علمائے حق کی کتب سے تحریف کرکے قادیانیوں کی دھوکا دہی
س… مکرمی و محترمی مولانا صاحب! السلام علیکم ورحمة اللہ!
ملتان سے آپ کا ایڈریس منگوایا، اس سے قبل بھی میں نے آپ کو خط لکھے تھے شاید آپ کو یاد ہو، مگر اب آپ کا ایڈریس بھول جانے کی وجہ سے ملتان سے منگوانا پڑا۔ عرض ہے کہ میں ایف ایس سی (میڈیکل) کرلینے کے بعد آج کل فارغ ہوں، میڈیکل کالج میں ایڈمیشن میں ابھی کافی دیر ہے، اس لئے جی بھر کر مطالعہ کر رہا ہوں، مجھے شروع ہی سے مذہب سے لگاوٴ ہے، ایک دوست (جو کہ احمدی ہے) نے مجھے اپنے لٹریچر سے چند رسائل دئیے میں نے پڑھے۔ مولانا مودودی مرحوم کے رسائل “ختم نبوت” اور “قادیانی مسئلہ” بھی پڑھے اور احمدیوں کی طرف سے ان کے جوابات بھی۔ مولانا کے دلائل و شواہد کمزور دیکھ کر بڑی پریشانی ہوئی۔ آپ کا پمفلٹ “شناخت” بھی پڑھا مگر اس کا جواب نہیں ملا۔ البتہ آج کل قاضی محمد نذیر صاحب کی کتاب “تفسیر خاتم النبیین” پڑھ رہا ہوں جو آپ کی شائع کردہ آیت خاتم النبیین کی تفسیر کا جواب ہے۔ جس میں آپ نے مولانا محمد انور شاہ صاحب کے فارسی مضمون کا ترجمہ و تشریح کی ہے۔ اصل کتاب نہیں پڑھ سکا اس لئے جواب کے استحکام کو محسوس کرنا قدرتی امر ہے۔ بہرحال احمدی لٹریچر پڑھ کر میں یہ سمجھ سکا ہوں کہ ہمارے علماء کوئی ایسی بات پیش نہیں کرتے جس سے احمدی لاجواب ہوجائیں، وہ ہر ایک بات کا مدلل جواب دیتے ہیں، وہ مشائخ کی عبارت دے کر ثابت کرتے ہیں کہ ان کا نظریہ وہی ہے جو ان مشائخ عظام کا تھا، اس بات سے بڑی الجھن ہوتی ہے، کیا ہم ان شواہد کو جھٹلاسکتے ہیں، آخر ایسی باتیں لکھنے کا کیا فائدہ جن کا مدلل جواب دیا جاسکتا ہے۔ آخر ایسی باتیں کیوں نہیں لکھی جاتیں جن سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ پھر کسی کو دودھ میں پانی ڈالنے کی جسارت نہ ہو۔ اگر ہم سچے ہیں تو ہماری سچائی مشکوک کیوں ہوجاتی ہے؟
جواب کا انتظار رہے گا۔ احقر عبدالقدوس ہاشمی
ج… اس ناکارہ نے قادیانیوں کی کتابیں بھی پڑھی ہیں اور قادیانیوں سے زبانی اور تحریری گفتگو کا موقع بھی بہت آتا رہا ہے، قادینی غلط بیانی اور خلط مبحث کرکے ناواقفوں کو دھوکا دیتے ہیں، ہمارے اور ان کے بنیادی مسائل دو ہیں: ایک ختم نبوت۔ دوسرا نزولِ عیسیٰ علیہ السلام۔ یہ دونوں مسئلے ایسے قطعی ہیں کہ بزرگانِ سلف میں ان میں کبھی اختلاف نہیں ہوا، بلکہ ان کے منکر کو قطعی کافر اور خارج از اسلام قرار دیا گیا ہے۔ قادیانی صاحبان اپنا کام چلانے کے لئے اکابر کے کلام میں سے ایک آدھ جملہ جو کسی اور سیاق میں ہوتا ہے، نقل کرلیتے ہیں، کبھی کسی نے غلطی سے کسی بزرگ کا قول غلط نقل کردیا اسی کو اڑالیتے ہیں، ان کے ناواقف قاری یہ سمجھ کر کہ جن بزرگوں کا حوالہ دیا گیا ہے وہ بھی قادیانیوں کے ہم عقیدہ ہوں گے، دھوکے میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یہاں اس کی صرف ایک مثال پر اکتفا کرتا ہوں، آپ نے بھی پڑھا ہوگا کہ قادیانی، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کی کتاب “تحذیر الناس” کا حوالہ دیا کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی نبی آسکتا ہے اور یہ کہ یہ امر خاتم النبیین کے منافی نہیں، حالانکہ حضرت کی تحریر اسی کتاب میں موجود ہے کہ جو شخص خاتمیت زمانی کا قائل نہ ہو وہ کافر ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:
“سو اگر اطلاق اور عموم ہے تب تو خاتمیت زمانی ظاہر ہے، ورنہ تسلیم لزوم خاتمیت زمانی بدلالت التزامی ضرور ثابت ہے، ادھر تصریحات نبوی مثل:
“انت منی بمنزلة ھارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی۔” او کما قال۔
جو بظاہر بطرز مذکورہ اسی لفظ خاتم النبیین سے ماخوذ ہے، اس باب میں کافی، کیونکہ یہ مضمون درجہ تواتر کو پہنچ گیا ہے، پھر اس پر اجماع بھی منعقد ہوگیا۔ گو الفاظ مذکور بہ سند تواتر منقول نہ ہوں، سو یہ عدم تواتر الفاظ، باوجود تواتر معنوی یہاں ایسا ہی ہوگا جیسا تواتر اعداد رکعات فرائض و وتر وغیرہ۔ باجودیکہ الفاظ حدیث مشعر تعداد رکعات متواتر نہیں، جیسا اس کا منکر کافر ہے، ایسا ہی اس کا منکر بھی کافر ہوگا۔”
(تحذیر الناس طبع جدید ص:۱۸، طبع قدیم ص:۱۰)
اس عبارت میں صراحت فرمائی گئی ہے کہ:
الف…خاتمیت زمانی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری نبی ہونا، آیت خاتم النبیین سے ثابت ہے۔
ب:…اس پر تصریحاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم متواتر موجود ہیں اور یہ تواتر رکعاتِ نماز کے تواتر کی مثل ہے۔
ج:…اس پر امت کا اجماع ہے۔
د:…اس کا منکر اسی طرح کافر ہے، جس طرح ظہر کی چار رکعت فرض کا منکر۔
اور پھر اسی تحذیر الناس میں ہے:
“ہاں اگر بطور اطلاق یا عموم مجاز اس خاتمیت کو زمانی اور مرتبی سے عام لے لیجئے تو پھر دونوں طرح کا ختم مراد ہوگا۔ پر ایک مراد ہو تو شایان شان محمدی صلی اللہ علیہ وسلم خاتمیت مرتبی ہے نہ زمانی، اور مجھ سے پوچھئے تو میرے خیال ناقص میں تو وہ بات ہے کہ سامع منصف انشاء اللہ انکار ہی نہ کرسکے۔ سو وہ یہ ہے کہ․․․․․” (طبع قدیم ص:۹، طبع جدید ص:۱۵)
