مسلمانوں کے خلاف ایران اور امریکہ کا باہمی تعاون
امریکہ جہاں بھی اپنی عسکری مہم کا آغاز کرتا ہے اس سے پہلے اس ملک میں ایسے طبقات کو تلاش کرتا ہے جو اسکے لئے کام کر سکیں۔ عام طور پر وہاں کی اقلیت ان کے لئے زیادہ کارآمد اور بعض وجوہات کی بنا پر آسانی سے استعمال کے قابل ہوتی ہے۔ چنانچہ ان طبقات کو بڑے بڑے فنڈ جاری کئے جاتے ہیں اور ان قوتوں کو مضبوط کیا جاتا ہے۔ عراق میں صدام حسین کا تختہ الٹنے کے لئے عراق کی اقلیت [ شیعہ روافض] کو مضبوط کیا گیا۔ امریکہ نے شیعہ سنی اختلاف کا خوب فائدہ اٹھایا اور اہل تشیع سے کچھ معاہدے کرنے کے بعد ان کو مکمل طور پر اپنے لئے استعمال کیا۔
اہل تشیع عراق پر اپنے سیاسی اقتدار کی جنگ میں یہ بالکل بھول گئے کہ وہ امریکہ کا ساتھ دیکر کتنی بڑی غلطی کر رہے ہیں۔ لیکن تاریخی تعصب اور اقتدار کا نشہ انسان کو ایسا اندھا کر دیتا ہے کہ اسے کرسی کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہا ہوتا۔
مجلس اعلٰی برائے اسلامی انقلاب فی عراق المعروف تنظیم بدر
اس تنظیم کو آیت اللہ محمد باقرحکیم نے ایران میں قائم کیا تھا۔ محمد باقرحکیم صدام حسین کی فوج میں تھا لیکن 1980ء کی عراق جنگ میں عراق سے بھاگ کر ایران چلا گیا تھا۔ ایران میں محمد باقرحکیم ایرانی اینٹیلی جنس ایجنسی کے تعاون سے ٹریننگ کیمپ چلا رہا تھا تاکہ عراق میں روافض کو منظم کیا جاسکے۔ عراق پر امریکی قبضے کے بعد امریکی فوج نے ان کو ایک معاہدے کے تحت عراق میں داخل ہونے کی اجازت دے دی تھی۔ امریکہ نے ان کو عراقی امن فوج میں ضم کر دیا۔ جہاں یہ حکومت کے اعلٰی عہدوں تک پہچنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہاں تک کہ
ان کو وزارت داخلہ بھی مل گئی۔
وزارت داخلہ حاصل کرنے کے بعد انہوں نے ایک تنظیم بنائی جس کا کام سنی [ تمام غیر شیعہ] علماء کو قتل کرنا، ائمہ مساجد، ڈاکٹر اور تاجرحضرات وغیرہ کو اغوا کرنا، عقوبت خانوں میں تشدد کر کے مارنا، پھر کسی دوردراز کے علاقے میں لاش پھینک کر چلے جانا۔ پولیس اور دیگر حکومتی شعبوں میں سنیوں کو مجاہدین کا حامی کہہ کر گرفتار کر لیا جاتا۔ ان سابق عراقی فوجی افسروں کو ٹارگٹ کلنگ میں قتل کرا دیا جاتا جو عراق ایران جنگ میں پیش پیش رہے تھے۔
عراق سے سنیوں [تمام غیر شیعہ لوگوں] کا ختمہ
یہ ایسا کڑوا سچ ہے جو ہمیں اب تسلیم کر ہی لینا چاہیئے کہ یہودی اور دیگر اسلام دشمن قوتیں اہل سنت اور اہل تشیع کو الگ الگ حیثیت سے دیکھتی ہیں۔ یوں تو تمام تاریخ اسلام اس پر شاہد ہے لیکن عراق کے اندر جو کچھ امریکیوں نے کرایا اس نے ہر ایک کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ یہ ایک مکمل منصوبہ تھا جس کے تحت عراق کی سنی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جانا تھا۔ امریکہ کو اس ناپاک مقصد میں ایران کی مکمل حمایت حاصل تھی چنانچہ ایران سے آیت اللہ محمد باقرحکیم کو اسکے مسلح رضاکاروں کے ساتھ عراق بھیجا گیا۔
اس منصوبے کے تحت سنی آبادی پر جہازوں، ہیلی کاپٹروں سے بمباری کر کے بستیوں کو اجاڑ دیا گیا اور بچ جانے والے لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا گیا۔ بلیک واٹر کے ساتھ محمد باقرحکیم کے مسلح غنڈوں کے ذریعے سنیوں کے محلوں پر حملے کیے جاتے اور آبادی کی آبادیوں کو اس طرح ملیا میٹ کر دیا جاتا کہ پیچھے رونے والے بھی باقی نہ بچتے۔ بغداد، فلوجہ، تلعفر، موصل، سمارا، رمادی اور بصرہ میں صحافیوں نے ایسا قتل عام دیکھا کہ غیر مسلم بھی اس کو برداشت نہ کر سکے۔ چنانچہ امریکی صحافی اسٹیفن نے روافض کے جرائم سے پردہ اٹھایا۔ اس کا یہ کالم "نیویارک ٹائمز" میں شائع ہوا۔ اس نے اپنے کالم میں عراق میں تعینات برطانوی اعلٰی حکام پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے شیعہ گروہوں کو عراقی پولیس میں داخل کیا ہے۔ اس کے کالم کے 4 دن بعد اسکی لاش کہیں سڑک پر پڑی پائی گئی۔
سنیوں کا قتل عام اس قدر بڑے پیمانے پر تھا کہ وہ لوگ بھی چیخ پڑے جو شیعہ سنی اختلاف پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ ھیئتہ علماء اسلام کے ترجمان نے اسکو سنیوں کا قتل عام قرار دیا۔ حتٰی کہ عراقی صدر جلال طالبانی اور کردستان صوبے کے صدر مسعود بارزانی نے اس وقت کے وزیراعظم ابراہیم جعفری سے مطالبہ کیا کہ عرب سنیوں کے خلاف جرائم کو روکا جائے۔ ابوغریب جیل کی کچھ داستانیں تو آپ نے سن رکھی ہیں لیکن عراقی سنی اگر محمد باقرحکیم کے لوگوں کے ہاتھ گرفتار ہو جاتا تو وہ تمنا کرتا کہ کاش اسے امریکی ہی لے جاتے۔ [ کیونکہ امریکیوں سے زیادہ سخت تشدد یہ لوگ کرتے تھے۔]
بلیک واٹر نے مختلیف رافضی گروہوں کو کرایہ پر لیا اور ان کے ذریعے یہ سب کچھ کیا گیا۔ چونکہ ان کو سنیوں کے ایک ایک گھر کی معلومات تھیں لہذٰا انہوں نے منظم انداز میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا۔ ان دشمنان اسلام کی اخلاقی پستی دیکھیے، صرف فلوجہ شہر کے اندر 149 سنی خواتین کی عزتیں مسجد میں لا کر تارتار کی گئیں۔ اس کے علاوہ مساجد، مدارس، سنیوں کے بڑے بڑے تجارتی مراکز اور فیکٹریاں سب کچھ تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ جمعہ کے دن نمازیوں سے بھری مسجدوں کی چھتیں بارود لگا کر نمازیوں کے اوپر گرا دی گئیں۔ عقوبت خانوں میں بند کر کے ان کو ٹوٹے ہوئے شیشوں پر چلایا جاتا، ڈرل مشینوں سے ان کے جسموں میں سوراخ کئے جاتے۔
