Home » » مسئلہ کی تحقیق یعنی قبروں پر پھول ڈالنا بدعت ہے

مسئلہ کی تحقیق یعنی قبروں پر پھول ڈالنا بدعت ہے


مسئلہ کی تحقیق یعنی قبروں پر پھول ڈالنا بدعت ہے
س… روزنامہ جنگ ۱۲/دسمبر کی اشاعت میں آپ نے جو ایک سوال کے جواب میں لکھا تھا کہ: “قبروں پر پھول چڑھانا خلافِ سنت ہے۔” ۱۹/دسمبر کی اشاعت میں ایک صاحب شاہ تراب الحق قادری نے آپ کو جاہل اور کتاب و سنت سے بے بہرہ قرار دیتے ہوئے اس کو سنت لکھا ہے، جس سے کافی لوگ تذبذب میں مبتلا ہوگئے ہیں، براہ کرم یہ خلجان دور کیا جائے۔
ج… اس مسئلہ کی تحقیق کے لئے چند امور کا پیش نظر رکھنا ضروری ہے:
۱:…”سنت” آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معمول کو کہتے ہیں۔ خلفائے راشدین اور صحابہ و تابعین کے عمل کو بھی سنت کے ذیل میں شمار کیا جاتا ہے۔ جو عمل خیرالقرون کے بعد ایجاد ہوا ہو وہ سنت نہیں کہلاتا۔ قبروں پر پھول ڈالنا اگر ہمارے دین میں سنت ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ و تابعین اس پر عمل پیرا ہوتے، لیکن پورے ذخیرہٴ حدیث میں ایک روایت بھی نہیں ملتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یا کسی خلیفہ راشد، کسی صحابی یا تابعی نے قبروں پر پھول چڑھائے ہوں، اس لئے یہ نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، نہ خلفائے راشدین کی، نہ صحابہ کی، نہ تابعین کی۔
۲:…ہمارے دین میں قرآن و حدیث اور اجماعِ امت کے بعد ائمہ مجتہدین کا اجتہاد بھی شرعی حجت ہے، پس جس عمل کو کسی امام مجتہد نے جائز یا مستحسن قرار دیا ہو وہ بھی سنت ہی سے ثابت شدہ چیز سمجھی جائے گی۔ قبروں پر پھول چڑھانے کو کسی امام مجتہد نے بھی مستحب قرار نہیں دیا۔ فقہ حنفی کی تدوین ہمارے امام اعظم اور ان کے عالی مرتبت شاگردوں کے زمانہ سے شروع ہوئی، اور ہمارے ائمہ فقہاء نے تمام سنن و آداب کو ایک ایک کرکے مدون فرمایا، مگر ہمارے پورے فقہی ذخیرہ میں کسی امام کا یہ قول ذکر نہیں کیا گیا کہ قبروں پر پھول چڑھانا بھی سنت ہے یا مستحب ہے، اور نہ کسی امام و فقیہ سے یہ منقول ہے کہ انہوں نے کسی قبر پر پھول چڑھائے ہوں۔
۳:…جیسا کہ علامہ شامی نے لکھا ہے، تین صدیوں کے بعد سے متأخرین کا دور شروع ہوتا ہے، یہ حضرات خود مجتہد نہیں تھے، بلکہ ائمہ مجتہدین کے مقلد تھے، ان کے استحسان سے کسی فعل کا سنت یا مستحب ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ چنانچہ امام ربانی مجدد الف ثانی مکتوبات شریفہ میں فتاویٰ غیاثیہ سے نقل کرتے ہیں کہ:
“شیخ امام شہید نے فرمایا کہ: ہم مشائخ بلخ کے استحسان کو نہیں لیتے، بلکہ ہم صرف اپنے متقدمین اصحاب کے قول کو لیتے ہیں، کیونکہ کسی علاقہ میں کسی چیز کا رواج ہوجانا اس کے جواز کی دلیل نہیں۔ جواز کی دلیل وہ تعامل ہے جو صدرِ اول (زمانہ خیرالقرون) سے چلا آتا ہو، تاکہ یہ دلیل ہو اس بات کی کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اس عمل پر برقرار رکھا تھا، کیونکہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ہی تشریح ہوگی، لیکن جو تعامل کہ صدرِ اول سے متواتر چلا نہ آتا ہو تو بعد کے لوگوں کا فعل حجت نہیں، اِلَّا یہ کہ اس پر تمام ملکوں کے تمام انسانوں کا تعامل ہو، یہاں تک کہ اجماع ہوجائے اور اجماع حجت ہے۔ دیکھئے! اگر لوگوں کا تعامل شراب فروش یا سودخوری پر ہوجائے تو اس کے حلال ہونے کا فتویٰ نہیں دیا جائے گا۔” (مکتوب:۵۴ دفتر دوم)
امام شہید کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ اگر مشائخ متأخرین نے قبروں پر پھول چڑھانے کے استحسان کا فتویٰ دیا ہوتا تب بھی ہم اس فعل کو “سنت” نہیں کہہ سکتے تھے، لیکن ہمارے متأخرین مشائخ میں سے بھی کسی نے کبھی قبروں پر پھول چڑھانے کے جواز یا استحسان کا فتویٰ نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ مُلّا علی قاری اور علامہ شامی نے متأخرین شافعیہ کا فتویٰ تو نقل کیا ہے (جیسا کہ آگے معلوم ہوگا) مگر انہیں کسی حنفی فقیہ کا متأخرین میں سے کوئی بھی قول نہیں مل سکا۔ اب انصاف کیا جاسکتا ہے کہ جو عمل نہ تو صاحبِ شریعت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو، نہ صحابہ و تابعین سے، نہ ہمارے ائمہ مجتہدین سے، نہ ہمارے متقدمین و متأخرین سے، کیا اس کو سنت کہا جاسکتا ہے․․․؟
۴:…شاہ صاحب نے مشکوٰة آداب الخلاء سے جو حدیث نقل کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دو قبروں پر شاخیں گاڑی تھیں، اس سے عام قبروں پر پھول چڑھانے کا جواز ثابت نہیں ہوتا، کیونکہ حدیث میں صراحت ہے کہ یہ شاخیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں یا گناہگار مسلمانوں کی ایسی قبروں پر گاڑی تھیں جو خدا تعالیٰ کے قہر و عذاب کا مورد تھیں۔ عام قبروں پر شاخیں گاڑنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا معمول نہیں تھا۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو معاملہ شاذ و نادر فساق کی مقہور و معذب قبروں کے ساتھ فرمایا، وہی سلوک اولیاء اللہ کی قبورِ طیبہ کے ساتھ روا رکھنا، ان اکابر کی سخت اہانت ہے اور پھر اس کو “سنت” کہنا ستم بالائے ستم ہے۔ سنت تو جب ہوتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گناہ گاروں کی قبروں کے بجائے (جن کا معذب ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحیِ قطعی سے معلوم ہوگیا تھا) اپنے چہیتے چچا سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ یا اپنے لاڈلے اور محبوب بھائی حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ یا کسی اور مقدس صحابی کی قبر سے یہ سلوک فرمایا ہوتا۔
