مولانا اشرف علی تھانویؒ پر ہندوستان کو دارالاسلام
کہنے کا الزام
ایک تبصرہ
بعض بریلوی حضرات کی جانب سے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے رسالہ ” تحزیر الاخوان عن الربوٰنی الہندوستان“ کو پیش کر کے کہا جاتا ہے کے دیکھیئے حضرت تھانویؒ بھی ہندوستان کو داراسلام قرار دے رہے ہیں۔ اگر ہندوستان کو دارسلام قرار دینے سے انگریز کا ایجنٹ اور وظیفی خوار ہونا ثابت ہوتا ہے تو پھر حضرت تھانویؒ کو بھی اسی فہرست میں شامل کرو ۔جو اباً گزارش ہے کے حضرت تھانویؒ کے نزدیک ہندوستان قطعاً داراسلام نہیں ہے بلکہ وہ بھی دوسرے علماء دیوبند کی طرح ہندوستان کے دارالحرب ہونے کے ہی قائل ہیں اور یہ ہی ان کا تحقیقی مسلک ہے البتہ اپنے انتہائی حزم و احتیاط اور شدتٍ توقوی و پرہیزگاری کے باعث ہندوستان میں سودی معاملات کی اجازت نہیں دیتے ہیں کیونکہ امام مالکؒ اور امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ نیز حنفیوں سے امام ابو یوسفؒ کے نزدیک سود کا لین دین دارلحرب میں بھی جائز نہیں ہے۔ صرف امام ابو حنیفہؒ اور امام محمدؒ دارلحرب میں حرربی کافر (نہ کہ مسلمان سے) سود لینے کی اجزت دیتے ہیں۔ سود دینا ان حضرات کے نزدیک بھی جائز نہیں ہے ۔ اس لیے احتیاط کا تقاضا يہی ہے کہ ہندوستان میں سود لینے کی قطًعاً اجازت نہ دی جائے کیونکہ احادیث پاک میں سود کے بارے میں انتہائی شدید وعیدیں وادر ہوئی ہیں چناچنہ ایک حدیث میں وارد ہے کہ سود کا ایک درہم یعنی36بار زنا کرنے سے زیادہ بدتر ہے اور حضرت عمرؒ ارشاد فرماتے ہیں ایک چیز کے نویں حصہ میں سود کا شہبہ ہو تو ہم ان کو حلال حصوں کو بھی سود کے خوف سے چھوڑ دیتے ہیں لیکن ہایں ہمہ چونکہ بعض حضرات ہندوستان کے دارالحرب ہونے اور اپنے حنفی ہونے کے ناطے سے سود لینے سے احتیات نہیں کرتے تھے بلکہ مسلمانوں سے بھی سود لیتے تھی جو کہ مذہب حنفی میں بھی جائز نہیں ہے ، اس لیے حضرت تھانویؒ نے تد قیقات سے قطع نظر کرتے ہوے اور اپنے تحقیقی مسلک کو ظاہر کیے بغیر لوگوں کو سود سے بچانے کے لیے نبظرِ احتیاط ہندوستان کو دارالاسلام لکھ دیا يہ ایسا ہی ہے جیسا کہ بریلویوں کے اعلی حضرت احمد رضا خان صاحب ارشاد فرماتے ہیں :
یہ وہ ہے جس کا فتوی عوام کو دیا جاتا ہے اور تحقیق کا مقام دوسرا ہے” ۔
(احکامِ شریعت ج۳ ص۱۵۰ )
“شرعی اصطلاح میں دارلحرب کی تعریف یہ ہے کہ جہاں پورا تسلط غیر مسلم کا ہو ۔ تعریف تو يہی ہے ۔ اگے جو کچھ فقہا نے لکھا ہے وہ امارات ہیں اور ہندوستان میں غیر مسلم کا پورا تسلط ہونا ظاہر ہے” (ملفوظات کمالاتِ اشرفیہ ص ۱۳)
یہ ہی وجہ ہے کے مولانا مفتی محمد شیفع صاحبؒ جو حضرت تھانویؒ کے حلیفہ مجاز بھی ہیں اور سیا ستہً ان سے ہرطرح متفق بھی اپنے فتوی میں ہندوستان کے دارالحرب ہونے کی ہے تصریح فرماتے ہیں چنانچہ فرماتے ہے:
“ہندوستان موجودہ زمانے میں ہمارے حضرات کے نزدیک دارلحرب ہے”۔
( امداد الفتیین ج۲ ص ۲۰۷ )
اگر حضرت تھانویؒ کا مسلک ہوتا کہ ہندوستان دارالا سلام ہے تو عین ممکن تھا کہ مفتی صاحبؒ فرماتے “ہندوستان…. ہمارے حضرات کے نزدیک دارالحرب ہے” ۔ نیز حضرت تھانویؒ بھی ”تحذیر الاخوان “ والے قول کو اپنی طرف منسوب نہیں کرتے ہیں چنانچہ ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ کچھ لوگوں (مثلاً احمد رضا خاں صاحب ) نے ہندوستان کو دارالاسلام بھی کہا ہے اور ان کی دلیل (کمزور و ضعیف جیسے بھی ہے ) تحذیر الاخوان میں نہ کو رہے ۔ ملخص امداد الفتوی ج ۳ ص ۱۱۷ اور اگر ان کا اپنا مسلک یہ ہوتا کہ ہندوستان دارالاسلام ہے اور اسی کو ثابت کرنے کے لیے رسالہ مذکورہ لکھا ہوتا تو یوں ارشاد فرماتے کہ “ہندوستان دارالاسلام ہے اور اس کا دارالاسلام ہونا تحذیر الاخوان میں بدلائل ثابت کردیا ہے۔ لیکن ایسا نہیں کیا جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ حضرت تھانویؒ نے صرف مسلمانوں کو سود سے بچانے کے لیے ایک احتیاطی تدبیر کے طور پر رسائلہ مذکور میں ہندوستان کو دارالاسلام لکھا ہے گویا ان کا مقصد یہ ہے کہ سود کے معاملہ میں ہندوستان کو دارالاسلام سمجھوں جیسا ان کی کتاب کے نام سے ہی یہ بات واضح ہو رہی ہے کیونکہ ان کی کتاب کا نام ہے ” تحزیر الاخوان عن الربوٰنی الہندوستان “جس کا مطلب ہے اپنے مسلمانوں بھائیوں کو ہندوستان میں سودی معملات سے بچانا”۔ اسکے برعکس احمد رضا خاں صاحب کی کتاب کا نا ہے “اعلام الاعلام بان ہندوستان دارالاسلام ” یعنی بڑے بڑے لوگوں ( مجاہدینِ آزادی وغیرہ ) کو مطلع کرنا کہ ہندوستان ہے۔ اس نام سے ہی یہ بات معلوم ہو رہی ہے کہ احمد رضا خاں صاحب کا مقصد ملک میں صرف یہ ڈھنڈورا پیٹنا ہے کہ ہندوستان دارالا سلام ہے ، تاکہ مجاہدینِ آزادی کی جدوجہد کو سبوتاژ کیا جا سکے۔انہیں سود کی حرمت اور لوگوں کو اس سے بچانے کی کوشش سے کیا غرض ؟ آنجناب نے تو ہندوستان کو دارالاسلام قرار دیتے ہوئے بھی سود کو حلال و طیب ہونے پر ایک کتاب “کفل النقیہ الفاہم فی احکام قرطاس الدراہم” نامی تصنیف کر کے شائع فرمائی ہے اور اپنی امت کے لیے یہ آسانی کردی کہ جتنا چاہو سود حاصل کر کے منافع کماؤ بس اتنا خیال رہے کہ سود حاصل کرنے کے لیے کسی دوسرے شخص کو رقم دو تو وہ نوٹوں کی صورت میں ہونی چاہیے اور اس کو دیتے وقت یہ نہ کہو کہ میں یہ رقم تجھے قرض دے رہا ہوں بلکہ یوں کہو کہ یہ نوٹ (مثلاً 100 روپیہ کا نوٹ ) میں تیرے ہاتھ اتنی زائد رقم (مثلاً 125 روپیہ) کے عوض بیچتا ہوں پھر وہ شخص جب چاہے اپنا کام سرانجام دینے کے بعد اصل رقم زائد (125 روپیہ) پہلے شخص کو ديدے۔ اب یہ زائد رقم (25روپیہ) پہلے شخص کے لیے بلکل حلال طیب اورپاکیزہ ہوگی کسی قسم کی کراہت کا اس میں شائبہ بھی نہ ہوگا۔ چنانچہ بریلویوں کے سابق مفتی اعظم و شیخ الحدیث داراعلوم حزب الاحناف لاہور جناب ابو البرکت سید احمد نے اس کتاب کا اشتہاریایں الفاظ شائع کیا تھا “کفل الفیقہ نوٹ کے متعلق جملہ مسائل کہ جائز طور پر خاطر خواہ نفع حاصل کروا در سود نہ ہو۔ نیز گنگوہی اور مولوی (عبد الحی) صاحب لکھنوی کے فتوؤں کا رد” ملاحضہ ہو حسام الحرمین حزب الاحناف صفحہ آخر ۔ بینکوں میں تو سود سال کے بعد ملتا ہے وہ بھی “خاطر خواہ” نہیں بلکہ جتنا مقرر ہے اتنا ہی ملے گا۔ بریلویوں کے چودہویں صدی کے مجدد احمد رضا خاں صاحب نے اپنی امت کے لیے بڑی آسانی فرمادی کے خواہ چند ےوم کے لیے ہی ادھار دو لیکن اس پر سود “خاطر خواہ” جتنا دل چاہے حاصل کر سکتے ہو۔ یہ ہی نظامِ مصطفی کا وہ ایڈیشن ہے کو بریلوی میں تیار ہوا۔
بریں عقل و دانش بباید گر یست
بہر حال یہ بات پوری طرح کھل کر سامنے اگئی کہ حضرت تھانویؒ کے نزدیک بھی ہندوستان دارلحرب ہی ہے اور ہندوستان کے دارلحرب ہونے کے قائل ہونے کے باوجود مسلمان بھائیوں کو ہندوستان میں سود لینے سے بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش فرماتے ہیں اور اس کے بلکل برعکس بریلویوں کے اعلیٰ حضرت اور چودہویں صدی کے مجدد احمد رضا خاں صاحب ہندوستان کو دالاسلام قرار دینے کے با وجود جوازِ سود پر ایک کتاب “کفل النقیہ الفاہم فی احکام قرطاس الدراہم” نامی لکھ کر شائع فرماتے ہیں اور اس طرح سود لینے دینے کی کھلی چھٹی دے دیتے ہیں۔
ان تمام حقائق کے برعکس يہ شور کرتے چلے جانا کہ حضرت تھانویؒ کی تحقیق کے مظابق بھی ہندوستان دارالاسلام ہے ، بریلویوں کی اس مخصوص پالیسی کا حقہ ہے کہ اس قدرجھوٹ بولو کہ لوگ سچ سمجھنے لگ جائیں
Post a Comment