؟ نہیں! بلکہ وہ کہے گا کہ تم بیدار تھے، میں خواب کی جس دنیا میں تھا اس میں میرے ساتھ نہیں تھے۔ آپ دونوں کے درمیان صرف بیداری اور خواب کا فاصلہ تھا، اس لئے خواب دیکھنے والے پر خواب میں جو حالات گزرے، آپ پاس بیٹھے ہوئے ان حالات سے بے خبر رہے۔ اس طرح خوب سمجھ لیجئے کہ زندوں اور مردوں کے درمیان دنیا اور برزخ کا فاصلہ حائل ہے، اگر مردوں پر گزرنے والے حالات کا زندہ لوگوں کو احساس و شعور نہ ہو تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ مردوں کو کوئی عذاب و ثواب نہیں ہو رہا، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا اور ان کا جہان الگ الگ ہے، اس لئے ہمیں ان کے حالات کا شعور نہیں، گو ان کے بدن ہمارے سامنے پڑے ہوں۔ آپ جب عالم برزخ میں پہنچیں گے وہاں آپ کو مشاہدہ ہوگا کہ فرعون کے اسی بدن کو عذاب ہو رہا ہے جو ہمارے سامنے پڑا ہے، لیکن یہ عذاب ہمارے مشاہدہ سے ماورا ہے، جس طرح بیدار آدمی سونے والے کے حالات سے واقف نہیں لیکن خواب بیان کرنے والے کے اعتماد پر اس کے خواب کو تسلیم کرتا ہے، اسی طرح اگرچہ ہم قبر اور برزخ کے حالات سے واقف نہیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان پر اعتماد کرتے ہوئے ان پر ایمان لائے ہیں، کسی چیز کا محض اس بنا پر انکار کردینا کہ وہ ہمارے مشاہدہ سے بالاتر چیز ہے، عقلمندی نہیں حماقت ہے!
قرآن کریم میں ہے کہ ملک الموت روح قبض کرتا ہے، لوگ ہمارے سامنے مرتے ہیں، ہم نے کبھی ملک الموت کو روح قبض کرتے نہیں دیکھا، مگر چونکہ یہ ہمارے مشاہدہ سے بالاتر چیز ہے اس لئے صاحبِ وحی صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتماد کرتے ہوئے مشاہدہ کے بغیر اسے مانتے ہیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لاتے تھے اور گھنٹوں آپ سے گفتگو کرتے لیکن صحابہ کرام کو نہ ان کا سراپا نظر آتا تھا، نہ ان کی بات سنائی دیتی تھی۔ محض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتماد پر نزول جبرائیل علیہ السلام پر ایمان رکھتے تھے۔ پس جب ہم اللہ تعالیٰ کے وجود کو، اس کے فرشتوں کو، انبیاء گزشتہ کو، ان کی کتابوں کو، آخرت کو، حشر و نشر کو، حساب و کتاب کو، جنت و دوزخ کو، الغرض بے شمار غیبی حقائق کو جو ہمارے مشاہدہ سے ماورا ہیں، بے دیکھے محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتماد پر مان سکتے ہیں اور مانتے ہیں تو میں نہیں سمجھتا کہ برزخ اور قبر کے حالات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتماد کرتے ہوئے کیوں نہ مانیں، یہاں اپنے مشاہدہ کا حوالہ کیوں دیں․․․؟
قبر کے حالات کا تعلق عالمِ برزخ سے ہے، جو عالمِ غیب کی چیز ہے، اہل ایمان جس طرح دوسرے غیبی حقائق پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بھروسے ایمان لاتے ہیں اسی طرح قبر اور برزخ کے ان حالات پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے۔
“الذین یوٴمنون بالغیب” اہل ایمان کا پہلا وصف ہے، اور غیب سے مراد وہ حقائق ہیں جو ہماری عقل و مشاہدہ سے ما ورا ہیں، پس ایمان کی پہلی شرط یہ ہے کہ ان غیبی حقائق کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتماد پر مانا جائے۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم (خوف و دہشت کی بنا پر) مردوں کو دفن نہ کرسکوگے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ تمہیں قبر کا وہ عذاب سنادے جو میں سنتا ہوں۔” (مشکوٰة ص:۲۵)
آپ کا دوسرا شبہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ جلادئیے جاتے ہیں، بعض درندوں اور مچھلیوں کا لقمہ بن جاتے ہیں، انہیں قبر میں دفن کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی، انہیں عذاب کہاں دیا جاتا ہے؟
یہ شبہ بھی نہایت سطحی ہے، مرنے والے کے اجزا خواہ کہیں متفرق ہوجائیں وہ علمِ الٰہی سے تو غائب نہیں ہوجاتے۔ صحیح بخاری میں اس شخص کا واقعہ ذکر کیا گیا ہے جس نے مرتے وقت اپنے بیٹوں کو وصیت کی تھی کہ مرنے کے بعد مجھے جلاکر آدھی راکھ ہوا میں اڑادینا اور آدھی دریا میں بہادینا، کیونکہ میں بہت گناہ گار ہوں، اگر اللہ تعالیٰ کے ہاتھ آگیا تو مجھے سخت سزا ملے گی۔ مرنے کے بعد بیٹوں نے اس کی وصیت پر عمل کیا، اللہ تعالیٰ نے بر و بحر کے اجزا کو جمع فرماکر اسے زندہ فرمایا اور اس سے سوال کیا کہ: تو نے یہ وصیت کیوں کی تھی؟
اگر اللہ تعالیٰ کی یہ قدرت مسلّم ہے کہ وہ ہوا میں اڑائے ہوئے اور دریا میں بہائے ہوئے اجزا کو جمع کرسکتے ہیں تو یقین رکھئے کہ وہ ایسے شخص کو برزخ میں ثواب و عذاب دینے پر بھی قادر ہیں۔ ہاں! اگر کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پے در پے متواتر ارشادات پر بھی ایمان نہ رکھتا ہو، صحابہ کرامسے لے کر آج تک کے تمام اکابر امت کے اجماعی عقیدے کو بھی لغو سمجھتا ہو اور اسے اللہ تعالیٰ کے علمِ محیط اور قدرتِ کاملہ میں بھی شک و شبہ ہو، اسے اختیار ہے کہ قبر اور برزخ کے عذاب و ثواب کا شوق سے انکار کرے، جب وہ خود اس منزل سے گزرے گا تب یہ غیبی حقائق اس کے سامنے کھل جائیں گے مگر اس وقت کا ماننا بیکار ہوگا․․․!
اس میں کیا شبہ ہے کہ مردے اس جہان والوں کے حق میں واقعی مردہ ہیں، لیکن اس سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ ان میں برزخ کے عذاب و ثواب کا بھی شعور نہیں؟ جب ہم اسی دنیا میں دیکھتے ہیں کہ جاگنے والوں کو سونے والوں کے حالات کا شعور نہیں اور سونے والا بیداری کے حالات سے لاشعوری کے عالم میں چلا جاتا ہے، لیکن خواب کے حالات سے وہ بے شعور نہیں، تو اسی طرح کیوں نہ سمجھا جائے کہ مرنے والوں کو برزخی احوال کا پورا شعور ہے، اگرچہ ہمیں ان کے شعور کا شعور نہیں “ولٰکن لا تشعرون” میں اسی حقیقت کی طرف رہنمائی فرمائی گئی ہے۔
آپ کا چوتھا شبہ یہ تھا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ آپ ان لوگوں کو نہیں سناسکتے جو قبروں میں ہیں، بالکل بجا اور صحیح ہے۔ مگر اس آیتِ کریمہ میں تویہ فرمایا گیا ہے کہ قبر والوں کو سنانا ہماری قدرت سے خارج ہے، یہ تو نہیں کہ یہ بات اللہ تعالیٰ کی قدرت سے بھی خارج ہے، نہ یہ کہ مرنے والوں میں کسی چیز کے سننے کی صلاحیت ہی نہیں ہے، قبر کے مردے دنیا والوں کی بات سنتے ہیں یا نہیں؟ اس مسئلہ میں اہل علم کا اختلاف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور سے آج تک چلا آیا ہے، لیکن اس آیتِ کریمہ سے یہ سمجھنا کہ مردوں کو برزخ اور قبر کے حالات کا بھی شعور نہیں اہل حق میں اس کا کوئی بھی قائل نہیں۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ “الفقہ الاکبر” میں فرماتے ہیں:
“اور قبر میں منکر نکیر کا سوال کرنا حق ہے اور بندہ کی طرف روح کا لوٹایا جانا حق ہے اور قبر کا بھینچنا حق ہے اور اس کا عذاب تمام کافروں کے لئے اور بعض مسلمانوں کے لئے حق ہے ضرور ہوگا۔” (شرح فقہ اکبر ص:۱۲۱، ۱۲۲)
حشر کے حساب سے پہلے عذابِ قبر کیوں؟
س… حشر کے روز انسان کو اس کے حساب کتاب کے بعد جزا یا سزا ملے گی، پھر یہ حساب کتاب سے پہلے عذابِ قبر کیوں؟ ابھی تو اس کا مقدمہ ہی پیش نہیں ہوا اور فیصلے سے پہلے سزا کا عمل کیوں شروع ہوجاتا ہے؟ مجرم کو قید تو کیا جاسکتا ہے، مگر فیصلے سے پہلے اسے سزا نہیں دی جاتی، پھر یہ عذابِ قبر کس مد میں جائے گا؟ برائے کرم تفصیل سے جواب عنایت فرماکر مشکور فرمائیں۔
ج… پوری جزا و سزا تو آخرت ہی میں ملے گی۔ جبکہ ہر شخص کا فیصلہ اس کے اعمال کے مطابق چکایا جائے گا، لیکن بعض اعمال کی کچھ جزا و سزا دنیا میں بھی ملتی ہے، جیسا کہ بہت سی آیات و احادیث میں یہ مضمون آیا ہے، اور تجربہ و مشاہدہ بھی اس کی تصدیق کرتا ہے، اسی طرح بعض اعمال پر قبر میں بھی جزا و سزا ہوتی ہے، اور یہ مضمون بھی احادیثِ متواترہ میں موجود ہے۔ اس سے آپ کا یہ شبہ جاتا رہا کہ ابھی مقدمہ ہی پیش نہیں ہوا تو سزا کیسی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پوری سزا تو مقدمہ پیش ہونے اور فیصلہ چکائے جانے کے بعد ہی ہوگی، برزخ میں جو سزا ہوگی اس کی مثال ایسی ہے جیسے مجرم کو حوالات میں رکھا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کے لئے برزخ کی سزا کفارہٴ سیئات بن جائے، جیسا کہ دنیوی پریشانیاں اور مصیبتیں اہل ایمان کے لئے کفارہٴ سیئات ہیں۔ بہرحال قبر کا عذاب و ثواب برحق ہے۔ اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس سے ہر موٴمن کو پناہ مانگتے رہنا چاہئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد عذابِ قبر سے پناہ مانگتے تھے۔ متفق علیہ۔ (مشکوٰة ص:۲۵)
عذابِ قبر کا احساس زندہ لوگوں کو کیوں نہیں ہوتا؟
س… ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ گناہگار بندے کو قبر کا عذاب ہوگا، پرانے زمانے میں مصری لاشوں کو محفوظ کرلیا کرتے تھے، اور آج کل اس سائنسی دور میں بھی لاشیں کئی ماہ تک سردخانوں میں پڑی رہتی ہیں، چونکہ قبر میں نہیں ہوتیں تو پھر اسے عذابِ قبر کیسے ہوگا؟
ج… آپ کے سوال کا منشا یہ ہے کہ آپ نے عذابِ قبر کو اس گڑھے کے ساتھ مخصوص سمجھ لیا ہے، جس میں مردے کو دفن کیا جاتا ہے، حالانکہ ایسا نہیں، بلکہ عذاب قبر نام ہے اس عذاب کا جو مرنے کے بعد قیامت سے پہلے ہوتا ہے، خواہ میت کو دفن کردیا جائے یا سمندر میں پھینک دیا جائے یا جلادیا جائے یا لاش کو محفوظ کرلیا جائے اور یہ عذاب چونکہ دوسرے عالم کی چیز ہے اس لئے اس عالم میں اس کے آثار کا محسوس کیا جانا ضروری نہیں، اس کی مثال خواب کی سی ہے، خواب میں بعض اوقات آدمی پر سخت تکلیف دہ حالت گزرتی ہے لیکن پاس والوں کو اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔
پیر کے دن موت اور عذابِ قبر
س… میں نے پڑھا ہے کہ جو شخص (مسلمان) جمعہ کے دن یا رات میں مرے گا عذابِ قبر سے بچالیا جائے گا۔ آپ سے پیر والے دن اور رات کے بارے میں معلوم کرنا ہے کہ اس قسم کی کوئی فضیلت ہے؟ حدیث کی روشنی میں جواب دیں۔
ج… پیر کے دن کے بارے میں تو معلوم نہیں، جمعہ کے دن اور شبِ جمعہ میں مرنے والوں کے لئے عذابِ قبر سے محفوظ رہنے کا مضمون ایک روایت میں آیا ہے مگر یہ روایت کمزور ہے۔
کیا روح اور جان ایک ہی چیز ہے؟
س… کیا انسان میں روح اور جان ایک ہی چیز ہے یا روح علیحدہ اور جان علیحدہ چیز ہے؟ کیا جانوروں کے ساتھ بھی یہی چیز ہے؟ جب انسان دوبارہ زندہ کیا جائے گا تو کیا جان اور روح دوبارہ ڈالی جائے گی؟
ج… انسان اور حیوان کے درمیان جو چیز امتیاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ حیوان کے اندر تو “روحِ حیوانی” ہوتی ہے جس کو “جان” کہتے ہیں، اور انسان میں اس “روحِ حیوانی” کے علاوہ “روحِ انسانی” بھی ہوتی ہے، جس کو “نفس ناطقہ” یا “روحِ مجرد” بھی کہا جاتا ہے، اور “روحِ حیوانی” اس نفس ناطقہ کے لئے مرکب کی حیثیت رکھتی ہے، موت کے وقت روح حیوانی تحلیل ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے روح انسانی اور نفس ناطقہ کا انسانی بدن سے تدبیر و تصرف کا تعلق منقطع ہوجاتا ہے۔ برزخ میں بدن سے روح کا تعلق تدبیر و تصرف کا نہیں رہتا، بس اتنا تعلق فی الجملہ باقی رہتا ہے جس سے میت کو برزخی ثواب و عذاب کا ادراک ہوسکے۔ قیامت کے دن جب مردوں کو زندہ کیا جائے گا تو روح اور بدن کے درمیان پھر وہی تعلق قائم ہوجائے گا۔
قبر میں جسم اور روح دونوں کو عذاب ہوسکتا ہے
س… قبر کا عذاب صرف جسم کو ہوتا ہے یا روح کو بھی ساتھ ہوتا ہے؟
ج… قبر میں عذاب روح اور جسم دونوں کو ہوتا ہے، روح کو تو بلاواسطہ اور بدن کو بواسطہ روح کے۔
موت کے بعد مردہ کے تاثرات
س… موت کے بعد غسل، جنازے اور دفن ہونے تک انسانی روح پر کیا بیتتی ہے؟ اس کے کیا احساسات ہوتے ہیں؟ کیا وہ رشتہ داروں کو دیکھتا اور ان کی آہ و بکا کو سنتا ہے؟ جسم کو چھونے سے اسے تکلیف ہوتی ہے یا نہیں؟
ج… موت کے بعد انسان ایک دوسرے جہان میں پہنچ جاتا ہے، جس کو “برزخ” کہتے ہیں۔ وہاں کے پورے حالات کا اس جہان میں سمجھنا ممکن نہیں، اس لئے نہ تو تمام کیفیات بتائی گئی ہیں، نہ ان کے معلوم کرنے کا انسان مکلف ہے، البتہ جتنا کچھ ہم سمجھ سکتے تھے عبرت کے لئے اس کو بیان کردیا گیا ہے، چنانچہ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ میت پہچانتی ہے کہ کون اسے غسل دیتا ہے، کون اسے اٹھاتا ہے، کون اسے کفن پہناتا ہے اور کون اسے قبر میں اتارتا ہے۔ (مسند احمد، معجم اوسط طبرانی)
ایک اور حدیث میں ہے کہ جب جنازہ اٹھایا جاتا ہے تو اگر نیک ہو تو کہتا ہے کہ مجھے جلدی لے چلو، اور نیک نہ ہو تو کہتا ہے کہ ہائے بدقسمتی! تم مجھے کہاں لئے جارہے ہو؟ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
ایک اور حدیث میں ہے کہ جب میت کا جنازہ لے کر تین قدم چلتے ہیں تو وہ کہتا ہے:
“اے بھائیو! اے میری نعش اٹھانے والو! دیکھو! دنیا تمہیں دھوکا نہ دے، جس طرح اس نے مجھے دھوکا دیا، اور وہ تمہیں کھلونا نہ بنائے جس طرح اس نے مجھے کھلونا بنائے رکھا۔ میں جو کچھ پیچھے چھوڑے جارہا ہوں وہ تو وارثوں کے کام آئے گا مگر بدلہ دینے والا مالک قیامت کے دن اس کے بارے میں مجھ سے جرح کرے گا اور اس کا حساب و کتاب مجھ سے لے گا۔ ہائے افسوس! کہ تم مجھے رخصت کر رہے ہو اور تنہا چھوڑ کر آجاوٴگے۔” (ابن ابی الدنیا فی القبور)
ایک اور حدیث میں ہے (جو بہ سند ضعیف ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے) کہ میت اپنے غسل دینے والوں کو پہچانتی ہے اور اپنے اٹھانے والوں کو قسمیں دیتی ہے، اگر اسے روح و ریحان اور جنتِ نعیم کی خوشخبری ملی ہو تو کہتا ہے: مجھے جلدی لے چلو، اور اگر اسے جہنم کی بدخبری ملی ہو تو کہتا ہے: خدا کے لئے مجھے نہ لے جاوٴ۔ (ابوالحسن بن براء، کتاب الروضہ)
یہ تمام روایات حافظ سیوطی کی “شرح الصدور” سے لی گئی ہیں۔
قبر میں جسم سے روح کا تعلق
س… انسان جب مرجاتا ہے تو اس کی روح اپنے مقام پر چلی جاتی ہے لیکن مردے سے جب قبر میں سوال و جواب ہوتا ہے تو کیا پھر روح کو مردہ جسم میں لوٹادیا جاتا ہے یا اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے مردے کو قوت گویائی عطا کردیتا ہے؟ قبر میں عذاب صرف جسم کو ہوتا ہے یا روح کو بھی برابر کا عذاب ہوتا ہے؟
ج… حدیث پاک میں روح کے لوٹانے کا ذکر آتا ہے، جس سے مراد ہے جسم سے روح کا تعلق قائم کردیا جانا۔ روح خواہ علّییّن میں ہو یا سجین میں، اس کو بدن سے ایک خاص نوعیت کا تعلق ہوتا ہے، جس سے بدن کو بھی ثواب و عذاب اور رنج و راحت کا ادراک ہوتا ہے، عذاب و ثواب تو روح و بدن دونوں کو ہوتا ہے، مگر دنیا میں روح کو بواسطہ بدن راحت و الم کا ادراک ہوتا ہے اور برزخ یعنی قبر میں بدن کو بواسطہ روح کے احساس ہوتا ہے، اور قیامت میں دونوں کو بلاواسطہ ہوگا۔
نوٹ:۱:…”علّییّن” کا مادہ علو ہے، اور اس کا معنی بلندی ہے، یعنی علّییّن آسمانوں پر ایک بہت ہی عالی شان مقام ہے، جہاں نیک لوگوں کی ارواح پہنچائی جاتی ہیں وہاں ملاء اعلیٰ کی جماعت ان مقربین کی ارواح کا استقبال کرتی ہے۔
۲:…”سجّین” کا مادہ سجن ہے اور سجن عربی زبان میں قیدخانے کو کہتے ہیں، اس میں تنگی، ضیق اور پستی کا معنی پایا جاتا ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ سجین ساتوں زمینوں کے نیچے ہے۔ غرض بدکاروں کے اعمال و ارواح مرنے کے بعد اسی قیدخانے میں رکھی جاتی ہیں، جبکہ نیک لوگوں کے اعمال اور ارواح ساتوں آسمانوں سے اوپر موجود علّییّن میں نہایت اعزاز و اکرام کے ساتھ رکھی جاتی ہیں۔
دفنانے کے بعد روح اپنا وقت کہاں گزارتی ہے؟
س… دفنانے کے بعد روح اپنا وقت آسمان پر گزارتی ہے یا قبر میں یا دونوں جگہ؟
ج… اس بارے میں روایات بھی مختلف ہیں اور علماء کے اقوال بھی مختلف ہیں۔ مگر تمام نصوص کو جمع کرنے سے جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ کہ نیک ارواح کا اصل مستقر علّییّن ہے (مگر اس کے درجات بھی مختلف ہیں)، بد ارواح کا اصل ٹھکانا سجین ہے اور ہر روح کا ایک خاص تعلق اس کے جسم کے ساتھ کردیا جاتا ہے، خواہ جسم قبر میں مدفون ہو یا دریا میں غرق ہو، یا کسی درندے کے پیٹ میں۔ الغرض جسم کے اجزاء جہاں جہاں ہوں گے روح کا ایک خاص تعلق ان کے ساتھ قائم رہے گا اور اسی خاص تعلق کا نام برزخی زندگی ہے، جس طرح نورِ آفتاب سے زمین کا ذرہ چمکتا ہے، اسی طرح روح کے تعلق سے جسم کا ہر ذرہ “زندگی” سے منور ہوجاتا ہے، اگرچہ برزخی زندگی کی حقیقت کا اس دنیا میں معلوم کرنا ممکن نہیں۔
کیا روح کو دنیا میں گھومنے کی آزادی ہوتی ہے؟
س… روح کو دنیا میں گھومنے کی آزادی ہوتی ہے یا نہیں؟ کیا وہ جن جگہوں کو پہچانتی ہے، مثلاً گھر، وہاں جاسکتی ہے؟
