Home » , » عید میلادالنبی ﷺ منانا۔

عید میلادالنبی ﷺ منانا۔



عید میلادالنبی ﷺ منانا۔
اس سلسلہ میں مفتی یار تحریر کرتے ہیں:
’’
میلاد ملائکہ کی سنت ہے، اس سے شیطان بھاگتا ہے‘‘۔
(
جاء الحق:۱/۲۲۳)

ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’
میلاد شریف قرآن و حدیث اور ملائکہ و پیغمبروں سے ثابت ہے‘‘۔
(
جاء الحق:۱/۲۲۳
)

ایک اور جگہ تحریرکرتے ہیں:
’’
محفل میلاد شریف منعقد کرنا اور ولادتِ پاکؐ کی خوشی منانا، اس کے ذکر کے موقع پر خوشبو لگانا، گلاب چھڑکنا، شیرینی تقسیم کرنا، غرض یہ کہ خوشی کا اظہار جو جائز طریقہ سے ہو وہ مستحب ہے اور باعثِ برکت ہے، آج بھی تو اس کو عیسائی اس لئے مناتے ہیں کہ اس دن دسترخوان اترا تھا اور آپﷺ کی تشریف آوری اس فائدہ سے کہیں بڑھ کر نعمت ہے، لہٰذا ان کی ولادت کا دن بھی یوم العید ہے‘‘۔
(
جاء الحق:۱/۲۳۱)

جواب:
مگر شریعت میں اس کی ممنوعیت معلوم ہوتی ہے۔
جبکہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ عید میلاد النبیﷺ کا رواج قرونِ ثلٰثہ میں نہیں تھا، سب سے پہلے اس کا رواج مظفر الدین بادشاہ نےکیا، یہ ساتویں صدی ہجری کا ایک بدعتی بادشاہ تھا۔
(
القول المعتمد فی عمل المولد: احمد بن محمد مصری)

اور اس کا عمر بن وحیہ نے خوب ساتھ دیا تھا۔
(
البدایۃ و النہایۃ:۱۳/۱۴۴)

عمر بن وحیہ کے بارے میں علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ جھوٹا آدمی تھا، لوگوں نے اس کی روایت پر اعتماد کرنا چھوڑ دیا تھا اور اس کی پست زیادہ تذلیل کی تھی۔
(
البدایہ و النہایہ:۱۳/۱۴۵)

جب مستند حوالوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ عید میلاد النبیؐ کا منانا ساتویں صدی ہجری سے شروع ہوا، تو اب اس کو قرآن و حدیث یا صحابہ کرامؓ، تابعین اور تبع تابعینؒ اور ائمہ مجتہدینؒ کے اقوال سے نہ ثابت کیا جاسکتا ہے نہ اس کو کیا جاسکتا ہے، کیونکہ ان کے زمانہ میں یہ موجود ہی نہیں تھا۔
ہاں اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے:
من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو ردٌّ ۔
(
بخاری و مسلم و کذا مشکوٰۃ:۳۷)

ترجمہ: جس نے دین کے معاملہ میں کوئی نئی چیز ایجاد کی جو اس میں داخل نہ تھی اُسے ردّ کردیا جائے گا۔
اسی طرح ایک دوسری روایت میں آتا ہے۔
و ایاکم و محدثات الامور فان کل محدثۃ بدعۃ و کل بدعۃ ضلالۃ۔
(
مسند احمد و ابوداؤد و ترمذی و ابن ماجہ و کذا مشکوٰۃ:۳۰)

ترجمہ: دین میں نئی نئی رسموں سے بچو، ہر نئی رسم بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
(
ادیان باطلہ اورصراط مستقیم)

