محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری قدس سرہٗ کے شاگردِ رشید، فاضل جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن، اسلامی نظریاتی کونسل آزاد کشمیر کے رکن، جمعیت علماء اسلام آزاد کشمیر کے امیر ، حضرت مولانا محمد یوسف خان کے ماموں، مفسرِ قرآن حضرت مولانا محمد اسحاق خان مدنیؒ اس دنیائے رنگ وبو کی ۸۰ بہاریں دیکھ کر راہیِ آخرت ہوگئے۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ما أخذ ولہٗ ما أعطی وکل شئ عندہٗ بأجل مسمی۔
آپ کا تعلق آزاد کشمیر قصبہ سدھنوتی سے تھا، ابتدائی تعلیم دارالعلوم تعلیم القرآن پلندری میں حاصل کی، اس کے بعد کچھ عرصہ جامعہ خیر المدارس ملتان میں زیر تعلیم رہے، اعلیٰ تعلیم کے لیے جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی تشریف لائے۔ یہاں سے دورہ حدیث کا فاتحہ فراغ پڑھنے کے بعد مدینہ یونیورسٹی سعودی عرب تشریف لے گئے، جہاں آپ نے ۱۹۷۲ء میں لیسانس مکمل کیا۔ سعودی حکومت کی جانب سے ورلڈ اسلامک مشن کے رکن نامزد کیے گئے اور ۳۰ سال تک دوبئی میں سعودی مرکز الدعوۃ وارشاد سے وابستہ رہ کر قرآن وحدیث کو اپنی زندگی کا مشغلہ بنائے رکھا۔ آپ کی ساری زندگی تبلیغ دین اور تعلیماتِ قرآن میں گزری۔ حضرت مولانا موصوفؒ نے اپنی زندگی کے آخری لمحات تک نہ صرف یہ کہ قرآن کریم، احادیث نبویہ اور اصلاح ودعوت کو اپنادینی فریضہ سمجھا، بلکہ ان تمام اُمور میں عظیم خدمات بھی انجام دیں۔ آپ کے دوست اور رفیق کار جناب عبد المتین منیری بھٹکلی زید مجدہٗ دوبئی میں بیتے گئے ایام کی سرگزشت لکھتے ہیں کہ :
’’جب۱۹۷۹ء میں اس ناچیز کا ذریعۂ معاش قدرت میں لکھ دیا گیا تو مولانا کو اس وقت دبئی آئے ہوئے چند ہی سال گزرے تھے، وہ ابھی جوان تھے۔ اس وقت مولانا یہاں پر دیوبندی مکتب فکر کے نمائندے کی حیثیت سے اپنی پہچان رکھتے تھے۔ آپ کی تفسیر قرآن کے درس الغریر مسجد سبخہ،اور الجامع الکبیر بر دبی میں ہوا کرتے تھے۔ دبئی میں اس وقت جو بھی پاکستان سے علماء آتے عموماً وہ آپ ہی کے مہمان ہوتے، ان کی تقاریر کے شیڈول بھی آپ ہی متعین کرتے۔ ہمارا آفس بھی پورٹ سعید میں آپ کے آفس سے قریب ہی تھا، یہ آپ کی رہائش گاہ بھی تھا۔ ان دنوں ہندوستان سے اکابر آتے تو عموماً ان کی تقاریر کا نظم اس ناچیز کے پاس ہوتا۔ بڑے اچھے دن تھے، سرکاری پیچیدگاں وغیرہ نہ ہونے کے برابر تھیں۔ اس وقت کے مدیر اوقاف شیخ عبد الجبار محمد الماجد مرحوم اور پھر ڈاکٹر عیسی المانع الحمیری کے دور میں فوراً اجازت نامے مل جاتے۔ گزشتہ صدی کے اسی اور نوے کی دہائی میں اکابرین کی بڑی تعداد بقید حیات تھی، اس زمانے میں بڑے یادگار پروگرام رکھنے کا موقع نصیب ہوا۔
