![]() |
| Osman Hadi Bangladesh |
بنگلادیش میں طلبا رہنما عثمان ہادی کے قتل پر ملک گیر احتجاج، جمہوری بحران شدت اختیار کر گیا
ڈھاکا، 19 دسمبر 2025
بنگلادیش میں 2024 کی طلبا تحریک کے نمایاں رہنما عثمان ہادی کے قتل نے ملک بھر میں سیاسی اور معاشرتی صورتحال کو کشیدہ کر دیا ہے۔ عثمان ہادی، جو انقلاب منچہ (Platform for Revolution) کے ترجمان اور طلبا تحریک کے سرکردہ رہنما تھے، 12 دسمبر کو ڈھاکا میں اپنی انتخابی مہم کے دوران موٹر سائیکل سوار حملہ آوروں کے ہاتھوں شدید زخمی ہوئے تھے۔ انہیں فوری طور پر ڈھاکا میڈیکل کالج اسپتال منتقل کیا گیا، اور بعد ازاں بہتر علاج کے لیے سنگاپور کے جنرل اسپتال کے نیورو سرجیکل آئی سی یو میں منتقل کیا گیا۔ تاہم 19 دسمبر کو وہ زخموں کی تاب نہ لا سکے اور انتقال کر گئے۔
عثمان ہادی کی موت کو صرف ایک ذاتی قتل نہیں بلکہ جمہوری آواز کو دبانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ان کے قتل نے طلبا، نوجوان اور سیاسی کارکنان کو ملک گیر احتجاج کی طرف مائل کیا، جس کے بعد ڈھاکا، چٹاگانگ اور دیگر بڑے شہروں میں پرتشدد مظاہرے دیکھنے میں آئے۔
عثمان ہادی کون تھے؟
32 سالہ عثمان ہادی بنگلادیش میں 2024 کی طلبا تحریک کے سرکردہ رہنماوں میں شامل تھے۔ وہ انقلاب منچہ کے ترجمان تھے، جو سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کا ایک اہم پلیٹ فارم تھا۔ عثمان ہادی نے ملک میں جمہوری اقدار اور سیاسی اصلاحات کے لیے جدوجہد کی اور آئندہ فروری 2026 کے انتخابات میں ڈھاکا کے بجیوئے نگر حلقے سے پارلیمنٹ کے امیدوار بننے کی تیاری کر رہے تھے۔
عثمان ہادی نے بھارت کے کردار پر بھی کھل کر تنقید کی، خاص طور پر اس پس منظر میں کہ شیخ حسینہ واجد نے طلبا تحریک کے بعد بھارت سے سیاسی مدد حاصل کی۔ ان کی سیاست کا محور طلبا حقوق، جمہوری اصلاحات اور ملک میں آمریت کے خاتمے پر مرکوز تھا۔
قتل کے حالات
12 دسمبر کو عثمان ہادی انتخابی سرگرمیوں کے دوران بیٹری سے چلنے والے آٹو رکشے میں سفر کر رہے تھے کہ دو موٹر سائیکل سوار حملہ آوروں نے قریب آ کر ان کے سر پر گولیاں چلائیں۔ فوری طور پر انہیں اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں ان کے دماغی تنوں (Brain Stem) کو شدید نقصان پہنچنے کی تصدیق ہوئی۔ سنگاپور میں علاج کے باوجود وہ جانبر نہ ہو سکے اور 19 دسمبر کو انتقال کر گئے۔
یہ واقعہ نہ صرف بنگلادیش میں سیاسی کشیدگی کو بڑھا گیا بلکہ نوجوانوں میں جمہوری نظام کے تحفظ کے لیے شدید ردعمل بھی پیدا کیا۔
احتجاج اور پرتشدد واقعات
عثمان ہادی کی موت کے بعد ڈھاکا، چٹاگانگ اور دیگر شہروں میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔ طلبا، نوجوان اور سیاسی کارکنان نے شاہراہوں پر نکل کر حکومت کے خلاف سلوگنز لگائے اور فوری انصاف کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین نے وزارتِ داخلہ اور وزارتِ قانون کے سربراہان کے استعفے کا مطالبہ کیا۔
پر تشدد واقعات میں:
-
کئی مظاہرین نے اخبارات پروتھوم آلو اور دی ڈیلی اسٹار کے دفاتر پر حملے کیے، توڑ پھوڑ اور آگ لگائی۔
-
بھارتی اسسٹنٹ ہائی کمیشن (چٹاگانگ) پر پتھراؤ اور حملے کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔
-
مشتعل مظاہرین نے ثقافتی ادارے Chhayanaut کے عمارت پر بھی حملہ کیا اور اسے نقصان پہنچایا۔
-
بعض شہروں میں سڑکیں بند کی گئیں، ٹائر جلائے گئے اور ٹریفک شدید متاثر ہوئی۔
حکومت کا ردعمل
بنگلادیشی حکومت نے واقعہ کے بعد فوری طور پر پولیس اور ریپڈ ایکشن بٹالین (RAB) کو کارروائی پر لگایا اور مرکزی ملزمان کی تلاش شروع کی۔ پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج جاری کی اور ملزمان کی گرفتاری پر 50 لاکھ ٹکہ انعام کا اعلان کیا۔ اب تک کم از کم 20 افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے، تاہم مرکزی حملہ آور ابھی گرفتار نہیں ہوئے۔
عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے عثمان ہادی کی موت کو "قوم کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان" قرار دیتے ہوئے کہا کہ خوف اور خونریزی کے ذریعے بنگلادیش کے جمہوری سفر کو نہیں روکا جا سکتا۔ حکومت نے جمعہ کے بعد مساجد میں خصوصی دعاؤں اور ہفتے کے روز قومی سوگ کا اعلان بھی کیا۔
مظاہرین اور نوجوان سیاسی رہنما الزام لگا رہے ہیں کہ حملہ آور بھارت فرار ہو گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی یہ بیانیہ زور پکڑ چکا ہے کہ بھارت بنگلادیش کی داخلی سیاست میں مداخلت کرتا رہا اور شیخ حسینہ واجد کو گزشتہ برسوں میں مکمل حمایت فراہم کی۔ نیشنل سٹیزن پارٹی کے ایک رہنما نے کہا کہ جب تک ہادی کے قاتل بھارت سے واپس نہیں کیے جاتے، احتجاج ختم نہیں ہوگا۔
گزشتہ برس بنگلادیش میں طلبہ نے سرکاری ملازمتوں کے کوٹہ سسٹم کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کیا تھا۔ حکومت نے اس احتجاج کو سختی سے کچل دیا، جس کے دوران تقریباً 1,400 افراد ہلاک اور 20,000 سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ تحریک بعد ازاں شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے اور ملک میں سیاسی تبدیلی کے لیے سنگ میل ثابت ہوئی۔
عثمان ہادی کے قتل نے نہ صرف بنگلادیش کی سیاسی فضا کو مزید کشیدہ کر دیا بلکہ نوجوانوں میں جمہوری شعور اور احتجاجی جذبات کو بھی ابھارا۔ ملک بھر میں مظاہرے، پرتشدد واقعات اور بھارت مخالف جذبات نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ حکومت، پولیس اور عبوری قیادت کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ امن و امان قائم رکھیں اور قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔
