کیا حدیث پاک میں تعویذ لٹکانے کی ممانعت آئی ہے
س… ایک دکان پر کچھ کلمات لکھے ہوئے دیکھے جو درج ذیل ہیں: “جس نے گلے میں تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا۔” اور ساتھ ہی مذکورہ حدیث لکھی تھی: “من علق تمیمة فقد اشرک۔” (مسند احمد) گزارش یہ ہے کہ یہ صحیح ہے یا غلط؟ حدیث مذکورہ کا کیا درجہ ہے؟ اگر اس کا ذکر کہیں نہ ہو تو بھی درخواست ہے کہ گلے میں تعویذ پہننا کیسا ہے؟
ج… یہ حدیث صحیح ہے، مگر اس میں تعویذ سے مطلق تعویذ مراد نہیں بلکہ وہ تعویذ مراد ہیں جو جاہلیت کے زمانے میں کئے جاتے تھے اور جو شرکیہ الفاظ پر مشتمل ہوتے تھے، پوری حدیث پڑھنے سے یہ مطلب بالکل واضح ہوجاتا ہے، چنانچہ حدیث کا ترجمہ یہ ہے:
“حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک گروہ (بیعت کے لئے) حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نو کو بیعت فرمالیا اور ایک کو نہیں فرمایا، عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! آپ نے نو کو بیعت کرلیا اور ایک کو چھوڑ دیا؟ فرمایا: اس نے تعویذ لٹکا رکھا ہے! یہ سن کر اس شخص نے ہاتھ ڈالا اور تعویذ کو توڑ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بیعت فرمالیا اور فرمایا: “من علق تمیمة فقد اشرک۔” (مجمع الزوائد ج:۵ ص:۱۰۳) ترجمہ: “جس نے تعویذ باندھا اس نے شرک کا ارتکاب کیا۔” اس سے معلوم ہوا کہ یہاں ہر تعویذ مراد نہیں، بلکہ جاہلیت کے تعویذ مراد ہیں اور دورِ جاہلیت میں کاہن لوگ شیطان کی مدد کے الفاظ لکھا کرتے تھے۔