Home » » امر بالمعروف اور نہی عن المنکر عذابِ الٰہی کو روکنے کا ذریعہ ہے

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر عذابِ الٰہی کو روکنے کا ذریعہ ہے


امر بالمعروف اور نہی عن المنکر عذابِ الٰہی کو روکنے کا ذریعہ ہے
س… ایک عرض ہے کہ دینی رسالہ بینات خالص دینی ہونا چاہئے، کسی پر اعتراض و تشنیع مجھے پسند نہیں۔ اس سے نفرت کا جذبہ ابھرتا ہے، صدر ضیاء الحق کے بیانات پر اعتراضات یقینا عوام میں نفرت پھیلنے کا ذریعہ بنتے ہیں، جس سے مملکت کی بنیادیں کھوکھلی پڑجانے کا خطرہ ضرور ہے۔ ویسے بھی ملک اندرونی اور بیرونی خطرات سے دوچار ہے، کہیں بھارت آنکھیں دکھا رہا ہے، تو کہیں کارمل انتظامیہ کی شہ پر روس کی آواز سنی جاتی ہے، کہیں خمینی کے اسلامی انقلاب کی آمد آمد کی خبریں سننے میں آجاتی ہیں، کہیں ملک کے ہتھوڑا گروپ، کلہاڑا گروپ وغیرہ کی صدائیں سننے میں آتی ہیں۔ غرض ایسے حالات میں ذرا سی چنگاری ہمارے پاکستان کا شیرازہ بکھیر سکتی ہے، اس صورت میں پھر یہ ذمہ داری کس پر عائد ہوگی؟ اس بارے میں اگر تفصیل سے روشنی ڈالی جائے تو نوازش ہوگی۔
ج… آپ کا یہ ارشاد تو بجا ہے کہ وطن عزیز بہت سے اندرونی و بیرونی خطرات میں گھرا ہوا ہے، اور یہ بات بھی بالکل صحیح ہے کہ ان حالات میں حکومت سے بے اعتمادی پیدا کرنا قرین عقل و دانش نہیں، لیکن آنجناب کو معلوم ہے کہ بینات میں یا راقم الحروف کی کسی اور تحریر میں صدر ضیاء الحق صاحب کے کسی سیاسی فیصلے کے بارے میں کبھی لب کشائی اور حرف زنی نہیں کی گئی:
کار مملکت خسرواں دانند!
لیکن جہاں تک دینی غلطیوں کا تعلق ہے، اس پر ٹوکنا نہ صرف یہ کہ اہل علم کا فرض ہے (اور مجھے افسوس اور ندامت کے ساتھ اعتراف ہے کہ ہم یہ فرض ایک فیصد بھی ادا نہیں کر پارہے) بلکہ یہ خود صدرِ محترم کے حق میں خیر کا باعث ہے۔ اس سلسلہ میں آپ کو امیرالموٴمنین حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کا واقعہ سناتا ہوں، جو حضرت مولانا محمد یوسف دہلوی قدس سرہ نے “حیاة الصحابہ” میں نقل کیا ہے:
“واخرج الطبرانی وابویعلیٰ عن ابی قبیل عن معاویة بن ابی سفیان رضی الله عنہما، انہ صعد المنبر یوم القمامة فقال عند خطبتہ: “انما المال مالنا والفیٴ فیئنا، فمن شئنا اعطیناہ ومن شئنا منعناہ۔ فلم یجبہ احد فلما کان فی الجمعة الثانیة قال مثل ذالک، فلم یجبہ احد، فلما کان فی الجمعة الثالثة قال مثل مقالتہ، فقام الیہ رجل ممکن حضر المسجد فقال: کلا! انما المال مالنا والفیٴ فیئنا، فمن حال بیننا وبینہ حاکمناہ الی الله بأسیافنا۔ فنزل معاویة رضی الله عنہ فارسل الی الرجل فادخلہ فقال القوم: ھلک الرجل! ثم دخل الناس فوجدوا الرجل معہ علی السریر فقال معاویة رضی الله عنہ للناس: ان ھذا احیانی احیاہ الله، سمعت رسول الله صلی الله علیہ وسلم یقول: “سیکون بعدی امراء یقولون ولا یرد علیھم، یتقاحمون فی النار کما تتقاحم القردة۔” وانی تکلمت اول جمعة فلم یرد علیّ احد، فخشیت ان اکون منھم، ثم تکلمت فی الجمعة الثانیة فلم یرد علیّ احد، فقلت فی نفسی انی من القوم، ثم تکلمت فی الجمعة الثالثة فقام ھذا الرجل فرد علیّ فاحیانی احیاہ الله۔” قال الہیثمی (ج:۵ ص:۲۳۶) رواہ الطبرانی فی الکبیر والاوسط، وابویعلیٰ ورجالہ ثقات۔” (حیاة الصحابة ج:۲ ص:۶۸)
ترجمہ:…”حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما، قمامہ کے دن منبر پر تشریف لے گئے اور اپنے خطبہ میں فرمایا کہ: مال ہمارا ہے اور فئے (غنیمت) ہماری ہے، ہم جسے چاہیں دیں اور جسے چاہیں نہ دیں۔ ان کی یہ بات سن کر کسی نے جواب نہیں دیا۔ دوسرا جمعہ آیا تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبہ میں پھر یہی بات کہی، اب کے بھی انہیں کسی نے نہیں ٹوکا، تیسرا جمعہ آیا تو پھر یہی بات کہی اس پر حاضرین مسجد میں سے ایک شخص کھڑا ہوگیا اور کہا:
ہرگز نہیں! یہ مال ہمارا ہے، اور غنیمت ہماری ہے، جو شخص اس کے اور ہمارے درمیان آڑے آئے گا ہم اپنی تلواروں کے ذریعہ اس کا فیصلہ اللہ کی بارگاہ میں پیش کریں گے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ منبر سے اترے تو اس شخص کو بلا بھیجا، اور اسے اپنے ساتھ اندر لے گئے۔ لوگوں نے کہا کہ: یہ شخص تو مارا گیا! پھر لوگ اندر گئے تو دیکھا کہ وہ شخص حضرت معاویہ کے ساتھ تخت پر بیٹھا ہے، حضرت معاویہنے لوگوں سے فرمایا: اس شخص نے مجھے زندہ کردیا، اللہ تعالیٰ اسے زندہ رکھے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے خود سنا کہ: “میرے بعد کچھ حکام ہوں گے، جو (خلافِ شریعت) باتیں کریں گے لیکن کوئی ان کو ٹوکے گا نہیں، یہ لوگ دوزخ میں ایسے گھسیں گے جیسے بندر گھستے ہیں۔” میں نے پہلے جمعہ کو ایک بات کہی، اس پر مجھے کسی نے نہیں ٹوکا، تو مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں میں بھی انہیں لوگوں میں نہ ہوں۔ پھر میں نے دوسرے جمعہ کو یہ بات دہرائی، اس بار بھی کسی نے میری تردید نہیں کی، تو میں نے اپنے جی میں سوچا کہ میں انہی میں سے ہوں۔ پھر میں نے تیسرے جمعہ یہی بات کہی تو اس شخص نے اٹھ کر مجھے ٹوک دیا، پس اس نے مجھے زندہ کردیا، اللہ تعالیٰ اس کو زندہ رکھے!”
اور یہ نہ صرف صدرِ محترم کے حق میں خیر و برکت کی چیز ہے، بلکہ امت کی صلاح و فلاح بھی اسی میں ہے۔ چنانچہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
“والذی نفسی بیدہ! لتأمرن بالمعروف ولتنہون عن المنکر او لیوشکن الله ان یبعث علیکم عذاباً من عندہ ثم لتدعنہ ولا یستجاب لکم۔ رواہ الترمذی۔” (مشکوٰة ص:۴۳۶)
ترجمہ:…”اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! تمہیں معروف کا حکم کرنا ہوگا، اور برائی سے روکنا ہوگا، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب نازل کردے، پھر تم اس سے دعائیں کرو، اور تمہاری دعائیں بھی نہ سنی جائیں۔”
ان ارشاداتِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں راقم الحروف کا احساس یہ ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا عمل عذابِ الٰہی کو روکنے کا ذریعہ ہے۔ آج امت پر جو طرح طرح کے مصائب ٹوٹ رہے ہیں اور ہم گوناگوں خطرات میں گھرے ہوئے ہیں، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ کی “احتسابی حس” کمزور اور نہی عن المنکر کی آواز بہت دھیمی ہوگئی ہے۔ جس دن یہ آواز بالکل خاموش ہوجائے گی اس دن ہمیں اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس روزِ بد سے محفوظ رکھیں۔
Share this article :
 

Copyright © 2011. Al Asir Channel Urdu Islamic Websites Tarjuman Maslak e Deoband - All Rights Reserved
Template Created by piscean Solutions Published by AL Asir Channel
Proudly powered by AL Asir Channel