۵:…پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تو ان قبروں کا معذب ہونا وحیِ قطعی سے معلوم ہوگیا تھا، اور جیسا کہ صحیح مسلم (ج:۲ ص:۴۱۸) میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں تصریح ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے شفاعت فرمائی تھی اور قبولیتِ شفاعت کی مدت کے لئے بطورِ علامت شاخیں نصب فرمائی تھیں۔ اس لئے اول تو یہ واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے اور اس کا شمار معجزاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کیا جاتا ہے۔ بالفرض کوئی شخص اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت اور معجزہ تسلیم نہ کرے تب بھی اس حدیث سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوسکتا ہے کہ جس شخص کو کسی قطعی ذریعہ سے کسی قبر کا معذب و مقہور ہونا معلوم ہوجائے اور وہ شفاعت کی اہلیت بھی رکھتا ہو، وہ بطورِ علامت قبر پر شاخیں نصب کرسکتا ہے، لیکن اس حدیث سے عام قبروں پر شاخیں گاڑنے اور پھول چڑھانے کا سنتِ نبوی ہونا کسی طرح ثابت نہیں ہوتا اور نہ اس مضمون کا اس حدیث سے کوئی دور کا تعلق ہے۔ حافظ بدر الدین عینی عمدة القاری شرح بخاری میں لکھتے ہیں:
“اسی طرح جو فعل کہ اکثر لوگ کرتے ہیں یعنی پھول اور سبزہ وغیرہ رطوبت والی چیزیں قبروں پر ڈالنا، یہ کوئی چیز نہیں (لیس بشیٴ) سنت اگر ہے تو صرف شاخ کا گاڑنا ہے۔”
(ج:۱ ص:۸۷۹)
۶:…شاہ صاحب نے حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی کی اشعة اللمعات کے حوالے سے لکھا ہے کہ: “ایک جماعت نے اس حدیث سے دلیل پکڑی ہے کہ قبروں پر سبزی اور پھول اور خوشبو ڈالنے کا جواز ہے۔”
کاش! جناب شاہ صاحب یہ بھی لکھ دیتے کہ حضرت شیخ محدث دہلوی نے اس قول کو نقل کرکے آگے اس کو امام خطابی کے قول سے رد بھی کیا ہے، حضرت شیخ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
“امام خطابی نے، جو ائمہ علم اور قدوہٴ شراحِ حدیث میں سے ہیں، اس قول کو رد کیا ہے اور اس حدیث سے تمسک کرتے ہوئے قبروں پر سبزہ اور پھول ڈالنے سے انکار کیا ہے، اور فرمایا کہ یہ بات کوئی اصل نہیں رکھتی، اور صدرِ اول میں نہیں تھی۔” (اشعة اللمعات ج:۱ ص:۲۰۰)
پس شیخ رحمہ اللہ نے چند مجہول الاسم لوگوں سے جو جواز نقل کیا ہے، اس کو تو نقل کردینا اور “ائمہ اہل علم و قدوہٴ شراحِ حدیث” کے حوالے سے “این سخن اصلے ندارد در صدرِ اول نبود” کہہ کر جو اس کے بدعت ہونے کی تصریح کی ہے، اس سے چشم پوشی کرلینا، اہل علم کی شان سے نہایت بعید ہے۔
اور پھر حضرت شیخ محدث دہلوی نے “لمعات التنقیح” میں حنفیہ کے امام حافظ فضل اللہ تورپشتی سے اسی قول کے بارے میں جو یہ نقل فرمایا ہے:
“قول لا طائل تحتہ، ولا عبرة بہ عند اھل العلم۔” (ج:۲ ص:۴۴)
ترجمہ:…”یہ ایک بے مغز و بے مقصد قول ہے اور اہل علم کے نزدیک اس کا کوئی اعتبار نہیں۔”
کاش! شاہ صاحب اس پر بھی نظر فرمالیتے تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ حضرت محدث دہلوی قبروں پر پھول چڑھانے کا جواز نہیں نقل کرتے، بلکہ اسے بے اصل بدعت اور بے مقصد اور ناقابل اعتبار بات قرار دیتے ہیں۔
۷:…شاہ صاحب نے مُلّا علی قاری کی مرقات کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ: “مزاروں پر پھول ڈالنا سنت ہے۔” یہاں بھی شاہ صاحب نے شیخ علی قاری کی آگے پیچھے کی عبارت دیکھنے کی زحمت نہیں فرمائی۔ مُلّا علی قاری نے مزاروں پر پھول چڑھانے کو سنت نہیں کہا، بلکہ امام خطابی شافعی کے مقابلے میں ابن حجر شافعی کا قول نقل کیا ہے کہ: “ہمارے (شافعیہ کے) بعض متأخرین اصحاب نے اس کے سنت ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔” امام خطابی اور امام نووی کے مقابلے میں ان متأخرین شافعیہ کی، جن کا حوالہ ابن حجر شافعی نقل کر رہے ہیں، جو قیمت ہے وہ اہل علم سے مخفی نہیں، تاہم یہ شافعیہ کے متأخرین کا قول ہے، ائمہ حنفیہ میں سے کسی نے اس کے جواز کا فتویٰ نہیں دیا، نہ متقدمین علمائے دین نے اور نہ مُلّا علی قاری نے ہی کسی حنفی کا فتویٰ نقل کیا ہے۔ متأخرین حنفیہ میں سے امام حافظ فضل اللہ تورپشتی کا قول اوپر گزرچکا ہے کہ یہ بے مغز بات ہے اور یہ کہ اہل علم کے نزدیک اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ نیز علامہ عینی کا قول گزرچکا ہے کہ قبروں پر پھول وغیرہ ڈالنا کوئی سنت نہیں۔
۸:…شاہ صاحب نے ایک حوالہ طحطاوی کے حاشیہ مراقی الفلاح سے نقل کیا ہے، علامہ طحطاوی نے جو کچھ لکھا ہے وہ “فی شرح المشکاة” کہہ کر مُلَّا علی قاری کے حوالے سے لکھا ہے، اس لئے اس کو مستقل حوالہ کہنا ہی غلط ہے، البتہ اس میں یہ تصرف ضرور کردیا گیا ہے کہ شرح مشکوٰة میں ابن حجر سے بعض متأخرین اصحابِ شافعیہ کا قول نقل کیا ہے، جسے شاہ صاحب کے حوالے میں “اسے ہمارے بعض متأخرین اصحاب نے اس حدیث کی رو سے فتویٰ دیا” کہہ کر اسے متأخرین حنفیہ کی طرف منسوب کردیا گیا، گویا شرح مشکوٰة کے حوالے سے کچھ کا کچھ بنادیا ہے۔
۹:…شاہ صاحب نے ایک حوالہ علامہ شامی کی رد المحتار سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے اس کو مستحب لکھا ہے۔ یہاں بھی شاہ صاحب نے نقل میں افسوس ناک تساہل پسندی سے کام لیا ہے۔
علامہ شامی نے ایک مسئلہ کے ضمن میں حدیث جرید نقل کرکے لکھا ہے کہ:
“اس مسئلہ سے اور اس حدیث سے قبر پر شاخ رکھنے کا استحباب بطورِ اتباع کے اخذ کیا جاتا ہے اور اس پر قیاس کیا جاتا ہے آس وغیرہ کی شاخیں رکھنے کو، جس کی ہمارے زمانے میں عادت ہوگئی ہے اور شافعیہ کی ایک جماعت نے اس کی تصریح بھی کی ہے اور یہ اولیٰ ہے بہ نسبت بعض مالکیہ کے قول کے، کہ ان قبروں سے عذاب کی تخفیف بہ برکت دستِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے تھی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے، پس اس پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔”
علامہ شامی کی اس عبارت میں قبروں پر پھول ڈالنے کا استحباب کہیں ذکر نہیں کیا گیا، بلکہ بطورِ اتباع کھجور کی شاخ گاڑنے کا استحباب اخذ کیا گیا ہے، اور آس وغیرہ کی شاخیں گاڑنے کو اس پر قیاس کیا گیا ہے، اور اس کی علت بھی وہی ذکر کی ہے، جو امام تورپشتی کے بقول “لا طائل اور اہل علم کے نزدیک غیرمعتبر ہے۔” پس جبکہ ہمارے ائمہ اس علت کو ردّ کرچکے ہیں تو اس پر قیاس کرنا بھی مردود ہوگا۔
علامہ شامی نے بھی بعض شافعیہ کے فتوے کا ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ائمہ احناف میں سے کسی کا فتویٰ علامہ شامی کو بھی نہیں مل سکا، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے ائمہ کے فتوے کے خلاف ایک غیرمعتبر اور بے اثر تعلل پر قیاس کرنا کس حد تک معتبر ہوگا۔
ایک حوالہ شاہ صاحب نے شیخ عبدالغنی نابلسی کا نقل کیا ہے۔ ان کا رسالہ “کشف النور” اس ناکارہ کے سامنے نہیں کہ اس کے سیاق و سباق پر غور کیا جاتا، مگر اتنی بات واضح ہے کہ علامہ شامی ہوں یا شیخ عبدالغنی نابلسی، یا بارہویں تیرہویں صدی کے بزرگ، یہ سب کے سب ہماری طرح مقلد ہیں، اور مقلد کا کام اپنے امام متبوع کی تقلید کرنا ہے، پس اگر علامہ شامی، شیخ عبدالغنی نابلسی یا کوئی اور بزرگ ہمارے ائمہ کا فتویٰ نقل کرتے ہیں تو سر آنکھوں پر، ورنہ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی کے الفاظ میں یہی عرض کیا جاسکتا ہے:
“اینجا قول امام ابی حنیفہ و امام ابویوسف و امام محمد معتبر است، نہ عمل ابی بکر شبلی و ابی حسن نوری۔” (دفتر اول مکتوب:۲۶۶)
ترجمہ:…”یہاں امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف اور امام محمد کا قول معتبر ہے، نہ کہ ابوبکر شبلی اور ابوالحسن نور کا عمل۔”
۱۰:…جناب شاہ صاحب نے اس ناکارہ کی جانب جو الفاظ منسوب فرمائے ہیں، یہ ناکارہ ان سے بدمزہ نہیں، بقول عارف:
بدم گفتی و خر سندم عفاک اللہ نکو گفتی
جواب تلخ می زیبد لب لعل شکر خارا
غالباً سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کی یہ بہت ہلکی سزا ہے جو شاہ صاحب نے اس ناکارہ کو دی ہے۔ اس جرمِ عظیم کی سزا کم از کم اتنی تو ہوتی کہ یہ ناکارہ بارگاہِ معلی میں عرض کرسکتا:
بجرم عشق توام می کشند و غوغائیست
تو نیز برسر بام آکہ خوش تماشائیست
بہرحال اس ناکارہ کو تو اپنے جہل درجہل کا اقرار و اعتراف ہے، اور “بتر زانم کہ گوئی” پر پورا وثوق وا عتماد۔ اس لئے یہ ناکارہ جناب شاہ صاحب کی قند و شکر سے بدمزہ ہو تو کیوں ہو؟ لیکن بہ ادب ان سے یہ عرض کرسکتا ہوں کہ اس ناکارہ نے تو بہت ہی محتاط الفاظ میں اس کو “خلافِ سنت” کہا تھا (جس میں سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہونے کے باوجود جواز یا استحسان کی گنجائش پھر بھی باقی رہ جاتی تھی)، اس پر تو جناب شاہ صاحب کی بارگاہ سے جہالت اور نابلد ہونے کا صلہ اس ہیچ مدان کو عطا کیا گیا، لیکن امام خطابی، امام نووی، امام تورپشتی، امام عینی، جنہوں نے اس کو بے اصل، منکر، لاطائل، غیرمعتبر عند اہل العلم اور لیس بشیٴ فرمایا ہے، ان کے الفاظ تو اس ناکارہ کے الفاظ کی نسبت بہت ہی سخت ہیں۔ سوال یہ ہے کہ شاہ صاحب کی بارگاہ سے ان حضرات کو کس انعام سے نوازا جائے گا؟ اور پھر شاہ عبدالحق محدث دہلوی جو ان بزرگوں کو “ائمہ اہل علم و قدوہٴ شراحِ حدیث” کہہ کر خراج تحسین پیش کر رہے ہیں اور ان کی توثیق و تائید فرماتے ہیں، ان کو کس خطاب سے نوازا جائے گا؟ کیا خیال ہے ان حضرات کو “علم دین کی کتب احادیث و فقہ” کی کچھ خبر تھی، یا یہ بھی شاہ صاحب کے بقول “سخت جہالت میں مبتلا” تھے؟
۱۱:… اس بحث کو ختم کرتے ہوئے جی چاہتا ہے کہ جناب شاہ صاحب کی خدمت میں دو بزرگوں کی عبارت ہدیہ کروں، جن سے ان تمام خلافِ سنت امور کا حال واضح ہوجائے گا، جن میں ہم مبتلا ہیں۔
پہلی عبارت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ کی ہے، وہ “شرح سفر السعادة” میں لکھتے ہیں:
“بہت سے اعمال و افعال اور طریقے جو سلف صالحین کے زمانہ میں مکروہ و ناپسندیدہ تھے وہ آخری زمانہ میں مستحسن ہوگئے ہیں۔ اور اگر جہال عوام کوئی کام کرتے ہیں تو یقین رکھنا چاہئے کہ بزرگوں کی ارواحِ طیبہ اس سے خوش نہیں ہوں گی، اور ان کے کمال و دیانت اور نورانیت کی بارگاہ ان سے پاک اور منزہ ہے۔” (ص:۲۷۲)
اور حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
“جب تک آدمی بدعتِ حسنہ سے بھی، بدعتِ سیئہ کی طرح احتراز نہ کرے، اس دولت (اتباعِ سنت) کی بُو بھی اس کے مشامِ جان تک نہیں پہنچ سکتی۔ اور یہ بات آج بہت ہی دشوار ہے، کیونکہ پورا عالم دریائے بدعت میں غرق ہوچکا ہے، اور بدعت کی تاریکیوں میں آرام پکڑے ہوئے ہے۔ کس کی مجال ہے کہ کسی بدعت کے اٹھانے میں دم مارے، اور سنت کو زندہ کرنے میں لب کشائی کرے۔ اس وقت کے اکثر علماء بدعت کو رواج دینے والے اور سنت کو مٹانے والے ہیں۔ جو بدعات پھیل جاتی ہیں تو مخلوق کا تعامل جان کر ان کے جواز بلکہ استحسان کا فتویٰ دے ڈالتے ہیں اور بدعت کی طرف لوگوں کی راہ نمائی کرتے ہیں۔”(دفتر دوم مکتوب:۵۴)
دعا کرتا ہوں کہ حق تعالیٰ شانہ ہم سب کو اتباعِ سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی توفیق عطا فرمائے۔
قبروں پر پھول ڈالنا بدعت ہے، “مسئلہ کی تحقیق”
روزنامہ جنگ ۱۲/دسمبر ۱۹۸۰ء کے اسلامی صفحہ میں راقم الحروف نے ایک سوال کے جواب میں قبروں پر پھول چڑھانے کو “خلافِ سنت” لکھا تھا، توقع نہ تھی کہ کوئی صاحب جو “سنت” کے مفہوم سے آشنا ہوں، اس کی تردید کی زحمت فرمائیں گے، مگر افسوس کہ شاہ تراب الحق صاحب نے اس کو اپنے معتقدات کے خلاف سمجھا اور ۱۹/دسمبر کے جمعہ ایڈیشن میں اس کی پُرجوش تردید فرمائی، اس لئے ضرورت محسوس کی گئی کہ اس مسئلہ پر دلائل کی روشنی میں غور کیا جائے، چنانچہ راقم الحروف نے۲/جنوری ۱۹۸۱ء کے جمعہ ایڈیشن میں “مسئلہ کی تحقیق” کے عنوان سے اس مسئلہ پر طرفین کے دلائل کا جائزہ پیش کیا، جناب شاہ تراب الحق صاحب نے ۱۶/جنوری کی اشاعت میں “مسئلہ کی تحقیق کا جواب” پھر رقم فرمایا ہے، جہاں تک مسئلہ کی تحقیق کا تعلق ہے بحمداللہ! میری سابق تحریر ہی اس کے لئے کافی و شافی ہے۔ تاہم شاہ صاحب نے جو نئے نکات اٹھائے ہیں، ذیل میں ان کا تجزیہ پیش کیا جاتا ہے۔