محفل میلاد:
رسول اللہ ﷺ کی سیرت کے واقعات و حالات بیان کرنا ایک ایسی بات ہے جو یقیناً مطلوب ہے، اس لئے کہ اسلام کی نگاہ میں ہدایت و فلاح اور نجات و رستگاری تمام تر آپ ﷺ کی اور آپﷺ کے ایک ایک نقشِ پا کی پیروی اور متابعت میں ہے اور یہ اس وقت ممکن ہے جبکہ آپﷺ کی حیاتِ طیبہ مسلمانوں کی نگاہ میں ہو، اس لئے ایسے جلسوں کا انعقاد جس میں سیرتِ نبویﷺ کا ذکر ہو بیشک جائز بلکہ بہتر ہے۔
لیکن افسوس کہ ہمارے زمانہ میں اس کے ساتھ متعدد ایسی چیزیں شریک کردی گئی ہیں جس نے اس کی حقیقی افادیت کو بھی ضائع کردیا اور بدعات کے زمرہ میں لا کھڑا کیا ہے۔
پہلی چیز: یہ ہے کہ ۱۲ ربیع الاول کی تعیین کرتے ہیں۔
دوسری چیز: ۱۲ ربیع الاول کو محفل میلاد منعقد کرتے ہیں۔
تیسری چیز: محفل میلاد میں قیام کو ضروری سمجھتے ہیں۔
چوتھی چیز: اس دن جلوس نکالتے ہیں۔
پانچویں چیز: اس دن عید میلان النبی مناتے ہیں۔
یہ تمام چیزیں بریلوی حضرات کی کتب میں موجود ہیں، حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں:
بریلوی کے مستند عالم دین جناب مفتی احمد یار خان نعیمی گجراتی لکھتے ہیں:
’’
محفل میلاد شریف منعقد کرنا اور ولادتِ پاکؐ کی خوشی منانا، اس کے ذکر کے موقع پر خوشبو لگانا، گلاب چھڑکنا، شیرینی تقسیم کرنا، غرضیکہ خوشی کا اظہار جس جائز طریقہ سے ہو وہ مستحب اور بہت ہی باعث برکت اوررحمتِ الہی کے نزول کا سبب ہے۔
(
جاء الحق، بحث محفل میلاد:۲۳۱، مطبوعہ نعیمی کتب خانہ)

مفتی احمد یار صاحب لکھتے ہیں:
عیسیٰ علیہ السلام نے دعاء کی تھی: رَبَّنَا أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا ۔ معلوم ہوا کہ مائدہ آنے کے دن کو حضرت مسیح علیہ السلام نے عید کا دن بنایا، آج بھی اتوار کو عیسائی اسی لئے عید مناتے ہیں کہ اس دن دسترخوان اترا تھا، اور حضور ﷺکی تشریف آوری اس مائدہ سے کہیں بڑھ کر نعمت ہے، لہٰذا ان کی ولادت کا دن بھی یوم العید ہے۔
(
جاء الحق، بحث محفل میلاد:۲۳۱)

مفتی احمد یار صاحب لکھتے ہیں:
میلاد شریف قرآن و احادیث، اقوالِ علماء اور ملائکہ اور پیغمبروں سے ثابت ہے۔
(
جاء الحق، بحث محفل میلاد:۲۳۱)

مفتی احمد یا صاحب لکھتے ہیں:
میلاد نسبت ملائکہ بھی ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ بوقت پیدائش کھڑا ہونا ملائکہ کا کام ہے اور بھاگا بھاگا پھرنا شیطان کا فعل ہے۔
اء الحق، بحث محفل میلاد:۲۳۳)

مفتی احمد یار صاحب لکھتے ہیں:
میلاد پاک میں ذکر ولادت کے وقت قیام کرنا سنتِ صحابہؓ اور سنت سلف صالحین سے ثابت ہے۔
(
جاء الحق، بحث محفل میلاد:۲۵۲)

مفتی احمد یار صاحب لکھتے ہیں:
لہٰذا قیام میلاد چند وجہ سے سنت میں داخل ہوا۔
(
جاء الحق، بحث محفل میلاد:۲۵۲)

مولانا عبد السمیع رام پوری انوارِ ساطعہ در بیان مولود و فاتحہ مطبوعہ ضیاء القرآن پبلیکیشنز لاہور کے صفحہ ۵۰۴، سطر ۲۰/ پر ایک سرخی قائم کرتے ہیں ’’نقل مواہیر علماء عرب‘‘، پھر صفحہ ۵۰۶، سطر۵/ میں ایک عبادرت محمد بن یحی کی اپنی تائید میں نقل کی ہے، اس میں ہے:
یجب القیام عند ذکر ولادتہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ کہ آنحضرت ﷺ کی ولادت کے ذکر کے وقت کھڑا ہونا واجب ہے۔
ناظرین آپ نے بریلوی علماء کے میلاد اور قیامِ میلاد کے متعلق حوالہ جات ملاحظہ فرمائے، اب ہم اس کی اصل حقیقت کو واضح کرتے ہیں۔
مجلس میلاد کا بانی
یہ بدعت سنہ ۶۰۴ھ میں موصل کے شہر میں مظفر الدین کوکری بل اربل ، الموفّٰی ۶۳۰ھ کے حکم سی ایجاد ہوئی جو ایک مسرف اور دین سے بے پرواہ بادشاہ تھا۔
(
دیکھئے ابن خلکان وغیرہ)

بریلوی مسلک کے عالم مولانا عبد السمیع لکھتے ہیں:
جس وقت ملک ابو سعید مظفر نے محفل مولد شریف کا سامان کیا اور مفتیانِ دین میں اس مسئلہ کا ۶۰۴ھ میں اعلان کیا۔
(
انوارِ ساطعہ:۳۲۴)

مولانا عبد السمیع صاحب لکھتے ہیں:
لیکن یہ سامانِ فرحت و سرور کرنا اور اس کو بھی مخصوص شہر ربیع الاول کے ساتھ اور اس میں خاص وہی بارہواں دن میلاد شریف کا معین کرنا، بعد میں ہوا، یعنی چھٹی صدی کے آخر میں اور اول یہ عمل ربیع الاول میں کرنا تخصیص اور تعیّن کے ساتھ شہر موصل میں ہوا کہ ایک ہے ملک عراق میں۔
(
انوارِ ساطعہ:۲۶۷)

مولانا عبد السمیع لکھتے ہیں:
اور بادشاہوں میں اول بادشاہ ابوسعید مظفر نے مولد شریف تخصیص و تعین کے ساتھ ربیع الاول میں کیا، غرض کہ اس بادشاہ نے شیخ عمر مذکور کی پیروی اس فعل میں کی، ہر سال ربیع الاول میں تین لاکھ اشرفی لگاکر بڑی محفل کیا کرتا تھا۔
(
انوارِ ساطعہ:۲۶۷)

علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ المتوفی: ۷۴۸ھ نقل فرماتے ہیں:
وہ ہر سال میلاد (جناب نبی کریم ﷺ) پر تقریباً تین لاکھ روپیہ خرچ کیا کرتا تھا۔
(
دول الاسلام:۲/۱۰۳)

حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں:
وہ ائمہ دین اور سلف کی شان میں بہت ہی گستاخی کیا کرتا تھا، گندی زبان کا مالک تھا، بڑا احمق اور متکبر تھا، دین کےکاموں میں بڑا بے پرواہ اور سست تھا۔
(
لسان المیزان:۲۹۶)

نیز حافظ موصوفؒ نقل کرتے ہیں کہ:
علامہ ابن نجار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں کو اس کے جھوٹ اور ضعف پر متفق پایا۔
(
لسان المیزان:۲۹۵)

میلاد پر سب سے پہلے کتاب لکھنے والا
جس دنیا پرست مولوی نے اس جشن کے دلدادہ بادشاہ کے لئے محفل میلاد کے جواز پر مواد اکھٹا کیا تھا اس کا نام عمر بن دحیہ ابو الخطاب (المتوفی:۶۳۳ھ) تھا، جس ک اس کتاب کے صلہ میں صاحب اربل اور مسرف بادشاہ نے ایک ہزار پونڈ انعام دیا تھا۔
(
دول الاسلام: ۱۰۴)

عمر بن دحیہ کے متعلق حافظ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں:
یہ جھوٹا شخص تھا لوگوں نے اس کی روایت پر اعتبار کرنا چھوڑ دیا تھا اور اس کی بہت زیادہ تذلیل کی تھی۔
(
البدایہ و النہایہ:۱۳/۱۴۵)

بارہ وفات ختم کراکر اس کی جگہ عید میلاد النبیﷺ جاری کرانے والا شخص میلاد کا بانی
عیسائی ۲۵/ ڈسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دن مناتے تھے، مسلمانوں نے اپنے نبی ﷺ کا ۱۲/ربیع الاول کو یوم وفات منانا شروع کیا اور یہ دن ۱۲/وفات کے نام سے مشہور ہوگیا۔
پہلے ۱۲/ربیع الاول کا دن ۱۲/وفات کے نام سے منایا جاتا تھا، بعد میں بریلوی مولویں کی انجمن نعمانیہ ٹکسالی گیٹ لاہور کے زیر اہتمام پیر سید جماعت علی شاہ مولوی محمد بخش مسلم اور خاص کر پروفیسر مولانا نور بخش توکلی ایم اے اور دیگر بریلوی علماء نے قرارداد کے ذریعہ گورنمنٹ کے کاغذات میں سے ۱۲/وفات ختم کراکر اس کی جگہ عید میلاد النبیﷺ منظور کرایا۔
بریلوی مسلک کے مشہور عالم دین مولانا محمد عبد الحکیم شریف قادری علامہ محمد نور بخش توکلی کے متعلق لکھتے ہیں:
مولانا مرحوم سرور دو عالم ﷺ کی صحبت سے سرشار تھے، آپ ہی کی مساعئ جمیلہ سے متحدہ ہندو پاک میں بارہ وفات کی بجائے عید میلاد النبی ﷺ کے نام تعظیم ہونا قرار پائی تھی۔
(
تذکرہ اکابر اہلسنت:۵۵۹، مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور)

عید میلاد النبیﷺ کے جلوس کا بانی میاں فیروز الدین احمد تھا
سب سے پہلے ۱۲ ربیع الاول کا جلوس لاہور میں سنہ ۱۹۳۴/۱۹۳۵ء میں موچی دروازہ سے نکالا گیا، جلوس نکالنے کی اجازت کا لائسنس انگریزوں کے گورنر سے حاصل کیا گیا۔
بریلویوں کے ایک وفد جس میں خلیفہ شجاع الدین، محمد الدین، بیرسٹر چودھری فتح محمد، محمد فیاض اور میاں فیروز الدین احمد انگریز گورنر سے ملے، انگریز گورنر نے میاں فیروز الدین کے نام جلوس کا لائسنس و اجازت نامہ جاری کیا۔
عملی طور پر جلوس کی قیادات انجمن فرزندانِ توحید موچی گیٹ کے سپرد ہوئی۔
بعض بریلوی مؤرخ جلوس کا بانی الحاج عنایت اللہ قادری کو بناتے ہیں جیسا کہ ان کی وفات پر روزنامہ جنگ لاہور مورخہ ۲۱/جنوری ۲۰۰۲ء کی اشاعت میں لکھا ہے:
’’
عید میلاد النبی جلوس کے بانی عنایت اللہ قادری لاہور میں انتقال کرگئے، رسم قل کل ہوگی‘‘۔
بانی کوئی بھی ہو ہمیں تو صرف ناظرین کو یہ بتانا ہے کہ یہ جلوس نکالنا عبادت نہیں ہے بعد کی ایجاد ہے۔
بریلوی مسلک کے مشہور عالم دین مولانا غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں:
’’
پہلے مسلمان صرف محافل کا انعقاد اور صدقہ خیرات کیا کرتے تھے، بعد میں اہل صحبت نے اس خوشی میں جلوس نکالنا شروع کیا‘‘۔
(
شرح مسلم:۳/۱۲۰)

مروجہ محفل میلاد مفسرین، محدثین، فقہاء اور علمائے امت کی نظر میں
جب سے یہ محفل میلاد شروع ہوئی ہے اس وقت سے لے کر آج تک علماء کی دو رائے رہی ہیں، بعض صرف جواز کے قائل تھے اور بعض بدعت کہتے تھے، بعد میں اس میں اضافے ہوتے رہے، ان اضافوں کی وجہ سے حکم بھی بدلتا رہا، یہی وجہ ہے کہ ہر زمانہ میں ہر طبقہ کے علماء نے اس محفل میلاد کی تردید کی ہے، ملاحظہ فرمائیں:
(
۱) امام ابو اسحاق شاطبی رحمۃ اللہ علیہ نے بدعات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:
کالذکر بھیئۃ الاجتماع علی صوت واحد و اتخاذ یوم ولادۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم عیدًا۔
(
الاعتصام:۱/۳۹)

ترجمہ: جیسے کہ ہم آواز ہوکر اجتماعی طور پر ذکر کرنا اور آپﷺ کے یوم پیدائش کو عید کے طور پر منانا۔
(
۲) علامہ تاج الدین فاکہانی رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک اور ان کا قولِ معروف ہے کہ:
لا جائز ان یکون عمل المولدِ مباحاً لان الابتداع فی الدین لیس مباحاً باجماع المسلمین۔
(
بحوالہ مجموعۃ الفتاویٰ)

ترجمہ: ممکن نہیں ہے کہ عمل میلاد درست اور مباح ہو، اس لئے کہ دین میں کسی نئی بات کا اضافہ بالاجماع مباح نہیں ہے۔
(
۳) ابن امیر الحاج رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
و من جملۃ ما احدثوہ من البدع مع اعتقادھم ان ذالک من اکبر العبادات و اظھار الشعائر ما یفعلونہ فی شھر ربیع الاول من المولد و قد احتوی ذالک علی بدع و محرمات۔
(
المدخل:۱/۷۵)

ترجمہ: اور من جملہ من گھڑت بدعات کے ایک بدعت جس کو وہ بہت بڑی عبادت اور شعائر اسلام کا اظہار تصور کرتے ہیں وہ ہے جو ربیع الاول کے مہینہ میں میلاد کے سلسلہ میں کیا کرتے ہیں اور میلاد مختلف بدعات اور حرام چیزوں کو شامل ہے۔
(
۴) حافظ ابو الحسن علی بن فضل مالکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
بلاشبہ یہ محفل میلاد سلف صالحین سے منقول نہیں، بلکہ بعد کے زمانہ میں ایجاد ہوئی۔
(
جامع الفضائل بحوالہ تاریخ میلاد:۸۶)

(
۵) شیخ عبد الرحمن مغربی حنفی اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں:
محفل میلاد منعقد کرنا بدعت ہے، رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین اور ائمہ نے نہ ایسا کیا ہے اور نہ ایسا کرنے کو فرمایا ہے۔
(
بحوالہ الجنہ:۱۷۷)

(
۶) امام نصیر الدین شافعیؒ نے فرمایا:
میلاد نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ سلف سے ایسا منقول نہیں، بلکہ عمل قرونِ ثلاثہ کے بعد کے زمانہ میں ایجاد ہوا ہے۔
(
بحوالہ الجنہ:۱۷۷)

(
۷) علامہ حسن بن علیؒ کتاب طریقۃ السنۃ میں لکھتے ہیں:
جاہل صوفیوں نے ماہ ربیع الاول میں محفل میلاد نکالی ہے، شریعت میں اس کی کچھ اصل نہیں، بلکہ وہ بدعتِ سیئہ ہے۔
(
بحوالہ الجنہ:۱۷۸)

(
۸) قاضی شہاب الدین حنفیؒ تحفۃ القضاۃ میں لکھتے ہیں:
یہ جو جاہل لوگ ہر سال ماہ ربیع الاول میں میلاد کرتے ہیں اس کی کوئی حقیقت نہیں۔
(
بحوالہ الجنہ:۱۷۷)

(
۹) علامہ احمد بن محمد مصریؒ مالکی قول معتمد میں لکھتے ہیں:
چاروں مذاہب کے علماء اس محفل میلاد کی مذمت پر متفق ہیں۔
(
بحوالہ الجنہ:۱۷۸)

(
۱۰) حافظ ابوبکر بغدادیؒ اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں:
میلاد کا عمل سلف صالحین سے منقول نہیں، جو کام سلف نے نہ کیا ہو اس میں کوئی خوبی نہیں۔
(
بحوالہ الجنہ:۱۷۸)

(
۱۱) فتاویٰ ذخیرۃ السالکین میں ہے:
جس کو میلاد کہا جاتا ہے وہ بدعت ہے، کیونکہ آنحضرت ﷺ نے ایسا کرنے کا کسی کو حکم نہیں فرمایا اور نہ ہی خلفائے راشدینؓ، ائمہ کرامؒ نے فرمایا نہ ہی خود ایسا کیا۔
(
بحوالہ الجنہ:۱۷۸)

(
۱۲) علامہ تاج الدین فاکہانیؒ جو اجلہ فقہاء میں سے ہیں انہوں نے اپنے رسالہ میں لکھا ہے:
اس محفل میلاد کے لئے کوئی دلیل مجھے کتاب و سنت سے نہیں ملی اور نہ ہی سلف کے پیروکار ائمہ دینؒ سے اس کا کوئی ثبوت منقول ہے، بلکہ یہ ایسی بدعت ہے جو جھوٹے نفس پرست لوگوں نے کھانے پینے کی غرض سے نکالی ہے۔
(
بحوالہ الجنہ:۱۷۸)

(
۱۳) حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
میرے محترم! میں سمجھتا ہوں جب تک اس قسم کی محفل میلاد کا دروازہ بند نہ کیا جائے ہوس پرست باز نہیں آئیں گے۔
(
مکتوبات:۱/۵/۲۲، مکتوب نمبر:۲۷۳)

اس مسئلہ کی مزید تفصیل کے لئے مندرجہ ذیل کتب ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ الجُنۃ لاھل السنۃ: مصنف:مولانا محمد عبد الغنی خان صاحب
۲۔ تاریخ میلاد: مولانا عبد الشکور مرزا پوری صاحب
۳۔ تحفۂ میلاد: اقبال رنگوئی
۴۔ مروجہ محفل میلاد: قاری عبد الرشید
(
فرقہ بریلویت پاک وہند کاتحقیقی جائزہ)
(اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ)
ترجمہ:
اے اللہ! ہمیں حق کو واضح* دکھا اور اس کی پیروی کی توفیق بخش اور اے اللہ ہمیں باطل بھی واضح دکھادے اور اس سے بچنے اور اجتناب کرنے کی توفیق دے
Share this article :
 

Copyright © 2011. Al Asir Channel Urdu Islamic Websites Tarjuman Maslak e Deoband - All Rights Reserved
Template Created by piscean Solutions Published by AL Asir Channel
Proudly powered by AL Asir Channel