تقدیر و تدبیر میں کیا فرق ہے؟
س… جناب سے گزارش ہے کہ میرے اور میرے دوست کے درمیان اسلامی نوعیت کا ایک سوال مسئلہ بنا ہوا ہے، اگر ہم لوگ اس مسئلہ پر خود ہی بحث کرتے ہیں تو اس کا نتیجہ غلط بھی نکال سکتے ہیں، میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس مسئلے کو حل کرکے ہم سب لوگوں کو مطمئن کریں۔
یہ حقیقت ہے کہ تقدیریں اللہ تعالیٰ نے بنائی ہیں، لیکن جب کوئی شخص کسی کام کو کئی بار کرنے کے باوجود ناکام رہتا ہے تو اسے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ: “میاں! تمہاری تقدیر خراب ہے، اس میں تمہارا کیا قصور؟” تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کی کوششیں رائیگاں جاتی ہیں جب تک کہ اس کی تقدیر میں اس کام کا کرنا لکھا نہ گیا ہو، لیکن جب کوئی شخص اپنی تدبیر اور کوشش کے بل بوتے پر کام کرتا ہے تو خدا کی بنائی ہوئی تقدیر آڑے آتی ہے۔
ج… حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم تقدیر کے مسئلہ پر بحث کر رہے تھے کہ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، ہمیں بحث میں الجھے ہوئے دیکھ کر بہت غصے ہوئے، یہاں تک کہ چہرہٴ انور ایسا سرخ ہوگیا گویا رخسارِ مبارک میں انار نچوڑ دیا گیا ہو، اور بہت ہی تیز لہجے میں فرمایا:
“کیا تمہیں اس بات کا حکم دیا گیا ہے؟ کیا میں یہی چیز دے کر بھیجا گیا ہوں؟ تم سے پہلے لوگ اسی وقت ہلاک ہوئے جب انہوں نے اس مسئلہ میں جھگڑا کیا، میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ اس میں ہرگز نہ جھگڑنا۔” (ترمذی، مشکوٰة ص:۲۲)
حضرت ام الموٴمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: “جو شخص تقدیر کے مسئلہ میں ذرا بھی بحث کرے گا، قیامت کے دن اس کے بارے میں اس سے بازپرس ہوگی۔ اور جس شخص نے اس مسئلہ میں گفتگو نہ کی اس سے سوال نہیں ہوگا۔”
(ابن ماجہ، مشکوٰة ص:۲۳)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: “کوئی شخص موٴمن نہیں ہوسکتا جب تک ان چار باتوں پر ایمان نہ لائے:
۱:…اس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں۔
۲:…اور یہ کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں، اللہ تعالیٰ نے مجھے حق دے کر بھیجا ہے۔
۳:…موت اور موت کے بعد والی زندگی پر ایمان لائے۔
۴:…اور تقدیر پر ایمان لائے۔” (ترمذی، ابن ماجہ، مشکوٰة ص:۲۲)
ان ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے چند چیزیں معلوم ہوئیں:
۱:…تقدیر حق ہے اور اس پر ایمان لانا فرض ہے۔
۲:…تقدیر کا مسئلہ نازک ہے، اس میں بحث و گفتگو منع ہے اور اس پر قیامت کے دن بازپرس کا اندیشہ ہے۔
۳:…تدبیر، تقدیر کے خلاف نہیں، بلکہ تقدیر ہی کا ایک حصہ ہے۔