نام ونسب
معاویہؓ نام، ابو عبدالرحمن کنیت ،والد کا نام ابو سفیان تھا، سلسلہ نسب یہ ہے، معاویہ بن صخر ابوسفیان بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن عبدمناف بن قصی قرشی اموی، ماں کا نام ہندہ تھا،نانہالی شجرہ یہ ہے ،ہندہ بنت عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی قرشیہ امویہ، اس طرح معاویہؓ کا شجرہ پانچویں پشت پر آنحضرتﷺ سے مل جاتا ہے۔
خاندانی حالات اور اسلام
ان کا خاندان بنو امیہ زمانۂ جاہلیت سے قریش میں معزز ممتاز چلا آتا تھا، ان کے والد ابوسفیان قریش کے قومی نظام میں عقاب یعنی علمبرداری کے عہدہ پر ممتاز تھے،ابو سفیان آغاز بعثت سے فتح مکہ تک اسلام کے سخت دشمن رہے اورآنحضرت ﷺ اورمسلمانوں کی ایذار رسانی اوراسلام کی بیخ کنی میں کوئی امکانی کوشش باقی نہیں رکھی،اس زمانہ میں اسلام کے خلاف جس قدر تحریکیں ہوئیں، ان سب میں علانیہ یادر پردہ ان کا ہاتھ ضرور ہوتا تھا،فتح مکہ کے دن ابو سفیان اورمعاویہ دونوں مشرف باسلام ہوئے،بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ معاویہؓ صلح حدیبیہ کے زمانہ میں دولتِ اسلام سے بہرور ہوچکے تھے، لیکن باپ کے خوف سے اس کا اظہار نہیں کیا تھا، لیکن یہ روایت مسلمہ روایت کے بالکل خلاف ہے اوراس کی تائید میں اور کوئی شہادت نہیں ملتی اسی لئے ناقابل اعتبار ہے تاہم اس قدر یقینی ہے کہ ابو سفیان کی اسلام سے دشمنی کے باوجود معاویہؓ کو مسلمانوں سے کوئی خاص عناد نہ تھا؛چنانچہ ان کے اسلام لانے سے پہلے بدر اوراحد وغیرہ بڑے بڑے معرکے ہوئے مگر ان میں سے کسی میں مشرکین کے ساتھ معاویہ کی شرکت کا پتہ نہیں چلتا
غزوات
ان کے مشرف باسلام ہونے کی خوشی میں آنحضرتﷺ نے انہیں مبارکباد دی ،قبول اسلام کے بعد معاویہؓ حنین اورطائف کے غزوات میں شریک ہوئے ،حنین کے مال غنیمت میں سے آنحضرتﷺ نے ان کو سو اونٹ اور ۴۰ اوقیہ سونا یا چاندی مرحمت فرمایا تھا
(ابن سعد ،جزو۷،ق۲،صفحہ۱۲۸، وتہذیب الاسماء نووی ،جلد۱،صفحہ:۱۰۲) اسی زمانہ میں معاویہؓ کے خاندانی وقار کے لحاظ سے ان کو کتابت وحی کا جلیل القدر من
فتوحات شام
امیر معاویہؓ بالکل آخر میں اسلام لائے تھے،اس لئے آنحضرتﷺ کی زندگی میں ان کو کوئی نمایاں کارنامہ دکھانےکا موقع نہ مل سکا،اس کا آغازحضرت ابوبکرؓ کے عہدِ خلافت سے ہوتا ہے شام کی فوج کشی میں امیر معاویہؓ کے بھائی یزید ایک دستہ کے افسر تھے ارون کی فتح کے سلسلہ میں جب حضرت ابو عبیدہؓ سپہ سالار فوج نے عمروبن العاصؓ کو اس کے ساحلی علاقہ پر مامور کیا اوران کے مقابلہ کے لئے رومیوں کا انبوہ کثیر جمع ہوا اورقسطنطنیہ سے امدادی فوجیں آئیں، تو عمرو بن العاصؓ نے حضرت ابو عبیدہؓ سے مزید امداد طلب کی اس وقت انہوں نے یزید بن ابی سفیان کو روانہ کیا اس امدادی دستہ کے مقدمۃ الجیش کی کمان معاویہؓ کے ہاتھ میں تھی، اس مہم میں انہوں نے کارہائے نمایاں دکھائے، (فتوح البلدان بلاذری:۱۳۳) اس کے بعد اس سلسلہ کی تمام لڑائیوں میں برابر شریک ہوتے رہے؛چنانچہ مرج صفر کے معرکہ میں جب عمرو بن العاص کے بھتیجے خالد شہید ہوئے تو ان کی تلوار معاویہؓ کے قبضہ میں آئی۔
(فتوح البلدان بلاذری:۱۲۶)
دمشق کی تسخیر کے بعد جب یزید صیدا،عرقہ، جبیل اوربیروت وغیرہ کے ساحلی علاقہ کی طرف بڑھےتوحضرت معاویہؓ اس پیش قدمی میں مقدمۃ الجیش کی رہبری کررہے تھے اورعرقہ تما متران ہی کی کوششوں سے فتح ہوا، اس کے بعد جب حضرت عمرؓ کے آخر عہدِ خلافت میں رومیوں نے شام کے بعض مقامات واپس لے لئے تو معاویہؓ نے ان کو زیر کرکے دوبارہ زیر نگین کیا۔
(ایضا:۱۳۳)
مذکورۂ بالا مقامات کی تسخیر کے بعد یزید نے باقی ماندہ علاقہ پر امیر معاویہؓ کو متعین کردیا، انہوں نے نہایت آسانی کے ساتھ تمام قلعے تسخیر کئے اورزیادہ کشت وخون کی نوبت نہیں آنے پائی کہیں خفیف سی جھڑپ ہوجاتی تھی، قیسا ریہ کی مہم حضرت عمرؓ نے خاص ان کے سپرد کی تھی، انہوں نے اس کو بھی نہایت کامیابی کے ساتھ سرکیا، جب یہ قیساریہ پہنچے تو رومی کماندار" اینی" سامنے آیا، دونوں میں سخت معرکہ ہوا، امیر معاویہؓ نے اسے پسپا کردیا اور رومی شکست کھا کر شہر میں داخل ہوگئے،معاویہؓ نے قیسا ریہ کا محاصرہ کرلیا، رومی برابر نکل کے مقابلہ کرتے تھے،مگر ہر مرتبہ شکست کھا کر شہر میں لوٹ جاتے تھے،ایک دن آخری جنگ کے لئے بڑے جوش وخروش سے نکلے اور ایک خونریز جنگ کے بعد بہت فاش شکست کھائی اس معرکہ میں اسی ہزار رومی کام آئے اورمیدان امیر معاویہؓ کے ہاتھ رہا۔
غرض معاویہؓ قریب قریب تمام معرکہ آرائیوں میں بہت ممتاز حیثیت سے شریک رہے ،مگر ان کی تفصیل بہت طویل ہے۔
۱۸ھ میں جب امیر معاویہؓ کے بھائی یزید کا انتقال ہوگیا، تو حضرت عمرؓ ان کی ناوقت وفات سے سخت متاثر ہوئے اوران کی جگہ معاویہؓ کو دمشق کا عامل بنایا اورایک ہزار ماہانہ تنخواہ مقرر کی(استیعاب:۱/۲۶۱) حضرت عمرؓ معاویہؓ کے اوصاف کی وجہ سے ان کی بڑی قدر فرماتے تھے اوران کے تدبیر وسیاست اورعلوئے حوصلہ کی وجہ سے ان کو کسرائے عرب کے لقب سے یاد کرتے تھے (تاریخ الخلفا سیوطی:۱۹۴) امیر معاویہؓ ۴ سال تک فاروقی عہد میں دمشق کے حکمران رہے۔
عہد عثمانی
۲۳ھ میں جب حضرت عمرؓ کا انتقال ہوگیا اور حضرت عثمانؓ مسند آرائے خلافت ہوئے تو انہوں نے امیر معاویہؓ کی تجربہ کاری کی وجہ سے انہیں پورے شام کا والی بنادیا، شام کی ولایت کے زمانہ میں انہوں نے رومیوں کے مقابلہ میں بڑی زبردست فتوحات حاصل کیں، گو حضرت عمرؓ کے عہد میں قیصر وکسریٰ کی حکومتوں کے تختے الٹ چکے تھے تاہم اس وقت تک کوئی بحری حملہ نہ ہوا تھا، اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے امیر معاویہؓ نے بحری حملوں کا آغاز کیا اوربحری قوت کو اتنی ترقی دی کہ اسلامی بحری بیڑا اس عہد کے بہترین بیڑوں میں شمار ہوتا تھا۔
طرابلس الشام کی فتح
حضرت عثمانؓ نے ان کو شام کی انتظامی حکمرانی کے ساتھ جنگی اختیارات بھی دیدیئے تھے،اس سے فتوحات اسلامی کو بہت فائدہ پہنچا، سرحدی رومی اکثر مسلمانوں سے چھیڑ چھاڑ کیا کرتے تھے؛چنانچہ حضرت عمرؓ کے عہد میں بعض سواحل پر قابض ہوگئے تھے ان کی ریشہ دوانیوں کے سد باب کے لیے معاویہؓ نے سفیان بن مجیب ازدی کو طرابلس الشام کی فتح پر مامور کیا ،انہوں نے اس سے چند میل کی مسافت پر پہلے ایک قلعہ تعمیر کیا اوراس کا نام حصن سفیان رکھا اوراس کو فوجی مرکز بناکر رومیوں کے تمام بحری اوربری ناکے بند کرکے طرابلس الشام کا محاصرہ کرلیا رومی قلعہ بند ہوگئے اورخفیہ طورپر شہنشاہ روم کو خط لکھا کہ ہماری امداد کے لئے فوجیں بھیجی جائیں تاکہ ہم مسلمانوں کا مقابلہ کرسکیں اوراگر فوجیں نہیں آسکتیں تو کم از کم کچھ کشتیاں ہی بھجوادی جائیں کہ اس حصار سے ہم کو نجات ملے،سفیان دن کو رومی قلعہ کی نگرانی کرتے تھے اوررات کو اپنی فوج لے کر اپنے قلعہ میں چلے آتے تھے اس لئے رومی ایک شب کو موقع پاکر نکل گئے صبح کو مسلمان قلعہ کے پاس پہنچے تو اس کو بالکل خالی پایا اور بلا مزاحمت قبضہ کرلیا اس قلعہ کے قبضہ میں آجانے سے آئے دن کی بغاوتوں کا خطرہ جاتا رہا۔(فتوح البلدان بلاذری:۱۳۳)
عموریہ پر فوج کشی
(فتوح البلدان:۱۹۲ وابن ایثر:۳/۶۶ مطبوعہ یورپ)
شمشاط کی فتح
امیر معاویہؓ کے ان کارناموں کے صلہ میں حضرت عثمانؓ نے جزیرہ بھی ان ہی کے ماتحت کردیا جزیرہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں فتح ہوچکا تھا؛ لیکن اس کے بعض سرحدی مقامات ہنوز رومیوں کے قبضہ میں تھے ان میں ایک مقام شمشاط بھی تھا، حضرت عثمانؓ نے ان کو شمشاط کی طرف بڑھنے کا حکم دیا انہوں نے یہ خدمت جنیب بن مسلمہ فہری اورصفوان بن معطل کے سپرد کی ان دونون نے نہایت آسانی کے ساتھ شمشاط پر قبضہ کرلیا اورصفوان آخر عمر تک یہاں کے حاکم رہے اوریہیں وفات بھی پائی،بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ امیر معاویہؓ خود بھی اسی مہم میں شریک تھے۔(فتوح البلدان بلاذری:۱۳۳)
ملطیہ کی فتح
ملطیہ بھی ایک سرحدی مقام اوردونوں حکومتوں کے درمیان حد فاصل تھا اس لئے بحر روم میں تاخت کے لئے اس حدِّ فاصل کا توڑنا بھی ضروری تھا ایک مرتبہ جنیب ابن سلمہ فہری اس کو فتح کرچکے تھےمگر رومیوں نے پھر اس پر قبضہ کرلیا تھا امیر معاویہؓ نے دوبارہ جنیب کو اس کی تسخیر پر مامور کیا انہوں نے اس کو فتح کرکے یہاں مسلمان آباد کئے اورآئندہ جب امیر معاویہ ارض روم میں پیش قدمی کے ارادہ سے نکلے تو یہاں شام اورجزیرہ کے باشندوں کی چھاؤنی قائم کی مگر بعد میں یہ مقام اس حالت پر قائم نہ رہ سکاقبرس کی فتح
بحرابیض متوسط میں ساحل شام سے تھوڑی مسافت پر قبرس (سائپرس) ہے یہ جزیرہ اپنی سر سبزی ،شادابی اورمصنوعات کے لحاظ سے اپنے قرب وجوار میں بہت مشہور تھا،خصوصا ًروئی کی بڑی پیداوار ہوتی تھی اس لئے عہد فاروقی سے اس پر امیر معاویہؓ کی نظر تھی اوراس پر حملہ کے لئے انہوں نے حضرت عمرؓ سے بحری جنگ کے لئے اجازت بھی مانگی تھی، لیکن حضرت عمرؓ مسلمانوں کو بحری خطرات میں ڈالنا پسند نہ کرتے تھے؛چنانچہ عمروبن العاصؓ سے بحری سفر کے حالات پوچھ بھیجے انہوں نے تمام خطرات سے آگاہ کردیا، اس لئے امیر معاویہؓ کو اجازت نہ ملی؛ لیکن ان کا دل برابر بحری حملہ کرنے کے لئے بیتاب رہا ؛چنانچہ حضرت عثمانؓ کے خلیفہ ہونے کے بعد ان سے بھی اجازت طلب کی پہلے انہوں نے بھی اجازت نہ دی مگر امیر معاویہ کا اصرار برابر قائم رہا اورانہوں نے بحری جنگ کی آسانیاں حضرت عثمانؓ کے ذہن نشین کرکے انہیں خطرات کی جانب سے اطمینان دلادیا اس وقت انہوں نے اس شرط پر اجازت دیدی کہ اپنی بیوی کو بھی ساتھ لیجائیں اور کسی مسلمان کو اس کی شرکت پر مجبور نہ کریں جو شخص بطیب خاطر شریک ہونا چاہے صرف اس کو لیا جائے کسی پر شرکت کے لئے جبر نہ کیا جائے۔
(یہ آخیر شرط طبری:۲۸۲۴ میں ہے)
امیر معاویہؓ نے یہ تمام شرطیں منظور کرلیں اور۲۸ھ میں نہایت اہتمام کے ساتھ پہلی مرتبہ اسلامی بیڑا بحر روم میں اترا اورامیر معاویہؓ عبداللہ بن ابی سرح کو ساتھ لیکر قبرس پہنچے قبرس والے نہایت نرم خو تھے، جنگ وجدال سے گھبراتے تھے اس لئے بغیر مقابلہ کے ساتھ ہزار دینار سالانہ پر شرائط ذیل کے ساتھ صلح کرلی:
(۱)ہزار دینار سالانہ خراج مسلمانوں کو دیں گے اور اسی قدر رومیوں کو
دیاکریں گے مسلمانوں کو اس میں کوئی اعتراض نہ ہوگا (۲)اگر قبرس پر کوئی دشمن حملہ آور ہو تو مسلمان مدافعت کے ذمہ دار نہ ہونگے۔ (۳)اگر مسلمان رومیوں پر حملہ کرنا چاہیں تو قبرس والے ان کو اپنے جزیرہ کے اندر سے گذرنے دیں گے۔
لیکن اس صلح کے چار برس بعد ۳۲ھ میں جزیرہ والوں نے مسلمانوں کے خلاف جنگی جہازوں سے رومیوں کی مدد کی، اس لئے ۳۳ ھ میں پھر امیر معاویہ پانسو جہازوں کے عظیم الشان بیڑے کے ساتھ بحری حملہ کرکے قبرس کو فتح کرلیا مگر روایات اسلامی کو قائم رکھتے ہوئے اہل قبرس کی وعدہ شکنی کا کوئی انتقام نہیں لیا اورصلح کے سابق نرم شرائط قائم رکھے؛ لیکن چونکہ اہل قبرس ایک مرتبہ غداری کرکے اپنا اعتبار کھوچکے تھے اس لئے اس مرتبہ امیر معاویہؓ نے قبرس میں ۱۲ ہزار مسلمانوں کی ایک آبادی قائم کردی، بعلبک کے بہت سے باشندے بھی نقل مکانی کرکے چلے آئے ان مسلمانوں نے یہاں مساجد تعمیر کیں اورایک شہر بسایا۔
(فتوح البلدان بلاذری:۱۶۰)
افریقہ کی جنگ
افریقہ یعنی تونس،الجزائر اورمراکش قیصر کے زیر حکومت تھے،حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں یہاں بکثرت فتوحات ہوئی تھیں اور قیصر کے بہت سے مقبوضات اس کے ہاتھوں سے نکل گئے تھے، اس لئے وہ جوش انتقام سے لبریز ہورہا تھا؛چنانچہ اس نے مسلمانوں سے انتقام اورملک کو واپس لینے کے لئےبڑی زبردست تیاریاں کیں اورابن اثیر کے بیان کے مطابق قیصر نے اس سے پہلے کبھی مسلمانوں کے مقابلہ کے لئےاتنا اہتمام نہ کیا تھا ،جنگی جہازوں کی تعداد چھ ۶۰۰ سو تھی
(ابن اثیر:۳/۹۱) امیر معاویہؓ اورعبداللہ بن سعد بن ابی سرح فاتح افریقیہ مدافعت کے لئے بڑھےجب دونوں بیڑے بالمقابل آئے تو اتفاق سے اسلامی بیڑے کے خلاف ہوا کے نہایت تیرز و تند طوفان چلنے لگے اس لئے طرفین نے ایک شب کے لئے صلح کرلی اور دونوں اپنے اپنے مذہب کے مطابق رات بھر عبادت ودعا میں مصروف رہے،صبح ہوتے ہوتے رومی ہمہ تن تیار تھے اور دونوں بیڑے آپس میں مل چکے تھے اس لئے رومیوں نے فوراً حملہ کردیا مسلمانوں نے بھی برابر کا جواب دیا،سطح سمندر پر تلواریں چلنے لگیں اوراس قدر گھمسان کی جنگ ہوئی کہ سمندر کا پانی خون کی کثرت سے سرخ ہوگیا، رزمگاہ سے لیکر ساحل تک خون کی موجیں اچھلتی تھیں،آدمی کٹ کٹ کر سمندر میں گرتے تھے اورپانی اُنہیں اُچھال کر اوپر پھینکتا تھا،یہ ہولناک منظر بڑی دیر تک قائم رہا،طرفین نہایت ہی پامردی کے ساتھ ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے رہے،لیکن آخری میں مسلمانوں کے عزم وثبات اورجان سپاری نے رومیوں کے پاؤں اکھاڑدیئے اورقسطنطین نے جہاز کا لنگر اٹھادیا۔
(طبری:۲۸۸۷)
۳۲ھ میں امیر معاویہؓ بحر روم کو عبور کرتے ہوئے تنگنائے قسطنطیہ تک پہنچ گئے اور ۳۳ھ میں ملطیہ کے قریب حصن المراۃ پر حملہ کیا غرض امیر معاویہؓ اپنے زمانہ امارت بھر رومیوں کا نہایت کامیاب مقابلہ کرتے رہے تا آنکہ حضرت مانؓ کے خلاف شورش شروع ہوئی اوردور فتن کا آغاز ہوگیا۔
ودرفتن کا آغاز
حضرت عثمانؓ اوراکابرؓ نے اپنی تمام کوششیں اس فتنہ کو فرو کرنے میں صرف کردیں، لیکن منافقوں اورخلافت اسلامیہ کے دشمنوں کی وجہ سے یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی اور معاملات اورزیادہ پیچیدہ ہوتے گئے اس وقت امیر معاویہؓ شام میں تھے،حضرت عثمانؓ نے ان کو بلا بھیجا ،یہ آئے لیکن اس وقت شروفتن کے شعلے قابو سے باہر ہوچکے تھے اس لئے لوٹ گئے اورحضرت عثمانؓ کی شہادت تک برابر شام ہی میں رہے اس واقعہ کے بعد جنگ جمل ہوئی مگر امیر معاویہؓ نے اس میں کوئی حصہ نہیں لیا ۔
حضرت علیؓ کی خلافت
حضرت عثمان کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ خلیفہ ہوئے، اس وقت امیر معاویہؓ بدستور شام میں تھے ،جناب امیر نے خلیفہ ہوتے ہی ایک سرے سے تمام عثمانی عاملوں کو معزول کردیا اس سلسلہ میں معاویہؓ بھی شام سے معزول ہوگئے اوران کی جگہ سہل بن حنیف کا تقررہوا، لیکن وہ آسانی سے شام کی حکومت چھوڑنے والے نہ تھے، اس لئے شام کی سرحد تبوک پر ان کے سواروں نے سہل بن حنیف کو روک کر واپس کردیا، اس وقت حضرت علیؓ کو ان کی مخالفت کا علم ہوا۔
حضرت مغیرہ شعبہ نے جو اپنی تدبیر وسیاست کی وجہ سے مغیرۃ الرائے کہلاتے تھے حضرت علیؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر ان کو مشورہ دیا کہ اگر آپ اپنی خلافت کو استوار کرنا چاہتے ہیں تو معاویہؓ کو ابھی معزول نہ کیجئے اور ان کو ان کے عہدہ پر قائم رکھئے اورطلحہؓ اورزبیر کو کوفہ اوربصرہ کا ولی بنائیے پورا تسلط ہوجانے کے بعد جو مناسب سمجھئے گا اس پر عمل کیجئے گا آپ نے جواب دیا کہ طلحہؓ وزبیرؓ کے بارہ میں تو غور کروں گا، لیکن معاویہؓ جب تک اپنی حرکتوں سے باز نہ آئیں گے،اس وقت تک ان کو نہ کہیں کے حاکم بناؤں گا اورنہ اس سے کسی قسم کی مددلوں گا،اس جواب سے مایوس ہوکر اورشکستہ خاطر ہوکر مغیرہ امیر معاویہؓ سے مل گئے۔
خارجیوں کا ظہور
ظاہر ہے کہ یہ فیصلہ ایسا تھا جس کو حضرت علیؓ کسی طرح قبول نہ کرسکتے تھے اس لئے آپ نے پھر معاویہؓ سے مقابلہ کی تیاریاں شروع کردیں؛ لیکن اسی درمیان میں اس سے بھی بڑا خارجیوں کا فتنہ اٹھ کھڑا ہوا، یہ لوگ کہتے تھے کہ مذہبی معاملات میں کسی انسان کو حکم بنانا کفر ہے، اس لئے معاویہؓ اورعلیؓ دونوں نعوذ باللہ کافر ہیں اورجو لوگ اس عقید ے کے منکر ہوں وہ بھی کافر ہیں،رفتہ رفتہ اس جماعت کا دائرہ بہت وسیع ہوگیا اوراس کی قوت اتنی بڑھی کہ حضرت علیؓ کے حدود حکومت میں لوٹ مار شروع کردی،اس لئے حضرت علیؓ فی الحال معاویہؓ کے مقابلہ کا خیال ترک کرکے ان کی سرکوبی کے لئے نہروان کی طرف بڑھے اوراس سلسلہ میں ان میں اورخارجیوں میں بڑے بڑے معرکہ ہوئے لیکن اس
عنوان کا تعلق اس سے نہیں ہے اس لئے ان کا حال قلم اندا ز کیا جاتا ہے
مصر پر امیر معاویہ کا قبضہ
اشتر کی موت کے بعد امیر معاویہؓ نے مسلمہ بن مخلد انصاری اورمعاویہ ابن خدیج کندی سے مصر کی فوج کشی کے متعلق خط وکتابت کی انہوں نے امداد کے لئے پوری آمادگی ظاہر کی اورلکھا کہ جس قدر جلد ممکن ہو فوراً آو ہم سب تمہارے منتظر ہیں انشاء اللہ تم کو ضرور کامیابی ہوگی اس جواب کے بعد امیر معاویہؓ نے اپنے مشیروں کے مشورہ سے عمرو بن العاصؓ کو ۶ ہزار فوج دے کر مصر روانہ کردیا، یہاں عثمانی گروہ پہلے سے موجود تھا، اس نے مصر کے باہر اس فوج کا استقبال کیا عمرو بن العاصؓ حملہ کرنے سے قبل محمد بن ابی بکر کو لکھا کہ مصر والے تمہارا ساتھ چھوڑ چکے ہیں تم میرے مقابلہ میں کامیاب نہیں ہوسکے، اس لئے میں دوستانہ مشورہ دیتا ہوں کہ میرے مقابلہ سے باز آجاؤ مصر خالی کردو، میں خواہ مخواۃ تمہارے خون سے اپنے ہاتھ رنگین نہیں کرنا چاہتا، محمد بن ابی بکر نے یہ خط حضرت علیؓ کے پاس بھیج دیا وہاں سے مقابلہ کا حکم آیا۔
چنانچہ محمد بن ابی بکر مقابلہ کے لئے بڑھے مصر کے مشہور بہادر کنانہ بن بشیر مقدمۃ الجیش کی کمان کررہے تھے انہوں نے عمرو بن العاص کا نہایت پر زور مقابلہ کیا جدھر رخ کردیتے تھے میدان صاف ہوجاتا تھا، عمروبن العاص نے یہ رنگ دیکھا، تو معاویہؓ بن خدیج سکونی کو اشارہ کیا انہوں نے کنانہ کو گھیر لیا اورشامیوں نے ہر طرف سے ٹوٹ کر قتل کردیا، ان کے گرتے ہی مصریوں کے پاؤں اکھڑ گئے محمد بن ابی بکر شکست کے آثار دیکھ کر روپوش ہوچکے تھے، معاویہ بن خدیج نے ان کو ڈھونڈ نکالا اور نہایت بیدردی سے قتل کردیئے گئے ان کے قتل کے بعد مصر پر معاویہؓ کا قبضہ ہوگیا۔
(طبری،جلد۶ واقعات ۳۸ھ ملخضاً)
قاتلانہ حملہ
ان پیہم خانہ جنگیوں اور کشت وخون سے مسلمانوں کی ایک جماعت کو خیال پیدا ہوا کہ امت اسلامیہ کی خونریزی اوراس کے افتراق وپرا گندگی کی ساری ذمہ داری معاویہؓ،عمرو بن العاص اورعلی کے سر ہے، اس لئے اگران تینوں کا قصہ پاک کردیا جائے تو مسلمانوں کو اس مصیبت عظمیٰ سے نجات مل جائے گی؛چنانچہ برک بن عبداللہ، ابن ملجم اورعمرو بن بکر نے علی الترتیب تینوں اشخاص کے قتل کرنے کا بیڑا اٹھایا اور ایک ہی شب میں اپنے اپنے شکار پر خفیہ حملہ آور ہوئے،ابن ملجم نے حضرت علی کو شہید کردیا،عمر بن العاص پر حملہ آور ہوا، اس دن ان کے بجائے دوسرا شخص نماز پڑھانے کے لئے نکلا تھا ان کے دھوکے میں وہ مارا گیا اورعمرو بن العاص بچ گئے، برک بن عبداللہ نے امیر معاویہ پر حملہ کیا اور وہ زخمی ہوئے حاجب ودربان ساتھ تھے، قاتل فوراً گرفتار کرکےاسی وقت قتل کردیا گیااور امیر معاویہؓ علاج سے شفایاب ہوگئے، اسی دن سے انہوں نے اپنی حفاظت کے لئے ،مسجد میں مقصورہ بنوایا(وہ چھوٹا ساقبہ نما حجرہ جس میں نماز کے وقت خلفاء بیٹھا کرتے تھے، اس کی ابتدا امیر معاویہؓ نے کی ان کے بعد دوسرے خلفا نے بھی حفاظت کے خیال سے اس کو قائم رکھا) اوررات کی حفاظت کے لئے ایک دستہ مقرر کیا۔
حضرت حسن کی دست برداری
حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد حضرت امام حسنؓ خلیفہ ہوئے،آپ کے ساتھ جو واقعات پیش آئے اورجس طرح آپ معاویہؓ کے حق میں خلافت سے دستبردار ہوئے اس کے تفصیلی حالات اوپر گذرچکے ہیں۔
اس صلح کے بعد امیر معاویہؓ سارے عالم اسلامی کے مسلمہ خلیفہ ہوگئے،لیکن ابھی ان کے دوسرے حریف خارجی جا بجا شورش برپا کئے ہوئے تھے، اس لئے امیر معاویہؓ نے امام حسنؓ سے مصالحت کے بعد ان کی طرف توجہ کی اورعرصہ تک ان کا قلع قمع کرتے رہے،ان لڑائیوں کی تفصیل لاحاصل ہے، اس لئے انہیں قلم انداز کیا جاتا ہے۔
حضرت عثمانؓ کی شہادت کے وقت سے حضرت حسنؓ کی دستبرداری تک پیہم خانہ جنگیوں کی وجہ سے نظام خلافت درہم برہم ہوگیا تھا، ملک کے مختلف حصوں میں جا بجا شورشیں برپا ہورہی تھیں، اس لئے امیر معاویہؓ نے خارجیوں کی سرکوبی کے ساتھ امن وامان کے قیام کی طرف توجہ کی، اس سلسلہ میں سرحدی علاقوں میں بہت سی فتوحات بھی ہوئیں۔
سندھ کی فتوحات
حضرت عثمانؓ اورحضرت علیؓ کے زمانہ میں سندھ پر حملہ ہوچکا ۴۴ ھ میں مہلب بن ابی صفرہ ملتان اورکابل کے درمیان بند اوراہواز کی طرف بڑھے، اور دشمنوں سے مقابلہ کیا،پھر قیضان (کوکن) کا رخ کیا، یہاں کہ شہسواروں سے مقابلہ ہوا، ان سب کو مسلمانوں نے قتل کردیا، اس کے بعد عبد اللہ بن عامر نے عبداللہ بن سوار عبدی کو یہاں کے اسلامی مقبوضات اورہندوستان کی سرحد کا حاکم مقرر کیا، انہوں نے قیقان پر حملہ کرکے مالِ غنیمت حاصل کیا، ان میں مشہور قیقانی گھوڑے بھی تھے،عبداللہ سوار یہ تحائف لے کر امیر معاویہؓ کے پاس گئے اورکچھ دن قیام کرکے پھر قیقان آئے،لیکن ترکوں نے ان کو شہید کردیا، ان کے بعد سنان بن سلمبذلی ان کی جگہ مقرر ہوئے انہوں نے مکران فتح کیا اور قیام کر کے یہاں نظام حکومت قائم کیا ان کے بعد راشد بن عمر وازدی حاکم ہوئے، انہوں نے مکران ہوتے ہوئے قیقان پر حملہ کیا اور فتح یاب ہونے کے بعد مید پر حملہ آور ہوئے،اس حملہ میں یہ کام آگئے ان کے قتل ہونے کے بعد سنان بن سلمہ ان کے قائم مقام ہوئے ، یہ یہاں دو سال تک مقیم رہے، سنان کے بعد عباد بن زیاد سجستان کے راستہ سے ہندوستان کی سرحد کی طرف بڑھے اورسنارود سے رود کے کنارہ کنارہ ہند مند ہوتے ہوئے کش پہنچے، اورپھر رود کو پارکر کے قندھار پر حملہ کیا قندھاریوں نے مقابلہ کیا اور بہت سے مسلمانوں کی قربانی کے بعد قندھار فتح ہوگیا، قندھار کی فتح کے بعد زیاد نے منذر بن جارود کو سرحد کا حاکم مقرر کیا، انہوں نے بوقان اورقیقان پر حملہ کرکے سارے علاقہ میں فوجیں پھیلادیں ،قصدار کو سنان فتح کرچکے تھے،لیکن اہل قصدار باغی ہوگئے تھے اس لئے منذر نے دوبارہ اس کو فتح کیا ان کے بعد حری بن حری باہلی حاکم ہوئے انہوں نے بڑی بڑی معرکہ آرائیوں کے بعد بہت سی آبادیاں تسخیر کیں اور سندھ کے بڑے علاقہ پر اسلامی پھر یرا لہرا گیا۔
(بلاذری:۴۳۹،۴۴۰)
امیر کی آخری تقریر
۵۹ھ میں امیر معاویہؓ مرض الموت میں مبتلا ہوئے،عرصہ سے ان کے قویٰ مضمحل ہوچکے تھے، طاقتِ جسمانی جواب دے چکی تھی، اس لئے مرض الموت سے پہلے وہ اکثر موت کے منتظر رہا کرتے تھے ؛چنانچہ بیماری سے کچھ دنوں پہلے انہوں نے حسب ذیل تقریر کی تھی:
لوگو میں اس کھیتی کی طرح ہوں جو کٹنے کے لئے تیار ہو، میں نے تم لوگوں پر اتنی طویل مدت تک حکومت کی کہ میں بھی اس سے تھک گیا اورغالباً تم بھی تھک گئے ہوگے ،اب مجھے تم سے جدا ہونے کی تمنا ہے، اورغالبا ًتم کو بھی یہی آرزو ہوگی میرے بعد آنے والا مجھ سے بہتر نہ ہوگا، جیسا کہ میں اپنے پیشتر وں سے بہتر نہیں ہوں ،کہا جاتا ہے کہ جو شخص خدا سے ملنے کی تمنا کرتا ہے، خدا بھی اس سے ملنے کا متمنی رہتا ہے اس لئے خدایا! اب مجھ کو تجھ سے ملنے کی آرزو ہے، تو بھی آغوش پھیلادے، اورملاقات میں برکت عطا فرما، اس تقریر کے چند ہی دنوں کے بعد بیمار پڑے۔
(ابن اثیر:۴/۲)
اس وقت عمر کی اٹہتر منزلیں طے کرچکے تھے،وقت آخر ہوچکا تھااس لئےعلاج و معالجہ سے کوئی فائدہ نہیں ہوا، روز بروز حالت گرتی گئی،اسی حالت میں ایک دن حمام کیا ،جسم زار پر نظر پڑی، تو بے اختیار آنسو نکل آئے اور یہ شعر زبان پر جاری ہوگیا۔
ای اللیالیٰ سرعت فی نفقبتی اخذن بعضی وترکن بعضی
لیکن اس وقت بھی حاکمانہ تیور نہ بدلے، اور آن بان میں فرق نہ آنے دیا؛چنانچہ جب مرض زیادہ بڑھا اورلوگوں میں اس کا چرچا ہونے لگا تو ایک دن تیل اور سرمہ وغیرہ لگا کر سنبھل کے بیٹھے اور لوگوں کوطلب کیا، سب حاضر ہوئے اور کھڑے کھڑے مل کر واپس گئے لوگ اس آن بان میں دیکھ کر کہنے لگے کہ معاویہ تو بالکل صحیح و تندرست ہیں۔
اپنے متعلق وصیتیں
اس وصیت کے بعد اہل خاندان کو وصیت کی کہ خدا کا خوف کرتے رہنا، کیونکہ خدا خوف کرنے والوں کو مصائب سے بچاتا ہے جو خدا سے نہیں ڈرتا اس کا کوئی مدد گار نہیں، پھر اپنا آدھا مال بیت المال میں داخل کرنے کا حکم دیا۔