ہمارے دبئی میں قدم رکھنے کے دوسرے تیسرے روز شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان علیہ الرحمۃ نے جامع کبیر بر دبی کے ممبر پر داعی اجل کو لبیک کہا۔ ان کے بعد کئی ایک اکابر مولانا مفتی محمود، مولانا عبد الستار تونسوی، مولانا عبد المجید ندیم شاہ ، مولانا محمد ضیاء القاسمی، مولانا منظور احمد چینوٹی، مولانا حسن جان، ڈاکٹر شیر علی شاہ علیہم الرحمۃ وغیرہ اس زمانے کے تقریباً سبھی اکابر پاکستان سے تشریف لاتے تو مولانا کی مجلس میں ان حضرات کے ساتھ بیٹھنا اور تبادلۂ خیال کرنا نصیب ہوتا۔ان کے تجربات اور مشاہدات نے دلوں کو روشنی بخشی۔ یہ مجالس زندگی کا بڑا قیمتی سرمایہ ہیں۔
اس زمانے میں ہندوستان سے جو اکابر آتے جن میں خصوصاً حضرت مولانا سیدا بو الحسن علی ندوی، مولانا محمد سالم قاسمی، مولانا محمد انظرشاہ کشمیری، مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی، شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان، مولانا سید ابرار الحق ہردوئی علیہم الرحمۃ وغیرہ اکابر شامل ہیں۔ ان کے پروگرام کا شیڈول عموماً اس ناچیز کے پاس ہوتا، اس سلسلے میں آپ ہمیشہ ربط میں رہتے۔ اب یہ سب ماضی کا قصہ ہے، ان کی صرف یادیں رہ گئی ہیں۔
شاید اس سلسلے کا آخری پروگرام۸؍اپریل ۱۹۹۵ء کو مرکزِ تبلیغ قصیص میں ہوا تھا،اس میں مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی، مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی، مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا یعقوب اسماعیل منشی وغیرہ نے ملت کے مسائل اور ان کے علاج کے موضوع پر اظہار خیال کیا تھا۔
مولانا محمد اسحاق صاحب بنیادی طور پر دعوت و اصلاح اور درس و تدریس کے آدمی تھے۔ اپنے وقت کی قدر کرنے والے، دبئی میں آپ نے دو سے زیادہ مرتبہ تفسیر قرآن کا دور پورا کیا۔ اور ایک نہیں تین تفسیریں لکھیں،جو ایک کارنامہ ہے۔مولانا کا ذہنی لگاؤ جمعیت علماء کی طرف تھا، لیکن وہ عملًا سیاسی آدمی نہیں تھے۔ وہ سبھی علماء کی قدر کرتے تھے اور ان سے ملنا، بیٹھ کربات کرنا پسند کرتے تھے۔ انہوں نے تفسیر کے علاوہ کئی ایک کتابیں بھی لکھیں۔ سن اَسّی کی دہائی میں اپنا ذاتی سرمایہ لگا کر مولانا آزاد کے مجلہ ’’الہلال‘‘ کی پوری فائلیں اعلیٰ طباعتی معیار پر شائع کیں، جو اس زمانے میں بہت بڑی بات تھی۔ کوئی پندرہ سال قبل مرکز کی ملازمت سے ریٹائرڈ ہوچکے تھے، لیکن چونکہ آپ کا زیادہ تر وقت دبئی میں گزرا تھا اور ان کے عقیدت مند یہیں ہی زیادہ تر پائے جاتے تھے تو ان سے ملاقات کے لیے آپ تشریف لاتے۔گٹھیا اور شوگر کی بیماری نے آپ کو وقت سے پہلے بوڑھا کردیا تھا، بالآخر وہ گھڑی آہی گئی، جس سے کسی کو مفر نہیں،اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے۔ ‘‘
