برزخی زندگی کیسی ہوگی؟
س… روزنامہ جنگ کراچی کے صفحہ “اقرأ” میں آپ کا مفصل مضمون روح کے بارے میں پڑھا جو کہ ایک صاحب کے سوال کے جواب میں لکھا گیا تھا، اس مضمون کو پڑھنے کے بعد چند سوالات ذہن میں آئے ہیں، جو گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔
آپ نے لکھا ہے کہ: “کفار و فجار کی روحیں تو “سجین” کی جیل میں مقید ہوتی ہیں، ان کے کہیں آنے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اور نیک ارواح کے بارے میں کوئی ضابطہ بیان نہیں فرمایا گیا۔”
اور آپ نے لکھا ہے: “اگر باذن اللہ (نیک ارواح) کہیں آتی جاتی ہیں تو اس کی نفی نہیں کی جاسکتی۔”
کیا ان دو باتوں کا ثبوت کہیں قرآن و حدیث سے ملتا ہے؟
حالانکہ قرآن میں سورہٴ موٴمنون میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ترجمہ:… “(سب مرنے والوں) کے پیچھے ایک برزخ (آڑ) حائل ہے، دوسری زندگی تک” یعنی مرنے کے بعد دنیا میں واپس نہیں آسکتے، خواہ وہ نیک ہوں یا بد۔
جیسا کہ سورہ یٰسین میں آیا ہے:
ترجمہ:…”کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اس سے پہلے بہت سے لوگوں کو ہلاک کردیا تھا، اب وہ ان کی طرف لوٹ کر نہیں آئیں گے۔”
اس بات کا ایک اور ثبوت ترمذی اور بیہقی کی اس روایت سے ہوتا ہے کہ جابر بن عبداللہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف دیکھا اور فرمایا کہ کیا بات ہے میں تم کو غم زدہ پارہا ہوں۔ جابر کہتے ہیں کہ میں نے جواب میں عرض کیا کہ: والد “اُحد” میں شہید ہوگئے اور ان پر قرض باقی ہے اور کنبہ بڑا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جابر! کیا تم کو میں یہ بات بتاوٴں کہ اللہ نے کسی سے بھی پردے کے بغیر بات نہیں کی مگر تمہارے والد سے آمنے سامنے ہوکر کہا کہ: عبداللہ! مانگو، تم کو دوں گا۔ تمہارے باپ نے کہا: مالک مجھے پھر دنیا میں واپس لوٹادے تاکہ میں دوسری بار تیری راہ میں قتل کیا جاوٴں! اس پر مالک عزوجل نے ارشاد فرمایا کہ: میری طرف سے یہ بات کہی جاچکی ہے کہ لوگ دنیا سے چلے آنے کے بعد پھر اس کی طرف واپس نہ جاسکیں گے۔ (ترمذی و بیہقی)۔
عموماً لوگ کہتے ہیں کہ یہاں مراد جسمانی جسم کے ساتھ ہے، کیونکہ جسم بغیر روح کے بے معنی ہے اور روح بغیر جسم کے۔ اگر یہ بات تسلیم کی جائے کہ صرف روح دنیا میں آتی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ روح سنتی بھی ہے اور دیکھتی بھی ہے تو یہ بات سورہٴ موٴمنون کی آیات سے ٹکراتی ہے، سورہٴ احقاف میں اللہ نے یہ بات واضح کردی ہے کہ دنیا سے گزرجانے والے لوگوں کو دنیاوی حالات کی کچھ خبر نہیں رہتی، ارشاد ربانی ہے:
ترجمہ:…”اس شخص سے زیادہ گمراہ کون ہوگا جو اللہ کے علاوہ دوسروں کو آواز دے حالانکہ وہ قیامت تک اس کی پکار کا جواب نہیں دے سکتے وہ تو ان کی پکار سے غافل ہیں۔” (الاحقاف آیت:۵، ۶)۔
