مفکر اسلام حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمودؒ کی وفات کی خبر نے نہ صرف ان کے تلامذہ اور معتقدین بلکہ ان کی علمی جدوجہد اور اثاثہ سے با خبر عامۃ المسلمین کو بھی غم و اندوہ کے ایسے اندھیرے سے دوچار کر دیا ہے جس میں دور دور تک روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دے رہی، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ علامہ صاحبؒ کی علالت کی خبریں چند دنوں سے آ رہی تھیں اور بستر سے اٹھتے ہوئے گر کر زخمی ہونے کی خبر نے پریشانی میں اضافہ کر رکھا تھا۔ مگر موت نے اپنے وقت پر آنا تھا، وہ آئی اور علامہ صاحبؒ ہزاروں بلکہ لاکھوں عقیدت مندوں کو سوگوار چھوڑتے ہوئے اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالٰی ان کی حسنات قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر فرمائیں، جنت الفردوس میں اعلٰی مقام سے نوازیں اور تمام متعلقین، پسماندگان اور سوگواروں کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
میرا ان کے ساتھ تعلق طالب علمی کے دور سے چلا آ رہا تھا جب وہ مختلف تعلیمی و دینی نشستوں کے لیے گوجرانوالہ بالخصوص جامعہ نصرۃ العلوم میں وقتاً فوقتاً تشریف لایا کرتے تھے اور ہمیں ان کے علمی نکات اور حاضر جوابی سے مستفید ہونے کا موقع ملتا رہتا تھا۔ یہ سلسلہ آخر تک جاری رہا اور ابھی رمضان المبارک سے قبل امامیہ کالونی لاہور میں حضرت علامہ صاحبؒ کے قائم کردہ جامعہ ملیّہ کی سالانہ تقریب میں شرکت کے موقع پر ان کی مجلس اور گفتگو سے شادکام ہونے کا موقع ملا۔
علامہ صاحبؒ نے نفاذ شریعت اور تحفظ ختم نبوت کے ساتھ ساتھ حضرات صحابہ کرامؓ کے ناموس اور عقائد اہل سنت کے تحفظ و دفاع میں بھرپور اور متحرک زندگی گزاری ہے اور عمر بھر ان دائروں میں مسلسل سرگرم عمل رہے ہیں۔ ۱۹۵۶ء کے دستور کے نفاذ کے موقع پر جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے دستور کے حوالے سے کچھ تحفظات تھے جن کے اظہار کے لیے مولانا مفتی محمودؒ، علامہ شمس الحق افغانیؒ، شیخ حسام الدینؒ اور علامہ خالد محمودؒ پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی جس نے ’’تنقیدات و ترامیم‘‘ کے عنوان سے رپورٹ مرتب کر کے شائع کی، وہ میری معلومات کے مطابق جماعتی زندگی کے حوالہ سے حضرت علامہ صاحبؒ کا پہلا تعارف تھا جو تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ ہے۔
عقائد اہل سنت اور ناموس صحابہ کرامؓ و اہل بیت عظامؓ کے تحفظ و دفاع میں سردار احمد خان پتافیؒ، علامہ عبد الستار تونسویؒ، علامہ قائم الدین عباسیؒ، مولانا عبد الحئی جام پوریؒ، علامہ دوست محمد قریشیؒ، مولانا سید نور الحسن شاہ بخاریؒ اور دیگر سرکردہ علماء کرام پر مشتمل جس گروہ نے ’’تنظیم اہل سنت‘‘ کے عنوان سے ملک کے طول و عرض بالخصوص جنوبی پنجاب میں صبر آزما جدوجہد کی وہ ہماری دینی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ حضرت علامہ خالد محمودؒ نہ صرف اس گروہ کے رکن رکین تھے بلکہ علمی ترجمان بھی تھے جن کی نکتہ رسی اور حاضر جوابی نے علمی مباحث کا میدان ایک عرصہ تک گرم رکھا اور بے شمار لوگوں کی علمی و فکری تسکین اور اعتقادی پختگی کا ذریعہ ثابت ہوئے۔ وہ تنظیم اہل سنت کے جریدہ ’’دعوت‘‘ کے مدیر تھے اور ان کے سوالات و جوابات کا سلسلہ اس علمی و فکری جدوجہد کا قیمتی اثاثہ ہے جن کا بہت سا حصہ ’’عبقات‘‘ کے نام سے مرتب ہو کر علماء و طلبہ کے استفادہ کا باعث ہے۔