حضرت مولانا محمد اسحاق خان مدنیv کا معمول تھاکہ جب بھی تفسیر قرآن کی کوئی جلد چھپتی تو اپنی مادر علمی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے ماہنامہ ’’بینات‘‘ میں تبصرہ کے لیے ضرور بھیجتے۔ ایک بار ’’عمدۃ البیان فی تفسیر القرآن‘‘ المعروف ’’تفسیر المدنی‘‘حصہ اول بھیجی تو حضرت شہید ناموس رسالت حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری قدس سرہٗ نے اس پر یوں تبصرہ کیا:
’’حضرت مولانا محمد اسحاق خان مدنی دامت برکاتہم کی علمی شخصیت اہل علم حلقے میں محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ آپ ایک عرصے سے دبئی میں قیام پذیر ہیں۔ آپ کا حلقۂ درسِ قرآن بھی کافی شہرت رکھتا ہے۔ آپ نے ایک عرصے سے اپنے آپ کو درسِ تفسیرِ قرآن کے لیے وقف کررکھا تھا۔ آپ اپنی مساعی میں کس قدر کامیاب ہوئے ہیں، پیشِ نظر تفسیر ’’عمدۃ البیان‘‘ کی جلد اول – جو سورۂ فاتحہ سے سورۂ نساء تک کی تفسیرپر مشتمل ہے – کی شکل میں اس کا خوب صورت نتیجہ اور ثمرہ حاضرِ خدمت ہے۔ موصوف کا تفسیری انداز بلاشبہ اکابر دیوبند کی طرز پر تحقیقی ہے۔ کتاب کا ایک ایک حرف اور ایک ایک بحث قابل قدر اور لائق رشک ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو عوام وخواص کے لیے نفع بخش بنائے اور مولانا کی ترقیِ درجات اور نجاتِ آخرت کا ذریعہ بنائے، آمین! اس تفسیر کے بارے میں کچھ لکھنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے، کیونکہ: مشک آنست کہ خود ببوید!‘‘ (ماہنامہ ’’بینات‘‘ رمضان ۱۴۲۷ھ- اکتوبر ۲۰۰۶ء)
اس کے بعد آپ کی تصنیف ’’زبدۃ البیان فی تفسیر القرآن‘‘ المعروف ’’تفسیر المدنی الصغیر‘‘ چھپی تو وہ بھی تصبرہ کے لیے بھیجی تو حضرتؒ نے تمہیدی فوائد لکھنے کے بعد لکھا:
’’پیشِ نظر تفسیر بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک ایسے بندے کو مامور ومنتخب فرمایا جو اصلاً کشمیر کی سنگلاخ وادی سے تعلق رکھتا تھا، اس کی تعلیم وتربیت پاکستان میں ہوئی، مگر اُسے ترجمہ وتفسیر کی خدمت کے لیے عرب امارات کی ایک ریاست دبئی میں بٹھادیاگیا۔ بلاشبہ حضرت مولانا محمد اسحاق خان مدنی حفظہ اللہ کی یہ خدمت جہاں دین کی خدمت ہے، وہاں قرآن کریم اور فن تفسیر کی بھی بہت بڑی خدمت ہے۔ ہمارے خیال میں اس عام فہم تفسیر کی برکت سے ادنیٰ پڑھا لکھا مسلمان بھی قرآنی تعلیمات سے آگاہ اور روشناس ہوسکے گا۔ اس دور میں جب کہ بے دین ومستشرقین عناصر نے اپنی تحریفات کا رخ قرآن کریم کی طرف پھیرلیا ہے، حضرت مولانا دامت وبرکاتہم کی تفسیر ان کے مقابلے میں بہترین راہ نما ثابت ہوگی۔ بلاشبہ اختصار وجامعیت اور سلاست وروانی کے اعتبار سے یہ بے حد مفید ہے۔ اس سے جہاں علماء، طلبہ مستفید ہوسکتے ہیں، وہاں عوام اور کم پڑھے لوگ بھی اس سے برابر کے مستفید ہوںگے۔ امید ہے اہلِ ذوق اس گراں قدر علمی خدمت کی بھر پور قدر افزائی کریںگے۔ ‘‘ (ماہنامہ ’’بینات‘‘ محرم ۱۴۲۸ھ- فروری ۲۰۰۷ء)