دراصل یہی وہ گمراہ کن عقیدہ ہے جو شرک کی بنیاد بنتا ہے، لوگ نیک بزرگوں کو زندہ و حاضر و ناظر سمجھ کر دستگیری اور حاجت روائی کے لئے پکارتے ہیں اور اللہ کے ساتھ ظلمِ عظیم کرتے ہیں۔
ازراہ کرم ان باتوں کو کسی قریبی اشاعت میں جگہ دیں تاکہ لوگوں کے دل میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات دور ہوسکیں، اللہ ہمارا اور آپ کا حامی و ناصر ہوگا۔
ج… یہ تو اسلام کا قطعی عقیدہ ہے کہ موت فنائے محض کا نام نہیں کہ مرنے کے بعد آدمی معدومِ محض ہوجائے، بلکہ ایک جہان سے دوسرے جہان میں اور زندگی کے ایک دور سے دوسرے دور میں منتقل ہونے کا نام موت ہے۔ پہلے دور کو “دنیوی زندگی” کہتے ہیں اور دوسرے دور کا نام قرآن کریم نے “برزخ” رکھا ہے۔
برزخ اس آڑ اور پردے کو کہتے ہیں جو دو چیزوں کے درمیان واقع ہو، چونکہ یہ برزخی زندگی ایک عبوری دور ہے اس لئے اس کا نام “برزخ” تجویز کیا گیا۔
آپ نے سوال میں جو احادیث نقل کی ہیں ان کا مدعا واضح طور پر یہ ہے کہ مرنے والے عام طور پر “برزخ” سے دوبارہ دنیوی زندگی کی طرف واپس نہیں آتے (البتہ قرآن کریم میں زندہ کئے جانے کے جو واقعات مذکور ہیں، ان کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا)۔
اور میں نے جو لکھا ہے کہ: “اگر باذن اللہ نیک ارواح کہیں آتی جاتی ہوں تو اس کی نفی نہیں کی جاسکتی۔” اس سے دنیوی زندگی اور اس کے لوازمات کی طرف پلٹ آنا مراد نہیں کہ ان آیات و احادیث کے منافی ہو، بلکہ برزخی زندگی ہی کے دائرے میں آمد و رفت مراد ہے، اور وہ بھی باذن اللہ ․․․!
رہا آپ کا یہ ارشاد کہ:
“دراصل یہی وہ گمراہ کن عقیدہ ہے جو شرک کی بنیاد بنتا ہے، لوگ نیک بزرگوں کو زندہ اور حاضر و ناظر سمجھ کر دستگیری اور حاجت روائی کے لئے پکارتے ہیں۔”
اگر اس سے آپ کی مراد “برزخی زندگی” ہے تو جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا یہ اسلامی عقیدہ ہے، اس کو گمراہ کن عقیدہ کہہ کر شرک کی بنیاد قرار دینا صحیح نہیں۔ جبکہ حضرت جابر کی وہ حدیث جو آپ نے سوال میں نقل کی ہے وہ خود اس “برزخی زندگی” کا منہ بولتا ثبوت ہے اور پھر شہداء کو تو صراحتاً زندہ کہا گیا ہے اور ان کو مردہ کہنے کی ممانعت کی گئی ہے۔ شہداء کی یہ زندگی بھی برزخی ہی ہے ورنہ ظاہر ہے کہ دنیوی زندگی کا دور تو ان کا بھی پورا ہوچکا ہے۔ بہرحال “برزخی زندگی” کے عقیدے کو گمراہ کن نہیں کہا جاسکتا۔ رہا لوگوں کا بزرگوں کو حاضر و ناظر سمجھ کر انہیں دستگیری کے لئے پکارنا! تو اس کا “برزخی زندگی” سے کوئی جوڑ نہیں، نہ یہ زندگی اس شرک کی بنیاد ہے۔