اس کے بعد یہ تحقیق فرمائی ہے کہ لفظ خاتم النبیین سے خاتمیت مرتبی بھی ثابت ہے اور خاتمیت زمانی بھی، اور “مناظرہ عجیبہ” میں جو اسی تحذیر الناس کا تتمہ ہے، ایک جگہ فرماتے ہیں:
“مولانا! حضرت خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت زمانی تو سب کے نزدیک مسلّم ہے اور یہ بات بھی سب کے نزدیک مسلّم ہے کہ آپ اول المخلوقات ہیں ․․․․․․ “
(ص:۹ طبع جدید)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
“البتہ وجوہ معروضہ مکتوب تحذیر الناس تولد جسمانی کی تاخیر زمانی کے خواستگار ہیں، اس لئے کہ ظہور تاخر زمانی کے سوا تاخر تولد جسمانی اور کوئی صورت نہیں۔” (ص:۱۰)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
“اور اگر مخالف جمہور اس کا نام ہے کہ مسلّمات جمہور باطل اور غلط اور غیرصحیح اور خلاف سمجھی جائیں، تو آپ ہی فرمائیں کہ تاخر زمانی اور خاتمیت عصر نبوت کو میں نے کب باطل کیا؟ اور کہاں باطل کیا؟
مولانا! میں نے خاتم کے وہی معنی رکھے جو اہل لغت سے منقول ہیں اور اہل زبان میں مشہور، کیونکہ تقدم و تاخر مثل حیوان، انواع مختلفہ پر بطور حقیقت بولا جاتا ہے، ہاں تقدم و تاخر فقط تقدم و تاخر زمانی ہی میں منحصر ہوتا تو پھر درصورت ارادہٴ خاتمیت ذاتی و مرتبی البتہ تحریف معنوی ہوجاتے۔ پھر اس کو آپ تفسیر بالرائے کہتے تو بجا تھا۔” (ص:۵۲)
“مولانا! خاتمیت زمانی کی میں نے تو توجیہ کی ہے تغلیط نہیں کی، مگر ہاں آپ گوشہ عنایت و توجہ سے دیکھتے ہی نہیں تو میں کیا کروں۔ اخبار بالعلة مکذب اخبار بالمعلول نہیں ہوتا، بلکہ اس کا مصداق اور موٴید ہوتا ہے، اوروں نے فقط خاتمیت زمانی اگر بیان کی تھی تو میں نے اس کی علت یعنی خاتمیت مرتبی کو ذکر اور شروع تحذیر ہی میں ابتدائے مرتبی کا بہ نسبت خاتمیت زمانی ذکر کردیا۔” (ص:۵۳)
ایک جگہ لکھتے ہیں:
“مولانا! معنی مقبول خدام والا مقام․․․․․․․
مختار احقر سے باطل نہیں ہوتے، ثابت ہوتے ہیں۔ اس صورت میں بمقابلہ “قضایا قیاساتھا معھا” اگر من جملہ “قیاسات قضایاھا معھا” معنی مختار احقر کو کہئے تو بجا ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر لیجئے، صفحہ نہم کی سطر دہم سے لے کر صفحہ یازدہم کی سطر ہفتم تک وہ تقریر لکھی ہے جس سے خاتمیت زمانی اور خاتمیت مکانی اور خاتمیت مرتبی تینوں بدلالت مطابقی ثابت ہوجائیں، اور اسی تقریر کو اپنا مختار قرار دیا ہے، چنانچہ شروع تقریر سے واضح ہے۔
سو پہلی صورت میں تو تاخر زمانی بدلالت التزامی ثابت ہوتا ہے اور دلالت التزامی اگر دربارہٴ توجہ الی المطلوب، مطابقی سے کمتر ہو مگر دلالت ثبوت اور دل نشینی میں مدلول التزامی مدلول مطابقی سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس لئے کہ کسی چیز کی خبر تحقق اس کے برابر نہیں ہوسکتی کہ اس کی وجہ اور علت بھی بیان کی جائے ․․․․․․․”
“حاصل مطلب یہ کہ خاتمیت زمانی سے مجھ کو انکار نہیں، بلکہ یوں کہئے کہ منکروں کے لئے گنجائش انکار نہ چھوڑی، افضلیت کا اقرار ہے بلکہ اقرار کرنے والوں کے پاوٴں جمادئیے ․․․․․․․” (ص:۷۱)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
“اپنا دین و ایمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور نبی کے ہونے کا احتمال نہیں، جو اس میں تامل کرے اس کو کافر سمجھتا ہوں۔” (ص:۱۴۴)
حضرت نانوتوی کی یہ تمام تصریحات اسی تحذیر الناس اور اس کے تتمہ میں موجود ہیں، لیکن قادیانیوں کی عقل و انصاف اور دیانت و امانت کی داد دیجئے کہ وہ حضرت نانوتوی کی طرف یہ منسوب کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی نہیں، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی نبی آسکتے ہیں۔ جبکہ حضرت نانوتوی اس احتمال کو بھی کفر قرار دیتے ہیں اور جو شخص ختم نبوت میں ذرا بھی تامل کرے اسے کافر سمجھتے ہیں۔
اس ناکارہ نے جب مرزا صاحب کی کتابوں مطالعہ شروع کیا تو شروع شروع میں خیال تھا کہ ان کے عقائد خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں مگر کسی کا حوالہ دیں گے تو وہ تو صحیح ہی دیں گے، لیکن یہ حسن ظن زیادہ دیر قائم نہیں رہا، حوالوں میں غلط بیانی اور کتربیونت سے کام لینا مرزا صاحب کی خاص عادت تھی، اور یہی وراثت ان کی اُمت کو پہنچی ہے۔ اس عریضہ میں، میں نے صرف حضرت نانوتوی کے بارے میں ان کی غلط بیانی ذکر کی ہے، ورنہ وہ جتنے اکابر کے حوالے دیتے ہیں سب میں ان کا یہی حال ہے، اور ہونا بھی چاہئے، جھوٹی نبوت جھوٹ ہی کے سہارے چل سکتی ہے، حق تعالیٰ شانہ عقل و ایمان سے کسی کو محروم نہ فرمائیں۔
ایک قادیانی کے پُرفریب سوالات کے جوابات