ج… کفار و فجار کی روحیں تو “سجین” کی جیل میں مقید ہوتی ہیں، ان کے کہیں آنے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور نیک ارواح کے بارے میں کوئی ضابطہ بیان نہیں فرمایا گیا۔ اس لئے اس سلسلہ میں قطعیت کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے، اصل بات یہ ہے کہ روح اپنے تصرفات کے لئے جسم کی محتاج ہے، جس طرح جسم روح کے بغیر کچھ نہیں کرسکتا، اسی طرح روح بھی جسم کے بغیر تصرفات نہیں کرسکتی۔ یہ تو ظاہر ہے کہ موت کے بعد اس ناسوتی جسم کے تصرفات ختم کردئیے جاتے ہیں، اس لئے مرنے کے بعد روح اگر کوئی تصرف کرسکتی ہے تو مثالی جسم سے کرسکتی ہے، چنانچہ احادیث میں انبیاء کرام، صدیقین، شہداء اور بعض صالحین کے مثالی جسم دئیے جانے کا ثبوت ملتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ جن ارواح کو مرنے کے بعد مثالی جسم عطا کیا جاتا ہے وہ اگر باذن اللہ کہیں آتی جاتی ہوں تو اس کی نفی نہیں کی جاسکتی۔ مثلاً: لیلة المعراج میں انبیاء کرام علیہم السلام کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کرنے کے لئے بیت المقدس میں جمع ہونا، شہداء کا جنت میں کھانا پینا اور سیر کرنا، اس کے علاوہ صالحین کے بہت سے واقعات اس قسم کے موجود ہیں لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ اس کے لئے کوئی ضابطہ متعین کرنا مشکل ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب احد سے واپس ہوئے تو حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی قبر پر ٹھہرے اور فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ تم اللہ تعالیٰ کے نزدیک زندہ ہو۔ (پھر صحابہ سے مخاطب ہوکر فرمایا) پس ان کی زیارت کرو، اور ان کو سلام کہو، پس قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے! نہیں سلام کہے گا ان کو کوئی شخص مگر یہ ضرور جواب دیں گے اس کو قیامت تک۔ (حاکم، وصححہ بیہقی، طبرانی)
مسند احمد اور مستدرک حاکم کے حوالہ سے حضرت ام الموٴمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد نقل کیا ہے کہ: “میں اپنے گھر میں (یعنی حجرہٴ شریفہ روضہٴ مطہرہ میں) داخل ہوتی تو پردہ کے کپڑے اتار دیتی تھی، میں کہا کرتی تھی کہ یہ تو میرے شوہر (صلی اللہ علیہ وسلم) اور میرے والد ماجد ہیں، لیکن جب سے حضرت عمر دفن ہوئے اللہ کی قسم! میں کپڑے لپیٹے بغیر کبھی داخل نہیں ہوئی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے حیا کی بنا پر۔” (مشکوٰة باب زیارة القبور ص:۱۵۴)
کیا روحوں کا دنیا میں آنا ثابت ہے؟
س… کیا روحین دنیا میں آتی ہیں یا عالم برزخ میں ہی قیام کرتی ہیں؟ اکثر ایسی شہادتیں ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ روحیں اپنے اعزہ کے پاس آتی ہیں، شب برأت میں بھی روحوں کی آمد کے بارے میں سنا ہے۔ آپ اس مسئلے کی ضرور وضاحت کیجئے مرنے کے بعد سوم، دسواں اور چہلم کی شرعی حیثیت کی وضاحت بھی بذریعہ اخبار کردیجئے تاکہ عوام الناس کا بھلا ہو۔
ج… دنیا میں روحوں کے آنے کے بارے میں قطعی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں اور نہ اس سلسلہ میں کوئی صحیح حدیث ہی وارد ہے۔ سوئم، دسواں اور چہلم خودساختہ رسمیں ہیں، ان کی مکمل تفصیل آپ کو میری کتاب “اختلافِ امت اور صراطِ مستقیم” میں ملے گی۔
کیا روحیں جمعرات کو آتی ہیں؟
س… سنا ہے کہ ہر جمعرات کو ہر گھر کے دروازے پر روحیں آتی ہیں، کیا یہ صحیح ہے؟ اور کیا جمعرات کی شام کو ان کے لئے دعا کی جائے؟
ج… جمعرات کو روحوں کا آنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں، نہ اس کا کوئی شرعی ثبوت ہے، باقی دعا و استغفار اور ایصالِ ثواب ہر وقت ہوسکتا ہے، اس میں جمعرات کی شام کی تخصیص بے معنی ہے۔
کیا مرنے کے بعد روح چالیس دن تک گھر آتی ہے؟
س… کیا چالیس دن تک روح مرنے کے بعد گھر آتی ہے؟
ج… روحوں کا گھر آنا غلط ہے۔
حادثاتی موت مرنے والے کی روح کا ٹھکانا
س… ایک صاحب کا دعویٰ ہے کہ جو ہنگامی موت یا حادثاتی موت مرجاتے ہیں یا کسی کے مارڈالنے سے، سو ایسے لوگوں کی روحیں برزخ میں نہیں جاتیں وہ کہیں خلاء میں گھومتی رہتی ہیں اور متعلقہ افراد کو بسااوقات دھمکیاں دینے آجاتی ہیں۔ مگر مجھے یہ سب باتیں سمجھ میں نہیں آتیں، میرا خیال ہے کہ روح پرواز کے بعد علّییّن یا سجین میں چلی جاتی ہے اور ہر ایک کے لئے برزخ ہے اور قیامت تک وہ وہیں رہتی ہے، براہ کرم قرآن و سنت کی روشنی میں میری تشفی فرمائیے۔
ج… ان صاحب کا دعویٰ غلط ہے اور دورِ جاہلیت کی سی توہم پرستی پر مبنی ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں آپ کا نظریہ صحیح ہے، مرنے کے بعد نیک ارواح کا مستقر علّییّن ہے اور کفار و فجار کی ارواح سجین کے قیدخانہ میں بند ہوتی ہیں۔
روح پرواز کرنے کے بعد قبر میں سوال کا جواب
کس طرح دیتی ہے؟
س… موت واقع ہوتے ہی روح پرواز کرجاتی ہے، جسم دفن ہونے کے بعد یہ روح دوبارہ واپس آکر منکر و نکیر کے سوالوں کے جواب کیسے دیتی ہے؟
ج… قبر میں روح کا ایک خاص تعلق جس کی کیفیت کا ادراک ہم نہیں کرسکتے، جسم سے قائم کردیا جاتا ہے جس سے مردہ میں حس و شعور پیدا ہوجاتا ہے۔
مرنے کے بعد روح دوسرے قالب میں نہیں جاتی
س… کیا انسان دنیا میں جب آتا ہے تو دو وجود لے کر آتا ہے، ایک فنا اور دوسرا بقا، فنا والا وجود تو بعد مرگ دفن کردینے پر مٹی کا بنا ہوا تھا، مٹی میں مل گیا۔ بقا ہمیشہ قائم رہتا ہے؟ مہربانی فرماکر اس سوال کا حل قرآن و حدیث کی رو سے بتائیں کیونکہ میرا دوست الجھ گیا ہے، یعنی دوسرے جنم کے چکر میں۔
ج… اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ مرنے کے بعد روح باقی رہتی ہے اور دوبارہ اس کو کسی اور قالب میں دنیا میں پیدا نہیں کیا جاتا، اواگون والوں کا عقیدہ یہ ہے کہ ایک ہی روح لوٹ لوٹ کر مختلف قالبوں میں آتی رہتی ہے، کبھی انسانی قالب میں، کبھی کتے، گدھے اور سانپ وغیرہ کی شکل میں۔ یہ نظریہ عقلاً و نقلاً غلط ہے۔
کیا قیامت میں روح کو اٹھایا جائے گا؟
س… سنا ہے کہ مرنے کے بعد قبر کے اندر انسان جاتے ہیں یہی اعضاء گل سڑکر کیڑوں مکوڑوں کی نذر ہوجاتے ہیں، اگر یہی اعضاء کسی ضرورت مند کو دے دئیے جائیں تو وہ شخص زندگی بھر اس عطیہ دینے والے کو دعائیں دیتا رہے گا۔ کہا جاتا ہے کہ انسان جس حالت میں مرا ہوگا اسی حالت میں اٹھایا جائے گا، یعنی اگر اس کے اعضاء نکال دئیے گئے ہوں گے تو وہ بغیر اعضاء کے اٹھایا جائے گا، مثلاً اندھا وغیرہ، جبکہ اسلامی کتابوں سے ظاہر ہے کہ قیامت کے روز انسان کے جسموں کو نہیں بلکہ اس کی روح کو اٹھایا جائے گا۔
ج… اعضاء کا گل سڑجانا خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے، اس سے یہ استدلال نہیں کیا جاسکتا کہ میت کے اعضاء بھی کاٹ لینا جائز ہے۔ معلوم نہیں آپ نے کون سی اسلامی کتابوں میں یہ لکھا دیکھا ہے کہ قیامت کے روز انسان کے جسم کو نہیں بلکہ صرف اس کی روح کو اٹھایا جائے گا؟ میں نے جن اسلامی کتابوں کو پڑھا ہے ان میں تو حشر جسمانی لکھا ہے۔
برزخی زندگی کیسی ہوگی؟
س… روزنامہ جنگ کراچی کے صفحہ “اقرأ” میں آپ کا مفصل مضمون روح کے بارے میں پڑھا جو کہ ایک صاحب کے سوال کے جواب میں لکھا گیا تھا، اس مضمون کو پڑھنے کے بعد چند سوالات ذہن میں آئے ہیں، جو گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔
آپ نے لکھا ہے کہ: “کفار و فجار کی روحیں تو “سجین” کی جیل میں مقید ہوتی ہیں، ان کے کہیں آنے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اور نیک ارواح کے بارے میں کوئی ضابطہ بیان نہیں فرمایا گیا۔”
اور آپ نے لکھا ہے: “اگر باذن اللہ (نیک ارواح) کہیں آتی جاتی ہیں تو اس کی نفی نہیں کی جاسکتی۔”
کیا ان دو باتوں کا ثبوت کہیں قرآن و حدیث سے ملتا ہے؟
حالانکہ قرآن میں سورہٴ موٴمنون میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ترجمہ:… “(سب مرنے والوں) کے پیچھے ایک برزخ (آڑ) حائل ہے، دوسری زندگی تک” یعنی مرنے کے بعد دنیا میں واپس نہیں آسکتے، خواہ وہ نیک ہوں یا بد۔
جیسا کہ سورہ یٰسین میں آیا ہے:
ترجمہ:…”کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اس سے پہلے بہت سے لوگوں کو ہلاک کردیا تھا، اب وہ ان کی طرف لوٹ کر نہیں آئیں گے۔”
اس بات کا ایک اور ثبوت ترمذی اور بیہقی کی اس روایت سے ہوتا ہے کہ جابر بن عبداللہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف دیکھا اور فرمایا کہ کیا بات ہے میں تم کو غم زدہ پارہا ہوں۔ جابر کہتے ہیں کہ میں نے جواب میں عرض کیا کہ: والد “اُحد” میں شہید ہوگئے اور ان پر قرض باقی ہے اور کنبہ بڑا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جابر! کیا تم کو میں یہ بات بتاوٴں کہ اللہ نے کسی سے بھی پردے کے بغیر بات نہیں کی مگر تمہارے والد سے آمنے سامنے ہوکر کہا کہ: عبداللہ! مانگو، تم کو دوں گا۔ تمہارے باپ نے کہا: مالک مجھے پھر دنیا میں واپس لوٹادے تاکہ میں دوسری بار تیری راہ میں قتل کیا جاوٴں! اس پر مالک عزوجل نے ارشاد فرمایا کہ: میری طرف سے یہ بات کہی جاچکی ہے کہ لوگ دنیا سے چلے آنے کے بعد پھر اس کی طرف واپس نہ جاسکیں گے۔ (ترمذی و بیہقی)۔
عموماً لوگ کہتے ہیں کہ یہاں مراد جسمانی جسم کے ساتھ ہے، کیونکہ جسم بغیر روح کے بے معنی ہے اور روح بغیر جسم کے۔ اگر یہ بات تسلیم کی جائے کہ صرف روح دنیا میں آتی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ روح سنتی بھی ہے اور دیکھتی بھی ہے تو یہ بات سورہٴ موٴمنون کی آیات سے ٹکراتی ہے، سورہٴ احقاف میں اللہ نے یہ بات واضح کردی ہے کہ دنیا سے گزرجانے والے لوگوں کو دنیاوی حالات کی کچھ خبر نہیں رہتی، ارشاد ربانی ہے:
ترجمہ:…”اس شخص سے زیادہ گمراہ کون ہوگا جو اللہ کے علاوہ دوسروں کو آواز دے حالانکہ وہ قیامت تک اس کی پکار کا جواب نہیں دے سکتے وہ تو ان کی پکار سے غافل ہیں۔” (الاحقاف آیت:۵، ۶)۔
دراصل یہی وہ گمراہ کن عقیدہ ہے جو شرک کی بنیاد بنتا ہے، لوگ نیک بزرگوں کو زندہ و حاضر و ناظر سمجھ کر دستگیری اور حاجت روائی کے لئے پکارتے ہیں اور اللہ کے ساتھ ظلمِ عظیم کرتے ہیں۔
ازراہ کرم ان باتوں کو کسی قریبی اشاعت میں جگہ دیں تاکہ لوگوں کے دل میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات دور ہوسکیں، اللہ ہمارا اور آپ کا حامی و ناصر ہوگا۔
ج… یہ تو اسلام کا قطعی عقیدہ ہے کہ موت فنائے محض کا نام نہیں کہ مرنے کے بعد آدمی معدومِ محض ہوجائے، بلکہ ایک جہان سے دوسرے جہان میں اور زندگی کے ایک دور سے دوسرے دور میں منتقل ہونے کا نام موت ہے۔ پہلے دور کو “دنیوی زندگی” کہتے ہیں اور دوسرے دور کا نام قرآن کریم نے “برزخ” رکھا ہے۔
برزخ اس آڑ اور پردے کو کہتے ہیں جو دو چیزوں کے درمیان واقع ہو، چونکہ یہ برزخی زندگی ایک عبوری دور ہے اس لئے اس کا نام “برزخ” تجویز کیا گیا۔
آپ نے سوال میں جو احادیث نقل کی ہیں ان کا مدعا واضح طور پر یہ ہے کہ مرنے والے عام طور پر “برزخ” سے دوبارہ دنیوی زندگی کی طرف واپس نہیں آتے (البتہ قرآن کریم میں زندہ کئے جانے کے جو واقعات مذکور ہیں، ان کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا)۔
اور میں نے جو لکھا ہے کہ: “اگر باذن اللہ نیک ارواح کہیں آتی جاتی ہوں تو اس کی نفی نہیں کی جاسکتی۔” اس سے دنیوی زندگی اور اس کے لوازمات کی طرف پلٹ آنا مراد نہیں کہ ان آیات و احادیث کے منافی ہو، بلکہ برزخی زندگی ہی کے دائرے میں آمد و رفت مراد ہے، اور وہ بھی باذن اللہ ․․․!
رہا آپ کا یہ ارشاد کہ:
“دراصل یہی وہ گمراہ کن عقیدہ ہے جو شرک کی بنیاد بنتا ہے، لوگ نیک بزرگوں کو زندہ اور حاضر و ناظر سمجھ کر دستگیری اور حاجت روائی کے لئے پکارتے ہیں۔”
اگر اس سے آپ کی مراد “برزخی زندگی” ہے تو جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا یہ اسلامی عقیدہ ہے، اس کو گمراہ کن عقیدہ کہہ کر شرک کی بنیاد قرار دینا صحیح نہیں۔ جبکہ حضرت جابر کی وہ حدیث جو آپ نے سوال میں نقل کی ہے وہ خود اس “برزخی زندگی” کا منہ بولتا ثبوت ہے اور پھر شہداء کو تو صراحتاً زندہ کہا گیا ہے اور ان کو مردہ کہنے کی ممانعت کی گئی ہے۔ شہداء کی یہ زندگی بھی برزخی ہی ہے ورنہ ظاہر ہے کہ دنیوی زندگی کا دور تو ان کا بھی پورا ہوچکا ہے۔ بہرحال “برزخی زندگی” کے عقیدے کو گمراہ کن نہیں کہا جاسکتا۔ رہا لوگوں کا بزرگوں کو حاضر و ناظر سمجھ کر انہیں دستگیری کے لئے پکارنا! تو اس کا “برزخی زندگی” سے کوئی جوڑ نہیں، نہ یہ زندگی اس شرک کی بنیاد ہے۔
اولاً:…مشرکین تو پتھروں، مورتیوں، درختوں، دریاوٴں، چاند، سورج اور ستاروں کو بھی نفع و نقصان کا مالک سمجھتے اور ان کو حاجت روائی اور دستگیری کے لئے پکارتے ہیں۔ کیا اس شرک کی بنیاد ان چیزوں کی “برزخی زندگی” ہے؟ دراصل جہلاء شرک کے لئے کوئی بنیاد تلاش نہیں کیا کرتے، شیطان ان کے کان میں جو افسوں پھونک دیتا ہے وہ ہر دلیل اور منطق سے آنکھیں بند کرکے اس کے القاء کی پیروی شروع کردیتے ہیں۔ جب پوجنے والے بے جان پتھروں تک کو پوجنے سے باز نہیں آتے تو اگر کچھ لوگوں نے بزرگوں کے بارے میں مشرکانہ غلو اختیار کرلیا تو اسلامی عقیدے سے اس کا کیا تعلق ہے؟
ثانیاً:…جیسا کہ قرآن مجید میں ہے، مشرکین عرب فرشتوں کو بھی خدائی میں شریک، نفع و نقصان کا مالک اور خدا کی بیٹیاں سمجھتے تھے اور تقرب الی اللہ کے لئے ان کی پرستش کو وسیلہ بناتے تھے، کیا ان کے اس جاہلانہ عقیدے کی وجہ سے فرشتوں کی حیات کا انکار کردیا جائے؟ حالانکہ ان کی حیات برزخی نہیں دنیوی ہے اور زمینی نہیں آسمانی ہے۔ اب اگر کچھ لوگوں نے انبیاء واولیاء کی ذوات مقدسہ کے بارے میں بھی وہی ٹھوکر کھائی جو مشرکین عرب نے فرشتوں کے بارے میں کھائی تھی تو اس میں اسلام کے “حیاتِ برزخی” کے عقیدے کا کیا قصور ہے؟ اور اس کا انکار کیوں کیا جائے․․․؟
ثالثاً:…جن بزرگوں کو لوگ بقول آپ کے زندہ سمجھ کر دستگیری اور حاجت روائی کے لئے پکارتے ہیں، وہ اسی دنیا میں لوگوں کے سامنے زندگی گزار کر تشریف لے گئے ہیں۔ یہ حضرات اپنی پوری زندگی میں توحید و سنت کے داعی اور شرک و بدعت سے مجتنب رہے، اپنے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں التجائیں کرتے رہے، انہیں بھوک میں کھانے کی ضرورت ہوتی تھی، بیماری میں دوا دارو اور علاج معالجہ کرتے تھے، انسانی ضروریات کے محتاج تھے، ان کی یہ ساری حالتیں لوگوں نے سر کی آنکھوں سے دیکھیں اس کے باوجود لوگوں نے ان کے تشریف لے جانے کے بعد ان کو نفع و نقصان کا مالک و مختار سمجھ لیا اور انہیں دستگیری و حاجت روائی کے لئے پکارنا شروع کردیا، جب ان کی تعلیم، ان کے عمل اور ان کی انسانی احتیاج کے علی الرغم لوگوں کے عقائد میں غلو آیا تو کیا “حیاتِ برزخی” (جو بالکل غیرمحسوس چیز ہے) کے انکار سے اس غلو کی اصلاح ہوجائے گی؟
الغرض نہ حیاتِ برزخی کے اسلامی عقیدے کو شرک کی بنیاد کہنا صحیح ہے، نہ اس کے انکار سے لوگوں کے غلو کی اصلاح ہوسکتی ہے، ان کی اصلاح کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں قرآن و سنت اور خود ان بزرگوں کی تعلیمات سے پورے طور پر آگاہ کیا جائے۔
“حیاتِ برزخی” کے ضمن میں آپ نے “سماعِ موتیٰ” کا مسئلہ بھی اٹھایا ہے، چونکہ یہ مسئلہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے زمانے سے اختلافی چلا آرہا ہے، اس لئے میں بحث نہیں کرنا چاہتا، البتہ یہ ضرور عرض کروں گا کہ سماعِ موتیٰ کا مسئلہ بھی اس شرک کی بنیاد نہیں جس کا آپ نے ذکر فرمایا ہے، اس کی دلیل میں ایک چھوٹی سی بات عرض کرتا ہوں، آپ کو معلوم ہوگا کہ بہت سے فقہائے حنفیہ سماعِ موتیٰ کے قائل ہیں اس کے باوجود ان کا فتویٰ یہ ہے:
“وفی البزازیة: قال علمائنا من قال ارواح المشائخ حاضرة تعلم، یکفر۔” (البحر الرائق ج:۵ ص:۱۲۴)
ترجمہ:…”فتاویٰ بزازیہ میں لکھا ہے کہ ہمارے علماء نے فرمایا جو شخص یہ کہے کہ بزرگوں کی روحیں حاضر و ناظر اور وہ سب کچھ جانتی ہیں، تو ایسا شخص کافر ہوگا۔”
اس عبارت سے آپ یہی نتیجہ اخذ کریں گے کہ سماعِ موتیٰ کے مسئلہ سے نہ بزرگوں کی ارواح کا حاضر و ناظر ہونا لازم آتا ہے، نہ عالم الغیب ہونا، ورنہ فقہائے حنفیہ جو سماعِ موتیٰ کے قائل ہیں، یہ فتویٰ نہ دیتے۔
آپ نے سورہٴ احقاف کی جو آیت نقل فرمائی ہے، اس کو حضرات مفسرین نے مشرکین عرب سے متعلق قرار دیا ہے، جو بتوں کو پوجتے تھے، گویا “لا یستجیبون” اور “غافلون” کی یہ دونوں صفات جو اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمائی ہیں، وہ بتوں کی صفات ہیں جو جمادِ محض تھے، لیکن اگر اس آیت کو تمام معبودانِ باطلہ کے لئے عام بھی مان لیا جائے تب بھی اس سے ان کی حاجت روائی پر قادر نہ ہونا اور غائب ہونا تو لازم آتا ہے مگر اس سے حیات کی نفی ثابت نہیں ہوتی کیونکہ عموم کی حالت میں یہ آیت فرشتوں کو بھی شامل ہوگی، اور آپ جانتے ہیں کہ ان سے قدرت اور حاضر و ناظر ہونے کی نفی تو صحیح ہے مگر حیات کی نفی صحیح نہیں بلکہ خلافِ واقعہ ہے۔
آخر میں گزارش ہے کہ “برزخ” جو دنیا و آخرت کے درمیان واقع ہے، ایک مستقل جہان ہے اور ہماری عقل و ادراک کے دائرے سے ماورا ہے، اس عالم کے حالات کو نہ دنیوی زندگی پر قیاس کیا جاسکتا ہے، نہ اس میں اندازے اور تخمینے لگائے جاسکتے ہیں، یہ جہان چونکہ ہمارے شعور و احساس اور وجدان کی حدود سے خارج ہے اس لئے عقلِ صحیح کا فیصلہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کے جو حالات ارشاد فرمائے (جو صحیح اور مقبول احادیث سے ثابت ہوں) انہیں ردّ کرنے کی کوشش نہ کی جائے، نہ قیاس و تخمین سے کام لیا جائے۔
اہل قبور کے بارے میں چند ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنے اس مضمون میں نقل کرچکا ہوں، جس کا آپ نے حوالہ دیا ہے، اور چند امور یہ ہیں:
۱:…قبر میں میت کے بدن میں روح کا لوٹایا جانا۔
۲:…منکر نکیر کا سوال و جواب کرنا۔
۳:…قبر کا عذاب و راحت۔
۴:…بعض اہل قبور کا نماز و تلاوت میں مشغول ہونا۔
۵:…اہل قبور (جو موٴمن ہوں) کا ایک دوسرے سے ملاقات کرنا۔
۶:…اہل قبور کو سلام کہنے کا حکم۔
۷:…اہل قبور کی طرف سے سلام کا جواب دیا جانا۔
۸:…اہل قبور کو دعا و استغفار اور صدقہ خیرات سے نفع پہنچانا۔
۹:…برزخی حدود کے اندر اہل ایمان کی ارواح کا باذنِ الٰہی کہیں آنا جانا جیسا کہ شبِ معراج میں انبیاء علیہم السلام کا بیت المقدس میں اجتماع ہوا۔
خلاصہ یہ کہ جو چیزیں ثابت ہیں ان سے انکار نہ کیا جائے، اور جو ثابت نہیں ان پر اصرار نہ کیا جائے، یہی صراطِ مستقیم ہے، جس کی ہمیں تعلیم دی گئی ہے، والله الموفق!