۱:…لفظ “سنت” کی وضاحت پہلے بھی کرچکا ہوں، مگر شاہ صاحب نے اس اصطلاح کی اہمیت پر توجہ نہیں فرمائی۔ اس لئے اتنی بات مزید عرض کردینا مناسب ہے کہ جب ہم کسی چیز کو سنت کہتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے منسوب کرتے ہیں۔ کسی ایسی چیز کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے منسوب کرنا جائز نہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کی ہو، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ترغیب دی ہو، نہ صحابہ و تابعین نے، جو اتباعِ سنت کے سب سے بڑے عاشق تھے، اس پر عمل کیا ہو، ہمارے زیر بحث مسئلہ میں شاہ صاحب بھی یہ ثابت نہیں کرسکے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنفس نفیس قبروں پر پھول چڑھاتے تھے یا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو اس کی ترغیب دی ہے، یا صحابہ و تابعین نے اس پر عمل کیا ہو، یا ائمہ مجتہدین میں سے کسی نے قیاس و اجتہاد ہی سے اس کے استحسان کا فتویٰ دیا ہو۔ یہ مسئلہ البتہ متأخرین کے زیر بحث آیا ہے اور بعض متأخرین شافعیہ نے حدیث جرید سے اس کا استحسان ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، مگر محققین شافعیہ وحنفیہ و مالکیہ نے شد و مد سے ان کے استدلال کی تردید کردی ہے اور اسے بے اصل بدعت اور غیرمعتبر عند اہل العلم قرار دیا ہے، اگر شاہ صاحب بنظر انصاف غور فرماتے تو ایسی چیز کو جسے ائمہ محققین بدعت فرمارہے ہیں، “سنت” کہنے پر اصرار نہ کرتے کیونکہ ایک خودتراشیدہ بات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مقدسہ کی طرف منسوب کرنا سنگین جرم ہے۔
۲:…ہمارے شاہ صاحب نہ صرف یہ کہ اسے سنت کہہ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ایک غلط بات منسوب کر رہے ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر تعجب کی بات یہ ہے کہ انہوں نے قبروں پر پھول چڑھانے کو عقائد میں شامل فرمالیا ہے، جیسا کہ ان کے اس فقرے سے معلوم ہوتا ہے:
“حقیقت حال یہ ہے کہ اخبارات و رسائل میں ایسے استفسارات و مسائل کے جواب دئیے جائیں جس سے دوسروں کے جذبات مجروح نہ ہوں اور ان کے معتقدات کو ٹھیس نہ پہنچے۔”
شاہ صاحب کا مشورہ بجا ہے مگر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ کسی کے نزدیک قبروں پر پھول چڑھانا بھی دین حنیفی کے معتقدات میں شامل ہے یا اس کو “خلافِ سنت” کہنے سے اسلامی عقائد کی نفی ہوجاتی ہے۔ راقم الحروف نے اسلامی عقائد اور ملل و نحل کی جن کتابوں کا مطالعہ کیا ہے، ان میں کہیں بھی یہ نظر سے نہیں گزرا کہ قبروں پر پھول چڑھانا بھی “اہل سنت والجماعت” کے معتقدات کا ایک حصہ ہے۔ یہ تو میں شاہ عبدالحق محدث دہلوی سے نقل کرچکا ہوں کہ: “ایں سخن اصلے ندارد در صدرِ اول نبود۔” یعنی اس کی کوئی اصل نہیں، اور صدرِ اول میں اس کا کوئی وجود نہیں تھا۔ کیا میں شاہ تراب الحق صاحب سے بہ ادب دریافت کرسکتا ہوں کہ قبروں پر پھول چڑھانا دینِ اسلام کے معتقدات میں کب سے داخل ہوا اور یہ کہ کیا شاہ صاحب کے معتقدات صدرِ اول کے خلاف ہیں کہ جس چیز کا صدرِ اول میں کوئی وجود ہی نہ تھا وہ ماشاء اللہ آج شاہ صاحب کا جزوِ عقیدہ بن چکی ہے؟ قبروں پر پھول چڑھانے کو معتقدات میں داخل کرلینا افسوسناک غلو پسندی ہے اور یہ غلو پسندی بدعت کا خاصہ ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ بدعت رفتہ رفتہ “سنت” کی جگہ لیتی ہے اور پھر آگے بڑھ کر لوگوں کا جزوِ ایمان بن جاتی ہے اور لوگ اس بدعت کو بڑی عقیدت سے اسلام کا عظیم شعار سمجھ کر بجالاتے ہیں، اور جب اللہ تعالیٰ کا کوئی بندہ اس بدعت کے خلاف لب کشائی کرتا ہے تو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ شخص اسلام کی ایک سنت اور ایک عظیم شعار کی مخالفت کر رہا ہے۔ امام دارمی نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک ارشاد نقل کیا ہے جو بدعت کی اس نفسیات کی تشریح کرتا ہے، وہ فرماتے ہیں:
“اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب فتنہٴ بدعت تم کو ڈھانک لے گا؟ بڑے اسی میں بوڑھے ہوجائیں گے اور بچے اسی میں جوان ہوں گے، لوگ اسی فتنہ کو سنت بنالیں گے، اگر اسے چھوڑا جائے تو لوگ کہیں گے سنت چھوڑ دی گئی۔ (اور ایک روایت میں ہے کہ: اگر اس کی اصلاح کی کوشش کی جائے گی تو لوگ کہیں گے کہ سنت تبدیل کی جارہی ہے)۔ عرض کیا گیا کہ: یہ کب ہوگا؟ فرمایا: جب تمہارے علماء جاتے رہیں گے، جہلا کی کثرت ہوجائے گی، حرف خواں زیادہ ہوں گے مگر فقیہ کم، امراء بہت ہوں گے، امانت دار کم، آخرت کے عمل سے دنیا تلاش کی جائے گی اور غیردین کے لئے فقہ کا علم حاصل کیا جائے گا۔”
(مسند دارمی ص:۳۶، باب تغیر الزمان، مطبوعہ نظامی کانپور ۱۲۹۳ھ)
اس لئے شاہ صاحب اگر قبروں پر پھولوں کو معتقدات میں شامل کرتے ہیں تو یہ وہی غلو پسندی ہے جو بدعت کی خاصیت ہے اور اس کی اصلاح پر شاہ صاحب کا ناراض ہونا وہی بات ہے جس کی نشاندہی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمائی ہے، حسبنا الله ونعم الوکیل!
۳:…مسئلہ کی تحقیق کے آخر میں میں نے شاہ صاحب کو توجہ دلائی تھی کہ قبروں کے پھولوں کو “خلافِ سنت” کہنے کا جرم پہلی بار مجھ سے ہی سرزد نہیں ہوا، مجھ سے پہلے اکابر ائمہ اعلام اس کے بارے میں مجھ سے زیادہ سخت الفاظ استعمال فرماچکے ہیں، اس لئے شاہ صاحب نے صرف مجھ ہی کو جاہل و نابلد نہیں کہا، بلکہ ان اکابر کے حق میں بھی گستاخی کی ہے۔
حق پسندی کا تقاضا یہ تھا کہ میرے اس توجہ دلانے پر شاہ صاحب اس گستاخی سے تائب ہوجاتے اور یہ معذرت کرلیتے کہ انہیں معلوم نہیں تھا کہ پہلے اکابر بھی اس بدعت کو ردّ کرچکے ہیں۔ لیکن افسوس کہ شاہ صاحب کو اس کی توفیق نہیں ہوئی، البتہ میں نے اپنے الفاظ میں نرمی اور لچک کی جو تشریح بین القوسین کی تھی اس کو غلط معنی پہناکر مجھ سے سوال کرتے ہیں:
الف:…”جب آپ کے نزدیک پھولوں کا ڈالنا جائز یا مستحسن ہے یا اس کے ہونے کی گنجائش ہے تو اس موضوع پر طوفان برپا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟”
جناب من! اس تشریح میں میں پھولوں کے جواز یا استحسان کا فتویٰ نہیں دے رہا بلکہ اپنے پہلے الفاظ “خلافِ سنت” میں جو نرمی اور لچک تھی اس کی تشریح کرتے ہوئے آپ کو سمجھانا مقصود تھا کہ آپ بھی اس کو عین “سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم” نہیں سمجھتے ہوں گے، زیادہ سے زیادہ اس کے جواز یا استحسان ہی کے قائل ہوں گے، یہ عقیدہ تو آپ کا بھی نہیں ہوگا کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قبروں پر پھول چڑھایا کرتے تھے، اس لئے آپ میرے الفاظ “خلافِ سنت” میں یہ تاویل کرسکتے تھے کہ گو یہ عمل سنت سے ثابت نہیں، مگر ہم اس کو مستحسن سمجھ کر کرتے ہیں، عین سنت سمجھ کر نہیں، مگر افسوس کہ آپ نے میری محتاط تعبیر کی کوئی قدر نہ کی، بلکہ فوراً اس کی تردید کے لئے کمربستہ ہوگئے اور بجائے علمی دلائل کے تجہیل و تحمیق کا طریقہ اپنایا۔ اب انصاف فرمائیے کہ طوفان کس نے برپا کیا، میں نے یا خود آنجناب نے؟ اور جو عمل کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ و تابعین سے ثابت نہ ہو، اس کو خلافِ سنت لکھنے کو جناب کا پھلجڑی چھوڑنے سے تعبیر کرنا بھی سوقیانہ اور بازاری زبان ہے، جو اہل علم کو زیب نہیں دیتی۔
اسی ضمن میں شاہ صاحب فرماتے ہیں:
ب:…”حیرت کی بات ہے کہ آپ اس امر کو خلافِ سنت قرار دے رہے ہیں اور دوسری طرف آپ کو اس میں جائز بلکہ مستحب ہونے کی گنجائش نظر آتی ہے، از راہِ نوازش ایسی کوئی مثال پیش فرمائیں جس میں کسی امر کو باوجود خلافِ سنت ہونے کے مستحب قرار دیا گیا ہو۔”
گویا شاہ صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو کام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں وہ مستحب تو کیا جائز بھی نہیں۔ اس لئے وہ مجھ سے اس کی مثال طلب فرماتے ہیں۔ جناب شاہ صاحب کی خدمت میں گزارش ہے کہ ہزاروں چیزیں ایسی ہیں جو خلافِ سنت ہونے کے باوجود جائز ہیں۔ مثلاً ترکی ٹوپی یا جناح کیپ سنت نہیں مگر جائز ہے، اور نماز کی نیت زبان سے کرنا خلافِ سنت ہے، مگر فقہاء نے اس کو مستحسن فرمایا ہے، لیکن اگر کوئی شخص اسی کو سنت کہنے لگے تو غلط ہوگا۔
۴:…آفتابِ سنت کے آگے بدعت کا چراغ بے نور ہوجاتا ہے، شاہ صاحب قبروں کے پھولوں کا کوئی ثبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ و تابعین کے عمل سے پیش نہیں کرسکے، اور نہ میرے ان دلائل کا ان سے کوئی جواب بن پڑا جو میں نے اکابر ائمہ سے اس کے بدعت ہونے پر نقل کئے تھے، اس لئے شاہ صاحب نے اس ناکارہ کی “کتاب فہمی” کی بحث شروع کردی۔ علامہ عینی کی ایک سطر کا جو ترجمہ میں نے نقل کیا تھا، شاہ صاحب اس کو نقل کرکے لکھتے ہیں:
“راقم الحروف (شاہ صاحب) اہل علم کے سامنے اصل عربی عبارت پیش کر رہا ہے اور انصاف کا طالب ہے کہ لدھیانوی صاحب نے اس عبارت کا مفہوم صحیح پیش کیا ہے بلکہ ترجمہ بھی درست کیا ہے یا نہیں؟”
شاہ صاحب اپنے قارئین کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ ایک ایسا اناڑی آدمی جو عربی کی معمولی عبارت کا مفہوم تک نہیں سمجھتا، بلکہ ایک سطری عبارت کا ترجمہ تک صحیح نہیں کرسکتا، اس نے بڑے بڑے اکابر کی جو عبارتیں قبروں پر پھول ڈالنے کے خلافِ سنت ہونے پر نقل کی ہیں، ان کا کیا اعتبار ہے؟
راقم الحروف کو علم کا دعویٰ ہے نہ کتاب فہمی کا، معمولی طالب ہے، اور طالب علموں کی صفِ نعال میں جگہ مل جانے کو فخر و سعادت سمجھتا ہے:
گرچہ از نیکاں نیم لیکن بہ نیکاں بستہ ام
در ریاض آفرنیش رشتہٴ گلدستہ ام
مگر شاہ صاحب نے اصل موضوع سے ہٹ کر بلاوجہ “کتاب فہمی” کی بحث شروع کردی ہے، اس لئے چند امور پیش خدمت ہیں:
اول:…شاہ صاحب کو شکایت ہے کہ میں نے علامہ عینی کی عبارت کا نہ مفہوم سمجھا، نہ ترجمہ صحیح کیا ہے۔ میں اپنا اور شاہ صاحب کا ترجمہ دونوں نقل کئے دیتا ہوں، ناظرین دونوں کا موازنہ کرکے دیکھ لیں کہ میرے ترجمہ میں کیا سقم تھا۔
شاہ صاحب کا ترجمہ:
“اور اسی طرح (اس کا بھی انکار کیا ہے) جو اکثر لوگ کرتے ہیں۔ یعنی تر اشیاء مثلاً پھول اور سبزیاں وغیرہ قبروں پر ڈال دیتے ہیں۔ یہ کچھ نہیں اور بے شک سنت گاڑنا ہے۔”
راقم الحروف کا ترجمہ:
“اسی طرح جو فعل کہ اکثر لوگ کرتے ہیں، یعنی پھول اور سبزہ وغیرہ رطوبت والی چیزیں قبروں پر ڈالنا، یہ کوئی چیز نہیں (لیس بشیٴ) سنت اگر ہے تو صرف شاخ کا گاڑنا ہے۔”
اس امر سے قطع نظر کہ ان دونوں ترجموں میں سے کون سا سلیس ہے اور کس میں گنجلک ہے؟ کون سا اصل عربی عبارت کے قریب تر ہے اور کون سا نہیں؟ آخر دونوں کے مفہوم میں بنیادی فرق کیا ہے؟ دونوں سے یہی سمجھا جاتا ہے کہ شاخ کا گاڑنا تو سنت ہے مگر پھول اور سبزہ وغیرہ ڈالنا کوئی سنت نہیں، اس ہیچ مدان کے ترجمہ میں شاہ صاحب کو کیا سقم نظر آیا؟ جس کے لئے وہ اہل علم سے انصاف طلبی فرماتے ہیں۔
دوم:…اس عبارت کے آخری جملہ “وانما السنة الغرز” کا ترجمہ موصوف نے یہ فرمایا: “اور بے شک سنت گاڑنا ہے۔” حالانکہ عربی کے طالب علم جانتے ہیں کہ “انما” کا لفظ حصر کے لئے ہے، جو بیک وقت ایک شے کی نفی اور دوسری شے کے اثبات کا فائدہ دیتا ہے۔ اسی حصر کے اظہار کے لئے راقم الحروف نے یہ ترجمہ کیا ہے کہ: “سنت اگر ہے تو صرف شاخ کا گاڑنا ہے۔” جس کا مطلب یہ ہے کہ پھول اور سبزہ وغیرہ تر اشیاء ڈالنا کوئی سنت نہیں، صرف شاخ کا گاڑنا سنت ہے۔ لیکن شاہ صاحب “انما” کا ترجمہ “بے شک” فرماتے ہیں۔ سبحان اللہ وبحمدہ! اور لطف یہ کہ الٹا راقم الحروف کو ڈانٹتے ہیں کہ تو نے ترجمہ غلط کیا ہے۔