ہمارے ایک دوست سے کسی قادیانی نے حضرت مفتی محمد شفیع صاحب کے رسالہ “مسیح موعود کی پہچان” پر کچھ سوالات کئے اور راقم الحروف سے ان کے جوابات کا مطالبہ کیا، ذیل میں یہ سوال و جواب قارئین کی خدمت میں پیش کئے جارہے ہیں۔
تمہید:
رسالہ “مسیح موعود کی پہچان” میں قرآن کریم اور ارشاداتِ نبویہ سے حضرت مسیح علیہ السلام کی علامات جمع کردی گئی ہیں، جو اہل ایمان کے لئے تو اضافہ ایمان میں مدد دیتی ہیں، لیکن افسوس ہے کہ سوال کنندہ کے لئے ان کا اثر الٹا ہوا، قرآن کریم نے صحیح فرمایا! “ان کے دلوں میں روگ ہے، پس بڑھادیا ان کو اللہ نے روگ میں۔”
بقول سعدی:
باراں کہ در لطافت طبعش خلاف نیست
در باغ لالہ روید و در شورہ بوم خس
سائل نے ارشاداتِ نبوت پر اسی انداز میں اعتراض کئے ہیں جو ان کے پیشرو پنڈت دیانند سرسوتی نے “ستیارتھ پرکاش” میں اختیار کیا تھا، اس لئے کہ ارشاداتِ نبویہ نے مسیح علیہ السلام کی صفات و علامات اور ان کے کارناموں کا ایسا آئینہ پیش کردیا ہے جس میں قادیانی مسیحیت کا چہرہ بھیانک نظر آتا ہے، اس لئے انہوں نے روایتی حبشی کی طرح اس آئینے کو قصوروار سمجھ کر اسی کو زمین پر پٹخ دینا ضروری سمجھا تاکہ اس میں اپنا سیاہ چہرہ نظر نہ آئے، لیکن کاش! وہ جانتے کہ:
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پر خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا!
رسالہ “مسیح موعود کی پہچان” پر سائل نے جتنے اعتراضات کئے ہیں ان کا مختصر سا اصولی جواب تو یہ ہے کہ مصنف نے ہر بات میں احادیثِ صحیحہ کا حوالہ دیا ہے، اپنی طرف سے کچھ نہیں لکھا، اس لئے سائل کے اعتراضات مصنف پر نہیں بلکہ خاکش بدہن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہیں۔ اگر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کے منکر ہیں، یا مسٹر پرویز کے ہم مسلک ہیں تو بصد شوق پنڈت دیانند کی طرح اعتراضات فرمائیں، اور اگر انہیں ایمان کا دعویٰ ہے تو ہم ان سے گزارش کریں گے کہ قیامت کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیجئے، مگر جو لوگ ارشاداتِ نبویہ کو سرمہ چشمِ بصیرت سمجھتے ہیں ان کا ایمان برباد نہ کیجئے! اس کے بعد اب تفصیل سے ایک ایک سوال کا جواب گوش گزار کرتا ہوں، ذرا توجہ سے سنئے!
س… “امت محمدیہ کے آخری دور میں ․․․․․․․․․ دجال اکبر کا خروج مقدر و مقرر تھا۔” (ص:۵ سطر: پہلی و دوسری) اگر یہ دجال اکبر تھا تو لازماً کوئی ایک یا بہت سارے دجال اصغر بھی ہوں گے۔ ان کے بارے میں ذرا وضاحت فرمائی جائے، کب اور کہاں ظاہر ہوں گے، شناخت کیا ہوگی اور ان کے ذمہ کیا کام ہوں گے اور ان کی شناخت کے بغیر کسی دوسرے کو یک دم “دجال اکبر” کیسے تسلیم کرلیا جائے گا۔
ج… جی ہاں! “دجالِ اکبر” سے پہلے چھوٹے چھوٹے دجال کئی ہوئے اور ہوں گے۔ مسیلمہ کذاب سے لے کر غلام احمد قادیانی تک جن لوگوں نے دجل و فریب سے نبوت یا خدائی کے جھوٹے دعوے کئے، ان سب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے “دجالون کذابون” فرمایا ہے، ان کی علامت یہی دجل و فریب، غلط تاویلیں کرنا، چودہ سو سال کے قطعی عقائد کا انکار کرنا، ارشاداتِ نبویہ کا مذاق اڑانا، سلف صالحین کی تحقیر کرنا اور غلام احمد قادیانی کی طرح صاف اور سفید جھوٹ بولنا، مثلاً:
a:…انا انزلناہ قریباً من القادیان۔
a:…قرآن میں قادیانی کا ذکر ہے۔
a:…مسیح موعود چودہویں صدی کے سر پر آئے گا، اور پنجاب میں آئے گا، وغیرہ وغیرہ۔
س… اس رسالہ کے مطالعہ سے ابتداء ہی میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بن باپ کی پیدائش سے لے کر واقعہ صلیب کے انجام تک جس قدر بھی علامات یا دوسری متعلقہ ظاہری نشانیاں اور باتیں بیان کی گئی ہیں وہ اس وجود کے متعلق ہیں جسے مسیح علیہ السلام، عیسیٰ بن مریم اور مسیح ناصری کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے، اور اب بھی جبکہ رسالہ مذکورہ کے مصنف کے خیال کے مطابق مسیح موعود یا مہدی موعود وغیرہ کا نزول نہیں ہوا (بلکہ انتظار ہی ہے) تب بھی پوری دنیا اس مسیح کے نام اور کام اور واقعات سے بخوبی واقف ہے۔ یہ نشانیاں تو اس قوم نے آج کے لوگوں سے زیادہ دیکھی تھیں، (محض سنی اور پڑھی ہی نہیں تھیں) جن کی طرف وہ نازل ہوا تھا، تب بھی اس قوم نے جو سلوک اس کے ساتھ کیا، کیا وہ دنیا سے چھپا ہوا ہے، اس وقت بھی اس قوم نے اسے اللہ تعالیٰ کا نبی ماننے سے انکار کردیا تھا اب اگر وہ (یا کوئی) آکر کہنے لگے کہ میں وہی ہوں جو بن باپ پیدا ہوا تھا، میری ماں مریم تھی اور میں پنگوڑے میں باتیں کیا کرتا تھا اور مردے زندہ کیا کرتا تھا، چڑیاں بناکر ان میں روح پھونکا کرتا تھا، اندھوں کو بینائی بخشتا تھا اور جذام کے مریض تندرست کردیا کرتا تھا وغیرہ وغیرہ تو اب بھی موجودہ تمام اقوام کو کیونکر یقین آسکے گا کہ واقعی پہلے بھی یہ ایسا کرتا رہا ہوگا اور یہ یقینا وہی شخص ہے اور جب پہلی بار نازل ہوا تو محض بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے آیا تھا اور جب مقامی لوگوں نے دل و جان سے قبول نہ کیا تو گمشدہ بھیڑوں کی تلاش میں اتنے سفر اختیار کئے کہ “مسیح” کے لقب سے پکارا جانے لگا لیکن اب جبکہ وہ دوسری بار نازل ہوگا تو ایک سراپا قیامت بن کر آئے گا جیسا کہ رسالہ ہذا سے ظاہر ہے، مثلاً ملاحظہ فرمائیں:
“جس کسی کافر پر آپ کے سانس کی ہوا پہنچ جائے گی وہ مرجائے گا۔” (ص:۱۸، علامت:۶۴)۔
“سانس کی ہوا اتنی دور تک پہنچے گی جہاں تک آپ کی نظر جائے گی۔” (ص:۱۸، علامت:۶۵)۔
ج…اس سوال کا جواب کئی طرح دیا جاسکتا ہے۔
۱:…مرزا قادیانی پر مسیح موعود کی ایک علامت بھی صادق نہیں آئی، مگر قادیانیوں کو دعویٰ ہے کہ انہوں نے مسیح موعود کو پہچان لیا، تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام جن پر قرآن و حدیث کی دو صد علامات صادق آئیں گی ان کی پہچان اہل حق کو کیوں نہ ہوسکے گی؟
۲:…یہود نے پہچاننے کے باوجود نہیں مانا تھا اور یہود اور ان کے بھائی (مرزائی) آئندہ بھی نہیں مانیں گے، نہ ماننے کے لئے آمادہ ہیں، اہل حق نے اس وقت بھی ان کو پہچان اور مان لیا تھا اور آئندہ بھی ان کو پہچاننے اور ماننے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔
۳:…سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا جو خاکہ ارشاداتِ نبویہ میں بیان کیا گیا ہے اگر وہ معترض کے پیش نظر ہوتا تو اسے یہ سوال کرنے کی جرأت ہی نہ ہوتی۔ فرمایا گیا ہے کہ مسلمان دجال کی فوج کے محاصرے میں ہوں گے، نماز فجر کے وقت یکایک عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا، اس وقت آپ کا پورا حلیہ اور نقشہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمادیا ہے، ایسے وقت میں جب ٹھیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان فرمودہ نقشہ کے مطابق وہ نازل ہوں گے تو ان کو بالبداہت اسی طرح پہچان لیا جائے گا جس طرح اپنا جانا پہچانا آدمی سفر سے واپس آئے تو اس کے پہچاننے میں دقت نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ کسی حدیث میں یہ نہیں آتا کہ وہ نازل ہونے کے بعد اپنی مسیحیت کے اشتہار چھپوائیں گے، یا لوگوں سے اس موضوع پر مباحثے اور مباہلے کرتے پھریں گے۔
س… لگے ہاتھوں مولوی صاحب اس رسالہ میں یہ بھی بتادیتے تو مسلمانوں پر احسان ہوتا ہے کہ ان کی (یعنی مسیح موعود کی) سانس مومن اور کافر میں کیونکر امتیاز کرے گی۔ کیونکہ بقول مولوی صاحب ان کی سانس نے صرف کافروں کو ڈھیر کرنا ہے، نظر ہر انسان کی بشرطیکہ کسی خاص بیماری کا شکار نہ ہو تو لامحدود اور ناقابل پیمائش فاصلوں تک جاسکتی ہے اور جاتی ہے تو کیا مسیح موعود اپنی نظروں سے ہی اتنی تباہی مچادے گا؟
ج… جس طرح مقناطیس لوہے اور سونے میں امتیاز کرتا ہے، اسی طرح اگر حضرت مسیح علیہ السلام کی نظر بھی موٴمن و کافر میں امتیاز کرے تو اس میں تعجب ہی کیا ہے؟ اور حضرت مسیح علیہ السلام کی نظر (کافر کش) کا ذکر مرزا قادیانی نے بھی کیا ہے۔
س… اور اگر یہ سب ممکن ہوگا تو پھر دجال سے لڑنے کے لئے آٹھ سو مرد اور چار سو عورتیں کیوں جمع ہوں گی (ملاحظہ ہو ص:۱۹، علامت نمبر:۷۱)۔
ج…دجال کا لشکر پہلے سے جمع ہوگا اور دم عیسوی سے ہلاک ہوگا، جو کافر کسی چیز کی اوٹ میں پناہ لیں گے وہ مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوں گے۔
س… اور یاجوج ماجوج کو ہلاک کرنے کے لئے بددعا کی ضرورت کیوں پیش آئے گی (ملاحظہ ہو ص:۳۱، علامت نمبر:۱۶۲)، کیا مسیح موعود کی ہلاکت خیز نظر یاجوج ماجوج کو کافر نہ جان کر چھوڑ دے گی کیونکہ جیسا پہلے بتایا جاچکا ہے کہ کافر تو نہیں بچ سکے گا، شاید اسی لئے آخری حربہ کے طور پر بددعا کی جائے گی۔
ج… یہ کہیں نہیں فرمایا گیا کہ دم عیسوی کی یہ تاثیر ہمیشہ رہے گی، بوقت نزول یہ تاثیر ہوگی اور یاجوج ماجوج کا قصہ بعد کا ہے، اس لئے دم عیسوی سے ان کا ہلاک ہونا ضروری نہیں۔
س… اگر مسیح ابن مریم اور مسیح موعود ایک ہی وجود کا نام ہے (اور محض دوبارہ نزول کے بعد مسیح بن مریم نے ہی مسیح موعود کہلانا ہے) اور اس نے نازل ہوکر خود بھی قرآن و حدیث پر عمل کرنا ہے اور دوسروں کو بھی اسی راہ پر چلانا ہے (ملاحظہ ہو ص:۲۲، علامت نمبر:۹۹) تو بقول مولوی صاحب جب عیسیٰ کا آسمان پر زندہ اٹھایا جانا وہ اس آیت سے ثابت کرتے ہیں: “انی متوفیک ورافعک الیّ” (آل عمران:۵۵) (ص:۱۶، علامت نمبر:۴۹) تو کیا مولوی صاحب بتائیں گے کہ کیا یہ قرآن مجید میں قیامت تک نہیں رہے گی اور اس کا مطلب و مفہوم عربی زبان اور الٰہی منشا کے مطابق وہی نہیں رہے گا جو اب تک مولوی صاحب کی سمجھ میں آیا ہے اور اگر ایسا ہی ہے تو نزول کے وقت بھی تو یہ آیت یہی اعلان کر رہی ہوگی کہ عیسیٰ بن مریم کو آسمان پر اٹھالیا، اٹھالیا تو پھر واپسی کے لئے کیا یہ آیت منسوخ ہوجائے گی، یا عیسیٰ اسے خود ہی منسوخ قرار دے کر اپنے لئے راستہ صاف کرلیں گے، کیونکہ قرآن مجید میں تو کہیں ذکر نہیں کہ کوئی بھی آیت کبھی بھی منسوخ ہوگی۔ لہٰذا یہ آیت عیسیٰ کی واپسی کا راستہ قیامت تک روکے رکھے گی اور یہ وعدہ تو اللہ تعالیٰ نے خود کیا ہے اور مولوی صاحب خود بھی جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ ذکر ہم نے اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے لہٰذا کسے حق حاصل ہے کہ اس میں یعنی اس کے متن میں ردّ و بدل کرسکے۔