عام طور پر لوگ ایسی لڑائیوں کو فرقہ ورانہ فسادات کہہ کر نظرانداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ عراق میں جو کچھ ہوا یہ محض فرقہ ورانہ فساد نہیں تھا بلکہ باقاعدہ جنگ تھی جو امریکی پیسے اور اسلحے کے ذریعے عراق کے سنیوں پر مسلط کر دی گئی تھی۔ منظم انداز میں ان کا وجود مٹانے کے لئے لشکر کے لشکر سنی آبادیوں پر حملہ آور ہوتے تھے۔ ایک گروہ جو آپ کو دشمن سمجھتا ہے، مسلح ہو کر آپکا وجود ہی مٹا دینا چاہتا ہے لیکن آپ ہیں کہ بس یہی کہہ رہے ہیں کہ یہ محض فرقہ ورانہ فساد کی ایک سازش ہے
مجلس اعلٰی برائے اسلامی انقلاب فی عراق المعروف تنظیم بدر
اس تنظیم کو آیت اللہ محمد باقرحکیم نے ایران میں قائم کیا تھا۔ محمد باقرحکیم صدام حسین کی فوج میں تھا لیکن 1980ء کی عراق جنگ میں عراق سے بھاگ کر ایران چلا گیا تھا۔ ایران میں محمد باقرحکیم ایرانی اینٹیلی جنس ایجنسی کے تعاون سے ٹریننگ کیمپ چلا رہا تھا تاکہ عراق میں روافض کو منظم کیا جاسکے۔ عراق پر امریکی قبضے کے بعد امریکی فوج نے ان کو ایک معاہدے کے تحت عراق میں داخل ہونے کی اجازت دے دی تھی۔ امریکہ نے ان کو عراقی امن فوج میں ضم کر دیا۔ جہاں یہ حکومت کے اعلٰی عہدوں تک پہچنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہاں تک کہ
ان کو وزارت داخلہ بھی مل گئی۔
وزارت داخلہ حاصل کرنے کے بعد انہوں نے ایک تنظیم بنائی جس کا کام سنی [ تمام غیر شیعہ] علماء کو قتل کرنا، ائمہ مساجد، ڈاکٹر اور تاجرحضرات وغیرہ کو اغوا کرنا، عقوبت خانوں میں تشدد کر کے مارنا، پھر کسی دوردراز کے علاقے میں لاش پھینک کر چلے جانا۔ پولیس اور دیگر حکومتی شعبوں میں سنیوں کو مجاہدین کا حامی کہہ کر گرفتار کر لیا جاتا۔ ان سابق عراقی فوجی افسروں کو ٹارگٹ کلنگ میں قتل کرا دیا جاتا جو عراق ایران جنگ میں پیش پیش رہے تھے۔
عراق سے سنیوں [تمام غیر شیعہ لوگوں] کا ختمہ
یہ ایسا کڑوا سچ ہے جو ہمیں اب تسلیم کر ہی لینا چاہیئے کہ یہودی اور دیگر اسلام دشمن قوتیں اہل سنت اور اہل تشیع کو الگ الگ حیثیت سے دیکھتی ہیں۔ یوں تو تمام تاریخ اسلام اس پر شاہد ہے لیکن عراق کے اندر جو کچھ امریکیوں نے کرایا اس نے ہر ایک کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ یہ ایک مکمل منصوبہ تھا جس کے تحت عراق کی سنی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جانا تھا۔ امریکہ کو اس ناپاک مقصد میں ایران کی مکمل حمایت حاصل تھی چنانچہ ایران سے آیت اللہ محمد باقرحکیم کو اسکے مسلح رضاکاروں کے ساتھ عراق بھیجا گیا۔