بزرگوں کے مزار پر عرس کرنا، چادریں چڑھانا
ان سے منتیں مانگنا
س… کئی جگہ پر کچھ بزرگوں کے مزار بنائے جاتے ہیں (آج کل تو بعض نقلی بھی بن رہے ہیں) اور ان پر ہر سال عرس ہوتے ہیں، چادریں چڑھائی جاتی ہیں، ان سے منتیں مانگی جاتی ہیں، یہ کہاں تک صحیح ہے؟
ج… یہ بالکل ناجائز اور حرام ہے، بزرگوں کے عرسوں کے رواج کی بنیاد غالباً یہ ہوگی کہ کسی شیخ کی وفات کے بعد ان کے مریدین ایک جگہ جمع ہوجایا کریں اور کچھ وعظ و نصیحت ہوجایا کرے۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ مقصد تو غائب ہوگیا اور بزرگوں کے جانشین باقاعدہ استخوان فروشی کا کاروبار کرنے لگے اور “عرس شریف” کے نام سے بزرگوں کی قبروں پر سینکڑوں بدعات و محرمات اور خرافات کا ایک سیلاب امڈ آیا اور جب قبر فروشی کا کاروبار چمکتا دیکھا تو لوگوں نے “جعلی قبریں” بنانا شروع کردیں، انا لله وانا الیہ راجعون!
قبر پر پھول ڈالنا خلافِ سنت ہے
س… اپنے عزیزوں کی قبر پر پانی ڈالنا، پھول ڈالنا، آٹا ڈالنا اور اگربتی جلانا صحیح ہے یا نہیں؟
ج… دفن کے بعد پانی چھڑک دینا جائز ہے، پھول ڈالنا خلافِ سنت ہے، آٹا ڈالنا مہمل بات ہے اور اگربتی جلانا مکروہ و ممنوع ہے۔
قبروں پر پھول ڈالنے کے بارے میں شاہ تراب الحق کا موٴقف
گزشتہ جمعہ ۱۲/دسمبر روزنامہ جنگ میں سوالات و جوابات کے کالم میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے جناب یوسف لدھیانوی صاحب نے قبروں پر پھول ڈالنے کو خلافِ سنت قرار دیا ہے۔ بحیثیت ایک سنی مذہبی خیالات رکھنے کے پیش نظر ہمارا فرض ہے کہ ہم صحیح مسئلہ کی نشاندہی کریں۔ واضح ہو کہ قبر پر پھول ڈالنا قطعی خلافِ سنت نہیں ہے۔ جیسا کہ حدیث رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ دو قبروں کے پاس سے گزرے اور فرمایا کہ ان دونوں قبروں پر عذاب ہو رہا ہے، تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تر شاخ لی اور اس کو چیر کر دونوں قبروں پر ایک ایک گاڑ دی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پوچھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جب تک یہ تر رہیں گی، ان پر عذاب میں کمی رہے گی۔ (مشکوٰة شریف باب آداب الخلاء فصل اول) اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ نے اشعة اللمعات شرح مشکوٰة میں فرمایا کہ اس حدیث سے ایک جماعت نے دلیل پکڑی ہے کہ قبروں پر سبزی پھول اور خوشبو ڈالنے کا جواز ہے۔ ملا علی قاری نے مرقات میں اسی حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرمایا کہ مزاروں پر تر پھول ڈالنا سنت ہے۔ نیز علامہ عبدالغنی نابلسی نے بھی “کشف النور” میں اس کی تصریح فرمائی۔ طحطاوی علی مراقی الفلاح میں صفحہ:۳۶۴ میں ہے کہ ہمارے بعض متأخرین اصحاب نے اس حدیث کی رو سے فتویٰ دیا کہ خوشبو اور پھول قبر پر چڑھانے کی جو عادت ہے وہ سنت ہے، فقہ حنفیہ کی مشہور و معروف کتاب فتاویٰ عالمگیری کتاب الکراہیت جلد پنجم، باب زیارت القبور میں قبروں پر پھول ڈالنے کو اچھا فعل لکھا ہے۔ نیز علامہ شامی نے بھی شامی میں جو فقہ حنفیہ کی معروف کتاب ہے، جلد اول بحث زیارت القبور میں اسے مستحب کہا ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ قبروں پر پھول ڈالنے کو خلافِ سنت کہنا سخت جہالت اور علمِ دین کی کتب احادیث و کتب فقہ سے نابلد ہونے کی دلیل ہے۔ ہمارے خیال میں روزنامہ جنگ کو اس قسم کی دل آزاری والی بحث سے بچنا چاہئے اور جواب دینے والوں کو بھی تنبیہ کردینا چاہئے۔ شاہ تراب الحق قادری
مسئلہ کی تحقیق یعنی قبروں پر پھول ڈالنا بدعت ہے
س… روزنامہ جنگ ۱۲/دسمبر کی اشاعت میں آپ نے جو ایک سوال کے جواب میں لکھا تھا کہ: “قبروں پر پھول چڑھانا خلافِ سنت ہے۔” ۱۹/دسمبر کی اشاعت میں ایک صاحب شاہ تراب الحق قادری نے آپ کو جاہل اور کتاب و سنت سے بے بہرہ قرار دیتے ہوئے اس کو سنت لکھا ہے، جس سے کافی لوگ تذبذب میں مبتلا ہوگئے ہیں، براہ کرم یہ خلجان دور کیا جائے۔
ج… اس مسئلہ کی تحقیق کے لئے چند امور کا پیش نظر رکھنا ضروری ہے:
۱:…”سنت” آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معمول کو کہتے ہیں۔ خلفائے راشدین اور صحابہ و تابعین کے عمل کو بھی سنت کے ذیل میں شمار کیا جاتا ہے۔ جو عمل خیرالقرون کے بعد ایجاد ہوا ہو وہ سنت نہیں کہلاتا۔ قبروں پر پھول ڈالنا اگر ہمارے دین میں سنت ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ و تابعین اس پر عمل پیرا ہوتے، لیکن پورے ذخیرہٴ حدیث میں ایک روایت بھی نہیں ملتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یا کسی خلیفہ راشد، کسی صحابی یا تابعی نے قبروں پر پھول چڑھائے ہوں، اس لئے یہ نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، نہ خلفائے راشدین کی، نہ صحابہ کی، نہ تابعین کی۔
۲:…ہمارے دین میں قرآن و حدیث اور اجماعِ امت کے بعد ائمہ مجتہدین کا اجتہاد بھی شرعی حجت ہے، پس جس عمل کو کسی امام مجتہد نے جائز یا مستحسن قرار دیا ہو وہ بھی سنت ہی سے ثابت شدہ چیز سمجھی جائے گی۔ قبروں پر پھول چڑھانے کو کسی امام مجتہد نے بھی مستحب قرار نہیں دیا۔ فقہ حنفی کی تدوین ہمارے امام اعظم اور ان کے عالی مرتبت شاگردوں کے زمانہ سے شروع ہوئی، اور ہمارے ائمہ فقہاء نے تمام سنن و آداب کو ایک ایک کرکے مدون فرمایا، مگر ہمارے پورے فقہی ذخیرہ میں کسی امام کا یہ قول ذکر نہیں کیا گیا کہ قبروں پر پھول چڑھانا بھی سنت ہے یا مستحب ہے، اور نہ کسی امام و فقیہ سے یہ منقول ہے کہ انہوں نے کسی قبر پر پھول چڑھائے ہوں۔
۳:…جیسا کہ علامہ شامی نے لکھا ہے، تین صدیوں کے بعد سے متأخرین کا دور شروع ہوتا ہے، یہ حضرات خود مجتہد نہیں تھے، بلکہ ائمہ مجتہدین کے مقلد تھے، ان کے استحسان سے کسی فعل کا سنت یا مستحب ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ چنانچہ امام ربانی مجدد الف ثانی مکتوبات شریفہ میں فتاویٰ غیاثیہ سے نقل کرتے ہیں کہ:
“شیخ امام شہید نے فرمایا کہ: ہم مشائخ بلخ کے استحسان کو نہیں لیتے، بلکہ ہم صرف اپنے متقدمین اصحاب کے قول کو لیتے ہیں، کیونکہ کسی علاقہ میں کسی چیز کا رواج ہوجانا اس کے جواز کی دلیل نہیں۔ جواز کی دلیل وہ تعامل ہے جو صدرِ اول (زمانہ خیرالقرون) سے چلا آتا ہو، تاکہ یہ دلیل ہو اس بات کی کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اس عمل پر برقرار رکھا تھا، کیونکہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ہی تشریح ہوگی، لیکن جو تعامل کہ صدرِ اول سے متواتر چلا نہ آتا ہو تو بعد کے لوگوں کا فعل حجت نہیں، اِلَّا یہ کہ اس پر تمام ملکوں کے تمام انسانوں کا تعامل ہو، یہاں تک کہ اجماع ہوجائے اور اجماع حجت ہے۔ دیکھئے! اگر لوگوں کا تعامل شراب فروش یا سودخوری پر ہوجائے تو اس کے حلال ہونے کا فتویٰ نہیں دیا جائے گا۔” (مکتوب:۵۴ دفتر دوم)
امام شہید کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ اگر مشائخ متأخرین نے قبروں پر پھول چڑھانے کے استحسان کا فتویٰ دیا ہوتا تب بھی ہم اس فعل کو “سنت” نہیں کہہ سکتے تھے، لیکن ہمارے متأخرین مشائخ میں سے بھی کسی نے کبھی قبروں پر پھول چڑھانے کے جواز یا استحسان کا فتویٰ نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ مُلّا علی قاری اور علامہ شامی نے متأخرین شافعیہ کا فتویٰ تو نقل کیا ہے (جیسا کہ آگے معلوم ہوگا) مگر انہیں کسی حنفی فقیہ کا متأخرین میں سے کوئی بھی قول نہیں مل سکا۔ اب انصاف کیا جاسکتا ہے کہ جو عمل نہ تو صاحبِ شریعت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو، نہ صحابہ و تابعین سے، نہ ہمارے ائمہ مجتہدین سے، نہ ہمارے متقدمین و متأخرین سے، کیا اس کو سنت کہا جاسکتا ہے․․․؟
۴:…شاہ صاحب نے مشکوٰة آداب الخلاء سے جو حدیث نقل کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دو قبروں پر شاخیں گاڑی تھیں، اس سے عام قبروں پر پھول چڑھانے کا جواز ثابت نہیں ہوتا، کیونکہ حدیث میں صراحت ہے کہ یہ شاخیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں یا گناہگار مسلمانوں کی ایسی قبروں پر گاڑی تھیں جو خدا تعالیٰ کے قہر و عذاب کا مورد تھیں۔ عام قبروں پر شاخیں گاڑنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا معمول نہیں تھا۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو معاملہ شاذ و نادر فساق کی مقہور و معذب قبروں کے ساتھ فرمایا، وہی سلوک اولیاء اللہ کی قبورِ طیبہ کے ساتھ روا رکھنا، ان اکابر کی سخت اہانت ہے اور پھر اس کو “سنت” کہنا ستم بالائے ستم ہے۔ سنت تو جب ہوتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گناہ گاروں کی قبروں کے بجائے (جن کا معذب ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحیِ قطعی سے معلوم ہوگیا تھا) اپنے چہیتے چچا سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ یا اپنے لاڈلے اور محبوب بھائی حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ یا کسی اور مقدس صحابی کی قبر سے یہ سلوک فرمایا ہوتا۔
۵:…پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تو ان قبروں کا معذب ہونا وحیِ قطعی سے معلوم ہوگیا تھا، اور جیسا کہ صحیح مسلم (ج:۲ ص:۴۱۸) میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں تصریح ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے شفاعت فرمائی تھی اور قبولیتِ شفاعت کی مدت کے لئے بطورِ علامت شاخیں نصب فرمائی تھیں۔ اس لئے اول تو یہ واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے اور اس کا شمار معجزاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کیا جاتا ہے۔ بالفرض کوئی شخص اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت اور معجزہ تسلیم نہ کرے تب بھی اس حدیث سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوسکتا ہے کہ جس شخص کو کسی قطعی ذریعہ سے کسی قبر کا معذب و مقہور ہونا معلوم ہوجائے اور وہ شفاعت کی اہلیت بھی رکھتا ہو، وہ بطورِ علامت قبر پر شاخیں نصب کرسکتا ہے، لیکن اس حدیث سے عام قبروں پر شاخیں گاڑنے اور پھول چڑھانے کا سنتِ نبوی ہونا کسی طرح ثابت نہیں ہوتا اور نہ اس مضمون کا اس حدیث سے کوئی دور کا تعلق ہے۔ حافظ بدر الدین عینی عمدة القاری شرح بخاری میں لکھتے ہیں:
“اسی طرح جو فعل کہ اکثر لوگ کرتے ہیں یعنی پھول اور سبزہ وغیرہ رطوبت والی چیزیں قبروں پر ڈالنا، یہ کوئی چیز نہیں (لیس بشیٴ) سنت اگر ہے تو صرف شاخ کا گاڑنا ہے۔”
(ج:۱ ص:۸۷۹)
۶:…شاہ صاحب نے حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی کی اشعة اللمعات کے حوالے سے لکھا ہے کہ: “ایک جماعت نے اس حدیث سے دلیل پکڑی ہے کہ قبروں پر سبزی اور پھول اور خوشبو ڈالنے کا جواز ہے۔”
کاش! جناب شاہ صاحب یہ بھی لکھ دیتے کہ حضرت شیخ محدث دہلوی نے اس قول کو نقل کرکے آگے اس کو امام خطابی کے قول سے رد بھی کیا ہے، حضرت شیخ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
“امام خطابی نے، جو ائمہ علم اور قدوہٴ شراحِ حدیث میں سے ہیں، اس قول کو رد کیا ہے اور اس حدیث سے تمسک کرتے ہوئے قبروں پر سبزہ اور پھول ڈالنے سے انکار کیا ہے، اور فرمایا کہ یہ بات کوئی اصل نہیں رکھتی، اور صدرِ اول میں نہیں تھی۔” (اشعة اللمعات ج:۱ ص:۲۰۰)
پس شیخ رحمہ اللہ نے چند مجہول الاسم لوگوں سے جو جواز نقل کیا ہے، اس کو تو نقل کردینا اور “ائمہ اہل علم و قدوہٴ شراحِ حدیث” کے حوالے سے “این سخن اصلے ندارد در صدرِ اول نبود” کہہ کر جو اس کے بدعت ہونے کی تصریح کی ہے، اس سے چشم پوشی کرلینا، اہل علم کی شان سے نہایت بعید ہے۔
اور پھر حضرت شیخ محدث دہلوی نے “لمعات التنقیح” میں حنفیہ کے امام حافظ فضل اللہ تورپشتی سے اسی قول کے بارے میں جو یہ نقل فرمایا ہے:
“قول لا طائل تحتہ، ولا عبرة بہ عند اھل العلم۔” (ج:۲ ص:۴۴)
ترجمہ:…”یہ ایک بے مغز و بے مقصد قول ہے اور اہل علم کے نزدیک اس کا کوئی اعتبار نہیں۔”
کاش! شاہ صاحب اس پر بھی نظر فرمالیتے تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ حضرت محدث دہلوی قبروں پر پھول چڑھانے کا جواز نہیں نقل کرتے، بلکہ اسے بے اصل بدعت اور بے مقصد اور ناقابل اعتبار بات قرار دیتے ہیں۔
۷:…شاہ صاحب نے مُلّا علی قاری کی مرقات کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ: “مزاروں پر پھول ڈالنا سنت ہے۔” یہاں بھی شاہ صاحب نے شیخ علی قاری کی آگے پیچھے کی عبارت دیکھنے کی زحمت نہیں فرمائی۔ مُلّا علی قاری نے مزاروں پر پھول چڑھانے کو سنت نہیں کہا، بلکہ امام خطابی شافعی کے مقابلے میں ابن حجر شافعی کا قول نقل کیا ہے کہ: “ہمارے (شافعیہ کے) بعض متأخرین اصحاب نے اس کے سنت ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔” امام خطابی اور امام نووی کے مقابلے میں ان متأخرین شافعیہ کی، جن کا حوالہ ابن حجر شافعی نقل کر رہے ہیں، جو قیمت ہے وہ اہل علم سے مخفی نہیں، تاہم یہ شافعیہ کے متأخرین کا قول ہے، ائمہ حنفیہ میں سے کسی نے اس کے جواز کا فتویٰ نہیں دیا، نہ متقدمین علمائے دین نے اور نہ مُلّا علی قاری نے ہی کسی حنفی کا فتویٰ نقل کیا ہے۔ متأخرین حنفیہ میں سے امام حافظ فضل اللہ تورپشتی کا قول اوپر گزرچکا ہے کہ یہ بے مغز بات ہے اور یہ کہ اہل علم کے نزدیک اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ نیز علامہ عینی کا قول گزرچکا ہے کہ قبروں پر پھول وغیرہ ڈالنا کوئی سنت نہیں۔
