قادیانی عقیدہ کے مطابق مرزا غلام احمد قادیانی ہی (نعوذ باللہ) محمد رسول اللہ ہیں
س… اخبار جنگ میں “آپ کے مسائل اور ان کا حل” کے زیر عنوان آپ نے مسلمان اور قادیانی کے کلمہ میں کیا فرق ہے، مرزا بشیر احمد صاحب کی تحریر کا حوالہ دے کر لکھا ہے کہ:
“یہ مسلمانوں اور قادیانیوں کے کلمہ میں دوسرا فرق ہے کہ مسلمانوں کے کلمہ شریف میں “محمد رسول اللہ” سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں اور قادیانی جب محمد رسول اللہ کہتے ہیں تو اس سے مرزا غلام احمد قادیانی مراد ہوتے ہیں۔”
مکرم جناب مولانا صاحب! میں خدا کے فضل سے احمدی ہوں اور اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر حلفیہ کہتا ہوں کہ میں جب کلمہ شریف میں محمد رسول اللہ پڑھتا ہوں تو اس سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہوتے ہیں۔ “مرزا غلام احمد قادیانی” نہیں ہوتے۔ اگر میں اس معاملہ میں جھوٹ بولتا ہوں تو اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں اور تمام مخلوق کی طرف سے مجھ پر ہزار بار لعنت ہو اور اسی یقین کے ساتھ یہ بھی کہتا ہوں کہ کوئی احمدی کلمہ شریف میں “محمد رسول اللہ” سے مراد بجائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے “مرزا غلام احمد قادیانی” نہیں لیتا، اگر آپ اپنے دعوے میں سچے ہیں تو اسی طرح حلفیہ بیان اخبار جنگ میں شائع کروائیں کہ درحقیقت احمدی لوگ (یا آپ کے قول کے مطابق قادیانی) کلمہ شریف میں “محمد رسول اللہ” سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بلکہ مرزا غلام احمد قادیانی لیتے ہیں۔ اگر آپ نے ایسا حلف شائع کروادیا تو سمجھا جائے گا کہ آپ اپنے بیان میں مخلص ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ فیصلہ کردے گا کہ کون اپنے دعوے یا بیان میں سچا اور کون جھوٹا ہے؟ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو ظاہر ہوجائے گا کہ آپ کے بیان کی بنیاد، خلوص، دیانت اور تقویٰ پر نہیں بلکہ یہ محض ایک کلمہ گو جماعت پر افتراء اور اتہام ہوگا جو ایک عالم کو زیب نہیں دیتا۔
نوٹ:…اگر آپ اپنا حلف شائع نہ کرسکیں تو میرا یہ خط شائع کردیں تاکہ قارئین کو حقیقت معلوم ہوسکے۔
ج… نامہ کرم موصول ہوکر موجب سرفرازی ہوا۔ جناب نے جو کچھ لکھا میری توقع کے عین مطابق لکھا ہے۔ مجھے یہی توقع تھی کہ آپ کی جماعت کی نئی نسل جناب مرزا صاحب کے اصل عقائد سے بے خبر ہے اور جس طرح عیسائی تین ایک، ایک تین کا مطلب سمجھے بغیر اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ساتھ ہی توحید کا بھی بڑے زور شور سے اعلان کرتے ہیں۔ کچھ یہی حال آپ کی جماعت کے افراد کا بھی ہے۔
آپ نے لکھا ہے کہ آپ “محمد رسول اللہ” سے مرزا صاحب کو نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذاتِ عالی کو مراد لیتے ہیں اور یہ کہ اگر آپ ایسا عقیدہ رکھتے ہوں تو فلاں فلاں کی ہزار لعنتیں آپ پر ہوں۔ مگر آپ کے مراد لینے یا نہ لینے کو میں کیا کروں؟ مجھے تو یہ بتائیے کہ میں نے یہ بات بے دلیل کہی یا مدلل؟ اور اپنی طرف سے خود گھڑ کر کہہ دی ہے یا مرزا صاحب اور ان کی جماعت کے حوالوں سے؟ جب میں ایک بات دلیل کے ساتھ کہہ رہا ہوں تو مجھے قسمیں کھانے کی کیا ضرورت؟ اور اگر قسموں ہی کی ضرورت ہے تو میری طرف سے اللہ تعالیٰ، “انک لرسول الله” کی قسمیں کھانے والوں کے مقابلے میں “انہم لکاذبون” کی قسم کھاچکا ہے۔
میرے بھائی! بحث قسموں کی نہیں، عقیدے کی ہے! جب آپ کی جماعت کا لٹریچر پکار رہا ہے کہ مرزا صاحب “محمد رسول اللہ” ہیں، وہی رحمة للعالمین ہیں، وہی ساقی کوثر ہیں، انہی کے لئے کائنات پیدا کی گئی، انہی پر ایمان لانے کا سب نبیوں (بشمول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے) عہد لیا گیا ہے، اور مصطفی اور مرزا میں سرے سے کوئی فرق ہی نہیں بلکہ دونوں بعینہ ایک ہیں، وغیرہ وغیرہ، اور اسی پر بس نہیں بلکہ یہ بھی فرمایا جاتا ہے کہ مرزا صاحب چونکہ بعینہ محمد رسول اللہ ہیں اس لئے ہمیں کسی اور کلمے کی ضرورت نہیں، ہاں! کوئی دوسرا آتا تو ضرورت ہوتی اور پھر اسی بنیاد پر پرانے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کو منہ بھر کر کافر بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ نئے محمد رسول اللہ کے منکر ہیں، تو فرمائیے کہ آپ کے ان سب عقائد کو جاننے کے باوجود میں کس دلیل سے تسلیم کرلوں کہ آپ نئے محمد رسول اللہ کا نہیں بلکہ اسی پرانے محمد رسول اللہ کا کلمہ پڑھتے ہیں؟ اگر جناب کو میرے درج کردہ حوالوں میں شبہ ہو تو آپ تشریف لاکر ان کے بارے میں اطمینان کرسکتے ہیں۔