اس منصوبے کے تحت سنی آبادی پر جہازوں، ہیلی کاپٹروں سے بمباری کر کے بستیوں کو اجاڑ دیا گیا اور بچ جانے والے لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا گیا۔ بلیک واٹر کے ساتھ محمد باقرحکیم کے مسلح غنڈوں کے ذریعے سنیوں کے محلوں پر حملے کیے جاتے اور آبادی کی آبادیوں کو اس طرح ملیا میٹ کر دیا جاتا کہ پیچھے رونے والے بھی باقی نہ بچتے۔ بغداد، فلوجہ، تلعفر، موصل، سمارا، رمادی اور بصرہ میں صحافیوں نے ایسا قتل عام دیکھا کہ غیر مسلم بھی اس کو برداشت نہ کر سکے۔ چنانچہ امریکی صحافی اسٹیفن نے روافض کے جرائم سے پردہ اٹھایا۔ اس کا یہ کالم "نیویارک ٹائمز" میں شائع ہوا۔ اس نے اپنے کالم میں عراق میں تعینات برطانوی اعلٰی حکام پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے شیعہ گروہوں کو عراقی پولیس میں داخل کیا ہے۔ اس کے کالم کے 4 دن بعد اسکی لاش کہیں سڑک پر پڑی پائی گئی۔
سنیوں کا قتل عام اس قدر بڑے پیمانے پر تھا کہ وہ لوگ بھی چیخ پڑے جو شیعہ سنی اختلاف پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ ھیئتہ علماء اسلام کے ترجمان نے اسکو سنیوں کا قتل عام قرار دیا۔ حتٰی کہ عراقی صدر جلال طالبانی اور کردستان صوبے کے صدر مسعود بارزانی نے اس وقت کے وزیراعظم ابراہیم جعفری سے مطالبہ کیا کہ عرب سنیوں کے خلاف جرائم کو روکا جائے۔ ابوغریب جیل کی کچھ داستانیں تو آپ نے سن رکھی ہیں لیکن عراقی سنی اگر محمد باقرحکیم کے لوگوں کے ہاتھ گرفتار ہو جاتا تو وہ تمنا کرتا کہ کاش اسے امریکی ہی لے جاتے۔ [ کیونکہ امریکیوں سے زیادہ سخت تشدد یہ لوگ کرتے تھے۔]
بلیک واٹر نے مختلیف رافضی گروہوں کو کرایہ پر لیا اور ان کے ذریعے یہ سب کچھ کیا گیا۔ چونکہ ان کو سنیوں کے ایک ایک گھر کی معلومات تھیں لہذٰا انہوں نے منظم انداز میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا۔ ان دشمنان اسلام کی اخلاقی پستی دیکھیے، صرف فلوجہ شہر کے اندر 149 سنی خواتین کی عزتیں مسجد میں لا کر تارتار کی گئیں۔ اس کے علاوہ مساجد، مدارس، سنیوں کے بڑے بڑے تجارتی مراکز اور فیکٹریاں سب کچھ تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ جمعہ کے دن نمازیوں سے بھری مسجدوں کی چھتیں بارود لگا کر نمازیوں کے اوپر گرا دی گئیں۔ عقوبت خانوں میں بند کر کے ان کو ٹوٹے ہوئے شیشوں پر چلایا جاتا، ڈرل مشینوں سے ان کے جسموں میں سوراخ کئے جاتے۔
عام طور پر لوگ ایسی لڑائیوں کو فرقہ ورانہ فسادات کہہ کر نظرانداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ عراق میں جو کچھ ہوا یہ محض فرقہ ورانہ فساد نہیں تھا بلکہ باقاعدہ جنگ تھی جو امریکی پیسے اور اسلحے کے ذریعے عراق کے سنیوں پر مسلط کر دی گئی تھی۔ منظم انداز میں ان کا وجود مٹانے کے لئے لشکر کے لشکر سنی آبادیوں پر حملہ آور ہوتے تھے۔ ایک گروہ جو آپ کو دشمن سمجھتا ہے، مسلح ہو کر آپکا وجود ہی مٹا دینا چاہتا ہے لیکن آپ ہیں کہ بس یہی کہہ رہے ہیں کہ یہ محض فرقہ ورانہ فساد کی ایک سازش ہے
Post a Comment