یہ میرے بچپن کی بات ہے جب میں ابھی حفظ قرآن کریم کے اختتامی مراحل میں تھا ۔ چونکہ دور دراز پسماندہ ترین علاقے میں ہم نے حفظ قرآن کیا ۔ وہاں علماء کرام کا فقدان تھا مرکزی جامع مسجد کے خطیب بھی عالم نہ تھے ۔ بلکہ گاؤں کے پیشہ ور اور موروثی مولوی سمجھ لیجیے ۔ لیکن ان کی زبان مین جادو کی سی تاثیر تھی ۔ صوم و صلوة پہ گفتگو بہت سارے بے راہ روؤں کو راہ ہدایت پہ لانے کا سبب بنی ۔ الغرض وہاں ہمیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ مولوی کیا شئی ہوتی ہے ؟؟ مولوی بھلا کیوں بنتے ہیں ؟ کیا دنیا میں کوئی متعین طبقہ ایسا بھی ہے جس سے ہم منسلک ہونے کے خواہاں ہیں اور استاد محترم قاری صاحب لاہور سے تجوید و قرات کر کے واپس آئے تھے ۔ وہ تو ظاہر ہے پاکستان کے نامور علماء کرام سے واقف ہوئے ہی ہوں گے ۔ پر کبھی انہوں نے بھی ہمیں نہ بتایا شاید یہ چیزیں ہماری پڑھائی میں مخل سمجھی جاتی ہوں گی۔ اسی وجہ سے یہ بتانا مناسب نہ سمجھا ہو ۔ البتہ والد محترم جوانی کے ایام میں روزی روٹی کے سلسلے میں کراچی ایک تندور پہ کام کرتے تھے ۔ جہاں ساتھ میرے ماموں بھی تھے جن کی محنت کی بدولت والد صاحب دو تین مرتبہ امام سنی اںقلاب مولانا حقنواز جھنگوی کے پروگرامات میں گئے ۔ اور پھر جعلی پیری مریدی سے مستقل تائب ہو کر علماء حق سے ہمیشہ کے لیے اپنی وابستگی قائم کر لی ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ملک بھر میں حضرت جھنگوی کی خطابت کا طوطی بولتا تھا۔ دشمن ان کی آواز سے تھرتھرا جاتا تھا ۔ ان کے متعلق حضرت والد صاحب سے اور مامون جان کی زبانی سنا تھا کہ وہ بہت شعلہ بیاں اور یکتا روزگار خطیب ہیں پھر ایک بار ایک قریبی رشتہ دار کے ہاں دیگر رشتہ داروں کے ساتھ مہمان بے زبان بنے بیٹھے تھے ۔ وہاں ایک درد دل والی شعلہ بیان تقریر لگی تھی ۔جس کے خطیب صاحب گرج بھی رہے تھے اور ساتھ محسوس ہو رہا تھا کہ وہ چیخ چیخ کر مجمع کو جھنجوڑ رہے ہیں۔ خیر کھانے کا دستر خواں لگ گیا ۔ کھانے میں مختلف انواع و اقسام کی چیزیں تھیں لیکن میری توجہ اس ٹیپ میں لگی کیسٹ کی آواز پہ تھی ۔ کہ یار یہ تقریر ہوتی ہے ؟ جس کے متعلق میں آج تک سنتا آیا ہوں ؟ کیونکہ اس سے قبل جمعے کی ہمیشہ کی تقریر سے ہٹ کر میں نے کوئی تقریر سنی ہی نہیں تھی خیر اس تقریر کے چند جملے مجھے آج بھی یاد ہیں قیامت کی صبح کو صدیقؓ نبیؐ کی عدالت میں آئیں گے۔ اے اللہ کے رسول! میں نے تو تیرے لیے چمڑے کی ٹاکیاں پہن لیں تھیں ، میں نے تو تیرے لیے سب کچھ قربان کر دیا تھا ، میں نے تو تیرے قدموں پہ جان نثار کر دی تھی ، پاکستان میں میرا نام لکھ کر کتے کے فوٹو بنائے گئے ، مولوی خاموش رہے ، پیر خاموش رہے ۔ ، حکمران خاموش رہے ۔۔ یا رسول اللہؐ کلمہ تیرا پڑھتے رہے ، میری عزت لٹاتے رہے ۔ بتا سجاول (غالباً یہ پنجاب کی کوئی بستی ہے جو سجاول کے نام سے موسوم ہے ) بتا سجاول کے سنی تُو کیا جواب دے گا ؟ رسول اللہ کی عدالت ہوگی ، تیرا گریبان ہو گا بتا کیا جواب دے گا ؟