۸:…شاہ صاحب نے ایک حوالہ طحطاوی کے حاشیہ مراقی الفلاح سے نقل کیا ہے، علامہ طحطاوی نے جو کچھ لکھا ہے وہ “فی شرح المشکاة” کہہ کر مُلَّا علی قاری کے حوالے سے لکھا ہے، اس لئے اس کو مستقل حوالہ کہنا ہی غلط ہے، البتہ اس میں یہ تصرف ضرور کردیا گیا ہے کہ شرح مشکوٰة میں ابن حجر سے بعض متأخرین اصحابِ شافعیہ کا قول نقل کیا ہے، جسے شاہ صاحب کے حوالے میں “اسے ہمارے بعض متأخرین اصحاب نے اس حدیث کی رو سے فتویٰ دیا” کہہ کر اسے متأخرین حنفیہ کی طرف منسوب کردیا گیا، گویا شرح مشکوٰة کے حوالے سے کچھ کا کچھ بنادیا ہے۔
۹:…شاہ صاحب نے ایک حوالہ علامہ شامی کی رد المحتار سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے اس کو مستحب لکھا ہے۔ یہاں بھی شاہ صاحب نے نقل میں افسوس ناک تساہل پسندی سے کام لیا ہے۔
علامہ شامی نے ایک مسئلہ کے ضمن میں حدیث جرید نقل کرکے لکھا ہے کہ:
“اس مسئلہ سے اور اس حدیث سے قبر پر شاخ رکھنے کا استحباب بطورِ اتباع کے اخذ کیا جاتا ہے اور اس پر قیاس کیا جاتا ہے آس وغیرہ کی شاخیں رکھنے کو، جس کی ہمارے زمانے میں عادت ہوگئی ہے اور شافعیہ کی ایک جماعت نے اس کی تصریح بھی کی ہے اور یہ اولیٰ ہے بہ نسبت بعض مالکیہ کے قول کے، کہ ان قبروں سے عذاب کی تخفیف بہ برکت دستِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے تھی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے، پس اس پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔”
علامہ شامی کی اس عبارت میں قبروں پر پھول ڈالنے کا استحباب کہیں ذکر نہیں کیا گیا، بلکہ بطورِ اتباع کھجور کی شاخ گاڑنے کا استحباب اخذ کیا گیا ہے، اور آس وغیرہ کی شاخیں گاڑنے کو اس پر قیاس کیا گیا ہے، اور اس کی علت بھی وہی ذکر کی ہے، جو امام تورپشتی کے بقول “لا طائل اور اہل علم کے نزدیک غیرمعتبر ہے۔” پس جبکہ ہمارے ائمہ اس علت کو ردّ کرچکے ہیں تو اس پر قیاس کرنا بھی مردود ہوگا۔
علامہ شامی نے بھی بعض شافعیہ کے فتوے کا ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ائمہ احناف میں سے کسی کا فتویٰ علامہ شامی کو بھی نہیں مل سکا، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے ائمہ کے فتوے کے خلاف ایک غیرمعتبر اور بے اثر تعلل پر قیاس کرنا کس حد تک معتبر ہوگا۔
ایک حوالہ شاہ صاحب نے شیخ عبدالغنی نابلسی کا نقل کیا ہے۔ ان کا رسالہ “کشف النور” اس ناکارہ کے سامنے نہیں کہ اس کے سیاق و سباق پر غور کیا جاتا، مگر اتنی بات واضح ہے کہ علامہ شامی ہوں یا شیخ عبدالغنی نابلسی، یا بارہویں تیرہویں صدی کے بزرگ، یہ سب کے سب ہماری طرح مقلد ہیں، اور مقلد کا کام اپنے امام متبوع کی تقلید کرنا ہے، پس اگر علامہ شامی، شیخ عبدالغنی نابلسی یا کوئی اور بزرگ ہمارے ائمہ کا فتویٰ نقل کرتے ہیں تو سر آنکھوں پر، ورنہ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی کے الفاظ میں یہی عرض کیا جاسکتا ہے:
“اینجا قول امام ابی حنیفہ و امام ابویوسف و امام محمد معتبر است، نہ عمل ابی بکر شبلی و ابی حسن نوری۔” (دفتر اول مکتوب:۲۶۶)
ترجمہ:…”یہاں امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف اور امام محمد کا قول معتبر ہے، نہ کہ ابوبکر شبلی اور ابوالحسن نور کا عمل۔”
۱۰:…جناب شاہ صاحب نے اس ناکارہ کی جانب جو الفاظ منسوب فرمائے ہیں، یہ ناکارہ ان سے بدمزہ نہیں، بقول عارف:
بدم گفتی و خر سندم عفاک اللہ نکو گفتی
جواب تلخ می زیبد لب لعل شکر خارا
غالباً سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کی یہ بہت ہلکی سزا ہے جو شاہ صاحب نے اس ناکارہ کو دی ہے۔ اس جرمِ عظیم کی سزا کم از کم اتنی تو ہوتی کہ یہ ناکارہ بارگاہِ معلی میں عرض کرسکتا:
بجرم عشق توام می کشند و غوغائیست
تو نیز برسر بام آکہ خوش تماشائیست
بہرحال اس ناکارہ کو تو اپنے جہل درجہل کا اقرار و اعتراف ہے، اور “بتر زانم کہ گوئی” پر پورا وثوق وا عتماد۔ اس لئے یہ ناکارہ جناب شاہ صاحب کی قند و شکر سے بدمزہ ہو تو کیوں ہو؟ لیکن بہ ادب ان سے یہ عرض کرسکتا ہوں کہ اس ناکارہ نے تو بہت ہی محتاط الفاظ میں اس کو “خلافِ سنت” کہا تھا (جس میں سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہونے کے باوجود جواز یا استحسان کی گنجائش پھر بھی باقی رہ جاتی تھی)، اس پر تو جناب شاہ صاحب کی بارگاہ سے جہالت اور نابلد ہونے کا صلہ اس ہیچ مدان کو عطا کیا گیا، لیکن امام خطابی، امام نووی، امام تورپشتی، امام عینی، جنہوں نے اس کو بے اصل، منکر، لاطائل، غیرمعتبر عند اہل العلم اور لیس بشیٴ فرمایا ہے، ان کے الفاظ تو اس ناکارہ کے الفاظ کی نسبت بہت ہی سخت ہیں۔ سوال یہ ہے کہ شاہ صاحب کی بارگاہ سے ان حضرات کو کس انعام سے نوازا جائے گا؟ اور پھر شاہ عبدالحق محدث دہلوی جو ان بزرگوں کو “ائمہ اہل علم و قدوہٴ شراحِ حدیث” کہہ کر خراج تحسین پیش کر رہے ہیں اور ان کی توثیق و تائید فرماتے ہیں، ان کو کس خطاب سے نوازا جائے گا؟ کیا خیال ہے ان حضرات کو “علم دین کی کتب احادیث و فقہ” کی کچھ خبر تھی، یا یہ بھی شاہ صاحب کے بقول “سخت جہالت میں مبتلا” تھے؟
۱۱:… اس بحث کو ختم کرتے ہوئے جی چاہتا ہے کہ جناب شاہ صاحب کی خدمت میں دو بزرگوں کی عبارت ہدیہ کروں، جن سے ان تمام خلافِ سنت امور کا حال واضح ہوجائے گا، جن میں ہم مبتلا ہیں۔
پہلی عبارت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ کی ہے، وہ “شرح سفر السعادة” میں لکھتے ہیں:
“بہت سے اعمال و افعال اور طریقے جو سلف صالحین کے زمانہ میں مکروہ و ناپسندیدہ تھے وہ آخری زمانہ میں مستحسن ہوگئے ہیں۔ اور اگر جہال عوام کوئی کام کرتے ہیں تو یقین رکھنا چاہئے کہ بزرگوں کی ارواحِ طیبہ اس سے خوش نہیں ہوں گی، اور ان کے کمال و دیانت اور نورانیت کی بارگاہ ان سے پاک اور منزہ ہے۔” (ص:۲۷۲)
اور حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
“جب تک آدمی بدعتِ حسنہ سے بھی، بدعتِ سیئہ کی طرح احتراز نہ کرے، اس دولت (اتباعِ سنت) کی بُو بھی اس کے مشامِ جان تک نہیں پہنچ سکتی۔ اور یہ بات آج بہت ہی دشوار ہے، کیونکہ پورا عالم دریائے بدعت میں غرق ہوچکا ہے، اور بدعت کی تاریکیوں میں آرام پکڑے ہوئے ہے۔ کس کی مجال ہے کہ کسی بدعت کے اٹھانے میں دم مارے، اور سنت کو زندہ کرنے میں لب کشائی کرے۔ اس وقت کے اکثر علماء بدعت کو رواج دینے والے اور سنت کو مٹانے والے ہیں۔ جو بدعات پھیل جاتی ہیں تو مخلوق کا تعامل جان کر ان کے جواز بلکہ استحسان کا فتویٰ دے ڈالتے ہیں اور بدعت کی طرف لوگوں کی راہ نمائی کرتے ہیں۔”(دفتر دوم مکتوب:۵۴)
دعا کرتا ہوں کہ حق تعالیٰ شانہ ہم سب کو اتباعِ سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی توفیق عطا فرمائے۔
قبروں پر پھول ڈالنا بدعت ہے، “مسئلہ کی تحقیق”
روزنامہ جنگ ۱۲/دسمبر ۱۹۸۰ء کے اسلامی صفحہ میں راقم الحروف نے ایک سوال کے جواب میں قبروں پر پھول چڑھانے کو “خلافِ سنت” لکھا تھا، توقع نہ تھی کہ کوئی صاحب جو “سنت” کے مفہوم سے آشنا ہوں، اس کی تردید کی زحمت فرمائیں گے، مگر افسوس کہ شاہ تراب الحق صاحب نے اس کو اپنے معتقدات کے خلاف سمجھا اور ۱۹/دسمبر کے جمعہ ایڈیشن میں اس کی پُرجوش تردید فرمائی، اس لئے ضرورت محسوس کی گئی کہ اس مسئلہ پر دلائل کی روشنی میں غور کیا جائے، چنانچہ راقم الحروف نے۲/جنوری ۱۹۸۱ء کے جمعہ ایڈیشن میں “مسئلہ کی تحقیق” کے عنوان سے اس مسئلہ پر طرفین کے دلائل کا جائزہ پیش کیا، جناب شاہ تراب الحق صاحب نے ۱۶/جنوری کی اشاعت میں “مسئلہ کی تحقیق کا جواب” پھر رقم فرمایا ہے، جہاں تک مسئلہ کی تحقیق کا تعلق ہے بحمداللہ! میری سابق تحریر ہی اس کے لئے کافی و شافی ہے۔ تاہم شاہ صاحب نے جو نئے نکات اٹھائے ہیں، ذیل میں ان کا تجزیہ پیش کیا جاتا ہے۔
۱:…لفظ “سنت” کی وضاحت پہلے بھی کرچکا ہوں، مگر شاہ صاحب نے اس اصطلاح کی اہمیت پر توجہ نہیں فرمائی۔ اس لئے اتنی بات مزید عرض کردینا مناسب ہے کہ جب ہم کسی چیز کو سنت کہتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے منسوب کرتے ہیں۔ کسی ایسی چیز کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے منسوب کرنا جائز نہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کی ہو، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ترغیب دی ہو، نہ صحابہ و تابعین نے، جو اتباعِ سنت کے سب سے بڑے عاشق تھے، اس پر عمل کیا ہو، ہمارے زیر بحث مسئلہ میں شاہ صاحب بھی یہ ثابت نہیں کرسکے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنفس نفیس قبروں پر پھول چڑھاتے تھے یا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو اس کی ترغیب دی ہے، یا صحابہ و تابعین نے اس پر عمل کیا ہو، یا ائمہ مجتہدین میں سے کسی نے قیاس و اجتہاد ہی سے اس کے استحسان کا فتویٰ دیا ہو۔ یہ مسئلہ البتہ متأخرین کے زیر بحث آیا ہے اور بعض متأخرین شافعیہ نے حدیث جرید سے اس کا استحسان ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، مگر محققین شافعیہ وحنفیہ و مالکیہ نے شد و مد سے ان کے استدلال کی تردید کردی ہے اور اسے بے اصل بدعت اور غیرمعتبر عند اہل العلم قرار دیا ہے، اگر شاہ صاحب بنظر انصاف غور فرماتے تو ایسی چیز کو جسے ائمہ محققین بدعت فرمارہے ہیں، “سنت” کہنے پر اصرار نہ کرتے کیونکہ ایک خودتراشیدہ بات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مقدسہ کی طرف منسوب کرنا سنگین جرم ہے۔
۲:…ہمارے شاہ صاحب نہ صرف یہ کہ اسے سنت کہہ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ایک غلط بات منسوب کر رہے ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر تعجب کی بات یہ ہے کہ انہوں نے قبروں پر پھول چڑھانے کو عقائد میں شامل فرمالیا ہے، جیسا کہ ان کے اس فقرے سے معلوم ہوتا ہے:
“حقیقت حال یہ ہے کہ اخبارات و رسائل میں ایسے استفسارات و مسائل کے جواب دئیے جائیں جس سے دوسروں کے جذبات مجروح نہ ہوں اور ان کے معتقدات کو ٹھیس نہ پہنچے۔”
شاہ صاحب کا مشورہ بجا ہے مگر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ کسی کے نزدیک قبروں پر پھول چڑھانا بھی دین حنیفی کے معتقدات میں شامل ہے یا اس کو “خلافِ سنت” کہنے سے اسلامی عقائد کی نفی ہوجاتی ہے۔ راقم الحروف نے اسلامی عقائد اور ملل و نحل کی جن کتابوں کا مطالعہ کیا ہے، ان میں کہیں بھی یہ نظر سے نہیں گزرا کہ قبروں پر پھول چڑھانا بھی “اہل سنت والجماعت” کے معتقدات کا ایک حصہ ہے۔ یہ تو میں شاہ عبدالحق محدث دہلوی سے نقل کرچکا ہوں کہ: “ایں سخن اصلے ندارد در صدرِ اول نبود۔” یعنی اس کی کوئی اصل نہیں، اور صدرِ اول میں اس کا کوئی وجود نہیں تھا۔ کیا میں شاہ تراب الحق صاحب سے بہ ادب دریافت کرسکتا ہوں کہ قبروں پر پھول چڑھانا دینِ اسلام کے معتقدات میں کب سے داخل ہوا اور یہ کہ کیا شاہ صاحب کے معتقدات صدرِ اول کے خلاف ہیں کہ جس چیز کا صدرِ اول میں کوئی وجود ہی نہ تھا وہ ماشاء اللہ آج شاہ صاحب کا جزوِ عقیدہ بن چکی ہے؟ قبروں پر پھول چڑھانے کو معتقدات میں داخل کرلینا افسوسناک غلو پسندی ہے اور یہ غلو پسندی بدعت کا خاصہ ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ بدعت رفتہ رفتہ “سنت” کی جگہ لیتی ہے اور پھر آگے بڑھ کر لوگوں کا جزوِ ایمان بن جاتی ہے اور لوگ اس بدعت کو بڑی عقیدت سے اسلام کا عظیم شعار سمجھ کر بجالاتے ہیں، اور جب اللہ تعالیٰ کا کوئی بندہ اس بدعت کے خلاف لب کشائی کرتا ہے تو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ شخص اسلام کی ایک سنت اور ایک عظیم شعار کی مخالفت کر رہا ہے۔ امام دارمی نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک ارشاد نقل کیا ہے جو بدعت کی اس نفسیات کی تشریح کرتا ہے، وہ فرماتے ہیں:
“اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب فتنہٴ بدعت تم کو ڈھانک لے گا؟ بڑے اسی میں بوڑھے ہوجائیں گے اور بچے اسی میں جوان ہوں گے، لوگ اسی فتنہ کو سنت بنالیں گے، اگر اسے چھوڑا جائے تو لوگ کہیں گے سنت چھوڑ دی گئی۔ (اور ایک روایت میں ہے کہ: اگر اس کی اصلاح کی کوشش کی جائے گی تو لوگ کہیں گے کہ سنت تبدیل کی جارہی ہے)۔ عرض کیا گیا کہ: یہ کب ہوگا؟ فرمایا: جب تمہارے علماء جاتے رہیں گے، جہلا کی کثرت ہوجائے گی، حرف خواں زیادہ ہوں گے مگر فقیہ کم، امراء بہت ہوں گے، امانت دار کم، آخرت کے عمل سے دنیا تلاش کی جائے گی اور غیردین کے لئے فقہ کا علم حاصل کیا جائے گا۔”
(مسند دارمی ص:۳۶، باب تغیر الزمان، مطبوعہ نظامی کانپور ۱۲۹۳ھ)
اس لئے شاہ صاحب اگر قبروں پر پھولوں کو معتقدات میں شامل کرتے ہیں تو یہ وہی غلو پسندی ہے جو بدعت کی خاصیت ہے اور اس کی اصلاح پر شاہ صاحب کا ناراض ہونا وہی بات ہے جس کی نشاندہی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمائی ہے، حسبنا الله ونعم الوکیل!
