قادیانی اپنے کو “احمدی” کہہ کر فریب دیتے ہیں
س… آپ کے موٴقر جریدہ کی ۲۹/دسمبر کی اشاعت میں یہ پڑھ کر تعجب ہوا کہ جہاں قادیانی حضرات کے مذہب کا شناختی کارڈ فارم میں اندراج ہوتا ہے وہاں شناختی کارڈ میں اس کا کوئی اندراج نہیں ہوتا۔ یہ ایک ایسی فروگزاشت ہے جس سے فارم میں اندراج کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے، یہاں میں یہ گزارش کروں گا کہ قادیانیوں کے لئے لفظ “احمدی” کا اندراج کسی طور جائز نہیں۔ یہ غلطی اکثر سرکاری اعلانات میں بھی سرزد ہوتی ہے، اس کی غالباً وجہ یہ ہے کہ بہت سے حضرات اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ قادیانیوں نے لفظ “احمدی” اپنے لئے کیوں اختیار کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں جو الفاظ “اسمہ احمد” آئے ہیں، وہ دراصل مرزا صاحب کی مراجعت کی پیش گوئی ہے، حالانکہ چودہ سو سال سے جملہ مسلمین کا یہی اعتقاد رہا ہے لفظ “احمد” حضور مقبول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے آیا ہے، اور آپ کا نام احمد مجتبیٰ بھی تھا، اور شاید مرزا صاحب کے والد بزرگوار کا بھی یہی اعتقاد ہو، جنہوں نے آپ کا نام “غلام احمد” رکھا تھا، اسی طرح انجیل میں لفظ “فارقلیط” علمائے اسلام کے نزدیک حضور ہی کی آمد کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ فارقلیط معرب ہے یونانی لفظ پیری کلی ٹاس کا جو بذات خود ترجمہ ہے عبرانی زبان میں “احمد” کا جس زبان میں پہلے انجیل لکھی گئی تھی اسے بھی حضور کے ورود مسعود کی پیش گوئی شمار کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن قادیانی حضرات اسے بھی مرزا صاحب کی آمد کی پیش گوئی شمار کرتے ہیں چنانچہ بجائے قادیانی کے لفظ “احمدی” کا استعمال قادیانی حضرات کے موقف اور ان کے پروپیگنڈے کو تقویت دینے کے مترادف ہے، اس لئے میرا ادنیٰ مشورہ یہ ہے کہ اس جماعت کے لئے لفظ قادیانی ہی استعمال کرنا مناسب ہے۔
ج… آپ کی رائے صحیح ہے! قادیانیوں کا “اسمہ احمد” کی آیت کو مرزا قادیانی پر چسپاں کرنا ایک مستقل کفر ہے، مرزا غلام احمد قادیانی تحفہ گولڑویہ میں ص:۹۶ میں لکھتا ہے: “یہی وہ بات ہے جو میں نے اس سے پہلے اپنی کتاب ازالہ اوہام میں لکھی تھی یعنی یہ کہ میں اسم احمد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا شریک ہوں۔”
(روحانی خزائن ج:۱۷ ص:۲۵۴)
ایک قادیانی نوجوان کے جواب میں
جواب:…آپ کا جوابی لفافہ موصول ہوا، آپ کی فرمائش پر براہ راست جواب لکھ رہا ہوں اور اس کی نقل “جنگ” کو بھی بھیج رہا ہوں۔
اہل اسلام قرآن کریم، حدیث نبوی اور اجماعِ امت کی بنا پر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور دوبارہ تشریف آوری کا عقیدہ رکھتے ہیں، خود جناب مرزا صاحب کو اعتراف ہے کہ:
“مسیح ابن مریم کی آنے کی پیش گوئی ایک اول درجہ کی پیش گوئی ہے جس کو سب نے بااتفاق قبول کرلیا ہے اور صحاح میں جس قدر پیش گوئیاں لکھی گئی ہیں، کوئی پیش گوئی اس کے ہم پہلو اور ہم وزن ثابت نہیں ہوتی۔ تواتر کا اول درجہ اس کو حاصل ہے۔” (ازالہ اوہام ص:۵۵۷، روحانی خزائن ج:۳ ص:۴۰۰)
لیکن میرا خیال ہے کہ جناب مرزا صاحب کے ماننے والوں کو اہل اسلام سے بڑھ کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور دوبارہ تشریف آوری کا عقیدہ رکھنا چاہئے، کیونکہ جناب مرزا صاحب نے سورہ الصف کی آیت:۹ کے حوالے سے ان کی دوبارہ تشریف آوری کا اعلان کیا ہے، وہ لکھتے ہیں:
“یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیش گوئی ہے اور جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا (اس آیت میں) وعدہ دیا گیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق و اقطار میں پھیل جائے گا۔”
(براہین احمدیہ حصہ چہارم ص:۴۹۸، ۴۹۹)
جناب مرزا صاحب قرآن کریم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ آنے کا ثبوت محض اپنی قرآن فہمی کی بنا پر نہیں دیتے بلکہ وہ اپنے الہام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس آیت کا مصداق ثابت کرتے ہیں:
“اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ خاکسار اپنی غربت اور انکساری اور توکل اور ایثار اور آیات اور انوار کی روح سے مسیح کی “پہلی زندگی” کا نمونہ ہے اور اس عاجز کی فطرت اور مسیح کی فطرت باہم نہایت ہی متشابہ واقع ہوئی ہے ․․․․․․․ اس لئے خداوند کریم نے مسیح کی پیش گوئی میں ابتداء سے اس عاجز کو بھی شریک کر رکھا ہے، یعنی حضرت مسیح پیش گوئی متذکرہ بالا کا ظاہری اور جسمانی طور پر مصداق ہے اور یہ عاجز روحانی اور معقولی طور پر۔” (ایضاً ص:۴۹۹)
اور اسی پر اکتفا نہیں بلکہ مرزا صاحب اپنے الہام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ تشریف لانے کی الہامی پیش گوئی بھی کرتے ہیں، چنانچہ اسی کتاب کے ص:۵۰۵ پر اپنا ایک الہام “عسیٰ ربکم ان یرحم علیکم” درج کرکے اس کا مطلب یہ بیان فرماتے ہیں:
“یہ آیت اس مقام میں حضرت مسیح کے “جلالی طور پر” ظاہر ہونے کا اشارہ ہے یعنی اگر طریق و حق اور نرمی اور لطف اور احسان کو قبول نہیں کریں گے اور حق محض جو دلائل واضحہ اور آیات بینہ سے کھل گیا ہے اس سے سرکش رہیں گے تو وہ زمانہ بھی آنے والا ہے کہ جب خدائے تعالیٰ مجرمین کے لئے شدت اور غضب اور قہر اور سختی کو استعمال میں لائے گا اور حضرت مسیح علیہ السلام نہایت جلالیت کے ساتھ دنیا پر اتریں گے اور یہ زمانہ اس زمانے کے لئے بطور ارہاض کے واقع ہوا ہے، یعنی اس وقت جلالی طور پر خدائے تعالیٰ اتمام حجت کرے گا، اب بجائے اس کے جمالی طور پر یعنی رفق اور احسان سے اتمام حجت کر رہا ہے۔”
ظاہر ہے کہ اگر حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات اور دوبارہ آنے پر ایمان نہ رکھا جائے تو نہ صرف یہ قرآن کریم کی قطعی پیش گوئی کی تکذیب ہے، بلکہ جناب مرزا صاحب کی قرآن فہمی، ان کی الہامی تفسیر اور ان کی الہامی پیش گوئی کی بھی تکذیب ہے۔ پس ضروری ہے کہ اہل اسلام کی طرح مرزا صاحب کے ماننے والے بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ آنے پر ایمان رکھیں ورنہ اس عقیدے کے ترک کرنے سے قرآن و حدیث کے علاوہ مرزا صاحب کی قرآن دانی بھی حرفِ غلط ثابت ہوگی اور ان کی الہامی تفسیریں اور الہامی انکشافات سب غلط ہوجائیں گے، کیونکہ:
“جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہوجائے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا۔”
(چشمہ معرفت ص:۲۲۲)
اب آپ کو اختیار ہے کہ ان دو باتوں میں کس کو اختیار کرتے ہیں، حیاتِ عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے کو؟ یا مرزا صاحب کی تکذیب کو؟
جناب مرزا صاحب کے ازالہ اوہام صفحہ:۹۲۱ والے چیلنج کا ذکر کرکے آپ نے شکایت کی ہے کہ نوے سال سے کسی نے اس کا جواب نہیں دیا۔
آں عزیز کو شاید علم نہیں کہ حضرات علمائے کرام ایک بار نہیں، متعدد بار اس کا جواب دے چکے ہیں، تاہم اگر آپ کا یہی خیال ہے کہ اب تک اس کا جواب نہیں ملا، تو یہ فقیر (باوجودیکہ حضرات علماء احسن اللہ سعیہم کی خاکِ پا بھی نہیں) اس چیلنج کا جواب دینے کے لئے حاضر ہے، اسی کے ساتھ مرزا صاحب کی کتاب البریة ص:۲۰۷ والے اعلان کو بھی ملالیجئے، جس میں موصوف نے بیس ہزار روپیہ تاوان دینے کے علاوہ اپنے عقائد سے توبہ کرنے اور اپنی کتابیں جلادینے کا وعدہ بھی کیا ہے۔
تصفیہ کی صورت یہ ہے کہ جناب مرزا صاحب کے موجودہ جانشین سے لکھوادیا جائے کہ یہ چیلنج اب بھی قائم ہے اور یہ کہ وہ مرزا صاحب کی شرط پوری کرنے کی ذمہ داری لیتے ہیں، اور اسی کے ساتھ کوئی ثالثی عدالت، جس کے فیصلے پر فریقین اعتماد کرسکیں، خود ہی تجویز فرمادیں، میں اس مسلّمہ عدالت کے سامنے اپنی معروضات پیش کردوں گا، عدالت اس پر جو جرح کرے گی اس کا جواب دوں گا، میرے دلائل سننے کے بعد اگر عدالت میرے حق میں فیصلہ کردے کہ میں نے مرزا صاحب کے کلئے کو توڑ دیا اور ان کے چیلنج کا ٹھیک ٹھیک جواب دے دیا ہے تو ۲۰ ہزار روپے آں عزیز کی اعلیٰ تعلیم کے لئے آپ کو چھوڑتا ہوں۔ دوسری دونوں باتوں کو پورا کرنے کا معاہدہ پورا کرادیجئے گا، اور اگر عدالت میرے خلاف فیصلہ صادر کرے تو آپ شوق سے اخبارات میں اعلان کرادیجئے گا کہ مرزا صاحب کا چیلنج بدستور قائم ہے اور آج تک کسی سے اس کا جواب نہ بن پڑا۔ اگر آپ اس تصفیہ کے لئے آگے بڑھیں تو اپنی جماعت پر بہت احسان کریں گے۔