ابھی چند ماہ پہلے حضرت مولانا ڈاکٹر محمدحبیب اللہ مختار شہید قدس سرہٗ کی اشاعتِ خاص کے مضامین کے سلسلے میں حضرت شہیدؒ کے فرزند ارجمند مولوی فارس حبیب اور مولوی حارث حبیب ان سے ملنے کے لیے گئے تو حضرت موصوف نے بہت ہی خوشی کا اظہار فرمایا۔ راقم الحروف کے بارہ میں بھی دریافت فرمایا، بلکہ ایک بار اُن کے فون سے مجھ سے گفتگو بھی فرمائی، ڈھیروں دعائیں دے رہے تھے اور فرمایا کہ کبھی اسلام آباد آنا ہو تو ضرور ملاقات کیجئے گا۔ آپ نے حضرت ڈاکٹر مولانا محمد حبیب اللہ مختار شہیدؒ کے بارہ میں ایک مضمون بھی تحریر فرماکر بھیجا جو ماشاء اللہ! اشاعت خاص کی زینت بنے گا۔
آپ کی نمازِ جنازہ آپ کے دیرینہ ساتھی حضرت مولانا محمد یاسین دامت برکاتہم نے پڑھائی۔ نمازِ جنازہ میں آزاد کشمیر کے تقریباً تمام مکاتبِ فکر کے راہنماؤں کے علاوہ علاقہ ممبر کے تمام معززین اور علماء وطلباء کا ایک جم غفیر تھا۔
آپ نے اپنے پسماندگان میں ۵ بیٹے، ۳ بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کروٹ کروٹ آپ کو راحتیں نصیب فرمائے۔ آپ کے پسماندگان، متعلقین اور اعزہ اقارب کو صبرِ جمیل کی توفیق سے نوازے۔ باتوفیق قارئین’’ بینات‘‘ سے حضرتؒ کے لیے ایصالِ ثواب کی درخواست ہے۔
آپ کا تعلق آزاد کشمیر قصبہ سدھنوتی سے تھا، ابتدائی تعلیم دارالعلوم تعلیم القرآن پلندری میں حاصل کی، اس کے بعد کچھ عرصہ جامعہ خیر المدارس ملتان میں زیر تعلیم رہے، اعلیٰ تعلیم کے لیے جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی تشریف لائے۔ یہاں سے دورہ حدیث کا فاتحہ فراغ پڑھنے کے بعد مدینہ یونیورسٹی سعودی عرب تشریف لے گئے، جہاں آپ نے ۱۹۷۲ء میں لیسانس مکمل کیا۔ سعودی حکومت کی جانب سے ورلڈ اسلامک مشن کے رکن نامزد کیے گئے اور ۳۰ سال تک دوبئی میں سعودی مرکز الدعوۃ وارشاد سے وابستہ رہ کر قرآن وحدیث کو اپنی زندگی کا مشغلہ بنائے رکھا۔ آپ کی ساری زندگی تبلیغ دین اور تعلیماتِ قرآن میں گزری۔ حضرت مولانا موصوفؒ نے اپنی زندگی کے آخری لمحات تک نہ صرف یہ کہ قرآن کریم، احادیث نبویہ اور اصلاح ودعوت کو اپنادینی فریضہ سمجھا، بلکہ ان تمام اُمور میں عظیم خدمات بھی انجام دیں۔ آپ کے دوست اور رفیق کار جناب عبد المتین منیری بھٹکلی زید مجدہٗ دوبئی میں بیتے گئے ایام کی سرگزشت لکھتے ہیں کہ :
’’جب۱۹۷۹ء میں اس ناچیز کا ذریعۂ معاش قدرت میں لکھ دیا گیا تو مولانا کو اس وقت دبئی آئے ہوئے چند ہی سال گزرے تھے، وہ ابھی جوان تھے۔ اس وقت مولانا یہاں پر دیوبندی مکتب فکر کے نمائندے کی حیثیت سے اپنی پہچان رکھتے تھے۔ آپ کی تفسیر قرآن کے درس الغریر مسجد سبخہ،اور الجامع الکبیر بر دبی میں ہوا کرتے تھے۔ دبئی میں اس وقت جو بھی پاکستان سے علماء آتے عموماً وہ آپ ہی کے مہمان ہوتے، ان کی تقاریر کے شیڈول بھی آپ ہی متعین کرتے۔ ہمارا آفس بھی پورٹ سعید میں آپ کے آفس سے قریب ہی تھا، یہ آپ کی رہائش گاہ بھی تھا۔ ان دنوں ہندوستان سے اکابر آتے تو عموماً ان کی تقاریر کا نظم اس ناچیز کے پاس ہوتا۔ بڑے اچھے دن تھے، سرکاری پیچیدگاں وغیرہ نہ ہونے کے برابر تھیں۔ اس وقت کے مدیر اوقاف شیخ عبد الجبار محمد الماجد مرحوم اور پھر ڈاکٹر عیسی المانع الحمیری کے دور میں فوراً اجازت نامے مل جاتے۔ گزشتہ صدی کے اسی اور نوے کی دہائی میں اکابرین کی بڑی تعداد بقید حیات تھی، اس زمانے میں بڑے یادگار پروگرام رکھنے کا موقع نصیب ہوا۔
ہمارے دبئی میں قدم رکھنے کے دوسرے تیسرے روز شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان علیہ الرحمۃ نے جامع کبیر بر دبی کے ممبر پر داعی اجل کو لبیک کہا۔ ان کے بعد کئی ایک اکابر مولانا مفتی محمود، مولانا عبد الستار تونسوی، مولانا عبد المجید ندیم شاہ ، مولانا محمد ضیاء القاسمی، مولانا منظور احمد چینوٹی، مولانا حسن جان، ڈاکٹر شیر علی شاہ علیہم الرحمۃ وغیرہ اس زمانے کے تقریباً سبھی اکابر پاکستان سے تشریف لاتے تو مولانا کی مجلس میں ان حضرات کے ساتھ بیٹھنا اور تبادلۂ خیال کرنا نصیب ہوتا۔ان کے تجربات اور مشاہدات نے دلوں کو روشنی بخشی۔ یہ مجالس زندگی کا بڑا قیمتی سرمایہ ہیں۔
اس زمانے میں ہندوستان سے جو اکابر آتے جن میں خصوصاً حضرت مولانا سیدا بو الحسن علی ندوی، مولانا محمد سالم قاسمی، مولانا محمد انظرشاہ کشمیری، مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی، شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان، مولانا سید ابرار الحق ہردوئی علیہم الرحمۃ وغیرہ اکابر شامل ہیں۔ ان کے پروگرام کا شیڈول عموماً اس ناچیز کے پاس ہوتا، اس سلسلے میں آپ ہمیشہ ربط میں رہتے۔ اب یہ سب ماضی کا قصہ ہے، ان کی صرف یادیں رہ گئی ہیں۔
شاید اس سلسلے کا آخری پروگرام۸؍اپریل ۱۹۹۵ء کو مرکزِ تبلیغ قصیص میں ہوا تھا،اس میں مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی، مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی، مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا یعقوب اسماعیل منشی وغیرہ نے ملت کے مسائل اور ان کے علاج کے موضوع پر اظہار خیال کیا تھا۔
