حق کام کے لئے تعویذ لکھنا دنیوی تدبیر ہے عبادت نہیں
س… ہمارے ایک بزرگ ہیں ان کا خیال ہے کہ تعویذ لکھنا از روئے شریعت جائز نہیں، چاہے وہ کسی کام کے لئے ہوں۔ مثلاً: حاجت روائی، ملازمت کے سلسلے میں وغیرہ وغیرہ۔ ان کا یہ بھی فرمانا ہے کہ قرآن پاک میں کہیں بھی یہ ذکر نہیں ہے کہ فلاں آیت کو لکھ کر گلے میں لٹکانے سے یا بازو میں باندھنے سے آدمی کی کوئی ضرورت پوری ہوجاتی ہے۔ صرف اللہ تعالیٰ کی مدد پر یقین رکھنا چاہئے، لیکن میرا خیال ہے کہ تعویذوں میں اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب کی آیات لکھی جاتی ہیں، یہ صحیح ہے کہ کئی لوگ ان کا غلط استعمال کرتے ہیں، لیکن جائز کام کے لئے تو انہیں لکھا جاسکتا ہے۔
ج… قرآنی آیات پڑھ کر دم کرنے کا احادیث طیبہ میں ذکر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام اور بعد کے صلحاء کا یہ معمول رہا ہے، تعویذ بھی اسی کی ایک شکل ہے۔ اس لئے اس کے جواز میں تو شبہ نہیں، البتہ تعویذ کی حیثیت کو سمجھ لینا ضروری ہے۔ بعض لوگ تعویذ کی تاثیر کو قطعی یقینی سمجھتے ہیں، یہ صحیح نہیں، بلکہ تعویذ بھی من جملہ اور تدابیر کے ایک علاج اور تدبیر ہے اور اس کا مفید ہونا نہ ہونا اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے۔ بعض لوگ تعویذ کو “روحانی عمل” سمجھتے ہیں، یہ خیال بھی قابل اصلاح ہے، روحانیت اور چیز ہے اور تعویذ وغیرہ محض دنیوی تدبیر و علاج ہے، اس لئے جو شخص تعویذ کرتا ہو اس کو بزرگ سمجھ لینا غلطی ہے، بعض لوگ دعا پر اتنا یقین نہیں رکھتے جتنا کہ تعویذ پر، یہ بھی قابل اصلاح ہے، دعا عبادت ہے اور تعویذ کرنا کوئی عبادت نہیں اور کسی ناجائز مقصد کے لئے تعویذ کرانا حرام ہے۔