علامات قیامت کے بارے میں سوال
س… آپ نے روزنامہ جنگ کے جمعہ ایڈیشن میں علاماتِ قیامت میں “جاہل عابد اور فاسق قاری” کے عنوان سے لکھا ہے کہ: “آخری زمانہ میں بے علم عبادت گزار اور بے عمل قاری ہوں گے۔” آپ ذرا تفصیل سے سمجھائیں کہ ایسے عابد جو جاہل ہوں کس زمرے میں آئیں گے؟ کیونکہ بعض بزرگ فرماتے ہیں کہ کسی مسلمان کو جاہل نہ کہیں کیونکہ جاہل تو ابوجہل تھا یا اس کی ذریات ہوں گی، لیکن ایسے بے علم بھی نظر آجاتے ہیں جو بڑے عبادت گزار ہوتے ہیں اور شاید پُرخلوص بھی اور شاید اتنا علم بھی رکھتے ہوں کہ نماز کے الفاظ اور سورہٴ اخلاص کے ساتھ نماز ادا کرسکیں، وضو اور غسل کا طریقہ انہیں آتا ہو، کیا ایسے لوگ ان جاہل عابدوں کے زمرے سے خارج ہوں گے؟ اگر یہ لوگ جاہل عابدوں کے زمرے میں شمار نہ کئے جائیں تو اس سے کمتر درجہ میں یعنی جن کو نماز پڑھنی بھی نہ آتی ہو وہ عبادت گزار کیسے بن سکتا ہے؟
لہٰذا آپ تفصیل سے سمجھادیں کہ حدیث شریف کا مطلب کیا ہے؟ آیا “یہ ایسے عابد ہوں گے اور ناجی ہوں گے اور ایسے قاری ہوں گے جن کے پاس علم تو بڑا ہوگا لیکن عمل نہیں کریں گے۔” یا “یہ بے علم عبادت کریں گے اور بے عمل عالم ہوں گے اور دونوں ہی گھاٹے میں رہیں گے کیونکہ بے علم عمل نہیں اور بغیر عمل علم نہیں۔”
ج… “بے علم عبادت گزار” سے وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے دین کے ضروری مسائل، جن کی روزمرہ ضرورت پیش آتی ہے، نہ سیکھے ہوں۔ اگر کسی نے اتنا علم جو ہر مسلمان پر فرض ہے، سیکھ لیا ہو تو وہ “بے علم” کے زمرے میں نہیں آتا۔ خواہ کتاب کے ذریعے سیکھا ہو، یا حضرات علماء کی خدمت میں بیٹھ کر زبانی سیکھا ہو، اور جو شخص فرض علم سے بھی بے بہرہ ہو اس کے “جاہل” ہونے میں کیا شبہ ہے؟ اور “فاسق قاری” سے مراد وہ لوگ ہیں جو دین کا علم تو رکھتے ہیں، مگر عمل سے بے بہرہ ہیں۔