سوم:…جس عبارت کا میں نے ترجمہ نقل کیا تھا، شاہ صاحب نے اس کے ماقبل و مابعد کی عبارت بھی نقل فرمادی۔ حالانکہ اس کو “قبروں پر پھول” کے زیر بحث مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں تھا، لیکن ان سے افسوسناک تسامح یہ ہوا کہ انہوں نے “وکذالک ما یفعلہ اکثر الناس” سے لے کر آخر عبارت “فافہم” تک کو امام خطابی کی عبارت سمجھ لیا ہے، حالانکہ یہ امام خطابی کی عبارت نہیں، بلکہ علامہ عینی کی عبارت ہے۔ امام خطابی کا حوالہ انہوں نے صرف “وضع الیابس الجرید” کے لئے دیا ہے۔ حدیث کے کسی طالب علم کے سامنے یہ عبارت رکھ دیجئے اس کا فیصلہ یہی ہوگا کیونکہ اول تو ہر مصنف کا طرزِ نگارش ممتاز ہوتا ہے، امام خطابی جو چوتھی صدی کے شخص ہیں ان کا یہ طرزِ تحریر ہی نہیں، بلکہ صاف طور پر یہ علامہ عینی کا اندازِ نگارش ہے۔ علاوہ ازیں امام خطابی کی معالم السنن موجود ہے، جن جن حضرات نے امام خطابی کا حوالہ دیا ہے وہ “معالم” ہی سے دیا ہے، شاہ صاحب تھوڑی سی زحمت اس کے دیکھنے کی فرمالیتے تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ امام خطابی نے کیا لکھا ہے اور حافظ عینی نے ان کا حوالہ کس حد تک دیا ہے؟ ان تمام امور سے قطع نظر کرتے ہوئے اگر “وکذالک ما یفعلہ اکثر الناس ․․․․․․ الخ۔” کی عبارت کو “انکر الخطابی” کے تحت داخل کیا جائے (جیسا کہ شاہ صاحب کو خوش فہمی ہوئی ہے) تو عبارت قطعی بے جوڑ بن جاتی ہے، شاہ صاحب ذرا مبتدا و خبر کی رعایت رکھ کر اس عبارت پر ایک بار پھر غور فرمالیں اور حدیث کے کسی طالب علم سے بھی استصواب فرمالیں۔
چہارم:…یہ تو شاہ صاحب کے جائزہ کتاب فہمی کی بحث تھی، اب ذرا ان کے “صحیح ترجمہ” پر بھی غور فرمالیا جائے۔
حافظ عینی کی عبارت ہے:
“ومنھا انہ قیل ھل للجرید معنی یخصہ فی الغرز علی القبر لتخفیف العذاب؟ والجواب انہ لا معنی یخصہ بل المقصود ان یکون ما فیہ رطوبة من ای شجر کان ولھذا انکر الخطابی ومن تبعہ وضع الیاس الجرید۔”
شاہ صاحب اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:
“اس حدیث سے متعلق مسائل میں سے یہ بھی ہے کہ بعض حضرات یہ دریافت کرتے ہیں کہ تخفیفِ عذاب کے لئے قبر پر خصوصی طور پر شاخ ہی کا گاڑنا ہے؟
تو جواب یہ ہے کہ شاخ کی کوئی خصوصیت نہیں، بلکہ ہر وہ چیز جس میں رطوبت ہو مقصود ہے۔ خطابیاور ان کے متبعین نے خشک شاخ کے قبر پر رکھنے کا انکار کیا ہے ․․․․․․ الخ۔”
شاہ صاحب کا یہ ترجمہ کس قدر پُرلطف ہے؟ اس کا اصل ذائقہ تو عربی دان ہی اٹھاسکتے ہیں! تاہم چند لطیفوں کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔
الف:…علامہ عینی نے اس حدیث سے متعلقہ احکام و مسائل ص:۸۷۴ سے ص:۸۷۷ تک “بیان استنباط الاحکام” کے عنوان سے بیان فرمائے ہیں، اور ص:۸۷۷ سے ص:۸۷۹ تک “الاسئلة والاجوبة” کا عنوان قائم کرکے اس حدیث سے متعلق چند سوال و جواب ذکر کئے ہیں۔ انہیں میں سے ایک سوال و جواب وہ ہے جو شاہ صاحب نے نقل کیا ہے۔ آپ “منہا” کا ترجمہ فرماتے ہیں: “اس حدیث سے متعلقہ مسائل میں سے یہ بھی ہے۔” شاہ صاحب غور فرمائیں کہ کیا یہاں “حدیث کے مسائل” ذکر کئے جارہے ہیں․․․؟
ب:…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معذب قبروں پر “جرید” نصب فرمائی تھی، اور “جرید” شاخِ خرما کو کہا جاتا ہے۔ علامہ عینی نے جو سوال اٹھایا وہ یہ تھا کہ کیا شاخِ کھجور میں کوئی ایسی خصوصیت ہے جو دفع عذاب کے لئے مفید ہے، جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نصب فرمایا؟ یا یہ مقصود ہر درخت کی شاخ سے حاصل ہوسکتا تھا؟ علامہ عینی جواب دیتے ہیں کہ: نہیں! شاخِ کھجور کی کوئی خصوصیت نہیں، بلکہ مقصود یہ ہے کہ تر شاخ ہو، خواہ کسی درخت کی ہو۔ یہ تو تھا علامہ عینی کا سوال و جواب، ہمارے شاہ صاحب نے سوال و جواب کا مدعا نہیں سمجھا، اس لئے شاہ صاحب سوال و جواب کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:
“بعض حضرات یہ دریافت کرتے ہیں کہ تخفیفِ عذاب کے لئے قبر پر خصوصی طور پر شاخ ہی کا گاڑنا ہے؟
تو جواب یہ ہے کہ شاخ میں کوئی خصوصیت نہیں بلکہ ہر وہ چیز جس میں رطوبت ہو، مقصود ہے۔”
اگر شاہ صاحب نے مجمع البحار یا لغتِ حدیث کی کسی اور کتاب میں “جرید” کا ترجمہ دیکھ لیا ہوتا یا شاہ عبدالحق محدث دہلوی کی شرح مشکوٰة سے اس حدیث کا ترجمہ ملاحظہ فرمالیا ہوتا تو ان کو علامہ عینی کے سوال و جواب کے سمجھنے میں الجھن پیش نہ آتی، اور وہ یہ ترجمہ نہ فرماتے۔
اور اگر شدتِ مصروفیت کی بنا پر انہیں کتابوں کی مراجعت کا موقع نہیں ملا تو کم از کم اتنی بات پر تو غور فرمالیتے کہ اگر علامہ عینی کا مدعا یہ ہوتا کہ شاخ کی کوئی خصوصیت نہیں بلکہ ہر رطوبت والی چیز سے یہ مقصد حاصل ہوجاتا ہے تو اگلے ہی سانس میں وہ پھول وغیرہ ڈالنے کو “لیس بشیٴ” کہہ کر اس کی نفی کیوں کرتے؟ ترجمہ کرتے ہوئے تو یہ سوچنا چاہئے تھا کہ علامہ کے یہ دونوں جملے آپس میں ٹکرا کیوں رہے ہیں؟
ج:…چونکہ شاہ صاحب کے خیالِ مبارک میں علامہ عینی شاخ کی خصوصیت کی نفی کرکے ہر رطوبت والی چیز کو مقصود قرار دے رہے ہیں، اس لئے انہوں نے علامہ کی عبارت سے “من ای شجر کان” کا ترجمہ ہی غائب کردیا۔
د:…پھر علامہ عینی نے “ولھذا انکر الخطابی” کہہ کر اپنے سوال و جواب پر تفریع پیش کی تھی، شاہ صاحب نے “لھذا” کا ترجمہ بھی حذف کردیا، جس سے اس جملہ کا ربط ہی ماقبل سے کٹ گیا۔
ہ:…”وکذالک ما یفعلہ اکثر الناس” سے علامہ عینی نے اس سوال و جواب کی دوسری تفریع ذکر فرمائی تھی، ہمارے شاہ صاحب نے اسے امام خطابی کے انکار کے تحت درج کرکے ترجمہ یوں کردیا: “اور اسی طرح اس کا بھی انکار کیا ہے جو اکثر لوگ کرتے ہیں۔” اس ترجمہ میں “اس کا بھی انکار کیا ہے” کے الفاظ شاہ صاحب کا خود اپنا اضافہ ہے۔
و:…علامہ عینی نے قبروں پر پھول وغیرہ ڈالنے کو “لیس بشیٴ” (یہ کوئی چیز نہیں) کہہ کر فرمایا تھا: “انما السنة الغرز” یعنی ’سنت صرف شاخ کا گاڑنا ہے۔” اس پر ایک اعتراض ہوسکتا تھا، اس کا جواب دے کر اس کے آخر میں فرماتے ہیں: “فافھم” جس میں اشارہ تھا کہ اس جواب پر مزید سوال و جواب کی گنجائش ہے۔ مگر ہمارے شاہ صاحب چونکہ یہ سب کچھ امام خطابی کے نام منسوب فرما رہے ہیں، اس لئے وہ بڑے جوش سے فرماتے ہیں:
“پھر بے چارے خطابی نے بحث کے اختتام پر “فافہم” کے لفظ کا اضافہ بھی کیا مگر افسوس کہ مولانا صاحب موصوف نے اس طرف توجہ نہ فرمائی۔”