یقیناً یہ الفاظ اتنے درمندانہ تھے کہ اس تقریر کے سیاق و سباق کو نہ سمجھنے کے باوجود مجھ پہ سکت طاری ہو گئی ، میں خیالات میں ڈوب گیا ۔ اور کھانے کے بعد میزبان سے پوچھنے کی کوشش کی وہ جلدی میں برتن اٹھانے میں مصروف تھے ، توجہ نہ دی۔ ان کے بیٹے سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ مؤرخ اسلام مولانا ضیاء الرحمن فاروقی تھے ۔ پاکستان کے نامور ممتاز عالم دین تھے ، انہین گستاخان صحابہ نے اپنے راستے کا کانٹا سمجھتے ھوئے شہید کر دیا۔ بس اس دن سے میرے دل میں اس شخص کی محبت رچ بس گئی ۔ اس کی تقاریر کو سنا تو یقیناً یہ اپنے انداز مین منفرد خطیب تھا ۔ اس کی تقریر میں ریا کا پہلو ڈھونڈنے میں نہ ملا ۔ بس سنیت کی بیداری کیلیے زور تھا۔ دشمن کو پہچاننے کی ترغیب تھی ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے محبت عیاں تھی ۔ علمی استدلات تھے ۔ ثقہ تاریخ کے حوالے تھے ۔ چنے ہوئے اشعار ہوا کرتے تھے ۔ پھر جب شعبہ کتب میں آئے اور کتابوں سے شناسائی ہوئی تو ان کی لاجواب کتاب سنیت پہ احسان عظیم " تاریخی دستاویز" پڑھی ۔ کارکن کے نام کتابچہ پڑھا اور دیگر بہت سارے عظمت صحابہؓ ورد فریق مخالف پہ جرائد و رسائل پڑھے ۔ تو اس شخص کی محبت میں اور اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ میں نے اسے اپنا آئیڈیل تو پہلی تقریر پر ہی بنا دیا تھا ۔ لیکن کوئی اور خطیب مجھے ان کے مقابل متاثر نہ کر سکا۔ چودہ ممالک میں کئی زبانوں پہ صحابہ کرامؓ کی عظمت و رفعت ، تقدیس و طہارت پہ مبنی لٹریچر انہوں نے پہنچایا۔ دنیا بھر میں امیر عزیمت کی تحریک کو انہوں نے روشناس کروایا ۔ اور بالاخر 18 جنوری 1997ء کو لاہور ہائیکورٹ کے سامنے بم دھماکے سے ان کڑیل خوبصورت نوجوان کو ابدی نیند سلا دیا گیا ۔ مشن ان کا آج بھی جاری ہے اور ان شاءاللہ تاقیامت جاری و ساری رہے گا۔ کل ان کی یوم شھادت کی تاریخ ہے حتی الوسع ایصال ثواب کی بھرپور کوشش کی جائے۔ جزاکم اللہ خیرا
یقیناً یہ الفاظ اتنے درمندانہ تھے کہ اس تقریر کے سیاق و سباق کو نہ سمجھنے کے باوجود مجھ پہ سکت طاری ہو گئی ، میں خیالات میں ڈوب گیا ۔ اور کھانے کے بعد میزبان سے پوچھنے کی کوشش کی وہ جلدی میں برتن اٹھانے میں مصروف تھے ، توجہ نہ دی۔ ان کے بیٹے سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ مؤرخ اسلام مولانا ضیاء الرحمن فاروقی تھے ۔ پاکستان کے نامور ممتاز عالم دین تھے ، انہین گستاخان صحابہ نے اپنے راستے کا کانٹا سمجھتے ھوئے شہید کر دیا۔ بس اس دن سے میرے دل میں اس شخص کی محبت رچ بس گئی ۔ اس کی تقاریر کو سنا تو یقیناً یہ اپنے انداز مین منفرد خطیب تھا ۔ اس کی تقریر میں ریا کا پہلو ڈھونڈنے میں نہ ملا ۔ بس سنیت کی بیداری کیلیے زور تھا۔ دشمن کو پہچاننے کی ترغیب تھی ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے محبت عیاں تھی ۔ علمی استدلات تھے ۔ ثقہ تاریخ کے حوالے تھے ۔ چنے ہوئے اشعار ہوا کرتے تھے ۔ پھر جب شعبہ کتب میں آئے اور کتابوں سے شناسائی ہوئی تو ان کی لاجواب کتاب سنیت پہ احسان عظیم " تاریخی دستاویز" پڑھی ۔ کارکن کے نام کتابچہ پڑھا اور دیگر بہت سارے عظمت صحابہؓ ورد فریق مخالف پہ جرائد و رسائل پڑھے ۔ تو اس شخص کی محبت میں اور اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ میں نے اسے اپنا آئیڈیل تو پہلی تقریر پر ہی بنا دیا تھا ۔ لیکن کوئی اور خطیب مجھے ان کے مقابل متاثر نہ کر سکا۔ چودہ ممالک میں کئی زبانوں پہ صحابہ کرامؓ کی عظمت و رفعت ، تقدیس و طہارت پہ مبنی لٹریچر انہوں نے پہنچایا۔ دنیا بھر میں امیر عزیمت کی تحریک کو انہوں نے روشناس کروایا ۔ اور بالاخر 18 جنوری 1997ء کو لاہور ہائیکورٹ کے سامنے بم دھماکے سے ان کڑیل خوبصورت نوجوان کو ابدی نیند سلا دیا گیا ۔ مشن ان کا آج بھی جاری ہے اور ان شاءاللہ تاقیامت جاری و ساری رہے گا۔ کل ان کی یوم شھادت کی تاریخ ہے حتی الوسع ایصال ثواب کی بھرپور کوشش کی جائے۔ جزاکم اللہ خیرا