۳:…مسئلہ کی تحقیق کے آخر میں میں نے شاہ صاحب کو توجہ دلائی تھی کہ قبروں کے پھولوں کو “خلافِ سنت” کہنے کا جرم پہلی بار مجھ سے ہی سرزد نہیں ہوا، مجھ سے پہلے اکابر ائمہ اعلام اس کے بارے میں مجھ سے زیادہ سخت الفاظ استعمال فرماچکے ہیں، اس لئے شاہ صاحب نے صرف مجھ ہی کو جاہل و نابلد نہیں کہا، بلکہ ان اکابر کے حق میں بھی گستاخی کی ہے۔
حق پسندی کا تقاضا یہ تھا کہ میرے اس توجہ دلانے پر شاہ صاحب اس گستاخی سے تائب ہوجاتے اور یہ معذرت کرلیتے کہ انہیں معلوم نہیں تھا کہ پہلے اکابر بھی اس بدعت کو ردّ کرچکے ہیں۔ لیکن افسوس کہ شاہ صاحب کو اس کی توفیق نہیں ہوئی، البتہ میں نے اپنے الفاظ میں نرمی اور لچک کی جو تشریح بین القوسین کی تھی اس کو غلط معنی پہناکر مجھ سے سوال کرتے ہیں:
الف:…”جب آپ کے نزدیک پھولوں کا ڈالنا جائز یا مستحسن ہے یا اس کے ہونے کی گنجائش ہے تو اس موضوع پر طوفان برپا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟”
جناب من! اس تشریح میں میں پھولوں کے جواز یا استحسان کا فتویٰ نہیں دے رہا بلکہ اپنے پہلے الفاظ “خلافِ سنت” میں جو نرمی اور لچک تھی اس کی تشریح کرتے ہوئے آپ کو سمجھانا مقصود تھا کہ آپ بھی اس کو عین “سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم” نہیں سمجھتے ہوں گے، زیادہ سے زیادہ اس کے جواز یا استحسان ہی کے قائل ہوں گے، یہ عقیدہ تو آپ کا بھی نہیں ہوگا کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قبروں پر پھول چڑھایا کرتے تھے، اس لئے آپ میرے الفاظ “خلافِ سنت” میں یہ تاویل کرسکتے تھے کہ گو یہ عمل سنت سے ثابت نہیں، مگر ہم اس کو مستحسن سمجھ کر کرتے ہیں، عین سنت سمجھ کر نہیں، مگر افسوس کہ آپ نے میری محتاط تعبیر کی کوئی قدر نہ کی، بلکہ فوراً اس کی تردید کے لئے کمربستہ ہوگئے اور بجائے علمی دلائل کے تجہیل و تحمیق کا طریقہ اپنایا۔ اب انصاف فرمائیے کہ طوفان کس نے برپا کیا، میں نے یا خود آنجناب نے؟ اور جو عمل کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ و تابعین سے ثابت نہ ہو، اس کو خلافِ سنت لکھنے کو جناب کا پھلجڑی چھوڑنے سے تعبیر کرنا بھی سوقیانہ اور بازاری زبان ہے، جو اہل علم کو زیب نہیں دیتی۔
اسی ضمن میں شاہ صاحب فرماتے ہیں:
ب:…”حیرت کی بات ہے کہ آپ اس امر کو خلافِ سنت قرار دے رہے ہیں اور دوسری طرف آپ کو اس میں جائز بلکہ مستحب ہونے کی گنجائش نظر آتی ہے، از راہِ نوازش ایسی کوئی مثال پیش فرمائیں جس میں کسی امر کو باوجود خلافِ سنت ہونے کے مستحب قرار دیا گیا ہو۔”
گویا شاہ صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو کام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں وہ مستحب تو کیا جائز بھی نہیں۔ اس لئے وہ مجھ سے اس کی مثال طلب فرماتے ہیں۔ جناب شاہ صاحب کی خدمت میں گزارش ہے کہ ہزاروں چیزیں ایسی ہیں جو خلافِ سنت ہونے کے باوجود جائز ہیں۔ مثلاً ترکی ٹوپی یا جناح کیپ سنت نہیں مگر جائز ہے، اور نماز کی نیت زبان سے کرنا خلافِ سنت ہے، مگر فقہاء نے اس کو مستحسن فرمایا ہے، لیکن اگر کوئی شخص اسی کو سنت کہنے لگے تو غلط ہوگا۔
۴:…آفتابِ سنت کے آگے بدعت کا چراغ بے نور ہوجاتا ہے، شاہ صاحب قبروں کے پھولوں کا کوئی ثبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ و تابعین کے عمل سے پیش نہیں کرسکے، اور نہ میرے ان دلائل کا ان سے کوئی جواب بن پڑا جو میں نے اکابر ائمہ سے اس کے بدعت ہونے پر نقل کئے تھے، اس لئے شاہ صاحب نے اس ناکارہ کی “کتاب فہمی” کی بحث شروع کردی۔ علامہ عینی کی ایک سطر کا جو ترجمہ میں نے نقل کیا تھا، شاہ صاحب اس کو نقل کرکے لکھتے ہیں:
“راقم الحروف (شاہ صاحب) اہل علم کے سامنے اصل عربی عبارت پیش کر رہا ہے اور انصاف کا طالب ہے کہ لدھیانوی صاحب نے اس عبارت کا مفہوم صحیح پیش کیا ہے بلکہ ترجمہ بھی درست کیا ہے یا نہیں؟”
شاہ صاحب اپنے قارئین کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ ایک ایسا اناڑی آدمی جو عربی کی معمولی عبارت کا مفہوم تک نہیں سمجھتا، بلکہ ایک سطری عبارت کا ترجمہ تک صحیح نہیں کرسکتا، اس نے بڑے بڑے اکابر کی جو عبارتیں قبروں پر پھول ڈالنے کے خلافِ سنت ہونے پر نقل کی ہیں، ان کا کیا اعتبار ہے؟
راقم الحروف کو علم کا دعویٰ ہے نہ کتاب فہمی کا، معمولی طالب ہے، اور طالب علموں کی صفِ نعال میں جگہ مل جانے کو فخر و سعادت سمجھتا ہے:
گرچہ از نیکاں نیم لیکن بہ نیکاں بستہ ام
در ریاض آفرنیش رشتہٴ گلدستہ ام
مگر شاہ صاحب نے اصل موضوع سے ہٹ کر بلاوجہ “کتاب فہمی” کی بحث شروع کردی ہے، اس لئے چند امور پیش خدمت ہیں:
اول:…شاہ صاحب کو شکایت ہے کہ میں نے علامہ عینی کی عبارت کا نہ مفہوم سمجھا، نہ ترجمہ صحیح کیا ہے۔ میں اپنا اور شاہ صاحب کا ترجمہ دونوں نقل کئے دیتا ہوں، ناظرین دونوں کا موازنہ کرکے دیکھ لیں کہ میرے ترجمہ میں کیا سقم تھا۔
شاہ صاحب کا ترجمہ:
“اور اسی طرح (اس کا بھی انکار کیا ہے) جو اکثر لوگ کرتے ہیں۔ یعنی تر اشیاء مثلاً پھول اور سبزیاں وغیرہ قبروں پر ڈال دیتے ہیں۔ یہ کچھ نہیں اور بے شک سنت گاڑنا ہے۔”
راقم الحروف کا ترجمہ:
“اسی طرح جو فعل کہ اکثر لوگ کرتے ہیں، یعنی پھول اور سبزہ وغیرہ رطوبت والی چیزیں قبروں پر ڈالنا، یہ کوئی چیز نہیں (لیس بشیٴ) سنت اگر ہے تو صرف شاخ کا گاڑنا ہے۔”
اس امر سے قطع نظر کہ ان دونوں ترجموں میں سے کون سا سلیس ہے اور کس میں گنجلک ہے؟ کون سا اصل عربی عبارت کے قریب تر ہے اور کون سا نہیں؟ آخر دونوں کے مفہوم میں بنیادی فرق کیا ہے؟ دونوں سے یہی سمجھا جاتا ہے کہ شاخ کا گاڑنا تو سنت ہے مگر پھول اور سبزہ وغیرہ ڈالنا کوئی سنت نہیں، اس ہیچ مدان کے ترجمہ میں شاہ صاحب کو کیا سقم نظر آیا؟ جس کے لئے وہ اہل علم سے انصاف طلبی فرماتے ہیں۔
دوم:…اس عبارت کے آخری جملہ “وانما السنة الغرز” کا ترجمہ موصوف نے یہ فرمایا: “اور بے شک سنت گاڑنا ہے۔” حالانکہ عربی کے طالب علم جانتے ہیں کہ “انما” کا لفظ حصر کے لئے ہے، جو بیک وقت ایک شے کی نفی اور دوسری شے کے اثبات کا فائدہ دیتا ہے۔ اسی حصر کے اظہار کے لئے راقم الحروف نے یہ ترجمہ کیا ہے کہ: “سنت اگر ہے تو صرف شاخ کا گاڑنا ہے۔” جس کا مطلب یہ ہے کہ پھول اور سبزہ وغیرہ تر اشیاء ڈالنا کوئی سنت نہیں، صرف شاخ کا گاڑنا سنت ہے۔ لیکن شاہ صاحب “انما” کا ترجمہ “بے شک” فرماتے ہیں۔ سبحان اللہ وبحمدہ! اور لطف یہ کہ الٹا راقم الحروف کو ڈانٹتے ہیں کہ تو نے ترجمہ غلط کیا ہے۔
سوم:…جس عبارت کا میں نے ترجمہ نقل کیا تھا، شاہ صاحب نے اس کے ماقبل و مابعد کی عبارت بھی نقل فرمادی۔ حالانکہ اس کو “قبروں پر پھول” کے زیر بحث مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں تھا، لیکن ان سے افسوسناک تسامح یہ ہوا کہ انہوں نے “وکذالک ما یفعلہ اکثر الناس” سے لے کر آخر عبارت “فافہم” تک کو امام خطابی کی عبارت سمجھ لیا ہے، حالانکہ یہ امام خطابی کی عبارت نہیں، بلکہ علامہ عینی کی عبارت ہے۔ امام خطابی کا حوالہ انہوں نے صرف “وضع الیابس الجرید” کے لئے دیا ہے۔ حدیث کے کسی طالب علم کے سامنے یہ عبارت رکھ دیجئے اس کا فیصلہ یہی ہوگا کیونکہ اول تو ہر مصنف کا طرزِ نگارش ممتاز ہوتا ہے، امام خطابی جو چوتھی صدی کے شخص ہیں ان کا یہ طرزِ تحریر ہی نہیں، بلکہ صاف طور پر یہ علامہ عینی کا اندازِ نگارش ہے۔ علاوہ ازیں امام خطابی کی معالم السنن موجود ہے، جن جن حضرات نے امام خطابی کا حوالہ دیا ہے وہ “معالم” ہی سے دیا ہے، شاہ صاحب تھوڑی سی زحمت اس کے دیکھنے کی فرمالیتے تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ امام خطابی نے کیا لکھا ہے اور حافظ عینی نے ان کا حوالہ کس حد تک دیا ہے؟ ان تمام امور سے قطع نظر کرتے ہوئے اگر “وکذالک ما یفعلہ اکثر الناس ․․․․․․ الخ۔” کی عبارت کو “انکر الخطابی” کے تحت داخل کیا جائے (جیسا کہ شاہ صاحب کو خوش فہمی ہوئی ہے) تو عبارت قطعی بے جوڑ بن جاتی ہے، شاہ صاحب ذرا مبتدا و خبر کی رعایت رکھ کر اس عبارت پر ایک بار پھر غور فرمالیں اور حدیث کے کسی طالب علم سے بھی استصواب فرمالیں۔
چہارم:…یہ تو شاہ صاحب کے جائزہ کتاب فہمی کی بحث تھی، اب ذرا ان کے “صحیح ترجمہ” پر بھی غور فرمالیا جائے۔
حافظ عینی کی عبارت ہے:
“ومنھا انہ قیل ھل للجرید معنی یخصہ فی الغرز علی القبر لتخفیف العذاب؟ والجواب انہ لا معنی یخصہ بل المقصود ان یکون ما فیہ رطوبة من ای شجر کان ولھذا انکر الخطابی ومن تبعہ وضع الیاس الجرید۔”
شاہ صاحب اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:
“اس حدیث سے متعلق مسائل میں سے یہ بھی ہے کہ بعض حضرات یہ دریافت کرتے ہیں کہ تخفیفِ عذاب کے لئے قبر پر خصوصی طور پر شاخ ہی کا گاڑنا ہے؟
تو جواب یہ ہے کہ شاخ کی کوئی خصوصیت نہیں، بلکہ ہر وہ چیز جس میں رطوبت ہو مقصود ہے۔ خطابیاور ان کے متبعین نے خشک شاخ کے قبر پر رکھنے کا انکار کیا ہے ․․․․․․ الخ۔”
شاہ صاحب کا یہ ترجمہ کس قدر پُرلطف ہے؟ اس کا اصل ذائقہ تو عربی دان ہی اٹھاسکتے ہیں! تاہم چند لطیفوں کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔
الف:…علامہ عینی نے اس حدیث سے متعلقہ احکام و مسائل ص:۸۷۴ سے ص:۸۷۷ تک “بیان استنباط الاحکام” کے عنوان سے بیان فرمائے ہیں، اور ص:۸۷۷ سے ص:۸۷۹ تک “الاسئلة والاجوبة” کا عنوان قائم کرکے اس حدیث سے متعلق چند سوال و جواب ذکر کئے ہیں۔ انہیں میں سے ایک سوال و جواب وہ ہے جو شاہ صاحب نے نقل کیا ہے۔ آپ “منہا” کا ترجمہ فرماتے ہیں: “اس حدیث سے متعلقہ مسائل میں سے یہ بھی ہے۔” شاہ صاحب غور فرمائیں کہ کیا یہاں “حدیث کے مسائل” ذکر کئے جارہے ہیں․․․؟
ب:…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معذب قبروں پر “جرید” نصب فرمائی تھی، اور “جرید” شاخِ خرما کو کہا جاتا ہے۔ علامہ عینی نے جو سوال اٹھایا وہ یہ تھا کہ کیا شاخِ کھجور میں کوئی ایسی خصوصیت ہے جو دفع عذاب کے لئے مفید ہے، جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نصب فرمایا؟ یا یہ مقصود ہر درخت کی شاخ سے حاصل ہوسکتا تھا؟ علامہ عینی جواب دیتے ہیں کہ: نہیں! شاخِ کھجور کی کوئی خصوصیت نہیں، بلکہ مقصود یہ ہے کہ تر شاخ ہو، خواہ کسی درخت کی ہو۔ یہ تو تھا علامہ عینی کا سوال و جواب، ہمارے شاہ صاحب نے سوال و جواب کا مدعا نہیں سمجھا، اس لئے شاہ صاحب سوال و جواب کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:
“بعض حضرات یہ دریافت کرتے ہیں کہ تخفیفِ عذاب کے لئے قبر پر خصوصی طور پر شاخ ہی کا گاڑنا ہے؟
تو جواب یہ ہے کہ شاخ میں کوئی خصوصیت نہیں بلکہ ہر وہ چیز جس میں رطوبت ہو، مقصود ہے۔”
اگر شاہ صاحب نے مجمع البحار یا لغتِ حدیث کی کسی اور کتاب میں “جرید” کا ترجمہ دیکھ لیا ہوتا یا شاہ عبدالحق محدث دہلوی کی شرح مشکوٰة سے اس حدیث کا ترجمہ ملاحظہ فرمالیا ہوتا تو ان کو علامہ عینی کے سوال و جواب کے سمجھنے میں الجھن پیش نہ آتی، اور وہ یہ ترجمہ نہ فرماتے۔
اور اگر شدتِ مصروفیت کی بنا پر انہیں کتابوں کی مراجعت کا موقع نہیں ملا تو کم از کم اتنی بات پر تو غور فرمالیتے کہ اگر علامہ عینی کا مدعا یہ ہوتا کہ شاخ کی کوئی خصوصیت نہیں بلکہ ہر رطوبت والی چیز سے یہ مقصد حاصل ہوجاتا ہے تو اگلے ہی سانس میں وہ پھول وغیرہ ڈالنے کو “لیس بشیٴ” کہہ کر اس کی نفی کیوں کرتے؟ ترجمہ کرتے ہوئے تو یہ سوچنا چاہئے تھا کہ علامہ کے یہ دونوں جملے آپس میں ٹکرا کیوں رہے ہیں؟
ج:…چونکہ شاہ صاحب کے خیالِ مبارک میں علامہ عینی شاخ کی خصوصیت کی نفی کرکے ہر رطوبت والی چیز کو مقصود قرار دے رہے ہیں، اس لئے انہوں نے علامہ کی عبارت سے “من ای شجر کان” کا ترجمہ ہی غائب کردیا۔
د:…پھر علامہ عینی نے “ولھذا انکر الخطابی” کہہ کر اپنے سوال و جواب پر تفریع پیش کی تھی، شاہ صاحب نے “لھذا” کا ترجمہ بھی حذف کردیا، جس سے اس جملہ کا ربط ہی ماقبل سے کٹ گیا۔
ہ:…”وکذالک ما یفعلہ اکثر الناس” سے علامہ عینی نے اس سوال و جواب کی دوسری تفریع ذکر فرمائی تھی، ہمارے شاہ صاحب نے اسے امام خطابی کے انکار کے تحت درج کرکے ترجمہ یوں کردیا: “اور اسی طرح اس کا بھی انکار کیا ہے جو اکثر لوگ کرتے ہیں۔” اس ترجمہ میں “اس کا بھی انکار کیا ہے” کے الفاظ شاہ صاحب کا خود اپنا اضافہ ہے۔
و:…علامہ عینی نے قبروں پر پھول وغیرہ ڈالنے کو “لیس بشیٴ” (یہ کوئی چیز نہیں) کہہ کر فرمایا تھا: “انما السنة الغرز” یعنی ’سنت صرف شاخ کا گاڑنا ہے۔” اس پر ایک اعتراض ہوسکتا تھا، اس کا جواب دے کر اس کے آخر میں فرماتے ہیں: “فافھم” جس میں اشارہ تھا کہ اس جواب پر مزید سوال و جواب کی گنجائش ہے۔ مگر ہمارے شاہ صاحب چونکہ یہ سب کچھ امام خطابی کے نام منسوب فرما رہے ہیں، اس لئے وہ بڑے جوش سے فرماتے ہیں:
“پھر بے چارے خطابی نے بحث کے اختتام پر “فافہم” کے لفظ کا اضافہ بھی کیا مگر افسوس کہ مولانا صاحب موصوف نے اس طرف توجہ نہ فرمائی۔”
یہ ناکارہ، جناب شاہ صاحب کے توجہ دلانے پر متشکر ہے، کاش! شاہ صاحب خود بھی توجہ کی زحمت فرمائیں کہ وہ کیا سے کیا سمجھ اور لکھ رہے ہیں۔
شاید علامہ عینی کا یہ “فافھم” بھی الہامی تھا، حق تعالیٰ شانہ کو معلوم تھا کہ علامہ عینی کے ۵۴۵ سال بعد ہمارے شاہ صاحب، علامہ کی اس عبارت کا ترجمہ فرمائیں گے، اس لئے ان سے “فافھم” کا لفظ لکھوادیا، تاکہ شاہ صاحب، علامہ کی اس وصیت کو پیش نظر رکھیں اور ان کی عبارت کا ترجمہ ذرا سوچ سمجھ کر کریں۔
پنجم:…”کتاب فہمی” اور “صحیح ترجمہ” کے بعد اب شاہ صاحب کے طریق استدلال پر بھی نظر ڈال لی جائے، موصوف نے علامہ عینی کی مندرجہ بالا عبارت سے چند فوائد اس تمہید کے ساتھ اخذ کئے ہیں:
“مذکورہ بالا ترجمہ سے لدھیانوی صاحب کی کتاب فہمی اور طریق استدلال کا اندازہ ہوجائے گا۔ لیکن ناظرین کے لئے چند امور درج ذیل ہیں۔”
۱:…شاہ صاحب نمبر:۱ کے تحت لکھتے ہیں:
“شاخ لگانا ہی مسنون نہیں اس چیز کو تر ہونا چاہئے۔ لہٰذا خشک چیز کا لگانا مسنون نہیں، البتہ شاخیں سبز اور پھول تر ہونے کے باعث مسنون ہیں۔”
پھول ڈالنے کا مسنون ہونا علامہ عینی کی عبارت سے اخذ کیا جارہا ہے، جبکہ ان کی عبارت کا ترجمہ خود شاہ صاحب نے یہ کیا ہے:
“اور اسی طرح اس کا بھی انکار کیا ہے جو اکثر لوگ کرتے ہیں یعنی تر اشیاء مثلاً پھول اور سبزیاں وغیرہ قبروں پر ڈال دیتے ہیں یہ کچھ نہیں اور بے شک سنت گاڑنا ہے۔”
پھول اور سبزہ وغیرہ تر اشیاء قبر پر ڈالنے کو علامہ عینی خلافِ سنت اور لیس بشیٴ فرماتے ہیں، لیکن شاہ صاحب کا اچھوتا طریق استدلال اس عبارت سے پھولوں کا مسنون ہونا نکال لیتا ہے۔ شاید شاہ صاحب کی اصطلاح میں “لیس بشیٴ” (کچھ نہیں، کوئی چیز نہیں) کے معنی ہیں: “مسنون چیز”۔
۲:… شاہ صاحب کا فائدہ نمبر:۲ اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے کہ:
“وضع یعنی ڈالنا مسنون نہیں بلکہ غرز یعنی گاڑنا مسنون ہے، اور خطابی نے انکار پھولوں اور سبزیوں کے ڈالنے کا کیا ہے نہ کہ گاڑنے کا جیسا کہ اگلی عبارتوں سے ظاہر ہے، اس طرح دو بنیادی اشیاء مسنون ہیں ایک تو رطب ہونا دوسرے غرز۔”
شاہ صاحب کی پریشانی یہ ہے کہ علامہ عینی (اور شاہ صاحب کے بقول امام خطابی) تو پھولوں کے ڈالنے کو لیس بشیٴ اور غیرمسنون فرما رہے ہیں، اور شاہ صاحب کو بہرحال پھولوں کا مسنون ہونا ثابت کرنا ہے، اس لئے اپنے مخصوص اندازِ استدلال سے ان کے قول کی کیا خوبصورت تاویل فرماتے ہیں کہ خطابی کے بقول پھولوں کا ڈالنا تو مسنون نہیں، ہاں! ان کا گاڑنا ان کے نزدیک بھی مسنون ہے۔ الله الصمد!
شاہ صاحب نے کرنے کو تو تاویل کردی لیکن اول تو یہ نہیں سوچا کہ ہماری بحث بھی تو پھولوں کے ڈالنے ہی سے متعلق ہے، اور اس کا غیرمسنون ہونا جناب نے خود ہی رقم فرمادیا، پس اگر اس ناکارہ نے قبر پر پھول ڈالنے کو خلافِ سنت کہا تھا تو کیا جرم کیا․․․؟
پھر اس پر بھی غور نہیں فرمایا کہ جو حضرات اولیاء اللہ کے مزارات پر پھول ڈال کر آتے ہیں، وہ تو آپ کے ارشاد کے مطابق بھی خلافِ سنت فعل ہی کرتے ہیں، کیونکہ سنت ہونے کے لئے آپ نے دو بنیادی شرطیں تجویز فرمائی ہیں، ایک اس چیز کا رطب یعنی تر ہونا، اور دوسرے اس کا گاڑنا، نہ کہ ڈالنا۔
پھر اس پر بھی غور نہیں فرمایا کہ قبر پر گاڑی تو شاخ جاتی ہے، پھولوں اور سبزیوں کو قبر پر کون گاڑا کرتا ہے؟ ان کو تو لوگ بس ڈالا ہی کرتے ہیں، پس جب پھولوں کا گاڑنا عادةً ممکن ہی نہیں اور نہ کوئی ان کو گاڑتا ہے اور خود ہی شاہ صاحب بھی لکھ رہے ہیں کہ کسی چیز کا قبر پر گاڑنا سنت ہے، ڈالنا سنت نہیں تو جناب کے اس فقرے کا آخر کیا مطلب ہوگا کہ:
“خطابی نے انکار پھولوں اور سبزیوں کے ڈالنے کا کیا ہے نہ کہ گاڑنے کا۔”
کیا کسی ملک میں شاہ صاحب نے قبروں پر پھولوں کے گاڑنے کا دستور دیکھا سنا بھی ہے؟ اور کیا یہ ممکن بھی ہے؟ اگر نہیں تو بار بار غور فرمائیے کہ آخر آپ کا یہ فقرہ کوئی مفہوم محصل رکھتا ہے؟
پھر جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا شاہ صاحب یہ ساری باتیں امام خطابی سے زبردستی منسوب کر رہے ہیں، ورنہ امام خطابی کی عبارت میں پھولوں کے گاڑنے اور ڈالنے کی “باریک منطق” کا دور دور کہیں پتہ نہیں۔ مناسب ہے کہ یہاں امام خطابی کی اصل عبارت پیش خدمت کروں، شاہ صاحب اس پر غور فرمالیں، حدیث “جرید” کی شرح میں امام خطابی لکھتے ہیں:
“واما غرسہ شق العسیب علی القبر وقولہ (لعلہ یخفف عنھما ما لم یبسا) فانہ من ناحیة التبرک باثر النبی صلی الله علیہ وسلم ودعائہ بالتخفیف عنھما وکانہ صلی الله علیہ وسلم جعل مدة بقاء النداوة فیھما حدا لما وقعت بہ المسئلة من تخفیف العذاب عنھما ولیس ذالک من اجل ان فی الجرید الرطب معنی لیس فی الیابس والعامة فی کثیر من البلدان تفرش الخوص فی قبور موتاھم واراھم ذھبوا الی ھذا ولیس لما تعاطوہ من ذالک وجہ، والله اعلم!”
(معالم السنن ج:۱ ص:۱۹، ۲۰)
ترجمہ:…”رہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا شاخِ خرما کو چیر کر قبر پر گاڑنا اور یہ فرمانا کہ: “شاید کہ ان کے عذاب میں تخفیف ہو جب تک کہ یہ شاخیں خشک نہ ہوں۔” تو یہ تخفیف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اثر اور آپ کی دعائے تخفیف کی برکت کی وجہ سے ہوئی، اور ایسا لگتا ہے کہ آپ نے جو ان قبروں کے حق میں تخفیفِ عذاب کی دعا کی تھی ان شاخوں میں تری باقی رہنے کی مدت کو اس تخفیف کے لئے حد مقرر کردیا گیا تھا، اور اس تخفیف کی یہ وجہ نہیں تھی کہ کھجور کی تر شاخ میں کوئی ایسی خصوصیت پائی جاتی ہے جو خشک میں نہیں پائی جاتی، اور بہت سے علاقوں کے عوام اپنے مردوں کی قبروں میں کھجور کے پتے بچھادیتے ہیں اور میرا خیال ہے کہ وہ اسی کی طرف گئے ہیں (کہ تر چیز میں کوئی ایسی خصوصیت پائی جاتی ہے جو تخفیفِ عذاب کے لئے مفید ہے) حالانکہ جو عمل کہ یہ لوگ کرتے ہیں اس کی کوئی اصل نہیں، والله اعلم!”
