تازہ ترین
Showing posts with label مضامین. Show all posts
Showing posts with label مضامین. Show all posts

سازشیں کرنا بند کردو : تحریر محمد سکندر شاہ



سازشیں کرنا بند کردو۔۔۔۔؟
تحریر ۔ محمد سکندر شاہ ،، ٹنڈوالہیار

کچھ لوگ محلات میں زندہ رہتے ہیں اور کچھ لوگ تاریخ میں زندہ رہتے ہیں ، محلات میں زندہ رہنے والے ایک دن مر جاتے ہیں لیکن تاریخ میں زندہ رہنے والوں پر آنے والی نسلیں فخر کرتی ہیں ، انہی لوگوں کی گزری زندگی مشعل راہ بھی ہوتی ہے ، اور انہی کی زندگی سے رہنما اصول بھی طے ہوتے ہیں ، محلات کے بجائے جنہوں نے تاریخ میں زندہ رہنے کو ترجیح دی ایسی ہی لافانی شخصیات میں سے ایک شخصیت حضرت حق نوازؒ کی ہے ، انہوں نے اپنی زندگی مصائب اور مشکلات میں گزاری ، دنیا بھر کے تشدد ان کے وجود پر ہوئے لیکن انہوں نے عظمت اصحاب رسولﷺ اور عظمت ازواج رسولﷺ کا پرچم بلند رکھا ، ان کی لاثانی جدوجہد کی وجہ سے آج 17 رمضان المبارک کو ملک بھرمیں ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ کی عظمت کے چرچے ہیں ، پورے سوشل میڈیا پر سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے فضائل و مناقب نظر آرہے ہیں ، سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے فضائل و مناقب سن کر مومنوں کے دلوں میں ٹھنڈک پڑتی ہے جبکہ منافق تلملا جاتے ہیں ، سیدہ کے مناقب سن کر منافقین کا تلملا جانا اور مومنین کے چہرے کھل جانا کوئی نئی بات بھی نہیں ہے ، سیدہ عائشہ صدیقہؓ پر منافقین نے ان کی زندگی میں الزام لگایا تھا ، لیکن امی کے حق میں رب کریم نے قرآن کریم میں فیصلہ دے دیا تھا ، تب سے ہی سیدہ امی عائشہ صدیقہ کے حوالے سے اپنے آپ کو مسلمان کہلانے والے دو طبقوں میں تقسیم ہیں ، پہلا طبقہ نبی کریمﷺ ، اہل بیتؓ ، صحابہؓ کی پوری جماعت اور ان کے ماننے والوں مشتمل ہے جبکہ دوسرا طبقہ اُس وقت بھی منافقین کا تھا جو اُس وقت دعوی تو اسلام کا کرتے تھے جبکہ حقیقت میں اسلام کے دشمن تھے ، آج بھی دوسرے طبقے میں ویسے ہی گمراہ لوگ شامل ہیں جو اپنے آپ کو کہلواتے تو مسلمان ہیں لیکن حقیقت میں اسلام کے دشمن ہیں ، اللہ کریم نے ہم گنہگاروں پر اپنے دو فضل کر دئیے ، پہلا کرم تو یہ کیا کہ ہمیں اس طبقے میں شامل کر دیا جو کہ مناقب سیدہ عائشہ صدیقہؓ بیان کرتا ہے اور دوسرا فضل یہ کر دیا کہ ہمیں سیدہ عائشہ صدیقہؓ کا وکیل بنا دیا ، منافقین اعتراض کرتے ہیں اور الحمدللہ ہم ان منافقین کے ہر منفی اور بیہودہ پروپیگنڈے کا رد کرتے ہیں ، گزشتہ کل 10 مئی 2020 کو میں نے دیکھا کہ دنیا بھر میں ماں کا عالمی دن مدرڈے کے نام سے منایا گیا ، مدر ڈے منانے والوں میں سکھ ، عیسائی ، ہندو وغیرہ سب ہی شامل تھے ، میں سوچ رہا تھا کتنے بدنصیب ہیں وہ لوگ جو ہندو ، سکھ اور عیسائی سے بھی گر گئے اور اُس ماں کی عزت و احترام نہیں کرتے جس ماں کو اللہ کریم نے قرآن کریم میں فرمایا مومنو نبی کریم ﷺ کی ازواج تمہاری مائیں ہیں ، اب آتے ہیں آج کے حالات پر آج دنیا بھر میں لاک ڈاون کی کیفیت ہے ، کوئی کرونا کو وبا سمجھتا ہے اور کوئی سازش کہتا ہے ، سازش کہنے والوں میں صرف مولوی نہیں بلکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جیسے دنیا کے پڑھے لکھے لوگ بھی شامل ہیں ، تنزانیہ کے صدر نے کرونا وبا کو بالکل ہی عوام کے سامنے ایکسپوز کردیا کہ جانوروں تک کے خون کے ٹیسٹ انسانی ناموں سے کروائے اور سب کے ٹیسٹ مثبت آ گئے ، تنزانیہ کے صدر پر عالمی صحت کے لوگ بہت خفا ہیں لیکن اس نے ایک الگ لائن لے کر دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے ، کرونا کے نام پر جو لاک ڈاون چل رہا ہے اس لاک ڈاون کے خلاف امریکا ، آسٹریلیا اور جرمنی جیسے ملکوں میں بھی احتجاج ہو رہا ہے ، پاکستان میں بھی سوشل میڈیا کی حد تک لوگ بپھرے ہوئے نظر آئے ، خیر آج سے کاروبار کسی نہ کسی حد تک کھلا ہے تو عوام کے غم و غصے میں بھی یقننا کمی آئے گی ، لیکن اب ایک اور اہم ترین مسئلہ عوام میں زیربحث ہے ، وہ مسئلہ یہ ہے کہ ایک رائے یہ سامنے آ رہی ہے کہ 21 رمضان المبارک کو ملک بھر میں سڑکوں پر جلسے جلوس ہوں گے یا نہیں ، یہ سوال اس لئے اٹھ رہا ہے کہ نماز جیسی عبادت کے لئے ایس ، او ، پیز بناتے وقت کہا یہ گیا تھا کہ کسی بھی صورت نماز یا تراویح سڑک اور پارک میں پڑھنے کی اجازت نہیں ہوگی ، سندھ میں تو نماز جمعہ کے اجتماعات پر31 مئی تک مکمل پابندی لگی ہوئی ہے ، لیکن خدشات یہ ہیں کہ نماز جمعہ پر پابندی تو برقرار رہے گی ، عیدالفطر کے اجتماعات بھی پابندی کی زد میں آئیں گے ، لیکن 21 رمضان المبارک کو جلسے جلوس کے لئے استثنیٰ مل جائے گا ، میری ذاتی رائے میں ریاست پاکستان ایسا نہیں کرے گی کہ اس کے لئے سب شہری یکساں ہیں ، جب نماز جمعہ کے اجتماعات پر پابندی ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ سڑکوں پر جلسے جلوس کی اجازت مل جائے ، اس حوالے سے حضرت حق نوازؒ کے مشن کے امین علامہ لدھیانوی صاحب اور علامہ فاروقی صاحب بھی اپنے لائحہ عمل کا اعلان کر چکے ہیں ، اس لئے امید یہی ہے کہ ریاست پاکستان انصاف کرے گی ، کل 12 مئی کو سندھ ہائی کورٹ میں بھی اسی کیس کی شنوائی ہوگی دیکھیں وہاں سے کیا فیصلہ آتا ہے ، ویسے فیصلہ کچھ بھی ہو ایک بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ حضرت حق نوازؒ نے قوم میں بیداری اور شعور کو پیدا کیا ہے ، ہم سب کا آج متفکر ہونا یقننا حضرت حق نوازؒ کی محنت کا صلہ ہے ، لیکن کچھ لوگ اپنے ذاتی مفادات کے لئے صحابہؓ کی اس سپاہ کو کمزور کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ، انہیں خوف ہے کہ اگر یہ لوگ کامیاب ہوگئے تو ہماری دکانداری بند ہوجائے گی ، اس لئے وہ طرح طرح کے الزامات صحابہؓ کی سپاہ پر لگاتے ہیں ، حالانکہ صحابہؓ کی سپاہ ایک پرامن ، محب وطن اور آئینی جدوجہد پر یقین رکھنے والی تحریک کا نام ہے ، جو پاکستان کو بھی مسجد کی طرح مقدس سمجھتی ہے ، اس لئے اس تحریک کو بدنام کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیئے ، آج یہ جو لاکھوں نوجوان سوشل میڈیا پر امی عائشہؓ ، امی عائشہؓ پکار رہے ہیں ، انہیں یہ شعور کسی اور دینی یا سیاسی جماعت نے نہیں بلکہ صحابہؓ کی سپاہ نے دیا ہے ، ان نوجوانوں کو کنفیوژ کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے ان نوجوانوں کے سر پر ہاتھ رکھیں ، امی عائشہ صدیقہؓ کے یہ بیٹے ان شااللہ پاکستان اور اسلام کی عزت کے لئے مر مٹیں گے ، بس اتنی استدعا ہے کہ اپنے مفاد کے لئے دوسروں کے خلاف سازشیں کرنا بند کردو ، کیونکہ سازشی لوگوں کو تاریخ اچھے ناموں سے یاد نہیں کرتی ، نہیں کرتی ، نہیں کرتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دنیا بھر میں پاکستان کے دینی مدارس کی اہمیت تحریر : مسز سونیا بلال



دنیا بھر میں پاکستان کے دینی مدارس کی اہمیت
تحریر : مسز سونیا بلال، میونخ، جرمنی.

لاک ڈاون سے چند ہفتے پہلے کی بات ہے ، پاکستان میں مدارس میں ختم بخاری شریف اور تقسیم اسناد کے پروگرام ہو رہے تھے، ہماری جرمن آپا کے چار بچے پاکستان میں دین کے علم کے حصول کے لئے  موجود ہیں،  جن میں سے ایک بیٹے غالبا مفتی بن چکے ہیں اور ایک عالم کورس مکمل کر چکے ہیں،  تیسرے نمبر پر بیٹی یے جس نے اپنا عالمہ کورس مکمل کیا اور اس کی تقریب میں شرکت کے لئے یہاں سے والدین اور شادی شدہ بہنیں تک اپنے بچوں سمیت شریک ہوئیں 
عجیب لگتا ہے نا ۔۔۔
ایک جرمن عورت ، کنورٹڈ مسلمان 
اس نے اپنے بچوں کو خود سے دور بھیجا کہ دین کا علم حاصل کریں اور جب وہ جرمن بچے پاکستان جاتے تو شروع کا کتنا عرصہ انھیں عربی اور اردو سیکھنے میں لگ جاتا 
یہاں کے اکثر لوگ انگلینڈ کے مدارس میں بچوں کو بھیجتے ہیں کیونکہ وہ قریب ہیں 
لیکن ان کے بچوں نے خود پاکستان جانے کی خواہش کی کہ پاکستان جیسا علم کہیں نہیں  ۔۔۔
یاد رہے کہ باقی تمام یورپ میں کوئی دینی مدرسہ نہیں ہے 
پچھلے برس ہم جماعت کے ساتھ سوئیٹزرلینڈ گئے (عورت صرف اپنے محرم مرد کے ساتھ جا سکتی ہے، پردے کا مکمل انتظام ہوتا ہے بلکہ عام حالات سے بھی بڑھ کر )
وہاں پر آیک گھر میں ایک کنورٹڈ مسلم سوئس لڑکی ہمیں ملنے آئی ، اس نے بتایا کہ مسلمان ہونے کے بعد شادی اور بچوں کی پیدائش کی وجہ سے مجھے دین سیکھنے کا موقع نہ ملا،  چھ سال ہو گئے ، صرف نماز آتی ہے اور میں اور بڑی بیٹی  ویک اینڈ پر قریبی مسجد قرآن پڑھنے جاتے ہیں ، آپ لوگ کتنے لکی ہیں ۔  پاکستان سے ہیں ۔  دین سیکھنا کتنا آسان یے آپ لوگوں کے لئے ۔۔۔
اپنی تکلیفوں کا بتاتی رہی اور میں اسے شعب ابی طالب کے واقعات سنا کر ہمت بڑھاتی رہی ، مجھے کہنے لگی اب میں آن لائن سیکھنے کا سوچ رہی ہوں 
واپسی پر میں نے پاکستان میں اپنی ٹیچر کو جب یہ واقعہ سنایا تو انھوں نے کہا بیٹا اب جو بھی کہے کہ آن لائن دین سیکھنے لگی ہوں ، ان سے کہو جتنا آتا یے بس اس پر عمل کرو اور آسانی کی دعا کرو ,   جب  سیکھنے کا موقع ملے ، براہ راست سیکھو  ،ان لائن قادیانی جو کچھ کر رہے ہیں،  آپ کی سوچ ہے 
وہ غیر مسلم بیچارے اسلام سمجھ کر سیکھتے ہیں اور کھائی سے نکل کر گڑھے  میں جا گرتے ہیں ، یورپ خصوصا جرمنی تو اس قادیانی لابی کا گڑھ یے 
مشورے میں کتنی خیر ہوتی یے ، اس دن جانا ۔۔۔۔
خیر بات کی طرف  واپس آتے ہیں ، پھر ہم ایک دوسرے گھر گئے ، وہ ترکی نژاد سوئس لڑکی تھی 
اس کے گھر ہماری ملاقات کو دونوں وقت 30 سے 35 خواتین آتیں ، سب کی عمریں 18 سے 30 سال کے درمیان ، گھر والی لڑکی سمیت چند اور تھیں جو  پیدائشی مسلمان تھیں لیکن دین سے بہت دور اور  اب تبلیغ کی محنت کی برکت  سے دین پر پلٹیں اور زیادہ خواتین تو  کنورٹڈ مسلمان تھیں 
وہ سوئس لڑکیاں جب عبایا اور نقاب پہنے ہم سے ملنے آتیں تو بہت اچھا لگتا ، اور میرا جب انھیں پتہ چلتا کہ میں پاکستان سے ہوں تو کیا بتاوں کہ کتنی عزت ملتی جیسے میں دنیا کی سب سے بہترین جگہ سے آئی ہوں ، پاکستان اور انڈیا کو یہ لوگ دین کی نسبت سے بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں  ، ان میں سے  جس کے شوپر کا دین کا سفر پاکستان یا انڈیا کا ہوتا ، وہ بڑے فخر سے بتاتیں
اور یہ بھی بتاتیں کہ وہاں سے ان کے ہزبنڈ کیا کچھ سیکھ کر آئے 
ان کا بھی یہی کہنا تھا آپ بہت لکی ہیں،  آب نے پاکستان سے دین سیکھا ، آپ مدرسے گئیں؟ وہاں سب لوگ دین سیکھتے ہوں گے ؟
اور میں دل میں حساب لگانے لگی خوااتین کا مدرسہ میرے گھر سے 10 منٹ کی ڈرائیو پر تھا 
صدائیں لگا کرتیں کہ شارٹ کورس کر لیں،  3 ماہ کا ، دین کے بنیادی مسائل سیکھ لیں ، نماز ، پاکی و دیگر ۔۔۔
40 روزہ کورس بھی ہوتا 
ایک سال کا بھی ۔۔۔
لیکن ہمارے پورے ٹاون میں گنتی کی  چند خواتین کے سوا کوئی نہ جاتا
کیونکہ دین سیکھنا ہماری ترجیحات میں شامل نہیں ۔۔۔۔
اس سے ہمیں کوئی ظاہری فائدہ ملتا نظر نہیں آتا 
اور ہم تو ظاہر کی طرف متوجہ ہونے والے ہیں 
کئی بار سستی کی وجہ سے اور کئی بار صرف اس لئے کہ سیکھا تو عمل کرنا پڑ جائے گا 
اور یہاں کے لوگ ۔۔۔۔۔ ترسے ہوئے ہیں 😔
اور سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے خوش قسمت ہیں 
میں نے ان کا مان نہ توڑا کہ جس دین کی طلب میں آپ لوگ بے چین ہیں،  اس کو سیکھنے کا تو ہمارے یہاں شوق ہی باقی نہ رہا 
ان سب سے مل کر خوشی بھی ہوئی کہ ہمارے دہنی ادارے قابل قدر ہیں،  ہم پاکستانی دنیا میں اچھی پہچان بھی رکھتے ہیں ، الحمدللہ 
ایک عرب لڑکی تھی،  اس کے ہزبنڈ عالم تھے اور اکثر سفر میں رہتے،  جب گھر ہوتے تو ان سب کو گروپز کی صورت تھوڑا بہت سکھاتے رہتے 
وہ عرب لڑکی  مفتی تقی عثمانی صاحب کا ذکر کر کے کہنے لگی ، آپ لوگوں کے پاس کتنے گریٹ سکالر ہیں میرے ہزبنڈ نے بتایا کہ سعودیہ ان سے اتنا متاثر ہے ان کو نیشنیلٹی دینے کی آفر کی جو انھوں نے قبول نہ کی تو تمام عرصہ جو وہاں گزرا ، عجیب سی خود اعتمادی کا احساس ہوا کہ پاکستان کا ایک نام ہے ، ہمارے علمائے کرام کا پوری دنیا میں ایک احترام ہے ، عرب جو علم دین کا گڑھ ہے وہاں بھی برصغیر کے علمائے کرام کی ایک خاص قدر و منزلت ہے الحمدللہ 
ہم ہی اس علم اور علم والوں کی قدر نہ کر پائے شائد ۔۔۔
اس ترکی لڑکی نے جس کے گھر میں ہی رہے ، ایک چھوٹا سا کمرہ نماز کے لئے مختص کیا تھا جسے مصلی کہا جاتا ہے ، وہاں نفیس عبایا اور سکارف،  خوبصورت جائے نماز  طریقے سے ریک میں رکھے ہوئے تھے،  تسبیحات،  دینی کتب،  ایک عجیب سی روحانیت تھی وہاں ۔۔۔ بہت اچھا لگا،
اللہ کرے ہہ علاقے اسلام کے نور سے منور ہو جائیں اور یہاں  دینی تعلیم کے مراکز قائم ہوں اور ہمارے اپنے لوگوں  میں بھی دین کو سیکھنے کا ان گوروں جیسا  جذبہ پیدا ہو جائے ، آمین

اس شخص نے مجھے بہت متاثر کیا... بیاد حضرت مولانا ضیاء الرحمان فاروقی شہید

  یہ میرے بچپن کی بات ہے جب میں ابھی حفظ قرآن کریم کے اختتامی مراحل میں تھا ۔ چونکہ دور دراز پسماندہ ترین علاقے میں ہم نے حفظ قرآن کیا ۔ وہاں علماء کرام کا فقدان تھا مرکزی جامع مسجد کے خطیب بھی عالم نہ تھے ۔ بلکہ گاؤں کے پیشہ ور اور موروثی مولوی سمجھ لیجیے ۔ لیکن ان کی زبان مین جادو کی سی تاثیر تھی ۔ صوم و صلوة پہ گفتگو بہت سارے بے راہ روؤں کو راہ ہدایت پہ لانے کا سبب بنی ۔ الغرض وہاں ہمیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ مولوی کیا شئی ہوتی ہے ؟؟ مولوی بھلا کیوں بنتے ہیں ؟ کیا دنیا میں کوئی متعین طبقہ ایسا بھی ہے جس سے ہم منسلک ہونے کے خواہاں ہیں اور استاد محترم قاری صاحب لاہور سے تجوید و قرات کر کے واپس آئے تھے ۔ وہ تو ظاہر ہے پاکستان کے نامور علماء کرام سے واقف ہوئے ہی ہوں گے ۔ پر کبھی انہوں نے بھی ہمیں نہ بتایا شاید یہ چیزیں ہماری پڑھائی میں مخل سمجھی جاتی ہوں گی۔ اسی وجہ سے یہ بتانا مناسب نہ سمجھا ہو ۔ البتہ والد محترم جوانی کے ایام میں روزی روٹی کے سلسلے میں کراچی ایک تندور پہ کام کرتے تھے ۔ جہاں ساتھ میرے ماموں بھی تھے جن کی محنت کی بدولت والد صاحب دو تین مرتبہ امام سنی اںقلاب مولانا حقنواز جھنگوی کے پروگرامات میں گئے ۔ اور پھر جعلی پیری مریدی سے مستقل تائب ہو کر علماء حق سے ہمیشہ کے لیے اپنی وابستگی قائم کر لی ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ملک بھر میں حضرت جھنگوی کی خطابت کا طوطی بولتا تھا۔ دشمن ان کی آواز سے تھرتھرا جاتا تھا ۔ ان کے متعلق حضرت والد صاحب سے اور مامون جان کی زبانی سنا تھا کہ وہ بہت شعلہ بیاں اور یکتا روزگار خطیب ہیں پھر ایک بار ایک قریبی رشتہ دار کے ہاں دیگر رشتہ داروں کے ساتھ مہمان بے زبان بنے بیٹھے تھے ۔ وہاں ایک درد دل والی شعلہ بیان تقریر لگی تھی ۔جس کے خطیب صاحب گرج بھی رہے تھے اور ساتھ محسوس ہو رہا تھا کہ وہ چیخ چیخ کر مجمع کو جھنجوڑ رہے ہیں۔ خیر کھانے کا دستر خواں لگ گیا ۔ کھانے میں مختلف انواع و اقسام کی چیزیں تھیں لیکن میری توجہ اس ٹیپ میں لگی کیسٹ کی آواز پہ تھی ۔ کہ یار یہ تقریر ہوتی ہے ؟ جس کے متعلق میں آج تک سنتا آیا ہوں ؟ کیونکہ اس سے قبل جمعے کی ہمیشہ کی تقریر سے ہٹ کر میں نے کوئی تقریر سنی ہی نہیں تھی خیر اس تقریر کے چند جملے مجھے آج بھی یاد ہیں قیامت کی صبح کو صدیقؓ نبیؐ کی عدالت میں آئیں گے۔ اے اللہ کے رسول! میں نے تو تیرے لیے چمڑے کی ٹاکیاں پہن لیں تھیں ، میں نے تو تیرے لیے سب کچھ قربان کر دیا تھا ، میں نے تو تیرے قدموں پہ جان نثار کر دی تھی ، پاکستان میں میرا نام لکھ کر کتے کے فوٹو بنائے گئے ، مولوی خاموش رہے ، پیر خاموش رہے ۔ ، حکمران خاموش رہے ۔۔ یا رسول اللہؐ کلمہ تیرا پڑھتے رہے ، میری عزت لٹاتے رہے ۔ بتا سجاول (غالباً یہ پنجاب کی کوئی بستی ہے جو سجاول کے نام سے موسوم ہے ) بتا سجاول کے سنی تُو کیا جواب دے گا ؟ رسول اللہ کی عدالت ہوگی ، تیرا گریبان ہو گا بتا کیا جواب دے گا ؟
یقیناً یہ الفاظ اتنے درمندانہ تھے کہ اس تقریر کے سیاق و سباق کو نہ سمجھنے کے باوجود مجھ پہ سکت طاری ہو گئی ، میں خیالات میں ڈوب گیا ۔ اور کھانے کے بعد میزبان سے پوچھنے کی کوشش کی وہ جلدی میں برتن اٹھانے میں مصروف تھے ، توجہ نہ دی۔ ان کے بیٹے سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ مؤرخ اسلام مولانا ضیاء الرحمن فاروقی تھے ۔ پاکستان کے نامور ممتاز عالم دین تھے ، انہین گستاخان صحابہ نے اپنے راستے کا کانٹا سمجھتے ھوئے شہید کر دیا۔ بس اس دن سے میرے دل میں اس شخص کی محبت رچ بس گئی ۔ اس کی تقاریر کو سنا تو یقیناً یہ اپنے انداز مین منفرد خطیب تھا ۔ اس کی تقریر میں ریا کا پہلو ڈھونڈنے میں نہ ملا ۔ بس سنیت کی بیداری کیلیے زور تھا۔ دشمن کو پہچاننے کی ترغیب تھی ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے محبت عیاں تھی ۔ علمی استدلات تھے ۔ ثقہ تاریخ کے حوالے تھے ۔ چنے ہوئے اشعار ہوا کرتے تھے ۔ پھر جب شعبہ کتب میں آئے اور کتابوں سے شناسائی ہوئی تو ان کی لاجواب کتاب سنیت پہ احسان عظیم " تاریخی دستاویز" پڑھی ۔ کارکن کے نام کتابچہ پڑھا اور دیگر بہت سارے عظمت صحابہؓ ورد فریق مخالف پہ جرائد و رسائل پڑھے ۔ تو اس شخص کی محبت میں اور اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ میں نے اسے اپنا آئیڈیل تو پہلی تقریر پر ہی بنا دیا تھا ۔ لیکن کوئی اور خطیب مجھے ان کے مقابل متاثر نہ کر سکا۔ چودہ ممالک میں کئی زبانوں پہ صحابہ کرامؓ کی عظمت و رفعت ، تقدیس و طہارت پہ مبنی لٹریچر انہوں نے پہنچایا۔ دنیا بھر میں امیر عزیمت کی تحریک کو انہوں نے روشناس کروایا ۔ اور بالاخر 18 جنوری 1997ء کو لاہور ہائیکورٹ کے سامنے بم دھماکے سے ان کڑیل خوبصورت نوجوان کو ابدی نیند سلا دیا گیا ۔ مشن ان کا آج بھی جاری ہے اور ان شاءاللہ تاقیامت جاری و ساری رہے گا۔ کل ان کی یوم شھادت کی تاریخ ہے حتی الوسع ایصال ثواب کی بھرپور کوشش کی جائے۔ جزاکم اللہ خیرا

احترام وقت

مدرسہ میں نووارد طالب علم ایک صبح دس منٹ تاخیر سے کلاس پہونچا؛ طالب علم نا استاد سے واقف تھا اور نا ہی طلبہ نے کلاس کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اس نے استاد سے دریافت کیا: کیا یہ استاد محمد کی کلاس ہے؟ استاد نے جواب دیا: نہیں! ان کا سبق تو آٹھ بجے شروع ہوگا۔ استاد نے فطری انداز میں جواب دیا۔ چنانچہ نووارد طالب علم نامراد واپس چلا گیا اور اس کو طلبہ کے ہنسنے کا مطلب بھی سمجھ میں نا آسکا۔ لیکن بعد میں طالب علم کو احساس ہوگیا کہ استاد محترم نے اس کو ایک ناقابل فراموش انداز میں اپنا پہلا سبق پڑھا دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ وقت کی قدر کیجیے!
ہمارے معاشرہ میں اگر کوئی چیز متاع گم شدہ ہے تو وہ احترام وقت ہے۔ ضروری ہے کہ بچوں اور طلبہ کو عنفوان شباب ہی سے احترام وقت کی تعلیم اس طرح دی جائے اور وقت کی قدر و قیمت کا شعور ان کے اندر اس انداز سے پیدا کیا جائے اور ان کے ذہنوں میں ان کی زندگی اور اوقات کی اہمیت اس اعتبار سے راسخ کیا جائے کہ وہ پوری زندگی وقت کو اپنی متاع گرانمایہ سمجھ کر استعمال کریں؛ جو طرز عمل وقت شناس اور لائق ترین استاد نے اختیار کیا۔
بلاشبہ کہ وقت ہماری بیش قیمت شے ہے، لیکن وقت ہی ہم سب سے زیادہ ضائع ہوتا ہے۔ علمائے متقدمین نے وقت کی اہمیت کو سمجھا؛ جب بھی ہم ان کے وقت کے کارآمد بنانے کے واقعات پڑھتے ہیں تو ہم پوری طرح سر تا پا حیرت و استعجاب میں ڈوب جاتے ہیں، ان کے یہ واقعات ہمیں افسانہ معلوم ہوتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ان واقعات کی معقولیت ممکن نہیں ہے۔
چنانچہ حضرت معروف کرخی کے سوانح حیات میں ہے کہ وہ وقت کے بہت زیادہ پابند تھے؛ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ ان کے پاس کچھ لوگ آئے اور بہت دیر تک بیٹھے رہے، تو انہوں نے کہا: سورج کا فرشتہ اس کو ہانکنے سے نہیں رکے گا، اس لیے آپ حضرات کب تشریف لیجائیں گے؟
تابعی حضرت عامر بن قیس سے روایت ہے ایک مرتبہ ان سے ایک شخص نے کہا: مجھ کو شرف کلام سے ممنون فرمائیں. حضرت عامر نے جواب دیا: سورج کو روک لیجیے!
اس طرح کے واقعات ہم میں سے کچھ لوگ پڑھتے ہیں تو ہنستے ہیں اور ان کو لطائف و افسانے گردانتے ہیں اور ان کو حقائق پر مبنی اور قابل اعتبار واقعات نہیں سمجھتے، جبکہ یہ واقعات ایسے لوگوں کی زندگی میں پیش آئے جنہوں نے حقیقت میں وقت کی بے انتہا قدر کی۔
ہمارے بزرگ وقت کے تعلق سے بڑے”باغیرت” تھے؛ یہ تعبیر آج کل غیر مانوس لگتی ہے اور اس کا استعمال لوگوں میں اس حد تک حیرت پیدا کرتا ہے کہ وہ اس تعبیر کے اختیار کرنے والے کو کورفہم جانتے ہیں اور پوچھتے ہیں غیرت اور وقت کا کیا رشتہ؟! کیا وقت بھی کوئی ایسی چیز ہے جس کے تعلق سے غیرت و حمیت ہوجائے؟!
لیکن حضرت امام ابن القیم الجوزی اپنی کتاب “مدارج السالکین” میں “غیرت” اور اس کے مقام و مرتبہ اور اس کے بہت سارے امور پر محیط ہونے اور غیرت کے اجزاء میں سے ایک جز وقت کو بتلا تے ہوئے بیان کرتے ہیں وقت کے تعلق سے خودداری کا جذبہ فوت ہوچکا ہے؛ اس لیے کہ وقت اگرچہ جلد ختم ہونے والا ہے، لیکن بڑی خودداری کا پہلو رکھتا ہے، لوٹ کر واپس آنے میں سست رفتار ہے. عبادت گزار کے نزدیک وقت کے معنی یہ ہیں کہ اس میں عبادت اور اوراد و وظائف کا اہتمام کیا جائے اور مرید کے نزدیک وقت کے معنی یہ ہیں کہ اس میں کلی طور سے اللہ کی طرف انہماک اور اسی کے لیے جمعیت خاطر اور قلب و ذہن ہمہ وقت اسی جانب متوجہ ہو، اس کے نزدیک وقت عزیزترین شے ہے۔ اس کو شرم محسوس ہوتی ہے کہ مذکورہ بالا احساسات اور جذبات کے بدون وقت گزر جائے۔
چنانچہ جب وقت گزرجاتاہے اس کو کسی بھی صورت دوبارہ حاصل نہیں کیا جاسکتا، اس لیے کہ دوسرا وقت اپنی قدردانی کا اس سے زیادہ استحقاق رکھتاہے، چنانچہ جب وقت چلا جاتاہے اس کے دوبارہ حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ (مدارج السالکین: 3/49)
ہمارے وقت کی قیمت جاننے کا سب سے بہتر ذریعہ اور ہمارے دلوں میں اس کی عظمت و وقعت پیدا کر نے کا محرک اور اس کے بعد اس کو زندگی کے سرمایہ اور سب سے بیش قیمت چیز سمجھنے کا ذریعہ یہ ہے کہ ہم وقت کے متعلق بزرگوں کے واقعات پڑھیں۔ اس سلسلہ میں سب سے عمدہ تصنیف علامہ و محدث اور شامی عالم و فقیہ اور ادیب، عبد الفتاح ابوغدہ رحمہ اللہ تعالی کی “قیمة الزمن عند العلماء” ہے۔ یہ کتاب مطالعہ کے دوران جہاں قاری کے دل میں وقت کی قدر و قیمت کو پیوست کرتی ہے، وہیں دوسری طرف آپ ایسے علمائے اسلام کے گرانقدر علمی نقوش اور ان کے غیر معمولی علمی کارناموں کا مطالعہ کریں گے، جن کے انجام دینے کی توفیق ان کو اس وقت حاصل ہوئی جب انہوں نے وقت کی اہمیت کو سمجھا۔
کتنا اچھا ہوتا اگر ہم اس نادرہ زمانہ کتاب کو ان ایام اور حالات میں جو ہمیں کورونا وائرس کی وجہ سے پیش آچکے ہیں، یعنی عزلت نشینی میں میسر ہیں، اپنے مطالعہ کی فہرست میں سب سے مقدم رکھیں اور اس کا اہتمام سے مطالعہ کریں۔
اردو ترجمہ: محمد ساجد ندوی
3 شعبان المعظم 1441ھ
29 مارچ 2020