ج… یہ آیت تو ایک واقعہ کی حکایت ہے اور اسی حکایت کی حیثیت سے اب بھی غیرمنسوخ ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری کے بعد بھی غیرمنسوخ رہے گی، جیسا کہ: “انی جاعل فی الارض خلیفة۔ واذ قلنا للملٰئکة اسجدوا لاٰدم۔” وغیرہ بے شمار آیات ہیں۔ سائل بے چارا یہ بھی نہیں جانتا کہ نسخ امر و نہی میں ہوتا ہے اور یہ آیت امر و نہی کے باب سے نہیں بلکہ خبر ہے اور خبر منسوخ نہیں ہوا کرتی۔
س… مولوی صاحب نے کہیں بھی یہ بات وضاحت سے نہیں بیان فرمائی کہ قرآن مجید میں اگر عیسیٰ کے آسمان پر جانے کا جیسے ذکر موجود ہے تو کہیں اسی وجود کے واپس آنے کا ذکر بھی واضح اور غیرمبہم طور پر موجود ہے۔
ج… وضاحت کی ہے، مگر اس کے سمجھنے کے لئے علم و عقل اور بصیرت و ایمان درکار ہے۔ دیکھئے علامت نمبر:۵۷ جس میں حدیث نمبر:۱ کا حوالہ دیا گیا ہے اور اس میں قرآن مجید کی آیت موجود ہے۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے اصل کتاب میں حدیث نمبر: ۷۶ تا ۸۵۔
س… سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی طور پر یہ منوا بھی لیا جائے کہ مسیح موعود کا نام عیسیٰ بن مریم بھی ہوگا تو بھی یہ کیسے منوایا جائے کہ اس وقت یہ نام صفاتی نہیں ہوگا بلکہ عیسیٰ بن مریم ہونے کی وجہ سے یقینی طور پر یہ وجود وہی ہوگا جو کبھی مریم کے گھر بغیر باپ کے پیدا ہوا تھا ․․․․․ وغیرہ وغیرہ، بلکہ مولوی صاحب اپنے رسالہ میں خود ہی تسلیم کرتے ہیں کہ کبھی کبھی معروف نام استعمال تو ہوجاتا ہے لیکن ذات وہ مراد نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ نام مشہور ہوا ہو، مثلاً ملاحظہ فرمائیں ص:۱۱، علامت نمبر:۱۰ جہاں مولوی صاحب مسیح موعود کے خاندان کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: “آپ کے ماموں ہارون ہیں” (یا اخت ہارون) لیکن مولوی صاحب فوراً چونک اٹھتے ہیں اور “ہارون” پر حاشیہ جماتے ہیں (ملاحظہ ہو حاشیہ زیر ص:۱۱) “ہارون سے اس جگہ ہارون نبی مراد نہیں کیونکہ وہ تو مریم سے بہت پہلے گزر چکے تھے بلکہ ان کے نام پر حضرت مریم کے بھائی کا نام ہارون رکھا گیا تھا ․․․․․” تو جیسے یہاں مولوی صاحب کو “ہارون” کی فوراً تاویل کرنا پڑی تاکہ الجھن دور ہو تو کیوں نہ جب مسیح موعود کو عیسیٰ بن مریم بھی کہا جائے تو اسے بھی صفاتی نام سمجھ کر تاویل کرلی جائے اور جسمانی طور پر پہلے والا عیسیٰ بن مریم مراد نہ لیا جائے کیونکہ ابھی ابھی بتایا جاچکا ہے کہ مولوی صاحب کے اپنے حوالہ کے مطابق بھی مسیح بن مریم کے اٹھائے جانے کے بعد اس کا واپس آنا ممکن نہیں کیونکہ کوئی آیت منسوخ نہیں ہوگی اور “ورافعک الیّ” والی آیت اوپر ہی اٹھائے رکھے گی، لوٹ آنے کی اجازت نہیں دے گی۔
ج…عیسیٰ بن مریم ذاتی نام ہے، اس کو دنیا کے کسی عقلمند نے کبھی “صفاتی نام” نہیں کہا، یہ بات وہی مراقی شخص کہہ سکتا ہے جو باریش و بروت اس بات کا مدعی ہو کہ “وہ عورت بن گیا، خدا نے اس پر قوتِ رجولیت کا مظاہرہ کیا”، “وہ مریمی صفت میں نشوونما پاتا رہا، پھر وہ یکایک حاملہ ہوگیا، اسے درد زہ ہوا، وضع حمل کے آثار نمودار ہوئے، اس نے عیسیٰ کو جنا، اس طرح وہ عیسیٰ بن مریم بن گیا۔” انبیاء علیہم السلام کے علوم میں اس “مراق” اور “ذیابیطس کے اثر” کی کوئی گنجائش نہیں۔
ہارون، حضرت مریم کے بھائی کا ذاتی نام تھا، یہ کس احمق نے کہا کہ وہ صفاتی نام تھا؟ اور خاندان کے بڑے بزرگ کے نام پر کسی بچے کا نام رکھ دیا جائے تو کیا دنیا کے عقلاء اس کو “صفاتی نام” کہا کرتے ہیں؟ غالباً سائل کو یہی علم نہیں کہ ذاتی نام کیا ہوتا ہے اور صفاتی نام کسے کہتے ہیں؟ ورنہ وہ حضرت مریم کے بھائی کے نام کو “صفاتی نام” کہہ کر اپنی فہم و ذکاوت کا نمونہ پیش نہ کرتا، ہارون اگر “صفاتی نام” ہے تو کیا معترض یہ بتاسکے گا کہ ان کا ذاتی نام کیا تھا؟
س… اس رسالہ میں جابجا تناقض ہے، مثلاً ملاحظہ فرمائیں ص:۱۸ اور ص:۱۹ علامت نمبر:۷۰ تا۷۶۔ “بوقت نزول عیسیٰ یہ لوگ نماز کے لئے صفیں درست کرتے ہوئے ہوں گے۔ اس جماعت کے امام اس وقت حضرت مہدی ہوں گے، حضرت مہدی عیسیٰ کو امامت کے لئے بلائیں گے اور وہ انکار کریں گے، جب حضرت مہدی پیچھے ہٹنے لگیں گے تو عیسیٰ ان کی پشت پر ہاتھ رکھ کر انہیں امام بنائیں گے، پھر حضرت مہدی نماز پڑھائیں گے۔” ان سب باتوں سے واضح ہوجاتا ہے کہ مولوی صاحب یہ منوانا چاہتے ہیں کہ امام، مہدی ہوں گے۔ چلو یہ بات مولوی صاحب کی تسلیم کرلی جائے تو پھر مولوی صاحب خود ہی بعد میں ص:۲۲، علامت نمبر:۹۴ میں فرماتے ہیں کہ: “حضرت عیسیٰ لوگوں کی امامت کریں گے۔” یعنی اب امام حضرت عیسیٰ کو بنایا اور بتایا گیا ہے۔ اب مولوی صاحب ہی بتائیں کہ ان کے رسالہ میں صحیح اور غلط کی پہچان کیسے ہوسکتی ہے یا سچ کو جھوٹ سے علیحدہ کیسے کیا جائے؟
