Home » » حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کب اسلام لائے؟

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کب اسلام لائے؟

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کب اسلام لائے؟
س… حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کب اسلام لائے؟ اور کس موقع پر ایمان لائے تھے؟ تفصیل سے تحریر کریں۔
ج… مشہور تو یہ ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ فتح مکہ کے دن اسلام لائے، لیکن “الاصابہ” (ج:۳ص:۴۳۳) میں واقدی سے نقل کیا ہے کہ آپ صلح حدیبیہ کے بعد اسلام لائے تھے، لیکن اپنے اسلام کا اظہار فتح مکہ کے موقع پر کیا۔
حضرت عباس اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہما کے بارے میں چند شبہات کا ازالہ
بسم الله الرحمن الرحیم
محترم المقام جناب یوسف لدھیانوی صاحب
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ، اما بعد!
قاضی ابوبکر بن العربی ۴۶۸ھ تا ۵۴۳ھ اپنی کتاب “العواصم من القواصم” کے ایک باب میں رقم طراز ہیں:
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ایک کمر توڑ حادثہ تھا، اور عمر بھر کی مصیبت، کیونکہ حضرت علی، حضرت فاطمہ کے گھر میں چھپ کر بیٹھ گئے۔
اور حضرت علی اور حضرت عباس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے دوران اپنی الجھن میں پڑگئے۔ حضرت عباس نے حضرت علی سے کہا کہ: موت کے وقت بنی عبدالمطلب کے چہروں کی جو کیفیت ہوتی ہے، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کی دیکھ رہا ہوں، سو آوٴ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیں اور معاملہ ہمارے سپرد ہو تو ہمیں معلوم ہوجائے گا۔
پھر اس کے بعد حضرت عباس اور حضرت علی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ میں الجھ گئے وہ فدک، بنی نضیر اور خیبر کے ترکہ میں میراث کا حصہ چاہتے تھے۔”
ائمہ حدیث کی روایت کے مطابق حضرت عباس نے حضرت علی کے متعلق کہا تھا کہ جب حضرت عباساور علی دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوقاف کے بارے میں حضرت عمر کے پاس اپنا جھگڑا لے کر گئے تو حضرت عباس نے حضرت عمر سے کہا: “اے امیرالموٴمنین! میرے اور اس کے درمیان فیصلہ کرادیں۔”
دیگر جگہ پر ہے کہ آپس میں گالی گلوچ کی ․․․․․ (ابن حجر، فتح الباری)۔
“حضرت علی بن ابی طالب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری بیماری میں مبتلا تھے، لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ: اے ابوالحسن! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت کیسی ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ: اب آپ پہلے سے اچھی حالت میں ہیں۔ تو حضرت عباسنے حضرت علی کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: خدا کی قسم تین روز کے بعد آپ پر لاٹھی کی حکومت ہوگی، مجھے معلوم ہو رہا ہے کہ اس بیماری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات عنقریب ہونے والی ہے، کیونکہ بنی عبدالمطلب کے چہروں کی جو کیفیت موت کے وقت ہوتی ہے وہی مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معلوم ہو رہی ہے، آوٴ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیں کہ آپ کے بعد خلیفہ کون ہوگا؟ اگر آپ ہمیں خلافت دے جائیں تو بھی ہمیں معلوم ہوجائے اور اگر آپ کسی اور کو خلافت دے دیں تو پھر ہمارے متعلق اس کو وصیت کرجائیں۔ تو حضرت علی نے کہا: خدا کی قسم! اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق سوال کریں اور آپ ہم کو نہ دیں تو پھر لوگ ہم کو کبھی نہ دیں گے اور میں تو خدا کی قسم! اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہرگز سوال نہ کروں گا۔” یہ حدیث صحیح بخاری کتاب المغازی اور البدایہ والنہایہ میں ابن عباسسے مروی ہے، اور امام احمد نے اپنی مسند میں روایت کی ہے۔
سوالات
۱:…حضرت علی چھپ کر کیوں بیٹھ گئے تھے؟
۲:…کیا ان دونوں کو مال و دولت کی اس قدر حرص تھی کہ بار بار ترکہ مانگتے تھے جبکہ ان کو حضرت ابوبکر اور عمر نے علم کرادیا تھا کہ اس مال کی حیثیت ترکے کی نہیں، تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔
۳:…یہ جھگڑا ان دونوں کو نہ صرف مال و دولت کا حریص ثابت کرتا ہے بلکہ اخلاقی پستی کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے، کیونکہ گالی گلوچ شرفاء کاوطیرہ نہیں۔
۴:…”تین روز کے بعد آپ پر لاٹھی کی حکومت ہوگی” اس عبارت کو واضح کریں۔
۵:…حضرت عباس کو کیسی فکر پڑی ہے کہ خلافت ملے، نہ ملے تو وصیت ہی ہوجائے کہ ان کے مفادات محفوظ ہوجائیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور وفات کا صدمہ اگر غالب ہوتا تو یہ خیالات اور یہ کاروائیاں کہاں ہوتیں؟
۶:…حضرت علی کے الفاظ سے تو ان کا ارادہ یہی ظاہر ہوتا ہے کہ خواہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انکار ہی کیوں نہ کردیں، انہیں خلافت درکار ہے، اور یہ بھی کہ انہیں احتمال یہی تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منع فرمادیں گے، اسی لئے کہتے ہیں کہ: میں نہ سوال کروں گا (اور بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس خلافت کو حاصل کروں گا)، حضرت علی کے الفاظ اگر یہ مفہوم ظاہر نہیں کرتے تو پھر کیا ظاہر کرتے ہیں؟
امید ہے کہ آپ جواب جلد ارسال فرمائیں گے۔
فقط والسلام
محمد ظہور الاسلام
الجواب
سوالات پر غور کرنے سے پہلے چند امور بطورِ تمہید عرض کردینا مناسب ہے:
اول:…اہل حق کے نزدیک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی کی تحقیر و تنقیص جائز نہیں، بلکہ تمام صحابہ کو عظمت و محبت سے یاد کرنا لازم ہے، کیونکہ یہی اکابر، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور امت کے درمیان واسطہ ہیں، امام اعظم اپنے رسالہ “فقہ اکبر” میں فرماتے ہیں:
“ولا نذکر الصحابة (وفی نسخة ولا نذکر احمد من اصحاب رسول الله صلی الله علیہ وسلم) الا بخیر۔” (شرح فقہ اکبر: ملا علی قاری ص:۸۵، طبع مجتبائی ۱۳۴۸ھ)
ترجمہ:…”اور ہم، صحابہ کرام کو (اور ایک نسخہ میں ہے کہ ہم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی کو) خیر کے سوا یاد نہیں کرتے۔”
امام طحاوی اپنے عقیدہ میں فرماتے ہیں:
“ونحب اصحاب رسول الله صلی الله علیہ وسلم ولا نفرط فی حب احد منھم، ولا نتبرأ من احد منھم، ونبغض من یبغضھم وبغیر الحق یذکرھم، ولا نذکرھم الا بالخیر، وحبھم دین وایمان واحسان، وبغضھم کفر ونفاق وطغیان۔” (عقیدة الطحاوی ص:۶۶، طبع ادارہ نشر و اشاعت مدرسہ نصرة العلوم گجرانوالہ)
ترجمہ:…”اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے محبت رکھتے ہیں۔ ان میں سے کسی کی محبت میں افراط و تفریط نہیں کرتے۔ اور نہ کسی سے برأت کا اظہار کرتے ہیں، اور ہم ایسے شخص سے بغض رکھتے ہیں جو ان میں سے کسی سے بغض رکھے یا ان کو نارَوا الفاظ سے یاد کرے۔ ان سے محبت رکھنا دین و ایمان اور احسان ہے، اور ان سے بغض رکھنا کفر و نفاق اور طغیان ہے۔”
امام ابوزرعہ عبیداللہ بن عبدالکریم الرازی (المتوفی ۲۶۴ھ) کا یہ ارشاد بہت سے اکابر نے نقل کیا ہے کہ:
“اذا رأیت الرجل ینقص احدا من اصحاب رسول الله صلی الله علیہ وسلم، فاعلم انہ زندیق، لان الرسول صلی الله علیہ وسلم عندنا حق، والقراٰن حق، وانما ادی الینا ھذا القراٰن والسنن اصحاب رسول الله صلی الله علیہ وسلم، وانما یریدون ان یجرحوا شھودنا لیبطلوا الکتاب والسنة۔ والجرح بھم اولیٰ وھم زنادقة۔” (مقدمہ العواصم من القواصم ص:۳۴)
ترجمہ:…”جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی کی تنقیص کرتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ زندیق ہے۔ اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے نزدیک حق ہیں، اور قرآن کریم حق ہے، اور قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات ہمیں صحابہ کرامہی نے پہنچائے ہیں، یہ لوگ صحابہ کرام پر جرح کرکے ہمارے دین کے گواہوں کو مجروح کرنا چاہتے ہیں، تاکہ کتاب و سنت کو باطل کردیں، حالانکہ یہ لوگ خود جرح کے مستحق ہیں، کیونکہ وہ خود زندیق ہیں۔”