مولانا محمد اسحاق صاحب بنیادی طور پر دعوت و اصلاح اور درس و تدریس کے آدمی تھے۔ اپنے وقت کی قدر کرنے والے، دبئی میں آپ نے دو سے زیادہ مرتبہ تفسیر قرآن کا دور پورا کیا۔ اور ایک نہیں تین تفسیریں لکھیں،جو ایک کارنامہ ہے۔مولانا کا ذہنی لگاؤ جمعیت علماء کی طرف تھا، لیکن وہ عملًا سیاسی آدمی نہیں تھے۔ وہ سبھی علماء کی قدر کرتے تھے اور ان سے ملنا، بیٹھ کربات کرنا پسند کرتے تھے۔ انہوں نے تفسیر کے علاوہ کئی ایک کتابیں بھی لکھیں۔ سن اَسّی کی دہائی میں اپنا ذاتی سرمایہ لگا کر مولانا آزاد کے مجلہ ’’الہلال‘‘ کی پوری فائلیں اعلیٰ طباعتی معیار پر شائع کیں، جو اس زمانے میں بہت بڑی بات تھی۔ کوئی پندرہ سال قبل مرکز کی ملازمت سے ریٹائرڈ ہوچکے تھے، لیکن چونکہ آپ کا زیادہ تر وقت دبئی میں گزرا تھا اور ان کے عقیدت مند یہیں ہی زیادہ تر پائے جاتے تھے تو ان سے ملاقات کے لیے آپ تشریف لاتے۔گٹھیا اور شوگر کی بیماری نے آپ کو وقت سے پہلے بوڑھا کردیا تھا، بالآخر وہ گھڑی آہی گئی، جس سے کسی کو مفر نہیں،اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے۔ ‘‘
حضرت مولانا محمد اسحاق خان مدنیv کا معمول تھاکہ جب بھی تفسیر قرآن کی کوئی جلد چھپتی تو اپنی مادر علمی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے ماہنامہ ’’بینات‘‘ میں تبصرہ کے لیے ضرور بھیجتے۔ ایک بار ’’عمدۃ البیان فی تفسیر القرآن‘‘ المعروف ’’تفسیر المدنی‘‘حصہ اول بھیجی تو حضرت شہید ناموس رسالت حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری قدس سرہٗ نے اس پر یوں تبصرہ کیا:
’’حضرت مولانا محمد اسحاق خان مدنی دامت برکاتہم کی علمی شخصیت اہل علم حلقے میں محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ آپ ایک عرصے سے دبئی میں قیام پذیر ہیں۔ آپ کا حلقۂ درسِ قرآن بھی کافی شہرت رکھتا ہے۔ آپ نے ایک عرصے سے اپنے آپ کو درسِ تفسیرِ قرآن کے لیے وقف کررکھا تھا۔ آپ اپنی مساعی میں کس قدر کامیاب ہوئے ہیں، پیشِ نظر تفسیر ’’عمدۃ البیان‘‘ کی جلد اول – جو سورۂ فاتحہ سے سورۂ نساء تک کی تفسیرپر مشتمل ہے – کی شکل میں اس کا خوب صورت نتیجہ اور ثمرہ حاضرِ خدمت ہے۔ موصوف کا تفسیری انداز بلاشبہ اکابر دیوبند کی طرز پر تحقیقی ہے۔ کتاب کا ایک ایک حرف اور ایک ایک بحث قابل قدر اور لائق رشک ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو عوام وخواص کے لیے نفع بخش بنائے اور مولانا کی ترقیِ درجات اور نجاتِ آخرت کا ذریعہ بنائے، آمین! اس تفسیر کے بارے میں کچھ لکھنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے، کیونکہ: مشک آنست کہ خود ببوید!‘‘ (ماہنامہ ’’بینات‘‘ رمضان ۱۴۲۷ھ- اکتوبر ۲۰۰۶ء)
اس کے بعد آپ کی تصنیف ’’زبدۃ البیان فی تفسیر القرآن‘‘ المعروف ’’تفسیر المدنی الصغیر‘‘ چھپی تو وہ بھی تصبرہ کے لیے بھیجی تو حضرتؒ نے تمہیدی فوائد لکھنے کے بعد لکھا:
’’پیشِ نظر تفسیر بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک ایسے بندے کو مامور ومنتخب فرمایا جو اصلاً کشمیر کی سنگلاخ وادی سے تعلق رکھتا تھا، اس کی تعلیم وتربیت پاکستان میں ہوئی، مگر اُسے ترجمہ وتفسیر کی خدمت کے لیے عرب امارات کی ایک ریاست دبئی میں بٹھادیاگیا۔ بلاشبہ حضرت مولانا محمد اسحاق خان مدنی حفظہ اللہ کی یہ خدمت جہاں دین کی خدمت ہے، وہاں قرآن کریم اور فن تفسیر کی بھی بہت بڑی خدمت ہے۔ ہمارے خیال میں اس عام فہم تفسیر کی برکت سے ادنیٰ پڑھا لکھا مسلمان بھی قرآنی تعلیمات سے آگاہ اور روشناس ہوسکے گا۔ اس دور میں جب کہ بے دین ومستشرقین عناصر نے اپنی تحریفات کا رخ قرآن کریم کی طرف پھیرلیا ہے، حضرت مولانا دامت وبرکاتہم کی تفسیر ان کے مقابلے میں بہترین راہ نما ثابت ہوگی۔ بلاشبہ اختصار وجامعیت اور سلاست وروانی کے اعتبار سے یہ بے حد مفید ہے۔ اس سے جہاں علماء، طلبہ مستفید ہوسکتے ہیں، وہاں عوام اور کم پڑھے لوگ بھی اس سے برابر کے مستفید ہوںگے۔ امید ہے اہلِ ذوق اس گراں قدر علمی خدمت کی بھر پور قدر افزائی کریںگے۔ ‘‘ (ماہنامہ ’’بینات‘‘ محرم ۱۴۲۸ھ- فروری ۲۰۰۷ء)
ابھی چند ماہ پہلے حضرت مولانا ڈاکٹر محمدحبیب اللہ مختار شہید قدس سرہٗ کی اشاعتِ خاص کے مضامین کے سلسلے میں حضرت شہیدؒ کے فرزند ارجمند مولوی فارس حبیب اور مولوی حارث حبیب ان سے ملنے کے لیے گئے تو حضرت موصوف نے بہت ہی خوشی کا اظہار فرمایا۔ راقم الحروف کے بارہ میں بھی دریافت فرمایا، بلکہ ایک بار اُن کے فون سے مجھ سے گفتگو بھی فرمائی، ڈھیروں دعائیں دے رہے تھے اور فرمایا کہ کبھی اسلام آباد آنا ہو تو ضرور ملاقات کیجئے گا۔ آپ نے حضرت ڈاکٹر مولانا محمد حبیب اللہ مختار شہیدؒ کے بارہ میں ایک مضمون بھی تحریر فرماکر بھیجا جو ماشاء اللہ! اشاعت خاص کی زینت بنے گا۔
آپ کی نمازِ جنازہ آپ کے دیرینہ ساتھی حضرت مولانا محمد یاسین دامت برکاتہم نے پڑھائی۔ نمازِ جنازہ میں آزاد کشمیر کے تقریباً تمام مکاتبِ فکر کے راہنماؤں کے علاوہ علاقہ ممبر کے تمام معززین اور علماء وطلباء کا ایک جم غفیر تھا۔
آپ نے اپنے پسماندگان میں ۵ بیٹے، ۳ بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کروٹ کروٹ آپ کو راحتیں نصیب فرمائے۔ آپ کے پسماندگان، متعلقین اور اعزہ اقارب کو صبرِ جمیل کی توفیق سے نوازے۔ باتوفیق قارئین’’ بینات‘‘ سے حضرتؒ کے لیے ایصالِ ثواب کی درخواست ہے۔