اولاً:…مشرکین تو پتھروں، مورتیوں، درختوں، دریاوٴں، چاند، سورج اور ستاروں کو بھی نفع و نقصان کا مالک سمجھتے اور ان کو حاجت روائی اور دستگیری کے لئے پکارتے ہیں۔ کیا اس شرک کی بنیاد ان چیزوں کی “برزخی زندگی” ہے؟ دراصل جہلاء شرک کے لئے کوئی بنیاد تلاش نہیں کیا کرتے، شیطان ان کے کان میں جو افسوں پھونک دیتا ہے وہ ہر دلیل اور منطق سے آنکھیں بند کرکے اس کے القاء کی پیروی شروع کردیتے ہیں۔ جب پوجنے والے بے جان پتھروں تک کو پوجنے سے باز نہیں آتے تو اگر کچھ لوگوں نے بزرگوں کے بارے میں مشرکانہ غلو اختیار کرلیا تو اسلامی عقیدے سے اس کا کیا تعلق ہے؟
ثانیاً:…جیسا کہ قرآن مجید میں ہے، مشرکین عرب فرشتوں کو بھی خدائی میں شریک، نفع و نقصان کا مالک اور خدا کی بیٹیاں سمجھتے تھے اور تقرب الی اللہ کے لئے ان کی پرستش کو وسیلہ بناتے تھے، کیا ان کے اس جاہلانہ عقیدے کی وجہ سے فرشتوں کی حیات کا انکار کردیا جائے؟ حالانکہ ان کی حیات برزخی نہیں دنیوی ہے اور زمینی نہیں آسمانی ہے۔ اب اگر کچھ لوگوں نے انبیاء واولیاء کی ذوات مقدسہ کے بارے میں بھی وہی ٹھوکر کھائی جو مشرکین عرب نے فرشتوں کے بارے میں کھائی تھی تو اس میں اسلام کے “حیاتِ برزخی” کے عقیدے کا کیا قصور ہے؟ اور اس کا انکار کیوں کیا جائے․․․؟
ثالثاً:…جن بزرگوں کو لوگ بقول آپ کے زندہ سمجھ کر دستگیری اور حاجت روائی کے لئے پکارتے ہیں، وہ اسی دنیا میں لوگوں کے سامنے زندگی گزار کر تشریف لے گئے ہیں۔ یہ حضرات اپنی پوری زندگی میں توحید و سنت کے داعی اور شرک و بدعت سے مجتنب رہے، اپنے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں التجائیں کرتے رہے، انہیں بھوک میں کھانے کی ضرورت ہوتی تھی، بیماری میں دوا دارو اور علاج معالجہ کرتے تھے، انسانی ضروریات کے محتاج تھے، ان کی یہ ساری حالتیں لوگوں نے سر کی آنکھوں سے دیکھیں اس کے باوجود لوگوں نے ان کے تشریف لے جانے کے بعد ان کو نفع و نقصان کا مالک و مختار سمجھ لیا اور انہیں دستگیری و حاجت روائی کے لئے پکارنا شروع کردیا، جب ان کی تعلیم، ان کے عمل اور ان کی انسانی احتیاج کے علی الرغم لوگوں کے عقائد میں غلو آیا تو کیا “حیاتِ برزخی” (جو بالکل غیرمحسوس چیز ہے) کے انکار سے اس غلو کی اصلاح ہوجائے گی؟
الغرض نہ حیاتِ برزخی کے اسلامی عقیدے کو شرک کی بنیاد کہنا صحیح ہے، نہ اس کے انکار سے لوگوں کے غلو کی اصلاح ہوسکتی ہے، ان کی اصلاح کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں قرآن و سنت اور خود ان بزرگوں کی تعلیمات سے پورے طور پر آگاہ کیا جائے۔
“حیاتِ برزخی” کے ضمن میں آپ نے “سماعِ موتیٰ” کا مسئلہ بھی اٹھایا ہے، چونکہ یہ مسئلہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے زمانے سے اختلافی چلا آرہا ہے، اس لئے میں بحث نہیں کرنا چاہتا، البتہ یہ ضرور عرض کروں گا کہ سماعِ موتیٰ کا مسئلہ بھی اس شرک کی بنیاد نہیں جس کا آپ نے ذکر فرمایا ہے، اس کی دلیل میں ایک چھوٹی سی بات عرض کرتا ہوں، آپ کو معلوم ہوگا کہ بہت سے فقہائے حنفیہ سماعِ موتیٰ کے قائل ہیں اس کے باوجود ان کا فتویٰ یہ ہے:
“وفی البزازیة: قال علمائنا من قال ارواح المشائخ حاضرة تعلم، یکفر۔” (البحر الرائق ج:۵ ص:۱۲۴)
ترجمہ:…”فتاویٰ بزازیہ میں لکھا ہے کہ ہمارے علماء نے فرمایا جو شخص یہ کہے کہ بزرگوں کی روحیں حاضر و ناظر اور وہ سب کچھ جانتی ہیں، تو ایسا شخص کافر ہوگا۔”
اس عبارت سے آپ یہی نتیجہ اخذ کریں گے کہ سماعِ موتیٰ کے مسئلہ سے نہ بزرگوں کی ارواح کا حاضر و ناظر ہونا لازم آتا ہے، نہ عالم الغیب ہونا، ورنہ فقہائے حنفیہ جو سماعِ موتیٰ کے قائل ہیں، یہ فتویٰ نہ دیتے۔
آپ نے سورہٴ احقاف کی جو آیت نقل فرمائی ہے، اس کو حضرات مفسرین نے مشرکین عرب سے متعلق قرار دیا ہے، جو بتوں کو پوجتے تھے، گویا “لا یستجیبون” اور “غافلون” کی یہ دونوں صفات جو اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمائی ہیں، وہ بتوں کی صفات ہیں جو جمادِ محض تھے، لیکن اگر اس آیت کو تمام معبودانِ باطلہ کے لئے عام بھی مان لیا جائے تب بھی اس سے ان کی حاجت روائی پر قادر نہ ہونا اور غائب ہونا تو لازم آتا ہے مگر اس سے حیات کی نفی ثابت نہیں ہوتی کیونکہ عموم کی حالت میں یہ آیت فرشتوں کو بھی شامل ہوگی، اور آپ جانتے ہیں کہ ان سے قدرت اور حاضر و ناظر ہونے کی نفی تو صحیح ہے مگر حیات کی نفی صحیح نہیں بلکہ خلافِ واقعہ ہے۔
آخر میں گزارش ہے کہ “برزخ” جو دنیا و آخرت کے درمیان واقع ہے، ایک مستقل جہان ہے اور ہماری عقل و ادراک کے دائرے سے ماورا ہے، اس عالم کے حالات کو نہ دنیوی زندگی پر قیاس کیا جاسکتا ہے، نہ اس میں اندازے اور تخمینے لگائے جاسکتے ہیں، یہ جہان چونکہ ہمارے شعور و احساس اور وجدان کی حدود سے خارج ہے اس لئے عقلِ صحیح کا فیصلہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کے جو حالات ارشاد فرمائے (جو صحیح اور مقبول احادیث سے ثابت ہوں) انہیں ردّ کرنے کی کوشش نہ کی جائے، نہ قیاس و تخمین سے کام لیا جائے۔
اہل قبور کے بارے میں چند ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنے اس مضمون میں نقل کرچکا ہوں، جس کا آپ نے حوالہ دیا ہے، اور چند امور یہ ہیں:
۱:…قبر میں میت کے بدن میں روح کا لوٹایا جانا۔
۲:…منکر نکیر کا سوال و جواب کرنا۔
۳:…قبر کا عذاب و راحت۔
۴:…بعض اہل قبور کا نماز و تلاوت میں مشغول ہونا۔
۵:…اہل قبور (جو موٴمن ہوں) کا ایک دوسرے سے ملاقات کرنا۔
۶:…اہل قبور کو سلام کہنے کا حکم۔
۷:…اہل قبور کی طرف سے سلام کا جواب دیا جانا۔
۸:…اہل قبور کو دعا و استغفار اور صدقہ خیرات سے نفع پہنچانا۔
۹:…برزخی حدود کے اندر اہل ایمان کی ارواح کا باذنِ الٰہی کہیں آنا جانا جیسا کہ شبِ معراج میں انبیاء علیہم السلام کا بیت المقدس میں اجتماع ہوا۔
خلاصہ یہ کہ جو چیزیں ثابت ہیں ان سے انکار نہ کیا جائے، اور جو ثابت نہیں ان پر اصرار نہ کیا جائے، یہی صراطِ مستقیم ہے، جس کی ہمیں تعلیم دی گئی ہے، والله الموفق!