Home » » اس اقتباس سے چند امور بالکل واضح ہیں:

اس اقتباس سے چند امور بالکل واضح ہیں:


اس اقتباس سے چند امور بالکل واضح ہیں:
اول:…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اولادِ آدم علیہ السلام میں سے ہونا تسلیم کیا گیا ہے، اور آدم علیہ السلام کا بشر ہونا قرآن کریم میں منصوص ہے۔
دوم:…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جس نورانیت کا اثبات کیا گیا ہے، وہ وہ ہے جو تزکیہ و تصفیہ سے حاصل ہوتی ہے، اور جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ اس قدر اکمل و اعلیٰ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم “نورِ خالص” بن گئے تھے۔
سوم:…جسم اطہر کا سایہ نہ ہونے کو متواتر نہیں کہا گیا، بلکہ “شہرت سے ثابت” کہا گیا ہے۔ بہت سی روایات ایسی ہیں کہ زبان زد عام و خاص ہوتی ہیں، مگر ان کو تواتر یا اصطلاحی شہرت کا مرتبہ تو کیا حاصل ہوتا، خبر آحاد کے درجہ میں ان کو حدیث صحیح یا قابل قبول ضعیف کا درجہ بھی حاصل نہیں ہوتا، بلکہ وہ خالصتاً بے اصل اور موضوع ہوتی ہیں، سایہ نہ ہونے کی روایت بھی حد درجہ کمزور ہے، یہ روایت مرسل بھی ہے اور ضعیف بھی اس درجہ کی کہ اس کے بعض راویوں پر وضعِ حدیث کی تہمت ہے۔
(اس کی تفصیل حضرت مفتی محمد شفیع صاحب کے مضمون میں ہے جو آخر میں بطورِ تکملہ نقل کر رہا ہوں۔)
چہارم:…احادیث کی تصحیح و تنقیح حضراتِ محدثین کا وظیفہ ہے، حضراتِ صوفیاء کرام کا اکثر و بیشتر معمول یہ ہے کہ وہ بعض ایسی روایات جو عام طور سے مشہور ہوں ان کی تنقیح کے درپے نہیں ہوتے، بلکہ برتقدیر صحت اس کی توجیہ کردیتے ہیں۔ یہاں بھی شیخ قطب الدین مکی قدس سرہ نے (جن کے رسالہ مکیہ کا ترجمہ حضرت گنگوہی نے کیا ہے) اس مشہور روایت کی یہ توجیہ فرمائی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ عالی پر نورانیت اور تصفیہ کا اس قدر غلبہ تھا کہ بطورِ معجزہ آپ کا سایہ نہیں تھا ․․․․․ بہرحال اگر سایہ نہ ہونے کی روایت کو تسلیم کرلیا جائے تو یہ بطورِ معجزہ ہی ہوسکتا ہے۔ گویا غلبہ نورانیت کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر پر روح کے احکام جاری ہوگئے تھے، اور جس طرح روح کا سایہ نہیں ہوتا اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر کا بھی سایہ نہیں تھا، لیکن اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کی نفی لازم نہیں آتی، ایک تو اس لئے کہ شیخ خود آپ کی بشریت کی تصریح فرما رہے ہیں۔ دوسرے نور کی یہ صفت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام متبعین اہل ایمان کے لئے ثابت فرما رہے ہیں، ظاہر ہے کہ اس نور کی بشریت سے منافات ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام متبعین کی بشریت کا انکار لازم آئے گا۔ تیسرے ام الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات کو سب سے زیادہ جانتی ہیں، وہ فرماتی ہیں:
“کان بشراً من البشر۔ رواہ الترمذی۔”
(مشکوٰة ص:۵۲۰)
ترجمہ:…”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی انسانوں میں سے ایک انسان تھے۔”
سایہ نہ ہونے کی روایت کے بارے میں فتاویٰ رشیدیہ سے ایک سوال و جواب یہاں نقل کرتا ہوں۔
“سوال:… سایہ مبارک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پڑتا تھا یا نہیں؟ اور جو ترمذی نے نوادر الاصول میں عبدالملک بن عبداللہ بن وحید سے انہوں نے ذکوان سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہیں پڑتا تھا، سند اس حدیث کی صحیح ہے یا ضعیف یا موضوع؟ ارقام فرماویں۔
جواب:… یہ روایت کتب صحاح میں نہیں، اور “نوادر” کی روایت کا بندہ کو حال معلوم نہیں کہ کیسی ہے؟ “نوادر الاصول” حکیم ترمذی کی ہے، نہ ابوعیسیٰ ترمذی کی، فقط والله اعلم!