یہ ناکارہ، جناب شاہ صاحب کے توجہ دلانے پر متشکر ہے، کاش! شاہ صاحب خود بھی توجہ کی زحمت فرمائیں کہ وہ کیا سے کیا سمجھ اور لکھ رہے ہیں۔
شاید علامہ عینی کا یہ “فافھم” بھی الہامی تھا، حق تعالیٰ شانہ کو معلوم تھا کہ علامہ عینی کے ۵۴۵ سال بعد ہمارے شاہ صاحب، علامہ کی اس عبارت کا ترجمہ فرمائیں گے، اس لئے ان سے “فافھم” کا لفظ لکھوادیا، تاکہ شاہ صاحب، علامہ کی اس وصیت کو پیش نظر رکھیں اور ان کی عبارت کا ترجمہ ذرا سوچ سمجھ کر کریں۔
پنجم:…”کتاب فہمی” اور “صحیح ترجمہ” کے بعد اب شاہ صاحب کے طریق استدلال پر بھی نظر ڈال لی جائے، موصوف نے علامہ عینی کی مندرجہ بالا عبارت سے چند فوائد اس تمہید کے ساتھ اخذ کئے ہیں:
“مذکورہ بالا ترجمہ سے لدھیانوی صاحب کی کتاب فہمی اور طریق استدلال کا اندازہ ہوجائے گا۔ لیکن ناظرین کے لئے چند امور درج ذیل ہیں۔”
۱:…شاہ صاحب نمبر:۱ کے تحت لکھتے ہیں:
“شاخ لگانا ہی مسنون نہیں اس چیز کو تر ہونا چاہئے۔ لہٰذا خشک چیز کا لگانا مسنون نہیں، البتہ شاخیں سبز اور پھول تر ہونے کے باعث مسنون ہیں۔”
پھول ڈالنے کا مسنون ہونا علامہ عینی کی عبارت سے اخذ کیا جارہا ہے، جبکہ ان کی عبارت کا ترجمہ خود شاہ صاحب نے یہ کیا ہے:
“اور اسی طرح اس کا بھی انکار کیا ہے جو اکثر لوگ کرتے ہیں یعنی تر اشیاء مثلاً پھول اور سبزیاں وغیرہ قبروں پر ڈال دیتے ہیں یہ کچھ نہیں اور بے شک سنت گاڑنا ہے۔”
پھول اور سبزہ وغیرہ تر اشیاء قبر پر ڈالنے کو علامہ عینی خلافِ سنت اور لیس بشیٴ فرماتے ہیں، لیکن شاہ صاحب کا اچھوتا طریق استدلال اس عبارت سے پھولوں کا مسنون ہونا نکال لیتا ہے۔ شاید شاہ صاحب کی اصطلاح میں “لیس بشیٴ” (کچھ نہیں، کوئی چیز نہیں) کے معنی ہیں: “مسنون چیز”۔
۲:… شاہ صاحب کا فائدہ نمبر:۲ اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے کہ:
“وضع یعنی ڈالنا مسنون نہیں بلکہ غرز یعنی گاڑنا مسنون ہے، اور خطابی نے انکار پھولوں اور سبزیوں کے ڈالنے کا کیا ہے نہ کہ گاڑنے کا جیسا کہ اگلی عبارتوں سے ظاہر ہے، اس طرح دو بنیادی اشیاء مسنون ہیں ایک تو رطب ہونا دوسرے غرز۔”
شاہ صاحب کی پریشانی یہ ہے کہ علامہ عینی (اور شاہ صاحب کے بقول امام خطابی) تو پھولوں کے ڈالنے کو لیس بشیٴ اور غیرمسنون فرما رہے ہیں، اور شاہ صاحب کو بہرحال پھولوں کا مسنون ہونا ثابت کرنا ہے، اس لئے اپنے مخصوص اندازِ استدلال سے ان کے قول کی کیا خوبصورت تاویل فرماتے ہیں کہ خطابی کے بقول پھولوں کا ڈالنا تو مسنون نہیں، ہاں! ان کا گاڑنا ان کے نزدیک بھی مسنون ہے۔ الله الصمد!
شاہ صاحب نے کرنے کو تو تاویل کردی لیکن اول تو یہ نہیں سوچا کہ ہماری بحث بھی تو پھولوں کے ڈالنے ہی سے متعلق ہے، اور اس کا غیرمسنون ہونا جناب نے خود ہی رقم فرمادیا، پس اگر اس ناکارہ نے قبر پر پھول ڈالنے کو خلافِ سنت کہا تھا تو کیا جرم کیا․․․؟
پھر اس پر بھی غور نہیں فرمایا کہ جو حضرات اولیاء اللہ کے مزارات پر پھول ڈال کر آتے ہیں، وہ تو آپ کے ارشاد کے مطابق بھی خلافِ سنت فعل ہی کرتے ہیں، کیونکہ سنت ہونے کے لئے آپ نے دو بنیادی شرطیں تجویز فرمائی ہیں، ایک اس چیز کا رطب یعنی تر ہونا، اور دوسرے اس کا گاڑنا، نہ کہ ڈالنا۔
پھر اس پر بھی غور نہیں فرمایا کہ قبر پر گاڑی تو شاخ جاتی ہے، پھولوں اور سبزیوں کو قبر پر کون گاڑا کرتا ہے؟ ان کو تو لوگ بس ڈالا ہی کرتے ہیں، پس جب پھولوں کا گاڑنا عادةً ممکن ہی نہیں اور نہ کوئی ان کو گاڑتا ہے اور خود ہی شاہ صاحب بھی لکھ رہے ہیں کہ کسی چیز کا قبر پر گاڑنا سنت ہے، ڈالنا سنت نہیں تو جناب کے اس فقرے کا آخر کیا مطلب ہوگا کہ:
“خطابی نے انکار پھولوں اور سبزیوں کے ڈالنے کا کیا ہے نہ کہ گاڑنے کا۔”
کیا کسی ملک میں شاہ صاحب نے قبروں پر پھولوں کے گاڑنے کا دستور دیکھا سنا بھی ہے؟ اور کیا یہ ممکن بھی ہے؟ اگر نہیں تو بار بار غور فرمائیے کہ آخر آپ کا یہ فقرہ کوئی مفہوم محصل رکھتا ہے؟
پھر جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا شاہ صاحب یہ ساری باتیں امام خطابی سے زبردستی منسوب کر رہے ہیں، ورنہ امام خطابی کی عبارت میں پھولوں کے گاڑنے اور ڈالنے کی “باریک منطق” کا دور دور کہیں پتہ نہیں۔ مناسب ہے کہ یہاں امام خطابی کی اصل عبارت پیش خدمت کروں، شاہ صاحب اس پر غور فرمالیں، حدیث “جرید” کی شرح میں امام خطابی لکھتے ہیں:
“واما غرسہ شق العسیب علی القبر وقولہ (لعلہ یخفف عنھما ما لم یبسا) فانہ من ناحیة التبرک باثر النبی صلی الله علیہ وسلم ودعائہ بالتخفیف عنھما وکانہ صلی الله علیہ وسلم جعل مدة بقاء النداوة فیھما حدا لما وقعت بہ المسئلة من تخفیف العذاب عنھما ولیس ذالک من اجل ان فی الجرید الرطب معنی لیس فی الیابس والعامة فی کثیر من البلدان تفرش الخوص فی قبور موتاھم واراھم ذھبوا الی ھذا ولیس لما تعاطوہ من ذالک وجہ، والله اعلم!”
(معالم السنن ج:۱ ص:۱۹، ۲۰)
ترجمہ:…”رہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا شاخِ خرما کو چیر کر قبر پر گاڑنا اور یہ فرمانا کہ: “شاید کہ ان کے عذاب میں تخفیف ہو جب تک کہ یہ شاخیں خشک نہ ہوں۔” تو یہ تخفیف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اثر اور آپ کی دعائے تخفیف کی برکت کی وجہ سے ہوئی، اور ایسا لگتا ہے کہ آپ نے جو ان قبروں کے حق میں تخفیفِ عذاب کی دعا کی تھی ان شاخوں میں تری باقی رہنے کی مدت کو اس تخفیف کے لئے حد مقرر کردیا گیا تھا، اور اس تخفیف کی یہ وجہ نہیں تھی کہ کھجور کی تر شاخ میں کوئی ایسی خصوصیت پائی جاتی ہے جو خشک میں نہیں پائی جاتی، اور بہت سے علاقوں کے عوام اپنے مردوں کی قبروں میں کھجور کے پتے بچھادیتے ہیں اور میرا خیال ہے کہ وہ اسی کی طرف گئے ہیں (کہ تر چیز میں کوئی ایسی خصوصیت پائی جاتی ہے جو تخفیفِ عذاب کے لئے مفید ہے) حالانکہ جو عمل کہ یہ لوگ کرتے ہیں اس کی کوئی اصل نہیں، والله اعلم!”
