مفتی اعظم مولانا محمد شفیع دیوبندی رحمہ اللہ کا شمار ایسے علمائے حق میں ہوتا ہے جنہوں نے پوری زندگی علوم دینیہ کی خدمت اور امت مسلمہ کی اصلاح کے لیے صرف فرمائی۔
وہ نہ صرف مفسر عہد، مدبر عصر، عالم بے بدل، فاضل اجل، فقیہ دوراں اور محقق اعظم تھے، بلکہ راہ سلوک و تصوف کے بے مثل امام تھے اور شیخ کامل تھے، عالموں کے عالم اور اصحاب ارشاد کے صدرنشین تھے اور حقیقت میں ہمارے عظیم اسلاف کی یادگار تھے ان کی زندگی ہم سب کے لیے مشعل راہ اور نمونہ ہدایت تھی۔
وہ نہ صرف مفسر عہد، مدبر عصر، عالم بے بدل، فاضل اجل، فقیہ دوراں اور محقق اعظم تھے، بلکہ راہ سلوک و تصوف کے بے مثل امام تھے اور شیخ کامل تھے، عالموں کے عالم اور اصحاب ارشاد کے صدرنشین تھے اور حقیقت میں ہمارے عظیم اسلاف کی یادگار تھے ان کی زندگی ہم سب کے لیے مشعل راہ اور نمونہ ہدایت تھی۔
ولادت و تعلیم
آپ ۲۰ اور ۲۱ شعبان ۱۳۱۴ھ مطابق ۱۸۹۷ء کی درمیانی شب میں قصبہ دیوبند ضلع سہارنپور میں پیدا ہوئے، خاندانی اعتبار سے آپ عثمانی تھے، آپ کے والد ماجد مولانا محمدیسین دیوبندی رحمہ اللہ ایک جید عالم دین اور صاحب نسبت بزرگ تھے، حضرت مفتی اعظم رحمہ اللہ نے ایک دینی ماحول میں آنکھ کھولی اور بچپن ہی سے جلیل القدر علماء کی صحبت میں بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا پانچ سال کی عمر میں حافظ محمدعظیم صاحب رحمہ اللہ کے پاس دارالعلوم دیوبند میں قرآن کریم کی تعلیم شروع کی، فارسی کی تمام مروجہ کتابیں اپنے والد محتم سے دارالعلوم میں پڑھیں حساب و فنون ریاضی کی تعلیم اپنے چچا مولانا منظور احمد صاحب رحمہ اللہ سے حاصل کی، سولہ سال کی عمر میں دارالعلوم کے درجہ عربی میں داخل ہوئے، اور ۱۳۳۵ھ میں فارغ التحصیل ہوئے جن عظیم المرتبت علمائے امت سے حضرت مفتی اعظم رحمہ اللہ نے شرف تلمذ حاصل کیا، ان میں امام العصر علامہ محمدانور شاہ کشمیری رحمہ مفتی اعظم ہند مولانا عزیزالرحمن عثمانی، شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی، عارف باللہ مولانا سیداصغر حسین دیوبندی، شیخ الادب مولانا اعزاز علی دیوبندی، استاذ العلماء مولانا رسول خان ہزاروی اور فخر العلماء مولانا حبیب الرحمن عثمانی رحمہم اللہ اجمعین جیسے اکابرین شامل ہیں جو اپنے اپنے شعبوں میں اپنی نظیر آپ ہی تھے۔
آپ ۲۰ اور ۲۱ شعبان ۱۳۱۴ھ مطابق ۱۸۹۷ء کی درمیانی شب میں قصبہ دیوبند ضلع سہارنپور میں پیدا ہوئے، خاندانی اعتبار سے آپ عثمانی تھے، آپ کے والد ماجد مولانا محمدیسین دیوبندی رحمہ اللہ ایک جید عالم دین اور صاحب نسبت بزرگ تھے، حضرت مفتی اعظم رحمہ اللہ نے ایک دینی ماحول میں آنکھ کھولی اور بچپن ہی سے جلیل القدر علماء کی صحبت میں بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا پانچ سال کی عمر میں حافظ محمدعظیم صاحب رحمہ اللہ کے پاس دارالعلوم دیوبند میں قرآن کریم کی تعلیم شروع کی، فارسی کی تمام مروجہ کتابیں اپنے والد محتم سے دارالعلوم میں پڑھیں حساب و فنون ریاضی کی تعلیم اپنے چچا مولانا منظور احمد صاحب رحمہ اللہ سے حاصل کی، سولہ سال کی عمر میں دارالعلوم کے درجہ عربی میں داخل ہوئے، اور ۱۳۳۵ھ میں فارغ التحصیل ہوئے جن عظیم المرتبت علمائے امت سے حضرت مفتی اعظم