کورونا وائرس کی دہشت

کورونا وائرس کی ناگہانی وباء نے دنیا کے غالب حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، چہار سو خوف و دہشت چھائی ہوئی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق لاکھوں بیمار ہوچکے ہیں، ہزاروں نفوس موت کی آغوش میں جاچکے ہیں۔ ان گنت تشخیصی عمل سے گزرتے ہوئے بے چینی سے کروٹیں بدل رہے ہیں کہ کہیں ان کے خون کے نمونوں کی رپورٹ انہیں بھی وائرس زدہ بتلا کر وادیئ موت میں لے جانے کا پیغام نہ سنادے۔ سائنسی لحاظ سے عروج کو چھونے والی اقوام کو اس نے لرزہ براندام کردیا ہے۔ دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کی بے بسی اور کمزوری کی حقیقت سرِ عام ظاہر ہورہی ہے۔ جس ملک میں اور جس شہر کو دیکھو لاچاری کی درد بھری آہوں سے پکار رہا ہے کہ فضا میں یہ کیسا جنون ہے۔ وہ لوگ جو ہر بات کو سائنس کے ترازو میں تولتے تھے، آج ان کے چہروں پر لاچاری کی داستان عیان ہے۔ ڈر اور خوف کا ماحول ہر انسان پر اس طرح طاری ہے کہ وہ اپنی پر چھائیوں سے بھی ڈرنے لگا ہے۔ مادی دنیا میں مست انسان سمجھ لیں کہ یہ مادی عروج، صنعتی انقلاب، برق رفتار رابطے سب اس وباء کے آگے بے بس ہیں۔ اس اچانک پڑنے والی افتاد نے تمام عالم میں سراسیمگی پھیلا رکھی ہے۔ اپنی ہی دھن میں سرگرداں اس عالم کو ایک ناگہانی وباء نے کچھ اس طرح سے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے کہ انسان کا جینا محال ہے، زندگی دوبھر ہے۔
کورونا وائرس کی ہلاکت خیز، زود اثر متعدی اثرات سے کرہ ارض پر محشر بپا ہے، قیامت خیز منظر انسان اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے ہر شخص اپنے سامنے موجود فرد کو مشکوک نظر آرہا ہے۔ انسانی معاشرہ ایک عجیب و غریب خوف و ہراس کا شکار ہے۔ یہ مرض روز بروز بڑھتا ہی جارہا ہے۔ طبی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ وائرس اور پھیلے گا، اگر اس پر قابو نہ پایا جاسکا تو عالمی برادری کو بہت سنگین صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
دنیا میں ہوکا عالم ہے رات کو بھی دن کی طرح برتنے والا، وقت کو اپنے قابو میں کرنے والا انسان آج بے بس، خوفزدہ، سہا ہوا، ہوش گم ہے۔ حواس کام نہیں کر رہے ہیں، وقت کاٹنے کو دوڑ رہا ہے۔ گویا پوری کائنات بے یقینی کے عالم میں ہے۔ یہ سب رب کی حقانیت کا مظہر بھی ہے کہ اس دنیا و مافیہا پر حکم صرف قادرِ مطلق کا چلتا ہے جس کے قبضے میں ہماری جان ہے۔ جس کے امر کُن سے دنیا آباد اور جس کے حکم سے دنیا روئی کے گالوں کی طرح اڑجائے گی۔ جب انسانیت دم توڑنے لگے انسان حیوان بن جائیں درندگی کی انتہا کردیں تو اللہ کا عذاب اور قہر نازل ہوتا ہے، جو کبھی سیلاب کی شکل میں کبھی طوفان کی شکل میں کبھی زلزلہ کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ جب پوری دنیا سرکش ہوجائے تو قدرت پوری دنیا کو ایک ساتھ سبق سکھانے پر آمادہ ہوجاتی ہے۔ آج کورونا وائرس کی شکل میں قدرت نے پوری دنیا پر اپنا غضب نازل کیا ہے، کسی کی عقل کام نہیں کر رہی ہے، بچاؤ کی تدابیر سب ناکام ثابت ہورہی ہیں، عقل اس قدر ماری گئی ہے کہ کسی میں دوا تک ایجاد کرنے کی سکت نہیں ہے۔
آج امریکا کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اس میں کورونا مریضوں کی تعداد سب سے بڑھ چکی ہے تو قدرت کا انتقال ہے۔ جب غریبوں کا جینا دوبھر کردیا جائے، کمزوروں پر ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کئے جائیں، اپنے آپ کو وقت کا خدا سمجھنے لگیں تو قدرت جلال میں آجاتی ہے اور ایک ہی جھٹکا دیا کہ اب سبھی معافی مانگ رہے ہیں۔ اپنے آپ کو سپر پاور اور طاقت کا منبع سمجھنے والے امریکا و مغرب سبھی نے گھٹنے ٹیک دئے ہیں۔ مسجد، مندر، چرچ، کلیسا سب کو یاد آرہا ہے۔ رعونت زدہ ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی خدا یاد آگیا اور انہوں نے لوگوں کو چرچ جا کر دعا کرنے کی درخواست کی۔
آج بھی وقت ہے کمزوروں پر ظلم بند کیا جائے اور انسان کو انسان سمجھا جائے تو اللہ بھی اپنا جلال کم کردے گا۔ اب جب کہ تمام کوششوں کے باوجود ایک چھوٹے سے جرثومے پر کنٹرول نہیں ہو پا رہا ہے تو پھر یہ مان لیا جانا چاہئے کہ یہ ظلم عظیم پر قدرت کا قہر ہے، اس سے بچنے کے لیے یہی واحد راستہ ہے کہ قدرت سے اور اس کے ستائے ہوئے لوگوں سے معافی مانگ لی جائے اور توبہ کی جائے کہ اب ظلم نہیں کریں گے۔ اللہ پاک غفور و رحیم ہے وہ معاف کرنے والا ہے۔ آج جب کہ ہر انسان اس احساس سے گزر رہا ہے کہ وہ رب کی عنایت سے ہی زندگی کی سانسیں لے رہا ہے تو ہم پر لازم ہے کہ پوری انسانیت کی بقاء و بہتری کے لیے اللہ سے دعا مانگتے رہیں۔ جب ہمارا یقین ہے کہ حالات سب اللہ تعالی ہی کی طرف سے آتے ہیں اور وہی مشکل کشا، حاجت روا ہے اور صحت دینے والا ہے تو ہمیں اسی سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے، شاید وہ ہماری خطاؤں کو معاف فرمادے۔

قدرتی آفات، اسباب و عوامل اور ہماری ذمہ داری

کورونا وائرس کی ابتلاء عام سے جہاں دنیا کا ہر شخص پریشان ہے، وہیں اس ضمن میں قدرتی آفات سے متعلق فکری بحثیں بھی ہمیشہ کی طرح گرم ہیں۔
2005ء میں جب ملک کے شمالی حصے میں خوفناک زلزلہ آیا تھا، تب بھی اس موضوع پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔ انہی سوالات کے جواب میں لکھا گیا اس وقت کا کالم ایک بار پھر پیش خدمت ہے۔ ”ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے اللہ تعالی کی طرف سے ہی ہوتا ہے۔ اس لیے یہ سوال کہ زلزلہ کون لایا ہے بظاہر غیرضروری معلوم ہوتا ہے لیکن مجھے اس کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ بعض دانشوروں کی طرف سے کھلے بندوں یہ کہا جارہا ہے کہ اس زلزلہ کو اللہ تعالی کی طرف سے تنبیہ یا سزا سمجھنے کی بجائے فطری قوانین اور نیچرل سورسز کی کارروائی سمجھا جائے کہ ایسا ہمیشہ ہوتا آیا ہے اور نیچرل سورسز کے حوالے سے یہ معمول کی کارروائی ہے۔ ایک ممتاز دانشور نے ایک بڑے قومی اخبار میں یہ بات تحریر کی تو میں نے انہیں خط لکھا کہ اگر فطری قوانین خودمختار اور خودکار ہیں تو اسے کسی حد تک قبول کیا جاسکتا ہے، لیکن اگر فطری قوانین اور نیچرل سورسز کے پیچھے کوئی کنٹرولر اور نگران موجود ہے تو یہ بات درست قرار نہیں پاتی۔
میرا مطلب یہ تھا کہ ان صاحب کے نزدیک یہ سادہ اور فطری قوانین ہی کائنات کی اصل قوت محرکہ ہیں اور ان کے پیچھے کسی ذات کے وجود کو وہ تسلیم نہیں کرتے۔ مگر ہم مسلمان اللہ تعالی پر ایمان رکھتے ہیں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ کائنات میں کسی درخت کا ایک پتہ بھی اس کی مرضی کے بغیر حرکت نہیں کرتا۔ اس لیے ہم سب اس کو نیچرل سورسز کے کھاتے میں ڈال کر مطمئن نہیں بیٹھ سکتے۔ ان محترم دانشور نے اپنے کالم میں میرے اس خط کا ذکر کرکے اس کا یہ جواب دیا کہ نیچرل سورسز ”فیڈ“ کیے ہوئے پروگرام پر چلتی ہیں۔ میں نے گزارش کی کہ اس جواب سے بھی بات نہیں بن رہی، اس لیے کہ فیڈ کرنے والا پروگرام کو فیڈ کرنے کے بعد نہ تو بے اختیار ہوگیا ہے اور نہ ہی نیچرل سورسز کی کارروائی سے بے خبر ہے بلکہ سب کچھ اس کے علم اور مرضی کے مطابق ہو رہا ہے۔ اس لیے یہ بات تو عقیدہ کے طور پر بہر حال تسلیم کرنا ہوگی کہ اس زلزلہ کے دنیاوی اسباب کچھ بھی ہوں لیکن جو کچھ ہوا ہے اللہ تعالی کی طرف سے ہوا ہے اور اس کے علم اور حکم کے مطابق ہوا ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ یہ زلزلہ، سیلاب، طوفان، اور دیگر آفتیں کیوں آتی ہیں؟ ظاہر ہے کہ ان کے کچھ ظاہری اسباب بھی ہوں گے۔ ہمارے سائنس دان اور ماہرین ان اسباب کا ذکر کرتے ہیں اور ان کی نشاندہی بھی کرتے ہیں، ہمیں ان میں سے کسی بات سے انکار نہیں ہے۔
اسباب کے درجے میں ہم ہر معقول بات کو تسلیم کرتے ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم نے گزشتہ اقوام پر آنے والی ان آفتوں، زلزلوں، آندھیوں، طوفانوں، وباؤں، اور سیلابوں کا ذکر ان اقوام پر اللہ تعالی کی ناراضگی کے اظہار کے طور پر کیا ہے اور ان قدرتی آفتوں کو ان قوموں کے لیے خدا کا عذاب قرار دیا ہے۔ اور ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت سے پہلے اپنی امت میں آنے والی قدرتی آفتوں کا پیش گوئی کے طور پر تذکرہ فرمایا ہے اور اللہ تعالی کی طرف سے سزا یا تنبیہ کے طور پر ان کا ذکر کیا ہے۔
ان میں سے چند احادیث کا یہاں ذکر کرنا چاہوں گا۔ ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نیکی کا حکم ضرور دیتے رہنا، لوگوں کو برائی سے ضرور منع کرتے رہنا، اور ظلم کرنے والے کا ہاتھ پکڑ کر اسے ظلم سے ضرور روکنا۔ ورنہ اللہ تعالی تمہارے دلوں کو ایک دوسرے پر مار دے گا اور تم پر اسی طرح لعنت کرے گا جیسا کہ پہلی امتوں پر کی تھی۔
ترمذی شریف میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا کی قسم! تم امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ضرور سرانجام دیتے رہنا، ورنہ تم پر اللہ تعالی کی طرف سے عذاب نازل ہوگا، پھر تم دعائیں کرو گے تو تمہاری دعائیں بھی قبول نہیں ہوں گی۔
ابوداؤد شریف میں سیدنا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب لوگ معاشرہ میں منکرات یعنی نافرمانی کے اعمال کو دیکھیں اور انہیں تبدیل کرنے کی کوشش نہ کریں اور جب کسی ظالم کو ظلم کرتا دیکھیں اور اس کا ہاتھ پکڑا کر اسے ظلم سے نہ روکیں تو قریب ہے کہ سب پر خدا کا عذاب آجائے۔
ابن ماجہ شریف میں حضرت ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں بعض لوگ شراب پی رہے ہوں گے اور اس کا نام انہوں نے کچھ اور رکھا ہوگا، مردوں کے سروں پر لگانے کے آلات بج رہے ہوں گے، اور گانے والیاں گا رہی ہوں گی اور اللہ تعالی انہیں زمین میں دھنسا دے گا اور ان میں سے کچھ کو بندروں اور خنزیروں کی شکل میں مسخ کردے گا۔
ترمذی شریف میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب غنیمت کے مالک کو ہاتھوں ہاتھ لوٹا جانے لگے، امانت کو غنیمت کا مال سمجھ لیا جائے، زکوۃ کو تاوان اور بوجھ سمجھا جانے لگے، تعلیم حاصل کرنے میں دین کے مقصد کو پس پشت ڈال دیا جائے، خاوند اپنی بیوی کا فرمانبردار ہوجائے، بیٹا اپنی ماں کا نافرمان ہوجائے، بیٹا اپنے دوست کو قریب کرے اور باپ کو خود سے دور رکھے، مسجدوں میں شور و غل ہونے لگے، قبیلہ کا سردار اس کا فاسق شخص ہو، قوم کا لیڈر اس کا رذیل ترین شخص ہو، کسی شخص کی عزت صرف اس کے شر سے بچنے کے لیے کی جانے لگے، ناچنے والیاں اور گانے بجانے کے آلات عام ہوجائیں، شرابیں پی جانے لگیں، اور امت کے بعد والے لوگ پہلے لوگوں پر لعن طعن کرنے لگیں تو پھر خدا کے عذاب کا انتظار کرو جو سرخ آندھی، زلزلوں، زمیں میں دھنسائے جانے، شکلوں کے مسخ ہونے، پتھر برسنے، اور ایسی دیگر نشانیوں کی صورت میں اس طرح لگا تار ظاہر ہوگا جیسے کسی ہار کی ڈوری ٹوٹ جائے اور موتی لگا تار گرنے لگیں۔
اسی طرح آقائے نامدار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ یہ قدرتی آفتیں پہلی امتوں کی طرح اس امت میں بھی آئیں گی اور اللہ تعالی کی ناراضگی کا اظہار ہوں گی۔ اس لیے زلزلہ کے ظاہری اسباب پر ضرور نظر کی جائے اور ان کے حوالے سے بچاؤ اور تحفظ کی ضرور کوشش کی جائے لیکن اس کے ساتھ بلکہ اس سے زیادہ ضروری ہے کہ اس کے باطنی اسباب اور روحانی عوامل کی طرف بھی توجہ دی جائے اور ان کو دور کرنے کے لیے بھی محنت کی جائے۔ جب ہم یہ بات کہتے ہیں تو اس پر ایک سوال اٹھایا جاتا ہے کہ سزا اور تنبیہ تو مجرموں کو ہوتی ہے، جو لوگ جرائم میں شریک نہیں ہیں ان کا کیا قصور ہے اور معصوم بچوں اور عورتوں کا کیا جرم ہے کہ وہ بھی بہت بڑی تعداد میں زلزلہ کی زد میں آگئے ہیں۔ اس کے جواب میں گزارش ہے کہ یہ بات بھی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد ارشادات میں واضح فرمائی ہے۔ جب حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والی ان آفتوں کا ذکر کیا تو یہ سوال خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کیا گیا تھا کہ کیا نیک لوگوں پر بھی یہ عذاب آئے گا؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب اثبات میں دیا تھا۔
بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کسی قوم پر خدا کا عمومی عذاب آتا ہے تو نیک و بد سب اس کا شکار ہوتے ہیں۔ البتہ قیامت کے دن سب لوگ اپنی نیتوں کے مطابق اٹھائے جائیں گے۔
مسلم شریف میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے خواب میں دکھایا گیا ہے کہ میری امت کا ایک شخص حرم مکہ میں پناہ لیے ہوگا اور میری امت کا ہی ایک لشکر اس کے تعاقب میں مکہ مکرمہ کی طرف یلغار کرے گا۔ لیکن ابھی وہ بیداء کے مقام پر ہوں گے کہ سب لوگ زمین میں دھنسا دیے جائیں گے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے دریافت کیا کہ ان میں بہت سے لوگ غیرمتعلق بھی ہوں گے؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان میں مستبصر بھی ہوں گے یعنی وہ لوگ جو اپنی مرضی کے ساتھ شریک ہوں گے، کچھ مجبور بھی ہوں گے جو کسی مجبوری کی وجہ سے ساتھ ہوں گے، اور ابن السبیل یعنی راہ گیر بھی ہوں گے جن کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہوگا لیکن جب زمین پھٹے گی تو سب لوگ اس میں سما جائیں گے، البتہ قیامت کے دن سب لوگ اپنی اپنی نیتوں پر اٹھائے جائیں گے۔
بخاری شریف میں ام المومنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک موقع پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے کسی حصے پر آنے والے عمومی عذاب کا ذکر فرمایا تو ام المومنین نے سوال کیا کہ کیا نیک لوگوں کی موجودگی میں ایسا ہوگا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہاں جب خباثتوں کی کثرت ہوجائے گی تو ایسا ہی ہوگا۔
مسلم شریف میں ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے بھی اس نوعیت کی روایت ہے کہ انہوں نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ جو شخص نافرمانوں کے ساتھ شریک نہیں ہوگا، کیا اس پر بھی عذاب آئے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں دنیا کے عذاب میں سب ایک ساتھ ہوں گے، پھر قیامت کے دن ہر شخص اپنی نیت پر اٹھایا جائے گا۔“
چنانچہ یہ اللہ تعالی کا قانون اور ضابطہ ہے جس کی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وضاحت فرما رہے ہیں۔ اس کے مطابق ہمیں جہاں یہ عقیدہ رکھنا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالی کی طرف سے ہے، وہاں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے ناراضگی کا اظہار ہے، سزا ہے، تنبیہ ہے، اور عبرت کے لیے ہے جس سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہیے۔