۳:…شاہ صاحب نے تیسرا افادہ عینی کی عبات سے یہ اخذ کیا ہے:
“قبروں پر پھول ڈالنے کا سلسلہ کوئی نیا نہیں، بلکہ خطابی کے زمانہ سے چلا آتا ہے، اور یہ بھی نہیں کہ بعض لوگ ایسا کرتے ہوں بلکہ خطابی کا بیان ہے کہ یہ فعل “اکثر الناس” کا ہے۔”
شاہ صاحب اس نکتہ آفرینی سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ خطابی کے زمانے سے قبروں پر پھول چڑھانے پر سوادِ اعظم کا اجماع ہے، اور اس “اجماع” کے خلاف لب کشائی کرنا گویا الحاد و زندقہ ہے، جس سے سوادِ اعظم کے معتقدات کو ٹھیس پہنچی ہے، مگر قبلہ شاہ صاحب اس نکتہ آفرینی سے پہلے مندرجہ ذیل امور پر غور فرمالیتے تو شاید انہیں اپنے طرزِ استدلال پر افسوس ہوتا۔
اولاً:…وہ جس عبارت پر اپنے اس نکتہ کی بنیاد جما رہے ہیں، وہ امام خطابی کی نہیں بلکہ علامہ عینی کی ہے، اس لئے قبروں پر پھول چڑھانے کو امام خطابی کے زمانہ کے “اکثر الناس” کا فعل ثابت کرنا بنا الفاسد علی الفاسد ہے، ہاں! یوں کہئے کہ امام خطابی کے زمانہ کے “عوام” مردے کی قبر میں کھجور کے تر پتے بچھایا کرتے تھے، علامہ عینی کے زمانے تک یہ سلسلہ کھجور کے پتوں سے گزر کر پھول چڑھانے تک پہنچ گیا۔
ثانیاً:… جب سے یہ سلسلہ عوام میں شروع ہوا اسی وقت سے علمائے امت نے اس پر نکیر کا سلسہ بھی شروع کردیا۔ خطابی نے “اس کی کوئی اصل نہیں” کہہ کر اس کے بدعت ہونے کا اعلان فرمایا اور علامہ عینی نے “لیس بشیٴ” کہہ کر اس کو خلافِ سنت قرار دیا۔ کاش! کہ جناب شاہ صاحب بھی حضرات علمائے امت کے نقش قدم پر چلتے، او رعوام کے اس فعل کو بے اصل اور خلافِ سنت فرماتے۔ بہرحال اگر جناب شاہ صاحب خطابی یا عینی کے زمانے کے عوام کی تقلید فرما رہے ہیں تو اس ناکارہ کو بحول اللہ وقوّتہ اکابر علمائے امت اور ائمہ دین کے نقش قدم پر چلنے کی سعادت حاصل ہے اور وہ امام خطابی اور علامہ عینی کی طرح اس عامیانہ فعل کے خلافِ سنت ہونے کا اعلان کر رہا ہے۔ جناب شاہ صاحب کو اگر تقلیدِ عوام پر فخر ہے تو یہ ہیچ مدان، ائمہ دین کے اتباع پر نازاں ہے اور اس پر شکر بجالاتا ہے، یہ اپنا اپنا نصیب ہے کسی کے حصے کیا آتا ہے:
ہر کسے را بہر کارے ساختند
ثالثاً:…جناب شاہ صاحب نے علامہ عینی کی عبارت خطابی کی طرف منسوب کرکے یہ سراغ تو نکال لیا کہ پھولوں کا چڑھانا خطابی کے زمانہ سے چلا آتا ہے، کاش! وہ کہیں سے یہ بھی ڈھونڈ لاتے کہ چوتھی صدی (خطابی کے زمانہ) کے عوام نے جو بدعتیں ایجاد کی ہوں وہ چودہویں صدی میں نہ صرف “سنت” بن جاتی ہیں بلکہ اہل سنت کے عقائد و شعار میں بھی ان کو جگہ مل جاتی ہے، انا لله وانا الیہ راجعون!
جناب شاہ صاحب نے اگر میرا پہلا مضمون پڑھا ہے تو امام شہید کا ارشاد بھی ان کی نظر سے گزرا ہوگا جو امام ربانی مجدد الف ثانی نے فتاویٰ غیاثیہ سے نقل کیا ہے کہ متأخرین (جن کا دور چوتھی صدی سے شروع ہوتا ہے) کے استحسان کو ہم نہیں لیتے۔ غور فرمائیے جس دور کے اکابر اہل علم کے استحسان سے بھی کوئی سنت ثابت نہیں ہوتی، شاہ صاحب اس زمانے کے عوام کی ایجاد کردہ بدعات کو “سنت” فرما رہے ہیں اور اصرار کیا جارہا ہے کہ ان بدعات کے بارے میں اس زمانے کے اکابر اہل علم نے خواہ کچھ ہی فرمایا ہو ہمیں اس کے دیکھنے کی ضرورت نہیں، چونکہ صدیوں سے عوام اس بدعت میں ملوث ہیں، لہٰذا اس کو خلافِ سنت کہنا روا نہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس “لاجواب منطق” سے شاہ صاحب نے اپنے ضمیر کو کیسے مطمئن کرلیا۔
رابعاً:…ہمارے شاہ صاحب تو امام خطابی کے زمانے کے عوام کو بطورِ حجت و دلیل پیش فرما رہے ہیں اور علمائے امت کی نکیر کے علی الرغم ان کے فعل سے سند پکڑ رہے ہیں۔ آئیے! میں آپ کو اس سے بھی دو صدی پہلے کے “عوام” کے بارے میں اہل علم کی رائے بتاتا ہوں۔
صاحب در مختار نے باب الاعتکاف سے ذرا پہلے یہ مسئلہ ذکر کیا ہے کہ اکثر عوام جو مُردوں کے نام کی نذر و نیاز مانتے ہیں اور اولیاء اللہ کی قبور پر روپے پیسے اور شمع، تیل وغیرہ کے چڑھاوے ان کے تقرب کی غرض سے چڑھاتے ہیں، یہ بالاجماع باطل و حرام ہے، اِلَّا یہ کہ فقراء پر صرف کرنے کا قصد کریں۔ اس ضمن میں انہوں نے ہمارے امام محمد بن الحسن الشیبانی مدون مذہب نعمانی رحمة اللہ علیہ (المتوفی۱۸۹ھ) کا ارشاد نقل کیا ہے:
“ولقد قال الامام محمد لو کانت العوام عبیدی لاعتقتھم واسقطت ولائی وذالک لانھم لا یھتدون فالکل بھم یتغیرون۔”
ترجمہ:…”اور امام محمد نے فرمایا کہ اگر عوام میرے غلام ہوتے تو میں ان کو آزاد کردیتا اور ان کو آزاد کرنے کی نسبت بھی اپنی طرف نہ کرتا کیونکہ وہ ہدایت نہیں پاتے، اس لئے ہر شخص ان سے عار کرتا ہے۔”
علامہ شامی اس کے حاشیہ میں لکھتے ہیں:
“اہل فہم پر مخفی نہیں کہ امام کی مراد اس کلام سے عوام کی مذمت کرنا اور اپنی طرف ان کی کسی قسم کی نسبت سے دوری اختیار کرنا ہے، خواہ ولأ (نسبت آزادی) کے ساقط کرنے سے ہو، جو قطعی طور پر ثابت ہے اور اس اظہار برأت کا سبب عوام کا جہل عام ہے، اور ان کا بہت سے احکام کو تبدیل کردینا، اور باطل و حرام چیزوں کے ذریعہ تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔ پس ان کی مثال انعام کی سی ہے کہ اعلام و اکابر ان سے عار کرتے ہیں، اور ان عظیم شناعتوں سے برأت کا اظہار کرتے ہیں․․․․․․
یہ امام محمد کے زمانے کے عوام ہیں جن کے افعال و بدعات سے امام محمد اور دیگر اعلام و اکابر برأت کا اظہار فرماتے ہیں، لیکن اس کے دو صدی بعد کے عوام کی بدعات ہمارے شاہ صاحب کے لئے عین دین بن جاتی ہیں اور بڑے اطمینان کے ساتھ فرماتے ہیں کہ پھول چڑھانے کا سلسلہ تو امام خطابی کے دور سے چلا آتا ہے، اور یہ نہیں سوچتے کہ یہ وہی عوام ہیں جن کے جہل عام اور تغیر احکام کی شکوہ سنجی ہمارے اعلام و اکابر کرتے چلے آئے ہیں۔
یہ اس ناکارہ کے مضمون پر شاہ صاحب کی تنقیدات کے چند نمونے قارئین کی خدمت میں پیش کئے گئے ہیں، جن سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ شاہ صاحب اور ان کے ہم ذوق حضرات بدعات کی ترویج و اشاعت کے لئے کیسی کیسی تاویلات ایجاد فرماتے ہیں۔ حق تعالیٰ شانہ سنت کے نور سے ہمارے دل و دماغ اور روح و قلب کو منور فرمائیں اور بدعات کی ظلمت و نحوست سے اپنی پناہ میں رکھیں۔
Share this article :
 

Copyright © 2011. Al Asir Channel Urdu Islamic Websites Tarjuman Maslak e Deoband - All Rights Reserved
Template Created by piscean Solutions Published by AL Asir Channel
Proudly powered by AL Asir Channel