رحمہ اللہ نے شرف تلمذ حاصل کیا، ان میں امام العصر علامہ محمدانور شاہ کشمیری رحمہ مفتی اعظم ہند مولانا عزیزالرحمن عثمانی، شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی، عارف باللہ مولانا سیداصغر حسین دیوبندی، شیخ الادب مولانا اعزاز علی دیوبندی، استاذ العلماء مولانا رسول خان ہزاروی اور فخر العلماء مولانا حبیب الرحمن عثمانی رحمہم اللہ اجمعین جیسے اکابرین شامل ہیں جو اپنے اپنے شعبوں میں اپنی نظیر آپ ہی تھے۔
درس و افتاء
زمانہ طالب علمی میں حضرت مفتی اعظم رحمہ اللہ کا شمار نہایت ذہین اور محنتی طلباء میں ہوتا تھا اور امتحانانت میں ہمیشہ امتیاز کے ساتھ کامیاب ہوتے تھے، اسی لیے اساتذہ آپ سے بے حد شفقت اور محبت کا سلوک کرتے تھے، ۱۳۳۵ھ میں فارغ التحصیل ہوئے تو حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی رحمہ اللہ نے انہیں ابتدائی کتب کی تعلیم کے لیے استاذ مقرر فرمادیا پھر بہت جلد درجہ عالیہ کے استاذ ہوگئے، اور تقریباً ہر علم و فن کی جماعتوں کو پڑھایا ان کا درس ہمیشہ ہر جماعت میں مقبول رہا، مگر دورۂ حدیث کی مشہور کتاب ابوداؤد شریف اور عربی ادب کی مشہور کتاب مقامات حریری کا درس تو ایسا ہوتا تھا کہ مختلف ملکوں کے علماء اور اساتذہ بھی شریک ہونا سعادت سمجھتے تھے۔ دارالعلوم میں تدریس کا یہ سلسلہ ۱۳۶۲ھ تک جاری رہا۔ اس ۲۷ سال کے عرصہ میں انڈونیشیا، ملائشیا، سنگاپور، برما، برصغیر، افغانستان، بخارا، سمرقند و غیرہ کے تقریباً تیس ہزار طلباء نے ان سے شرف تلمذ حاصل کیا، ان میں سے ہزاروں اب بھی مختلف ملکوں میں دین کی خدمت میں مصروف ہیں۔
دارالعلوم دیوبند میں تدریس کے دوران مفتی اعظم ہند حضرت مولانا عزیز الرحمن عثمانی نے فتوی کے سلسلہ میں آپ سے کام لینا شروع کیا وہ سوالات کے جوابات خود لکھتے اور آپ سے لکھواتے اور اصلاح و تصدیق کے بعد یہ روانہ کردیئے جاتے ، سنہ ۱۳۴۴ھ میں وہ مستعفی ہوگئے، ارباب دارالعلوم نے مختلف صورتوں سے دارالافتاء کا کام چلایا۔ مگر ۱۳۴۹ھ میں یہ کام مستقل آپ کے سپرد کردیا گیا، آپ کو اس عظیم کام کی اہمیت کا بہت احساس تھا کیونکہ دارالعلوم میں نہ صرف برصغیر کے کونے کونے سے استفتاء موصول ہوتے تھے بلکہ دنیا بھر کے ملکوں سے مسلمان مختلف مشکل فقہی مسائل کے بارے میں آخری فیصلوں کے لیے دارالعلوم دیوبند سے رجوع کیا کرتے تھے حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ اپنی جگہ یہ سمجھتے تھے کہ وہ صدر مفتی کے منصب کا حق پوری طرح ادا نہیں کرسکیں گے۔ تاہم حضرت مولانا سیداصغر حسین دیوبندی رحمہ اللہ اور حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی سرپرستی امداد اور اعانت کے وعدے پر انہوں نے یہ عظیم منصب قبول کیا اور اللہ تعالی کے فضل و کرم سے آپ صدر مفتی کے عظیم منصب کا حق پوری طرح ادا کرتے رہے اور قیام پاکستان تک اس عظیم منصب پر فائز رہے۔
زمانہ طالب علمی میں حضرت مفتی اعظم رحمہ اللہ کا شمار نہایت ذہین اور محنتی طلباء میں ہوتا تھا اور امتحانانت میں ہمیشہ امتیاز کے ساتھ کامیاب ہوتے تھے، اسی لیے اساتذہ آپ سے بے حد شفقت اور محبت کا سلوک کرتے تھے، ۱۳۳۵ھ میں فارغ التحصیل ہوئے تو حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی رحمہ اللہ نے انہیں ابتدائی کتب کی تعلیم کے لیے استاذ مقرر فرمادیا پھر بہت جلد درجہ عالیہ کے استاذ ہوگئے، اور تقریباً ہر علم و فن کی جماعتوں کو پڑھایا ان کا درس ہمیشہ ہر جماعت میں مقبول رہا، مگر دورۂ حدیث کی مشہور کتاب ابوداؤد شریف اور عربی ادب کی مشہور کتاب مقامات حریری کا درس تو ایسا ہوتا تھا کہ مختلف ملکوں کے علماء اور اساتذہ بھی شریک ہونا سعادت سمجھتے تھے۔ دارالعلوم میں تدریس کا یہ سلسلہ ۱۳۶۲ھ تک جاری رہا۔ اس ۲۷ سال کے عرصہ میں انڈونیشیا، ملائشیا، سنگاپور، برما، برصغیر، افغانستان، بخارا، سمرقند و غیرہ کے تقریباً تیس ہزار طلباء نے ان سے شرف تلمذ حاصل کیا، ان میں سے ہزاروں اب بھی مختلف ملکوں میں دین کی خدمت میں مصروف ہیں۔
دارالعلوم دیوبند میں تدریس کے دوران مفتی اعظم ہند حضرت مولانا عزیز الرحمن عثمانی نے فتوی کے سلسلہ میں آپ سے کام لینا شروع کیا وہ سوالات کے جوابات خود لکھتے اور آپ سے لکھواتے اور اصلاح و تصدیق کے بعد یہ روانہ کردیئے جاتے ، سنہ ۱۳۴۴ھ میں وہ مستعفی ہوگئے، ارباب دارالعلوم نے مختلف صورتوں سے دارالافتاء کا کام چلایا۔ مگر ۱۳۴۹ھ میں یہ کام مستقل آپ کے سپرد کردیا گیا، آپ کو اس عظیم کام کی اہمیت کا بہت احساس تھا کیونکہ دارالعلوم میں نہ صرف برصغیر کے کونے کونے سے استفتاء موصول ہوتے تھے بلکہ دنیا بھر کے ملکوں سے مسلمان مختلف مشکل فقہی مسائل کے بارے میں آخری فیصلوں کے لیے دارالعلوم دیوبند سے رجوع کیا کرتے تھے حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ اپنی جگہ یہ سمجھتے تھے کہ وہ صدر مفتی کے منصب کا حق پوری طرح ادا نہیں کرسکیں گے۔ تاہم حضرت مولانا سیداصغر حسین دیوبندی رحمہ اللہ اور حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی سرپرستی امداد اور اعانت کے وعدے پر انہوں نے یہ عظیم منصب قبول کیا اور اللہ تعالی کے فضل و کرم سے آپ صدر مفتی کے عظیم منصب کا حق پوری طرح ادا کرتے رہے اور قیام پاکستان تک اس عظیم منصب پر فائز رہے۔
سلوک و تصوف
حضرت مفتی اعظم رحمہ اللہ نے سلوک و تصوف میں بھی بلند مقام پایا تھا ابتداء میں آپ حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی رحمہ اللہ سے ۱۹۲۰ء میں بیعت ہوئے پھر ان کی وفات کے بعد ۱۳۴۶ھ میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ سے بیعت ہوئے جنہوں نے آپ کی علمی اور روحانی صلاحیتوں کو دیکھ کر ۱۳۴۹ھ میں آپ کو اپنا خلیفہ اور مجاز بیعت قرار دے دیا۔ حضرت حکیم الامت تھانوی کے خلفاء مجازین میں حضرت مفتی اعظم کو ایک خاص مقام حاصل تھا اور حضرت حکیم الامت آپ پر خاص توجہ فرمایا کرتے تھے آپ تقریبا بیس سال تک حضرت حکیم الامت کی صحبت میں رہے اور ان کی زیرنگرانی کئی عظیم تالیفات اپنے قلم سے تصنیف فرمائیں۔ جیسے احکام القرآن اور حیلہ ناجزہ و غیرہ بہرحال آپ پر حضرت حکیم الامت کو ایک خاص اعتماد تھا۔ حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانوی مدظلہ فرماتے ہیں کہ حضرت حکیم الامت تھانوی کو آپ کی علمی و فقہی بصیرت پر اس قدر اعتماد تھا کہ اپنے ذاتی معاملات میں بھی ان سے مشورہ لیتے اور فتویٰ طلب فرماتے اور اس پر عمل فرماتے تھے۔
ایک مرتبہ حضرت حکیم الامت نے فرمایا کہ:
’’اللہ تعالی مفتی محمد شفیع کی عمر دراز کرے مجھے ان سے دو خوشیاں ہیں ایک تو یہ ان کے ذریعے علم حاصل ہوتا رہتا ہے، اور دوسری یہ کہ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ میرے بعد بھی کام کرنے والے موجود ہیں‘‘۔
حضرت مولانا قاری محمدطیب قاسمی فرماتے ہیں کہ:
’’حضرت مفتی اعظم رحمہ اللہ ہمارے شیخ حضرت حکیم الامت کے علمی اور روحانی ترجمان اور صحیح جانشین تھے، ہمارے قدیم اسلاف کی یادگار تھے۔ فقہ و تفسیر میں امامت کا مرتبہ حاصل تھا، ایک مایہ ناز مصنف، ادیب اور شاعر تھے، ایک شیخ کامل تھے اور عارف کامل تھے، الغرض آپ کی شخصیت ایک جامع شخصیت تھی اور اکابرین امت کو آپ کی ذات پر مکمل اعتماد تھا، امام العصر علامہ محمدانور شاہ کشمیری، علامہ شبیراحمد عثمانی، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا ظفراحمد عثمانی اور مولانا اصغرحسین دیوبندی رحمہم اللہ جیسے مشاہیر بھی آپ سے رائے لیتے تھے اور آپ کو وقت کا محقق، مفسر، مدبر اور فقیہ تسلیم کرتے تھے، درس و تدریس اور تبلیغ و اصلاح کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا بھی آپ کا محبوب مشغلہ رہا اور آپ کے قلم فیض رقم سے تین سو سے زائد تالیفات منصہ شہود پر آئیں جن میں اسلام کا نظام اراضی، ختم نبوت کامل اور سیرت خاتم الانبیاء، کشکول، جواہر الفقہ، مقام صحابہ، مجالس حکیم الامت، احکام القرآن، فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، عزیز الفتاویٰ اور تفسیر معارف القرآن، علمی دنیا کا شاہکار ہیں، تفسیر معارف القرآن آٹھ جلدوں میں مکمل ہوئی اس دور کا زبردست کارنامہ ہے، جس کے متعلق شیخ الاسلام حضرت ظفر احمد عثمانی کی رائے ہے کہ حضرت مفتی صاحب نے اس تفسیر کو لکھ کر تمام علماء اور مفسرین پر احسان عظیم کیا ہے۔‘‘
حضرت مفتی اعظم رحمہ اللہ نے سلوک و تصوف میں بھی بلند مقام پایا تھا ابتداء میں آپ حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی رحمہ اللہ سے ۱۹۲۰ء میں بیعت ہوئے پھر ان کی وفات کے بعد ۱۳۴۶ھ میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ سے بیعت ہوئے جنہوں نے آپ کی علمی اور روحانی صلاحیتوں کو دیکھ کر ۱۳۴۹ھ میں آپ کو اپنا خلیفہ اور مجاز بیعت قرار دے دیا۔ حضرت حکیم الامت تھانوی کے خلفاء مجازین میں حضرت مفتی اعظم کو ایک خاص مقام حاصل تھا اور حضرت حکیم الامت آپ پر خاص توجہ فرمایا کرتے تھے آپ تقریبا بیس سال تک حضرت حکیم الامت کی صحبت میں رہے اور ان کی زیرنگرانی کئی عظیم تالیفات اپنے قلم سے تصنیف فرمائیں۔ جیسے احکام القرآن اور حیلہ ناجزہ و غیرہ بہرحال آپ پر حضرت حکیم الامت کو ایک خاص اعتماد تھا۔ حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانوی مدظلہ فرماتے ہیں کہ حضرت حکیم الامت تھانوی کو آپ کی علمی و فقہی بصیرت پر اس قدر اعتماد تھا کہ اپنے ذاتی معاملات میں بھی ان سے مشورہ لیتے اور فتویٰ طلب فرماتے اور اس پر عمل فرماتے تھے۔
ایک مرتبہ حضرت حکیم الامت نے فرمایا کہ:
’’اللہ تعالی مفتی محمد شفیع کی عمر دراز کرے مجھے ان سے دو خوشیاں ہیں ایک تو یہ ان کے ذریعے علم حاصل ہوتا رہتا ہے، اور دوسری یہ کہ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ میرے بعد بھی کام کرنے والے موجود ہیں‘‘۔