جامعہ فاروقیہ کراچی کی تقریب دستاربندی

اِن دنوں مدارس عربیہ میں تکمیل بخاری شریف کی تقریبات ہو رہی ہیں۔ چند دن اور گزریں گے کہ مدارس میں سالانہ امتحانات کا آغاز ہوجائے گا۔ گزشتہ اتوار کے روز اس ناچیز کو جامعہ فاروقیہ کی تقریب دستاربندی میں شرکت کا موقع ملا، اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ جامعہ فاروقیہ کراچی کا شمار ملک کے بہترین مدارس میں ہوتا ہے، یہ ام المدارس ہے، یہاں کے فضلاء نے جابجا مدارس قائم کیے ہیں۔ جس طرح جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن، دارالعلوم کراچی، جامعہ خیرالمدارس ملتان، دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کی اپنی الگ الگ پہچان اور مزاج ہے، اسی طرح جامعہ فاروقیہ کی بھی اپنی ایک پہچان ہے۔ یہاں کے اساتذہ اور طلبہ اپنا ایک الگ رنگ ڈھنگ رکھتے ہیں۔ ہمیں جامعہ فاروقیہ کے سالانہ جلسہ دستاربندی کی دعوت ملی تو سوچا ضرور شرکت کرنی ہے، اس طرح فاروقیہ سے اپنا رشتہ وفا بھی تازہ ہوجائے گا۔
اتوار کی صبح جب فاروقیہ فینر ٹو پہنچے تو جنگل میں منگل کا سماں تھا۔ حب چوکی کی جانب سے جاتے ہوئے جوں ہی پہاڑی ڈھلان سے کوچ نیچے اتری، بائیں جانب فاروقیہ کی پر شکوہ عمارت نظر پڑی، سینکڑوں چھوٹی بڑی گاڑیاں ترتیب سے کھڑی تھیں۔ سفید اجلے لباس میں چلتے پھرتے طلبہ فرشتے معلوم ہورہے تھے۔ طلبہ کرام کے لیے تو جلسہ دستاربندی گویا عید کا دن ہوتا ہے اور ان کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ فضلاء کے والدین اور عزیز و اقارب بھی آئے ہوئے تھے۔ پروگرام جاری تھا۔ جلدی سے وضو تازہ کیا اور پہلے بانی جامعہ فاروقیہ رئیس المحدثین حضرت مولانا سلیم اللہ خان رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر حاضری دی۔ دیر تک وہاں کھڑا رہا اور بساط بھر ہدیہ ثواب پیش کرتا رہا۔ وہاں سے واپس آکر مسجد کے ہال اور برآمدے کا طائرانہ جائزہ لیا، اسٹیج کے عقب میں بہت بڑے سائز کا سادہ مگر جاذب نظر پینا فلیکس لگا ہوا تھا۔ اسٹیج کو سجانے میں بھی سلیقے سے کام لیا گیا تھا۔ کراچی کے اکثر اکابر علماء کرام خصوصی نشستوں پر تشریف فرما تھے، خاص بات جو نوٹ کی وہ یہ کہ کہیں ویڈیو بنتی نظر نہیں آئی، راقم کچھ دیر نظارہ کرتا رہا، پھر مسجد کے صحن میں جا کر بیٹھ گیا۔
مرشد العلماء حضرت مولانا مفتی محمدیوسف افشانی دامت برکاتہم کا دلپذیر بیان ہو رہا تھا۔ ہمارے استاذ محترم، جرنیل دینی مدارس، ناظم اعلی وفاق المدارس حضرت مولانا قاری محمد حنیف جالندھری دامت برکاتہم تشریف لاچکے تھے۔ آپ کا بیان ہوا، آپ نے حضرت شیخ سلیم اللہ خان رحمہ اللہ کے ساتھ اپنی کم و بیش چالیس سالہ رفاقت کی یادوں کو کھنگالا، مدارس کا مقدمہ شرکاء کے سامنے رکھا۔ مدارس کے خلاف باطل کے عزائم کے سامنے سد سکندری بنے رہنے کا عزم کیا۔ ساتھ ہی انہوں نے اہل مدارس کی ڈھارس بندھائی کہ ان شاء اللہ مدارس کے تحفظ کے لیے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا جائے گا۔
بریگیڈیئر (ر) مولانا قاری فیوض الرحمن صاحب جدون نے اپنی باری میں سپاہیانہ گھن گرج کے ساتھ جب آیت ”وَ اَعِدُّوا لَھُم مَا استَطعتُم من قوۃ۔۔۔“ تلاوت کی تو لطف ہی آگیا۔ آپ درجنوں کتابوں کے مصنف، مترجم، کہنہ مشق مجود اور بہترین قاری ہیں، انہوں نے علماء کو تجوید و قرائت کی تعلیم کے حوالے سے بہت اہم توجہ دلائی۔ انہوں نے اس تمنا کا اظہار کیا کہ ہمارے ہر عالم کو بہترین قاری بھی ہونا چاہیے۔ مولانا اورنگزیب فاروقی اور مولانا راشد محمود سومرو کے شعلہ نوا بیانات ہوئے۔ دینی اجتماعات میں ان کا جوڑ فٹ بیٹھ رہا ہے، اگر یہ دو حضرات مسلسل ایک اسٹیج پر نمودار ہوتے رہے تو ان شاء اللہ اس کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ تجوید و قراء ت کے دو بڑے نام مولانا قاری محمد اکبر مالکی اور قاری محمد ابراہیم کاسی نے اپنی بے مثال تلاوت سے سماں باندھ دیا۔ طلبہ کے ایک گروپ نے ترانہ دارالعلوم دیوبند پڑھا تو روح وجد میں آگئی۔ سرمایہ اہل علم حضرات حضرت شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ تعالی و رعاہ کا بے تکلف علمی خطاب اور فضلاء کرام کو اپنی سند خصوصا شیخ حسن مشاط اور شیخ فادانی رحمہمااللہ کی اسناد کے ساتھ مسلسلات کی اجازت حدیث طلبہ کے لیے خوان یغما سے کم نہیں تھا۔ آپ نے اپنی جلالت علمی کے باوصف اکابر علماء کو اپنی مسلسلات کی اجازت دیتے ہوئے جس تواضع اور انکسار کا مظاہرہ کیا وہ ہم ایسے چھوٹوں کے لیے ایک سبق ہے۔
پروگرام کے دوران میں طلبہ کی دستاربندی بھی ہوئی۔ دورہ حدیث شریف کی تکمیل کرنے والے طلبہ کے تمتماتے چہرے ’وجوہ یومئذ مسفرہ‘ کا عکس لگ رہے تھے۔ جب دستار فضیلت کے لیے طلبہ کرام کے نام پکارے جارہے تھے تو اندازہ ہوا کہ فاروقیہ نے کیسے کیسے لوگوں کو زیور علم سے آراستہ کیا ہے۔ جب شامت خان اور گچوخان کے بیٹوں کو بھی فاروقیہ عالم بنادے تو جانیے کہ اصل تبدیلی یہی ہے۔ ویسے فاروقیہ کا یہ امتیاز بھی ہے کہ اس کی آغوش میں معاشرے کے بہت نچلے طبقے کے بچے آئے، یہاں پلے بڑھے اور پڑھے، آج وہ آسمان علم پر درخشاں ستاروں کی مانند جگمگا رہے ہیں۔ شفیق الامہ صدر وفاق المدارس، شیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب دامت فیوضہم کی نصیحت آموز باتیں وقت کی آواز تھیں۔ آپ نے اپنے مختصر خطاب میں طلبہ کو بہت قیمتی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا ”ہماری پہچان اسلام ہے، اللہ تعالی نے اسلام ہی کو ہمارے لیے پسند فرمایا ہے، لہذا اسلام ہی پر ہم نے زندگی گزارنی ہے اور اسلام ہی پر ہم نے مرنا ہے۔“ مختصر نصیحت ہے مگر اپنے اندر معانی کا جہان رکھتی ہے، اسلام پر قائم رہنا معمولی بات نہیں، چو می گویم مسلمانم، بلرزم۔۔۔ نرم دم گفتگو گرم دم جستجو، حضرت مولانا عبیداللہ خالد مدظلہم کا خطاب لوح دل پر نقش کرنے کے قابل تھا۔ مدارس کی تاریخ، روایت، علمائے دیوبند کا تصلب فی الدین، حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان رحمہ اللہ کا مزاج و مشرب، دینی مدارس کے خلاف باطل کی سازشیں اور ان سے بچنے کی فکر آپ کے بیان کا خلاصہ تھیں، مدرسہ ڈسکورسز کے حوالے سے آپ نے طلبہ کو بطور خاص متنبہ کیا۔ ایک خاص بات یہ ہوئی کہ آپ کے خطاب کے دوران کسی نے موبائل سے فوٹو یا ویڈیو بنانے کی کوشش کی تو آپ نے بلاتامل ٹوک دیا۔ بانی جامعہ فاروقیہ کا یہی مزاج و مسلک تھا۔
حضرت رئیس المحدثین رحمہ اللہ کے جانشین مولانا ڈاکٹر عادل خان کے خطیبانہ گھن گرج کے ساتھ بیان نے صبح سے جم کر بیٹھے سامعین میں ایک تازگی اور حرارت بھر دی۔ آپ نے جامعہ فاروقیہ کی نسبت فاروقی کو اور اس کے تقاضوں کو خوب کھول کر بیان کیا، علماء اور فضلاء کو ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ محض اکابر کے واقعات بیان کرکے کام نہیں بنے گا، بلکہ ان کی سیرت و کردار کو بھی اپنانا ہوگا۔ وقت کافی ہو چلا تھا، آپ نے آخر میں دعا کے لیے صاحب طرز خطیب مولانا تنویر الحق تھانوی کو دعوتِ دعا دیتے ہوئے ان کے والد حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی نوراللہ مرقدہ کا ایک یادگار واقعہ بھی سنایا۔ مولانا تنویرالحق تھانوی نے جو دعا کرائی سو کرائی۔۔۔ حیرتوں کے پہاڑ اس وقت ٹوٹے جب انہوں نے متعدد بار قائد ملت اسلامیہ حضرت مولانا فضل الرحمن کے حق میں بلند کلمات کہتے ہوئے دعا کی۔ یہ بہت اہم بات ہوئی اور بڑی بات ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل حق علماء جو پہلے مختلف اور منتشر تھے اب متحد ہورہے ہیں۔۔۔ ہم خیال ہو رہے ہیں۔۔۔ فرقتیں قربتوں میں بدل رہی ہیں۔ ابھی چند دن قبل ہی شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم جامعہ قاسم العلوم ملتان تشریف لے گئے تو وہاں مولانا فضل الرحمن مدظلہم کی موجودگی میں بخاری شریف کا آخری سبق پڑھا آئے ہیں، آپ نے بھی وہاں مولانا فضل الرحمن کے حق میں دعائیں کیں۔ اکابر علماء دیوبند کی یہ محبتیں، قربتیں بڑی خیر و برکت والی ہیں، اللہ انہیں نظر بد سے بچائے، آمین۔
حضرت مولانا ڈاکٹر عادل خان اور حضرت مولانا عبیداللہ خالد کی کاوشوں کا نتیجہ تھا کہ جامعہ فاروقیہ میں اجتماع و اتحاد بین الدیوبندیین کا شاندار مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔ یہ ہر حوالے سے ایک یادگار اور شاندار تقریب تھی۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ جامعہ فاروقیہ کی آن ہان شان تا ابد یونہی برقرار رہے، آمین

عبرت کی نشانیاں

آپ کا اور ہمارا قبرستان جانا ہوتا ہی رہتا ہے، کبھی کسی کی تدفین میں اور کبھی فاتحہ پڑھنے کی غرض سے، یہ عمل اتنی مرتبہ انجام دیا جا چکا نہ تو میرے ذہن میں ہے اور نہ آپ کے ذہن میں ہوگا کہ کتنی بار قبرستان گئے مگر یہ بات یقیناً کسی گوشے میں ضرور محفوظ ہوگی کہ قبرستان پہنچنے کے بعد قبروں کو دیکھ کر ہمارے دل میں یہ خیال بھی آیا ہے کہ جتنے لوگ یہاں مدفون ہیں ان میں سے کچھ یقیناً ہمارے عزیز بھی ہیں، کچھ ملنے جلنے والے اہل تعلق اور شناسا بھی ہیں، یہ سب دنیاوی زندگی کو چھوڑ کر مسافرت کی زندگی اختیار کرنے والے کسی وقت اور کسی زمانے میں ہمارے درمیان تھے، ہمارا ان سے رشتہ تھا، محبت تھی، عقیدت تھی، معاملات تھے، لین دین تھا، ملنا جلنا تھا، باتیں تھیں، گفتگو تھی، جب یہ زندگی تھے ہمارے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے، چلتے پھرتے اور زندگی کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے، کسی سے کسی موڑ پر ملاقات ہوگئی، کسی سے کسی تقریب میں شرفِ نیاز حاصل ہوا اور کوئی سر راہ مل گیا۔ مگر آج یہ سب لوگ اس ویرانے کے مکیں ہیں، کبھی ان کا ٹھکانا ہماری جیتی جاگتی دنیا تھی، یہ قبریں ان لوگوں کی ہیں، جو امیر بھی تھے، متوسط حال بھی اور غریب بھی، صاحب مرتبہ بھی اور بے مرتبہ بھی، ان میں سے کچھ کا حکم چلتا تھا اور کچھ ان میں سے محکوم تھے۔ سب اس وقت تک زندہ رہے جب تک سانس چلتی رہی سانس کا سلسلہ ٹوٹا زندگی محروم ہو کر اپنے ہی بھائیوں کے کاندھے پر قبرستان پہنچے اور اپنوں ہی نے منوں مٹی کے نیچے دفنا دیا۔ اب یہ سب برابر ہیں، سب کی ایک حیثیت ہے نہ کوئی حاکم، نہ کوئی محکوم، نہ با مرتبہ، نہ بے مرتبہ، اگر کوئی فرق ہے تو وہ عمل کا فرق ہے دنیا میں جیسا عمل رہا ویسا ہی معاملہ یہاں ہوگا۔
ہمارے لیے یہ قبریں نشانِ عبرت ہیں، یہ ہمیں بتا رہی ہیں کہ ایک دن ہمیں بھی یہیں آنا ہے۔ دل کی دھڑکنیں بند ہوں گی، رگوں میں گردش کرتا خون تھمے گا، دماغ سو جائے گا، ہاتھ پاؤں کی حرکت بند ہوجائے گی، روح اپنا عارضی مسکن چھوڑ چکی ہوگی اور ہم مٹی کے ڈھیلے کی طرح پڑے ہوں گے، نہ ہماری کوئی قمیت اور نہ کوئی وقعت جو دوسروں کے ساتھ ہوا وہی ہمارے ساتھ ہوگا، غسل، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ اور پھر قبرستان میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سپرد خاک۔ دفن کرنے والے ”منھا خلقناکم و فیھا نعیدکم و منھا نخرجکم تارۃً اخریٰ“ کہتے ہوئے مٹی ڈالیں گے، فاتحہ پڑھیں گے اور پھر اپنی دنیا میں لوٹ جائیں گے۔ اب آپ ہیں، آپ کی تنہائیاں ہیں، گوشہ قبر ہے، قیامت تک یہی آپ کا مکان ہے اور یہی قیام گاہ۔ یہاں آپ کا نہ کوئی ساتھی ہے نہ غمخوار، نہ مونس اور نہ کوئی ہمدرد، اگر کوئی ساتھی ہے تو وہ آپ کے نیک اعمال ہیں۔ آپ کی نمازیں ہیں، آپ کے روزے ہیں، آپ کی زکوۃ ہے، آپ کا حج ہے، آپ کے معاملات ہیں، آپ کی خوش اخلاقی ہے، ذکر الہی ہے، پاک دامنی ہے، حق گوئی و راست بازی ہے اور سب سے بڑھ کر فضل الہی ہے۔ یہ سب کچھ ہے تو قبر آرام کی بہترین جگہ اور رحمت الہی کے نزول کا مستقر، جو لوگ اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں، ان کے لیے یہ قبریں عبرت کی نشانیاں ہیں۔ وہ پکار پکار کر کہہ رہیں ہیں ہمیں دیکھو اور خود کو سنوارو، سنبھلو او رنیکیاں اختیار کرو۔
تمہارے لیے ابھی موقع ہے تم ابھی زندہ ہو عمل کے دروازے کھلے ہوئے ہیں، اپنی آخرت سنوار سکتے ہو، اپنی دنیا اچھی بنا سکتے ہو، سرکشی نہ کرو، نافرمانی کے مرتکب نہ ہو، احکام الہی پر کار بند رہو، اسوہ رسول کو زندگی سمجھو، دین ہی سب کچھ ہے دنیا کچھ نہیں ہے، آخرت کے مسافروں کے لیے دنیا ایک قید خانہ کی حیثیت رکھتی ہے اور قیدخانے سے نکلنے کی تمنا ہر قیدی کے دل میں انگڑائیاں لیتی ہے۔ اس قید خانہ سے آزادی ملے گی اور یہاں سے رخصت ہو کر اس عالم کی طرف جانا ہوگا جہاں سے پھر نئے عالموں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ بقول شاعر:
میاں زندگی کا اختتام کہاں ہوتا ہے
ایک اور راہ نکلتی ہے خاک تربت سے
کتنی خواہشیں تھیں ان مرنے والوں کی، کتنی آرزوئیں تھیں ان دنیا چھوڑنے والوں کی۔ سب کچھ یہیں رہ گیا کوئی کچھ نہیں لے کر گیا، ہمارا بھی یہی معاملہ ہوگا۔ سمجھنا چاہیے کہ اللہ نے انسان کو اس دنیا میں سیر و تفریح کرنے انتشار بر پا کرنے، ہنگامے اور فسادات اور جھگڑے پھیلانے کے لیے پیدا نہیں فرمایا، خواہشات نفسانی کی تکمیل، حرام کھانا، شراب جوا، سٹہ، ڈاکہ زنی چوری جھوٹ، فریب، دھوکا، دشنام طرازی، بہتان، اتہام، و غیرہ لگانے شرک، کفر یا بت پرستی کے لیے پیدا نہیں فرمایا، یہ کائنات رب دو عالم کے اختیار اور قدرت کا مظہر ہے، اس میں غور کیجئے! اپنے رب کی کاریگری، صناعی اور قدرت کاملہ کے بے شمار نمونے دیکھئے یہ چاند اور سورج، یہ آسمان اور زمین، یہ ستارے، یہ جنگل یہ بیابان، یہ دشت و صحرا، یہ پہاڑ یہ سمندر، یہ دریا، اس کائنات کی ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز اللہ رب العزت کی ربوبیت کو بیان کر رہی ہے۔ وہ بتا رہی ہے کہ اللہ اکیلا ہے اور وہی سزاوارِ عبادت اور معبود حقیقی ہے اس کی حاکمیت، اس کے اقتدار اور اس کی حکمرانی کے لیے کوئی چیلنج نہیں جو بھی مدعی ہے وہ پچھلے مدعیان کی تباہی و بربادی سے سبق حاصل کرے ان میں کچھ دریابُرد ہوگئے، کچھ کو زمین نے نگل لیا غرض سب کا وجود مٹ گیا۔ ان میں سے بہت سے تو وہ ہیں جن کی کوئی علامت بھی باقی نہیں رہی، یہ قبریں ہمیں بتا رہی ہیں کہ دنیا فنا ہونے کے لیے ہے، اور فنا ہونے والے کے پیچھے اپنی طاقت و قوت صرف کرنا عقل و فہم سے دور کی بات ہے۔ صاحب فہم اور صاحب دانش ختم ہونے والی کسی چیز پر اپنا سرمایہ نہیں لگاتا۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ سرمایہ وہاں لگائے جس میں دوام ہو اور ترقی ہو۔ ترقی تو دنیاوی زندگی گذرنے کے بعد ہے کہ ہم اس سے ایک اور بہتر عالم میں اور ہمیشہ رہنے والے عالم میں اپنا ٹھکانا بنائیں وہ ٹھکانا جنت ہے۔ جنت کے حصول کی جو شرائط ہیں ان کی تکمیل ہر انسان کے لیے لازمی ہے۔ ہمیں اپنی دولت، اپنی قوت، اپنا زور اس عالم کو سنوارنے میں صرف کرنا اور لگانا چاہیے جو ہمیشہ رہے گا کبھی ختم نہ ہوگا۔

وبائی امراض میں شرعی ہدایات

دنیا اس وقت کئی مُہلک وائرس (بیماری پھیلانے والے جراثیم) کا سامنا کر رہی ہے، ان میں سے اکثر جان لیوا ثابت ہوتے ہیں، انھیں میں سے ایک اور خطرناک وائرس ”کرونا“ نے دنیا کو دہشت زدہ کردیا ہے، ماضی میں ایسی مُہلک وباؤں کا شکار اکثر پسماندہ اور غیرترقی پذیر ممالک ہوتے تھے، لیکن عجیب اتفاق ہے کہ اس بار اولین مرحلے پر ترقی یافتہ ممالک اس کا شکار ہوگئے ہیں اور ان میں سے چین سب سے زیادہ متاثر ہے۔ جاپان، تھائی لینڈ، سنگاپور، تائیوان، کینیڈا، جرمنی اور کسی حد تک امریکا بھی اس کی زد میں ہے، یعنی وہاں اس وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے، کرونا وائرس کی نصف درجن سے زائد اقسام دریافت ہوچکی ہیں، جب اس کا خورد بین سے جائزہ لیا گیا تو یہ نصف دائرے کی شکل میں نظر آیا اور کنارے پر ایسا ابھار نظر آیا جو تاج کی شکل کے مشابہ ہے، رومن زبان میں تاج کو کراؤن کہتے ہیں، اسی بنا پر اس کا نام کرونا رکھ دیا گیا ہے، اب تک زیادہ تر جاندار مثلا: خنزیر اور مرغیاں اس سے متاثر ہوتے رہے ہیں، لیکن اب یہ وائرس اپنی شکل بدل کر انسانوں کو متاثر کر رہا ہے۔ 1960ء کے عشرے میں کرونا وائرس کا نام دنیا نے پہلی بار سنا اور اب تک اس کی 13 قسمیں سامنے آچکی ہیں، ان میں سے سات اقسام انسانوں میں منتقل ہو کر انہیں متاثر کرسکتی ہیں۔
صحت کے عالمی ادارے کے مطابق وائرس کا شکار ہونے سے دو ہفتے کے اندر اس کی علامات سامنے آتی ہیں، چینی محکمہ صحت نے ’ووہان‘ سے نمودار ہونے والے وائرس کا جینوم (جینیاتی ڈرافٹ) معلوم کرکے اسے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، اب تک اس کی کوئی اینٹی وائرل دوا یا ویکسین دریافت نہیں ہوسکی، ماہرین اس کی ظاہری علامات کے مطابق ہی اس کا علاج کر رہے ہیں۔
تحقیق کرنے والوں نے بتایا کہ یہ وائرس خنزیر، چمگاڈر اور اسی طرح کے دوسرے ناپاک جانوروں کو کھانے سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے، یہ وائرس اس لئے بھی بہت خطرناک ہے کہ یہ ایک دوسرے تک منتقل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس وائرس سے انسانوں میں سانس لینے کی دقت کی بیماری پیدا ہوتی ہے اور پھیپھڑوں میں سوجن پیدا ہوتی ہے، نزلہ اور زکام پھر تیز بخار سے اس کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں اور پھر انسان آناً فاناً لقمہ اجل بن جاتا ہے۔
صحت کے ماہرین کی بتائی ہوئی حفاظتی تدابیر پر عمل کرنا لازم ہے، چونکہ اس مرض کا تعلق سانس سے ہے، اس لیے ایسی امراض کے بچاؤ کے لیے منہ اور ناک پر ماسک پہننے کا مشورہ دیا جاتا ہے تا کہ کسی مریض سے سامنا ہو تو وائرس کی زد سے بچ سکیں، لازم نہیں ہے کہ ہر شخص مرض کے وبائی اثرات کا شکار ہوجائے، جیسے بعض متعدی امراض ایک گھر میں داخل ہوجاتے ہیں، اور تقدیر الہی سے بعض کو تو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں اور وہ فوت ہوجاتے ہیں اور بعض دیگر افراد ان سے محفوظ رہتے ہیں، عالمی ادارہ صحت نے اس ضمن میں باتصویر ہدایات جاری کی ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے:
بار بار اچھے صابن سے ہاتھ دھوئیں، نزلہ اور زکام کے مریضوں سے دور رہیں، کھانستے اور چھینکتے وقت منہ اور ناک کو ڈھانپیں، جانوروں سے دور رہیں، کھانا پکانے سے قبل اور بعد میں ہاتھوں کو اچھی طرح دھوئیں، کھانا اچھی طرح پکائیں اور اسے کچا نہ رہنے دیں، کسی کی بھی آنکھ، چہرے اور منہ کو چھونے سے گریز کریں،۔
جو شخص پانچ مرتبہ دن میں نماز کا اہتمام کرتا ہے اور کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونے کی سنت پر عمل کرتا ہے، اس کے لیے ان تدابیر پر عمل کرنا آسان ہے۔
اسی کے ساتھ یہ حقیقت بھی سامنے رہے کہ ”ان اللہ لایظلم الناس شیئا و لکن الناس انفسھم یظلمون“ (یونس: ۴۴) یعنی اللہ تعالی لوگوں کو پریشانیوں میں مبتلا نہیں فرماتے، لوگ اپنے اعمال کی وجہ سے خود گرفتار بلا ہوتے ہیں۔
چنانچہ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں بیماریوں اور پریشانوں کا ایک سبب انسانوں کی بداعمالیاں اور کھلے عام گناہوں میں ملوث ہونا بھی بتایا گیا ہے۔
ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”لم تظھر الفاحشۃ فی قوم قط، حتی یُعلنوا بھا، الا فشا فیھم الطاعون، و الاوجاع التی لم تکن مضت فی اسلافھم الذین مضوا۔“ (جب کبھی کسی قوم میں فحاشی کا رواج بڑھتا ہے یہاں تک کہ وہ کھلم کھلا بے حیائی کرنے لگتے ہیں تو ایسے لوگوں کے درمیان طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے گذرے ہوئے اسلاف کے زمانے میں موجود نہیں تھیں۔) ]ابن ماجہ حدیث نمبر 4019[
آج دنیا میں نئی نئی بیماریاں سامنے آرہی ہیں بہت سی بیماریاں تو ایسی ہیں جن کا پہلے نہ کوئی تصور تھا، نہ ان کا نام کہیں سنا گیا تھا، آج بیماریاں بستی بستی پھیل گئی ہیں اور ان میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد روز بڑھ رہی ہے۔ ان تمام ہی بیماریوں کو مذکورہ بالا حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مصداق قرار دیا جاسکتا ہے، کیونکہ دنیا میں جس رفتار سے فحاشی بڑھ رہی ہے اسی رفتار سے ان بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
یہ تو اللہ کا بہت ہی کرم ہے اور اس کی شان رحمت ہے کہ آج انسان سر تا پا گناہوں میں ڈوبا ہونے کے باوجود اللہ کی گرفت سے محفوظ و مامون ہے۔ حدیث شریف میں موجود ہے: ”ما اختلج عرق و لا عین الا بذنب و ما یدفع اللہ عنہ اکثر“ ]المعجم الصغیر 216/2[ انسان کو کوئی جسمانی نقصان اور بیماری اس کے گناہوں کی وجہ سے ہی پہونچتی ہے، اور اللہ تعالی گناہوں کے باوجود جن بیماریوں کو اس سے روک لیتا ہے وہ پہونچنے والی بیماریوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں۔
اس لئے ظاہری تدابیر اور علاج کے ساتھ ساتھ گناہوں او رمعاصی سے اجتناب کا عزم مصمم اور اللہ رب العزت کے حضور نیازمندی کے احساس کے ساتھ دعاؤں کا اہتمام یہ مستقل طور پر رحمت خداوندی کو متوجہ کرنے کا ذریعہ ہے، اللہ کی رحمتوں کے سایہ میں وہ کر انسان بیماریوں اور ہر طرح کی مصیبتوں سے محفوظ و مامون رہتا ہے۔
انسانیت کے سب سے بڑے محسن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اللہ تعالی سے عافیت کی دعا مانگنے کی تعلیم فرمائی ہے: ”اللھم انی اسالک العافیۃ فی الدنیا و الآخرۃ، اللھم انی اسالک العفو و العافیۃ فی دینی و دنیای و اھلی و مالی، اللھم استر عوراتی و آمن روعاتی، اللھم احفظنی من بین یدی، و من خلفی، و عن یمینی و عن شمالی، و من فوقی، و اعوذ بعظمتک ان اغتال من تحتی۔“ ]ابن ماجہ رقم: 5074[
’اے اللہ! میں تجھ سے دنیا و آخرت میں عافیت کا طلب گار ہوں، اے اللہ! میں تجھ سے عفو و درگزر، اپنے دین و دنیا، اہل و عیال اور مال میں عافیت کی التجا کرتا ہوں، اے اللہ! ہماری ستر پوشی فرما، ہماری شرمگاہوں کی حفاظت فرما اور ہمیں خوف و خطرات سے محفوظ اور مامون فرما، اے تو ہمارے آگے اور پیچھے سے، دائیں اور بائیں سے، اوپر سے حفاظت فرما اور میں اس بات سے تیری عظمت کی پناہ میں آتا ہوں کہ میں اچانک اپنے نیچے سے پکڑ لیا جاؤں۔‘
اسی کے ساتھ ساتھ جب بھی کسی کے بارے میں سنیں کہ اسے کوئی متعدی بیماری ہے، تو یہ دعا ضرور پڑھیں:
” اَللَّهُمَّ إِنّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ البَرَصِ وَالجُنُونِ وَالجُذَامِ وَ مِن سَیِّئِ الأَسقَامِ “ (ابوداود، رقم: 1554)
” اَللّٰھُمَّ عَافِنِیْ فِیْ بَدَنِیْ، اَللّٰھُمَّ عَافِنِیْ فِیْ سَمْعِیْ، اَللّٰھُمَّ عَافِنِیْ فِیْ بَصَرِیْ لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ۔۔“ (ابوداود، رقم: 5090)
اللہ تعالی ہم سب کو دنیا و آخرت کی صلاح و فلاح کے اعمال کی توفیق بخشے۔ آمین

افغان امن معاہدہ۔ طاقت کی شکست، حق کی فتح

افغانستان میں امن کے قیام کے لیے جنگ کے دو بنیادی فریقوں امریکا اور طالبان کے درمیان تاریخی امن معاہدہ ہوگیا ہے جس پر ہفتے کی شام قطر کے دارالحکومت دوحا میں دستخظ کئے گئے۔
امریکا اور طالبان کے درمیان طے پانے والا افغان امن معاہدہ افغانستان میں پائے دار امن و استحکام کے قیام میں کس حد تک مددگار ثابت ہوگا اور بین الافغان مذاکرات کے دوران افغانستان کے مختلف طبقات اپنے ملک کو ایک طویل جنگ اور خانہ جنگی کے عذاب سے نجات دلانے کے لیے کس قدر بصیرت، خلوص اور مفاہمت کا مظاہرہ کر پائیں گے، یہ سوالات اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں اور آیندہ چند ہفتوں کے دوران ان سوالات کا جواب بھی سامنے آجائے گا تا ہم آج کی تاریخ میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ افغانستان میں امن کے لیے بالآخر وہ معاہدہ طے پا گیا ہے جس کا پوری دنیا کو انتظار تھا۔ اس معاہدے کی صورت میں جو چیز بہت واضح طور پر سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ امریکا اور عالمی طاقتوں نے بعد از خرابی بسیار سہی، یہ تسلیم کرلیا ہے کہ افغان مسئلے کا کوئی عسکری حل نہیں ہے اور یہ کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغانوں نے خود کرنا ہے۔ اس لحاظ سے یہ افغانستان کے عوام کی بالعموم اور افغان قوم کی ناقابل تسخیر قوت مزاحمت کی شاندار علامت طالبان کی بالخصوص بہت بڑی کامیابی بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے ایک طرح کی فتح مبین ہے۔ آج ایک بار پھر قرآنِ مجید کی آیت: کم من فءۃ قلیلۃ غلبت فءۃ کثیرۃ باذن اللہ۔ (کتنی ہی قلیل جماعتوں نے کثیر لشکروں کو اللہ کے حکم سے شکست دی) کی عملی تفسیر دنیا کے سامنے آئی ہے اور مادہ پرستی اور الحاد کے اس دور میں اللہ تعالی نے دنیا کو بتادیا ہے کہ آج کے دور میں بھی اگر اہل حق ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کے علم کو بلند کریں اور اللہ کی ذات پر کامل بھروسا رکھ کر باہمی اتحاد کی قوت سے آگے بڑھیں تو اللہ کی مدد آج بھی ان کے ہمرکاب ہوسکتی ہے اور ماضی کی طرح آج کی سپر طاقتیں بھی ان کے سامنے ڈھیر ہوسکتی ہیں۔
ویسے تو افغان قوم نے ہمیشہ حملہ آور قوتوں کو اپنی سرزمین پر دھول چٹائی ہے اور ماضی کی دو بڑی طاقتوں سلطنت برطانیہ اور سوویت یونین کو بھی عبرت ناک شکست دی ہے تا ہم نائن الیون کے بعد جس انداز سے چھتیس نیٹو ممالک اور ان کے دس دیگر اتحادی ممالک نے مل کر دنیا کی جدیدترین عسکری ٹیکنالوجی، انتہائی تباہ کن ہتھیاروں اور بے پناہ وسائل کے ساتھ پہلے سے تباہ حال افغانستان پر یلغار کی اور جس انداز میں خطے کے بیشتر ممالک نے ان کا ساتھ دیا، اس کو دیکھتے ہوئے بہت سے مبصرین کا یہ خیال تھا کہ طالبان بہت جلد تاریخ کا حصہ بن جائیں گے اور افغانستان میں عالمی قوتوں کی مرضی کا ہی راج قائم ہوگا، مگر دنیا نے یہ محیرالعقول تماشا دیکھا کہ افغان طالبان نے جن کے کندھے پر اس وقت میلی چادروں کے سوا کچھ نہیں تھا، طاقت کے فلسفے کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا اور پوری جرأت، پامردی، استقلال اور استقامت کے ساتھ اپنے سے ہزاروں گنا زاید قوت کے حامل دشمن کا مقابلہ کرنا شروع کیا اور بہت تھوڑے ہی عرصے میں دنیا پر اپنی مزاحمت کی دھاک بٹھادی۔
یہاں اس امر کا تذکرہ بھی شاید دلچسپی سے خالی نہ ہو کہ سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد کو بہت سے لوگ امریکا کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں اور امریکا کی جانب سے اس جنگ کی حمایت اور اس کے لیے وسائل کی فراہمی کے باعث سوویت یونین کی شکست ممکن ہوئی، اول تو یہ دعوی بھی تاریخی حقائق کے خلاف ہے کیونکہ افغان عوام نے سوویت یلغار کے خلاف اپنے بل بوتے پر اور اپنے روایتی ہتھیاروں کے ساتھ جہاد کا آغاز کیا تھا، امریکا اور دیگر عالمی قوتیں اس جنگ میں اس وقت کود پڑی تھیں جب انہیں یقین ہوگیا تھا کہ سوویت یونین افغانستان کے سنگلاغ پہاڑوں سے ٹکرا کر بکھرنے والی ہے۔ پھر طالبان کی موجودہ مزاحمت نے اس تصور اور تاثر کو پاش پاش کر کے رکھ دیا ہے کیونکہ نائن الیون کے بعد جب تمام عالمی قوتوں نے افغانستان پر آتش و آہن کی برسات کا آغاز کردیا تھا تو دنیا کا کوئی ایک ملک بھی ان کے ساتھ نہیں تھا، یہاں تک کہ جن تین اسلامی ممالک نے طالبان کی حکومت تسلیم کر رکھی تھی، انہوں نے بھی سفارتی ضابطوں کی پاس دار ضروری نہیں سمجھی اور عالمی اتحاد کا حصہ بنے۔ اس کے باوجود طالبان نے جس عزم، ہمت، بہادری اور ایمانی قوت کے ساتھ قابض افواج کے خلاف اپنی جد و جہد جاری رکھی، اس کی کوئی مادی اور منطقی توجیہ شاید ممکن نہیں ہے اور بلاشبہ یہ اسلام کا ایک معجزہ اور اسلام کی نظریہ جہاد کی حقانیت کی واضح دلیل ہے۔
ایک ایسے وقت میں جبکہ اسلامی دنیا میں کہیں سے بھی کوئی اچھی خبر سننے کو نہیں ملتی اور ہر طرف سے مایوس کن اطلاعات کی یلغار ہے، افغان امن سمجھوتے کی صورت میں جو تاریخی پیش رفت ہوئی ہے، اس پر پوری امت مسلمہ بالعموم، افغان قوم بالخصوص مبارک باد کی مستحق ہے۔ افغانستان کے وہ غیور نوجوان طالبان خاص طور پر مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے دفاع دین و ملت اور آزادی و خود مختاری کے اپنے مسلمہ پیدائشی حق کی خاطر ایک طویل اور صبر آزما جنگ لڑی، جو اپنی جانوں سے گزر گئے، جن کے بچے یتیم ہوئے، جن کی بیویوں کے سہاگ اجڑے۔ افغانستان کا ہر ہر باشندہ مبارک باد کا مستحق ہے جس نے بھوک، افلاس، تباہی اور مصائب کے لشکروں کا تو سامنا کیا لیکن حریت کیشی کی اپنی روایت کو زندہ رکھا۔ زمینی حقائق کا درست ادراک کر کے افغانستان کا مستقبل اس کے عوام کے حوالے کرنے کا امریکا کا فیصلہ بھی سراہے جانے کے لائق ہے۔ امن سمجھوتے کے لیے افغان مسئلے کے حل کے لیے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد کی کاوشیں بھی قابل داد ہیں۔ عالمی طاقتوں کو اب اس حقیقت کا اعتراف کرنا ہوگا کہ طاقت کے بل بوتے پر اقوام اور ممالک کو اپنا غلام بنانے کا دور لد چکا ہے اور اس وقت کی واحد سپر طاقت سمجھے جانے والے ملک امریکا کا افغانستان کے بوریا نشینوں کے ساتھ مصافحہ اس بات کا اعلان ہے کہ اب دنیا میں طاقت کا نہیں بلکہ انصاف کا فلسفہ ہی چل سکتا ہے۔
روزنامہ اسلام کے قارئین گواہ ہیں کہ ہم نے حالیہ افغان جنگ کے ابتدائی ایام سے آج امن معاہدہ ہونے تک ہمیشہ یہ بات دوہرائی کہ افغانستان مسئلے کو کوئی عسکری حل نہیں ہے، امریکا اور اس کے اتحادی طاقت کے بل بوتے پر یہ جنگ نہیں جیت سکتے، ہم نے سینکڑوں بار یہ گزارش دوہرائی کہ افغان مسئلے کے سیاسی حل کے لیے امریکا کو اصل فریق طالبان سے بات کرنا ہوگی اور افغان قوم کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا حق دینا ہوگا۔ اللہ کا شکر ہے کہ عالمی طاقتوں نے بالاخر زمینی حقائق کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا جس کے بعد امن سمجھوتا ممکن ہوا۔ اللہ کرے کہ یہ سمجھوتا نہ صرف افغانستان یا جنوبی ایشائی خطے بلکہ پوری دنیا کے امن و استحکام کے لیے اہم سنگ میل بنے اور انسانیت کو دنیا کے کسی بھی خطے میں مزید جنگوں اور آزمائشوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

افغانستان میں امن کی جانب ایک اہم پیش رفت

امریکی حکام اور طالبان کے درمیان ایک ہفتے کے لیے تشدد میں کمی لانے پر اتفاق ہوگیا ہے۔
برطانوی خبررساں ادارے کے مطابق فریقیں کے درمیان تشدد میں کمی لانے کا آغاز 22 فروری بروز ہفتہ ہوگیا ہے۔ عارضی جنگ بندی پر عمل درآمد کامیاب رہا تو امریکا اور افغان طالبان امن کے ابتدائی معاہدے پر دستخط کریں گے جس سے تقریباً 2 دہائیوں سے جاری جنگ خاتمے کے قریب پہنچ جائے گی۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے عارضی جنگ بندی کے عمل کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ دہائیوں کی جنگ کے بعد طالبان کے ساتھ افغانستان میں پرتشدد کارروائیوں کی کمی کے سمجھوتے پر اتفاق ہوچکا ہے جو امن عمل کے لیے انتہائی اہم قدم ہے۔ دوسری جانب افغان طالبان نے بھی تصدیق کی ہے کہ ان کا امریکا کے ساتھ 29 فروری کو ممکنہ طور پر امن معاہدہ ہونے جارہا ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹ کیا ہے امریکا کے ساتھ معاہدے کے تحت تمام غیر ملکی افواج افغانستان سے نکل جائیں گی اور کسی کو بھی افغان سرزمین دوسروں کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ دریں اثناء پاکستان نے امریکا اور طالبان کے امن سمجھوتے کے اعلان کا خیرمقدم کیا ہے۔
امریکا اور طالبان کے درمیان مجوزہ امن معاہدے کی تکمیل کے لیے عارضی جنگ بندی پر اتفاق ایک تاریخی سنگ میل ہے اور آج امن کی جانب اس اہم پیشرفت پر ہر وہ شخص مسرور اور پر امید ہے جو اس خطے میں طویل جنگ و جدل کا خاتمہ چاہتا ہے اور جو افغانستان کے ستم رسیدہ عوام کے مستقبل کو محفوظ اور پوری دنیا کے امن و سلامتی کو مستحکم دیکھنے کا خواہش مند ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کے عوام نے (ماضی بعید کی تاریخ کو ایک طرف رکھتے ہوئے) گزشتہ چار دہائیوں کے دوران بے انتہاء ظلم و تشدد برداشت کیا اور ناقابل برداشت حد تک اذیتیں، صعوبتیں اور نقاصانات اٹھائے ہیں۔ افغانوں کی دو تین نسلیں عالمی استعماری طاقتوں کی مفاداتی کشمکش کا چارہ بن کر قتل و غارت، ہجرت و در بدری اور خانہ جنگی و پریشان حالی کا شکار ہوئیں اور آج افغانستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں غربت، افلاس، بے چینی اور لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس سب سے زیادہ ہے۔ دوسری جانب افغانستان کی سرزمین پر لڑی جانے والی اس بے ننگ و نام جنگ نے پہلے سوویت یونین اور اس کے بعد اب امریکا جیسی سپر طاقتوں کی معیشت کا کچو مر نکال کر رکھ دیا ہے اور آج یہ عبرت انگیز منظرنامہ دنیا کے سامنے ہے کہ ٹریلین ڈالرز کے مادی وسائل ضائع کرنے کے بعد بھی عالمی طاقتیں افغان سرزمین پر اپنا تسلط قائم کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہیں اور ان کی جانب سے افغانستان نامی کمبل سے اب جان چھڑانے کی تگ و دو جاری ہے۔ دنیا کا جتنا سرمایہ افغانستان میں گزشتہ اٹھارہ برسوں کے دوران آہن و بارود کی صورت میں جھونکا گیا، اس کا ایک تہائی بھی اگر مہذب طریقے سے یہاں کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال میں لایا جاتا تو شاید آج خطے کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔
عالمی طاقتوں نے اول تو نائن الیون کے واقعات کے بعد ذہنی صدمے کی حالت میں محض انتقامی جذبے سے مغلوب ہو کر تمام تر بین الاقوامی اصولوں کو پامال کرکے پہلے سے تباہ حال ملک افغانستان کو مزید تباہ کرنے کے لیے مہم جوئی کی، پھر جب کچھ ہی عرصے میں زمینی حقائق کی تلخ سچائیاں سامنے آنے لگیں اور یہ بات واضح ہوگئی کہ جنگ کے ذریعے افغانستان کو فتح نہیں کیا جاسکتا تو حقائق کو قتل کرنے، زمینی صورت حال سے نظریں چرانے اور کنٹرولڈ میڈیا کے ذریعے سچ کا گلہ دبانے اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی روش جاری رکھی تو اس کے تباہ کن اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ جنگ امریکا اور اسد کے اتحادیوں پر بھاری ثابت ہوتی گئی۔ سابق امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے پہلے دور صدارت کے آخری لمحات میں کسی حد تک زمینی حقائق کو تسلیم کیا اور پھر دوسری مرتبہ صدر منتخب ہونے کے بعد ان کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا او رمتعدد بار مذاکرات میں پیشرفت کی اطلاعات بھی سامنے آتی رہیں، 2014ء میں ایک مرحلے پر افغانستان سے نیٹو انخلاء شروع ہوجانے اور 2016ء تک یہ عمل مکمل کرنے کا درون خانہ سمجھوتا بھی ہوا مگر پھر امریکی انتظامیہ کے تذبذب اور فریب کاری کی کوششوں کے بسبب مذاکرات کی بیل منڈے نہ چڑھ سکی۔
امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اقتدار میں آکر افغانستان سمیت دنیا کے مختلف حصوں سے امریکی افواج واپس لانے کا وعدہ کیا اور انتخاب جیت گئے مگر و ہائٹ ہاوس کے مکین بننے کے بعد صہیونی لابی کے دباو میں آکر نہ صرف یہ کہ افغانستان سے فوجیں واپس لانے کے وعدے سے یوٹرن لیا بلکہ مزید تین ہزار فوجی افغانستان بھیجنے کا اعلان کردیا جس کے بعد افغانستان میں تباہ کن مزاحمتی کارروائیاں شروع ہوگئیں اور بہت جلد ٹرمپ انتظامیہ کو احساس ہوگیا کہ افغانستان کی دلدل سے نکلنے کی کوششوں میں ہی عافیت ہے۔ چنانچہ مسٹر ٹرمپ نے اپنے افغان نژاد مشیر زلمے خلیل زاد کو طالبان سے مذاکرات کا ٹاسک دے دیا۔
ایک عام تاثر یہ تھا کہ ایک تجربہ کار اور گھاک سفارت کار اور افغانوں کی نفسیات سے واقف شخص ہونے کی حیثیت سے زلمے خلیل زاد مذاکرات کی بساط پر طالبان کو پھنسانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ بہت سے مبصرین کا خیال تھا کہ عسکری محاذ پر امریکا کے لیے لوہے کے چنے ثابت ہونے والے طالبان مذاکرات کی میز پر ترنوالہ بن جائیں گے لیکن جس طرح دنیا نے جنگ کے میدان میں طالبان کی محیرالعقول پامردی، بے جگری، استقامت، اتحاد اور عزیمت کا مشاہدہ کیا تھا، مذاکرات کے دوران ان کی جانب سے اتنی ہی سنجیدگی، باہمی ہم آہنگی اور صبر و استقامت کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا، یہاں تک کروڑوں ڈالرز مذاکرات پر خرچ کرنے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تو ایک مرحلے پر اچانک مذاکراتی عمل ختم کرنے کا اعلان کرکے اپنی غیرسنجیدگی اور شکست خوردہ ذہنیت کا ثبوت دیا جبکہ طالبان کسی مرحلے پر بھی ڈگمگاتے یا ہچکچاتے نظر نہیں آئے۔ بالآخر وہ لمحہ آگیا جب دنیا نے ان کا اصولی موقف تسلیم کرلیا، اب کوئی مانے یا نہ مانے دو عشروں سے جاری اس جنگ کا اگر اس معاہدے کے نتیجے میں اختتام ہوجاتا ہے تو طالبان ہی اس کے فاتح اور مرد میدان سمجھے جائیں گے۔ تاہم شاید طالبان کا اصل امتحان اس کے بعد شروع ہوگا کہ وہ افغانستان میں پائے دار امن و استحکام کے لیے دیگر تمام افغان طبقات کو ساتھ لے کر چلنے اور کسی بھی قسم کے داخلی انتشار سے بچنے میں کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں۔ توقع رکھی جانی چاہیے کہ طالبان اس آزمائش میں بھی اللہ کی مدد سے یقیناً سرخرو ہوں گے اور طالبان کی بے مثال مزاحمتی جد و جہد اور کامیاب سفارتی مشن کے نتیجے میں افغانستان بہت جلد ایک متحد، منظم اور مستحکم اسلامی فلاحی ریاست کی صورت میں ابھرے گا۔

کورونا وائرس اور اسلام کی حقانیت

اسلام ایک خوبصورت مذہب ہے جس نے انسانیت کو جینے کا شعور دیا۔
اسلام سے قبل معاشرے کی بے راہ روی آج کے یورپی معاشرے سے کم نہ تھی۔ ان کی اخلاقی حالت ایسی تھی کہ کوئی ان پر حکومت تک کرنے کو تیار نہ ہوتا تھا۔ اسلام نے انہیں جینے کا ایسا سلیقہ سکھایا کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے رہبر و رہنما بن گئے۔ اسلام نے زندگی کے ہر شعبے کے متعلق رہنمائی فراہم کی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ زندگی کے ہر ہر شعبے اور ان کی جزئیات کے متعلق بھی اسلام رہنمائی فراہم کرتا ہے بلکہ اس میں تمام تر مسائل کی بنیاد فراہم کردی ہے اور تفصیلی کام امت کے اصحاب علم و بصیرت پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ ہر دور میں ہونے والی معاشرتی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام جزئی مسائل کا حل تلاش کریں۔ اسلام میں بیان کردہ احکامات میں حلال و حرام کی واضح تمیز کی گئی ہے۔ ویسے تو ہر یک مسئلہ اور معاملہ میں حلال و حرام کو واضح کیا گیا ہے لیکن اسلام نے حلال غذا کھانے اور حرام غذا سے بچنے کی بھی خاص تلقین کی ہے۔
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فرمایا: ترجمہ، اے ایمان والو، جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو عطاء کی ہیں ان کو کھاؤاور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اللہ کے بندے ہو۔ (البقرہ) اسی طرح اور بھی بہت سی آیات اور احادیث مبارکہ میں حلال غذائیں کھانے کی تاکید کی گئی ہے۔ تمام وہ غذائیں جو شریعت مطہرہ نے انسان کے لیے حلال قرار دی ہیں ان میں انسان کے لیے روحانی فوائد تو ہیں ہی، اس کے ساتھ ساتھ انسان کے لیے ان غذاؤں میں بے شمار طبعی و طبی فوائد بھی ہیں اور جن غذاؤں کو حرام قرار دیا گیا ہے ان میں انسان کے لیے نقصانات ہیں۔ ہماری غذائیں معدہ، جگر اور گردوں کے افعال پر اثرانداز ہونے کے علاوہ دل و دماغ پر بھی اثر کرتی ہیں، لہذا حلال اور صاف ستھری غذائیں اسی طرح استعمال کی جائیں جیسے اللہ رب العزت نے حکم دیا ہے تو یہ غذائیں انسان کے دل و دماغ کے لیے مفید ثابت ہوتی ہیں اور اگر حرام اشیاء کا استعمال کیا جائے تو دل و دماغ کے مفسد ہونے کے علاوہ جسم بھی مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ آج کل کورونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لیپٹ میں لے رکھا ہے جس کی ابتدا چین سے ہوئی اور اس کے سب سے زیادہ متاثرین بھی چین میں ہی ہیں اور ہلاکتیں بھی چین میں ہی سب سے زیادہ ہوچکی ہیں جبکہ دیگر بہت سے ممالک میں بھی اس کے کیس سامنے آرہے ہیں بلکہ اکا دکا اموات کی بھی خبریں ہیں۔ اللہ رب العزت سب کو موذی امراض سے محفوظ رکھے اور جو اس سے متاثر ہیں انہیں صحت عطاء فرمائے۔
یہاں اس بات کو ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ممکنہ طور پر یہ وائرس چمگادڑوں کے ذریعے کتے بلی و غیرہ میں منتقل ہوا اور وہاں سے انسانوں میں۔ چینی حلال و حرام اور غذا کی پاکی و ناپاکی میں تمیز کیے بغیر ہر چیز کھالیتے ہیں، جن میں کتے بلے، چوہے اور کیڑے مکوڑے بھی شامل ہیں۔ اسی وجہ سے اتنا شدید اور موذی وائرس اتنی تیزی سے پھیلا کہ چین جیسا ترقی یافتہ ملک بھی اس کی روک تھام میں ناکام نظر آتا ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ چین جیسا مضبوط معیشت رکھنے والا ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بھی اپنے شہریوں میں پاک و ناپاک غذا کے بارے میں شعور پیدا نہیں کرسکا اور انہیں مضر صحت غذا کھانے سے روک نہیں سکا۔ جن اشیاء کو اسلام نے حرام قرار دیا ہے انہیں آج کی سائنس بھی مضر صحت مانتی ہے اور اسلام کی حلال کردہ اشیاء صحت کے لیے سودمند ثابت ہوچکی ہیں۔
اس حوالے سے ایک اور بات جو اسلام کی حقانیت پر دلالت کرتی ہے وہ یہ ہے کہ چین میں وائرس کے پھیلاؤ کے بعد چین نے فضائی آپریشن تقریبا بند کردیا اور کسی کو چین میں داخل ہونے یا چین سے نکلنے کی اجازت نہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان سمیت بہت سے ممالک نے اپنے شہریوں چین جانے اور جو شہری چین میں مقیم تھے، انہیں وہاں سے نہ نکالنے کا اعلان کیا۔ اگر چہ اب اسکریننگ و غیرہ کی شرط پر تمام ممالک نے اپنے شہریوں کو وہاں سے نکالنا شروع کردیا ہے لیکن ابتداء میں انہوں نے نہ نکالنے کا ہی فیصلہ کیا تھا۔
یہ اسی کا عملی ثبوت ہے جو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس علاقے میں طاعون پھیلا ہو اس علاقے میں نہ جاؤ اور ایسے ہی (موت کو خوف سے) وہاں سے مت بھاگو۔ بعض علمائے کرام کی نظر میں طاعن ایک خاص قسم کی بیماری تھی، جس کے بارے میں یہ ارشاد ہے لیکن بہت سے علماء کرام کا یہ بھی موقف ہے کہ طاعون ایک خاص قسم کی بیماری تھی، جس کے بارے میں یہ ارشاد ہے لیکن بہت سے علماء کرام کا یہ بھی موقف ہے کہ طاعون سے مراد ہر وہ موذی بیماری ہے جو تیزی سے پھیلتی ہے اور جس علاقے میں یہ بیماری پھیلی ہو، وہاں نہ تو جانا جائز ہے اور نہ ہی وہاں سے موت کے خوف سے بھاگنا جائز ہے۔ ایسے لوگ جو اس بیماری پر صبر کرکے اسی علاقے میں ٹھہرے رہیں تو ان کے لیے شہید کا اجر ہے، اس پر بھی بہت سے علمائے کرام کا یہ موقف ہے کہ اگر اس کی موت نہ بھی واقع ہو تب بھی اس صبر و استقامت پر اسے شہید کا اجر ملتا ہے۔
اسلام کی حقانیت کو واضح کرنے کے لیے یہ دو مثالیں تو شاید بہت چھوٹی ہیں۔ ان کے علاوہ بھی موجودہ دور میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جو اسلام کی حقانیت پر دلالت کرتی ہیں۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مسلمان کسی طرح اسلام کی تعلیمات ان غیر مسلموں تک پہنچانے کا فریضہ ادا کریں۔ یہ ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ اس کی جہاں تک رسائی ہے وہ اسلام کا پیغام غیرمسلموں تک پہنچائے تا کہ وہ اسلام کے احکامات پر غور و فکر کریں اور اس کی حقانیت کی پہچان کر اس کے دائرہ عافیت میں داخل ہوجائیں۔

خاندانی نظام کے لیے تباہ کن ترمیم

مسلمانوں کے ہاں لے دے کر ایک خاندانی یونٹ بچا ہوا ہے۔ پنجاب اسمبلی نے سال ۲۰۱۵ء میں فیملی کورٹس ایکٹ ۱۹۲۴ء میں ایک ترمیم منظور کی ہے جسے گورنر کی منظوری سے باقاعدہ قانون کا درجہ حاصل ہوگیا ہے۔ یہ ترمیم خاندانی یونٹ کے لئے انتہائی تباہ کن ہے۔ نتیجہ کے طور پر عدالتوں میں طلاق کے مقدمات کی بھرمار ہوگئی ہے۔ اس ترمیم کے ذریعے خلع کے اصول کو مسخ کیا گیا ہے۔ اس بارے میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین، جناب مولانا خان محمد شیرانی کی جانب سے ۲۸ مئی ۲۰۱۵ء کے اخبارات میں تفصیلی وضاحت شائع ہوئی ہے۔ یہ وضاحت کونسل کے دو روزہ اجلاس کے بعد پریس کانفرس کی صورت میں کی گئی۔ وضاحت میں کہا گیا کہ شوہر کی رضامندی کے بغیر عدالت یکطرفہ طور پر خلع کی ڈگری جاری نہیں کرسکتی۔ عدالتوں کو خلع اور فسخ نکاح میں فرق کرنا چاہیے۔ خلع کی ڈگری جاری کرنے سے پہلے عدالت کا یہ اطمینان شہادت کے ذریعے بھی لازم ہے کہ خلع کا سمجھوتہ فریقین کے درمیان نیک نیتی اور اازاد مرضی سے ہوا۔ اگر اس امر کی شہادت سامنے آئے کہ خاوند نے محض معاوضہ ہتھیانے کے لیے خاتون کو تنگ کرکے خلع کے مطالبے کے لئے مجبور کیا ہو تو ایسی صورت میں زرخلع ڈگری نہیں کیا جائے گا۔ اس طرح شہادت کے بغیر سرسری طور پر خلع کی ڈگری جاری کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
“Dissolution of marriage by way of Khula was pronounced by Family Court subject to return of dower amount by wife, but said amount to single divorce and until third divorce takes place husband would by at liberty to remarry his wife again and parties could join as husband and wife on soleminization of nikah without internening marriage. (2000 MLD 447)”
”فیملی کورٹ نے خلع کے طریقے پر نکاح کی منسوخی کا فیصلہ کیا، اس شرط پر کہ بیوی مہر کی رقم واپس کردے، مگر واپس کردہ رقم خاوند قبول نہ کرے۔ اس طرح خلع کا فیصلہ ایک طلاق کے مترادف ہوگا۔ تیسری طلاق تک خاوند اسی بیوی سے دوبارہ نکاح کے لیے آزاد ہوگا اور بیوی کے کسی اور شخص سے شادی کیے بغیر وہ دوبارہ نکاح کرکے بطور میاں بیوی کے طور پر رہ سکتے ہیں۔“
اس بارے میں پنجاب اسمبلی کی جانب سے کئی گئی ترمیم شریعت کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ معقولیت پر بھی مبنی نہیں۔ اس بارے میں خلع کے بارے میں فقہ کی کسی بھی کتاب سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے ہم علماء اکیڈیمی اور شعبہ مطبوعات محکمہ اوقاف پنجاب کی ۱۹۸۹ء میں شائع کردہ کتاب الفقہ کی چوتھی جلد کا حوالہ دے سکتے ہیں۔ اس میں صفحہ ۷۰۸ سے لے کر ۷۸۰ تک خلع کی نسبت جامع اور مفصل بحث کی گئی ہے۔ اس بحث میں فقہ کے ہر مسلک کو سامنے رکھا گیا ہے۔ اس طرح یہ امر متفقہ ہے کہ خلع کا سرچشمہ خاوند کا حق طلاق ہے۔ اس کی رضامندی کے بغیر خلع کا کوئی تصور نہیں ہوسکتا۔
ترمیم میں سب سے خطرناک دفعہ دس میں ذیلی دفعہ پانچ کا اضافہ ہے۔ اس ترمیم کے الفاظ یہ ہیں:
(5) In s suit for dissolution of marriage, if reconciliation fails, the Family Court she immiediatedly pass a decree for dissolution of marriage and, in case if dissoltuion of marriage through khula, may direct the wife to surrender up to fifty percent of her deferred dower up to twenty five percent of her admitted prompt dower to the husband.
”دعویٰ تنسیخ نکاح کی صورت میں اگر مصالحت ناکام ہوجائے تو فیملی کورٹ فوری طور پر تنسیخ نکاح کی ڈگری جاری کردے گی۔ اگر یہ ڈگری خلع کی صورت میں ہوگی تو عدالت بیوی کو موجل حق مہر کے نصف سے دستبرداری کی ہدایت کرے گی، جبکہ حق مہر معجّل کی صورت میں چوتھائی حق مہر خاوند کو ادا کیا جائے گا۔“
یہ ترمیم ایک دفعہ میں ذیلی ایزاد کرتی ہے مگر اس کے نتیجہ میں فیملی کورٹ کے پورے پروسیجر کو تنسیخ نکاح کی حد تک غیرموثر کردیا گیا ہے۔ اب تنسیخ نکاح کے لئے کوئی معقول وجہ بیان کرنے اور نہ ہی کسی طرح کے شواہد پیش کرنے کی ضرورت رہی ہے۔ مصالحت کی پیشی پر صلح سے انکار ہی کافی ہے، عدالت کی کوئی صوابدید باقی نہیں رکھی گئی بلکہ عدالت کو پابند کردیا گیا ہے کہ وہ صلح کی ناکامی کی صورت میں تنسیخ نکاح کی ڈگری جاری کردے۔ فیملی کیسوں کے جلد از جلد فیصلے کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا مگر عدالت کے ہاتھ جس طرح باندھ دیے گئے ہیں، اس کے نتیجہ میں اب فیملی کورٹ کے تنسیخ کی حد تک فیصلہ کو عدالتی فیصلہ کہنا ہی غلط ہوگا۔ یہ صوابدید تو اب بیوی کو حاصل ہوگئی ہے۔ عورت کو اتنا باختیار بنادینا کہ کوئی اصول، ضابطہ، دلیل، ثبوت غرض سب کچھ سے بالا دست ہوجائے، بالکل ناقابل فہم ہے۔ خاندان کے یونٹ کو ایک ہی ضرب میں توڑ کر رکھ دینا یہ ضابطہ ہے نہ قانون، بلکہ یہ ضابطے اور انصاف کی نفی ہے۔ یہ فیصلہ کی صورت پیدا نہیں کی گئی بلکہ فیصلے کے نام پر جھٹکا کا اہتمام کیا گیا ہے۔ یہ صورت حال سخت تشویشناک ہے۔ جلد فیصلے کے لیے مختلف نوعیت کے کیسوں کے لیے ضابطے موجود ہیں۔ بنکوں اور کرایہ داری کے مقدمات کی مثالیں موجود ہیں، مگر کہیں یہ نہیں کہ ایک فریق کے مطالبے کا عدالت کو پابند کردیا جائے۔ اس سے پنجاب اسمبلی کے ممبران کی عقل و دانش پر حیرت کے اظہار کے سوا اور کیا کیا جاسکتا ہے۔ صلح کے لیے مرد اور عورت کے دونوں خاندانوں کے ذمہ داران کو طلب کرنا قرآن کا واضح حکم ہے۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ صلح کے لیے قرآن کے اس حکم کو ضابطے کا حصہ بنایا جاتا۔ وجہ یہ ہے کہ عدالت کیسوں کے رش کی وجہ سے کوئی موثر مصالحتی کردار ادا نہیں کرسکتی۔
ریاست کو خاندان کے یونٹ کو تحفظ دینے کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری کی جانب سنجیدہ توجہ دینا چاہیے۔ پاکستان کے دستور میں پالیسی کے اصول کے طور پر دستور کے آرٹیکل نمبر ۳۵ قرار دیا گیا ہے کہ
The State shall protect the marriage, the family, the mother and the child.
اس بارے میں اوپر درج کردہ معروضات کا لحاظ رکھتے ہوئے خاندان دشمن ترمیم کو ختم کرکے خاندان کو مزید مستحکم کرنے کے لیے قانون سازی کی جانب توجہ دینا چاہیے۔ اس بارے میں خاوند کے حق طلاق کو بھی معقولیت کی حدود میں لانے کے لیے مختلف پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ خاندان کے ادارے کو محفوظ بنانے کے لئے خاوند کے حق طلاق کو ہر قید سے آزاد چھوڑے حالات کے لحاظ سے مناسب نہیں۔ بلاوجہ طلاق دینے کی صورت میں متاثرہ خاتون کو ہرجانے کا معقول حق دلایا جانا چاہیے۔ بلامعقول وجہ کے طلاق دینے کی کوئی صورت شریعت میں جائز نہیں ہوسکتی۔ طلاق بنیادی طور پر امر ناجائز ہے۔ یہ صرف اس صورت میں جائز ہوسکتا ہے کہ عورت بدکاری، سرکشی یا فرائض کی تارک ہو۔ جس طرح تنسیخ نکاح کے لیے شریعت نے وجوہات کا تعین کیا ہے، اسی طرح طلاق کے لیے بھی وجوہات طے ہیں۔ مرد کے حق طلاق کو عدالتی توثیق سے مشروط کیا جاسکتا ہے۔ اس کی بنیاد کے طور پر ایک روایت عبداللہ بن عمر سے بخاری میں ہے کہ انہوں نے عہد نبو ی میں صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی کو ایام مخصوص میں طلاق دے دی۔ اس کے متعلق حضرت عمر بن الخطاب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اسے حکم دو کہ رجوع کرلے اور رکا رہے یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائے۔ پھر ایام مخصوص ایام آئیں اور دوبارہ پاک ہو۔ اس کے بعد اگر چاہے تو اس کی زوجیت کو بحال رکھے اور چاہے تو ہاتھ لگانے سے پہلے اسے طلاق دے دے۔ یہاں ہم ”کتاب الفقہ“ کا ایک طویل اقتباس پیش کرنا چاہتے ہیں:
”یہ جائز نہیں ہے کہ کوئی شخص بلاسبب اپنی بیوی کو طلاق دے دے۔ چاروں اماموں کا اس پر اجماع ہے کہ طلاق بنیادی طور پر ممنوع ہے۔ بنابریں خاوند کے لیے حلال نہیں کہ اپنی بیوی کو بغیر کسی ناگزیر ضرورت کے طلاق دے دے۔ یہ اس لیے ہے کہ طلاق سے عقدِ زوجیت منقطع ہو جاتا ہے حالانکہ شریعت نے اسے بقائے نسل کے لیے رکھا ہے جس کا جاری رہنا اس مدت تک ضروری ہے جس کا ارادہ اللہ تعالی نے فرمایا اور حکم دیا ہے۔ اسی لئے اللہ نے انسان کا جوڑا بنایا اور ان میں باہم مہر و محبت کا جذبہ رکھا۔ پس بیوی کو بلاسبب طلاق دینا حماقت اور اللہ کی نعمت سے ناشکری ہے، قطع نظر اس اذیت کے جو بیوی کو اور صاحب اولاد عورت کی اولاد کو پہنچتی ہے۔ پس بعض ہوس پرست جن میں حس اخلاق نہیں ہے، بلاسبب اپنی بیویوں کو طلاق دے دیتے ہیں۔ مذہب اسلام نہ اس کو مانتا ہے اور نہ اس کو پسند کرتا ہے۔ اللہ تعالی دنیا اور آخرت میں اس کی سزا ضرور دے گا اور ان کے گناہوں کو معاف نہ کرے گا جو اپنی بے قصور اور وفادار بیویوں اور ان کی بے بس اولاد پر روا رکھتے ہیں اور نہ وہ قصور ضرور دے گا اور ان کے گناہوں کو معاف نہ کرے گا جو اپنی بے قصور اور وفادار بیویوں اور ان کی بے بس اولاد پر روا رکھتے ہیں اور نہ وہ قصور معاف ہوگا جو بعض ذلیل لوگوں نے مباح لذتوں سے بیش بیش فائدہ اٹھانے کو جائز قرار دے کر لوگوں کی نگاہ میں پسندیدہ بنا رکھا ہے کیونکہ باوفا بیویوں کے ساتھ بلاسب دشمنی کرنے کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے، اسے مباح نہیں رکھا لہذا انسان کے لیے روا نہیں کہ اپنی لذت نفس کے لیے لوگوں کو اذیت دے، ورنہ اس میں اور وحشی جانوروں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ مزید براں ان لوگوں کا خیال یہ ہے کہ ازدواجی رشتہ صرف عورت سے لطف اندوز ہونے اور متمتع ہونے کے لیے ہے، اس کے سوا کوئی اور مقصد ان کے پیش نظر نہیں ہوتا۔ لہذا وہ ان نفسانی خواہشات کی تکمیل کے علاوہ بیویوں پر بے شمار مشکلات کا بار ڈال دیتے ہیں۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ درحقیقت ازدواجی رشتہ ان کے ان خیالات سے بالاتر احترام و تقدس کا متقاضی ہے اور کیوں نہ ہوتا جب کہ یہ انسانی عمرانیات کی بنیاد اور انسان کی بقائے نوعی کا سبب ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اللہ تعالی زوجین میں باہم مہر و محبت پیدا نہ کرتا اور دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے کشش اور باہمی قلبی لگاؤ نہ ہوتا اور نوع انسانی معرض وجود میں نہ آتی۔ پس مرد کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی کو توہین آمیز نگاہ سے دیکھے اور یہ خیال کرنے لگے کہ بجز لذت اندوزی کے اس اور کوئی مقصد نہیں ہے اور حقیقی سبب کو نظر انداز کردے جس کے لئے اللہ تعالی نے میاں بیوی میں اختلاط پیدا کیا ہے۔“ (۵۷۴۔۵۷۳)
طلاق کے لیے قرآن حکیم نے مکمل اور واضح ضابطہ بیان کردیا ہے۔ اسے نافذ کرنے کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ بلاسبب طلاق نہیں دی جاسکتی۔ اسے روکنے کے لیے موثر قانون بنایا جانا چاہیے۔ فقہا نے بلاسبب طلاق کو قابل تعزیر قرار دیا ہے۔ قرآن کی رو سے طلاق تین طہر میں ہوتی ہے۔ بیک وقت طلاق دینا قرآنی حکمت کے خلاف ہے۔ گھر میں رکھ کر طلاق دی جاسکتی ہے۔ قرآن کے اس ضابطے کو موثر طور پر قانون کی شکل دے کر نافذ کرنے سے خاندان کے یونٹ کو استحکام دینے کے بجائے مضمون ہذا کے شروع میں درج کردہ ترمیم سے تو یہ حق عورت کے ہاتھوں دے دیا گیا ہے۔ اہل علم اور خاندان کی قدر و قیمت رکھنے والے لوگوں کو اس صورت حال پر تشویش ہونا چاہیے۔ افسوس یہ ہے کہ یہ سب کچھ ان لوگوں کے ہاتھوں ہو رہا ہے جو خاندان کے یونٹ کا ذاتی طور پر احترام کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں مرد کی جانب سے بلاسبب طلاق کی روایت موجود تھی۔ اس روایت کو زیربحث ترمیم کے ذریعے توسیع دے دی گئی ہے۔ اسے بیوی کا حق بنا کر عدالت کو اس نامعقولیت کا پابند بنادیا گیا ہے۔ اہل قانون کا قانون سازی کے نام پر نامعقولیت کی ترویج اہل قانون کی جانب سے ان کے وقار سے کہیں زیادہ فروتر ہے۔
 

Copyright © 2011. Al Asir Channel Urdu Islamic Websites Tarjuman Maslak e Deoband - All Rights Reserved
Template Created by piscean Solutions Published by AL Asir Channel
Proudly powered by AL Asir Channel