جس کا دھڑکا تھا، آخر وہ گھڑی آہی گئی، دو تین روز زندگی اور موت کی کشمکش میںگزار کے ۲۶؍رجب المرجب کی دوپہر حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحبؒ اپنے مالک حقیقی سے جاملے اور برصغیر میںعلمی روایت کے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا ۔
آپ کی ولادت باسعادت ۱۳۴۴ھ/۱۹۲۶ء کو دیوبند میں ہوئی تھی۔ اس طرح آپ نے ۹۵ سال اس دارِ فانی میں گزارے۔ ۱۳۵۱ھ/۱۹۳۲ء میں علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ( متوفی: ۱۹۳۳ئ) نے آپ کی بسم اللہ خوانی کرائی تھی۔ علاوہ ازیں آمدنامہ جیسی ابتدائی فارسی کتاب کے چند اسباق بھی آپ کو پڑھائے تھے ۔ ( اس کا تذکرہ مولانا اور آ پ کے رفیق مولانا انظر شاہ کشمیری مرحوم بھی کیا کرتے تھے)۔ البتہ آپ کی باقاعدہ تعلیم کا آغاز پیر جی شریف گنگوہی ؒسے ہوا تھا ۔ علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھنے والا طبقہ آپ پر اختتام پذیر ہوا۔
آپ نے حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے ۱۳۶۲ھ میں میزان کے اسباق پڑھے تھے، اب حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ سے باقاعدہ سبق لینے والااس دنیا میں کوئی باقی نہیں رہا، اس طرح آپ حضرت حکیم الامت ؒ کے آخری شاگرد ثابت ہوئے۔ حضرت تھانویؒ کو دیکھنے والوں میں اب شاید صرف حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم بقید حیات ہیں۔ اللہ آپ کا سایہ تادیر اُمت پر باقی رکھے ۔
دارالعلوم دیوبند سے آپ کی فراغت ۱۳۶۷ھ/۱۹۴۸ء کو ہوئی، یہاں آپ کو علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ، شیخ الادب مولانا اعزاز علیؒ، شیخ التفسیر مولانا فخر الحسن رحمۃ اللہ علیہم جیسے اساطینِ علم کی شاگردی حاصل ہوئی۔ اس دوران مختلف اوقات میں مولانا سید اسعد مدنیؒ، شیخ الحدیث مولانا محمد سلیم اللہ خانؒ، مولانا سید محمد رابع حسنی ندویؒ، اور مولانا مفتی عتیق الرحمن نعمانیؒ جیسے ملتِ اسلامیہ کے آسمان کے چاند اور تارے آپ کے شریکِ درس رہے ۔
مولانا کی شہرت حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند ارجمند کی حیثیت سے رہی۔ دنیا نے آپ ہی کو حضرت حکیم الاسلامؒ کا جانشین مانا ۔ یہ بات دنیا جانتی ہے کہ حضرت حکیم الاسلام بانی دارالعلوم دیوبند کے پوتے، اور آپ کے علم و حکمت کے امین تھے ۔ شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ اور شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیر یؒ، حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ اساطینِ علم سے کسبِ فیض کیا تھا۔ آپ نے مولانا حبیب الرحمن عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں نائب مہتمم کی حیثیت سے ۱۳۴۱ھ سے ۱۳۴۸ھ تک آٹھ سال خدمات انجام دیں، اور آپ کی رحلت کے بعد {۵۳} سال تک مسلسل دارالعلوم کے اہتمام پر فائز رہے۔ آپ کے دورِ اہتمام میں آپ کے اساتذہ کرام کی ایک بڑی تعداد دارالعلوم میں منصبِ تدریس و تربیت پر پائی جاتی تھی۔ یہ دارالعلوم کا زریں دور شمار ہوتا ہے، اس دور میں دارالعلوم نے عالمی شہرت پائی، اور یہ ادارہ ازہرِ ہند کی حیثیت سے متعارف ہوا۔ اس شہرت میں جہاں اس ادارے سے وابستہ اور تدریسی خدمات پر فائز اکابرین کی قربانیاں شامل ہیں، وہیں عامۃ الناس میں اسے مقبول بنانے اور اس کی دعوت و فکر کو عام کرنے میں آپ کے اسفار اور خطبات نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے، لہٰذا بانی دارالعلوم کے بعد آپ کو معمارِ ثانی کہا گیا ۔
حضرت حکیم الاسلام ؒ اپنے دور کے عظیم ترین خطیب شمار ہوتے تھے، ہما شما کا کیاذکر مولانا عبدالماجد دریابادی ؒ جیسے علم و ادب کے مینار نے آپ کو اپنے دور کا سب سے بڑا خطیب قرار دیا تھا۔ قاری صاحب کی خطابت دھیمی آنچ کی طرح تھی، اس میں اُتار چڑھاؤ کم ہی ہوتے تھے، ایک بہتا دریا تھا جو بغیر روک ٹوک آگے ہی بڑھتا چلا جاتا تھا ۔ اس میں نہ چیخ اور دھاڑ ہوتی تھی، نہ راگوں کا الاپ، لیکن زبان تھی کہ رکتی نہیں تھی، الفاظ ایسے نکلتے جیسے پھول جھڑ رہے ہوں ۔ تین چار گھنٹے کے خطاب میں جملوں کی تکرار شاذو نادر ہی ہوتی ۔ تشریح ایسی کرتے کہ عوام کے سامنے مشکل سے مشکل مسائل پانی ہوجاتے۔