حضرت مولانا قاری محمدطیب قاسمی فرماتے ہیں کہ:
’’حضرت مفتی اعظم رحمہ اللہ ہمارے شیخ حضرت حکیم الامت کے علمی اور روحانی ترجمان اور صحیح جانشین تھے، ہمارے قدیم اسلاف کی یادگار تھے۔ فقہ و تفسیر میں امامت کا مرتبہ حاصل تھا، ایک مایہ ناز مصنف، ادیب اور شاعر تھے، ایک شیخ کامل تھے اور عارف کامل تھے، الغرض آپ کی شخصیت ایک جامع شخصیت تھی اور اکابرین امت کو آپ کی ذات پر مکمل اعتماد تھا، امام العصر علامہ محمدانور شاہ کشمیری، علامہ شبیراحمد عثمانی، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا ظفراحمد عثمانی اور مولانا اصغرحسین دیوبندی رحمہم اللہ جیسے مشاہیر بھی آپ سے رائے لیتے تھے اور آپ کو وقت کا محقق، مفسر، مدبر اور فقیہ تسلیم کرتے تھے، درس و تدریس اور تبلیغ و اصلاح کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا بھی آپ کا محبوب مشغلہ رہا اور آپ کے قلم فیض رقم سے تین سو سے زائد تالیفات منصہ شہود پر آئیں جن میں اسلام کا نظام اراضی، ختم نبوت کامل اور سیرت خاتم الانبیاء، کشکول، جواہر الفقہ، مقام صحابہ، مجالس حکیم الامت، احکام القرآن، فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، عزیز الفتاویٰ اور تفسیر معارف القرآن، علمی دنیا کا شاہکار ہیں، تفسیر معارف القرآن آٹھ جلدوں میں مکمل ہوئی اس دور کا زبردست کارنامہ ہے، جس کے متعلق شیخ الاسلام حضرت ظفر احمد عثمانی کی رائے ہے کہ حضرت مفتی صاحب نے اس تفسیر کو لکھ کر تمام علماء اور مفسرین پر احسان عظیم کیا ہے۔‘‘
سیاسی و ملی خدمات
حضرت مفتی اعظم نے دینی و علمی خدمات کے علاوہ سیاسی و ملی خدمات بھی انجام دی ہیں، آپ نے حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ کے ایماء پر تحریک پاکستان میں زبردست حصہ لیا، اور کھلم کھلا مسلم لیگ کی حمایت فرماتے رہے، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی جو دارالعلوم دیوبند کے سرپرست اعلیٰ اور علمائے دیوبند کے شیخ و مربی تھے ، انہوں نے اپنے متوسلین اور خلفاء کے ذریعے زعماء مسلم لیگ خصوصا قائد اعظم محمدعلی جناح کی اصلاح اور دینی تربیت کا فیصلہ کیا اور اپنے خلفاء و تلامذہ میں سے علامہ شبیراحمد عثمانی، مولانا ظفراحمد عثمانی، مولانا مرتضی حسن چاند پوری، مولانا عبدالکریم گمتھلوی، مولانا اطہر علی سلٹہی، علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا مفتی محمدحسن امرتسری، مولانا جلیل احمد شروانی، مولانا خیرمحمد جالندھری، مولانا محمدادریس کاندھلوی اور مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی رحمہم اللہ کو ان کی اصلاح اور تبلیغ کے لیے مقرر کیا ان حضرات نے زعمائے مسلم لیگ کی اصلاح کے لیے تبلیغ دین کا خوب حق ادا کیا جس سے قائد اعظم بہت متاثر ہوئے، پھر ان علمائے حق نے باقاعدہ تحریک پاکستان میں حصہ لیا اور ایک تنظیم ’’جمعیت علمائے اسلام‘‘ کے نام سے تشکیل دی، جس کے پہلے صدر علامہ شبیراحمد عثمانی، اور نائب صدر مولانا ظفراحمد عثمانی منتخب ہوئے اور حضرت مفتی اعظم پاکستان اس کے ناظم اعلیٰ مقرر ہوئے، حضرت مفتی اعظم نے ۱۹۴۵ء میں لیاقت علی خان مرحوم کے حلقہ انتخاب میں جہاں کانگریس کا زبردست اثر تھا، مسلم لیگ کی حمایت میں فتوی صادر فرمایا، جس کی بدولت ہوا کا رخ بدل گیا اور لیاقت علی خان کامیاب ہوئے اور لیاقت علی خان نے کھلے الفاظ میں یہ اعتراف کیا کہ یہ کامیابی حضرت مفتی محمدشفیع صاحب کے فتوی کی بدولت ہوئی ہے۔ اسی طرح سرحد ریفرنڈم میں کامیابی شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی اور مفتی اعظم مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کے دوروں کی بدولت ہوئی اور اس کی سہرا بھی انہیں کے سر ہے، اس کا اعتراف خود قائد اعظم نے بھی کیا ہے قیام پاکستان کے بعد شیخ الاسلام علامہ عثمانی کے حکم پر دیوبند سے کراچی کو ہجرت کی اور پھر یہاں آکر ملک میں اسلامی دستور کے نفاذ اور دینی تعلیم کے لیے جد و جہد کی، قرارداد مقاصد کی ترتیب و تدوین اور اس کی منظوری میں آپ کا بڑا حصہ ہے، سنہ ۱۹۴۹ء میں حضرت شیخ الالسلام علامہ عثمانی کی وفات کے بعد جمعیت علماء اسلام کے مرکزی صدر منتخب ہوئے اور آپ کی ذمہ داریاں اور بڑھ گھئیں۔ آپ دستور یہ کے تعلیمات اسلامیہ بورڈ کے ایک اہم رکن رہے، بعد میں قانون کمیشن کے ممبر نامزد ہوئے، سنہ ۱۹۵۳ء میں علامہ سیدسلیمان ندوی کی وفات کے بعد تعلیمات اسلامی بورڈ کے صدر منتخب ہوئے اور ۱۹۵۸ء تک یہ خدمت انجام دیتے رہے ، سنہ ۱۹۵۱ء میں مولانا احتشام الحق تھانوی کی قیام گاہ پر ہونے والے جید علماء کے اجلاس کی صدارت فرماتے رہے، اور بائیس نکات پرمشتمل ایک دستوری خاکہ حکومت پاکستان کو پیش کیا، اس کے ساتھ دینی تعلیم کے فروغ کا بڑا احساس رہا، سنہ ۱۳۷۰ھ میں نہایت بے سر و سامانی کے عالم میں ایک مدرس کراچی میں قائم کیا۔ جو صرف چند ماہ کے بعد ایک مرکزی دارالعلوم کی شکل اختیار کرگیا۔ جس میں دوہزار سے زائد طلباء تحصیل علم میں مصروف ہیں اور ملک بھر میں جس کی شاخیں موجود ہیں اور آپ کا یہ دارالعلوم پاکستان میں دارالعلوم دیوبند کی مثال ہے دارالعلوم سے ایک دینی جریدہ ’’ماہنامہ البلاغ‘‘ نکلتا ہے جو دنیا بھر میں ایک امتیازی شان حاصل کیے ہوئے ہے۔
حضرت مفتی اعظم نے دینی و علمی خدمات کے علاوہ سیاسی و ملی خدمات بھی انجام دی ہیں، آپ نے حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ کے ایماء پر تحریک پاکستان میں زبردست حصہ لیا، اور کھلم کھلا مسلم لیگ کی حمایت فرماتے رہے، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی جو دارالعلوم دیوبند کے سرپرست اعلیٰ اور علمائے دیوبند کے شیخ و مربی تھے ، انہوں نے اپنے متوسلین اور خلفاء کے ذریعے زعماء مسلم لیگ خصوصا قائد اعظم محمدعلی جناح کی اصلاح اور دینی تربیت کا فیصلہ کیا اور اپنے خلفاء و تلامذہ میں سے علامہ شبیراحمد عثمانی، مولانا ظفراحمد عثمانی، مولانا مرتضی حسن چاند پوری، مولانا عبدالکریم گمتھلوی، مولانا اطہر علی سلٹہی، علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا مفتی محمدحسن امرتسری، مولانا جلیل احمد شروانی، مولانا خیرمحمد جالندھری، مولانا محمدادریس کاندھلوی اور مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی رحمہم اللہ کو ان کی اصلاح اور تبلیغ کے لیے مقرر کیا ان حضرات نے زعمائے مسلم لیگ کی اصلاح کے لیے تبلیغ دین کا خوب حق ادا کیا جس سے قائد اعظم بہت متاثر ہوئے، پھر