(طبری:۷/۲۰۲) اورتجہیز وتکفین کے متعلق ہدایت کی کہ مجھ کو رسول اللہ ﷺ نے ایک کرتہ مرحمت فرمایا تھا، وہ اسی دن کے لئے محفوظ رکھا ہے اورآپ کے ناخون اورموئے مبارک شیشہ میں محفوظ ہیں، مجھے اس کرتے میں کفنانا اورموئے مبارک کو آنکھوں اورمنہ کے اندر رکھ دینا، شاید خدا اسی کے طفیل میں اوراسی کی برکت سے میری مغفرت فرمادے۔
(استیعاب:۱/۳۶۲)
وفات
ان وصیتوں کے بعد رب کے اس مدبر اعظم نے رجب ۶۰ھ میں جان جان آفرین کے سپرد کی، وفات کے بعد ضحاک بن قیس ہاتھوں میں کفن لئے ہوئے باہر آئے اورلوگوں کو ان الفاظ میں ان کی وفات کی خبردی، لوگو! معاویہؓ عرب کی لکڑی اوراس کی دھار تھے،خدانے ان کے ذریعہ سے فتنہ فروکیا،شہروں کو فتح کرایا اورلوگوں پر انہیں حکمران بنایا، آج وہ اس دنیا سے اٹھ گئے ،یہ دیکھو ان کا کفن ہے اسی میں ہم انہیں لپیٹ کر قبر میں دفن کریں گے، اوران کا فیصلہ ان کے اعمال پر چھوڑ دینگے جو شخص جنازہ میں شرکت کرنا چاہتا ہے وہ آئے (طبریؓ۷/۲۰۲) اس اعلان کے بعد تجہیز وتکفین عمل میں آئی ،ضحاک نے نماز جنازہ پڑھائی اورمعاویہؓ دمشق کی زمین میں سپرد خاک کئے گئے،مدت حکومت ۱۹ سال تین مہینہ۔
حلیہ
حلیہ یہ تھا قد بلند وبالا،رنگ گورا سفید، داڑھی میں مہندی کا خضاب کرتے تھے
ازواج واولاد
، امیر معاویہؓ کے متعدد بیویاں تھیں ،میسوں بنت بحدل ان کے بطن سے یزید اورایک بچی امۃ رب المشارق تھی، دوسری بیوی فاختہ بنت قرظہ تھیں، جن کے بطن سے عبدالرحمن اور عبداللہ تھے،معلوم ہوتا ہے کہ عبدالرحمن ان کی زندگی میں مرچکے تھے ،عبداللہ نہایت بیوقوف اوربزدل آدمی تھا اس لئے وہ نمایاں طور پر کہیں نظر نہیں آتا،ان کےعلاوہ نائلہ اورکتوہ تھیں لیکن نائلہ کو طلاق دے دی تھی۔
کارنامہائے زندگی
امیر معاویہؓ کو جوچیز دوسرے اموی خلفاء سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کی بے نظیر تدبیر وسیاست اورقوتِ نظم تھی ،امیر معاویہؓ اموی سلسلہ کے سب سے پہلے بادشاہ تھے اوران ہی کے ہاتھوں بنو امیہ کی بنیاد پڑی تھی، اس لئے عام اصول کے اعتبار سے ان کا دور حکومت بالکل ابتدائی سادہ اور غیر مکمل ہونا چاہیے تھا، لیکن اس آغاز کے باوجود وہ ترقی یافتہ حکومت کا ایک مکمل اورجامع نمونہ تھا، ان کے بعد کے آنے والے خلفاء کا دور بعض انفرادی اوصاف وخصوصیات میں تو ان کے دور سے ممتاز ہے ؛لیکن مجموعی حیثیت سے ان سے کوئی نہ بڑھ سکا، امیر معاویہؓ تاریخ اسلام کے سب سے پہلے شخصی فرما نروا تھے، اس لئے ان کے عہد میں خلافت راشدہ کا طریق جہا نبانی تلاش کرنا بے سود ہے، اس لئے ہم کو آئندہ سطور میں صرف "من حیث اول ملوک الاسلام" ان کے دور حکومت پر نظر ڈالنی ہے کہ ایک دنیاوی بادشاہ کی حیثیت سے ان کا دور کیسا تھا؟ ان کی مطلق العنانی محدود تھی یا غیر محدود ،ان کا نظام حکومت مکمل تھا یا ناقص؟ ان کا عہد دور فتن تھا یا دور امن وسکون؟ ان کے زمانہ میں اسلام کو تقویت پہنچی یا ضعف؟ ان کے عہد میں رعایا تباہ حال رہی یا مرفہ الحال؟ غرض ان کی "بادشاہت" کی کمزوری اورحکومت پسندی کے پہلو کو نظر انداز کرنے کے بعد ایک دنیاوی حکمران کی حیثیت سے ان کے عہد کی کامیابی اورناکامیابی پر تبصرہ مقصود ہے اورآئندہ سطور میں اسی حیثیت سے ان کے عہد حکومت پر کسی قدر تفصیل سے روشنی ڈالی جائے گی۔
Post a Comment