قادیانیت کے محاذ پر وہ حضرت مولانا محمد حیاتؒ اور حضرت مولانا لال حسین اخترؒ کے ساتھ صف اول کے کامیاب مناظر شمار ہوتے تھے جنہوں نے مسلمانوں کے مسلمہ اجماعی عقائد کے بارے میں قادیانی دجل و فریب کے تاروپود کو ہر دائرے میں اور ہر سطح پر بکھیر کر رکھ دیا۔ انہوں نے حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ اور حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ کے ساتھ مل کر عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے عالمی سطح پر جو محاذ قائم کیا وہ ان کا صدقہ جاریہ ہے اور مسلمانوں کے عقائد کے تحفظ کا ایک مضبوط مورچہ ہے۔ حجیت حدیث اور دفاع سنت نبویؐ کے محاذ پر بھی ان کی خدمات کا دائرہ اپنے اندر بے شمار وسعت و تنوع رکھتا ہے جو علماء و طلبہ کے لیے ہمیشہ مشعل راہ رہے گا۔
علامہ صاحبؒ کو دیوبندی مسلک کا علمی ترجمان سمجھا جاتا تھا اور بہت سے مواقع پر اس بات کا میں عینی شاہد ہوں کہ کسی اہم مسئلہ پر دیوبندی موقف کی وضاحت کے لیے اہل علم کے حلقوں میں والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور ترجمان اہل سنت حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ کے ساتھ حضرت علامہ خالد محمودؒ کا نام سامنے آتا تھا اور ان سے رجوع کیا جاتا تھا۔ جبکہ سکولوں، کالجوں اور دینی مدارس کے طلبہ پر مشتمل مشترکہ طالب علم تنظیم ’’جمعیۃ طلباء اسلام پاکستان‘‘ کی تشکیل اور طلبہ کی ذہن سازی میں بھی ان کا اساسی کردار رہا ہے۔
علامہ صاحبؒ نے ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں لاہور کی ایک سیٹ پر جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا مگر اس کے بعد برطانیہ منتقل ہو گئے، البتہ سال کا کچھ حصہ پاکستان میں گزارنے کا معمول آخر تک رہا۔ مجھے ان کے ہاں جامعہ ملیہ لاہور اور مانچسٹر (برطانیہ) میں ان کی قائم کردہ اسلامک اکیڈمی میں بیسیوں مرتبہ حاضری کا موقع ملا اور ان کے ساتھ دینی محافل میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔ علامہ صاحبؒ اور حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کی رفاقت میں مجھے ۱۹۸۵ء میں پہلے حج بیت اللہ کا شرف بھی حاصل ہوا، جبکہ افغانستان سے روسی فوج کے انخلا کے بعد آزاد افغان حکومت کے سربراہ حضرت پروفیسر صبغۃ اللہ مجددیؒ کی دعوت پر سرکردہ علماء کرام کے جس وفد نے کابل کا دورہ کیا ہم اس میں بھی اکٹھے شریک تھے۔
حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمودؒ آج ہم میں نہیں رہے مگر ان کے قائم کردہ جامعہ ملیہ لاہور اور اسلامک اکیڈمی مانچسٹر، ان کی درجنوں تصانیف اور سینکڑوں بیانات و خطابات، جو محفوظ حالت میں موجود ہیں، ان کا ایسا صدقہ جاریہ ہیں جن سے اہل علم ایک عرصہ تک مستفید ہوتے رہیں گے۔ اللہ تعالٰی انہیں جوار رحمت میں جگہ دیں اور ان کے پسماندگان و متعلقین کو ان کی حسنات کا سلسلہ تا دیر جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
(روزنامہ اسلام، 16 مئی 2020ء)