ان علمائے حق نے باقاعدہ تحریک پاکستان میں حصہ لیا اور ایک تنظیم ’’جمعیت علمائے اسلام‘‘ کے نام سے تشکیل دی، جس کے پہلے صدر علامہ شبیراحمد عثمانی، اور نائب صدر مولانا ظفراحمد عثمانی منتخب ہوئے اور حضرت مفتی اعظم پاکستان اس کے ناظم اعلیٰ مقرر ہوئے، حضرت مفتی اعظم نے ۱۹۴۵ء میں لیاقت علی خان مرحوم کے حلقہ انتخاب میں جہاں کانگریس کا زبردست اثر تھا، مسلم لیگ کی حمایت میں فتوی صادر فرمایا، جس کی بدولت ہوا کا رخ بدل گیا اور لیاقت علی خان کامیاب ہوئے اور لیاقت علی خان نے کھلے الفاظ میں یہ اعتراف کیا کہ یہ کامیابی حضرت مفتی محمدشفیع صاحب کے فتوی کی بدولت ہوئی ہے۔ اسی طرح سرحد ریفرنڈم میں کامیابی شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی اور مفتی اعظم مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کے دوروں کی بدولت ہوئی اور اس کی سہرا بھی انہیں کے سر ہے، اس کا اعتراف خود قائد اعظم نے بھی کیا ہے قیام پاکستان کے بعد شیخ الاسلام علامہ عثمانی کے حکم پر دیوبند سے کراچی کو ہجرت کی اور پھر یہاں آکر ملک میں اسلامی دستور کے نفاذ اور دینی تعلیم کے لیے جد و جہد کی، قرارداد مقاصد کی ترتیب و تدوین اور اس کی منظوری میں آپ کا بڑا حصہ ہے، سنہ ۱۹۴۹ء میں حضرت شیخ الالسلام علامہ عثمانی کی وفات کے بعد جمعیت علماء اسلام کے مرکزی صدر منتخب ہوئے اور آپ کی ذمہ داریاں اور بڑھ گھئیں۔ آپ دستور یہ کے تعلیمات اسلامیہ بورڈ کے ایک اہم رکن رہے، بعد میں قانون کمیشن کے ممبر نامزد ہوئے، سنہ ۱۹۵۳ء میں علامہ سیدسلیمان ندوی کی وفات کے بعد تعلیمات اسلامی بورڈ کے صدر منتخب ہوئے اور ۱۹۵۸ء تک یہ خدمت انجام دیتے رہے ، سنہ ۱۹۵۱ء میں مولانا احتشام الحق تھانوی کی قیام گاہ پر ہونے والے جید علماء کے اجلاس کی صدارت فرماتے رہے، اور بائیس نکات پرمشتمل ایک دستوری خاکہ حکومت پاکستان کو پیش کیا، اس کے ساتھ دینی تعلیم کے فروغ کا بڑا احساس رہا، سنہ ۱۳۷۰ھ میں نہایت بے سر و سامانی کے عالم میں ایک مدرس کراچی میں قائم کیا۔ جو صرف چند ماہ کے بعد ایک مرکزی دارالعلوم کی شکل اختیار کرگیا۔ جس میں دوہزار سے زائد طلباء تحصیل علم میں مصروف ہیں اور ملک بھر میں جس کی شاخیں موجود ہیں اور آپ کا یہ دارالعلوم پاکستان میں دارالعلوم دیوبند کی مثال ہے دارالعلوم سے ایک دینی جریدہ ’’ماہنامہ البلاغ‘‘ نکلتا ہے جو دنیا بھر میں ایک امتیازی شان حاصل کیے ہوئے ہے۔
رحلت
بہرحال حضرت مفتی اعظم رحمہ اللہ ساری زندگی خدمت اسلام اور خدمت مسلمین میں مصروف رہے اور آخری دم تک درس و تدریس، فقہ و افتاء اور تبلیغ و ارشاد میں مصروف رہے، اتنے بڑے عالم اور مفتی اعظم ہونے کے باوجود منکسرالمزاج تھے، بڑے خوش اخلاق، خندہ جبیں اور لطیف الروح تھے، نہایت سادہ اور صاف ستھرا لباس زیب تن فرمایا کرتے تھے، تحریر و تقریر میں بڑی مہارت حاصل تھی۔ حافظہ بڑا غضب کا تھا اور عربی ادب کے شاعر تھے اور پاکستان میں تمام علماء دیوبند کے امام تھے اور سرپرست اعلی تھے۔ ۹ اور ۱۰ شوال المکرم ۱۳۹۶ھ مطابق ۵ اور ۶ اکتوبر ۱۹۷۶ء کی درمیانی شب کو آپ نے رحلت فرمائی، ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں نے آپ کے جنازہ میں شرکت کی اور حضرت ڈاکٹر عبدالحئی صاحب عارفی مدظلہ نے نماز جنازہ پڑھائی، بڑے بڑے علماء کرام نے آپ کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا، دینی اور حکومتی اداروں میں تعزیتی قراردادیں منظور کی گئیں۔ تعزیتی جلسے منعقد کیے گئے اور اس معمار پاکستان دینی، روحانی پیشوا کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ ممتاز عالم دین حضرت علامہ سید محمدیوسف بنوری رحمہ اللہ نے اپنے تعزیتی بیان میں فرمایا کہ:
’’آپ سے دارالعلوم دیوبند کی پوری تاریخ وابستہ تھی اور ہمارے اسلاف کی آپ آخری یادگار تھے‘‘۔
مولانا احتشام الحق تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ:
’’آپ کی وفات سے تمام علمائے کرام یتیم ہوگئے ہیں‘‘۔
مولانا مفتی محمود صاحب نے فرمایا کہ:
’’اب ایسا جید عالم دین اور فقیہ دین مشکل ہی پیدا ہوگا‘‘۔
مولانا سید ابوالاعلی مودودی نے فرمایا کہ:
’’ان کی وفات تمام عالم اسلام کا عظیم سانحہ ہے ، وہ بہت بڑے محقق، مدبر، مفسر اور فقیہ تھے‘‘۔
اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلائے ، آمین۔
علامہ اقبال نے ایسی ہی عظیم شخصیت کے لیے فرمایا تھا کہ:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
بہرحال حضرت مفتی اعظم رحمہ اللہ ساری زندگی خدمت اسلام اور خدمت مسلمین میں مصروف رہے اور آخری دم تک درس و تدریس، فقہ و افتاء اور تبلیغ و ارشاد میں مصروف رہے، اتنے بڑے عالم اور مفتی اعظم ہونے کے باوجود منکسرالمزاج تھے، بڑے خوش اخلاق، خندہ جبیں اور لطیف الروح تھے، نہایت سادہ اور صاف ستھرا لباس زیب تن فرمایا کرتے تھے، تحریر و تقریر میں بڑی مہارت حاصل تھی۔ حافظہ بڑا غضب کا تھا اور عربی ادب کے شاعر تھے اور پاکستان میں تمام علماء دیوبند کے امام تھے اور سرپرست اعلی تھے۔ ۹ اور ۱۰ شوال المکرم ۱۳۹۶ھ مطابق ۵ اور ۶ اکتوبر ۱۹۷۶ء کی درمیانی شب کو آپ نے رحلت فرمائی، ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں نے آپ کے جنازہ میں شرکت کی اور حضرت ڈاکٹر عبدالحئی صاحب عارفی مدظلہ نے نماز جنازہ پڑھائی، بڑے بڑے علماء کرام نے آپ کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا، دینی اور حکومتی اداروں میں تعزیتی قراردادیں منظور کی گئیں۔ تعزیتی جلسے منعقد کیے گئے اور اس معمار پاکستان دینی، روحانی پیشوا کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ ممتاز عالم دین حضرت علامہ سید محمدیوسف بنوری رحمہ اللہ نے اپنے تعزیتی بیان میں فرمایا کہ:
’’آپ سے دارالعلوم دیوبند کی پوری تاریخ وابستہ تھی اور ہمارے اسلاف کی آپ آخری یادگار تھے‘‘۔
مولانا احتشام الحق تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ:
’’آپ کی وفات سے تمام علمائے کرام یتیم ہوگئے ہیں‘‘۔
مولانا مفتی محمود صاحب نے فرمایا کہ:
’’اب ایسا جید عالم دین اور فقیہ دین مشکل ہی پیدا ہوگا‘‘۔
مولانا سید ابوالاعلی مودودی نے فرمایا کہ:
’’ان کی وفات تمام عالم اسلام کا عظیم سانحہ ہے ، وہ بہت بڑے محقق، مدبر، مفسر اور فقیہ تھے‘‘۔
اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلائے ، آمین۔
علامہ اقبال نے ایسی ہی عظیم شخصیت کے لیے فرمایا تھا کہ:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا