تازہ ترین
Showing posts with label شخصیات. Show all posts
Showing posts with label شخصیات. Show all posts

علامہ ڈاکٹر خالد محمودؒ . ایک عبقری علمی شخصیت


مفکر اسلام حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمودؒ کی وفات کی خبر نے نہ صرف ان کے تلامذہ اور معتقدین بلکہ ان کی علمی جدوجہد اور اثاثہ سے با خبر عامۃ المسلمین کو بھی غم و اندوہ کے ایسے اندھیرے سے دوچار کر دیا ہے جس میں دور دور تک روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دے رہی، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ علامہ صاحبؒ کی علالت کی خبریں چند دنوں سے آ رہی تھیں اور بستر سے اٹھتے ہوئے گر کر زخمی ہونے کی خبر نے پریشانی میں اضافہ کر رکھا تھا۔ مگر موت نے اپنے وقت پر آنا تھا، وہ آئی اور علامہ صاحبؒ ہزاروں بلکہ لاکھوں عقیدت مندوں کو سوگوار چھوڑتے ہوئے اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالٰی ان کی حسنات قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر فرمائیں، جنت الفردوس میں اعلٰی مقام سے نوازیں اور تمام متعلقین، پسماندگان اور سوگواروں کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

میرا ان کے ساتھ تعلق طالب علمی کے دور سے چلا آ رہا تھا جب وہ مختلف تعلیمی و دینی نشستوں کے لیے گوجرانوالہ بالخصوص جامعہ نصرۃ العلوم میں وقتاً فوقتاً تشریف لایا کرتے تھے اور ہمیں ان کے علمی نکات اور حاضر جوابی سے مستفید ہونے کا موقع ملتا رہتا تھا۔ یہ سلسلہ آخر تک جاری رہا اور ابھی رمضان المبارک سے قبل امامیہ کالونی لاہور میں حضرت علامہ صاحبؒ کے قائم کردہ جامعہ ملیّہ کی سالانہ تقریب میں شرکت کے موقع پر ان کی مجلس اور گفتگو سے شادکام ہونے کا موقع ملا۔
علامہ صاحبؒ نے نفاذ شریعت اور تحفظ ختم نبوت کے ساتھ ساتھ حضرات صحابہ کرامؓ کے ناموس اور عقائد اہل سنت کے تحفظ و دفاع میں بھرپور اور متحرک زندگی گزاری ہے اور عمر بھر ان دائروں میں مسلسل سرگرم عمل رہے ہیں۔ ۱۹۵۶ء کے دستور کے نفاذ کے موقع پر جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے دستور کے حوالے سے کچھ تحفظات تھے جن کے اظہار کے لیے مولانا مفتی محمودؒ، علامہ شمس الحق افغانیؒ، شیخ حسام الدینؒ اور علامہ خالد محمودؒ پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی جس نے ’’تنقیدات و ترامیم‘‘ کے عنوان سے رپورٹ مرتب کر کے شائع کی، وہ میری معلومات کے مطابق جماعتی زندگی کے حوالہ سے حضرت علامہ صاحبؒ کا پہلا تعارف تھا جو تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ ہے۔
عقائد اہل سنت اور ناموس صحابہ کرامؓ و اہل بیت عظامؓ کے تحفظ و دفاع میں سردار احمد خان پتافیؒ، علامہ عبد الستار تونسویؒ، علامہ قائم الدین عباسیؒ، مولانا عبد الحئی جام پوریؒ، علامہ دوست محمد قریشیؒ، مولانا سید نور الحسن شاہ بخاریؒ اور دیگر سرکردہ علماء کرام پر مشتمل جس گروہ نے ’’تنظیم اہل سنت‘‘ کے عنوان سے ملک کے طول و عرض بالخصوص جنوبی پنجاب میں صبر آزما جدوجہد کی وہ ہماری دینی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ حضرت علامہ خالد محمودؒ نہ صرف اس گروہ کے رکن رکین تھے بلکہ علمی ترجمان بھی تھے جن کی نکتہ رسی اور حاضر جوابی نے علمی مباحث کا میدان ایک عرصہ تک گرم رکھا اور بے شمار لوگوں کی علمی و فکری تسکین اور اعتقادی پختگی کا ذریعہ ثابت ہوئے۔ وہ تنظیم اہل سنت کے جریدہ ’’دعوت‘‘ کے مدیر تھے اور ان کے سوالات و جوابات کا سلسلہ اس علمی و فکری جدوجہد کا قیمتی اثاثہ ہے جن کا بہت سا حصہ ’’عبقات‘‘ کے نام سے مرتب ہو کر علماء و طلبہ کے استفادہ کا باعث ہے۔
قادیانیت کے محاذ پر وہ حضرت مولانا محمد حیاتؒ اور حضرت مولانا لال حسین اخترؒ کے ساتھ صف اول کے کامیاب مناظر شمار ہوتے تھے جنہوں نے مسلمانوں کے مسلمہ اجماعی عقائد کے بارے میں قادیانی دجل و فریب کے تاروپود کو ہر دائرے میں اور ہر سطح پر بکھیر کر رکھ دیا۔ انہوں نے حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ اور حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ کے ساتھ مل کر عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے عالمی سطح پر جو محاذ قائم کیا وہ ان کا صدقہ جاریہ ہے اور مسلمانوں کے عقائد کے تحفظ کا ایک مضبوط مورچہ ہے۔ حجیت حدیث اور دفاع سنت نبویؐ کے محاذ پر بھی ان کی خدمات کا دائرہ اپنے اندر بے شمار وسعت و تنوع رکھتا ہے جو علماء و طلبہ کے لیے ہمیشہ مشعل راہ رہے گا۔
علامہ صاحبؒ کو دیوبندی مسلک کا علمی ترجمان سمجھا جاتا تھا اور بہت سے مواقع پر اس بات کا میں عینی شاہد ہوں کہ کسی اہم مسئلہ پر دیوبندی موقف کی وضاحت کے لیے اہل علم کے حلقوں میں والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور ترجمان اہل سنت حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ کے ساتھ حضرت علامہ خالد محمودؒ کا نام سامنے آتا تھا اور ان سے رجوع کیا جاتا تھا۔ جبکہ سکولوں، کالجوں اور دینی مدارس کے طلبہ پر مشتمل مشترکہ طالب علم تنظیم ’’جمعیۃ طلباء اسلام پاکستان‘‘ کی تشکیل اور طلبہ کی ذہن سازی میں بھی ان کا اساسی کردار رہا ہے۔
علامہ صاحبؒ نے ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں لاہور کی ایک سیٹ پر جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا مگر اس کے بعد برطانیہ منتقل ہو گئے، البتہ سال کا کچھ حصہ پاکستان میں گزارنے کا معمول آخر تک رہا۔ مجھے ان کے ہاں جامعہ ملیہ لاہور اور مانچسٹر (برطانیہ) میں ان کی قائم کردہ اسلامک اکیڈمی میں بیسیوں مرتبہ حاضری کا موقع ملا اور ان کے ساتھ دینی محافل میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔ علامہ صاحبؒ اور حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کی رفاقت میں مجھے ۱۹۸۵ء میں پہلے حج بیت اللہ کا شرف بھی حاصل ہوا، جبکہ افغانستان سے روسی فوج کے انخلا کے بعد آزاد افغان حکومت کے سربراہ حضرت پروفیسر صبغۃ اللہ مجددیؒ کی دعوت پر سرکردہ علماء کرام کے جس وفد نے کابل کا دورہ کیا ہم اس میں بھی اکٹھے شریک تھے۔
حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمودؒ آج ہم میں نہیں رہے مگر ان کے قائم کردہ جامعہ ملیہ لاہور اور اسلامک اکیڈمی مانچسٹر، ان کی درجنوں تصانیف اور سینکڑوں بیانات و خطابات، جو محفوظ حالت میں موجود ہیں، ان کا ایسا صدقہ جاریہ ہیں جن سے اہل علم ایک عرصہ تک مستفید ہوتے رہیں گے۔ اللہ تعالٰی انہیں جوار رحمت میں جگہ دیں اور ان کے پسماندگان و متعلقین کو ان کی حسنات کا سلسلہ تا دیر جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

(روزنامہ اسلام، 16 مئی 2020ء)

اس شخص نے مجھے بہت متاثر کیا... بیاد حضرت مولانا ضیاء الرحمان فاروقی شہید

  یہ میرے بچپن کی بات ہے جب میں ابھی حفظ قرآن کریم کے اختتامی مراحل میں تھا ۔ چونکہ دور دراز پسماندہ ترین علاقے میں ہم نے حفظ قرآن کیا ۔ وہاں علماء کرام کا فقدان تھا مرکزی جامع مسجد کے خطیب بھی عالم نہ تھے ۔ بلکہ گاؤں کے پیشہ ور اور موروثی مولوی سمجھ لیجیے ۔ لیکن ان کی زبان مین جادو کی سی تاثیر تھی ۔ صوم و صلوة پہ گفتگو بہت سارے بے راہ روؤں کو راہ ہدایت پہ لانے کا سبب بنی ۔ الغرض وہاں ہمیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ مولوی کیا شئی ہوتی ہے ؟؟ مولوی بھلا کیوں بنتے ہیں ؟ کیا دنیا میں کوئی متعین طبقہ ایسا بھی ہے جس سے ہم منسلک ہونے کے خواہاں ہیں اور استاد محترم قاری صاحب لاہور سے تجوید و قرات کر کے واپس آئے تھے ۔ وہ تو ظاہر ہے پاکستان کے نامور علماء کرام سے واقف ہوئے ہی ہوں گے ۔ پر کبھی انہوں نے بھی ہمیں نہ بتایا شاید یہ چیزیں ہماری پڑھائی میں مخل سمجھی جاتی ہوں گی۔ اسی وجہ سے یہ بتانا مناسب نہ سمجھا ہو ۔ البتہ والد محترم جوانی کے ایام میں روزی روٹی کے سلسلے میں کراچی ایک تندور پہ کام کرتے تھے ۔ جہاں ساتھ میرے ماموں بھی تھے جن کی محنت کی بدولت والد صاحب دو تین مرتبہ امام سنی اںقلاب مولانا حقنواز جھنگوی کے پروگرامات میں گئے ۔ اور پھر جعلی پیری مریدی سے مستقل تائب ہو کر علماء حق سے ہمیشہ کے لیے اپنی وابستگی قائم کر لی ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ملک بھر میں حضرت جھنگوی کی خطابت کا طوطی بولتا تھا۔ دشمن ان کی آواز سے تھرتھرا جاتا تھا ۔ ان کے متعلق حضرت والد صاحب سے اور مامون جان کی زبانی سنا تھا کہ وہ بہت شعلہ بیاں اور یکتا روزگار خطیب ہیں پھر ایک بار ایک قریبی رشتہ دار کے ہاں دیگر رشتہ داروں کے ساتھ مہمان بے زبان بنے بیٹھے تھے ۔ وہاں ایک درد دل والی شعلہ بیان تقریر لگی تھی ۔جس کے خطیب صاحب گرج بھی رہے تھے اور ساتھ محسوس ہو رہا تھا کہ وہ چیخ چیخ کر مجمع کو جھنجوڑ رہے ہیں۔ خیر کھانے کا دستر خواں لگ گیا ۔ کھانے میں مختلف انواع و اقسام کی چیزیں تھیں لیکن میری توجہ اس ٹیپ میں لگی کیسٹ کی آواز پہ تھی ۔ کہ یار یہ تقریر ہوتی ہے ؟ جس کے متعلق میں آج تک سنتا آیا ہوں ؟ کیونکہ اس سے قبل جمعے کی ہمیشہ کی تقریر سے ہٹ کر میں نے کوئی تقریر سنی ہی نہیں تھی خیر اس تقریر کے چند جملے مجھے آج بھی یاد ہیں قیامت کی صبح کو صدیقؓ نبیؐ کی عدالت میں آئیں گے۔ اے اللہ کے رسول! میں نے تو تیرے لیے چمڑے کی ٹاکیاں پہن لیں تھیں ، میں نے تو تیرے لیے سب کچھ قربان کر دیا تھا ، میں نے تو تیرے قدموں پہ جان نثار کر دی تھی ، پاکستان میں میرا نام لکھ کر کتے کے فوٹو بنائے گئے ، مولوی خاموش رہے ، پیر خاموش رہے ۔ ، حکمران خاموش رہے ۔۔ یا رسول اللہؐ کلمہ تیرا پڑھتے رہے ، میری عزت لٹاتے رہے ۔ بتا سجاول (غالباً یہ پنجاب کی کوئی بستی ہے جو سجاول کے نام سے موسوم ہے ) بتا سجاول کے سنی تُو کیا جواب دے گا ؟ رسول اللہ کی عدالت ہوگی ، تیرا گریبان ہو گا بتا کیا جواب دے گا ؟
یقیناً یہ الفاظ اتنے درمندانہ تھے کہ اس تقریر کے سیاق و سباق کو نہ سمجھنے کے باوجود مجھ پہ سکت طاری ہو گئی ، میں خیالات میں ڈوب گیا ۔ اور کھانے کے بعد میزبان سے پوچھنے کی کوشش کی وہ جلدی میں برتن اٹھانے میں مصروف تھے ، توجہ نہ دی۔ ان کے بیٹے سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ مؤرخ اسلام مولانا ضیاء الرحمن فاروقی تھے ۔ پاکستان کے نامور ممتاز عالم دین تھے ، انہین گستاخان صحابہ نے اپنے راستے کا کانٹا سمجھتے ھوئے شہید کر دیا۔ بس اس دن سے میرے دل میں اس شخص کی محبت رچ بس گئی ۔ اس کی تقاریر کو سنا تو یقیناً یہ اپنے انداز مین منفرد خطیب تھا ۔ اس کی تقریر میں ریا کا پہلو ڈھونڈنے میں نہ ملا ۔ بس سنیت کی بیداری کیلیے زور تھا۔ دشمن کو پہچاننے کی ترغیب تھی ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے محبت عیاں تھی ۔ علمی استدلات تھے ۔ ثقہ تاریخ کے حوالے تھے ۔ چنے ہوئے اشعار ہوا کرتے تھے ۔ پھر جب شعبہ کتب میں آئے اور کتابوں سے شناسائی ہوئی تو ان کی لاجواب کتاب سنیت پہ احسان عظیم " تاریخی دستاویز" پڑھی ۔ کارکن کے نام کتابچہ پڑھا اور دیگر بہت سارے عظمت صحابہؓ ورد فریق مخالف پہ جرائد و رسائل پڑھے ۔ تو اس شخص کی محبت میں اور اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ میں نے اسے اپنا آئیڈیل تو پہلی تقریر پر ہی بنا دیا تھا ۔ لیکن کوئی اور خطیب مجھے ان کے مقابل متاثر نہ کر سکا۔ چودہ ممالک میں کئی زبانوں پہ صحابہ کرامؓ کی عظمت و رفعت ، تقدیس و طہارت پہ مبنی لٹریچر انہوں نے پہنچایا۔ دنیا بھر میں امیر عزیمت کی تحریک کو انہوں نے روشناس کروایا ۔ اور بالاخر 18 جنوری 1997ء کو لاہور ہائیکورٹ کے سامنے بم دھماکے سے ان کڑیل خوبصورت نوجوان کو ابدی نیند سلا دیا گیا ۔ مشن ان کا آج بھی جاری ہے اور ان شاءاللہ تاقیامت جاری و ساری رہے گا۔ کل ان کی یوم شھادت کی تاریخ ہے حتی الوسع ایصال ثواب کی بھرپور کوشش کی جائے۔ جزاکم اللہ خیرا

8 رمضان المبارک یوم شھادت شہید ملت اسلامیہ مٶرخ اسلام حضرت علامہ ضیاءالرحمن فاروقی شہید رح


١٨ جنوری ایک عظیم مبلغ ، ایک شفیق انسان ، قابل فخر قائد مورخ اسلام ،، بے مثل خطیب لاکھوں میں ایک رہنما ، حق گو عالم دین ، عالم اسلام کی معروف شخصیت ، نڈر و بے باک قیادت ، باکردار شخصیت ، غیور مذہبی سکالر ، سپاہ صحابہ پاکستان کے سربراہ علامہ ضیاءالرحمن فاروقی شھید رحمةاللہ عیلہ کا یوم شھادت ہے . آپ 1953میں مولنا محمد علی جانباز کے گھر پیدا ہوئے جو تحریک تحفظ ختم نبوت کے سر گرم رکن تھے اور اسی سلسلے میں آپ کی پیدائش کے وقت سکھر جیل میں پابند سلاسل تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم دارالعلوم کبیروالہ اور خیرالمدارس ملتان سے حاصل کی اور آپ نے بی اے کا امتحان پنجاب یونیورسٹی سے دیا اور امتیازی نمبر حاصل کیے۔ آپ نے 1970 میں مفتی محمود رحمہ اللہ کے الیکشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور جمیعیت علما اسلام کے پنجاب کے صدر بنے آپ نے قران کا آفاقی پیغام دنیا میں پہچانے کے لیے بہت سے ممالک کے دورے کیے۔ آپ مولٰنا حق نواز جھنگوی کی شہادت کے بعد سپاہ صحابہ کے سرپرست اعلی بنے اور جھنگوی شہید رحمہ اللہ کے پیغام کو نئے جذبے اور ولولے کے ساتھ پوری دنیا میں پہنچایا ۔ فقہا ، علما اور مفتیان کرام آج بھی مولانا ضیا الرحمان فاروقی شھید رحمہ اللہ کو علم کے سمندر ہونے کا درجہ دیتے ہیں۔ مولانا ضیا الرحمان فاروقی شہید کی اگر سپاہ صحابہؓ کی جماعتی خدمات کی بات کی جائے تو مولانا حقنواز جھنگوی شہید رحمہ اللہ جب شہید ہوئے تو سپاہ صحابہؓ کے اڑھائی سو یونٹ تھے اور جب فاروقی شھید رحمہ اللہ شہید ھوئے تو پوری دنیا میں چودا ھزار یونٹ تھے اور پوری دنیا کے کونے کونے میں عظمت صحابہ کے ترانے بجائے جا رہے تھے۔ اور مولانا فاروقی شھید رحمہ اللہ نے چودہ ممالک میں سپاہ صحابہ قائم کر کے اس بات کو ثابت کر دیا کیا ان کا جینا مرنا زندگی ہر مقصد عظمت صحابہ اور دفاع صحابہؓ کا پرچار ہی کرنا تھا۔ اور انہوں نےثابت کیا کہ وہ ایک عالمی راہنما تھے مولانا ضیاالرحمان فاروقی شہید رحمہ اللہ نہ صرف اسٹیج تک اپنے موقف کے امین رہے بلکہ انہوں نے اپنا موقف وزیر اعظم تک پنہچایا اور پھر کھل کر اپنے موقف کی وضاحت کی وزرا ، ججز ، افسران بالا کے بھرے اجلاسوں میں اصحاب رسولؐ کے دشمنوں کی منافقت کو مدلل انداز میں تار تار کرنا بھی مولانا فاروقی صاحب کا ہی کمال تھا ۔ آپ کی دین اسلام کی سر بلندی کے لیے کی گئیں کوششوں کی اس برق رفتاری کو دیکھ کر شیعہ اور بالخصوص ایران برداشت نہ کر سکا اور آپ کو بیس نومبر 1995میں ایک قتل کے جھوٹے الزام میں گرفتار کر لیا گیا اور آپ نے جیل میں بیٹھ کر ستائیس کتابیں لکھیں۔ اور آپ کی دو مشہور تصانیف رہبر و رہنما محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور فیصل ایک ستارہ ہے اور ان کتابوں کے لکھنے پر آپ کو سعودی حکومت نے خصوصی ایوارڈ سے بھی نوازا آپ مجموعی طور پر ساٹھ کتب کے مصنف تھے آپ نے اپنی تقاریر و تحاریر سے اسلام کے لبادہ میں چھپے بد مذہبوں کو دنیا کے سامنے عیاں کیا حق گو ہونے کی پاداش میں آپ کئی بار پابند سلاسل رہے ۔ بالآخر آپ اٹھارہ جنوری 1997 کو لاھور سیشن کورٹ پیشی کے سلسلہ میں گئے جہاں ملک دشمن ، دشمنان اصحاب رسولؐ نے آپ کو اپنے ناپاک عزائم کا نشانہ بناتے ہوئے بم دھماکے سے آپ کے اوپر حملہ کیا جس سے 50 کے قریب پولیس اہلکار شہید ہوئے اور اسی دھماکہ میں مولانا ضیاء الرحمان فاروقی صاحب بھی شہید ہو گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون مولانا فاروقی شہید رحمہ اللہ کے بعد بلاشبہ سپاہ صحابہ کی قیادت میں وہ خلا پیدا ہوا جو رہتی دنیا تک پورا نہیں ہو سکے گا۔ 20 سال قبل حکومتی تحویل میں نشانہ بننے والے عالم دین کا خون آج بھی ریاست پر قرض ہے مولانا ضیاء الرحمان فاروقی شہید کی آج شھادت کا دن ہے ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ ہم مولانا فاروقی شہید رح کے دیے گئے نظریہ سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے ہم مرمت سکتے ہیں لیکن شہدا کے دیے گئے مشن سے روگردانی نہیں کر سکتے ہماری دعا ہے کہ اللہ مولانا فاروقی شہید رحمة اللہ کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کے رستہ پر چلنے والا بنائے ( حافظ ارشد)

Maulana Salim Qasmi / جانشینِ حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی رحمۃ اللہ علیہ

جس کا دھڑکا تھا، آخر وہ گھڑی آہی گئی، دو تین روز زندگی اور موت کی کشمکش میںگزار کے ۲۶؍رجب المرجب کی دوپہر حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحبؒ اپنے مالک حقیقی سے جاملے اور برصغیر میںعلمی روایت کے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا ۔
آپ کی ولادت باسعادت ۱۳۴۴ھ/۱۹۲۶ء کو دیوبند میں ہوئی تھی۔ اس طرح آپ نے ۹۵ سال اس دارِ فانی میں گزارے۔ ۱۳۵۱ھ/۱۹۳۲ء میں علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ( متوفی: ۱۹۳۳ئ) نے آپ کی بسم اللہ خوانی کرائی تھی۔ علاوہ ازیں آمدنامہ جیسی ابتدائی فارسی کتاب کے چند اسباق بھی آپ کو پڑھائے تھے ۔ ( اس کا تذکرہ مولانا اور آ پ کے رفیق مولانا انظر شاہ کشمیری مرحوم بھی کیا کرتے تھے)۔ البتہ آپ کی باقاعدہ تعلیم کا آغاز پیر جی شریف گنگوہی ؒسے ہوا تھا ۔ علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھنے والا طبقہ آپ پر اختتام پذیر ہوا۔
آپ نے حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے ۱۳۶۲ھ میں میزان کے اسباق پڑھے تھے، اب حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ سے باقاعدہ سبق لینے والااس دنیا میں کوئی باقی نہیں رہا، اس طرح آپ حضرت حکیم الامت ؒ کے آخری شاگرد ثابت ہوئے۔ حضرت تھانویؒ کو دیکھنے والوں میں اب شاید صرف حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم بقید حیات ہیں۔ اللہ آپ کا سایہ تادیر اُمت پر باقی رکھے ۔
دارالعلوم دیوبند سے آپ کی فراغت ۱۳۶۷ھ/۱۹۴۸ء کو ہوئی، یہاں آپ کو علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ، شیخ الادب مولانا اعزاز علیؒ، شیخ التفسیر مولانا فخر الحسن رحمۃ اللہ علیہم جیسے اساطینِ علم کی شاگردی حاصل ہوئی۔ اس دوران مختلف اوقات میں مولانا سید اسعد مدنیؒ، شیخ الحدیث مولانا محمد سلیم اللہ خانؒ، مولانا سید محمد رابع حسنی ندویؒ، اور مولانا مفتی عتیق الرحمن نعمانیؒ جیسے ملتِ اسلامیہ کے آسمان کے چاند اور تارے آپ کے شریکِ درس رہے ۔
مولانا کی شہرت حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند ارجمند کی حیثیت سے رہی۔ دنیا نے آپ ہی کو حضرت حکیم الاسلامؒ کا جانشین مانا ۔ یہ بات دنیا جانتی ہے کہ حضرت حکیم الاسلام بانی دارالعلوم دیوبند کے پوتے، اور آپ کے علم و حکمت کے امین تھے ۔ شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ اور شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیر یؒ، حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ اساطینِ علم سے کسبِ فیض کیا تھا۔ آپ نے مولانا حبیب الرحمن عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں نائب مہتمم کی حیثیت سے ۱۳۴۱ھ سے ۱۳۴۸ھ تک آٹھ سال خدمات انجام دیں، اور آپ کی رحلت کے بعد {۵۳} سال تک مسلسل دارالعلوم کے اہتمام پر فائز رہے۔ آپ کے دورِ اہتمام میں آپ کے اساتذہ کرام کی ایک بڑی تعداد دارالعلوم میں منصبِ تدریس و تربیت پر پائی جاتی تھی۔ یہ دارالعلوم کا زریں دور شمار ہوتا ہے، اس دور میں دارالعلوم نے عالمی شہرت پائی، اور یہ ادارہ ازہرِ ہند کی حیثیت سے متعارف ہوا۔ اس شہرت میں جہاں اس ادارے سے وابستہ اور تدریسی خدمات پر فائز اکابرین کی قربانیاں شامل ہیں، وہیں عامۃ الناس میں اسے مقبول بنانے اور اس کی دعوت و فکر کو عام کرنے میں آپ کے اسفار اور خطبات نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے، لہٰذا بانی دارالعلوم کے بعد آپ کو معمارِ ثانی کہا گیا ۔
حضرت حکیم الاسلام ؒ اپنے دور کے عظیم ترین خطیب شمار ہوتے تھے، ہما شما کا کیاذکر مولانا عبدالماجد دریابادی ؒ جیسے علم و ادب کے مینار نے آپ کو اپنے دور کا سب سے بڑا خطیب قرار دیا تھا۔ قاری صاحب کی خطابت دھیمی آنچ کی طرح تھی، اس میں اُتار چڑھاؤ کم ہی ہوتے تھے، ایک بہتا دریا تھا جو بغیر روک ٹوک آگے ہی بڑھتا چلا جاتا تھا ۔ اس میں نہ چیخ اور دھاڑ ہوتی تھی، نہ راگوں کا الاپ، لیکن زبان تھی کہ رکتی نہیں تھی، الفاظ ایسے نکلتے جیسے پھول جھڑ رہے ہوں ۔ تین چار گھنٹے کے خطاب میں جملوں کی تکرار شاذو نادر ہی ہوتی ۔ تشریح ایسی کرتے کہ عوام کے سامنے مشکل سے مشکل مسائل پانی ہوجاتے۔
ایک زمانہ تھا کہ عروس البلاد ممبئی میں بدایون، مارہرہ، اور بریلی کے واعظوں کا غلبہ ہوا کرتا تھا، کسی صحیح العقیدہ عالم کی مجال نہیں تھی کہ یہاں بیانات کرے ۔بڑوں سے سنا کہ جب یہاں پہلے پہل قاری صاحب کے بیانات رکھے گئے تو سارے شہر میں مخالفین کے پوسٹر لگ گئے کہ شیطانوں کا سردار آرہا ہے، اس زمانے میں ممبئی میں پشاوری اور افغانی پٹھانوں کی بڑی تعدا د آبا د تھی، پھلوں اور میووں کی تجارت کے علاوہ ان میں خاصی بڑی تعداد جرائم پیشہ افراد کی بھی تھی، جو اُکسانے پر مرنے مارنے کے لیے آمادہ ہوجاتی تھی، منفی پبلسٹی سے متاثر ہوکر شیطان کے سردار کا توڑکرنے کی غرض سے ایسا ہی ایک پٹھان قاری صاحب کی مجلس میں لٹھ لے کر پہنچا، وہاں آپ کی ملکوتی شخصیت نے اسے ہکا بکا کردیا، آپ کے منہ سے پھول جیسے بول جھڑتے دیکھ کر اس کی زبان گنگ ہوگئی، اس نے وہیں نہ صرف علی الاعلان توبہ کی، بلکہ اُلٹے آپ کے لیے مرنے مارنے پر تیار ہوگیا۔ اس طرح شقی سے شقی لوگ آپ کی دعوت سے متاثر ہوتے رہے ۔ پھر تو ممبئی میں مسلک دیوبند کے خطیبوں اور عالموں کا ایک ریلا لگ گیا، اور آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مولانا ابو الوفاء شاہ جہاںپوریؒ، اور مولانا قاری ودود الحی نفیس لکھنویؒ، اور جناب پالن حقانی ؒنے تو یہاں کا نقشہ ہی بدل دیا ۔
حضرت حکیم الاسلام رحمۃ اللہ علیہ ایک عرصہ تک رمضان المبارک میں بھنڈی بازار کی نواب ایاز مسجد میں درسِ قرآن دیا کرتے تھے، آپ کے ایک مرید خاص صوفی عبد الرحمن مرحوم نے انہیں ریکارڈ کرنے کا اہتمام کیا تھا، اور آپ کے پانچ سو {۵۰۰} تفسیر قرآن کے دروس محفوظ کیے تھے، جنہیں آپ سے جنوبی افریقہ کے ایک بزرگ مولانا محمد اسماعیل کتھرادا صاحب بڑی ریل سے چھوٹے کیسٹوں میں منتقلی کے وعدے کے ساتھ ۱۹۸۵ء کے آس پاس لے گئے تھے۔ صوفی صاحب نے حضرت کی رحلت کے بعد حکیم الاسلام اکیڈمی کے نام سے ایک ادارہ بھی قائم کیا تھا، اور وہاں سے کئی ایک سورتوں کی تفسیر بھی شائع کی تھی۔ اگر یہ ذخیرہ دستیاب ہوجائے اور اس پر محنت کی جائے تو اردو لٹریچر میں علوم قرآن کے ایک عظیم ذخیرے کا اضافہ ہوسکتا ہے ۔ حضرت کی زندگی ہی میں اس ناچیز نے آپ کی تقاریر کی ریکارڈنگ کی تلاش اور ان کی حفاظت کی درخواست کی تھی، اور ذرہ ذرہ کرکے آپ کے ڈھائی سو کے قریب خطبات کے کیسٹ جمع کیے تھے ۔ ا ن کیسٹوں کی فہرست سازی اور ایک دوسرے سے انہیں نمایاں کرنے اور پہچان کی غرض سے خطبہ کے شروع کی آیت یا حدیث کو بنیاد بنایا تھا، ہمارے جمع کردہ یہ خطبات ۱۹۶۰ء سے رحلت تک تقریباً بیس سال کے عرصہ پر محیط تھے، اور یہ انگلستان، افریقہ، بھارت، پاکستان اور ملکوں ملکوں کی مجالس پر پھیلے ہوئے تھے۔ اس کوشش کے دوران ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب یہ انکشاف ہوا کہ ان میں سے ہر خطبے کا آغاز الگ الگ آیت یا حدیث سے ہوا تھا، خطبہ کے آغاز میںان کی تکرار شاید ایک یا دو خطبات ہی میں پائی گئی تھی ۔ یہ تھے علم و حکمت کے بحر بے کراں جن کی جانشینی حضرت مولانا محمد سالم قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کے حصے میں آئی تھی۔
اپنے والد ماجد کے دورِ اہتمام میں ۱۹۴۸ء سے بتیس سال تک دارالعلوم میں آپ نے بحیثیت مدرس خدمات انجام دیں، اس دوران آپ اپنے والد ماجد کا سایہ بن کررہے، اور آپ سے فیض حاصل کرنے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ تصوف کی راہ میں آپ نے پہلے حضرت مولانا عبد القادر رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ کی ہاتھوں پر بیعت کی، آپ کی رحلت کے بعد حضرت حکیم الاسلام کے خلیفہ اور مجازِ بیعت ہونے کا شرف حاصل ہوا، اس طرح آپ علوم نانوتویؒ کے جسمانی اور روحانی امین بن گئے ۔
دارالعلوم کے جن طلبہ نے آپ کو دورانِ طالب علمی دیکھا ہے، ان کی گواہی ہے کہ مولانا کے دروس حشو و زوائد سے پاک ہوا کرتے تھے۔ پابندیِ وقت کا آپ بہت خیال رکھتے تھے، اور اسباق بڑے دلنشین انداز میں پڑھاتے تھے۔ آپ کی تدریس کے پینتیس(۳۵) سالہ دور میں آپ سے فیض پانے والے علماء میںسے بہت سارے آسمانِ علم کے چاند تارے بن گئے۔ ان شخصیات میں دارالعلوم کے موجود ہ شیخ الحدیث حضرت مولانا سعید احمد پالن پوری صا حب کی نسل کے اساتذہ بھی پائے جاتے ہیں۔ مولانا تعلیم و تعلم کے آدمی تھے، آپ کے دروس سیاست اور پارٹی بازی سے پاک ہوا کرتے تھے۔
آپ کی زندگی میں سب سے کٹھن وقت اس وقت آیا جب آپ کے والد ماجد کے ساتھ آپ کو بھی اپنے آباء و اجداد کے قائم کردہ گہوارۂ علم سے الگ ہونا پڑا، یہاں آپ نے بولنا سیکھا تھا، اس سایہ دار درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں زندگی کے پچپن سال گزارے تھے، آستانۂ قاسمی اس کے سامنے ہی واقع تھا، اس وقت دل پر کیا گزرتی ہوگی جب آپ پر اس کے دروازے بند کر دیئے گئے ہوں ۔ اللہ کا شکر ہے آنکھ بند ہونے سے پہلے گلے شکوے دور کر کے اس دنیا سے اُٹھے۔ جب جنازہ اٹھا تو دل کدورتوں سے پاک تھا ۔ ویسے آپ نے اپنے خالق کے سوا بندوں کا گلہ شکوہ کسی سے کیا ہی کب تھا ؟! آپ توعفتِ لسانی کا نمونہ تھے ۔
مولانا خوش قسمت تھے جو آنکھیں بند ہونے سے پہلے پہلے روشن سورج کی طرح حضرت حکیم الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کی فراست، اور فیصلوں کی درستگی کا ثبوت دیکھ گئے۔ آج سے نصف صدی پیشتر اپنے دورِ اہتمام میں حضرت قاری صاحب نے دارالعلوم کے بعض اساتذہ کی جماعتی اور گروہی سرگرمیوں اور اس کے لیے جوڑ توڑ کو دیکھتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ وہ دو کشتیوں میں پاؤں نہ رکھیں۔ تدریس اور جماعتوں کے عہدوں میں سے کسی ایک کاانتخاب کریں ۔ بعضوں کو یہ بات پسند نہیں آئی، انہوں نے تدریس پر پارٹی مفادات اور عہدوںکو ترجیح دی، اور حضرت قاری صاحب کے خلاف جوڑ توڑ شروع کی جو دارالعلوم کے انتشار پر منتج ہوئی۔ اس انتشار کے تیس سال بعد تاریخ نے خود کو دہرایا، اب کی بار شوریٰ نے ناظم تعلیمات اور نائب مہتمم کو نوٹس جاری کیا کہ وہ اپنی جماعت کی صدارت یا دارالعلوم کے عہدے میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔ بات یہاں تک نہیں رکی، بلکہ شوریٰ نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے دوسری ایک ایسی جماعت کی سرگرمیوں پر دارالعلوم کے احاطے میں پابندی عائد کردی جس کے بارے میں عام خیال تھا کہ اس نے دارالعلوم کے بطن سے جنم لیا تھا ۔ اس طرح حضرت حکیم الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کا پیغام کہ اساتذہ اور طلبہ کو اولین ترجیح تعلیم و تدریس کو دینی چاہیے، اور اس کے لیے یکسوئی اور تن دہی سے اپنی صلاحیتیں صرف کرنی چاہئیں، اسی یکسوئی سے دیوبند نے وہ علمائ، فقہاء اور محدثین پیدا کیے تھے جن پر بجا طور پر مسلمانانِ ہند کو فخر حاصل ہے ۔ یہی موقف حضرت حکیم الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کے پیر و مرشد حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی تھا۔ جب حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کو محسوس ہوا کہ دارالعلوم پر جذباتی پارٹی بندی کا غلبہ ہورہا ہے اور اس رویہ کی اصلاح آپ کی دسترس سے باہر ہے تو دارالعلوم کی سرپرستی سے کنارہ کش ہوگئے ۔
حضر ت حکیم الاسلام رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا محمد سالم صاحب کے دلوں پر دارالعلوم سے نکلنے کے بعد اس کے بالمقابل ایک دوسرے دارالعلوم کا قیام بہت شاق گزر رہا تھا، اور ایک عرصہ تک اس پر دل بھی آمادہ نہیں ہورہا تھا، لیکن حضرت مولانا انظر شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے احباب کے اصرار پر کچھ عرصے بعد ۱۴۰۳ھ/۱۹۸۲ء میں علم دین کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ان پر جو انعام کیا تھا، اس کے فیض کو عام کرنے کے لیے ایک نئے ادارے وقف دارالعلوم دیوبند کی تاسیس میں شریک ہوئے، اور تادم واپسیں ۳۶؍ سال تک اپنے والد ماجد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے علم دین اور دعوت کی خدمت انجام دی۔اللہ کی ذات حکمت والی ہے، انتشار میں بھی منفعت کی راہ نکل آئی، آج وقف دارالعلوم بھی اپنے اصل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دیوبندکی دوسری آنکھ بن گیا ہے، روز بروز ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور اس سے فیض کا سلسلہ جاری و ساری ہے ۔
ہمار ا قصبہ بھٹکل، شمالی ہند سے دور ایک کنارے پر ہونے کے باوجود بڑا خوش قسمت رہا ہے ۔ یہاں کے باشندگان کو علمائے دین سے ایک گونہ تعلق رہا۔ یہاں کی شخصیات میں سے اسماعیل کوبٹے مرحوم کو حضرت حکیم الاسلام سے بڑا پرانا تعلق تھا، آپ ہی کی رہنمائی میں آپ نے ہبلی میں انجمن درسِ قرآن قائم کی تھی اور اسے مستحکم کرنے اور اسے باقاعدہ دارالعلوم کی شکل دینے کی غرض سے مبلغِ دیوبند مولانا ارشاد احمد مرحوم کے برادر مولانا ریاض احمد فیض آبادی مرحوم کو سن پچاس کی دہائی میں حضرت حکیم الاسلام ؒ نے بھیجا تھا۔ اس دوران ہبلی میں مسلمانوں کے قبرستان میں قادیانیوں کی تدفین کا قضیہ اُٹھا، مولانا ریاض احمد نے تحریک چلائی، اور مقدمہ کی پیروی کی، جس کے نتیجہ میں تاریخ میں پہلی بار کسی کورٹ نے قادیانیوں کے کافر ہونے کا فیصلہ صادر کیا۔ یہ فیصلہ غالباً ۱۹۵۷ء میں صادر ہوا تھا۔ یہی انجمن درسِ قرآن بعد میں ریاض العلوم بن گیا ۔ حضرت حکیم الاسلام اور مولانا محمد سالم صاحبان ان دنوں ہبلی سے ہوتے ہوئے پہلی مرتبہ بھٹکل تشریف لائے تھے۔ ویسے بھٹکل والوں میں الحاج محی الدین منیری اور ڈاکٹر علی ملپا مرحوم سے آپ کے دیرینہ تعلقات تھے۔ منیری صاحب کی انجمن خدام النبی ، حج کمیٹی ممبئی سے وابستگی نے بھی ان تعلقات کو مضبوط تر کیا تھا، اور چونکہ اس زمانے میں اہل بھٹکل کی بہت بڑی تعداد بھنڈی بازار اور خاص کر مسجد اسٹریٹ میں اقامت پذیر تھی تو حضرت حکیم الاسلا م ؒ اور مولانا محمد سالم قاسمی رحمۃ اللہ علیہ سے انہیں براہ راست استفادے کا موقع ملا ۔ ۱۹۷۶ء میں ایمرجنسی کے دور میں حضرت حکیم الاسلامؒ بھٹکل تشریف لائے تھے۔ مایوسی کے اس دور میں مدارسِ دینیہ کی بقا کے موضوع پر آپ کا خطاب الہامی حیثیت رکھتا ہے، مدارسِ دینیہ سے وابستہ افراد کو اسے بار بار سننا چاہیے ۔
وقف دارالعلوم پر ابتدا میں بڑا کڑا وقت آیا، ایک طرف مخالف پروپیگنڈہ، وسائل محدود، بنیادی طور پر مولانا سالمؒ کا مزاج بھی چندے والوں کا نہیں تھا ۔ نوزائیدہ ادارے سے مربوط ہونے والے زیادہ تر افراد بزرگ اور ریٹائرڈ عمر کو پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے اپنا خون نچوڑ کر اپنے مادر علمی کو دے دیا تھا، لیکن ان کی جسمانی قوت ان کے بلند حوصلوں کا ساتھ نہیں دے پارہی تھی۔ خود مولانا بھی اس وقت ۶۰؍ کے پیٹے میں تھے، ادارے قائم کرنے اور چلانے کے لیے نوجوان خون کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اللہ نے ہمت دی تھی، توفیق الٰہی ساتھ ساتھ چلتی رہی، نیتیں نیک تھیں، مقصد صالح تھا، اللہ نے رکاوٹوں کو دور کیا ۔اسی پریشانی کے عالم میں مولانا سے ہماری پہلی ملاقات ۱۹۹۸ء میں دبئی میں ہوئی ہوئی تھی ۔ اس وقت یہاں پر بھٹکلی احباب میں سے مظفر کولا صاحب، اور حضرت حکیم الاسلامؒ کے مخلص مریدعزیز الحق بنگالی مرحوم جو ممبئی میں اپنی تجارت کو لپیٹ کر پیرانہ سالی میں اب یہاں جد وجہد کررہے تھے، اور پھر حاجی عبد الرزاق رصاصی مرحوم نے آپ کا خیال رکھا۔ مولانا کی اس رفاقت میں آپ کی شگفتہ مزاجی کا احساس ہوا۔ دور سے جو زاہد خشک نظر آتے تھے، ان کی مجلسوں کا رنگ ہی الگ تھا۔ ادبی ذوق رگ و پئے میں بھرا ہوا تھا، برجستہ اشعار ا یسے بیان کرتے کہ دوسرے اکابرین میں اس کی دوسری مثال شاید باید ہی ملے۔ ہماری آواز کے ذخیرے سے بہزاد لکھنوی، ماہر القادری، جگر مرادآبادی کا کلام سن کر جھوم اُٹھتے ۔ یہ ذوق غالباً نسل در نسل آپ میں منتقل ہوا تھا، کیونکہ آپ کے والد ماجد تقریر میں جو زبان استعمال کرتے تھے، لسانیات کے جو نکتے بیان کرتے تھے، اور اس میں جو سلاست اور فصاحت ہوا کرتی تھی، یہ خون میں ادبی ذوق سرایت کیے بغیر ممکن نہیں تھا۔ ویسے آپ کی ہمشیرہ اور مایہ ناز صحافی مولانا حامد اللہ انصاری غازی کی اہلیہ ہاجرہ نازلی کا شمار اردو کی بہترین ناول نگار خواتین میں ہوتا ہے ۔
مولانا اپنے دوستوں، ساتھیوں اور شاگردوں کے ستائے ہوئے تھے۔ دارالعلوم کے تنازعے میں اور وقف کے قیام کے بعد ذہن و دماغ پر بہت زیادہ بوجھ پڑگیا تھا، لیکن مجال تھی جو حرفِ شکایت زبان پر لاتے ۔ کئی بار مولانا کے ساتھ رہنے کا موقع ملا، بڑا بے تکلفانہ ماحول ہوتا، بات چیت میں اپنائیت کا احساس ہوتا۔ اس دوران آپ کی غیبت کرنے والوں کا تذکرہ کسی چاہنے والوں سے آتا، لیکن کیا مجال تھی جو کبھی آپ کی زبان حرفِ شکایت سے داغدار ہو جائے۔ یہ آپ کے کردار کی عظمت تھی، جس نے آپ کو ہمیشہ سربلند رکھا۔ بلندیِ کردار کے ایسے نمونے اب اہل علم میں ناپید ہوتے جارہے ہیں ۔آپ کے ساتھ جو کچھ برا ہوا، انہوںنے اسے بھلا دیا تھا۔ مولانا اسعد مدنی مرحوم سے بسترِ مرگ پر جاکر ملے اور دلوں کو صاف کرنے میں پہل کی۔ مولانا غلام محمد وستانوی کی جگہ پر اہتمام کی ذمہ داری اور جمعیت کے آپسی اختلافات کے بعد بحیثیت صدر آپ کے انتخاب کی کوششوں کو آپ نے قبول نہیں کیا، جس سے محسوس ہوتا ہے کہ دارالعلوم میں جو تنازعہ پیدا ہوا تھا اس کی اساس جاہ و منصب کی خواہش نہیں تھی، وہ ایک اصولی بات تھی جس سے تادم واپسیں آپ نے منہ نہیں موڑا۔ یہ آپ کے اخلاص کی نشانی تھی ۔مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت کے بعد صدارت کے لیے ووٹنگ ہوئی تو مولانا سالم اور مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی صاحب کو یکساں ووٹ ملے، لیکن آپ نے مولانا سید محمد رابع صاحب کے حق میں پلا وزنی کرکے انہیں بورڈ کا صدر بننے میں کردار ادا کیا ۔
ایک طویل عرصے سے ان کے پاؤں کمزور ہوگئے تھے، چلنا پھرنا ممکن نہیں رہا تھا، بڑھتی عمر کے ساتھ بیماریاں بھی سایہ فگن رہتیں۔ بیماریوں کا کوئی بھروسہ نہیں تھا کہ کب حملہ آور ہوں، لیکن ملت کے مفاد میں جب تک سا نس چلتی رہی ہمیشہ رختِ سفر باندھے رکھا۔
اس حالت میں بھی مسلم پرسنل لا بورڈ کے ایک دن کے اجلاس میں شرکت کے لیے پورے دن کا سفر طے کرکے کئی ایک اسٹیشن اور ہوائی اڈے تبدیل کرکے بھٹکل پہنچتے ہم نے بھی دیکھا، اور پیرانہ سالی کی اس ہمت کو دیکھ کر دنگ رہ گئے۔
مولانا اپنے والد ماجد حضرت حکیم الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کے حقیقی جانشین واقع ہوئے تھے۔ تقریر بڑی دل نشین کرتے تھے، جوانی میں انداز میں ٹہراؤ تھا۔ لیکن آخر آخر میں بولنے کی رفتار میں کچھ تیزی محسوس ہوتی تھی، لیکن علم و حکمت کی باتیں وہی ہوا کرتیں، فصاحت و سلاست میں بھی وہی حسن پایا جاتا تھا ۔
مولانا نے ایک طبعی عمر گزار کر داعی اجل کو لبیک کہا۔ مولانا اب اس بارگاہ میں پہنچ گئے ہیں، جہاں سے واپس کوئی نہیں آتا، لیکن جب جانے والی کی جگہ پرنہ ہو، خلا بھرنے کی کوئی آس نہ ہو، اور زمانے کو ان کی ضرور ت پہلے سے زیادہ محسوس ہوتو کیسے ممکن ہے کہ وہ دلوں میں زندہ نہ رہیں۔ ستر سال تک جن کے سامنے ایک کثیر تعداد افراد نے زانوئے تلمذ تہ کیا ہو، اور ان کی جلائی ہوئی شمعوں کی لوسے لاکھوں شمعیں جل اُٹھی ہوں اوران سے چار دانگِ عالم میں علم کی روشنی پھیل گئی ہو آخرایسی شخصیت کے حق میں دعا کے لیے ہاتھ کیوں نہ اٹھیں گے؟! اللّٰھم اغفرلہ وارحمہ ، آمین ۔

Maulana Riyasat Ali Hajnori / استاذ حدیث حضرت مولانا ریاست علی بجنوری

23/ شوال1438ھ مطابق 20/مئ2017ء سالانہ چھٹی میں اپنے وطن پہنچا تو اسی دن ایک صاحب نے خبر دی کہ دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث حضرت مولانا ریاست علی بجنوری کا انتقال ہو گیا ہے ،خبر چوں کہ توقع کے بالکل خلاف تھی، اس لیے جلدی یقین نہیں آیا ، سفر میں ہونے کی وجہ سے واٹس ایپ بند تھا ، خبر سن کر واٹس ایپ کھولا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ہر گروپ میں یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل رہی ہے ، فون پر بعض احباب سے معلوم کیاتوپتہ چلا کہ معمولی علالت کے بعد آپ اس دنیائے آب و گِل سے رخصت ہوگئے اور پوری قاسمی فضا مغموم کرگئے ،دارالعلوم دیوبنداور ان سے منسلک تمام اداروں پرغم کاسناٹاچھاگیا،آپ کے چلے جانے سے نہ صرف دارالعلوم کے بام و در سکتے میں تھے ؛بلکہ امت کا بہت بڑا طبقہ افسردہ تھا، لیکن کیا کیجیے قضا و قدر پر کس کی اجارہ داری ہے اور موت سے کس کو رستگاری ہے؟ ہر ایک کو مٹی کی چادر تان کر ملک بقا کا سفر کرنا ہے #
اجل نے نہ کسری ہی چھوڑا نہ دارا
اسی سے سکندر سا فاتح بھی ہارا
واقعہ یہ کہ جانے والا اپنی طبعی عمر پوری کرکے سفر آخرت کی طرف کوچ کرجاتا ہے ،لیکن جانے والے میں بہت سے ایسے ہوتے ہیں جن کی یادیں بار بار آتی ہیں ؛بلکہ ستاتی اور رلاتی ہیں ، جن کی روشن زندگی ان کے تاریک کوٹھری میں چلے جانے کے بعد بھی روشنی بکھیرتی ہیں ، ستاروں کے مانند ان کی حیات مستعار ان کے رحلت کرجانے کے بعد بھی منزل کا پتہ دیتی ہے، جن کے کردارو عمل کی بلند حوصلگی ان کے روپوش ہوجانے کے بعد بھی عزم و استقامت کی تعلیم دیتی ہے ،جن کی زبان کی لطافت و شیرینی اور شفقت و پیار کی حلاوت برسوں تک شیرہ کا کام کرتی ہے اور احساسات کو تازگی و فکر وعمل کو تابندگی عطا کرتی ہے ،جن کا اخلاص و تقوی اور زہد و استغنا جینے کا قرینہ سکھلاتا ہے ،انہی خلوص و وفا اور کردار و عمل کے ایک مجسم کا نام مولانا ریاست علی بجنوری ہے ۔
گلستان دارالعلوم میں جن پھولوں سے ہر طرف خوش بو پھیل رہی ہے ان ہی پھولوں میں سے ایک پھول آپ تھے ؛بلکہ گل سر سبد تھے ،دارالعلوم کے بام و در کو جن قمقموں کی روشنی نے پر نور بنا رکھا ہے اور مناسب اور معتدل روشنی سے فکر و اعتدال کی جو شمع روشن ہے اس کے جھومر آپ تھے ، تحریک دارالعلوم کی موجودہ عمارت جن ستونوں پہ قائم ہے اس کے ایک ستون آپ تھے ،اس لیے اگر کہا جائے کہ آپ کے چلے جانے سے برقی قمقموں کی روشنی ماند پڑگئی ہے ، باغیچے کے پھول مرجھاگئے ہیں ،ایک مضبوط ستون کے گر جانے سے ایک خلا سا پیدا ہوگیا ہے تو شاید کوئی مبالغہ نہیں ہے ،یہ اور سی بات ہے کہ اللہ تعالی چمنستان قاسمی کی آبیاری فرماتا رہے گا ،اور عمدہ سے عمدہ پھول اس گلستاں کو سدا بہار رکھیں گے ،اسلام کے فکر و اعتدال کا یہ کوہ ہمالہ قیامت تک کے لیے ہے، علم و فن کا یہ مضبوط قلعہ ہر دور میں اقبال کامرد مومن اور اسلام کی علمی و فکری سرحد کامرد مجاہد پیدا کرتا رہے گا لیکن جانے والے کی یاد تو ضرور آئے گی ،ان کی شفقت ،رس گھولتی اوردل کو چھولیتی ان کی باتیں ،تکلف و تصنع سے خالی ان ادائیں ، ان کی مسکراہٹیں ان کے چاہنے والو ں کو غم کے کچوکے دیتی رہے گی #
روشن شب حیات کے مہتاب کی طرح
آتی ہے ان کی یاد حسیں خواب کی طرح
ممکن نہیں ہے ان سے زمانہ ہو بے نیاز
وہ تھے جہاں میں گوہر نایاب کی طرح
مولانا ریاست علی ظفر بجنوری علم و فن کے آفتاب عالم تاب تھے ، فن حدیث کے روشن مینار تھے ،ریاست علم و ادب کے تاج دار تھے ،وہ ہمہ گیر ہمہ جہت صلاحیت کے مالک تھے ،ان کی فکر میں اعتدال کے ساتھ آفاقیت تھی، اللہ تعالی نے علم وادب کے قیمتی گوہر سے مالا مال کیا تھا اور مختلف علوم و فنون میں ملکہ عطافرمایا تھا ؛لیکن انہوں نے حدیث کی خدمت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا اور حدیث کا درس دیتے اور حدیث کی شرح لکھتے ان کی روح قفس عنصری کو پرواز ہوئی۔ یہ یقینا خاتمہ بالخیر کی طرف اشارہ ہے۔ علامہ شبلی نعمانی نے اپنے تعلق سے ایک شعر لکھا تھا، جو یہاں موزوں معلوم ہوتا ہے #
عجم کی مدح کی عباسیوں کی داستاں لکھی
مجھے چندے مقیم آستان غیر ہونا ہے
مگر اب لکھ رہا ہوں سیرت پیغمبر خاتم
خدا کا شکر ہے یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا
ربع صدی سے زائد عرصے تک انہوں نے حدیث کا درس دیا ، ہزاروں تلامذہ پوری دنیا میں ان کی روشن تعلیمات کی روشنی بکھیر رہے ہیں، جو ان کے لیے بہترین صدقہ جاریہ ہے ،آپ مولانا فخرالدین صاحب سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کے شاگرد خاص تھے اور حدیث میں انہی کے رنگ وآہنگ کی پیروی کرتے تھے،” ایضاح البخاری “کے نام سے آپ بخاری کی شرح لکھ رہے تھے، جو کہ مولانا فخر الدین کے افادات کا مجموعہ ہے، یہ شرح بخاری کی اردو میں سب سے جامع اور مبسوط شرح ہے، اس کی دس جلدیں طبع ہو کر قارئین کی آنکھوں کا سرمہ بن چکی ہیں ،خدا کرے کہ باقی جلدوں کے منظر عام پر آنے کا سامان پیدا ہو۔
مولانا موصوف کی زندگی پرایک نظر ڈالیے۔ جو چیز سب سے زیادہ ان کی زندگی میں نمایاں اور ابھر کر سامنے آتی ہے وہ ہے ان کی متواضعانہ طرز زندگی ، ہر جگہ دیکھیے ، بڑوں کے ساتھ ، چھوٹوں کے ساتھ ، اپنوں کے ساتھ ، پرایوں کے ساتھ، نجی محفل میں یا پھر سیمینار اور کانفرنس میں، ہرجگہ تواضع و وخاک ساری آپ کا خاص وصف دکھائی دیتا ہے، آپ طلبہ کے ہجوم میں بھی اس طرح چلتے جیسے کوئی طالب علم جا رہا ہو، غیر شناسا شخص آپ کے حلیے سے کبھی آپ کو نہیں پہچان سکتا تھا، احقر نے فراغت کے بعد گھر پر بھی آپ سے ملاقات کی تو آپ کا یہی وصف نوٹ کر پایا اور دو مرتبہ جمعیة العلماء ہند کے زیر اہتمام ہونے والے مباحث فقہیہ کے پروگرام میں آپ سے ملاقات کی تو آپ کی یہی صفت دل کو دستک دیتی ہوئی نظر آئی ۔مباحث فقہیہ کا گیارہواں اجلاس دارالعلو م حیدرآباد میں ہوا تھا اور تیرہواں اجلاس مدراس کے حج ہاوٴس میں، ہر جگہ آپ کی تقریر ہوتی تھی، لیکن حیرت ہے ہرجگہ آپ نے اپنے خطاب میں یہی کہا کہ میں یہاں کچھ سیکھنے ،آپ کو سننے اور آپ لوگوں سے ملاقات کے لیے آتا ہوں ۔اندازہ لگائیے کہ دارالعلوم کی مسندپر چار دہائی تک درس دینے والا ، دارالعلوم کا موٴقر اور ممتاز استاذ کس سادگی سے کہتا ہے کہ میں تو آپ لوگوں کو سننے آتا ہوں!! واقعہ یہ ہے کہ اسی تواضع و خاک ساری کی صفت نے آپ کو بلندی کے اس عظیم منصب تک پہنچا دیا کہ آپ کے ملک عدم چلے جانے کے بعد آپ کا ہر شناسا آپ کا ذکر جمیل کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ آپ کی اس سادگی اور متواضعانہ زندگی کو دیکھ کر” من تواضع للہ رفعہ اللہ“ کی عملی تفسیر سامنے آجاتی ہے۔
مولانا موصوف بلند اخلاق و صفات کے حامل تھے ، طلبہ کے ساتھ شفقت و پیار ان کا خاص وصف تھا ، طبیعت میں سادگی اور نرمی تھی، ورع وتقوی ، خلوص و للہیت ،خوف وخشیت، انابت الی اللہ، ز ہد واستغنا آپ کا امتیاز تھا ،غم خواری و دلداری اور غرباء پروری ،آپ کی زندگی کا لازمہ تھا ،آپ سادگی کے پیکر مجسم تھے اور یہ سادگی آپ کے لباس ،چال ڈھال ،طرز زندگی اور رسم معاشرت سے ہویدا تھی ،سخاوت وفیاضی اور مہمان نوازی میں آپ معروف تھے ،سچ پوچھیے تو آپ خلیق و ملن ساراوربڑے نرم گفتار تھے ،اسی لیے اساتذہ، طلبہ اور ملنے والوں کاآپ کے مے خانے میں ہجوم لگا رہتا تھا #
ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانہ میں؟
فقط یہ بات کہ پیر مغاں ہے مرد خلیق !
آپ کا شمار دارالعلوم کے موٴقر اساتذہ میں ہوتا تھا ،آپ دارالعلوم کے مختلف موٴقر عہدوں کی زینت بن چکے تھے ،نائب مہتمم ، ناظم تعلیمات ، نگراں شیخ الہند اکیڈمی ، کے علاوہ آپ جمعیة العلماء ہند کے نائب صدر تھے ،آپ اپنی متوازن اور پختہ رائے کے لیے جانے جاتے تھے، دارالعلوم میںآ پ کی رائے اور فکر کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی اور اہم مشوروں میں آپ کی شرکت لازمی ہوا کرتی تھی، آپ کی فکرمیں اعتدال تھا اور اس اعتدال پر تصلب سے قائم رہتے تھے ،2010ھ کی بات ہے، دارالعلوم وقف میں فقہ اکیڈمی کا سیمینار ہو رہا تھا، عنوان تھا ”مدارس اسلامیہ میں فقہ کی تدریس منہج اور طریقہ کار “لیکن اس میں بہت سے شرکاء تبدیلی نصاب پر بحث کر رہے تھے،یہ وہ عنوان ہے جس میں ہندوستان کے بہت سے اہل علم ،مفکرین کی علیحدہ علیحدہ رائے ہے، خود دیوبند میں بھی ایسے ارباب فکر ہیں جو تبدیلی نصاب کے قائل ہی نہیں ؛بلکہ محرک ہیں، اس لیے گرما گرم بحث جاری تھی کہ موجودہ حالات میں نصاب کی تبدیلی نا گزیر ہے،اسی دوران حضرت الاستاذ کا نام پیش ہو گیا، آپ تشریف لائے اور بڑے ہی سنجیدہ انداز میں گفتگوکا آغاز فرمایا، جس کا حاصل یہ تھا ”کہ بھائی! نصاب میں جزوی تبدیلی تو ہوتی رہتی ہے، دارالعلوم میں پہلے بہت سی کتابیں پڑھائی جاتی تھیں اب وہ نہیں پڑھائی جاتی ہیں، جہاں تک مسئلہ ہے کلی تبدیلی کا یا عصری علوم کو شامل کرنے کا تو جب تک اس کا تجربہ نہ ہوجائے اس کے مفید یا مضر ہونے کا فیصلہ کیسے کیا جا سکتا ہے اس لیے جو لوگ تبدیلی کی بات کرتے ہیں وہ کوئی ادارہ قائم کرکے اس میں نئے نصاب کا تجربہ کرلیں، اگر مفید ثابت ہوا تو ہم بھی قبول کرلیں گے “آپ کا یہ تجزیہ اگر چہ الزامی تھا ؛لیکن اس وقت کے لیے یہی ضروری تھا، آپ نے اپنی گفتگو میں اپنا اور دارالعلوم کا موقف پیش کردیا کہ جو نصاب ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ہے اور جو لوگ تبدیلی کی بات کرتے ہیں پہلے وہ نیا نصاب لائیں اور اس کا تجربہ پیش کریں ، آپ کی اس تقریر کے بعد مولانا خالد سیف للہ صاحب رحمانی کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ حضرات! ہمارا یہ پروگرام نصاب کی تبدیلی سے متعلق ہے ہی نہیں، اس لیے موضوع کو دوسرے رخ کی طر ف نہ لے جائیں، اس طرح بات ختم ہو گئی ۔
حضرت کی معتدل فکر اور پختہ رائے کا اندازا ایک اور واقعے سے لگائیے، دیوبند میں جمعیة العلماء کا پروگرام ہو رہا تھا ،آپ کو مائک پر مدعو کیا گیا، آپ نے مختصر خطاب کیا، جس میں آپ نے فرمایا کہ” اسلام امن و اعتدال کا مذہب ہے اور دیوبندیت امن و اعتدال کا مسلک ہے “جملہ بہت مختصر ہے؛ لیکن اس میں دیوبندیت کی بھر پور ترجمانی ہے، آپ نے اس مختصر جملہ میں اس کی وضاحت فرمادی کہ قرآن نے اسلام کو امت وسط یعنی معتدل دین قرار دیا ہے اور دیوبندیت اسی راہ اعتدال پر گام زن فکر و نظر کا نام ہے ۔
اللہ تعالی نے آپ کو زبان و بیان اور قرطاس و قلم ہر دو کا تاج دار بنایا تھا ،بولتے تو چھوٹے چھوٹے جملوں کے ذریعہ سامعین پر سحر کرجاتے اور لکھتے تو قارئین پر وجد سا طاری ہوجاتا ،آپ دو سال تک ماہنامہ دارالعلوم کے مدیر رہے ،اس عرصے میں آپ نے متعدد مضامیں لکھے ،اس کے علاوہ بھی آپ کے قلم ژرف نگار سے متعددتحقیقی وتخلیقی مضامین تاریخ کی زینت بن چکے ہیں، آپ اردو کے انشاء پرداز ادیب تھے،” شوری کی شرعی حیثیت“ اور ”ایضاح البخاری“ کتابی شکل میں آپ کی تصنیفی خدمات میں دو عظیم شاہ کار ہیں، اس کے ساتھ آپ بلند پایہ شاعر تھے ،آپ نے شاعری کو اپنا مشغلہ نہیں بنایاتھا ،اس کے باوجود آپ کا شعری مجموعہ” نغمہ سحر “کے نام سے طبع ہوکر قبولیت حاصل کرچکا ہے ،یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس نے آپ کی شاعری کوعروج بخشا اور شاعر کی حیثیت سے آپ کو پوری دنیا میں متعارف کرایا وہ دارالعلوم کا ترانہ ہے، یہ ترانہ آپ کی فنی مہارت کا عملی نمونہ ہے، جب میں دارالعلوم آنے سے پہلے مدرسہ ریاض العلوم میں زیر تعلیم تھا تو وہاں اپنے ایک ساتھی کے پاس” دارالعلوم کاپی“ دیکھی، جس کی پشت پہ یہ ترانہ ثبت تھا ،سچ پوچھیے آپ کے دیدار سے پہلے اسی ترانہ کے ذریعہ آپ تک رسائی حاصل ہوئی اور اسی ترانہ نے آپ سے ملنے اور آپ کو دیکھنے کا شوق پیدا کیا ،ترانہ کیا ہے اردو ادب کا ابلتا دریا ہے ، جس کی تہ میں آپ کو لعل و گہر ہی ملیں گے،ترانہ پڑھیے تو ایسا لگتا کہ شاعر تاریخ کی سیر کرارہا ہے ، دیوبندیت کی تشریح کر رہا ہے، دارالعلوم کی خدمات کا تذکرہ کررہا ہے ، اکابر دیوبند سے روشناس کرارہا ہے، دارالعلوم کے کردارکی منظر کشی کر رہا ہے اور یہ سب کچھ الفاظ و تعبیرات اور نظم وقوافی کے بلند معیار پر اتر کرہورہا ہے ، جب ذکر ترانہ کا آہی گیا ہے تو چند اشعار پڑھ کر آپ بھی اپنے لب و دہن کو تازگی دیجیے اور اشعار کی چاشنی کا لطف اٹھائیے #
مہتاب یہاں کے ذروں کو ہر روز منانے آتا ہے
خورشید یہاں کے غنچوں کو ہر صبح جگانے آتا ہے
جو وادی فاراں سے اٹھی گونجی ہے وہی تکبیر یہاں
ہستی کی صنم خانوں کے لیے ہوتا ہے حرم تعمیر یہاں
کہسار یہاں دب جاتے ہیں طوفان یہاں رک جاتے ہیں
اس کاخ فقیری کے آگے شاہوں کے محل جھک جاتے ہیں
حضرت الاستاذگونا کوں صفات کے حامل تھے ، فکر و نظرکے بہت سے چشمے آپ سے ابلتے تھے ، علم و ادب کے بہت سے سوتے آپ سے نکلتے تھے ،شعر و شاعری ہو کہ قرطاس و قلم کی رفاقت ،زبان و بیان ہو یا فن حدیث کی مہارت، ہر جگہ آپ کی ایک الگ ہی شان تھی، یہ حقیر تو ہزاروں کی بھیڑ میں معمولی سا طالب تھا ،جس کی ان کے فضل و کمال تک کیا رسائی ہوسکتی تھی ؟ اور اس سب پر مستزاد یہ کہ میرے قلم میں وہ طاقت کہاں ہے جو ان کے حالات کی مکمل ترجمانی کرسکے #
یہ رمزی بے بصیرت ہے تیرے اوصاف کیا جانے
جو ہم رتبہ ہو تیرا وہ تیرے اوصاف پہچانے
اس لیے اپنی اس تحریر کو دارالعلوم دیوبند کے ایک موٴقر استاذ، ماہنامہ دارالعلوم کے مدیر حضرت مولاناسلمان صاحب بجنوری کے ایک اقتباس پر ختم کرتا ہوں جو مولانا موصوف کی علمی و فکری زندگی سے اچھی طرح واقف ہیں اور انہوں نے جو لکھا ہے الفاظ کی ذمہ داری کے ساتھ لکھاہے، وہ لکھتے ہیں
حضرت مولانا ریاست علی صاحب نوراللہ مرقدہ کی وفات دیوبند میں ایک عہد کا خاتمہ ہے ،ان کی ذات میں اللہ تعالی نے ایسے گونا گوں اوصاف جمع کردیے تھے جو کسی ایک فرد میں کم ہی جمع ہوتے ہیں، جس سے ان کی شخصیت میں جامعیت کی شان پیدا ہوگئی تھی،اگر آپ رسوخ فی العلم ،قوت استنباط ، دقت نظر، سلاست بیان ، فکر و تدبر، اصابت رائے ، سلامتی فکر،صبر وقناعت ، زہد و استغنا ء، تقوی و پاک دامنی ، جود و سخا ،غریب پروری و مہمان نوازی ،ادائے حقوق ، عالی حوصلگی و سیر چشمی ،خوش گفتاری و نرم خوئی، شفقت ومحبت و احساس ذمہ داری ،ذہانت و ظرافت، بھر پور خود اعتمادی کے ساتھ کامل تواضع ، قوت فیصلہ ،دور بینی ،دیانت و امانت ، اعلی تدریس وخطابت ،بے مثال نظم و نثر پر مثالی قدرت ، سلیقہ زندگی ،آداب مجلس کی رعایت اور سادگی و بے تکلفی کا مجسمہ نمونہ دیکھنا چاہیں تو وہ حضرت مولانا کی شخصیت تھی اور یقین فرمائیں کہ ان اوصاف میں کسی کا تذکرہ بھرتی کے لیے نہیں کیا گیا ؛بلکہ ان کی شخصیت کے طویل مطالعہ پر مبنی ہے ۔(ماہنامہ دارالعلوم شوال1438ھ)
اللہ تعالی مولانا کی خدمات کو قبول فرمائے، ان کے نقش پاکی پیروی نصیب فرمائے اور ان کے مشن ، تحریک،فکر اور ان کے ادھورے خوابوں کو تکمیل تک پہنچائے۔
گو خاک کی آغوش میں وہ مہر مبیں ہے
مومن کے لیے موت مگر موت نہیں ہے
نغمہ سحر ص :130

Mufti Shafi Usmani / مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی رحمہ اللہ

مفتی اعظم مولانا محمد شفیع دیوبندی رحمہ اللہ کا شمار ایسے علمائے حق میں ہوتا ہے جنہوں نے پوری زندگی علوم دینیہ کی خدمت اور امت مسلمہ کی اصلاح کے لیے صرف فرمائی۔
وہ نہ صرف مفسر عہد، مدبر عصر، عالم بے بدل، فاضل اجل، فقیہ دوراں اور محقق اعظم تھے، بلکہ راہ سلوک و تصوف کے بے مثل امام تھے اور شیخ کامل تھے، عالموں کے عالم اور اصحاب ارشاد کے صدرنشین تھے اور حقیقت میں ہمارے عظیم اسلاف کی یادگار تھے ان کی زندگی ہم سب کے لیے مشعل راہ اور نمونہ ہدایت تھی۔
ولادت و تعلیم
آپ ۲۰ اور ۲۱ شعبان ۱۳۱۴ھ مطابق ۱۸۹۷ء کی درمیانی شب میں قصبہ دیوبند ضلع سہارنپور میں پیدا ہوئے، خاندانی اعتبار سے آپ عثمانی تھے، آپ کے والد ماجد مولانا محمدیسین دیوبندی رحمہ اللہ ایک جید عالم دین اور صاحب نسبت بزرگ تھے، حضرت مفتی اعظم رحمہ اللہ نے ایک دینی ماحول میں آنکھ کھولی اور بچپن ہی سے جلیل القدر علماء کی صحبت میں بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا پانچ سال کی عمر میں حافظ محمدعظیم صاحب رحمہ اللہ کے پاس دارالعلوم دیوبند میں قرآن کریم کی تعلیم شروع کی، فارسی کی تمام مروجہ کتابیں اپنے والد محتم سے دارالعلوم میں پڑھیں حساب و فنون ریاضی کی تعلیم اپنے چچا مولانا منظور احمد صاحب رحمہ اللہ سے حاصل کی، سولہ سال کی عمر میں دارالعلوم کے درجہ عربی میں داخل ہوئے، اور ۱۳۳۵ھ میں فارغ التحصیل ہوئے جن عظیم المرتبت علمائے امت سے حضرت مفتی اعظم رحمہ اللہ نے شرف تلمذ حاصل کیا، ان میں امام العصر علامہ محمدانور شاہ کشمیری رحمہ مفتی اعظم ہند مولانا عزیزالرحمن عثمانی، شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی، عارف باللہ مولانا سیداصغر حسین دیوبندی، شیخ الادب مولانا اعزاز علی دیوبندی، استاذ العلماء مولانا رسول خان ہزاروی اور فخر العلماء مولانا حبیب الرحمن عثمانی رحمہم اللہ اجمعین جیسے اکابرین شامل ہیں جو اپنے اپنے شعبوں میں اپنی نظیر آپ ہی تھے۔
درس و افتاء
زمانہ طالب علمی میں حضرت مفتی اعظم رحمہ اللہ کا شمار نہایت ذہین اور محنتی طلباء میں ہوتا تھا اور امتحانانت میں ہمیشہ امتیاز کے ساتھ کامیاب ہوتے تھے، اسی لیے اساتذہ آپ سے بے حد شفقت اور محبت کا سلوک کرتے تھے، ۱۳۳۵ھ میں فارغ التحصیل ہوئے تو حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی رحمہ اللہ نے انہیں ابتدائی کتب کی تعلیم کے لیے استاذ مقرر فرمادیا پھر بہت جلد درجہ عالیہ کے استاذ ہوگئے، اور تقریباً ہر علم و فن کی جماعتوں کو پڑھایا ان کا درس ہمیشہ ہر جماعت میں مقبول رہا، مگر دورۂ حدیث کی مشہور کتاب ابوداؤد شریف اور عربی ادب کی مشہور کتاب مقامات حریری کا درس تو ایسا ہوتا تھا کہ مختلف ملکوں کے علماء اور اساتذہ بھی شریک ہونا سعادت سمجھتے تھے۔ دارالعلوم میں تدریس کا یہ سلسلہ ۱۳۶۲ھ تک جاری رہا۔ اس ۲۷ سال کے عرصہ میں انڈونیشیا، ملائشیا، سنگاپور، برما، برصغیر، افغانستان، بخارا، سمرقند و غیرہ کے تقریباً تیس ہزار طلباء نے ان سے شرف تلمذ حاصل کیا، ان میں سے ہزاروں اب بھی مختلف ملکوں میں دین کی خدمت میں مصروف ہیں۔
دارالعلوم دیوبند میں تدریس کے دوران مفتی اعظم ہند حضرت مولانا عزیز الرحمن عثمانی نے فتوی کے سلسلہ میں آپ سے کام لینا شروع کیا وہ سوالات کے جوابات خود لکھتے اور آپ سے لکھواتے اور اصلاح و تصدیق کے بعد یہ روانہ کردیئے جاتے ، سنہ ۱۳۴۴ھ میں وہ مستعفی ہوگئے، ارباب دارالعلوم نے مختلف صورتوں سے دارالافتاء کا کام چلایا۔ مگر ۱۳۴۹ھ میں یہ کام مستقل آپ کے سپرد کردیا گیا، آپ کو اس عظیم کام کی اہمیت کا بہت احساس تھا کیونکہ دارالعلوم میں نہ صرف برصغیر کے کونے کونے سے استفتاء موصول ہوتے تھے بلکہ دنیا بھر کے ملکوں سے مسلمان مختلف مشکل فقہی مسائل کے بارے میں آخری فیصلوں کے لیے دارالعلوم دیوبند سے رجوع کیا کرتے تھے حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ اپنی جگہ یہ سمجھتے تھے کہ وہ صدر مفتی کے منصب کا حق پوری طرح ادا نہیں کرسکیں گے۔ تاہم حضرت مولانا سیداصغر حسین دیوبندی رحمہ اللہ اور حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی سرپرستی امداد اور اعانت کے وعدے پر انہوں نے یہ عظیم منصب قبول کیا اور اللہ تعالی کے فضل و کرم سے آپ صدر مفتی کے عظیم منصب کا حق پوری طرح ادا کرتے رہے اور قیام پاکستان تک اس عظیم منصب پر فائز رہے۔
سلوک و تصوف
حضرت مفتی اعظم رحمہ اللہ نے سلوک و تصوف میں بھی بلند مقام پایا تھا ابتداء میں آپ حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی رحمہ اللہ سے ۱۹۲۰ء میں بیعت ہوئے پھر ان کی وفات کے بعد ۱۳۴۶ھ میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ سے بیعت ہوئے جنہوں نے آپ کی علمی اور روحانی صلاحیتوں کو دیکھ کر ۱۳۴۹ھ میں آپ کو اپنا خلیفہ اور مجاز بیعت قرار دے دیا۔ حضرت حکیم الامت تھانوی کے خلفاء مجازین میں حضرت مفتی اعظم کو ایک خاص مقام حاصل تھا اور حضرت حکیم الامت آپ پر خاص توجہ فرمایا کرتے تھے آپ تقریبا بیس سال تک حضرت حکیم الامت کی صحبت میں رہے اور ان کی زیرنگرانی کئی عظیم تالیفات اپنے قلم سے تصنیف فرمائیں۔ جیسے احکام القرآن اور حیلہ ناجزہ و غیرہ بہرحال آپ پر حضرت حکیم الامت کو ایک خاص اعتماد تھا۔ حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانوی مدظلہ فرماتے ہیں کہ حضرت حکیم الامت تھانوی کو آپ کی علمی و فقہی بصیرت پر اس قدر اعتماد تھا کہ اپنے ذاتی معاملات میں بھی ان سے مشورہ لیتے اور فتویٰ طلب فرماتے اور اس پر عمل فرماتے تھے۔
ایک مرتبہ حضرت حکیم الامت نے فرمایا کہ:
’’اللہ تعالی مفتی محمد شفیع کی عمر دراز کرے مجھے ان سے دو خوشیاں ہیں ایک تو یہ ان کے ذریعے علم حاصل ہوتا رہتا ہے، اور دوسری یہ کہ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ میرے بعد بھی کام کرنے والے موجود ہیں‘‘۔
حضرت مولانا قاری محمدطیب قاسمی فرماتے ہیں کہ:
’’حضرت مفتی اعظم رحمہ اللہ ہمارے شیخ حضرت حکیم الامت کے علمی اور روحانی ترجمان اور صحیح جانشین تھے، ہمارے قدیم اسلاف کی یادگار تھے۔ فقہ و تفسیر میں امامت کا مرتبہ حاصل تھا، ایک مایہ ناز مصنف، ادیب اور شاعر تھے، ایک شیخ کامل تھے اور عارف کامل تھے، الغرض آپ کی شخصیت ایک جامع شخصیت تھی اور اکابرین امت کو آپ کی ذات پر مکمل اعتماد تھا، امام العصر علامہ محمدانور شاہ کشمیری، علامہ شبیراحمد عثمانی، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا ظفراحمد عثمانی اور مولانا اصغرحسین دیوبندی رحمہم اللہ جیسے مشاہیر بھی آپ سے رائے لیتے تھے اور آپ کو وقت کا محقق، مفسر، مدبر اور فقیہ تسلیم کرتے تھے، درس و تدریس اور تبلیغ و اصلاح کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا بھی آپ کا محبوب مشغلہ رہا اور آپ کے قلم فیض رقم سے تین سو سے زائد تالیفات منصہ شہود پر آئیں جن میں اسلام کا نظام اراضی، ختم نبوت کامل اور سیرت خاتم الانبیاء، کشکول، جواہر الفقہ، مقام صحابہ، مجالس حکیم الامت، احکام القرآن، فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، عزیز الفتاویٰ اور تفسیر معارف القرآن، علمی دنیا کا شاہکار ہیں، تفسیر معارف القرآن آٹھ جلدوں میں مکمل ہوئی اس دور کا زبردست کارنامہ ہے، جس کے متعلق شیخ الاسلام حضرت ظفر احمد عثمانی کی رائے ہے کہ حضرت مفتی صاحب نے اس تفسیر کو لکھ کر تمام علماء اور مفسرین پر احسان عظیم کیا ہے۔‘‘
سیاسی و ملی خدمات
حضرت مفتی اعظم نے دینی و علمی خدمات کے علاوہ سیاسی و ملی خدمات بھی انجام دی ہیں، آپ نے حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ کے ایماء پر تحریک پاکستان میں زبردست حصہ لیا، اور کھلم کھلا مسلم لیگ کی حمایت فرماتے رہے، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی جو دارالعلوم دیوبند کے سرپرست اعلیٰ اور علمائے دیوبند کے شیخ و مربی تھے ، انہوں نے اپنے متوسلین اور خلفاء کے ذریعے زعماء مسلم لیگ خصوصا قائد اعظم محمدعلی جناح کی اصلاح اور دینی تربیت کا فیصلہ کیا اور اپنے خلفاء و تلامذہ میں سے علامہ شبیراحمد عثمانی، مولانا ظفراحمد عثمانی، مولانا مرتضی حسن چاند پوری، مولانا عبدالکریم گمتھلوی، مولانا اطہر علی سلٹہی، علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا مفتی محمدحسن امرتسری، مولانا جلیل احمد شروانی، مولانا خیرمحمد جالندھری، مولانا محمدادریس کاندھلوی اور مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی رحمہم اللہ کو ان کی اصلاح اور تبلیغ کے لیے مقرر کیا ان حضرات نے زعمائے مسلم لیگ کی اصلاح کے لیے تبلیغ دین کا خوب حق ادا کیا جس سے قائد اعظم بہت متاثر ہوئے، پھر ان علمائے حق نے باقاعدہ تحریک پاکستان میں حصہ لیا اور ایک تنظیم ’’جمعیت علمائے اسلام‘‘ کے نام سے تشکیل دی، جس کے پہلے صدر علامہ شبیراحمد عثمانی، اور نائب صدر مولانا ظفراحمد عثمانی منتخب ہوئے اور حضرت مفتی اعظم پاکستان اس کے ناظم اعلیٰ مقرر ہوئے، حضرت مفتی اعظم نے ۱۹۴۵ء میں لیاقت علی خان مرحوم کے حلقہ انتخاب میں جہاں کانگریس کا زبردست اثر تھا، مسلم لیگ کی حمایت میں فتوی صادر فرمایا، جس کی بدولت ہوا کا رخ بدل گیا اور لیاقت علی خان کامیاب ہوئے اور لیاقت علی خان نے کھلے الفاظ میں یہ اعتراف کیا کہ یہ کامیابی حضرت مفتی محمدشفیع صاحب کے فتوی کی بدولت ہوئی ہے۔ اسی طرح سرحد ریفرنڈم میں کامیابی شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی اور مفتی اعظم مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کے دوروں کی بدولت ہوئی اور اس کی سہرا بھی انہیں کے سر ہے، اس کا اعتراف خود قائد اعظم نے بھی کیا ہے قیام پاکستان کے بعد شیخ الاسلام علامہ عثمانی کے حکم پر دیوبند سے کراچی کو ہجرت کی اور پھر یہاں آکر ملک میں اسلامی دستور کے نفاذ اور دینی تعلیم کے لیے جد و جہد کی، قرارداد مقاصد کی ترتیب و تدوین اور اس کی منظوری میں آپ کا بڑا حصہ ہے، سنہ ۱۹۴۹ء میں حضرت شیخ الالسلام علامہ عثمانی کی وفات کے بعد جمعیت علماء اسلام کے مرکزی صدر منتخب ہوئے اور آپ کی ذمہ داریاں اور بڑھ گھئیں۔ آپ دستور یہ کے تعلیمات اسلامیہ بورڈ کے ایک اہم رکن رہے، بعد میں قانون کمیشن کے ممبر نامزد ہوئے، سنہ ۱۹۵۳ء میں علامہ سیدسلیمان ندوی کی وفات کے بعد تعلیمات اسلامی بورڈ کے صدر منتخب ہوئے اور ۱۹۵۸ء تک یہ خدمت انجام دیتے رہے ، سنہ ۱۹۵۱ء میں مولانا احتشام الحق تھانوی کی قیام گاہ پر ہونے والے جید علماء کے اجلاس کی صدارت فرماتے رہے، اور بائیس نکات پرمشتمل ایک دستوری خاکہ حکومت پاکستان کو پیش کیا، اس کے ساتھ دینی تعلیم کے فروغ کا بڑا احساس رہا، سنہ ۱۳۷۰ھ میں نہایت بے سر و سامانی کے عالم میں ایک مدرس کراچی میں قائم کیا۔ جو صرف چند ماہ کے بعد ایک مرکزی دارالعلوم کی شکل اختیار کرگیا۔ جس میں دوہزار سے زائد طلباء تحصیل علم میں مصروف ہیں اور ملک بھر میں جس کی شاخیں موجود ہیں اور آپ کا یہ دارالعلوم پاکستان میں دارالعلوم دیوبند کی مثال ہے دارالعلوم سے ایک دینی جریدہ ’’ماہنامہ البلاغ‘‘ نکلتا ہے جو دنیا بھر میں ایک امتیازی شان حاصل کیے ہوئے ہے۔
رحلت
بہرحال حضرت مفتی اعظم رحمہ اللہ ساری زندگی خدمت اسلام اور خدمت مسلمین میں مصروف رہے اور آخری دم تک درس و تدریس، فقہ و افتاء اور تبلیغ و ارشاد میں مصروف رہے، اتنے بڑے عالم اور مفتی اعظم ہونے کے باوجود منکسرالمزاج تھے، بڑے خوش اخلاق، خندہ جبیں اور لطیف الروح تھے، نہایت سادہ اور صاف ستھرا لباس زیب تن فرمایا کرتے تھے، تحریر و تقریر میں بڑی مہارت حاصل تھی۔ حافظہ بڑا غضب کا تھا اور عربی ادب کے شاعر تھے اور پاکستان میں تمام علماء دیوبند کے امام تھے اور سرپرست اعلی تھے۔ ۹ اور ۱۰ شوال المکرم ۱۳۹۶ھ مطابق ۵ اور ۶ اکتوبر ۱۹۷۶ء کی درمیانی شب کو آپ نے رحلت فرمائی، ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں نے آپ کے جنازہ میں شرکت کی اور حضرت ڈاکٹر عبدالحئی صاحب عارفی مدظلہ نے نماز جنازہ پڑھائی، بڑے بڑے علماء کرام نے آپ کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا، دینی اور حکومتی اداروں میں تعزیتی قراردادیں منظور کی گئیں۔ تعزیتی جلسے منعقد کیے گئے اور اس معمار پاکستان دینی، روحانی پیشوا کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ ممتاز عالم دین حضرت علامہ سید محمدیوسف بنوری رحمہ اللہ نے اپنے تعزیتی بیان میں فرمایا کہ:
’’آپ سے دارالعلوم دیوبند کی پوری تاریخ وابستہ تھی اور ہمارے اسلاف کی آپ آخری یادگار تھے‘‘۔
مولانا احتشام الحق تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ:
’’آپ کی وفات سے تمام علمائے کرام یتیم ہوگئے ہیں‘‘۔
مولانا مفتی محمود صاحب نے فرمایا کہ:
’’اب ایسا جید عالم دین اور فقیہ دین مشکل ہی پیدا ہوگا‘‘۔
مولانا سید ابوالاعلی مودودی نے فرمایا کہ:
’’ان کی وفات تمام عالم اسلام کا عظیم سانحہ ہے ، وہ بہت بڑے محقق، مدبر، مفسر اور فقیہ تھے‘‘۔
اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلائے ، آمین۔
علامہ اقبال نے ایسی ہی عظیم شخصیت کے لیے فرمایا تھا کہ:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

Maulana Ishaq Khan Madni حضرت مولانا محمد اسحاق خان مدنی رحمہ اللہ

محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری قدس سرہٗ کے شاگردِ رشید، فاضل جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن، اسلامی نظریاتی کونسل آزاد کشمیر کے رکن، جمعیت علماء اسلام آزاد کشمیر کے امیر ، حضرت مولانا محمد یوسف خان کے ماموں، مفسرِ قرآن حضرت مولانا محمد اسحاق خان مدنیؒ اس دنیائے رنگ وبو کی ۸۰ بہاریں دیکھ کر راہیِ آخرت ہوگئے۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ما أخذ ولہٗ ما أعطی وکل شئ عندہٗ بأجل مسمی۔
آپ کا تعلق آزاد کشمیر قصبہ سدھنوتی سے تھا، ابتدائی تعلیم دارالعلوم تعلیم القرآن پلندری میں حاصل کی، اس کے بعد کچھ عرصہ جامعہ خیر المدارس ملتان میں زیر تعلیم رہے، اعلیٰ تعلیم کے لیے جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی تشریف لائے۔ یہاں سے دورہ حدیث کا فاتحہ فراغ پڑھنے کے بعد مدینہ یونیورسٹی سعودی عرب تشریف لے گئے، جہاں آپ نے ۱۹۷۲ء میں لیسانس مکمل کیا۔ سعودی حکومت کی جانب سے ورلڈ اسلامک مشن کے رکن نامزد کیے گئے اور ۳۰ سال تک دوبئی میں سعودی مرکز الدعوۃ وارشاد سے وابستہ رہ کر قرآن وحدیث کو اپنی زندگی کا مشغلہ بنائے رکھا۔ آپ کی ساری زندگی تبلیغ دین اور تعلیماتِ قرآن میں گزری۔ حضرت مولانا موصوفؒ نے اپنی زندگی کے آخری لمحات تک نہ صرف یہ کہ قرآن کریم، احادیث نبویہ اور اصلاح ودعوت کو اپنادینی فریضہ سمجھا، بلکہ ان تمام اُمور میں عظیم خدمات بھی انجام دیں۔ آپ کے دوست اور رفیق کار جناب عبد المتین منیری بھٹکلی زید مجدہٗ دوبئی میں بیتے گئے ایام کی سرگزشت لکھتے ہیں کہ :
’’جب۱۹۷۹ء میں اس ناچیز کا ذریعۂ معاش قدرت میں لکھ دیا گیا تو مولانا کو اس وقت دبئی آئے ہوئے چند ہی سال گزرے تھے، وہ ابھی جوان تھے۔ اس وقت مولانا یہاں پر دیوبندی مکتب فکر کے نمائندے کی حیثیت سے اپنی پہچان رکھتے تھے۔ آپ کی تفسیر قرآن کے درس الغریر مسجد سبخہ،اور الجامع الکبیر بر دبی میں ہوا کرتے تھے۔ دبئی میں اس وقت جو بھی پاکستان سے علماء آتے عموماً وہ آپ ہی کے مہمان ہوتے، ان کی تقاریر کے شیڈول بھی آپ ہی متعین کرتے۔ ہمارا آفس بھی پورٹ سعید میں آپ کے آفس سے قریب ہی تھا، یہ آپ کی رہائش گاہ بھی تھا۔ ان دنوں ہندوستان سے اکابر آتے تو عموماً ان کی تقاریر کا نظم اس ناچیز کے پاس ہوتا۔ بڑے اچھے دن تھے، سرکاری پیچیدگاں وغیرہ نہ ہونے کے برابر تھیں۔ اس وقت کے مدیر اوقاف شیخ عبد الجبار محمد الماجد مرحوم اور پھر ڈاکٹر عیسی المانع الحمیری کے دور میں فوراً اجازت نامے مل جاتے۔ گزشتہ صدی کے اسی اور نوے کی دہائی میں اکابرین کی بڑی تعداد بقید حیات تھی، اس زمانے میں بڑے یادگار پروگرام رکھنے کا موقع نصیب ہوا۔
ہمارے دبئی میں قدم رکھنے کے دوسرے تیسرے روز شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان علیہ الرحمۃ نے جامع کبیر بر دبی کے ممبر پر داعی اجل کو لبیک کہا۔ ان کے بعد کئی ایک اکابر مولانا مفتی محمود، مولانا عبد الستار تونسوی، مولانا عبد المجید ندیم شاہ ، مولانا محمد ضیاء القاسمی، مولانا منظور احمد چینوٹی، مولانا حسن جان، ڈاکٹر شیر علی شاہ علیہم الرحمۃ وغیرہ اس زمانے کے تقریباً سبھی اکابر پاکستان سے تشریف لاتے تو مولانا کی مجلس میں ان حضرات کے ساتھ بیٹھنا اور تبادلۂ خیال کرنا نصیب ہوتا۔ان کے تجربات اور مشاہدات نے دلوں کو روشنی بخشی۔ یہ مجالس زندگی کا بڑا قیمتی سرمایہ ہیں۔
اس زمانے میں ہندوستان سے جو اکابر آتے جن میں خصوصاً حضرت مولانا سیدا بو الحسن علی ندوی، مولانا محمد سالم قاسمی، مولانا محمد انظرشاہ کشمیری، مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی، شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان، مولانا سید ابرار الحق ہردوئی علیہم الرحمۃ وغیرہ اکابر شامل ہیں۔ ان کے پروگرام کا شیڈول عموماً اس ناچیز کے پاس ہوتا، اس سلسلے میں آپ ہمیشہ ربط میں رہتے۔ اب یہ سب ماضی کا قصہ ہے، ان کی صرف یادیں رہ گئی ہیں۔
شاید اس سلسلے کا آخری پروگرام۸؍اپریل ۱۹۹۵ء کو مرکزِ تبلیغ قصیص میں ہوا تھا،اس میں مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی، مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی، مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا یعقوب اسماعیل منشی وغیرہ نے ملت کے مسائل اور ان کے علاج کے موضوع پر اظہار خیال کیا تھا۔
مولانا محمد اسحاق صاحب بنیادی طور پر دعوت و اصلاح اور درس و تدریس کے آدمی تھے۔ اپنے وقت کی قدر کرنے والے، دبئی میں آپ نے دو سے زیادہ مرتبہ تفسیر قرآن کا دور پورا کیا۔ اور ایک نہیں تین تفسیریں لکھیں،جو ایک کارنامہ ہے۔مولانا کا ذہنی لگاؤ جمعیت علماء کی طرف تھا، لیکن وہ عملًا سیاسی آدمی نہیں تھے۔ وہ سبھی علماء کی قدر کرتے تھے اور ان سے ملنا، بیٹھ کربات کرنا پسند کرتے تھے۔ انہوں نے تفسیر کے علاوہ کئی ایک کتابیں بھی لکھیں۔ سن اَسّی کی دہائی میں اپنا ذاتی سرمایہ لگا کر مولانا آزاد کے مجلہ ’’الہلال‘‘ کی پوری فائلیں اعلیٰ طباعتی معیار پر شائع کیں، جو اس زمانے میں بہت بڑی بات تھی۔ کوئی پندرہ سال قبل مرکز کی ملازمت سے ریٹائرڈ ہوچکے تھے، لیکن چونکہ آپ کا زیادہ تر وقت دبئی میں گزرا تھا اور ان کے عقیدت مند یہیں ہی زیادہ تر پائے جاتے تھے تو ان سے ملاقات کے لیے آپ تشریف لاتے۔گٹھیا اور شوگر کی بیماری نے آپ کو وقت سے پہلے بوڑھا کردیا تھا، بالآخر وہ گھڑی آہی گئی، جس سے کسی کو مفر نہیں،اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے۔ ‘‘
حضرت مولانا محمد اسحاق خان مدنیv کا معمول تھاکہ جب بھی تفسیر قرآن کی کوئی جلد چھپتی تو اپنی مادر علمی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے ماہنامہ ’’بینات‘‘ میں تبصرہ کے لیے ضرور بھیجتے۔ ایک بار ’’عمدۃ البیان فی تفسیر القرآن‘‘ المعروف ’’تفسیر المدنی‘‘حصہ اول بھیجی تو حضرت شہید ناموس رسالت حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری قدس سرہٗ نے اس پر یوں تبصرہ کیا:
’’حضرت مولانا محمد اسحاق خان مدنی دامت برکاتہم کی علمی شخصیت اہل علم حلقے میں محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ آپ ایک عرصے سے دبئی میں قیام پذیر ہیں۔ آپ کا حلقۂ درسِ قرآن بھی کافی شہرت رکھتا ہے۔ آپ نے ایک عرصے سے اپنے آپ کو درسِ تفسیرِ قرآن کے لیے وقف کررکھا تھا۔ آپ اپنی مساعی میں کس قدر کامیاب ہوئے ہیں، پیشِ نظر تفسیر ’’عمدۃ البیان‘‘ کی جلد اول – جو سورۂ فاتحہ سے سورۂ نساء تک کی تفسیرپر مشتمل ہے – کی شکل میں اس کا خوب صورت نتیجہ اور ثمرہ حاضرِ خدمت ہے۔ موصوف کا تفسیری انداز بلاشبہ اکابر دیوبند کی طرز پر تحقیقی ہے۔ کتاب کا ایک ایک حرف اور ایک ایک بحث قابل قدر اور لائق رشک ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو عوام وخواص کے لیے نفع بخش بنائے اور مولانا کی ترقیِ درجات اور نجاتِ آخرت کا ذریعہ بنائے، آمین! اس تفسیر کے بارے میں کچھ لکھنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے، کیونکہ: مشک آنست کہ خود ببوید!‘‘ (ماہنامہ ’’بینات‘‘ رمضان ۱۴۲۷ھ- اکتوبر ۲۰۰۶ء)
اس کے بعد آپ کی تصنیف ’’زبدۃ البیان فی تفسیر القرآن‘‘ المعروف ’’تفسیر المدنی الصغیر‘‘ چھپی تو وہ بھی تصبرہ کے لیے بھیجی تو حضرتؒ نے تمہیدی فوائد لکھنے کے بعد لکھا:
’’پیشِ نظر تفسیر بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک ایسے بندے کو مامور ومنتخب فرمایا جو اصلاً کشمیر کی سنگلاخ وادی سے تعلق رکھتا تھا، اس کی تعلیم وتربیت پاکستان میں ہوئی، مگر اُسے ترجمہ وتفسیر کی خدمت کے لیے عرب امارات کی ایک ریاست دبئی میں بٹھادیاگیا۔ بلاشبہ حضرت مولانا محمد اسحاق خان مدنی حفظہ اللہ کی یہ خدمت جہاں دین کی خدمت ہے، وہاں قرآن کریم اور فن تفسیر کی بھی بہت بڑی خدمت ہے۔ ہمارے خیال میں اس عام فہم تفسیر کی برکت سے ادنیٰ پڑھا لکھا مسلمان بھی قرآنی تعلیمات سے آگاہ اور روشناس ہوسکے گا۔ اس دور میں جب کہ بے دین ومستشرقین عناصر نے اپنی تحریفات کا رخ قرآن کریم کی طرف پھیرلیا ہے، حضرت مولانا دامت وبرکاتہم کی تفسیر ان کے مقابلے میں بہترین راہ نما ثابت ہوگی۔ بلاشبہ اختصار وجامعیت اور سلاست وروانی کے اعتبار سے یہ بے حد مفید ہے۔ اس سے جہاں علماء، طلبہ مستفید ہوسکتے ہیں، وہاں عوام اور کم پڑھے لوگ بھی اس سے برابر کے مستفید ہوںگے۔ امید ہے اہلِ ذوق اس گراں قدر علمی خدمت کی بھر پور قدر افزائی کریںگے۔ ‘‘ (ماہنامہ ’’بینات‘‘ محرم ۱۴۲۸ھ- فروری ۲۰۰۷ء)
ابھی چند ماہ پہلے حضرت مولانا ڈاکٹر محمدحبیب اللہ مختار شہید قدس سرہٗ کی اشاعتِ خاص کے مضامین کے سلسلے میں حضرت شہیدؒ کے فرزند ارجمند مولوی فارس حبیب اور مولوی حارث حبیب ان سے ملنے کے لیے گئے تو حضرت موصوف نے بہت ہی خوشی کا اظہار فرمایا۔ راقم الحروف کے بارہ میں بھی دریافت فرمایا، بلکہ ایک بار اُن کے فون سے مجھ سے گفتگو بھی فرمائی، ڈھیروں دعائیں دے رہے تھے اور فرمایا کہ کبھی اسلام آباد آنا ہو تو ضرور ملاقات کیجئے گا۔ آپ نے حضرت ڈاکٹر مولانا محمد حبیب اللہ مختار شہیدؒ کے بارہ میں ایک مضمون بھی تحریر فرماکر بھیجا جو ماشاء اللہ! اشاعت خاص کی زینت بنے گا۔
آپ کی نمازِ جنازہ آپ کے دیرینہ ساتھی حضرت مولانا محمد یاسین دامت برکاتہم نے پڑھائی۔ نمازِ جنازہ میں آزاد کشمیر کے تقریباً تمام مکاتبِ فکر کے راہنماؤں کے علاوہ علاقہ ممبر کے تمام معززین اور علماء وطلباء کا ایک جم غفیر تھا۔
آپ نے اپنے پسماندگان میں ۵ بیٹے، ۳ بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کروٹ کروٹ آپ کو راحتیں نصیب فرمائے۔ آپ کے پسماندگان، متعلقین اور اعزہ اقارب کو صبرِ جمیل کی توفیق سے نوازے۔ باتوفیق قارئین’’ بینات‘‘ سے حضرتؒ کے لیے ایصالِ ثواب کی درخواست ہے۔

سوانح حیات قائد جمعیت، مہتمم دارالعلوم حقانی شیخ الحدیث حضرت مولانا سمیع الحق شہید رحمہ اللہ

مضت الدھور و ما أتین بمثلھم
و لقد أتی فعجزن عن نظرأہ
دفاع پاکستان وافغانستان کونسل کے سربراہ، جمعیت علماء اسلام (س) کے امیر، دیوبند ثانی دارالعلوم حقانیہ کے مہتمم، ملک میں شریعت اسلامیہ کے نفاذ کے لئے پارلیمینٹ میں سب سے طویل عرصہ تک جنگ لڑنے والے سابقہ سنیٹر، درجنوں کتابوں کے مصنف، عظیم سکالر، عالم اسلام کے معروف ہر دلعزیز رہنما، ماہنامہ الحق کے بانی و مؤسس، ایڈیٹر اور مغرب میں فادر آف طالبان کے نام سے مشہور، عظیم شخصیت احقر (عرفان الحق) کے تایا جان حضرت مولانا سمیع الحق صاحب رحمہ اللہ کو بروز جمعہ ۲ نومبر ۲۰۱۸ء بعد از مغرب ۶ بجے ان کے مکان واقع بحریہ ٹاؤن راولپنڈی میں خنجروں کے ذریعے درجنوں وار کر کے بڑی بے دردی سے شہید کردیا گیا ’انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘۔
اس واقعہ کی اطلاع احقر اور برادر مکرم مولانا حامد الحق کو ۴۰:۶ پر ان کے سیکرٹری نے موبائیل پر اس وقت دی جب ہم آسیہ ملعونہ کے خلاف جہانگیرہ میں منعقدہ احتجاجی مظاہرہ سے واپس ہورہے تھے۔ اس قیامت خیز خبر سے ایسا محسوس ہوا جیسے سروں پر آسمان ٹوٹ گیا ہو اور زمین پاؤں کے نیچے سے بالکل سرک گئی ہو، اطلاع ملتے ہی ہم فوراً روانہ ہو چلے، راولپنڈی پہنچے تو سفاری ویلاز ہسپتال کے باہر مولانا صاحب کے سینکڑوں عقیدت مند کھڑے تھے، مولانا صاحب ؒ نے کسی کا کیا بگاڑا تھا؟ وہ تو ملک و ملت کے حد درجہ خیر خواہ شخصیت تھے، جس ظالم نے بھی یہ کیا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ مولانا احمد شاہ (معاون مولانا سمیع الحق رحمہ اللہ) ایک جگہ نڈھال پڑے تھے، میں نے کہا کہ آپ انہیں اکیلا چھوڑ کر کہاں چلے گئے تھے؟ تو اس نے کہا میں حضرت کے حکم سے سودا سلف لینے کار چوک تک گیا اور پیچھے یہ گھناونی واردات ہوچلی۔ درجنوں علماء و مقامی سیاسی زعماء تعزیت کے ساتھ ساتھ حوصلہ بھی دلا رہے تھے۔
تایا جان کو ہم اہل خاندان چھوٹے اباجی کے شیریں نام سے پکارتے تھے، ان کے جسد سے سفید چادر ہٹائی تو دل چیرنے والی کیفیت کا سامنا کرنا پڑا، حضرت کا چہرہ مبارک، داڑھی، سینہ، کندھے خون سے لت پت تھے۔ فوراً ان کے ماتھے اور ہونٹوں کا بوسہ لیا، ۶۱ برس تک قال اللہ و قال الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمزمے بلند کرنے والے ہونٹ اب بالکل خاموش تھے، یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ سینہ جو اسلامی علوم و فنون ، حدیث مبارکہ اور قرآن پاک کے علوم کا گنجینہ تھا، اس پر کوئی اس بے دردی سے وار کرسکتا ہے؟ ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اور چیخ چیخ کر رونا شروع کیا، چند ہی لمحوں میں بدبخت شقی القلب لوگوں نے ان کے سینہ، کندھوں اور چہرے و سر پر بیشمار وار کئے تھے۔ مزید حوصلہ دیکھنے کا نہ رہا تو فوراً کپڑے سے حضرت کے جسد کو ڈھانپ دیا۔ مولانا قاری فضل ربی (مہتمم مدرسہ گلستان جوہر) نے بڑھ کر تسلی دینے کی کوشش کی، پھر مولانا عبدالمجید ہزاروی (جامعہ فرقانیہ والے) نے صبر کی تلقین فرمائی، ناظم وفاق المدارس پنجاب مولانا عبدالرشید، مولانا عبدالغفور حیدری، فرزند مرد حر جنرل حمید گل عبداللہ گل صاحب نے حالات کا مقابلہ کرنے کی نصیحت کی اور کہا کہ آج میں دوبارہ یتیم ہوچلا۔
پولیس کے اعلیٰ حکام، حضرت کو پوسٹ مارٹم کروانا چاہ رہے تھے، میں نے اور مولانا حامد الحق و دیگر برادران نے باہمی اتفاق سے شرعی نقطہ نظر کے بنیاد پر پوسٹ مارٹم سے معذرت کی، لیکن وہ بضد تھے کہ یہ ضروری ہے میں نے جذباتی ہو کر کہا کہ کتنے پوسٹ مارٹموں سے مجرموں تک آج تک رسائی ہوسکی؟ اس ملک میں تو صدر اور وزیر اعظم جیسے لوگوں کے قاتل بھی نامعلوم ٹہرے۔ بڑی لے دے کے بعد وہ مولانا حامد الحق کے ساتھ مشاورت کرنے لگے۔ جبکہ میں حضرت کے مکان اور کمرہ واردات دیکھنے کیلئے مولانا احمدشاہ کو ساتھ لے کر روانہ ہوا، جہاں تفتیشی ٹیمیں اپنی سرگرمیوں میں مصروف تھیں، دیکھا تو چارپائی کے چادر پر خون پڑا تھا، نیچے دائیں جانب زمین پر جما ہوا خون بھی نمایاں نظر آرہا تھا، یہ سب کچھ نہ جانے کس طرح سے دیکھنے کا حوصلہ پیدا ہوا۔ پریشانی کے عالم میں احقر کبھی اوپر حضرت کے کمرے اور کبھی سیڑھیوں سے اتر کر مکان کے نچلے حصہ کو دیکھتا رہا کہ نہ جانے یہ ملک و ملت کا دشمن کس طرف سے داخل ہوکر شقاوت کے مظاہرے کرنے میں مصروف ہوا؟ نہ جانے حضرت نے دفاعانہ کوشش میں کیا نصیحت کی ہوگی؟ ان کیلئے تو موت اور حیات دونوں یکساں تھے، بلکہ موت وصال حبیب کا ذریعہ تھا۔ ہم جیسے ناتوانوں کیلئے ان کی حیات دنیاوی میں بے فکری کا سامان تھا، یہ تصور و سوچ بھی ہمارے لئے محال ہوجاتا تھا کہ حضرتؒ نہ ہونگے ہم تو زبان حال سے کہتے تھے کہ ؂ تیری عمر ہو سو برس اور ہر روز ہو ہزار سال
ہم نے آپؒ کو اخلاق عالیہ میں بالکل یوں پایا، جیسے کہ اکابرین و اسلاف کے متعلق کتابوں میں مذکور ہیں۔ بڑے بڑے مناصب پر فائز ہونے کے باوجود آپ کی ذات میں تکبر کا شائبہ بھی نہیں تھا۔ شفقت و اصاغر نوازی آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ چھوٹے سے چھوٹے طالب علم کے ساتھ بھی توجہ اور بات چیت میں ایسے پیش آتے، جیسے ایک بڑا ان کے سامنے ہو۔
ابھی دو تین ہفتوں کی بات ہے کہ گورنر خیبر پختونخواہ (شاہ فرمان صاحب) نے حقانیہ آرہا تھا تو اس موقع پر مولانا صاحب دفتر اہتمام میں تشریف فرما تھے اور مہمانوں کو ساتھ والے دفترِ مہتمم میں بٹایا جانا تھا۔ سرکاری پروٹوکول کے لوگوں اور ہمارے اپنے ساتھیوں نے آکر اطلاع دی کہ چند لمحوں میں گورنر صاحب پہنچ آئیں گے، مولانا صاحبؒ اس وقت چند طالب علموں کے ساتھ محو گفتگو تھے، آپ نے اطلاع دینے والے کو کہا کہ اچھا آرہا ہوں، پھر تھوڑی دیر بعد ایک دوسرا دفتری اہلکار آیا کہ آپ دوسرے دفتر آجائیں گورنر مدرسہ میں داخل ہوگئے اس پر آپ نے فرمایا کہ ظالموں کچھ لمحوں کیلئے طالب علموں کے ساتھ نہیں چھوڑتے ہو؟ اور پھر ان کے ساتھ مصروف ہوگئے، یہ ان کے دل میں طالب علم کے عظیم مقام کا احساس تھا، کہ حکمران وقت کے بجائے دلی توجہ ان کی طرف مبذول رہی۔ طالب علم کی ہر قسم کی ضرورت کا احساس انہیں ہمہ وقت دامن گیر رہتا۔ جب بھی ان کو کسی معاملہ میں شکایت ہوتی تو ان تک رسائی ایسی ہی آسان تھی جسے اپنے ہم درس ساتھی سے بلا تکلف ہر بات کہنا آسان ہو اور اس کے ازالہ میں لمحوں کا توقف بھی نہ بھرتتے، بلکہ اسی وقت متعلقہ شعبوں میں احکامات جاری کرکے تنفیذ کی نگرانی بھی کرتے تھے۔
نہ جانے ہم ان کی کس کس ادا کو یاد کرکے روئیں گے؟ بے نفسی و خاکساری آپ کو میراث میں اپنے والد بزرگوار سے ملی تھی، جب کوئی احادیث کی اجازت لینے کا کہتا تو آپ فرماتے کہ بڑے بڑے شیوخ موجود ہیں ہم تو اس کے اہل نہیں ہیں، کوئی اصرار کرتا تو پھر اجازت دیتے ہوئے فرماتے کہ ہم تو بیچ میں صرف ذرائع ہیں اکابر کے شرائط پر اجازت دے رہا ہوں۔ اب تو کچھ عرصہ سے عرب و عجم اور مغرب و بلاد بعیدہ سے نئے مواصلات آئی، ایم اور، واٹس ایپ، مسینجر و غیرہ سے بہت سارے حضرات اجازت کے طلبگار رہتے، جن کی درخواست احقر حضرت تک پہنچاتا۔ مولانا صاحب مجھ سے تحقیق کرتے اگر پھر فارغ التحصیل ہوتا تو پھر اجازت سے مشرف فرماتے۔
گھر میں یا باہر جب بھی دعا کا موقع ہوتا تو خود دعا نہیں کرواتے بلکہ کسی دوسرے استاد کو کہتے کہ آپ دعا کیجئے! ہم آمین کہیں گے، گھر میں کوئی اجتماع یا دعوت و غیرہ ہوتی تو احقر کو جہیرالصوت ہونے کے بنیاد پر فرماتے کہ عرفان! اجتماعی دعا کراؤ۔ حلم اور بردباری کے آپ خوگر تھے، آپؒ کا بڑا سے بڑا سیاسی اور ذاتی دشمن بھی سامنے آتا تو آپؒ ان سے کبھی بھی حرف شکایت منہ پر نہ لاتے تھے، کشادہ پیشانی سے ایسے ملتے جیسے وہ قریبی دوست ہو۔
افسوس! وہ عظیم مدبر، وہ بے مثل سیاست داں، وہ دردمند رہنما، ایمانی حرارت سے لبریز انسان ہم میں نہیں رہا۔ حضرت کی لاش کو رات کے گیارہ بجے بحریہ ٹاؤن کے ہسپتال سے ایمبولینس کے ذریعہ اکوڑہ خٹک روانہ کیا گیا۔ احقر کے علاوہ مولانا حامدالحق، مولانا شاہ ولی، مولانا مصطفی قاسمی، مولانا یوسف شاہ ساتھ تھے، سارے راستہ میں نظروں کے سامنے حضرتؒ حضرت کی زندگی کا فلم گردش کرتا رہا۔
ہائے افسوس! ہم اس گنج گرانمایہ سے محروم ہوچلے، تقریباً ایک بجے اکوڑہ پہنچے تو ہزاروں طلباء علماء او رعوام الناس اپنے فقید المثال علمی و روحانی باپ کے استقبال کے لئے سڑک کے دونوں کناروں پر کھڑے ہوکر چیخ چیخ کر رو رہے تھے، حسب پروگرام حضرت کو پہلے مولانا راشدالحق کے مکان میں لیجایا گیا، جہاں انہیں غسل دیا گیا اس عمل میں احقر کے ساتھ چاروں فرزندان (مولانا حامدالحق، مولانا راشدالحق، مولانا اسامہ، مولانا خزیمہ) برادران مولانا انوار الحق، پروفیسر محمود الحق، میرے برادر خورد ڈاکٹر حسیب الحق، عم زاد ڈاکٹر عثمان حقانی، مولانا لقمان الحق، عبدالرب صاحب و غیرہ شامل تھے۔
غسل سے قبل حضرت کے بدن پر لگنے والے درجنوں زخموں میں سے اکثر کو ٹانکے لگانے کی ذمہ داری برادرم حسیب الحق و عثمان حقانی نے نبھائی، حضرت کے چہرے کو روئی کی مدد سے خون صاف کرنے کی دیر تھی کہ ادھر حضرت کا چہرہ چودھویں کی چاند کی طرح چمکنا شروع ہوا۔ تقریبا تین بجے حضرت کے لاش کو گھر لایا گیا۔ صبح ۱۱ بجے طلباء و علماء اور عوام الناس کی زیارت کے لئے جسد مبارک کو نئی زیرتعمیر مسجد کے ہال میں رکھا گیا، جہاں جوق در جوق دیدار کا سلسلہ چلتا رہا۔
نماز جنازہ سے قبل دارالعلوم اور گرد و جوار میں ہزاروں علماء و طلباء اور عوام الناس کا سمندر امڈ آیا، جنازہ کیلئے اکوڑہ خٹک کے خوشحال خان خٹک کالج و ٹیکنیکل کالج کے وسیع احاطے مختص کئے گئے، لیکن وہ کم پڑ جانے کی وجہ سے لاکھوں افراد باہر سڑک اور کھیتوں میں صفیں باندھ کر کھڑے ہوگئے۔ برادرم مولانا حامدالحق نے جنازہ پڑھایا او رپھر ہزاروں لوگوں کی آہ و سسکیوں میں انہیں اپنے عظیم والد محترم شیخ الحدیث مولانا عبدالحقؒ کے جوار میں سپرد خاک کردیا گیا، مولانا صاحب موصوف کے تفصیلی حالات میں ہیں:
نام و نسب:
شیخ الحدیث حضرت مولانا سمیع الحق (دامت برکاتہم) بن شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق بن الحاج مولانا محمد معروف گلؒ بن حضرت الحاج میر آفتابؒ بن حضرت مولانا عبدالحمیدؒ رحمہم اللہ۔
تاریخ پیدائش:
۳۰ ستمبر ۱۹۳۶ء کو اکوڑہ خٹک میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم:
ابتدائی تعلیم گھر میں اپنے والد صاحب سے حاصل کی اور پھر شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحقؒ کے قائم کردہ انجمن تعلیم القرآن اسلامیہ پرائمری سکول میں پرائمری کی تعلیم مکمل کی۔
اعلی تعلیم:
ابتدائی درجات سے لے کر دورہ حدیث تک کے کتب آپ نے اپنے والد کے قائم فرمودہ گلشن نبوی صلی اللہ علیہ وسلم جامعہ حقانیہ میں پڑھیں۔
فراغت:
دارالعلوم حقانیہ ہی سے ۱۹۵۹ء میں دورہ حدیث پڑھ کر اعلی علوم کی سند فراغت حاصل کی، دستاربندی کے متعلق آپ خود لکھتے ہیں:
سالانہ جلسہ میں اکابرین کے دست مبارک سے دستاربندی:
۲۳ اپریل ۱۹۶۰ء: مولانا خیرمحمدؒ صاحب (مہتمم مدرسہ خیرالمدارس ملتان) جلسہ میں شرکت کے لئے بعد از نماز مغرب سندھ ایکسپریس سے پہنچے۔
۲۴ اپریل: صبح خیبر میل سے مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلویؒ تشریف لائے، حضرت شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوریؒ بوجہ ناگہانی علالت تشریف نہ لاسکے، بعد از نماز ظہر جلسہ دستاربندی کا آغاز ہوا۔
دورہ تفسیر:
۱۳۷۸ھ میں الامام الکبیر شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ (بانی ادارہ خدام الدین لاہور) سے دورہ تفسیر پڑھی اور اعلی نمبرات میں سند حاصل کی۔
اعزازی سندات
دارالعلوم دیوبند، مدینہ طیبہ اور مکہ معظمہ میں آپ کو مشائخ وقت کی طرف سے اعزازی سندات عطا ہوئیں جن میں شیخ الحدیث مولانا فخرالدینؒ (دارالعلوم دیوبند)، شیخ حرم الشیخ علوی مالکیؒ (مکہ مکرمہ)، الشیخ بدر عالم میرٹھی (مہاجر مدینہ منورہ) اور شیخ الحدیث مولانا نصیرالدین غورغشتیؒ ، مولانا قاری محمد طیب (دیوبند)، مولانا عبدالرحمن کاملپوری و غیرہ قابل ذکر ہیں۔
دارالعلوم میں تقرری:
بحیثیت مدرس دارالعلوم حقانیہ میں تقرر ۲۵ ربیع الاول ۱۳۷۹ھ کو ہوا۔ ۱۹۶۰ء سے لے کر اب تک جامعہ حقانیہ میں درس نظامی کے ابتدائی درجات سے دورہ حدیث تک اکثر کتب کی تدریس کرچکے ہیں اور اب بھی حدیث کی اعلیٰ کتابیں پڑھاتے رہے ۔ ابتدائی مشاہرہ ۵۰ روپیہ تھا۔ ذی الحجہ ۱۴۱۶ھ کو آخری مشاہرہ ۲۶۹۰ تھا، اس کے بعد سے تمام خدمات حسبۃً للہ انجام دے رہے تھے۔
بیعت و ارشاد
جمعہ ۱۴ مارچ ۱۹۵۸ء الموافق ۲۲ شعبان ۱۳۷۷ھ مدینہ منورہ کے مشہور شیخ عالم اور مہاجر رہنما و مرشد حضرت مولانا عبدالغفور عباسی مہاجر مدنیؒ دارالعلوم حقانیہ تشریف لائے تو حضرت مولانا سمیع الحق شہید رحمہ اللہ نے ان سے بیعت کی۔ حضرت عباسیؒ نے آپ کو ’’اللھم نور بالعلم قلبی و استعمل بطاعتک بدنی و بارک و سلم علیہ اور یاللہ‘ یاسلام‘ یاقوی‘‘ کا بعد و اہل البدر (۳۱۳ مرتبہ) ورد کرنے کا فرمایا تھا۔ اس سے قبل لاہور میں شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوریؒ حضرت مولانا عبدالمالک نقشبندیؒ اجلہ تصوف سے بھی بیعت اور استفادہ کی سعادت ملی۔
دارالعلوم حقانیہ کی مسجد میں پہلے جمعہ کی امامت
دارالعلوم کے ابتدائی دور جو حضرت جدی المکرم شیخ الحدیث مولانا عبدالحق رحمہ اللہ کا اہتمام کے زرین دور تھا۔ اس میں بھی اللہ تعالی نے حضرت شہید رحمہ اللہ کو اپنے عظیم والد کے دست راست بن کر بھر پور معاونت کی توفیق سے نوازے رکھا، حضرت دادا جان کی زندگی ہی میں ان کی غیرموجودگی میں جملہ امور کی کفالت آپ کے ذمہ تھی، جیسے ڈائری میں ذیل کا واقعہ مذکور ہے۔
۲۸ جون ۱۹۶۳ء: دارالعلوم کی زیر تعمیر جامع مسجد (سابقہ مسجد جو اب شہید ہوگئی ہے) میں پہلی بار نماز جمعہ پڑھی گئی، خطبہ اور امامت و تقریر کی سعادت (بوجہ عدم موجودگی والد ماجد رحمہ اللہ) اللہ تعالی نے اس ناچیز کو دی، تقریر ذات خداوندی کے موضوع پر ہوئی۔ مسجد کا اندرونی حصہ بھرا ہوا تھا۔ (مولانا سمیع الحق کی ڈائری)
ماہنامہ الحق کا اجراء:
آپ نے ۱۹۶۵ء میں دارالعلوم سے ماہنامہ ’’الحق‘‘ کے نام سے ایک علمی رسالہ جاری کیا، اسے ملک و بیرون ملک جو قبولیت اور پذیرائی حاصل ہوئی ہے وہ بے حد قابل رشک ہے، برصغیر کے اہل علم و قلم، ارباب فکر و دانش، علماء و صلحا اور معاصر مجلات و رسائل نے ’’الحق‘‘ کا پر تپاک خیرمقدم کیا، الحق نے اپنی ۵۳ سالہ زندگی میں علم و فن، ادب و تہذیب، اسلام کی اشاعت اور فرق باطلہ کے تعاقب و غیرہ ہر محاذ میں موثر کردار ادا کیا ہے۔
موتمر المصنفین کا قیام
آپ دارالعلوم میں اسلامی تحقیق وریسرچ کے اہم شعبہ مؤتمر المصنفین کے بانی اور صدر ہیں، مؤتمر المصنفین سے اب تک بیسوں موضوعات پر سینکڑوں کتب شائع ہوچکی ہیں اور تصنیف و تالیف کا یہ سلسلہ تا ہنوز جاری ہے۔
ماڈرن ازم کا تعاقب:
ایوب خان کے دور میں تجدد اور ماڈرن ازم کے داعی ڈاکٹر فضل الرحمان کے فتنے کا بھرپور تعاقب کیا۔ ماہنامہ ’’الحق‘‘ میں ماڈرن ازم کے تعاقب، محاسبہ اور محاکمہ پر خود بھی بہت خوب لکھا اور دوسروں سے بھی ڈاکٹر فضل الرحمن کے فتنے کے تعاقب میں مضامین لکھوائیں اور الحق میں شائع کرکے اس فتنہ کے خلاف بند باندھنے کی سعی کی، اس زمانے میں ڈاکٹر فضل الرحمن کے خلاف ماہنامہ ’’الحق ایک توانا آواز تھی۔
تحریک ختم نبوت میں اہم کردار:
۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت میں بھرپور حصہ لیا، قادیانیوں کے خلاف قومی اسمبلی میں ’’ملت اسلامیہ کا موقف‘‘ کے نام سے جو مسلمانوں کی ترجمانی کی گئی اس کا ایک حصہ آپ نے لکھا، جسے حضرت مولانا مفتی محمودؒ نے اسمبلی میں پڑھ کر سنایا تھا۔
تحریک نظام مصطفی اور قید و بند
۱۹۷۷ء میں تحریک نظام مصطفی شروع ہوئی تو آپ نے صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) میں بنیادی اور قائدانہ کردار ادا کیا، تحریک نظام مصطفی کے دوران مارچ ۱۹۷۷ء سے مئی ۱۹۷۷ء تک ہریپور جیل میں قید و بند کی صعوبت اٹھائی۔ آپ کے علمی و دینی مقام کے بنا پر ہزاروں قیدیوں میں جن میں ہر طبقہ خیال سے وابستہ افراد شامل تھے خطبہ جمعہ اور درس قرآن و حدیث کی ذمہ داری آپ کو سونپی اور سب نے آپ پر اتفاق کیا۔
صد سالہ جشن دیوبند:
۱۹۸۰ء میں دارالعلوم دیوبند کے جشن صد سالہ میں شرکت کی اور تعلیمی سیمینار میں مقالہ بھی پڑھا۔
ممبر وفاق المدارس:
پاکستان کی دینی مدارس کی سب سے بڑی تنظیم وفاق المدارس العربیہ کے رکن خاص رہے ہیں اور اس کے سارے بنیادی کاموں میں حصہ لے رہے تھے۔
ممبر فیڈرل کونسل:
۱۹۸۳ء سے لے کر ۱۹۸۵ء تک ملک کے سب سے بڑے قومی ادارے فیڈرل کونسل کے ممبر رہے۔
سینٹ آف پاکستان:
ملک کے سب سے بڑے آئینی ادارے سینٹ آف پاکستان کے ۱۹۸۵ء سے ۲۰۰۸ء تک ممبر رہے۔
جمعیت علمائے اسلام کے سیکرٹری جنرل:
نومبر ۱۹۸۶ء سے اکابرین جمعیت علمائے اسلام (حافظ القرآن و الحدیث حضرت مولانا عبداللہ درخواستی رحمہ اللہ و غیرہم) نے جمعیت کی قیادت کی ذمہ داری آپ کے سپرد کر رکھی تھی، تا دم حیات جمعیت علمائے اسلام کے امیر رہے۔ ملک میں خالص اور اسلامی سیاست کے حوالے سے آپ کو عظمت و سبقت حاصل ہے۔
شریعت بل:
آپ نے سینٹ آف پاکستان میں پانچ چھ سال کی طویل ترین صبر آزما جد و جہد کے بعد شریعت بل کو منظور کرایا اور اسلامائزیشن کے سلسلہ میں پورے ایوان کو میدان کار زار بنائے رکھا جس کی تفصیلات سے اسمبلی کی مطبوعہ رپورٹس بھری ہوئی ہیں، یہ آپ کا ایسا روشن کارنامہ ہے جسے برصغیر کی تاریخ میں روشن باب کی حیثیت حاصل رہے گی۔
متحدہ شریعت محاذ:
متحدہ شریعت محاذ جس کے شیخ الحدیث مولانا عبدالحقؒ صدر تھے، آپ ہی کی تحریک و مساعی کا ثمرہ تھا، اس محاذ میں تمام مکاتب فکر کو ملا کر آپ نے شریعت بل کو پاس کرانے میں ملک گیر جد و جہد کی۔
متحدہ علماء کونسل:
عورت کی حکمرانی کے خلاف متحدہ علماء کونسل کی تشکیل بھی آپ ہی کی مرہون منت ہے، جس کے آپ سیکرٹری جنرل تھے۔ پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء اور مذہبی تنظیموں کے سربراہان اس میں شریک ہوئے۔
اسلامی جمہوری اتحاد:
نو جماعتوں کے اتحاد اسلامی جمہوری اتحاد کے سینئر نائب صدر رہے ہیں۔
متحدہ دینی محاذ:
دینی جماعتوں کے انتخابی اتحاد متحدہ دینی محاذ کے داعی اور کنونیر رہے۔
ملی یکجہتی کونسل:
دینی طبقوں سے فرقہ واریت اور دہشت گردی کا شرمناک الزام مٹانے، امریکی نیو ورلڈ آرڈر کے خلاف اور ملت کی فلاح و بہبود کے لئے تمام دینی جماعتوں کا ایک متفقہ پلیٹ فارم ملی یکجہتی کونسل کے نام سے تشکیل دیا، جس میں تمام مکاتب فکر اکھٹے بیٹھ گئے اس کے سیکرٹری جنرل بھی آپ کو منتخب کیا گیا۔
جہاد افغانستان میں کردار:
جہاد افغانستان میں اپنے عظیم والد کی طرح آپ نے بھی بھرپور حصہ لیا، افغان مجاہدین کے اتحاد، عبوری حکومت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا، تحریک طالبان میں مرکزی کردار کے حامل رہے۔
تحریک طالبان:
افغانستان میں طالبان تحریک اور گورنمنٹ مغربی دنیا اور خصوصاً امریکہ کیلئے زہر قاتل بنا، مذکورہ تحریک سے حضرت قائد جمعیت حضرت مولانا سمیع الحق شہید رحمہ اللہ کا بنیادی سرپرستی کا تعلق رہا اور ملک و بیرون ملک ہر جگہ ان کی تائید کے لئے کوشاں رہیں۔
دفاع افغانستان کونسل:
افغانستان پر پہلے امریکی حملوں اور پھر اس کے بعد امریکہ اور اقوام متحدہ کی طرف سے افغانستان پر پابندیاں لگانے پر قائد جمعیت حضرت مولانا سمیع الحق شہید رحمہ اللہ نے افغانستان میں طالبان تحریک کیلئے حمایت و تائید حاصل کرنے کے لئے ملک بھر کے دینی مذہبی و جہادی تنظیموں کا سربراہ اجلاس جامعہ دارالعلوم حقانیہ میں ۱۰ جنوری ۲۰۰۱ء کو منعقد کیا۔ اس اجلاس میں تمام مذہبی و جہادی تنظیموں نے طالبان کی تائید و حمایت کا اعلان کیا۔ اس سلسلہ میں ایک کونسل ’’دفاع افغانستان کونسل‘‘ کے نام سے تشکیل دی گئی، جس کا چیئرمین آپ کو بنایا گیا۔
دفاع پاکستان و افغانستان کونسل:
ملک بھر کے تمام دینی سیاسی جماعتوں کے اجلاس میں قومی سلامتی کے اہم ترین تقاضے کے پیش نظر فیصلہ کرتے ہوئے دفاع افغانستان کونسل کو دفاع پاکستان و افغانستان کونسل نام دینے کا فیصلہ کیا گیا اور قومی خودمختاری کے تحفظ اور ملکی سالمیت کے دفاع کیلئے یک نکاتی ایجنڈے پر متحد ہوکر وطن عزیز کے خلاف سازشوں کا مقابلہ کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ اس کونسل کا سربراہ متفقہ طور پر حضرت مولانا سمیع الحق کو قرار دیا گیا، تا دم آخر اس کونسل کا سربراہ رہے۔
متحدہ مجلس عمل:
بعد میں اسی پلیٹ فارم کو انتخابی اتحاد کیلئے ۲۰۰۲ء کے الیکشن میں متحدہ مجلس عمل کا نام دیا گیا، جسے صوبہ سرحد کے عوام نے زبردست پذیرائی سے نوازا۔ آگے چل کر یہ اتحاد اپنے مقاصد سے انحراف کی وجہ سے عوامی تائید و قبولیت کھوبیٹھا۔
اہتمام کی ذمہ داری:
حضرت شیخ الحدیث مولانا عبدالحقؒ کی رحلت کے بعد دارالعلوم کی عظیم ذمہ داری آپ کے کندھوں پر آپڑی، تقریباً ۳۰ برس سے دارالعلوم حقانیہ کے انتظامی امور آپ چلا رہے تھے جبکہ اس عرصہ میں دارالعلوم اپنی وسعت کار کے لحاظ سے دنیا کا عظیم تعلیمی ادارہ بن چکا ہے۔
آپ کے دور اہتمام میں ہونے والی ترقی:
الحمدللہ آپ کے دور اہتمام میں دارالعلوم نے دن دگنی اور رات چوگئی ترقی کی ہے، علمی میدان میں دارالعلوم حقانیہ دوسرے مدارس کی صف میں آفتاب کی حیثیت رکھتا ہے، پاکستان اور بیرون ملک سے طالبان علوم دینیہ ایشیاء کی اس عظیم یونیورسٹی کا رخ کر رہے ہیں، اس وقت دورہ حدیث شریف میں طلباء کی تعداد ڈیڑھ ہزار ہیں۔ اتنی زیادہ تعداد پورے پاکستان میں کسی بھی مدرسے کے دورہ حدیث میں نہیں ہے، اس کے علاوہ تعمیراتی میدان میں بھی دارالعلوم رو بترقی ہے، چند جدید تعمیراتی سلسلوں کے نام ذکر کیے جاتے ہیں، جن کا آغاز اور تکمیل آپ کے دور اہتمام میں آپ ہی کے مساعی سے ہوا۔
ایوان شریعت ہال: جدید سہولیات سے مزین عظیم دارالحدیث ہے۔
احاطہ مدنیہ: چار منزلہ ۱۲۰ کمروں پر مشتمل سب سے بڑا رہائشی ہاسٹل ہے۔
احاطہ ماوراء النہر: یہ ہاسٹل ابتداء میں نو آزاد وسطی ایشیائی ریاستوں اور غیرملکی طلباء کیلئے بنایا گیا تھا اور اب ان کے چلے جانے کے بعد آج کل ’’مدرسہ ہاجرہ للبنات‘‘ کی صورت اختیار کر کے اکوڑہ خٹک کی بچیوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کا مرکز بن گیا ہے۔
احاطہ یوسفیہ: بڑے بڑے کشادہ ہالوں پر محیط ہاسٹل ہے۔
رہائشی فلیٹس: جدید طرز تعمیر کے رہائشی مکانات ہیں۔ یہ دو بلاک ہیں ایک بلاک چار مکانات اور دوسرا ۱۲ مکانات پر مشتمل ہے۔
سیوریج سسٹم: پورے دارالعلوم سے گزرتے ہوئے برساتی نالے کو سیوریج سسٹم میں تبدیل کیا، جن سے پورے دارالعلوم کے سیوریج ضروریات پوری ہو رہی ہیں۔
احاطہ شیخ الحدیث مولانا عبدالحقؒ : تین منزلوں پر مشتمل احاطہ، جس کی نچلی منزل میں دارالعلوم کا مطبخ اور باقی اوپر کی دو منزلوں میں طلباء کی رہائشی کمرے تھے، جسے اب نئے اکیڈمک بلاک کے لئے گرا دیا گیا ہے۔
احاطہ امام بخاریؒ : تین منزلوں پر مشتمل یہ احاطہ بھی آپ کے مساعی سے تعمیر ہوا۔
دارالعلوم حقانیہ کی عظیم جامع مسجد مولانا عبدالحقؒ : مسجد مولانا عبدالحقؒ یہ میرے خیال کے مطابق دارالعلوم کی تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ ہے، پرانی مسجد شہید کر کے اس کی جگہ ایک لاکھ کورڈ فٹ ایریا پر مشتمل وسیع و عریض جامع مسجد کی تعمیر ہورہی ہے، بقول حضرت یہ ان کی زندگی کا سب سے بڑا خواب ہے کہ حقانیہ کے شایان شان بڑی مسجد بن جائے، اس پر بحمدللہ اب تک ۱۴ کروڑ رقم خرچ ہوچکی ہے۔
دارالتدریس و اکیڈمک بلاک: یہ منصوبہ بھی دارالعلوم کے تعمیراتی منصوبوں میں بڑا منصوبہ ہے، جو اس وقت تکمیلی مراحل میں داخل ہوچکا ہے۔ اس بلاک میں فنون کے جملہ درسگاہیں و دفاتر کے لئے وسیع و عریض ہال چار پانچ منزلوں میں تعمیر کئے گئے ہیں۔
تصنیف و تالیف: اس قدر تدریسی، دارالعلوم کے انتظامی امور کی مصروفیات اور سیاسی ذمہ داریوں کے باوجود آپ نے تصنیف و تالیف کا مشغلہ بھی جاری رکھا تھا۔ آپ کی چند تصنیفات درجہ ذیل ہے:
(۱) قادیانیت اور ملت اسلامیہ کا موقف۔ (۲) کاروان آخرت۔ (۳) قرآن حکیم اور تعمیر اخلاق۔ (۴) شریعت بل کا معرکہ۔ (۵) حقائق السنن شرح جامع السنن الامام الترمذی۔ (۶) اسلام اور عصر حاضر۔ (۷) دعوات حق (چار جلدوں میں) جو مولانا عبدالحق کے خطبات کا مجموعہ ہے جسے آپ نے خود ضبط اور مرتب کیا۔ (۸) زین المحافل شرح شمائل ترمذی۔ (۹) اسلام کا نظام اکل و شرب شرح ترمذی۔ (۱۰) خطبات حق۔ (۱۱) مکتوبات مشاہیر سات جلدوں میں۔ (۱۲) خطبات مشاہیر جامعہ حقانیہ میں اکابر امت کے خطبات و تقاریر کا مجموعہ ۱۰ جلدوں میں۔ (۱۳) اسلامی معاشرے کے لازمی خد وحال (ترمذی شریف کے ابواب البر و الصلہ کی شرح)۔ (۱۴) عبادات و عبدیت۔ (۱۵) مسئلہ خلافت و شہادت۔
عالمی اسلامی کانفرنسوں میں شرکت: مختلف موقعوں پر عرب و عجم کے دیسوں میں عالمی اسلامی کانفرنسوں میں شرکت کرتے رہے۔
مسجد حرام کی توسیع کے سنگ بنیاد میں مولانا سمیع الحقؒ کی شرکت: ۱۹ رمضان المبارک ۱۴۳۲ھ بمطابق ۱۹ اگست ۲۰۱۱ء کو حرم کی سب سے بڑی جدید توسیع کا سنگ بنیاد رکھا جانا تھا اور اس سلسلے میں مکہ کے قصرِ صفا میں ایک بڑی یادگار تقریب کا اہتمام کیا گیا، اللہ تعالی کی شان کہ اس تقریب میں سعودی عرب کے مقتدر سیاسی، قومی، علمی اور روحانی اہم شخصیات مدعو تھے مگر سعودی عرب سے باہر عالم اسلام اور عالم عرب کی شخصیات میں سے دارالعلوم حقانیہ کے مہتمم اور جمعیۃ علماء اسلام کے امیر حضرت مولانا سمیع الحق صاحب رحمہ اللہ کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اس تاریخی و مبارک تقریب میں شرکت سے نوازے گئے اور دوسری شخصیت عالم عرب اور مصر کے معروف محقق، مفتی، عالم، علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی تھی، دونوں حضرات کو خصوصیت کے ساتھ اس تقریب میں ممتاز حیثیت دی گئی اور سب سے پہلی نشست حضرت مولانا سمیع الحق صاحبؒ کیلئے مختص کی گئی۔
امام حرم شیخ سدیس کا اپنا جبہ مولانا سمیع الحقؒ کو ہدیہ کرنا: اسی طرح حرم مکی کے روح رواں اور عالمی شہرت کے حامل خوش الحان امام جناب ڈاکٹر الشیخ عبدالرحمن السدیس مدظلہ نے بھی قصر صفا کے قیام کے دوران حضرت مولانا سمیع الحق صاحب رحمہ اللہ کو قیام اللیل کی روح پرور دعا کرانے کے بعد اپنا نیا زیراستعمال خصوصی قیمتی جُبہ بھی حضرت مولاناؒ ، دارالعلوم اور خاندانِ حقانی کے لئے سرمایہ سعادت ہے۔
مشاہیر اساتذہ: حضرت شیخ الحدیث مولانا عبدالحقؒ ، حضرت شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوریؒ ، مولانا عبدالغفور سواتی، مولانا عبدالحلیم زروبوی، مولانا مفتی یوسف بونیری، ۱۳۸۳ھ میں آپ حرمین شریفین کی زیارت سے مشرف ہوئے اس دوران دو تین ماہ مدینہ منورہ کے قیام کا موقع ملا، جامعہ اسلامیہ مدینہ کچھ عرصہ قبل قائم ہوا، جامعہ کے اساتذہ کی اجازت سے مولانا حسن جان شہید، مولانا عبداللہ کاکاخیل و غیرہ (جو جامعہ میں زیر تعلیم تھے) کی خواہش پر اعزازی طور شیخ عبداللہ بن بازؒ شیخ محمد امین شنقیطیؒ شیخ ناصر الدین البانیؒ ، شیخ عبدالقادر شیبۃ الحمد، شیخ عطیہ سالم جیسے نابعۂ روزگار اساتذہ کے کلاسوں میں شرکت کرتے رہے۔
دیگر اسفار: آپ کے اسفار میں وسطی ایشیائی ریاستوں مصر، مالٹا، لیبیا، عرب امارت، کویت، کولالمپور، بھارت، چین، امریکہ، برطانیہ اور دوسرے مغربی ممالک کے اسفار قابل ذکر ہیں۔ سینٹ کے خارجہ کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے بھی آپ نے یورپ، چین، سنٹرل ایشیاء ویت نام و غیرہ کے دورے کئے اور وہاں انتہائی اعلی سطح اداروں، پارلیمنٹیرین، سربراہوں سے افغانستان کا اور مغرب کے نام نہاد دہشت گردی پر زوردار ترجمانی کی اور اسلام کیخلاف پروپیگنڈے کا شد و مد سے توڑ کیا۔ ہر کانفرنس اور ہر سیمینار میں آپ رحمہ اللہ نے مغرب کے اس نام نہاد اصطلاح الارہاب کا قلعی کھول دی اور مغرب کی دہشت گردی کا پردہ چاک کیا اور مغربی اصطلاح الارہابیہ کی ہر موڑ پر رد پیش کیا ہے اور ہر محاذ پر اسے مغرب کی مخالفت کی۔
مولانا شہیدؒ کا آخری مکتوب: جہاد اور مجاہدین سے بے لوث محبت کا مظہر آپؒ کا یہ آخری خط ہے، جس میں آپ نے مولانا جلال الدین حقانیؒ کے سوانح مرتب کرنے کیلئے علماء و زعماء کو تاثرات لکھنے کی دورت دی۔
حضرت محترم زید مجدکم، السلام علیکم و رحمۃ اللہ: جہاد افغانستان کے عظیم کمانڈر اور جرنیل حضرت مولانا جلال الدین حقانی رحمہ اللہ کا دنیا کے دو سپر پاور سویت یونین اور امریکہ کیخلاف جہاد میں بنیادی کردار سے آپ یقیناً واقف ہوں گے، اپنے وقت کے امام شاملؒ ، صلاح الدین ایوبی، سلطان ٹیپو شہید کی یادیں تازہ کرنے والے یہ عظیم رہنماء حال ہی میں وفات پاگئے ہیں۔ ان کے متعلقین ان کے سنہری سوانح و احوال کے مرتب کر رہے ہیں ان کی خواہش ہے کہ ان کے بارہ میں تاثرات او رتعزیتی کلمات احقر کے نام ارسال فرمادیں تا کہ اسے سوانحی مجموعہ میں شامل کیا جا سکے۔ والسلام: سمیع الحق، مہتمم دارالعلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک پاکستان
اولاد و احفاد: مولانا حامد الحق (فاضل و مدرس حقانیہ سابقہ ایم این اے نوشہرہ، مولانا راشد الحق، فاضل و مدرس حقانیہ، و ایڈیٹر مجلہ ’’الحق‘‘ اسامہ سمیع، خزیمہ سمیع، اور پانچ بیٹیاں ہیں جن میں بڑی بیٹی شفیق الدین فاروقی مرحوم کے عقد میں، دوسری سید سلیمان داود گیلانی، تیسری احقر (مولانا عرفان الحق حقانی) کے عقد میں ہیں، احفاد میں عبدالحق ثانی، محمد احمد، احمد محمد عمر، محمد معزالحق، محمد ارحم الحق، عمار شفیق، حذیفہ شفیق، محمد یحیی اور محمد حسنین شامل ہیں۔
 

Copyright © 2011. Al Asir Channel Urdu Islamic Websites Tarjuman Maslak e Deoband - All Rights Reserved
Template Created by piscean Solutions Published by AL Asir Channel
Proudly powered by AL Asir Channel