رشید احمد گنگوہی عفی عنہ۔”
اس اقتباس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ سایہ نہ ہونے کی روایت حدیث کی متداول کتابوں میں نہیں۔
امام ربانی مجدد الف ثانی قدس سرہ کے حوالے سے آپ نے تین باتیں نقل کی ہیں:
۱:…حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک نور ہیں، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: “خلقت من نور الله۔” میں اللہ کے نور سے پیدا ہوا ہوں۔
۲:…آپ صلی اللہ علیہ وسلم نور ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا۔
۳:…آپ صلی اللہ علیہ وسلم نور ہیں، جس کو اللہ تعالیٰ نے حکمت و مصلحت کے پیش نظر بصورت انسان ظاہر فرمایا۔”
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے پیدا ہونے اور سایہ نہ ہونے کی تحقیق اوپر عرض کرچکا ہوں، البتہ یہاں اتنی بات مزید عرض کردینا مناسب ہے کہ: “خلقت من نور الله” کے الفاظ سے کوئی حدیث مروی نہیں، مکتوبات شریفہ کے حاشیہ میں اس کی تخریج کرتے ہوئے شیخ عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہکی “مدارج النبوة” کے حوالے سے یہ روایت نقل کی گئی ہے:
“انا من نور الله والموٴمنون من نوری۔”
ترجمہ:…”میں اللہ کے نور سے ہوں، اور موٴمن میرے نور سے ہیں۔”
مگر ان الفاظ سے بھی کوئی حدیث ذخیرہٴ احادیث میں نظر سے نہیں گزری، ممکن ہے کہ یہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث (جو “نشر الطیب” کے حوالے سے گزرچکی ہے) کی روایت بالمعنی ہو، بہرحال اگر یہ روایت صحیح ہو تو اس کی شرح وہی ہے جو حضرت حکیم الامت تھانوی کی “نشر الطیب” سے نقل کرچکا ہوں۔
سب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا نور اجزاء و حصص سے پاک ہے، اس لئے کسی عاقل کو یہ تو وہم بھی نہیں ہوسکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نور، نورِ خداوندی کا جز اور حصہ ہے، پھر اس روایت میں اہل ایمان کی تخلیق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے ذکر کی گئی، اگر جزئیت کا مفہوم لیا جائے تو لازم آئے گا کہ تمام اہل ایمان نورِ خداوندی کا جز ہوں، اس قسم کی روایات کی عارفانہ تشریح کی جاسکتی ہے، جیسا کہ امام ربانی نے کی ہے، مگر ان پر عقائد کی بنیاد رکھنا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ․․․نصوصِ قطعیہ کے علی الرغم ․․․ نوعِ انسان سے خارج کردینا کسی طرح بھی جائز نہیں۔
تیسری بات جو آپ نے حضرت مجدد رحمہ اللہ سے نقل کی ہے، اول تو وہ ان دقیق علوم و معارف میں سے ہے کہ جو عقولِ متوسطہ سے بالاتر ہیں، اور جن کا تعلق علوم مکاشفہ سے ہے، جو حضرات تصفیہ و تزکیہ اور نورِ باطن کے اعلیٰ ترین مقامات پر فائز ہوں وہی ان کے افہام و تفہیم کی صلاحیت رکھتے ہیں، عام لوگ ان دقیق علوم کو سمجھنے سے قاصر ہیں، ان لوگوں کو اگر ظاہر شریعت سے کچھ مس ہوگا تو ان اکابر کی شان میں گستاخی کریں گے (جس کا مشاہدہ اس زمانے میں خوب خوب ہو رہا ہے)، اور جن لوگوں کو ان اکابر سے عقیدت ہوگی وہ ظاہر شریعت اور نصوصِ قطعیہ کو پس پشت ڈال کر الحاد و زندقہ کی وادیوں میں بھٹکا کریں گے: “فان الجاھل إما مفرط وإما مفرِّط”، اس لئے اکابر کی وصیت یہ ہے کہ:
نکتہ ہا چوں تیغ پولاد است تیز
چوں نداری تو سپر واپس گریز
پیش ایں الماس بے اسپر میا
کز بریدن تیغ را نبود حیا
چہ شبہا نشستم دریں سیر گم
کہ دہشت گرفت آستینم کہ قم
محیط است علم ملک بر بسیط
قیاس تو بروے نہ گردد محیط
نہ ادراک در کنہ ذاتش رسد
نہ فکرت بغور صفاتش رسد
دوسرے، آپ نے حضرت مجدد کا حوالہ نقل کرنے میں خاصے اختصار سے کام لیا ہے، جس سے فہمِ مراد میں التباس پیدا ہوتا ہے، حضرت مجدد فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق حق تعالیٰ کے علمِ اضافی سے ہوئی ہے:
“ومشہود می گردد کہ علم جملی کہ از صفات اضافیہ گشتہ است نوریست کہ در نشاة عنصری بعد از انصباب از اصلاب بار حام متکثرہ بمقتضائے حکم و مصالح بصورت انسانی کہ احسن تقویم است ظہور نمودہ و مسمّیٰ بمحمد و احمد شدہ۔”
ترجمہ:…”اور ایسا نظر آتا ہے کہ علم اجمالی جو کہ صفاتِ اضافیہ میں سے ہوگیا ہے، ایک نور ہے جو کہ نشاة عنصری میں بہت سی پشتوں اور رحموں میں منتقل ہوتا ہوا حکم و مصالح کے تقاضے سے انسانی صورت میں جلوہ گر ہوا، اور محمد و احمد کے پاک ناموں سے موسوم ہوا۔ صلی اللہ علیہ وسلم وآلہ وسلم تسلیماً کثیراً کثیراً کثیراً۔”
حضرت امام ربانی کے اقتباس سے مندرجہ ذیل امور واضح ہوئے:
ا:…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق حق تعالیٰ کے علمِ اجمالی سے ․․․ صفتِ اضافیہ کے مرتبہ میں ․․․ہوئی۔
۲:…یہ صفتِ اضافیہ ایک نور تھا، جس کو انسانی قالب عطا کیا گیا۔
۳:…چونکہ انسانی صورت سب سے خوبصورت سانچہ ہے، اس لئے حکمتِ خداوندی کا تقاضا ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انسان اور بشر کی حیثیت سے پیدا کیا جائے۔ اگر بشری ڈھانچے سے بہتر کوئی اور قالب ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی انسانی شکل میں پیدا نہ کیا جاتا۔ اس سے واضح ہے کہ حضرت امام ربانی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کے منکر نہیں، اور نہ وہ نور، بشریت کے منافی ہے جس کا وہ اثبات فرما رہے ہیں۔
آپ نے رسالہ “التوسل” اور “تفسیر کبیر” کے حوالے سے لکھا ہے کہ آیتِ کریمہ : “قد جائکم من الله نور وکتاب مبین۔” میں “نور” سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی مراد ہے۔
اس آیت میں “نور” کی تفسیر میں تین قول ہیں۔ ایک یہ کہ اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں۔ دوم یہ کہ اسلام مراد ہے۔ اور سوم یہ کہ قرآن کریم مراد ہے۔ اس قول کو امام رازی نے اس بنا پر کمزور کہا ہے کہ معطوفین میں تغایر ضروری ہے، لیکن یہ دلیل بہت کمزور ہے۔ بعض اوقات ایک چیز کی متعدد صفات کو بطورِ عطف ذکر کردیا جاتا ہے، چنانچہ حضرت حکیم الامت تھانوی نے “بیان القرآن” میں اسی کو اختیار کیا ہے۔
بہرحال “نور” سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوں، یا اسلام ہو، یا قرآن کریم، بہرصورت یہاں “نور” سے “نورِ ہدایت” مراد ہے جس کا واضح قرینہ آیت کا سباق ہے۔
“یہدی بہ الله من اتبع رضوانہ سبل السلام ویخرجھم من الظلمات الی النور باذنہ ویھدیھم الی صراط مستقیم۔”(المائدہ:۱۶)
ترجمہ:…”اس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ ایسے شخصوں کو، جو رضائے حق کے طالب ہوں، سلامتی کی راہیں بتلاتے ہیں (یعنی جنت میں جانے کے طریقے کہ عقائد و اعمال خاصہ ہیں، تعلیم فرماتے ہیں۔ کیونکہ پوری سلامتی بدنی و روحانی جنت ہی میں نصیب ہوگی) اور ان کو اپنی توفیق (اور فضل) سے (کفر و معصیت کی) تاریکیوں سے نکال کر (ایمان و طاعت کے) نور کی طرف لے آتے ہیں، اور ان کو (ہمیشہ) راہِ راست پر قائم رکھتے ہیں۔” (بیان القرآن)
امام رازی فرماتے ہیں:
“وتسمیة محمد والاسلام والقرآن بالنور ظاھرة لان النور الظاھر ھو الذی یتقوی بہ البصر علیٰ ادراک الاشیاء الظاھرة۔ والنور الباطن ایضاً ھو الذی تتقوی بہ البصیرة علیٰ ادراک الحقائق والمعقولات۔”
(تفسیر کبیر ج:۱۱ ص:۱۸۹)
ترجمہ:…”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام اور قرآن کو نور فرمانے کی وجہ ظاہر ہے، کیونکہ ظاہری روشنی کے ذریعہ آنکھیں ظاہری اشیاء کو دیکھ پاتی ہیں، اسی طرح نورِ باطن کے ذریعہ بصیرت حقائق و معقولات کا ادراک کرتی ہے۔”
علامہ نسفی “تفسیر مدارک” میں لکھتے ہیں:
“او النور محمد صلی الله علیہ وسلم لانہ یہتدی بہ کما سمی سراجاً۔” (ج:۱ ص:۳۱۶)
ترجمہ:…”یا نور سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہدایت ملتی ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چراغ کہا گیا ہے۔”
قریب قریب یہی مضمون تفسیر خازن، تفسیر بیضاوی، تفسیر صاوی، روح البیان اور دیگر تفاسیر میں ہے۔
اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میں نے لکھا تھا:
“جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نوع کے اعتبار سے بشر ہیں، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفت ہدایت کے لحاظ سے ساری انسانیت کے لئے مینارہٴ نور ہیں۔ یہی نور ہے جس کی روشنی میں انسانیت کو خدا تعالیٰ کا راستہ مل سکتا ہے، اور جس کی روشنی ابد تک درخشندہ و تابندہ رہے گی، لہٰذا میرے عقیدے میں آپ بیک وقت نور بھی ہیں اور بشر بھی۔”
میری ان تمام معروضات کا خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت دلائل قطعیہ سے ثابت ہے، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نور کی صفت ثابت کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانیت اور بشریت کے دائرے سے خارج کردینا ہرگز صحیح نہیں۔ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت کا اعتقاد لازم ہے، اسی طرح آپ کی انسانیت و بشریت کا عقیدہ بھی لازم ہے، چنانچہ میں فتاویٰ عالمگیری کے حوالے سے یہ نقل کرچکا ہوں:
“ومن قال لا ادری ان النبی صلی الله علیہ وسلم کان انسیًّا او جنّیًّا یکفر، کذا فی الفصول العمادیة (ج:۲ص:۳۶)، وکذا فی البحر الرائق (ج:۵ ص:۱۳۰)۔” (فتاویٰ عالمگیری ج:۲ ص:۲۶۳)
ترجمہ:…”اور جو شخص یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انسان تھے یا جن، وہ کافر ہے۔”
Share this article :
 

Copyright © 2011. Al Asir Channel Urdu Islamic Websites Tarjuman Maslak e Deoband - All Rights Reserved
Template Created by piscean Solutions Published by AL Asir Channel
Proudly powered by AL Asir Channel