ایک زمانہ تھا کہ عروس البلاد ممبئی میں بدایون، مارہرہ، اور بریلی کے واعظوں کا غلبہ ہوا کرتا تھا، کسی صحیح العقیدہ عالم کی مجال نہیں تھی کہ یہاں بیانات کرے ۔بڑوں سے سنا کہ جب یہاں پہلے پہل قاری صاحب کے بیانات رکھے گئے تو سارے شہر میں مخالفین کے پوسٹر لگ گئے کہ شیطانوں کا سردار آرہا ہے، اس زمانے میں ممبئی میں پشاوری اور افغانی پٹھانوں کی بڑی تعدا د آبا د تھی، پھلوں اور میووں کی تجارت کے علاوہ ان میں خاصی بڑی تعداد جرائم پیشہ افراد کی بھی تھی، جو اُکسانے پر مرنے مارنے کے لیے آمادہ ہوجاتی تھی، منفی پبلسٹی سے متاثر ہوکر شیطان کے سردار کا توڑکرنے کی غرض سے ایسا ہی ایک پٹھان قاری صاحب کی مجلس میں لٹھ لے کر پہنچا، وہاں آپ کی ملکوتی شخصیت نے اسے ہکا بکا کردیا، آپ کے منہ سے پھول جیسے بول جھڑتے دیکھ کر اس کی زبان گنگ ہوگئی، اس نے وہیں نہ صرف علی الاعلان توبہ کی، بلکہ اُلٹے آپ کے لیے مرنے مارنے پر تیار ہوگیا۔ اس طرح شقی سے شقی لوگ آپ کی دعوت سے متاثر ہوتے رہے ۔ پھر تو ممبئی میں مسلک دیوبند کے خطیبوں اور عالموں کا ایک ریلا لگ گیا، اور آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مولانا ابو الوفاء شاہ جہاںپوریؒ، اور مولانا قاری ودود الحی نفیس لکھنویؒ، اور جناب پالن حقانی ؒنے تو یہاں کا نقشہ ہی بدل دیا ۔
حضرت حکیم الاسلام رحمۃ اللہ علیہ ایک عرصہ تک رمضان المبارک میں بھنڈی بازار کی نواب ایاز مسجد میں درسِ قرآن دیا کرتے تھے، آپ کے ایک مرید خاص صوفی عبد الرحمن مرحوم نے انہیں ریکارڈ کرنے کا اہتمام کیا تھا، اور آپ کے پانچ سو {۵۰۰} تفسیر قرآن کے دروس محفوظ کیے تھے، جنہیں آپ سے جنوبی افریقہ کے ایک بزرگ مولانا محمد اسماعیل کتھرادا صاحب بڑی ریل سے چھوٹے کیسٹوں میں منتقلی کے وعدے کے ساتھ ۱۹۸۵ء کے آس پاس لے گئے تھے۔ صوفی صاحب نے حضرت کی رحلت کے بعد حکیم الاسلام اکیڈمی کے نام سے ایک ادارہ بھی قائم کیا تھا، اور وہاں سے کئی ایک سورتوں کی تفسیر بھی شائع کی تھی۔ اگر یہ ذخیرہ دستیاب ہوجائے اور اس پر محنت کی جائے تو اردو لٹریچر میں علوم قرآن کے ایک عظیم ذخیرے کا اضافہ ہوسکتا ہے ۔ حضرت کی زندگی ہی میں اس ناچیز نے آپ کی تقاریر کی ریکارڈنگ کی تلاش اور ان کی حفاظت کی درخواست کی تھی، اور ذرہ ذرہ کرکے آپ کے ڈھائی سو کے قریب خطبات کے کیسٹ جمع کیے تھے ۔ ا ن کیسٹوں کی فہرست سازی اور ایک دوسرے سے انہیں نمایاں کرنے اور پہچان کی غرض سے خطبہ کے شروع کی آیت یا حدیث کو بنیاد بنایا تھا، ہمارے جمع کردہ یہ خطبات ۱۹۶۰ء سے رحلت تک تقریباً بیس سال کے عرصہ پر محیط تھے، اور یہ انگلستان، افریقہ، بھارت، پاکستان اور ملکوں ملکوں کی مجالس پر پھیلے ہوئے تھے۔ اس کوشش کے دوران ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب یہ انکشاف ہوا کہ ان میں سے ہر خطبے کا آغاز الگ الگ آیت یا حدیث سے ہوا تھا، خطبہ کے آغاز میںان کی تکرار شاید ایک یا دو خطبات ہی میں پائی گئی تھی ۔ یہ تھے علم و حکمت کے بحر بے کراں جن کی جانشینی حضرت مولانا محمد سالم قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کے حصے میں آئی تھی۔
اپنے والد ماجد کے دورِ اہتمام میں ۱۹۴۸ء سے بتیس سال تک دارالعلوم میں آپ نے بحیثیت مدرس خدمات انجام دیں، اس دوران آپ اپنے والد ماجد کا سایہ بن کررہے، اور آپ سے فیض حاصل کرنے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ تصوف کی راہ میں آپ نے پہلے حضرت مولانا عبد القادر رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ کی ہاتھوں پر بیعت کی، آپ کی رحلت کے بعد حضرت حکیم الاسلام کے خلیفہ اور مجازِ بیعت ہونے کا شرف حاصل ہوا، اس طرح آپ علوم نانوتویؒ کے جسمانی اور روحانی امین بن گئے ۔
دارالعلوم کے جن طلبہ نے آپ کو دورانِ طالب علمی دیکھا ہے، ان کی گواہی ہے کہ مولانا کے دروس حشو و زوائد سے پاک ہوا کرتے تھے۔ پابندیِ وقت کا آپ بہت خیال رکھتے تھے، اور اسباق بڑے دلنشین انداز میں پڑھاتے تھے۔ آپ کی تدریس کے پینتیس(۳۵) سالہ دور میں آپ سے فیض پانے والے علماء میںسے بہت سارے آسمانِ علم کے چاند تارے بن گئے۔ ان شخصیات میں دارالعلوم کے موجود ہ شیخ الحدیث حضرت مولانا سعید احمد پالن پوری صا حب کی نسل کے اساتذہ بھی پائے جاتے ہیں۔ مولانا تعلیم و تعلم کے آدمی تھے، آپ کے دروس سیاست اور پارٹی بازی سے پاک ہوا کرتے تھے۔
آپ کی زندگی میں سب سے کٹھن وقت اس وقت آیا جب آپ کے والد ماجد کے ساتھ آپ کو بھی اپنے آباء و اجداد کے قائم کردہ گہوارۂ علم سے الگ ہونا پڑا، یہاں آپ نے بولنا سیکھا تھا، اس سایہ دار درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں زندگی کے پچپن سال گزارے تھے، آستانۂ قاسمی اس کے سامنے ہی واقع تھا، اس وقت دل پر کیا گزرتی ہوگی جب آپ پر اس کے دروازے بند کر دیئے گئے ہوں ۔ اللہ کا شکر ہے آنکھ بند ہونے سے پہلے گلے شکوے دور کر کے اس دنیا سے اُٹھے۔ جب جنازہ اٹھا تو دل کدورتوں سے پاک تھا ۔ ویسے آپ نے اپنے خالق کے سوا بندوں کا گلہ شکوہ کسی سے کیا ہی کب تھا ؟! آپ توعفتِ لسانی کا نمونہ تھے ۔
مولانا خوش قسمت تھے جو آنکھیں بند ہونے سے پہلے پہلے روشن سورج کی طرح حضرت حکیم الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کی فراست، اور فیصلوں کی درستگی کا ثبوت دیکھ گئے۔ آج سے نصف صدی پیشتر اپنے دورِ اہتمام میں حضرت قاری صاحب نے دارالعلوم کے بعض اساتذہ کی جماعتی اور گروہی سرگرمیوں اور اس کے لیے جوڑ توڑ کو دیکھتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ وہ دو کشتیوں میں پاؤں نہ رکھیں۔ تدریس اور جماعتوں کے عہدوں میں سے کسی ایک کاانتخاب کریں ۔ بعضوں کو یہ بات پسند نہیں آئی، انہوں نے تدریس پر پارٹی مفادات اور عہدوںکو ترجیح دی، اور حضرت قاری صاحب کے خلاف جوڑ توڑ شروع کی جو دارالعلوم کے انتشار پر منتج ہوئی۔ اس انتشار کے تیس سال بعد تاریخ نے خود کو دہرایا، اب کی بار شوریٰ نے ناظم تعلیمات اور نائب مہتمم کو نوٹس جاری کیا کہ وہ اپنی جماعت کی صدارت یا دارالعلوم کے عہدے میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔ بات یہاں تک نہیں رکی، بلکہ شوریٰ نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے دوسری ایک ایسی جماعت کی سرگرمیوں پر دارالعلوم کے احاطے میں پابندی عائد کردی جس کے بارے میں عام خیال تھا کہ اس نے دارالعلوم کے بطن سے جنم لیا تھا ۔ اس طرح حضرت حکیم الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کا پیغام کہ اساتذہ اور طلبہ کو اولین ترجیح تعلیم و تدریس کو دینی چاہیے، اور اس کے لیے یکسوئی اور تن دہی سے اپنی صلاحیتیں صرف کرنی چاہئیں، اسی یکسوئی سے دیوبند نے وہ علمائ، فقہاء اور محدثین پیدا کیے تھے جن پر بجا طور پر مسلمانانِ ہند کو فخر حاصل ہے ۔ یہی موقف حضرت حکیم الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کے پیر و مرشد حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی تھا۔ جب حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کو محسوس ہوا کہ دارالعلوم پر جذباتی پارٹی بندی کا غلبہ ہورہا ہے اور اس رویہ کی اصلاح آپ کی دسترس سے باہر ہے تو دارالعلوم کی سرپرستی سے کنارہ کش ہوگئے ۔
حضر ت حکیم الاسلام رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا محمد سالم صاحب کے دلوں پر دارالعلوم سے نکلنے کے بعد اس کے بالمقابل ایک دوسرے دارالعلوم کا قیام بہت شاق گزر رہا تھا، اور ایک عرصہ تک اس پر دل بھی آمادہ نہیں ہورہا تھا، لیکن حضرت مولانا انظر شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے احباب کے اصرار پر کچھ عرصے بعد ۱۴۰۳ھ/۱۹۸۲ء میں علم دین کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ان پر جو انعام کیا تھا، اس کے فیض کو عام کرنے کے لیے ایک نئے ادارے وقف دارالعلوم دیوبند کی تاسیس میں شریک ہوئے، اور تادم واپسیں ۳۶؍ سال تک اپنے والد ماجد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے علم دین اور دعوت کی خدمت انجام دی۔اللہ کی ذات حکمت والی ہے، انتشار میں بھی منفعت کی راہ نکل آئی، آج وقف دارالعلوم بھی اپنے اصل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دیوبندکی دوسری آنکھ بن گیا ہے، روز بروز ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور اس سے فیض کا سلسلہ جاری و ساری ہے ۔
ہمار ا قصبہ بھٹکل، شمالی ہند سے دور ایک کنارے پر ہونے کے باوجود بڑا خوش قسمت رہا ہے ۔ یہاں کے باشندگان کو علمائے دین سے ایک گونہ تعلق رہا۔ یہاں کی شخصیات میں سے اسماعیل کوبٹے مرحوم کو حضرت حکیم الاسلام سے بڑا پرانا تعلق تھا، آپ ہی کی رہنمائی میں آپ نے ہبلی میں انجمن درسِ قرآن قائم کی تھی اور اسے مستحکم کرنے اور اسے باقاعدہ دارالعلوم کی شکل دینے کی غرض سے مبلغِ دیوبند مولانا ارشاد احمد مرحوم کے برادر مولانا ریاض احمد فیض آبادی مرحوم کو سن پچاس کی دہائی میں حضرت حکیم الاسلام ؒ نے بھیجا تھا۔ اس دوران ہبلی میں مسلمانوں کے قبرستان میں قادیانیوں کی تدفین کا قضیہ اُٹھا، مولانا ریاض احمد نے تحریک چلائی، اور مقدمہ کی پیروی کی، جس کے نتیجہ میں تاریخ میں پہلی بار کسی کورٹ نے قادیانیوں کے کافر ہونے کا فیصلہ صادر کیا۔ یہ فیصلہ غالباً ۱۹۵۷ء میں صادر ہوا تھا۔ یہی انجمن درسِ قرآن بعد میں ریاض العلوم بن گیا ۔ حضرت حکیم الاسلام اور مولانا محمد سالم صاحبان ان دنوں ہبلی سے ہوتے ہوئے پہلی مرتبہ بھٹکل تشریف لائے تھے۔ ویسے بھٹکل والوں میں الحاج محی الدین منیری اور ڈاکٹر علی ملپا مرحوم سے آپ کے دیرینہ تعلقات تھے۔ منیری صاحب کی انجمن خدام النبی ، حج کمیٹی ممبئی سے وابستگی نے بھی ان تعلقات کو مضبوط تر کیا تھا، اور چونکہ اس زمانے میں اہل بھٹکل کی بہت بڑی تعداد بھنڈی بازار اور خاص کر مسجد اسٹریٹ میں اقامت پذیر تھی تو حضرت حکیم الاسلا م ؒ اور مولانا محمد سالم قاسمی رحمۃ اللہ علیہ سے انہیں براہ راست استفادے کا موقع ملا ۔ ۱۹۷۶ء میں ایمرجنسی کے دور میں حضرت حکیم الاسلامؒ بھٹکل تشریف لائے تھے۔ مایوسی کے اس دور میں مدارسِ دینیہ کی بقا کے موضوع پر آپ کا خطاب الہامی حیثیت رکھتا ہے، مدارسِ دینیہ سے وابستہ افراد کو اسے بار بار سننا چاہیے ۔
وقف دارالعلوم پر ابتدا میں بڑا کڑا وقت آیا، ایک طرف مخالف پروپیگنڈہ، وسائل محدود، بنیادی طور پر مولانا سالمؒ کا مزاج بھی چندے والوں کا نہیں تھا ۔ نوزائیدہ ادارے سے مربوط ہونے والے زیادہ تر افراد بزرگ اور ریٹائرڈ عمر کو پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے اپنا خون نچوڑ کر اپنے مادر علمی کو دے دیا تھا، لیکن ان کی جسمانی قوت ان کے بلند حوصلوں کا ساتھ نہیں دے پارہی تھی۔ خود مولانا بھی اس وقت ۶۰؍ کے پیٹے میں تھے، ادارے قائم کرنے اور چلانے کے لیے نوجوان خون کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اللہ نے ہمت دی تھی، توفیق الٰہی ساتھ ساتھ چلتی رہی، نیتیں نیک تھیں، مقصد صالح تھا، اللہ نے رکاوٹوں کو دور کیا ۔اسی پریشانی کے عالم میں مولانا سے ہماری پہلی ملاقات ۱۹۹۸ء میں دبئی میں ہوئی ہوئی تھی ۔ اس وقت یہاں پر بھٹکلی احباب میں سے مظفر کولا صاحب، اور حضرت حکیم الاسلامؒ کے مخلص مریدعزیز الحق بنگالی مرحوم جو ممبئی میں اپنی تجارت کو لپیٹ کر پیرانہ سالی میں اب یہاں جد وجہد کررہے تھے، اور پھر حاجی عبد الرزاق رصاصی مرحوم نے آپ کا خیال رکھا۔ مولانا کی اس رفاقت میں آپ کی شگفتہ مزاجی کا احساس ہوا۔ دور سے جو زاہد خشک نظر آتے تھے، ان کی مجلسوں کا رنگ ہی الگ تھا۔ ادبی ذوق رگ و پئے میں بھرا ہوا تھا، برجستہ اشعار ا یسے بیان کرتے کہ دوسرے اکابرین میں اس کی دوسری مثال شاید باید ہی ملے۔ ہماری آواز کے ذخیرے سے بہزاد لکھنوی، ماہر القادری، جگر مرادآبادی کا کلام سن کر جھوم اُٹھتے ۔ یہ ذوق غالباً نسل در نسل آپ میں منتقل ہوا تھا، کیونکہ آپ کے والد ماجد تقریر میں جو زبان استعمال کرتے تھے، لسانیات کے جو نکتے بیان کرتے تھے، اور اس میں جو سلاست اور فصاحت ہوا کرتی تھی، یہ خون میں ادبی ذوق سرایت کیے بغیر ممکن نہیں تھا۔ ویسے آپ کی ہمشیرہ اور مایہ ناز صحافی مولانا حامد اللہ انصاری غازی کی اہلیہ ہاجرہ نازلی کا شمار اردو کی بہترین ناول نگار خواتین میں ہوتا ہے ۔
مولانا اپنے دوستوں، ساتھیوں اور شاگردوں کے ستائے ہوئے تھے۔ دارالعلوم کے تنازعے میں اور وقف کے قیام کے بعد ذہن و دماغ پر بہت زیادہ بوجھ پڑگیا تھا، لیکن مجال تھی جو حرفِ شکایت زبان پر لاتے ۔ کئی بار مولانا کے ساتھ رہنے کا موقع ملا، بڑا بے تکلفانہ ماحول ہوتا، بات چیت میں اپنائیت کا احساس ہوتا۔ اس دوران آپ کی غیبت کرنے والوں کا تذکرہ کسی چاہنے والوں سے آتا، لیکن کیا مجال تھی جو کبھی آپ کی زبان حرفِ شکایت سے داغدار ہو جائے۔ یہ آپ کے کردار کی عظمت تھی، جس نے آپ کو ہمیشہ سربلند رکھا۔ بلندیِ کردار کے ایسے نمونے اب اہل علم میں ناپید ہوتے جارہے ہیں ۔آپ کے ساتھ جو کچھ برا ہوا، انہوںنے اسے بھلا دیا تھا۔ مولانا اسعد مدنی مرحوم سے بسترِ مرگ پر جاکر ملے اور دلوں کو صاف کرنے میں پہل کی۔ مولانا غلام محمد وستانوی کی جگہ پر اہتمام کی ذمہ داری اور جمعیت کے آپسی اختلافات کے بعد بحیثیت صدر آپ کے انتخاب کی کوششوں کو آپ نے قبول نہیں کیا، جس سے محسوس ہوتا ہے کہ دارالعلوم میں جو تنازعہ پیدا ہوا تھا اس کی اساس جاہ و منصب کی خواہش نہیں تھی، وہ ایک اصولی بات تھی جس سے تادم واپسیں آپ نے منہ نہیں موڑا۔ یہ آپ کے اخلاص کی نشانی تھی ۔مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت کے بعد صدارت کے لیے ووٹنگ ہوئی تو مولانا سالم اور مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی صاحب کو یکساں ووٹ ملے، لیکن آپ نے مولانا سید محمد رابع صاحب کے حق میں پلا وزنی کرکے انہیں بورڈ کا صدر بننے میں کردار ادا کیا ۔
ایک طویل عرصے سے ان کے پاؤں کمزور ہوگئے تھے، چلنا پھرنا ممکن نہیں رہا تھا، بڑھتی عمر کے ساتھ بیماریاں بھی سایہ فگن رہتیں۔ بیماریوں کا کوئی بھروسہ نہیں تھا کہ کب حملہ آور ہوں، لیکن ملت کے مفاد میں جب تک سا نس چلتی رہی ہمیشہ رختِ سفر باندھے رکھا۔
اس حالت میں بھی مسلم پرسنل لا بورڈ کے ایک دن کے اجلاس میں شرکت کے لیے پورے دن کا سفر طے کرکے کئی ایک اسٹیشن اور ہوائی اڈے تبدیل کرکے بھٹکل پہنچتے ہم نے بھی دیکھا، اور پیرانہ سالی کی اس ہمت کو دیکھ کر دنگ رہ گئے۔
مولانا اپنے والد ماجد حضرت حکیم الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کے حقیقی جانشین واقع ہوئے تھے۔ تقریر بڑی دل نشین کرتے تھے، جوانی میں انداز میں ٹہراؤ تھا۔ لیکن آخر آخر میں بولنے کی رفتار میں کچھ تیزی محسوس ہوتی تھی، لیکن علم و حکمت کی باتیں وہی ہوا کرتیں، فصاحت و سلاست میں بھی وہی حسن پایا جاتا تھا ۔
مولانا نے ایک طبعی عمر گزار کر داعی اجل کو لبیک کہا۔ مولانا اب اس بارگاہ میں پہنچ گئے ہیں، جہاں سے واپس کوئی نہیں آتا، لیکن جب جانے والی کی جگہ پرنہ ہو، خلا بھرنے کی کوئی آس نہ ہو، اور زمانے کو ان کی ضرور ت پہلے سے زیادہ محسوس ہوتو کیسے ممکن ہے کہ وہ دلوں میں زندہ نہ رہیں۔ ستر سال تک جن کے سامنے ایک کثیر تعداد افراد نے زانوئے تلمذ تہ کیا ہو، اور ان کی جلائی ہوئی شمعوں کی لوسے لاکھوں شمعیں جل اُٹھی ہوں اوران سے چار دانگِ عالم میں علم کی روشنی پھیل گئی ہو آخرایسی شخصیت کے حق میں دعا کے لیے ہاتھ کیوں نہ اٹھیں گے؟! اللّٰھم اغفرلہ وارحمہ ، آمین ۔
آپ کی ولادت باسعادت ۱۳۴۴ھ/۱۹۲۶ء کو دیوبند میں ہوئی تھی۔ اس طرح آپ نے ۹۵ سال اس دارِ فانی میں گزارے۔ ۱۳۵۱ھ/۱۹۳۲ء میں علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ( متوفی: ۱۹۳۳ئ) نے آپ کی بسم اللہ خوانی کرائی تھی۔ علاوہ ازیں آمدنامہ جیسی ابتدائی فارسی کتاب کے چند اسباق بھی آپ کو پڑھائے تھے ۔ ( اس کا تذکرہ مولانا اور آ پ کے رفیق مولانا انظر شاہ کشمیری مرحوم بھی کیا کرتے تھے)۔ البتہ آپ کی باقاعدہ تعلیم کا آغاز پیر جی شریف گنگوہی ؒسے ہوا تھا ۔ علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھنے والا طبقہ آپ پر اختتام پذیر ہوا۔
آپ نے حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے ۱۳۶۲ھ میں میزان کے اسباق پڑھے تھے، اب حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ سے باقاعدہ سبق لینے والااس دنیا میں کوئی باقی نہیں رہا، اس طرح آپ حضرت حکیم الامت ؒ کے آخری شاگرد ثابت ہوئے۔ حضرت تھانویؒ کو دیکھنے والوں میں اب شاید صرف حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم بقید حیات ہیں۔ اللہ آپ کا سایہ تادیر اُمت پر باقی رکھے ۔
دارالعلوم دیوبند سے آپ کی فراغت ۱۳۶۷ھ/۱۹۴۸ء کو ہوئی، یہاں آپ کو علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ، شیخ الادب مولانا اعزاز علیؒ، شیخ التفسیر مولانا فخر الحسن رحمۃ اللہ علیہم جیسے اساطینِ علم کی شاگردی حاصل ہوئی۔ اس دوران مختلف اوقات میں مولانا سید اسعد مدنیؒ، شیخ الحدیث مولانا محمد سلیم اللہ خانؒ، مولانا سید محمد رابع حسنی ندویؒ، اور مولانا مفتی عتیق الرحمن نعمانیؒ جیسے ملتِ اسلامیہ کے آسمان کے چاند اور تارے آپ کے شریکِ درس رہے ۔
مولانا کی شہرت حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند ارجمند کی حیثیت سے رہی۔ دنیا نے آپ ہی کو حضرت حکیم الاسلامؒ کا جانشین مانا ۔ یہ بات دنیا جانتی ہے کہ حضرت حکیم الاسلام بانی دارالعلوم دیوبند کے پوتے، اور آپ کے علم و حکمت کے امین تھے ۔ شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ اور شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیر یؒ، حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ اساطینِ علم سے کسبِ فیض کیا تھا۔ آپ نے مولانا حبیب الرحمن عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں نائب مہتمم کی حیثیت سے ۱۳۴۱ھ سے ۱۳۴۸ھ تک آٹھ سال خدمات انجام دیں، اور آپ کی رحلت کے بعد {۵۳} سال تک مسلسل دارالعلوم کے اہتمام پر فائز رہے۔ آپ کے دورِ اہتمام میں آپ کے اساتذہ کرام کی ایک بڑی تعداد دارالعلوم میں منصبِ تدریس و تربیت پر پائی جاتی تھی۔ یہ دارالعلوم کا زریں دور شمار ہوتا ہے، اس دور میں دارالعلوم نے عالمی شہرت پائی، اور یہ ادارہ ازہرِ ہند کی حیثیت سے متعارف ہوا۔ اس شہرت میں جہاں اس ادارے سے وابستہ اور تدریسی خدمات پر فائز اکابرین کی قربانیاں شامل ہیں، وہیں عامۃ الناس میں اسے مقبول بنانے اور اس کی دعوت و فکر کو عام کرنے میں آپ کے اسفار اور خطبات نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے، لہٰذا بانی دارالعلوم کے بعد آپ کو معمارِ ثانی کہا گیا ۔
حضرت حکیم الاسلام ؒ اپنے دور کے عظیم ترین خطیب شمار ہوتے تھے، ہما شما کا کیاذکر مولانا عبدالماجد دریابادی ؒ جیسے علم و ادب کے مینار نے آپ کو اپنے دور کا سب سے بڑا خطیب قرار دیا تھا۔ قاری صاحب کی خطابت دھیمی آنچ کی طرح تھی، اس میں اُتار چڑھاؤ کم ہی ہوتے تھے، ایک بہتا دریا تھا جو بغیر روک ٹوک آگے ہی بڑھتا چلا جاتا تھا ۔ اس میں نہ چیخ اور دھاڑ ہوتی تھی، نہ راگوں کا الاپ، لیکن زبان تھی کہ رکتی نہیں تھی، الفاظ ایسے نکلتے جیسے پھول جھڑ رہے ہوں ۔ تین چار گھنٹے کے خطاب میں جملوں کی تکرار شاذو نادر ہی ہوتی ۔ تشریح ایسی کرتے کہ عوام کے سامنے مشکل سے مشکل مسائل پانی ہوجاتے۔
ایک زمانہ تھا کہ عروس البلاد ممبئی میں بدایون، مارہرہ، اور بریلی کے واعظوں کا غلبہ ہوا کرتا تھا، کسی صحیح العقیدہ عالم کی مجال نہیں تھی کہ یہاں بیانات کرے ۔بڑوں سے سنا کہ جب یہاں پہلے پہل قاری صاحب کے بیانات رکھے گئے تو سارے شہر میں مخالفین کے پوسٹر لگ گئے کہ شیطانوں کا سردار آرہا ہے، اس زمانے میں ممبئی میں پشاوری اور افغانی پٹھانوں کی بڑی تعدا د آبا د تھی، پھلوں اور میووں کی تجارت کے علاوہ ان میں خاصی بڑی تعداد جرائم پیشہ افراد کی بھی تھی، جو اُکسانے پر مرنے مارنے کے لیے آمادہ ہوجاتی تھی، منفی پبلسٹی سے متاثر ہوکر شیطان کے سردار کا توڑکرنے کی غرض سے ایسا ہی ایک پٹھان قاری صاحب کی مجلس میں لٹھ لے کر پہنچا، وہاں آپ کی ملکوتی شخصیت نے اسے ہکا بکا کردیا، آپ کے منہ سے پھول جیسے بول جھڑتے دیکھ کر اس کی زبان گنگ ہوگئی، اس نے وہیں نہ صرف علی الاعلان توبہ کی، بلکہ اُلٹے آپ کے لیے مرنے مارنے پر تیار ہوگیا۔ اس طرح شقی سے شقی لوگ آپ کی دعوت سے متاثر ہوتے رہے ۔ پھر تو ممبئی میں مسلک دیوبند کے خطیبوں اور عالموں کا ایک ریلا لگ گیا، اور آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مولانا ابو الوفاء شاہ جہاںپوریؒ، اور مولانا قاری ودود الحی نفیس لکھنویؒ، اور جناب پالن حقانی ؒنے تو یہاں کا نقشہ ہی بدل دیا ۔
حضرت حکیم الاسلام رحمۃ اللہ علیہ ایک عرصہ تک رمضان المبارک میں بھنڈی بازار کی نواب ایاز مسجد میں درسِ قرآن دیا کرتے تھے، آپ کے ایک مرید خاص صوفی عبد الرحمن مرحوم نے انہیں ریکارڈ کرنے کا اہتمام کیا تھا، اور آپ کے پانچ سو {۵۰۰} تفسیر قرآن کے دروس محفوظ کیے تھے، جنہیں آپ سے جنوبی افریقہ کے ایک بزرگ مولانا محمد اسماعیل کتھرادا صاحب بڑی ریل سے چھوٹے کیسٹوں میں منتقلی کے وعدے کے ساتھ ۱۹۸۵ء کے آس پاس لے گئے تھے۔ صوفی صاحب نے حضرت کی رحلت کے بعد حکیم الاسلام اکیڈمی کے نام سے ایک ادارہ بھی قائم کیا تھا، اور وہاں سے کئی ایک سورتوں کی تفسیر بھی شائع کی تھی۔ اگر یہ ذخیرہ دستیاب ہوجائے اور اس پر محنت کی جائے تو اردو لٹریچر میں علوم قرآن کے ایک عظیم ذخیرے کا اضافہ ہوسکتا ہے ۔ حضرت کی زندگی ہی میں اس ناچیز نے آپ کی تقاریر کی ریکارڈنگ کی تلاش اور ان کی حفاظت کی درخواست کی تھی، اور ذرہ ذرہ کرکے آپ کے ڈھائی سو کے قریب خطبات کے کیسٹ جمع کیے تھے ۔ ا ن کیسٹوں کی فہرست سازی اور ایک دوسرے سے انہیں نمایاں کرنے اور پہچان کی غرض سے خطبہ کے شروع کی آیت یا حدیث کو بنیاد بنایا تھا، ہمارے جمع کردہ یہ خطبات ۱۹۶۰ء سے رحلت تک تقریباً بیس سال کے عرصہ پر محیط تھے، اور یہ انگلستان، افریقہ، بھارت، پاکستان اور ملکوں ملکوں کی مجالس پر پھیلے ہوئے تھے۔ اس کوشش کے دوران ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب یہ انکشاف ہوا کہ ان میں سے ہر خطبے کا آغاز الگ الگ آیت یا حدیث سے ہوا تھا، خطبہ کے آغاز میںان کی تکرار شاید ایک یا دو خطبات ہی میں پائی گئی تھی ۔ یہ تھے علم و حکمت کے بحر بے کراں جن کی جانشینی حضرت مولانا محمد سالم قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کے حصے میں آئی تھی۔
اپنے والد ماجد کے دورِ اہتمام میں ۱۹۴۸ء سے بتیس سال تک دارالعلوم میں آپ نے بحیثیت مدرس خدمات انجام دیں، اس دوران آپ اپنے والد ماجد کا سایہ بن کررہے، اور آپ سے فیض حاصل کرنے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ تصوف کی راہ میں آپ نے پہلے حضرت مولانا عبد القادر رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ کی ہاتھوں پر بیعت کی، آپ کی رحلت کے بعد حضرت حکیم الاسلام کے خلیفہ اور مجازِ بیعت ہونے کا شرف حاصل ہوا، اس طرح آپ علوم نانوتویؒ کے جسمانی اور روحانی امین بن گئے ۔
دارالعلوم کے جن طلبہ نے آپ کو دورانِ طالب علمی دیکھا ہے، ان کی گواہی ہے کہ مولانا کے دروس حشو و زوائد سے پاک ہوا کرتے تھے۔ پابندیِ وقت کا آپ بہت خیال رکھتے تھے، اور اسباق بڑے دلنشین انداز میں پڑھاتے تھے۔ آپ کی تدریس کے پینتیس(۳۵) سالہ دور میں آپ سے فیض پانے والے علماء میںسے بہت سارے آسمانِ علم کے چاند تارے بن گئے۔ ان شخصیات میں دارالعلوم کے موجود ہ شیخ الحدیث حضرت مولانا سعید احمد پالن پوری صا حب کی نسل کے اساتذہ بھی پائے جاتے ہیں۔ مولانا تعلیم و تعلم کے آدمی تھے، آپ کے دروس سیاست اور پارٹی بازی سے پاک ہوا کرتے تھے۔
آپ کی زندگی میں سب سے کٹھن وقت اس وقت آیا جب آپ کے والد ماجد کے ساتھ آپ کو بھی اپنے آباء و اجداد کے قائم کردہ گہوارۂ علم سے الگ ہونا پڑا، یہاں آپ نے بولنا سیکھا تھا، اس سایہ دار درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں زندگی کے پچپن سال گزارے تھے، آستانۂ قاسمی اس کے سامنے ہی واقع تھا، اس وقت دل پر کیا گزرتی ہوگی جب آپ پر اس کے دروازے بند کر دیئے گئے ہوں ۔ اللہ کا شکر ہے آنکھ بند ہونے سے پہلے گلے شکوے دور کر کے اس دنیا سے اُٹھے۔ جب جنازہ اٹھا تو دل کدورتوں سے پاک تھا ۔ ویسے آپ نے اپنے خالق کے سوا بندوں کا گلہ شکوہ کسی سے کیا ہی کب تھا ؟! آپ توعفتِ لسانی کا نمونہ تھے ۔
مولانا خوش قسمت تھے جو آنکھیں بند ہونے سے پہلے پہلے روشن سورج کی طرح حضرت حکیم الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کی فراست، اور فیصلوں کی درستگی کا ثبوت دیکھ گئے۔ آج سے نصف صدی پیشتر اپنے دورِ اہتمام میں حضرت قاری صاحب نے دارالعلوم کے بعض اساتذہ کی جماعتی اور گروہی سرگرمیوں اور اس کے لیے جوڑ توڑ کو دیکھتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ وہ دو کشتیوں میں پاؤں نہ رکھیں۔ تدریس اور جماعتوں کے عہدوں میں سے کسی ایک کاانتخاب کریں ۔ بعضوں کو یہ بات پسند نہیں آئی، انہوں نے تدریس پر پارٹی مفادات اور عہدوںکو ترجیح دی، اور حضرت قاری صاحب کے خلاف جوڑ توڑ شروع کی جو دارالعلوم کے انتشار پر منتج ہوئی۔ اس انتشار کے تیس سال بعد تاریخ نے خود کو دہرایا، اب کی بار شوریٰ نے ناظم تعلیمات اور نائب مہتمم کو نوٹس جاری کیا کہ وہ اپنی جماعت کی صدارت یا دارالعلوم کے عہدے میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔ بات یہاں تک نہیں رکی، بلکہ شوریٰ نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے دوسری ایک ایسی جماعت کی سرگرمیوں پر دارالعلوم کے احاطے میں پابندی عائد کردی جس کے بارے میں عام خیال تھا کہ اس نے دارالعلوم کے بطن سے جنم لیا تھا ۔ اس طرح حضرت حکیم الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کا پیغام کہ اساتذہ اور طلبہ کو اولین ترجیح تعلیم و تدریس کو دینی چاہیے، اور اس کے لیے یکسوئی اور تن دہی سے اپنی صلاحیتیں صرف کرنی چاہئیں، اسی یکسوئی سے دیوبند نے وہ علمائ، فقہاء اور محدثین پیدا کیے تھے جن پر بجا طور پر مسلمانانِ ہند کو فخر حاصل ہے ۔ یہی موقف حضرت حکیم الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کے پیر و مرشد حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی تھا۔ جب حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کو محسوس ہوا کہ دارالعلوم پر جذباتی پارٹی بندی کا غلبہ ہورہا ہے اور اس رویہ کی اصلاح آپ کی دسترس سے باہر ہے تو دارالعلوم کی سرپرستی سے کنارہ کش ہوگئے ۔
حضر ت حکیم الاسلام رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا محمد سالم صاحب کے دلوں پر دارالعلوم سے نکلنے کے بعد اس کے بالمقابل ایک دوسرے دارالعلوم کا قیام بہت شاق گزر رہا تھا، اور ایک عرصہ تک اس پر دل بھی آمادہ نہیں ہورہا تھا، لیکن حضرت مولانا انظر شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے احباب کے اصرار پر کچھ عرصے بعد ۱۴۰۳ھ/۱۹۸۲ء میں علم دین کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ان پر جو انعام کیا تھا، اس کے فیض کو عام کرنے کے لیے ایک نئے ادارے وقف دارالعلوم دیوبند کی تاسیس میں شریک ہوئے، اور تادم واپسیں ۳۶؍ سال تک اپنے والد ماجد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے علم دین اور دعوت کی خدمت انجام دی۔اللہ کی ذات حکمت والی ہے، انتشار میں بھی منفعت کی راہ نکل آئی، آج وقف دارالعلوم بھی اپنے اصل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دیوبندکی دوسری آنکھ بن گیا ہے، روز بروز ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور اس سے فیض کا سلسلہ جاری و ساری ہے ۔
ہمار ا قصبہ بھٹکل، شمالی ہند سے دور ایک کنارے پر ہونے کے باوجود بڑا خوش قسمت رہا ہے ۔ یہاں کے باشندگان کو علمائے دین سے ایک گونہ تعلق رہا۔ یہاں کی شخصیات میں سے اسماعیل کوبٹے مرحوم کو حضرت حکیم الاسلام سے بڑا پرانا تعلق تھا، آپ ہی کی رہنمائی میں آپ نے ہبلی میں انجمن درسِ قرآن قائم کی تھی اور اسے مستحکم کرنے اور اسے باقاعدہ دارالعلوم کی شکل دینے کی غرض سے مبلغِ دیوبند مولانا ارشاد احمد مرحوم کے برادر مولانا ریاض احمد فیض آبادی مرحوم کو سن پچاس کی دہائی میں حضرت حکیم الاسلام ؒ نے بھیجا تھا۔ اس دوران ہبلی میں مسلمانوں کے قبرستان میں قادیانیوں کی تدفین کا قضیہ اُٹھا، مولانا ریاض احمد نے تحریک چلائی، اور مقدمہ کی پیروی کی، جس کے نتیجہ میں تاریخ میں پہلی بار کسی کورٹ نے قادیانیوں کے کافر ہونے کا فیصلہ صادر کیا۔ یہ فیصلہ غالباً ۱۹۵۷ء میں صادر ہوا تھا۔ یہی انجمن درسِ قرآن بعد میں ریاض العلوم بن گیا ۔ حضرت حکیم الاسلام اور مولانا محمد سالم صاحبان ان دنوں ہبلی سے ہوتے ہوئے پہلی مرتبہ بھٹکل تشریف لائے تھے۔ ویسے بھٹکل والوں میں الحاج محی الدین منیری اور ڈاکٹر علی ملپا مرحوم سے آپ کے دیرینہ تعلقات تھے۔ منیری صاحب کی انجمن خدام النبی ، حج کمیٹی ممبئی سے وابستگی نے بھی ان تعلقات کو مضبوط تر کیا تھا، اور چونکہ اس زمانے میں اہل بھٹکل کی بہت بڑی تعداد بھنڈی بازار اور خاص کر مسجد اسٹریٹ میں اقامت پذیر تھی تو حضرت حکیم الاسلا م ؒ اور مولانا محمد سالم قاسمی رحمۃ اللہ علیہ سے انہیں براہ راست استفادے کا موقع ملا ۔ ۱۹۷۶ء میں ایمرجنسی کے دور میں حضرت حکیم الاسلامؒ بھٹکل تشریف لائے تھے۔ مایوسی کے اس دور میں مدارسِ دینیہ کی بقا کے موضوع پر آپ کا خطاب الہامی حیثیت رکھتا ہے، مدارسِ دینیہ سے وابستہ افراد کو اسے بار بار سننا چاہیے ۔
وقف دارالعلوم پر ابتدا میں بڑا کڑا وقت آیا، ایک طرف مخالف پروپیگنڈہ، وسائل محدود، بنیادی طور پر مولانا سالمؒ کا مزاج بھی چندے والوں کا نہیں تھا ۔ نوزائیدہ ادارے سے مربوط ہونے والے زیادہ تر افراد بزرگ اور ریٹائرڈ عمر کو پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے اپنا خون نچوڑ کر اپنے مادر علمی کو دے دیا تھا، لیکن ان کی جسمانی قوت ان کے بلند حوصلوں کا ساتھ نہیں دے پارہی تھی۔ خود مولانا بھی اس وقت ۶۰؍ کے پیٹے میں تھے، ادارے قائم کرنے اور چلانے کے لیے نوجوان خون کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اللہ نے ہمت دی تھی، توفیق الٰہی ساتھ ساتھ چلتی رہی، نیتیں نیک تھیں، مقصد صالح تھا، اللہ نے رکاوٹوں کو دور کیا ۔اسی پریشانی کے عالم میں مولانا سے ہماری پہلی ملاقات ۱۹۹۸ء میں دبئی میں ہوئی ہوئی تھی ۔ اس وقت یہاں پر بھٹکلی احباب میں سے مظفر کولا صاحب، اور حضرت حکیم الاسلامؒ کے مخلص مریدعزیز الحق بنگالی مرحوم جو ممبئی میں اپنی تجارت کو لپیٹ کر پیرانہ سالی میں اب یہاں جد وجہد کررہے تھے، اور پھر حاجی عبد الرزاق رصاصی مرحوم نے آپ کا خیال رکھا۔ مولانا کی اس رفاقت میں آپ کی شگفتہ مزاجی کا احساس ہوا۔ دور سے جو زاہد خشک نظر آتے تھے، ان کی مجلسوں کا رنگ ہی الگ تھا۔ ادبی ذوق رگ و پئے میں بھرا ہوا تھا، برجستہ اشعار ا یسے بیان کرتے کہ دوسرے اکابرین میں اس کی دوسری مثال شاید باید ہی ملے۔ ہماری آواز کے ذخیرے سے بہزاد لکھنوی، ماہر القادری، جگر مرادآبادی کا کلام سن کر جھوم اُٹھتے ۔ یہ ذوق غالباً نسل در نسل آپ میں منتقل ہوا تھا، کیونکہ آپ کے والد ماجد تقریر میں جو زبان استعمال کرتے تھے، لسانیات کے جو نکتے بیان کرتے تھے، اور اس میں جو سلاست اور فصاحت ہوا کرتی تھی، یہ خون میں ادبی ذوق سرایت کیے بغیر ممکن نہیں تھا۔ ویسے آپ کی ہمشیرہ اور مایہ ناز صحافی مولانا حامد اللہ انصاری غازی کی اہلیہ ہاجرہ نازلی کا شمار اردو کی بہترین ناول نگار خواتین میں ہوتا ہے ۔
مولانا اپنے دوستوں، ساتھیوں اور شاگردوں کے ستائے ہوئے تھے۔ دارالعلوم کے تنازعے میں اور وقف کے قیام کے بعد ذہن و دماغ پر بہت زیادہ بوجھ پڑگیا تھا، لیکن مجال تھی جو حرفِ شکایت زبان پر لاتے ۔ کئی بار مولانا کے ساتھ رہنے کا موقع ملا، بڑا بے تکلفانہ ماحول ہوتا، بات چیت میں اپنائیت کا احساس ہوتا۔ اس دوران آپ کی غیبت کرنے والوں کا تذکرہ کسی چاہنے والوں سے آتا، لیکن کیا مجال تھی جو کبھی آپ کی زبان حرفِ شکایت سے داغدار ہو جائے۔ یہ آپ کے کردار کی عظمت تھی، جس نے آپ کو ہمیشہ سربلند رکھا۔ بلندیِ کردار کے ایسے نمونے اب اہل علم میں ناپید ہوتے جارہے ہیں ۔آپ کے ساتھ جو کچھ برا ہوا، انہوںنے اسے بھلا دیا تھا۔ مولانا اسعد مدنی مرحوم سے بسترِ مرگ پر جاکر ملے اور دلوں کو صاف کرنے میں پہل کی۔ مولانا غلام محمد وستانوی کی جگہ پر اہتمام کی ذمہ داری اور جمعیت کے آپسی اختلافات کے بعد بحیثیت صدر آپ کے انتخاب کی کوششوں کو آپ نے قبول نہیں کیا، جس سے محسوس ہوتا ہے کہ دارالعلوم میں جو تنازعہ پیدا ہوا تھا اس کی اساس جاہ و منصب کی خواہش نہیں تھی، وہ ایک اصولی بات تھی جس سے تادم واپسیں آپ نے منہ نہیں موڑا۔ یہ آپ کے اخلاص کی نشانی تھی ۔مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت کے بعد صدارت کے لیے ووٹنگ ہوئی تو مولانا سالم اور مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی صاحب کو یکساں ووٹ ملے، لیکن آپ نے مولانا سید محمد رابع صاحب کے حق میں پلا وزنی کرکے انہیں بورڈ کا صدر بننے میں کردار ادا کیا ۔
ایک طویل عرصے سے ان کے پاؤں کمزور ہوگئے تھے، چلنا پھرنا ممکن نہیں رہا تھا، بڑھتی عمر کے ساتھ بیماریاں بھی سایہ فگن رہتیں۔ بیماریوں کا کوئی بھروسہ نہیں تھا کہ کب حملہ آور ہوں، لیکن ملت کے مفاد میں جب تک سا نس چلتی رہی ہمیشہ رختِ سفر باندھے رکھا۔
اس حالت میں بھی مسلم پرسنل لا بورڈ کے ایک دن کے اجلاس میں شرکت کے لیے پورے دن کا سفر طے کرکے کئی ایک اسٹیشن اور ہوائی اڈے تبدیل کرکے بھٹکل پہنچتے ہم نے بھی دیکھا، اور پیرانہ سالی کی اس ہمت کو دیکھ کر دنگ رہ گئے۔
مولانا اپنے والد ماجد حضرت حکیم الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کے حقیقی جانشین واقع ہوئے تھے۔ تقریر بڑی دل نشین کرتے تھے، جوانی میں انداز میں ٹہراؤ تھا۔ لیکن آخر آخر میں بولنے کی رفتار میں کچھ تیزی محسوس ہوتی تھی، لیکن علم و حکمت کی باتیں وہی ہوا کرتیں، فصاحت و سلاست میں بھی وہی حسن پایا جاتا تھا ۔
مولانا نے ایک طبعی عمر گزار کر داعی اجل کو لبیک کہا۔ مولانا اب اس بارگاہ میں پہنچ گئے ہیں، جہاں سے واپس کوئی نہیں آتا، لیکن جب جانے والی کی جگہ پرنہ ہو، خلا بھرنے کی کوئی آس نہ ہو، اور زمانے کو ان کی ضرور ت پہلے سے زیادہ محسوس ہوتو کیسے ممکن ہے کہ وہ دلوں میں زندہ نہ رہیں۔ ستر سال تک جن کے سامنے ایک کثیر تعداد افراد نے زانوئے تلمذ تہ کیا ہو، اور ان کی جلائی ہوئی شمعوں کی لوسے لاکھوں شمعیں جل اُٹھی ہوں اوران سے چار دانگِ عالم میں علم کی روشنی پھیل گئی ہو آخرایسی شخصیت کے حق میں دعا کے لیے ہاتھ کیوں نہ اٹھیں گے؟! اللّٰھم اغفرلہ وارحمہ ، آمین ۔