ج… پہلی نماز میں امام مہدی امامت کریں گے، اور بعد کی نمازوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام ․․․ تناقض کیسے ہوا؟
س… یا پھر ایک ضمنی سوال یوں پیدا ہوتا ہے کہ جیسے عیسیٰ اور مسیح موعود مولوی صاحب کی تحقیق کے مطابق ایک ہی جسمانی وجود کا نام ہے تو کیا کہیں مولوی صاحب مسیح موعود اور مہدی کو بھی ایک ہی تو نہیں سمجھتے اور اب بات یوں بنے گی کہ وہی عیسیٰ ہیں، وہی مسیح موعود ہیں اور وہی مہدی ہیں یا کم از کم مولوی صاحب کی تحقیق اور منطق تو یہی پکار رہی ہے۔
ج… جی نہیں! عیسیٰ علیہ السلام اور مہدی رضی اللہ عنہ کو ایک ہی شخصیت ماننا ایسے شخص کا کام ہے جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ ہو۔ احادیث متواترہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کی الگ الگ علامات اور الگ الگ کارنامے ذکر فرمائے ہیں۔
س… اور مزید ایک ضمنی لیکن مضحکہ خیز سوال مولوی صاحب کی اپنی تحریر سے یوں اٹھتا ہے کہ وہ فرماتے ہیں: “پھر حضرت مہدی نماز پڑھائیں گے۔” ملاحظہ ہو ص:۱۹، علامت نمبر:۷۶۔ یہاں مولوی صاحب نے مہدی لکھا ہے اور ایسا ہی کئی جگہوں پر مہدی لکھا ہے۔ سب صاحب علم جانتے ہیں کہ “ ” اختصار ہے رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا۔ مطلب آسان ہے اور عموماً یہ ان لوگوں کے نام کے ساتھ عزت اور احترام کے لئے استعمال ہوتا ہے جو فوت ہوچکے ہوں، دنیا سے گزر چکے ہوں اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں شامل ہوں یا ویسا روحانی درجہ رکھتے ہوں ․․․․․․ ابھی مسیح موعود تو آئے بھی نہیں اور بقول مولوی صاحب مہدی رضی اللہ عنہ بھی ہوچکے، تو کیا نماز پڑھانے کے لئے یہ مہدی صاحب بھی دوبارہ زندہ ہوکر دنیا میں واپس آئیں گے۔
ج… یہ سوال جیسا کہ سائل نے بے اختیار اعتراف کیا ہے، واقعی مضحکہ خیز ہے، قرآن کریم نے: “السابقون الاولون من المھاجرین والانصار۔” (التوبہ:۱۰۰) اور ان کے تمام متبعین کو “رضی اللہ عنہم” کہا ہے جو قیامت تک آئیں گے۔ شاید سائل، پنڈت دیانند کی طرح خدا پر بھی یہ مضحکہ خیز سوال جڑ دے گا۔ امام ربانی مجدد الف ثانی نے بھی مکتوبات شریفہ میں حضرت مہدی کو “رضی اللہ عنہ” کہا ہے۔ معترض نے یہ مسئلہ کس کتاب میں پڑھا ہے کہ صرف فوت شدہ حضرات ہی کو “رضی اللہ عنہ” کہہ سکتے ہیں؟ حضرت مہدی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صحابی ہوں گے، اس لئے ان کو “رضی اللہ عنہ” کہا گیا۔
س… یا وہ بھی بقول مولوی صاحب حضرت عیسیٰ کی طرح کہیں زندہ موجود ہیں (آسمان پر یا کہیں اور) اور مسیح موعود کے آتے ہی آموجود ہوں گے اور امامت سنبھال لیں گے۔
ج…ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق حضرت مہدی رضی اللہ عنہ پیدا ہوں گے۔
س… کیا اس کی بھی کوئی سند قرآن مجید میں موجود ہے اور کیا ہے؟
ج…جی ہاں! ارشاد نبوت یہی ہے، اور قرآنی سند ہے: “ما اٰتاکم الرسول فخذوہ۔” (الحشر:۷) جس کو غلام احمد قادیانی نے بھی قرآنی سند کے طور پر پیش کیا ہے۔
س… مزید سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مہدی نماز پڑھاتے ہی کہاں چلے جائیں گے کیونکہ بعد میں تو جو کچھ بھی کرنا کرانا ہے وہ مسیح موعود ہی کی ذمہ داری مولوی صاحب نے پورے رسالہ میں خود ہی بیان فرمائی اور قرار دی ہے۔ محض ایک نماز کی امامت اور وہ بھی ایک جماعت کی جو۸۰۰ (آٹھ سو) مردوں اور ۴۰۰ (چار سو) عورتوں پر مشتمل ہوگی (ملاحظہ ہو ص:۱۹، علامت نمبر:۷۲)۔
ج… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری کے بعد (جب حضرت مہدی رضی اللہ عنہ پہلی نماز کی امامت کرچکیں گے) حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کا امام کی حیثیت سے مشن پورا ہوچکا ہوگا اور امامت و قیادت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ میں آجائے گی، تب حضرت مہدی کی حیثیت آپ کے اعوان و انصار کی ہوگی۔ اور کچھ ہی عرصہ بعد ان کی وفات بھی ہوجائے گی (مشکوٰة ص:۴۷۱)۔ پس جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دیگر اعوان و انصار اور مخصوص رفقاء کے تذکرہ کی ضرورت نہ تھی، اسی طرح حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کے تذکرے کی بھی حاجت نہ رہی، کیا اتنی موٹی بات بھی کسی عاقل کے لئے ناقابل فہم ہے؟
س… یہ کوئی بہت بڑا کارنامہ نہیں، کیونکہ اس سے زیادہ مسلمانوں کی امامت تو مولوی صاحب نے خود بھی کئی بار کی ہوگی۔
ج… حضرت مہدی اس سے قبل بڑے بڑے کارنامے انجام دے چکے ہوں گے جو احادیث طیبہ میں مذکور ہیں، مگر وہ اس رسالہ کا موضوع نہیں اور نماز میں حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کا امام بننا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ان کی اقتدا کرنا بجائے خود ایک عظیم الشان واقعہ ہے، اس لئے حدیث پاک میں اس کو بطورِ خاص ذکر فرمایا گیا۔
س… مولوی صاحب نے اپنے رسالہ ہی میں خود تاویل کا راستہ کھول دیا ہے اور اس کا سہارا بھی لیا ہے۔ ملاحظہ ہو ص:۲۰، علامت نمبر: ۸۰۔
۱:…”آپ صلیب توڑیں گے ․․․․․․ یعنی صلیب پرستی کو اٹھادیں گے۔” یہ الفاظ جو مولوی صاحب نے خود لکھے ہیں، یہ محض تاویل ہے اس حدیث شریف کی جس میں صرف صلیب کو توڑنے کا ذکر ہے۔ صلیب پرستی اٹھادینے کی کوئی بات حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان نہیں فرمائی کیا مولوی صاحب ایسی کوئی حدیث شریف کا حوالہ دے سکتے ہیں؟ پھر ملاحظہ ہو ص:۲۰، علامت نمبر:۸۱۔
۲:…”خنزیر کو قتل کریں گے ․․․․․․ یعنی نصرانیت کو مٹائیں گے۔” یہ الفاظ بھی مولوی صاحب کی اپنی تاویل ہے۔ کیونکہ حدیث مذکور میں صرف خنزیر کو قتل کرنے کا ارشاد ہوا ہے۔ باقی مولوی صاحب کے الفاظ وہاں موجود نہیں۔ کیا مولوی صاحب حدیث شریف میں یہ دکھاسکیں گے؟ ہرگز نہیں، کیونکہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ نہیں بلکہ مولوی صاحب کی یا دوسرے علماء کرام کی بیان فرمودہ تاویل ہے، اب یہ حق مولوی صاحب ہی کا کیوں ہے کہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں تاویل کرلیں۔
۳:…”ورافعک الیّ” کی بھی تاویل ہوسکتی ہے۔
ج… تاویل کا راستہ ․․․ تاویل اگر علم و دانش کے مطابق اور قواعد شرعیہ کے خلاف نہ ہو تو اس کا مضائقہ نہیں، وہ لائق قبول ہے، لیکن اہل حق کی صحیح تاویل کو دیکھ کر اہل باطل الٹی سیدھی تاویلیں کرنے لگیں تو وہی بات ہوگی کہ: “ہرچہ مردم می کند بوز نہ ہم می کند” بندر نے آدمی کو دیکھ کر اپنے گلے پر استرا پھیر لیا تھا۔ مثلاً عیسیٰ بن مریم بننے کے لئے پہلے عورت بننا، پھر حاملہ ہونا، پھر بچہ جننا، پھر بچے کا نام عیسیٰ بن مریم رکھ کر خود ہی بچہ بن جانا، کیا یہ تاویل ہے یا مراقی سودأ؟
۱:…”صلیب کو توڑ دیں گے ․․․․․․ یعنی صلیب پرستی کو مٹادیں گے۔” بالکل صحیح تاویل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایک آدھ صلیب کے توڑنے پر اکتفا نہیں فرمائیں گے بلکہ دنیا سے صلیب اور صلیب پرستی کا بالکل صفایا کردیں گے۔
۲:…”خنزیر کو قتل کریں گے ․․․․․․․ یعنی نصرانیت کو مٹادیں گے۔” یہ تاویل بھی بالکل صحیح ہے، اور عقل و شرع کے عین مطابق۔ کیونکہ خنزیر خوری آج کل نصاریٰ کا خصوصی شعار ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نصرانیت کے اس خصوصی شعار کو مٹائیں گے، اور خنزیر کو قتل کریں گے، جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل جاہلیت کے کتوں کے ساتھ اختلاط کو مٹانے کے لئے کتوں کو مارنے کا حکم دیا تھا۔
۳:…”ورافعک الیّ” کی تاویل ․․․یہ تاویل جو قادیانی کرتے ہیں، قرآن کریم اور ارشادات نبوی اور سلف صالحین کے عقیدے کے خلاف ہے، اس لئے مردود ہے، اور اس پر بندر کے اپنا گلا کاٹنے کی حکایت صادق آتی ہے۔
س… “ورافعک الیّ” میں زندہ آسمان پر اٹھایا جانا کیوں مراد لیا جائے؟
ج… “ورافعک الیّ” میں “زندہ آسمان پر اٹھایا جانا” مراد ہے، کیونکہ “وما قتلوہ یقینا بل رفعہ الله الیہ” میں “رفع الی الله” قتل کے مقابلے میں واقع ہوا ہے، جہاں رفع، قتل کے مقابلے میں ہو وہاں “زندہ آسمان پر اٹھایا جانا” ہی مراد ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی معنی قرآن کریم، حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور بزرگانِ دین کے ارشاد میں کہیں آیا ہو تو اس کا حوالہ دیجئے! قیامت تک ساری مرزائی امت مل کر بھی ایک آیت پیش نہیں کرسکتی۔
س… اللہ تعالیٰ نے تو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی قرآن مجید میں یہی حکم دیا تھا کہ: “بلغ ما انزل الیک” (المائدہ:۶۷) “جو تیری طرف اتارا گیا ہے اس کی تبلیغ کر” اور ساتھ ہی یہ توجہ بھی دلائی تھی کہ: “لست علیھم بمصیطر” (الغاشیہ:۲۲) “میں نے تجھے ان پر داروغہ نہیں مقرر کیا بلکہ کھول کھول کر نشانیاں بیان کرنے والا بناکر بھیجا ہے” اور یہ سب قرآن مجید میں بہ تفصیل موجود ہے۔ مولوی صاحب نے خود ہی فرمایا ہے کہ مسیح موعود خود بھی قرآن پر عمل کریں گے اور دوسروں سے بھی کروائیں گے۔ (ملاحظہ ہو ص:۲۲، علامت نمبر:۹۹) تو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یوں خود عمل کرکے نہیں دکھایا کہ اپنی نظروں سے لوگوں کو کھاگئے ہوں، خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں، یہودیوں کو چن چن کر قتل کردیتے رہے ہوں۔ (ملاحظہ فرمائیں ص:۲۱، علامت نمبر:۸۷ اور نمبر:۸۸) تو یہ کس قرآن مجید پر مسیح موعود کا عمل ہوگا؟ اور کس انداز کا عمل ہوگا؟ کیا اس سے مسیح موعود کی شان بلند ہوگی یا اسے دوبارہ نازل کرنے والے رحیم و کریم اللہ تعالیٰ کی؟ (نعوذ باللہ من ذالک!)
ج… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر و کسریٰ کے تخت نہیں الٹے، خلفائے راشدین نے کیوں الٹے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو جزیرہٴ عرب سے نہیں نکالا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیوں نکالا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوتغلب سے دوگنا زکوٰة وصول نہیں کی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیوں کی؟ اگر یہ ساری چیزیں قرآن کریم اور منشائے نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مطابق ہیں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی سے کیوں “یہودیانہ” ضد ہے؟ وہ بھی تو جو کچھ کریں گے فرموداتِ نبویہ کے مطابق ہی کریں گے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان امور کی تفصیلات بھی بیان فرماچکے ہیں۔
س… اور پھر بوقت نزول حضرت مسیح موعود دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے کندھوں پر رکھے ہوئے اتریں گے (ملاحظہ ہو ص:۱۷، علامت نمبر:۶۲) اس کی بھی تاویل ہی کرنی پڑے گی، ورنہ فرشتے کون دیکھے گا اور اگر وہ انسانی شکل اختیار کرکے اتریں گے تو پھر یہ جھگڑا قیامت تک ختم نہیں ہوگا کہ وہ واقعی فرشتے تھے یا محض انسان تھے اور اس کھینچ تان سے مولوی صاحب خوب واقف ہوں گے۔
ج… کیوں تاویل کرنا پڑے گی؟ اس لئے کہ غلام احمد قادیانی اس سے محروم رہے؟ رہا وہ جھگڑا جو آپ کے دماغ نے گھڑا ہے، یہ بتائیے کہ جب جبریل علیہ السلام پہلی بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی کے لے کر آئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کس طرح پہچانا تھا؟ حضرت ابراہیم اور حضرت لوط علیہما السلام کو کس طرح یقین آگیا تھا کہ یہ واقعی فرشتے ہیں؟
آپ کا یہ اعتراض ایسا مہمل ہے کہ اس سے سلسلہٴ وحی مشکوک ہوجاتا ہے، ایک دہریہ آپ ہی کی دلیل لے کر یہ کہے گا کہ: “انبیاء کے پاس جو فرشتے آتے تھے وہ انسانی شکل میں ہی آتے ہوں گے اور یہ جھگڑا قیامت تک ختم نہیں ہوسکتا کہ وہ واقعی فرشتے تھے یا انسان تھے، اور جب تک یہ جھگڑا طے نہ ہو سلسلہٴ وحی پر کیسے یقین کرلیا جائے گا؟” تعجب ہے کہ قادیانی تعلیم نے دین تو سلب کیا ہی تھا عقل و فہم کو بھی سلب کرلیا ہے․․․!
س… آج تک کتنی ہی باتیں مسلمانوں کے مختلف فرقے ابھی تک طے نہیں کرسکے، اور اگر تاویلات نہیں کی جائیں گی تو مولوی صاحب خود ہی اپنی بیان کردہ علامات کی طرف توجہ فرمائیں، سنجیدہ طبقہ کے سامنے کیونکر منہ اٹھاسکیں گے۔
ج… بہت سے جھگڑے تو واقعی طے نہیں ہوئے، مگر قادیانیوں کی بدقسمتی دیکھئے کہ جن مسائل پر مسلمانوں کے تمام فرقوں کا چودہ صدیوں سے اتفاق رہا یہ ان سے بھی منکر ہوبیٹھے، اور یوں دائرہٴ اسلام ہی سے خارج ہوگئے۔ مثلاً: ختم نبوت کا انکار، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا انکار، ان کی دوبارہ تشریف آوری کا انکار، وغیرہ وغیرہ۔
س… “مال و زر لوگوں میں اتنا عام کردیں گے کہ کوئی قبول نہ کرے گا۔” (ص:۲۲، علامت نمبر:۳۳)۔
“ہر قسم کی دینی و دنیوی برکات نازل ہوں گی۔” (ص:۲۲، علامت نمبر:۱۰۰)۔
“ساری زمین مسلمانوں سے اس طرح بھر جائے گی جیسے برتن پانی سے بھرجاتا ہے۔” (ص:؟؟ علامت نمبر:۱۰۹)۔
“صدقات کا وصول کرنا چھوڑ دیا جائے گا۔” (ص:۲۴، علامت نمبر:۱۱۰)۔
کیونکہ مسیح موعود مال و زر اتنا عام کردیں گے کہ کوئی قبول نہ کرے گا۔ (مذکورہ بالا ص:۲۲، علامت نمبر:۹۳)۔
“اس وقت مسلمان سخت فقر و فاقہ میں مبتلا ہوں گے، یہاں تک کہ بعض اپنی کمان کا چلہ جلاکر کھا جائیں گے۔” (ص:۲۶، علامت نمبر:۱۲۴)۔
ملاحظہ فرمایا کہ ابھی ابھی تو مسلمان صدقہ دینا چاہتے تھے اور لینے والا کوئی نہیں تھا، مال و زر اتنا عام تھا کہ کوئی قبول کرنے والا نہیں تھا اور ابھی مسلمانوں ہی کی یہ حالت بتائی جارہی ہے کہ وہ کمان کا چلے بھی جلاکر کھائیں گے تاکہ پیٹ کی آگ کسی طور ٹھنڈی ہو۔
کیا یہی وہ تحقیق ہے جس پر مولوی صاحب کو فخر ہے!
ج… ان احادیث میں تعارض نہیں، سلبِ ایمان کی وجہ سے سائل کو صحیح غور و فکر کی توفیق نہیں ہوئی، مسلمانوں پر تنگی اور ان کے کمان کے چلے جلاکر کھانے کا واقعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول سے ذرا پہلے کا واقعہ ہے، جبکہ مسلمان دجال کی فوج کے محاصرے میں ہوں گے، اور خوشحالی و فراخی کا زمانہ اس کے بعد کا ہے۔