۳:…شاہ صاحب نے تیسرا افادہ عینی کی عبات سے یہ اخذ کیا ہے:
“قبروں پر پھول ڈالنے کا سلسلہ کوئی نیا نہیں، بلکہ خطابی کے زمانہ سے چلا آتا ہے، اور یہ بھی نہیں کہ بعض لوگ ایسا کرتے ہوں بلکہ خطابی کا بیان ہے کہ یہ فعل “اکثر الناس” کا ہے۔”
شاہ صاحب اس نکتہ آفرینی سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ خطابی کے زمانے سے قبروں پر پھول چڑھانے پر سوادِ اعظم کا اجماع ہے، اور اس “اجماع” کے خلاف لب کشائی کرنا گویا الحاد و زندقہ ہے، جس سے سوادِ اعظم کے معتقدات کو ٹھیس پہنچی ہے، مگر قبلہ شاہ صاحب اس نکتہ آفرینی سے پہلے مندرجہ ذیل امور پر غور فرمالیتے تو شاید انہیں اپنے طرزِ استدلال پر افسوس ہوتا۔
اولاً:…وہ جس عبارت پر اپنے اس نکتہ کی بنیاد جما رہے ہیں، وہ امام خطابی کی نہیں بلکہ علامہ عینی کی ہے، اس لئے قبروں پر پھول چڑھانے کو امام خطابی کے زمانہ کے “اکثر الناس” کا فعل ثابت کرنا بنا الفاسد علی الفاسد ہے، ہاں! یوں کہئے کہ امام خطابی کے زمانہ کے “عوام” مردے کی قبر میں کھجور کے تر پتے بچھایا کرتے تھے، علامہ عینی کے زمانے تک یہ سلسلہ کھجور کے پتوں سے گزر کر پھول چڑھانے تک پہنچ گیا۔
ثانیاً:… جب سے یہ سلسلہ عوام میں شروع ہوا اسی وقت سے علمائے امت نے اس پر نکیر کا سلسہ بھی شروع کردیا۔ خطابی نے “اس کی کوئی اصل نہیں” کہہ کر اس کے بدعت ہونے کا اعلان فرمایا اور علامہ عینی نے “لیس بشیٴ” کہہ کر اس کو خلافِ سنت قرار دیا۔ کاش! کہ جناب شاہ صاحب بھی حضرات علمائے امت کے نقش قدم پر چلتے، او رعوام کے اس فعل کو بے اصل اور خلافِ سنت فرماتے۔ بہرحال اگر جناب شاہ صاحب خطابی یا عینی کے زمانے کے عوام کی تقلید فرما رہے ہیں تو اس ناکارہ کو بحول اللہ وقوّتہ اکابر علمائے امت اور ائمہ دین کے نقش قدم پر چلنے کی سعادت حاصل ہے اور وہ امام خطابی اور علامہ عینی کی طرح اس عامیانہ فعل کے خلافِ سنت ہونے کا اعلان کر رہا ہے۔ جناب شاہ صاحب کو اگر تقلیدِ عوام پر فخر ہے تو یہ ہیچ مدان، ائمہ دین کے اتباع پر نازاں ہے اور اس پر شکر بجالاتا ہے، یہ اپنا اپنا نصیب ہے کسی کے حصے کیا آتا ہے:
ہر کسے را بہر کارے ساختند
ثالثاً:…جناب شاہ صاحب نے علامہ عینی کی عبارت خطابی کی طرف منسوب کرکے یہ سراغ تو نکال لیا کہ پھولوں کا چڑھانا خطابی کے زمانہ سے چلا آتا ہے، کاش! وہ کہیں سے یہ بھی ڈھونڈ لاتے کہ چوتھی صدی (خطابی کے زمانہ) کے عوام نے جو بدعتیں ایجاد کی ہوں وہ چودہویں صدی میں نہ صرف “سنت” بن جاتی ہیں بلکہ اہل سنت کے عقائد و شعار میں بھی ان کو جگہ مل جاتی ہے، انا لله وانا الیہ راجعون!
جناب شاہ صاحب نے اگر میرا پہلا مضمون پڑھا ہے تو امام شہید کا ارشاد بھی ان کی نظر سے گزرا ہوگا جو امام ربانی مجدد الف ثانی نے فتاویٰ غیاثیہ سے نقل کیا ہے کہ متأخرین (جن کا دور چوتھی صدی سے شروع ہوتا ہے) کے استحسان کو ہم نہیں لیتے۔ غور فرمائیے جس دور کے اکابر اہل علم کے استحسان سے بھی کوئی سنت ثابت نہیں ہوتی، شاہ صاحب اس زمانے کے عوام کی ایجاد کردہ بدعات کو “سنت” فرما رہے ہیں اور اصرار کیا جارہا ہے کہ ان بدعات کے بارے میں اس زمانے کے اکابر اہل علم نے خواہ کچھ ہی فرمایا ہو ہمیں اس کے دیکھنے کی ضرورت نہیں، چونکہ صدیوں سے عوام اس بدعت میں ملوث ہیں، لہٰذا اس کو خلافِ سنت کہنا روا نہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس “لاجواب منطق” سے شاہ صاحب نے اپنے ضمیر کو کیسے مطمئن کرلیا۔
رابعاً:…ہمارے شاہ صاحب تو امام خطابی کے زمانے کے عوام کو بطورِ حجت و دلیل پیش فرما رہے ہیں اور علمائے امت کی نکیر کے علی الرغم ان کے فعل سے سند پکڑ رہے ہیں۔ آئیے! میں آپ کو اس سے بھی دو صدی پہلے کے “عوام” کے بارے میں اہل علم کی رائے بتاتا ہوں۔
صاحب در مختار نے باب الاعتکاف سے ذرا پہلے یہ مسئلہ ذکر کیا ہے کہ اکثر عوام جو مُردوں کے نام کی نذر و نیاز مانتے ہیں اور اولیاء اللہ کی قبور پر روپے پیسے اور شمع، تیل وغیرہ کے چڑھاوے ان کے تقرب کی غرض سے چڑھاتے ہیں، یہ بالاجماع باطل و حرام ہے، اِلَّا یہ کہ فقراء پر صرف کرنے کا قصد کریں۔ اس ضمن میں انہوں نے ہمارے امام محمد بن الحسن الشیبانی مدون مذہب نعمانی رحمة اللہ علیہ (المتوفی۱۸۹ھ) کا ارشاد نقل کیا ہے:
“ولقد قال الامام محمد لو کانت العوام عبیدی لاعتقتھم واسقطت ولائی وذالک لانھم لا یھتدون فالکل بھم یتغیرون۔”
ترجمہ:…”اور امام محمد نے فرمایا کہ اگر عوام میرے غلام ہوتے تو میں ان کو آزاد کردیتا اور ان کو آزاد کرنے کی نسبت بھی اپنی طرف نہ کرتا کیونکہ وہ ہدایت نہیں پاتے، اس لئے ہر شخص ان سے عار کرتا ہے۔”
علامہ شامی اس کے حاشیہ میں لکھتے ہیں:
“اہل فہم پر مخفی نہیں کہ امام کی مراد اس کلام سے عوام کی مذمت کرنا اور اپنی طرف ان کی کسی قسم کی نسبت سے دوری اختیار کرنا ہے، خواہ ولأ (نسبت آزادی) کے ساقط کرنے سے ہو، جو قطعی طور پر ثابت ہے اور اس اظہار برأت کا سبب عوام کا جہل عام ہے، اور ان کا بہت سے احکام کو تبدیل کردینا، اور باطل و حرام چیزوں کے ذریعہ تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔ پس ان کی مثال انعام کی سی ہے کہ اعلام و اکابر ان سے عار کرتے ہیں، اور ان عظیم شناعتوں سے برأت کا اظہار کرتے ہیں․․․․․․
یہ امام محمد کے زمانے کے عوام ہیں جن کے افعال و بدعات سے امام محمد اور دیگر اعلام و اکابر برأت کا اظہار فرماتے ہیں، لیکن اس کے دو صدی بعد کے عوام کی بدعات ہمارے شاہ صاحب کے لئے عین دین بن جاتی ہیں اور بڑے اطمینان کے ساتھ فرماتے ہیں کہ پھول چڑھانے کا سلسلہ تو امام خطابی کے دور سے چلا آتا ہے، اور یہ نہیں سوچتے کہ یہ وہی عوام ہیں جن کے جہل عام اور تغیر احکام کی شکوہ سنجی ہمارے اعلام و اکابر کرتے چلے آئے ہیں۔
یہ اس ناکارہ کے مضمون پر شاہ صاحب کی تنقیدات کے چند نمونے قارئین کی خدمت میں پیش کئے گئے ہیں، جن سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ شاہ صاحب اور ان کے ہم ذوق حضرات بدعات کی ترویج و اشاعت کے لئے کیسی کیسی تاویلات ایجاد فرماتے ہیں۔ حق تعالیٰ شانہ سنت کے نور سے ہمارے دل و دماغ اور روح و قلب کو منور فرمائیں اور بدعات کی ظلمت و نحوست سے اپنی پناہ میں رکھیں۔
آخرت کی جزا و سزا
بروزِ حشر شفاعتِ محمدی کی تفاصیل
س… بروزِ محشر شفاعتِ امتِ محمدی کی تفاصیل کیا ہیں؟
ج… ان تفصیلات کو قلمبند کرنے کے لئے تو ایک دفتر چاہئے، مختصر یہ ہے کہ شفاعت کی کئی صورتیں ہوں گی۔
اول:…شفاعتِ کبریٰ: یہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص ہے۔ قیامت کے دن جب لوگوں کا حساب و کتاب شروع ہونے میں تأخیر ہوجائے گی تو لوگ نہایت پریشان ہوں گے، لوگ کہیں گے کہ چاہے ہمیں دوزخ میں ڈال دیا جائے مگر اس پریشانی سے نجات مل جائے، تب لوگ اپنے علماء سے اس مسئلہ کا حل دریافت کریں گے، علماء کرام کی طرف سے فتویٰ دیا جائے گا کہ اس کے لئے کسی نبی کی شفاعت کرائی جائے، لوگ علی الترتیب سیدنا آدم علیہ السلام، نوح علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے مگر یہ سب حضرات معذرت کریں گے اور اپنے بعد والے نبی کا حوالہ دیتے جائیں گے۔
مسند ابوداوٴد طیالسی (ص:۳۵۴ مطبوعہ حیدرآباد دکن) کی روایت میں ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام شفاعت کی درخواست کرنے والوں سے فرمائیں گے:
“یہ بتاوٴ! اگر کسی برتن پر مہر لگی ہوئی ہو تو جب تک مہر کو نہ کھولا جائے اس برتن کے اندر کی چیز نکالی جاسکتی ہے؟”
وہ عرض کریں گے: نہیں!
آپ فرمائیں گے کہ:
“پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم آج یہاں تشریف فرما ہیں، ان کی خدمت میں حاضری دو۔”
الغرض حضرت عیسیٰ علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کا مشورہ دیں گے، اور پھر لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں درخواست کریں گے، آپ ان کی درخواست قبول فرماکر شفاعت کے لئے “مقامِ محمود” پر کھڑے ہوں گے اور حق تعالیٰ شانہ آپ کی شفاعت قبول فرمائیں گے، یہ شفاعتِ کبریٰ کہلاتی ہے، کیونکہ اس سے تمام امتیں اور تمام اولین و آخرین مستفید ہوں گے اور سب کا حساب شروع ہوجائے گا۔
دوم:…بعض حضرات، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے بغیر حساب کے جنت میں داخل کئے جائیں گے۔
سوم:…بعض لوگ جو اپنی بدعملی کی وجہ سے دوزخ کے مستحق تھے، ان کو بغیر عذاب کے جنت میں داخل کیا جائے گا، یہ شفاعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کے طفیل میں دیگر مقبولانِ الٰہی کو نصیب ہوگی۔
چہارم:…جو گناہ گار دوزخ میں داخل ہوں گے ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، حضرات انبیاء کرام علیہم السلام، حضرات ملائکہ اور اہل ایمان کی شفاعت سے جنت میں داخل کیا جائے گا۔ ان سب حضرات کی شفاعت کے بعد حق تعالیٰ شانہ تمام اہل لا اِلٰہ الا اللہ کو دوزخ سے نکال لیں گے (یہ گویا ارحم الراحمین کی شفاعت ہوگی)، اور دوزخ میں صرف کافر باقی رہ جائیں گے۔
پنجم:…بعض حضرات کے لئے جنت میں بلندیٴ درجات کی شفاعت ہوگی۔
ششم:…بعض کافروں کے لئے دوزخ میں تخفیفِ عذاب کی شفاعت ہوگی۔
ان تمام شفاعتوں کی تفصیلات احادیث شریفہ میں وارد ہیں۔
خدا کے فیصلہ میں شفاعت کا حصہ
س… اگر شفاعت فیصلے پر اثرانداز نہیں ہوسکتی تو اس کا فائدہ معلوم نہیں اور اگر یہ فیصلے پر اثرانداز ہوتی ہے تو یہ تصرف ہے، اس لئے شفاعت کے بارے میں آپ کا جواب اطمینان بخش نہیں ہے۔
ج… “اِلَّا بِاِذْنِہ” تو قرآن مجید میں ہے، اس لئے شفاعت بالاذن پر ایمان لانا تو واجب ہے، رہا تصرف کا شبہ تو اگر حاکم ہی یہ چاہے کہ اگر اس گناہ گار کی کوئی شفاعت کرے تو اس کو معاف کردیا جائے، گو معاف وہ ازخود بھی کرسکتا ہے، مگر شفاعت میں شفیع کی وجاہت اور حاکم کی عظمت کا اظہار مقصود ہو، تو اس میں اشکال کیا ہے․․․؟
قیامت کے دن کس کے نام سے پکارا جائے گا؟
س… قیامت کے دن میدانِ حشر میں والدہ کے نام سے پکارا جائے گا یا والد کے نام سے؟
ج… ایک روایت میں آتا ہے کہ لوگ قیامت کے دن ماں کی نسبت سے پکارے جائیں گے، لیکن یہ روایت بہت کمزور بلکہ غلط ہے، اس کے مقابلے میں صحیح بخاری شریف کی حدیث ہے، جس میں باپ کی نسبت سے پکارے جانے کا ذکر ہے اور یہی صحیح ہے۔
روزِ قیامت لوگ باپ کے نام سے پکارے جائیں گے
س… روزنامہ جنگ کے جمعہ ایڈیشن میں “آپ کے مسائل اور ان کا حل” پڑھا، یہ کالم میں عام طور پر باقاعدگی سے پڑھتا ہوں۔
اس کالم کے تحت آپ نے ایک صاحب کے سوال کا جو جواب دیا ہے، میں اس جواب کی ذرا وضاحت چاہتا ہوں، ان کا سوال تھا: “کیا قیامت کے روز باپ کے نام سے پکارا جائے گا یا ماں کے نام سے؟”
بچپن سے ہم سنتے چلے آرہے ہیں کہ قیامت کے روز ہر فرد اپنی ماں کے نام سے پکارا جائے گا لیکن آج پہلی دفعہ میں نے آپ کے حوالے سے یہ پڑھا کہ قیامت کے روز افراد باپ کی نسبت سے پکارے جائیں گے۔
آپ کے علم میں ہوگا کہ قدیم زمانہ سے لے کر آج تک دنیا کے مختلف ممالک میں ایسے باقاعدہ مراکز ہیں، جہاں عصمت فروشی اور بردہ فروشی کو جائز کاروبار کا درجہ حاصل ہے، اور ایسے مراکز میں ظاہر ہے بچے پیدا ہوں گے، تو ایسے بچوں کے باپ قیامت کے روز کون ہوں گے اور کس ولدیت سے ان کو پکارا جائے گا؟
میرے محدود علم کے مطابق حضرت عیسیٰ کو اللہ تعالیٰ نے بطن مریم سے بغیر کسی باپ کے پیدا کیا جو کہ اللہ جل شانہ کی قدرت کا کرشمہ ہے، تو عالی قدر! ذرا یہ بات مجھے سمجھا دیجئے کہ قیامت کے روز حضرت عیسیٰ کو کس ولدیت سے پکارا جائے گا؟
واضح رہے کہ بچپن میں ہم اسی بنا پر یہ سنتے چلے آرہے ہیں کہ چونکہ حضرت عیسیٰ کے کوئی باپ نہیں وہ صرف ماں کی اولاد ہیں، اس لئے قیامت کے روز حضرت عیسیٰ کی وجہ سے تمام لوگوں کو ماں کی نسبت سے پکارا جائے گا۔
حضور والا! میرا اس ناقص ذہن میں آنے والے ان دو سوالوں کا جواب دے کر میرے علم میں اضافہ فرمائیں۔
ج… عام شہرت تو اسی کی ہے کہ لوگ قیامت کے دن اپنی ماوٴں کی نسبت سے پکارے جائیں گے، لیکن یہ بات نہ تو قرآن کریم میں وارد ہوئی ہے، نہ کسی قابل اعتماد حدیث میں۔ بلکہ اس کے برعکس صحیح احادیث میں وارد ہے کہ لوگ قیامت کے دن اپنے باپ کی نسبت سے پکارے جائیں گے، جیسا کہ پہلے تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔
رہا آپ کا یہ سوال کہ جو بچے صحیح النسب نہیں یا کنواری ماوٴں سے پیدا ہوتے ہیں، ان کو کس نسبت سے پکارا جائے گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دنیا کی ساری قوموں میں بچے کو باپ سے منسوب کیا جاتا ہے اور فلاں بن فلاں کہا جاتا ہے، مگر یہاں بن باپ کے بچوں سے کبھی کوئی اشکال نہیں ہوا، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایسے بچوں کا نسب ماں سے منسوب کردیا جاتا ہے، اسی طرح قیامت میں بھی ایسے بچوں کو ان کی ماوٴں سے منسوب کردیا جائے گا، اور جن بچوں کے نام کی شہرت دنیا میں باپ سے تھی ان کو ان کے اسی مشہور باپ سے منسوب کردیا جائے گا، والله اعلم!
اور حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کی نسبت تو دنیا میں بھی ان کی والدہ مقدسہ مریم بتول سے تھی اور ہے، چنانچہ قرآن کریم میں جگہ جگہ “عیسیٰ بن مریم” فرمایا گیا ہے، قیامت کے دن بھی ان کی یہی نسبت برقرار رہے گی۔ چنانچہ قیامت کے دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے جو سوال و جواب ہوگا، قرآن کریم نے اس کو بھی ذکر کیا ہے، اور ان کو “عیسیٰ بن مریم” سے مخاطب فرمایا ہے، اور یہ خصوصیت صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حاصل ہے کہ دنیا اور قیامت میں ان کی نسبت ماں کی طرف کی جاتی ہے، اس سے تو اس بات کو اور زیادہ تقویت ملتی ہے کہ قیامت کے دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی ماں کے نام سے پکارے جائیں گے باقی کوئی اور ماں کے نام سے نہیں پکارا جائے گا، تاکہ ان کی خصوصیت معلوم ہوسکے۔ بہرحال احادیث نبویہ اور قرآن مجید سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ قیامت کے دن افراد کی نسبت والد کی طرف ہوگی۔
مرنے کے بعد اور قیامت کے روز اعمال کا وزن
س… جناب مفتی صاحب! کیا یہ صحیح ہے کہ روزِ محشر ہمارے گناہ صغیرہ اور کبیرہ کا وزن ہمارے ثواب صغیرہ و کبیرہ سے ہوگا اور جس کا پلہ زیادہ یا کم ہوگا اسی کے مطابق جزا و سزا کے مستحق ہوں گے۔
ج… قرآن کریم کی آیات اور صحیح احادیث میں اعمال کا موزون ہونا مذکور ہے۔ اس میزان میں ایمان و کفر کا وزن کیا جائے گا اور پھر خاص موٴمنین کے لئے ایک پلہ میں ان کے حسنات اور دوسرے پلہ میں ان کے سیئات رکھ کر ان اعمال کو وزن ہوگا، جیسا کہ درمنثور میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اگر حسنات غالب ہوئے تو جنت اور سیئات غالب ہوئے تو دوزخ، اور اگر دونوں برابر ہوئے تو اعراف اس کے لئے تجویز ہوگی، پھر خواہ شفاعت سے سزا کے بغیر یا سزا کے بعد مغفرت ہوجائے گی۔
نوٹ:…جنت اور جہنم کے درمیان حائل ہونے والے حصار کے بالائی حصہ کا نام اعراف ہے، اس مقام پر کچھ لوگ ہوں گے جو جنت و دوزخ دونوں طرف کے حالات دیکھ رہے ہوں گے، وہ جنتیوں کے عیش و آرام کی بہ نسبت جہنم میں، اور جہنمیوں کی بہ نسبت جنت میں ہوں گے، اس مقام پر کن لوگوں کو رکھا جائے گا؟ اس میں متعدد اقوال ہیں، مگر صحیح اور راجح قول یہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جن کے حسنات و سیئات (نیکی اور بدی) کے دونوں پلڑے برابر ہوں گے۔
کیا حساب و کتاب کے بعد نبی کی بعثت ہوگی
س… ٹیلی ویژن کے پروگرام فہم القرآن میں علامہ طالب جوہری نے فرمایا کہ: خداوند تعالیٰ قیامت کے بعد ان غیرمسلموں پر دوبارہ نبی مبعوث فرمائے گا جن تک اسلام نہیں پہنچا تاکہ وہ مسلمان ہوجائیں۔ انہوں نے روایت کا ذکر کیا مگر تفصیل نہیں بتائی اس طرح تو مثلاً حبشی قوم جن کی زندگی کا پورا حصہ جنگل میں گزرا اور غیرمسلم ہوکر مرے، کیا قیامت کے بعد پھر سے غیرمسلم کے لئے اسلام کی تبلیغ شروع کی جائے گی؟ تو کون سے نبی ہوں گے جو یہ تبلیغ کا کام کریں گے؟
ج… قیامت میں کسی نبی کے مبعوث کئے جانے کی روایت میرے علم میں نہیں، جن لوگوں کو اسلام کی دعوت نہیں پہنچی ان کے بارے میں راجح مسلک یہ ہے کہ اگر وہ توحید کے قائل تھے تو ان کی بخشش ہوجائے گی ورنہ نہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جزا و سزا میں شریک نہیں
بلکہ اطلاع دینے والے ہیں
س… عزت و ذلت اور جزا و سزا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، ساتھ ہی اپنے کلام پاک میں سورہٴ اعراف کے رکوع:۲۳، سورہٴ احزاب رکوع:۶ اور سورہٴ السبا رکوع:۳ میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشخبری دینے والا قرار دیا، اس لفظ خوشخبری دینے والے کا کیا مفہوم سمجھا جائے؟ کیا اس میں علمِ غیب پنہاں ہے؟ جہاں اللہ تعالیٰ جزا و سزا کا خود ہی مالک ہے، اس میں رسالت مآب بھی شریک ہیں، جبکہ آپ خوشخبری دینے والے ہیں۔
ج… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نیک اعمال پر خوشخبری دینے والے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لئے نیک جزا کا وعدہ فرمایا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جزا و سزا میں شریک نہیں بلکہ منجانب اللہ جزا و سزا کی اطلاع دینے پر مامور ہیں۔
جرم کی دنیاوی سزا اور آخرت کی سزا
س… اگر ایک شخص نے قتل کیا ہو اور اس کو دنیا میں پھانسی یا عمر قید کی سزا مل گئی تو کیا قیامت کے دن بھی اس کو سزا ملے گی؟
ج… آخرت کے عذاب کی معافی توبہ سے ہوتی ہے، پس اگر اس کو اپنے جرم پر پشیمانی لاحق ہوئی اور اس نے توبہ کرلی اور خدا تعالیٰ سے معافی مانگی تو آخرت کی سزا نہیں ملے گی، ورنہ مل سکتی ہے۔ چونکہ ایسا مجرم جسے دنیا میں سزا ملی ہو اکثر اپنے کئے پر پشیمان ہوتا ہے اور وہ اس سے توبہ کرتا ہے اس لئے حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ: جس شخص کو دنیا میں سزا مل گئی وہ اس کے لئے آخرت کے عذاب سے کفارہ ہے اور جس کو دنیا میں سزا نہیں ملی اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے، اس کے کرم سے توقع ہے کہ معاف کردے۔
انسان جنتی اپنے اعمال سے بنتا ہے اتفاق اور چیزوں سے نہیں
س… اگر کوئی رمضان کی چاند رات کو یا پہلے روزے کو انتقال کرے تو کیا وہ جنتی ہے؟ یا غسل کے بعد خانہ کعبہ کے غلاف کا ٹکڑا قبر میں دفن کرنے تک مردے کے سرہانے رہے تو کیا وہ جنتی ہوا؟
ج… نہیں! جنتی تو آدمی اپنے اعمال سے بنتا ہے، کسی شخص کے بارے میں قطعی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ وہ جنتی ہے، البتہ بعض چیزوں کو اچھی علامت کہہ سکتے ہیں۔
کیا تمام مذاہب کے لوگ بخشے جائیں گے؟
س… ایک شخص نے یہ کہا کہ: کوئی ضروری نہیں کہ قرآن و حدیث کے پابند اشخاص ہی بخشے جائیں گے، بلکہ تمام مذاہب کے لوگوں کی بخشش ہوگی۔
ج… یہ عقیدہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد کے تمام مذاہب کے لوگوں کی بخشش ہوگی، خالص کفر ہے۔ کیونکہ دیگر مذاہب کے جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتے ہیں، خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرتے ہیں، ان کے بارے میں قرآن مجید میں جابجا تصریحات موجود ہیں کہ ان کی بخشش نہیں ہوگی، پس جو شخص خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتا ہو وہ یہ عقیدہ نہیں رکھ سکتا کہ تمام مذاہب کے لوگ بخشے جائیں گے۔
غیرمسلموں کے اچھے اعمال کا بدلہ
س… اگر کوئی غیرمسلم نیکی کا کوئی کام کرے مثلاً کہیں کنواں کھدوادے یا مخلوقِ خدا سے رحم و شفقت کا برتاوٴ کرے، جیسا کہ کچھ عرصہ قبل بھارتی کرکٹر بشن سنگھ بیدی نے ایک مسلمان بچے کے لئے اپنے خون کا عطیہ دیا تھا، تو کیا غیرمسلم کو نیک کام کرنے پر اجر ملے گا؟
ج… نیکی کی قبولیت کے لئے ایمان شرط ہے، اور ایمان کے بغیر نیکی ایسی ہے جیسے روح کے بغیر بدن۔ اس لئے اس کو آخرت میں اجر نہیں ملے گا البتہ دنیا میں ایسے اچھے کاموں کا بدلہ چکادیا جاتا ہے۔
س… دنیاوی تعلیم حاصل کرنے والے کچھ حضرات فرماتے ہیں کہ: غیرمسلم جو اچھے کام کرتے ہیں ان کو قیامت میں ان کا صلہ ملے گا، اور وہ جنت میں جائیں گے۔ میں نے ان سے کہا کہ غیرمسلم چاہے اہل کتاب کیوں نہ ہوں ان کو نیک کاموں کا صلہ یہاں مل سکتا ہے، قیامت میں نہیں ملے گا، نہ وہ جنت میں جائیں گے جب تک کلمہ پڑھ کر مسلمان نہیں ہوتے۔
ج… آپ کی بات صحیح ہے! قرآن مجید میں اور احادیث شریفہ میں بے شمار جگہ فرمایا گیا ہے کہ جنت اہل ایمان کے لئے ہے، اور کفار کے لئے جنت حرام ہے، اور یہ بھی بہت سی جگہ فرمایا گیا ہے کہ نیک اعمال کے قبول ہونے کے لئے ایمان شرط ہے، بغیر ایمان کے کوئی عمل مقبول نہیں، نہ اس پر قیامت کے دن کوئی اجر ملے گا۔
س… تمام لوگ حضرت آدم کی اولاد ہیں اور امت محمدی سے ہیں، عیسائی یا یہودی لوگ جن پر اللہ کریم نے تورات، انجیل نازل فرمائی ہیں، اگر وہ اپنے مذہب پر عمل کرتے ہیں، اس کے علاوہ سخاوت، غریبوں کی مدد کرنا، ہسپتال بنانا اور اس کے علاوہ کئی اچھے کام کرتے ہیں جن کی اسلام نے بھی اجازت دی ہے، تو کیا وہ لوگ جنت میں نہیں جاسکتے؟ اللہ کریم غفور رحیم ہے۔
ج… قرآن کریم میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کفر و شرک کے گناہ کو معاف نہیں کرے گا، اس سے کم درجے کے جو گناہ ہیں وہ جس کو چاہے معاف کردے گا۔ اور حدیث شریف میں ہے کہ اس امت میں جو شخص میرے بارے میں سنے اور مجھ پر ایمان نہ لائے خواہ وہ یہودی ہو یا نصرانی، اللہ تعالیٰ اس کو دوزخ میں داخل کرے گا۔ خلاصہ یہ کہ نجات اور مغفرت کے لئے ایمان شرط ہے، بغیر ایمان کے بخشش نہیں ہوگی۔
گناہ گار مسلمان کی بخشش
س… مولانا صاحب! کیا گناہ گار مسلمان جس نے اللہ کی وحدانیت کا اقرار کیا ہو، لیکن ساری زندگی گناہوں میں گزار دی وہ آخرت میں اپنے گناہوں کی سزا پانے کے بعد جنت میں داخل ہوسکے گا یا نہیں؟
ج… جس شخص کا خاتمہ ایمان پر ہوا انشاء اللہ اس کی کسی نہ کسی وقت ضرور بخشش ہوگی، لیکن مرنے سے پہلے آدمی کو سچی توبہ کرلینی چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کا تحمل نہیں ہوسکتا، اور بعض گناہ ایسے ہیں جن کی نحوست کی وجہ سے ایمان سلب ہوجاتا ہے (نعوذ باللہ)، اس لئے خاتمہ بالخیر کا بہت اہتمام کرنا چاہئے، اور اس کے لئے دعائیں بھی کرتے رہنا چاہئیں، اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو حسنِ خاتمہ کی دولت نصیب فرمائیں اور سوءِ خاتمہ سے اپنی پناہ میں رکھیں۔
گناہ اور ثواب برابر ہونے والے کا انجام
س… اگر قیامت کے دن انسان کے گناہ اور ثواب برابر ہوں تو کیا وہ جنت میں جائے گا یا جہنم میں؟
ج… ایک قول کے مطابق یہ شخص کچھ مدت کے لئے “اعراف” میں رہے گا، اس کے بعد جنت میں داخل ہوگا۔
کیا قطعی گناہ کو گناہ نہ سمجھنے والا ہمیشہ جہنم میں رہے گا؟
س… جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ: “رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں دوزخی ہیں۔” تو کیا ایسے دوزخی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دوزخ کی آگ میں رہیں گے؟ اسی طرح دوسرے گناہ گار بھی جو اس دنیا میں مختلف گناہوں میں ملوث ہیں، دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے یا گناہوں کی سزا مل جانے کے بعد جنت میں داخل کردئیے جائیں گے؟ یا دوزخی کو کبھی جنت نصیب نہ ہوگی؟
ج… دائمی جہنم تو کفر کی سزا ہے، کفر و شرک کے علاوہ جتنے گناہ ہیں اگر آدمی توبہ کئے بغیر مرجائے تو ان کی مقررہ سزا ملے گی اور اگر اللہ تعالیٰ چاہیں تو اپنی رحمت سے بغیر سزا کے بھی معاف فرماسکتے ہیں، بشرطیکہ خاتمہ ایمان پر ہوا ہو لیکن یہ یاد رہنا چاہئے کہ گناہ کو گناہ نہ سمجھنے سے آدمی ایمان سے خارج ہوجاتا ہے اور یہ بہت ہی باریک اور سنگین بات ہے۔ بہت سے سود کھانے والے، رشوت کھانے والے اور داڑھی منڈوانے یا کترانے والے اپنے آپ کو گناہ گار ہی نہیں سمجھتے، خلاصہ یہ ہے کہ جن گناہوں کو آدمی گناہ سمجھ کر کرتا ہو اور اپنے آپ کو گناہ گار اور مجرم تصور کرتا ہو، ان کی معافی تو ہوجائے گی، خواہ سزا کے بعد ہو یا سزا کے بغیر، لیکن جن گناہوں کو گناہ ہی نہیں سمجھا ان کا معاملہ زیادہ خطرناک ہے۔
گناہ گار مسلمان کو دوزخ کے بعد جنت
س… جنت کی زندگی دائمی ہے، کیا دوزخ میں ڈالے گئے کلمہ گو کو سزا کے بعد جنت میں داخل کیا جائے گا یا وہ سزا بھی ابدی ہے؟ قرآن و حدیث سے وضاحت فرمائیں۔
ج… جس شخص کے دل میں ادنیٰ سے ادنیٰ درجہ کا ایمان بھی ہوگا، وہ دوزخ میں ہمیشہ نہیں رہے گا، سزا بھگت کر جنت میں داخل ہوگا۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر عذابِ الٰہی کو روکنے کا ذریعہ ہے
س… ایک عرض ہے کہ دینی رسالہ بینات خالص دینی ہونا چاہئے، کسی پر اعتراض و تشنیع مجھے پسند نہیں۔ اس سے نفرت کا جذبہ ابھرتا ہے، صدر ضیاء الحق کے بیانات پر اعتراضات یقینا عوام میں نفرت پھیلنے کا ذریعہ بنتے ہیں، جس سے مملکت کی بنیادیں کھوکھلی پڑجانے کا خطرہ ضرور ہے۔ ویسے بھی ملک اندرونی اور بیرونی خطرات سے دوچار ہے، کہیں بھارت آنکھیں دکھا رہا ہے، تو کہیں کارمل انتظامیہ کی شہ پر روس کی آواز سنی جاتی ہے، کہیں خمینی کے اسلامی انقلاب کی آمد آمد کی خبریں سننے میں آجاتی ہیں، کہیں ملک کے ہتھوڑا گروپ، کلہاڑا گروپ وغیرہ کی صدائیں سننے میں آتی ہیں۔ غرض ایسے حالات میں ذرا سی چنگاری ہمارے پاکستان کا شیرازہ بکھیر سکتی ہے، اس صورت میں پھر یہ ذمہ داری کس پر عائد ہوگی؟ اس بارے میں اگر تفصیل سے روشنی ڈالی جائے تو نوازش ہوگی۔
ج… آپ کا یہ ارشاد تو بجا ہے کہ وطن عزیز بہت سے اندرونی و بیرونی خطرات میں گھرا ہوا ہے، اور یہ بات بھی بالکل صحیح ہے کہ ان حالات میں حکومت سے بے اعتمادی پیدا کرنا قرین عقل و دانش نہیں، لیکن آنجناب کو معلوم ہے کہ بینات میں یا راقم الحروف کی کسی اور تحریر میں صدر ضیاء الحق صاحب کے کسی سیاسی فیصلے کے بارے میں کبھی لب کشائی اور حرف زنی نہیں کی گئی:
کار مملکت خسرواں دانند!
لیکن جہاں تک دینی غلطیوں کا تعلق ہے، اس پر ٹوکنا نہ صرف یہ کہ اہل علم کا فرض ہے (اور مجھے افسوس اور ندامت کے ساتھ اعتراف ہے کہ ہم یہ فرض ایک فیصد بھی ادا نہیں کر پارہے) بلکہ یہ خود صدرِ محترم کے حق میں خیر کا باعث ہے۔ اس سلسلہ میں آپ کو امیرالموٴمنین حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کا واقعہ سناتا ہوں، جو حضرت مولانا محمد یوسف دہلوی قدس سرہ نے “حیاة الصحابہ” میں نقل کیا ہے:
“واخرج الطبرانی وابویعلیٰ عن ابی قبیل عن معاویة بن ابی سفیان رضی الله عنہما، انہ صعد المنبر یوم القمامة فقال عند خطبتہ: “انما المال مالنا والفیٴ فیئنا، فمن شئنا اعطیناہ ومن شئنا منعناہ۔ فلم یجبہ احد فلما کان فی الجمعة الثانیة قال مثل ذالک، فلم یجبہ احد، فلما کان فی الجمعة الثالثة قال مثل مقالتہ، فقام الیہ رجل ممکن حضر المسجد فقال: کلا! انما المال مالنا والفیٴ فیئنا، فمن حال بیننا وبینہ حاکمناہ الی الله بأسیافنا۔ فنزل معاویة رضی الله عنہ فارسل الی الرجل فادخلہ فقال القوم: ھلک الرجل! ثم دخل الناس فوجدوا الرجل معہ علی السریر فقال معاویة رضی الله عنہ للناس: ان ھذا احیانی احیاہ الله، سمعت رسول الله صلی الله علیہ وسلم یقول: “سیکون بعدی امراء یقولون ولا یرد علیھم، یتقاحمون فی النار کما تتقاحم القردة۔” وانی تکلمت اول جمعة فلم یرد علیّ احد، فخشیت ان اکون منھم، ثم تکلمت فی الجمعة الثانیة فلم یرد علیّ احد، فقلت فی نفسی انی من القوم، ثم تکلمت فی الجمعة الثالثة فقام ھذا الرجل فرد علیّ فاحیانی احیاہ الله۔” قال الہیثمی (ج:۵ ص:۲۳۶) رواہ الطبرانی فی الکبیر والاوسط، وابویعلیٰ ورجالہ ثقات۔” (حیاة الصحابة ج:۲ ص:۶۸)
ترجمہ:…”حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما، قمامہ کے دن منبر پر تشریف لے گئے اور اپنے خطبہ میں فرمایا کہ: مال ہمارا ہے اور فئے (غنیمت) ہماری ہے، ہم جسے چاہیں دیں اور جسے چاہیں نہ دیں۔ ان کی یہ بات سن کر کسی نے جواب نہیں دیا۔ دوسرا جمعہ آیا تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبہ میں پھر یہی بات کہی، اب کے بھی انہیں کسی نے نہیں ٹوکا، تیسرا جمعہ آیا تو پھر یہی بات کہی اس پر حاضرین مسجد میں سے ایک شخص کھڑا ہوگیا اور کہا:
ہرگز نہیں! یہ مال ہمارا ہے، اور غنیمت ہماری ہے، جو شخص اس کے اور ہمارے درمیان آڑے آئے گا ہم اپنی تلواروں کے ذریعہ اس کا فیصلہ اللہ کی بارگاہ میں پیش کریں گے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ منبر سے اترے تو اس شخص کو بلا بھیجا، اور اسے اپنے ساتھ اندر لے گئے۔ لوگوں نے کہا کہ: یہ شخص تو مارا گیا! پھر لوگ اندر گئے تو دیکھا کہ وہ شخص حضرت معاویہ کے ساتھ تخت پر بیٹھا ہے، حضرت معاویہنے لوگوں سے فرمایا: اس شخص نے مجھے زندہ کردیا، اللہ تعالیٰ اسے زندہ رکھے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے خود سنا کہ: “میرے بعد کچھ حکام ہوں گے، جو (خلافِ شریعت) باتیں کریں گے لیکن کوئی ان کو ٹوکے گا نہیں، یہ لوگ دوزخ میں ایسے گھسیں گے جیسے بندر گھستے ہیں۔” میں نے پہلے جمعہ کو ایک بات کہی، اس پر مجھے کسی نے نہیں ٹوکا، تو مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں میں بھی انہیں لوگوں میں نہ ہوں۔ پھر میں نے دوسرے جمعہ کو یہ بات دہرائی، اس بار بھی کسی نے میری تردید نہیں کی، تو میں نے اپنے جی میں سوچا کہ میں انہی میں سے ہوں۔ پھر میں نے تیسرے جمعہ یہی بات کہی تو اس شخص نے اٹھ کر مجھے ٹوک دیا، پس اس نے مجھے زندہ کردیا، اللہ تعالیٰ اس کو زندہ رکھے!”
اور یہ نہ صرف صدرِ محترم کے حق میں خیر و برکت کی چیز ہے، بلکہ امت کی صلاح و فلاح بھی اسی میں ہے۔ چنانچہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
“والذی نفسی بیدہ! لتأمرن بالمعروف ولتنہون عن المنکر او لیوشکن الله ان یبعث علیکم عذاباً من عندہ ثم لتدعنہ ولا یستجاب لکم۔ رواہ الترمذی۔” (مشکوٰة ص:۴۳۶)
ترجمہ:…”اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! تمہیں معروف کا حکم کرنا ہوگا، اور برائی سے روکنا ہوگا، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب نازل کردے، پھر تم اس سے دعائیں کرو، اور تمہاری دعائیں بھی نہ سنی جائیں۔”
ان ارشاداتِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں راقم الحروف کا احساس یہ ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا عمل عذابِ الٰہی کو روکنے کا ذریعہ ہے۔ آج امت پر جو طرح طرح کے مصائب ٹوٹ رہے ہیں اور ہم گوناگوں خطرات میں گھرے ہوئے ہیں، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ کی “احتسابی حس” کمزور اور نہی عن المنکر کی آواز بہت دھیمی ہوگئی ہے۔ جس دن یہ آواز بالکل خاموش ہوجائے گی اس دن ہمیں اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس روزِ بد سے محفوظ رکھیں۔
جنت
جنت میں اللہ کا دیدار
س… کیا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سب انسانوں کو نظر آئیں گے؟ جواب دے کر مشکور فرمائیں۔
ج… اہل سنت والجماعت کے عقائد میں لکھا ہے کہ قیامت کے دن اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا، یہ مسئلہ قرآن کریم کی آیات اور احادیث شریفہ سے ثابت ہے۔
نیک عورت جنتی حوروں کی سردار ہوگی
س… جناب! آج تک یہ سنتے آئے ہیں کہ جب کوئی نیک مرد انتقال کرتا ہے تو اسے ستر حوریں خدمت کے لئے دی جائیں گی، لیکن جب کوئی عورت انتقال کرتی ہے تو اس کو کیا دیا جائے گا؟
ج… وہ اپنے جنتی شوہر کے ساتھ رہے گی اور جنت کی حوروں کی سردار ہوگی۔ جنت میں سب کی عمر اور قد یکساں ہوگا اور بدن نقائص سے پاک، شناخت حلیہ سے ہوگی، جن خواتین کے شوہر بھی جنتی ہوں گے وہ تو اپنے شوہروں کے ساتھ ہوں گی اور حورِ عین کی ملکہ ہوں گی اور جن خواتین کا یہاں عقد نہیں ہوا ان کا جنت میں کسی سے عقد کردیا جائے گا، بہرحال دنیا کی جنتی عورتوں کو جنت کی حوروں پر فوقیت ہوگی۔
بہشت میں ایک دوسرے کی پہچان اور محبت
س… بہشت میں باپ، ماں، بیٹا، بہن، بھائی ایک دوسرے کو پہچان سکیں گے تو ان سے وہی محبت ہوگی جو اس دنیا میں ہے یا محبت وغیرہ کچھ بھی نہیں ہوگی؟
ج… اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے بہشت میں لے جائیں تو جان پہچان اور محبت تو ایسی ہوگی کہ دنیا میں اس کا تصور ہی ممکن نہیں۔
جنت میں مرد کے لئے سونے کا استعمال
س… قرآن کی سورہٴ حج کی آیت نمبر:۲۳ میں ہے کہ: “جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے اللہ تعالیٰ انہیں (بہشت کے) ایسے باغوں میں داخل کرے گا جس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور ان کو وہاں سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے۔” اس میں دریافت طلب امر یہ ہے کہ جنت میں نیکوکاروں کو سونا کیسے پہننا جائز ہوجائے گا جبکہ دنیا میں اچھے یا برے مرد کے لئے ہر حال میں سونا پہننا جائز نہیں؟
ج… دنیا میں مرد کو سونا پہننا جائز نہیں، لیکن جنت میں جائز ہوگا اس لئے پہنایا جائے گا۔
دوبارہ زندہ ہوں گے تو کتنی عمر ہوگی؟
س… انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے گا تو کیا اسے اسی عمر میں زندہ کیا جائے گا جس عمر میں وہ مرا تھا؟
ج… اس کی تصریح تو یاد نہیں، البتہ بعض دلائل و قرائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ جس عمر میں آدمی مرا ہو اسی میں اٹھایا جائے گا۔
کیا “سیدا شباب اھل الجنة” والی حدیث صحیح ہے؟
س… ایک دوست نے گفتگو کے دوران کہا کہ جمعہ کے خطبہ میں جو حدیث عموماً پڑھی جاتی ہے “الحسن والحسین سیدا شباب اھل الجنة” یہ مولویوں کی گھڑی ہوئی ہے، ورنہ اہل جنت میں تو انبیاء کرام بھی ہوں گے، کیا حضرت حسن و حسین ان کے بھی سردار ہوں گے؟ آپ سے گزارش ہے کہ اس پر روشنی ڈالیں کہ اس دوست کی بات کہاں تک صحیح ہے؟
ج… یہ حدیث تین قسم کے الفاظ سے متعدد صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) سے مروی ہے، چنانچہ حدیث کے جو الفاظ سوال میں مذکور ہیں، جامع صغیر میں اس کے لئے مندرجہ ذیل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی احادیث کا حوالہ دیا گیا ہے:
۱:…حضرت ابوسعید خدری: مسند احمد، ترمذی۔
۲:…حضرت عمر: طبرانی فی الکبیر۔
۳:…حضرت علی: طبرانی فی الکبیر۔
۴:…حضرت جابر: طبرانی فی الکبیر۔
۵:…حضرت ابوہریرہ: طبرانی فی الکبیر۔
۶:…حضرت اسامہ بن زید: طبرانی فی الاوسط۔
۷:…حضرت برأ بن عازب: طبرانی فی الاوسط۔
۸:…حضرت ابن مسعود: ابن عدی۔
ایک اور حدیث کے الفاظ ہیں:
“الحسن والحسین سیدا شباب اھل الجنة وابواھما خیر منھما۔”
ترجمہ:…”حسن اور حسین جوانانِ جنت کے سردار ہیں اور ان کے والدین ان سے افضل ہیں۔”
اس لئے مندرجہ ذیل صحابہ کرام کی روایت کا حوالہ دیا ہے:
۱:…ابن عمر: ابن ماجہ، مستدرک۔
۲:…قرہ بن ایاس: طبرانی فی الکبیر۔
۳:…مالک بن حویرث: طبرانی فی الکبیر۔
۴:…ابن مسعود: مستدرک۔
اس حدیث کے یہ الفاظ بھی مروی ہیں:
“الحسن والحسین سیدا شباب اھل الجنة الا ابنی الخالة عیسیٰ بن مریم ویحییٰ بن زکریا، وفاطمة سیدة نساء اھل الجنة الا ما کان من مریم بنت عمران۔”
ترجمہ:…”حسن و حسین جوانانِ جنت کے سردار ہیں، سوائے دو خلیرے بھائیوں عیسیٰ بن مریم اور یحییٰ بن زکریا علیہم السلام کے اور فاطمہ خواتین جنت کی سردار ہیں، سوائے مریم بنت عمران کے۔”
یہ روایت حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مسند احمد، صحیح ابن حبان، مسند ابی یعلیٰ، طبرانی، معجم کبیر اور مستدرک حاکم میں مروی ہے۔
مجمع الزوائد ج:۹ ص:۱۸۳، ۱۸۴ میں یہ حدیث حضرت حذیفہ بن یمان اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما سے بھی نقل کی ہے، اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ حدیث ۱۳ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے (جن میں سے بعض احادیث صحیح ہیں، بعض حسن اور بعض ضعیف) اس لئے یہ حدیث بلاشبہ صحیح ہے، بلکہ حافظ سیوطی نے اس کو متواترات میں شمار کیا ہے جیسا کہ فیض القدیر شرح جامع صغیر (ج:۲ ص:۴۱۵) میں نقل کیا ہے۔
رہا یہ کہ اہل جنت میں تو انبیاء کرام علیہم السلام بھی ہوں گے، اس کا جواب یہ ہے کہ جوانانِ اہل جنت سے مراد وہ حضرات ہیں جن کا انتقال جوانی میں ہوا ہو، ان پر حضرات حسنین رضی اللہ عنہما کی سیادت ہوگی، حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اس سے مستثنیٰ ہیں، اسی طرح حضرات خلفائے راشدین اور وہ حضرات جن کا انتقال پختہ عمر میں ہوا وہ بھی اس میں شامل نہیں، چنانچہ ایک اور حدیث میں ہے:
“وابوبکر وعمر سیدا کھول اھل الجنة من الاولین والآخرین ما خلا النبیین والمرسلین۔”
ترجمہ:…”ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سردار ہیں اہل جنت کے پختہ عمر کے لوگوں کے اولین و آخرین سے، سوائے انبیاء و مرسلین کے۔”
یہ حدیث بھی متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
۱:…حضرت علی (مسند احمد ج:۱ ص:۸، ترمذی ج:۲ ص:۲۰۷، ابن ماجہ ص:۱۰)۔
۲:…حضرت انس (ترمذی ج:۲ ص:۲۰۷)۔
۳:…حضرت ابوججیفہ (ابن ماجہ ص:۱۱)۔
۴:…حضرت جابر (طبرانی فی الاوسط، مجمع الزوائد ج:۹ ص:۵۳)۔
۵:…حضرت ابو سعید خدری (ایضاً)۔
۶:…حضرت ابن عمر (بزار، مجمع الزوائد ج:۹ ص:۵۳)۔
۷:…حضرت ابن عباس (امام ترمذی نے اس کا حوالہ دیا ہے ج:۲ ص:۲۰۷)۔
اس حدیث میں حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کے کہول (ادھیڑ عمر) اہل جنت کے سردار ہونے کے ساتھ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے استثناء کی تصریح ہے، ان دونوں احادیث کے پیش نظر یہ کہا جائے گا کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے علاوہ اہل جنت میں سے جن حضرات کا انتقال پختہ عمر میں ہوا، ان کے سردار حضرات شیخین رضی اللہ عنہما ہوں گے اور جن کا جوانی میں انتقال ہوا ان کے سردار حضرات حسنین رضی اللہ عنہما ہوں گے، والله اعلم!
تعویذ گنڈے اور جادو
تعویذ گنڈے کی شرعی حیثیت
س… ہمارے خاندان میں تعویذ گنڈے کی بہت شہرت ہے، اور اسی وجہ سے میرے ذہن میں یہ سوال آیا کہ کیا کسی کو تعویذ کرانے سے اس پر اثر ہوجاتا ہے؟
ج… تعویذ گنڈے کا اثر ہوتا ہے اور ضرور ہوتا ہے، مگر ان کی تأثیر بھی باذن اللہ ہے۔ کسی کو نقصان پہنچانے کے لئے جو تعویذ گنڈے کئے جاتے ہیں ان کا حکم تو وہی ہے جو جادو کا ہے کہ ان کا کرنا اور کرانا حرام اور کبیرہ گناہ ہے، بلکہ اس سے کفر کا اندیشہ ہے، اور میں اوپر عرض کرچکا ہوں کہ اس کا اثر ضرور ہوتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی شخص کسی پر گندگی پھینک دے تو ایسا کرنا تو حرام اور گناہ ہے اور یہ نہایت کمینہ حرکت ہے، مگر جس پر گندگی پھینکی گئی ہے اس کے کپڑے اور بدن ضرور خراب ہوں گے اور اس کی بدبو بھی ضرور آئے گی، پس کسی چیز کا حرام اور گناہ ہونا دوسری بات ہے اور اس گندگی کا اثر ہونا فطری چیز ہے۔ تعویذ اگر کسی جائز مقصد کے لئے کیا جائے تو جائز ہے، بشرطیکہ اس میں کوئی گناہ اور شرک کی بات نہ لکھی ہو، پس تعویذ گنڈے کے جواز کی تین شرطیں ہیں:
اول:… کسی جائز مقصد کے لئے ہو، ناجائز مقاصد کے لئے نہ ہو۔
دوم:… اس کے الفاظ کفر و شرک پر مشتمل نہ ہوں اور اگر وہ ایسے الفاظ پر مشتمل ہوں جن کا مفہوم معلوم نہیں تو وہ بھی ناجائز ہے۔
سوم:…ان کو موٴثر بالذات نہ سمجھا جائے۔
کیا حدیث پاک میں تعویذ لٹکانے کی ممانعت آئی ہے
س… ایک دکان پر کچھ کلمات لکھے ہوئے دیکھے جو درج ذیل ہیں: “جس نے گلے میں تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا۔” اور ساتھ ہی مذکورہ حدیث لکھی تھی: “من علق تمیمة فقد اشرک۔” (مسند احمد) گزارش یہ ہے کہ یہ صحیح ہے یا غلط؟ حدیث مذکورہ کا کیا درجہ ہے؟ اگر اس کا ذکر کہیں نہ ہو تو بھی درخواست ہے کہ گلے میں تعویذ پہننا کیسا ہے؟
ج… یہ حدیث صحیح ہے، مگر اس میں تعویذ سے مطلق تعویذ مراد نہیں بلکہ وہ تعویذ مراد ہیں جو جاہلیت کے زمانے میں کئے جاتے تھے اور جو شرکیہ الفاظ پر مشتمل ہوتے تھے، پوری حدیث پڑھنے سے یہ مطلب بالکل واضح ہوجاتا ہے، چنانچہ حدیث کا ترجمہ یہ ہے:
“حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک گروہ (بیعت کے لئے) حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نو کو بیعت فرمالیا اور ایک کو نہیں فرمایا، عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! آپ نے نو کو بیعت کرلیا اور ایک کو چھوڑ دیا؟ فرمایا: اس نے تعویذ لٹکا رکھا ہے! یہ سن کر اس شخص نے ہاتھ ڈالا اور تعویذ کو توڑ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بیعت فرمالیا اور فرمایا: “من علق تمیمة فقد اشرک۔” (مجمع الزوائد ج:۵ ص:۱۰۳) ترجمہ: “جس نے تعویذ باندھا اس نے شرک کا ارتکاب کیا۔” اس سے معلوم ہوا کہ یہاں ہر تعویذ مراد نہیں، بلکہ جاہلیت کے تعویذ مراد ہیں اور دورِ جاہلیت میں کاہن لوگ شیطان کی مدد کے الفاظ لکھا کرتے تھے۔
تعویذ گنڈا صحیح مقصد کے لئے جائز ہے
س… “تعویذ گنڈا شرک ہے” اس عنوان سے ایک کتابچہ کیپٹن ڈاکٹر مسعودالدین عثمانی نے توحید روڈ کیماڑی کراچی سے شائع کیا ہے، انہوں نے یہ حدیث نقل کی ہے:
“ان الرقی والتمائم والتولة شرک۔ رواہ ابوداود۔” (مشکوٰة ص:۳۸۹)۔
(ترجمہ) تعویذ اور تولہ (یعنی ٹونا، منتر) سب شرک ہیں۔ انہوں نے بعض واقعات اور حدیث سے ثابت کیا ہے کہ قرآنی آیت بھی گلے میں نہیں لٹکانی چاہئے، پانی وغیرہ پر دم بھی نہیں کرنا چاہئے، اس سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ یہ کام عام طور پر سب کرتے ہیں، اگر یہ سب شرک ہے تو پھر یہ سب باتیں ہم کو چھوڑنی ہوں گی۔ آپ اپنی رائے سے جلد از جلد مطلع فرمائیں تاکہ عوام اس سے باخبر ہوں اور شرک جیسے عظیم گناہ سے بچ جائیں۔
ج… ڈاکٹر صاحب نے غلط لکھا ہے! قرآنی آیات کا تعویذ جائز ہے جبکہ غلط مقاصد کے لئے نہ کیا گیا ہو۔ حدیث میں جن ٹونوں ٹوٹکوں کو شرک فرمایا گیا ہے، ان سے زمانہ جاہلیت میں رائج شدہ ٹونے ٹوٹکے مراد ہیں، جن میں مشرکانہ الفاظ پائے جاتے تھے اور جنات وغیرہ سے استعانت حاصل کی جاتی تھی۔ قرآنی آیت پڑھ کر دم کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت ہے اور بزرگانِ دین کے معمولات میں شامل ہے۔
ناجائز کام کے لئے تعویذ بھی ناجائز ہے، لینے والا اور دینے والا دونوں گناہ گار ہوں گے
س… ہمارے محلے میں ایک مولوی صاحب رہتے ہیں جو کسی زمانے میں امام مسجد ہوا کرتے تھے، آج کل تعویذ گنڈوں کا کام کرتے ہیں اور ان کے پاس ہر وقت بہت بھیڑبھاڑ رہتی ہے، زیادہ تر رش عورتوں کا ہوتا ہے، جن کی فرمائشیں کچھ اس طرح ہوتی ہیں، مثلاً: فلاں کا بچہ مرجائے، فلاں کا کاروبار بند ہوجائے، میرا خاوند مجھے طلاق دے دے، فلاں کی ساس مرجائے۔ کیا اس طرح تعویذ کرانے صحیح ہیں؟ اس میں کون گناہ گار ہوگا؟
ج… جائز کام کے لئے تعویذ جائز ہے اور ناجائز کام کے لئے ناجائز۔ ناجائز تعویذ کرنے اور کرانے والے دونوں برابر کے گناہ گار ہیں۔
حق کام کے لئے تعویذ لکھنا دنیوی تدبیر ہے عبادت نہیں
س… ہمارے ایک بزرگ ہیں ان کا خیال ہے کہ تعویذ لکھنا از روئے شریعت جائز نہیں، چاہے وہ کسی کام کے لئے ہوں۔ مثلاً: حاجت روائی، ملازمت کے سلسلے میں وغیرہ وغیرہ۔ ان کا یہ بھی فرمانا ہے کہ قرآن پاک میں کہیں بھی یہ ذکر نہیں ہے کہ فلاں آیت کو لکھ کر گلے میں لٹکانے سے یا بازو میں باندھنے سے آدمی کی کوئی ضرورت پوری ہوجاتی ہے۔ صرف اللہ تعالیٰ کی مدد پر یقین رکھنا چاہئے، لیکن میرا خیال ہے کہ تعویذوں میں اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب کی آیات لکھی جاتی ہیں، یہ صحیح ہے کہ کئی لوگ ان کا غلط استعمال کرتے ہیں، لیکن جائز کام کے لئے تو انہیں لکھا جاسکتا ہے۔
ج… قرآنی آیات پڑھ کر دم کرنے کا احادیث طیبہ میں ذکر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام اور بعد کے صلحاء کا یہ معمول رہا ہے، تعویذ بھی اسی کی ایک شکل ہے۔ اس لئے اس کے جواز میں تو شبہ نہیں، البتہ تعویذ کی حیثیت کو سمجھ لینا ضروری ہے۔ بعض لوگ تعویذ کی تاثیر کو قطعی یقینی سمجھتے ہیں، یہ صحیح نہیں، بلکہ تعویذ بھی من جملہ اور تدابیر کے ایک علاج اور تدبیر ہے اور اس کا مفید ہونا نہ ہونا اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے۔ بعض لوگ تعویذ کو “روحانی عمل” سمجھتے ہیں، یہ خیال بھی قابل اصلاح ہے، روحانیت اور چیز ہے اور تعویذ وغیرہ محض دنیوی تدبیر و علاج ہے، اس لئے جو شخص تعویذ کرتا ہو اس کو بزرگ سمجھ لینا غلطی ہے، بعض لوگ دعا پر اتنا یقین نہیں رکھتے جتنا کہ تعویذ پر، یہ بھی قابل اصلاح ہے، دعا عبادت ہے اور تعویذ کرنا کوئی عبادت نہیں اور کسی ناجائز مقصد کے لئے تعویذ کرانا حرام ہے۔
تعویذ کا معاوضہ جائز ہے
س… کسی بھی جائز ضرورت کے لئے کسی بھی شخص کا بالعوض دعا، تعویذ وغیرہ پر کچھ رقم طلب کرنے پر دینا جائز ہے یا نہیں؟ اگر کوئی شخص جو بلحاظ عمر و بیماری ضرورت مند ہونے کے لئے دعا تعویذ و غیرہ دینے کے بعد صرف معمولی معاوضہ اپنی حاجت کے لئے طلب کرے تو ایسی صورت میں اس کی دعائیں اور یہ عمل قابل قبول ہوگا یا نہیں؟
ج… دعا تو عبادت ہے اور اس کا معاوضہ طلب کرنا غلط ہے۔ باقی وظیفہ و تعویذ جو کسی دنیوی مقصد کے لئے کیا جائے اس کی حیثیت عبادت کی نہیں بلکہ ایک دنیوی تدبیر اور علاج کی ہے۔ اس کا معاوضہ لینا دینا جائز ہے۔ باقی ایسے لوگوں کے وظیفے اور تعویذ کارگر بھی ہوا کرتے ہیں یا نہیں؟ یہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں جس کے بارے میں کچھ عرض کیا جائے، البتہ تجربہ یہ ہے کہ ایسے لوگ اکثر دکاندار ہوتے ہیں۔
تعویذ پہن کر بیت الخلائجانا
س… اگر قرآن شریف کی آیات کو موم جامہ کرکے گلے میں ڈال لیا جائے تو کیا ان کو اتارے بغیر کسی ناپاک جگہ مثلاً: باتھ روم میں جاسکتے ہیں یا نہیں؟
ج… ایسی انگوٹھی جس پر اللہ تعالیٰ کا نام یا آیاتِ قرآنی کندہ ہوں اس کو پہن کر بیت الخلاء میں جانا مکروہ لکھا ہے۔ (عالمگیری ج:۱ ص:۵۰، مطبوعہ مصر)
جادو کرنا گناہِ کبیرہ ہے اس کا توڑ آیاتِ قرآنی ہیں
س… کیا قرآن و سنت کی رو سے جادو برحق ہے؟ اور کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی جادو کے زور سے کسی کو برے راستے پر گامزن کردے یا یہ کہ کوئی جادو کے ذریعے کسی کا برا چاہے اور دوسرے کو مصیبت اور پریشانی میں مبتلا کردے۔ میں اس سلسلے میں یہ عرض کرنا چاہوں گی کہ جو لوگ جادو کے برحق ہونے کے حق میں دلائل دیتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی چل گیا تھا، تو ہم تو معمولی سے بندے ہیں اور اس سلسلے میں سورہٴ فلق کا حوالہ دیا جاتا ہے، آپ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔
ج… جادو چل جاتا ہے اور اس کا اثرانداز ہونا قرآن کریم میں مذکور ہے، مگر جادو کرنا گناہِ کبیرہ ہے اور جادو کرنے اور کرانے والے دونوں ملعون ہیں۔ قرآن کریم نے جادو کو کفر فرمایا ہے، گویا ایسے لوگوں کا ایمان سلب ہوجاتا ہے۔
س… جو حضرات جن میں بزرگان دین بھی شامل ہوتے ہیں اور جو جادو کا اتار کرنے کی خاطر تعویذ وغیرہ دیتے ہیں کیا ان کے پاس جاکر اپنی مشکلات بیان کرنا اور ان سے مدد چاہنا شرک کے زمرے میں آتا ہے؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو نادانستگی میں ایسا کرنے والوں کے لئے کفارہٴ گناہ کیا ہوسکتا ہے؟
ج… جادو کا توڑ کرنے والوں کے لئے کسی ایسے شخص سے رجوع کرنا جو اس کا توڑ جانتا ہو جائز ہے، بشرطیکہ وہ جادو کا توڑ جادو اور سفلی عمل سے نہ کرے بلکہ آیاتِ قرآنی سے کرے، یہ شرک کے زمرے میں نہیں آتا۔
نقصان پہنچانے والے تعویذ جادو ٹوٹکے حرام ہیں
س… کیا تعویذ، جادو، ٹونا جائز ہے یا نہیں؟ کیونکہ تعویذوں کا اثر ہمیشہ ہوتا ہے اور انسان کو نقصان پہنچتا ہے۔ تعویذ کرنے والے کے لئے کیا سزا اسلام نے تجویز کی ہے؟
ج… کسی کو نقصان پہنچانے کے لئے تعویذ جادو ٹوٹکے کرنا حرام ہے اور ایسا شخص اگر توبہ نہ کرے تو اس کو سزائے موت ہوسکتی ہے۔
جو جادو یا سفلی عمل کو حلال سمجھ کر کرے وہ کافر ہے
س… کوئی آدمی یا عورت کسی پر تعویذ دھاگہ سفلی عمل یا پھر جادو کا استعمال کرے اور اس کے اس عمل سے دوسرے آدمی کو تکلیف پہنچے یا پھر اگر وہ آدمی اس تکلیف سے انتقال کرجائے تو خداوند تعالیٰ کے نزدیک ان لوگوں کا کیا درجہ ہوگا چاہے وہ تکلیف میں ہی مبتلا ہوں یا انتقال ہوجائے، کیونکہ آج کل کالا عمل کا رواج زیادہ عروج کر رہا ہے لہٰذا مہربانی فرماکر تفصیل سے لکھنا تاکہ اس کالے دھندے کرنے اور کرانے والوں کو اپنا انجام معلوم ہوسکے، اللہ ان لوگوں کو نیک ہدایت دے، آمین!
ج… جادو اور سفلی عمل کرنا اس کے بدترین گناہ ہونے میں تو کسی کا اختلاف نہیں۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ جادو کرنے سے آدمی کافر ہوجاتا ہے یا نہیں؟ صحیح یہ ہے کہ اگر اس کو حلال سمجھ کر کرے تو کافر ہے اور اگر حرام اور گناہ سمجھ کر کرے تو کافر نہیں، گناہ گار اور فاسق ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ایسے سفلی اعمال سے دل سیاہ ہوجاتا ہے، اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس آفت سے بچائے، یہ بھی فقہائے امت نے لکھا ہے کہ اگر کسی کے جادو اور سفلی عمل سے کسی کی موت واقع ہوجائے تو یہ شخص قاتل تصور کیا جائے گا۔
سفلی عملیات سے توبہ کرنی چاہئے
س… میں نے جوانی کے عالم میں سفلی عملیات پڑھے تھے، اس گناہ کے ازالہ کے لئے کیا کرنا چاہئے؟
ج… ان عملیات کو چھوڑ دیجئے اور اس گناہ سے توبہ کیجئے۔
Share this article :
 

Copyright © 2011. Al Asir Channel Urdu Islamic Websites Tarjuman Maslak e Deoband - All Rights Reserved
Template Created by piscean Solutions Published by AL Asir Channel
Proudly powered by AL Asir Channel