یہ تو عام صحابہ کرام علیہم الرضوان کے بارے میں اہل حق کا عقیدہ ہے، جبکہ حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کا شمار خواص صحابہ میں ہوتا ہے۔ حضرت عباس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم: “عمّي وصنو أبي” فرمایا کرتے تھے، یعنی “میرے چچا اور میرے باپ کی جگہ”، اور ان کا بے حد اکرام فرماتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے وسیلہ سے استسقاء کرتے تھے، ان کے علاوہ حدیث کی کتابوں میں ان کے بہت سے فضائل و مناقب وارد ہیں۔
اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے فضائل و مناقب تو حد شمار سے خارج ہیں، ان کے دیگر فضائل سے قطع نظر وہ اہل حق کے نزدیک خلیفہ راشد ہیں، قاضی ابوبکر بن العربی “العواصم من القواصم” میں، جس کے حوالے آپ نے سوال میں درج کئے ہیں، لکھتے ہیں:
“وقُتل عثمان فلم یبق علی الارض احق بھا من علی فجائتہ علی قدر فی وقتھا ومحلھا، وبین الله علیٰ یدیہ من الاحکام والعلوم ما شاء الله ان یبین۔ وقد قال عمر: لو لا علی لھلک عمر! وظھر من فقھہ وعلمہ فی قتال اھل القبلة من استدعائھم، ومناظرتھم، وترک ببادرتھم، والتقدم الیھم قبل نصب الحرب معھم، وندائہ: لا نبدأ بالحرب، ولا یتبع مول، ولا یجھز علیٰ جریح، ولا تھاج امرأة، ولا نغنم لھم مالا۔ وامرہ بقبول شھادتھم والصلوٰة خلفھم۔ حتی قال اھل العلم: لو لا ما جری ما عرفنا قتال اھل البغی۔” (ص:۱۹۴)
ترجمہ:…”اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو روئے زمین پر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی خلافت کا مستحق نہیں تھا، چنانچہ نوشتہ الٰہی کے مطابق انہیں خلافت اپنے ٹھیک وقت میں ملی، اور برمحل ملی۔ اور ان کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے وہ احکام و علوم ظاہر فرمائے جو اللہ تعالیٰ کو منظور تھے۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا: “اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا۔” اور اہل قبلہ سے قتال کرنے میں ان کے علم و تفقہ کے جوہر ظاہر ہوئے، مثلاً انہیں دعوت دینا، ان سے بحث و مناظرہ کرنا، ان سے لڑائی میں پہل نہ کرنا، اور ان کے ساتھ جنگ کرنے سے قبل یہ اعلان کرنا کہ ہم جنگ میں ابتداء نہیں کریں گے، بھاگنے والے کا تعاقب نہیں کیا جائے گا، کسی زخمی کو قتل نہیں کیا جائے گا، کسی خاتون سے تعرض نہیں کیا جائے گا، اور ہم ان کے مال کو غنیمت نہیں بنائیں گے، اور آپ کا یہ حکم فرمانا کہ اہل قبلہ کی شہادت مقبول ہوگی اور ان کی اقتدا میں نماز جائز ہے وغیرہ، حتیٰ کہ اہل علم کا قول ہے کہ: اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اہل قبلہ کے ساتھ قتال کے یہ واقعات پیش نہ آتے تو ہمیں اہل بغی کے ساتھ قتال کی صورت ہی معلوم نہ ہوسکتی۔”
پس جس طرح کسی ایک نبی کی تکذیب پوری جماعت انبیاء کرام علیہم السلام کی تکذیب ہے، کیونکہ دراصل یہ وحیِ الٰہی کی تکذیب ہے۔ ٹھیک اسی طرح کسی ایک خلیفہ راشد کی تنقیص خلفائے راشدین کی پوری جماعت کی تنقیص ہے، کیونکہ یہ دراصل خلافتِ نبوت کی تنقیص ہے۔ اسی طرح جماعتِ صحابہ میں سے کسی ایک کی تنقیص و تحقیر پوری جماعتِ صحابہ کی تنقیص ہے، کیونکہ یہ دراصل صحبتِ نبوت کی تنقیص ہے، اسی بناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“الله! الله! فی اصحابی، لا تتخذوھم غرضاً بعدی، فمن احبھم فبحبی احبھم، ومن ابغضھم فببغضی ابغضھم۔”(ترمذی ج:۲ ص:۲۲۶)
ترجمہ:…”میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو! اللہ سے ڈرو! ان کو میرے بعد ہدفِ ملامت نہ بنالینا، پس جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی۔ اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا۔”
خلاصہ یہ کہ ایک مسلمان کے لئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت رکھنا اور انہیں خیر کے ساتھ یاد کرنا لازم ہے، خصوصاً حضراتِ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم، جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نیابتِ نبوت کا منصب حاصل ہوا۔ اسی طرح وہ صحابہ کرام جن کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عالی میں محب و محبوب ہونا ثابت ہے، ان سے محبت رکھنا حُبِّ نبوی کی علامت ہے۔ اس لئے امام طحاوی اس کو دین و ایمان اور احسان سے تعبیر فرماتے ہیں، اور ان کی تنقیص و تحقیر کو کفر و نفاق اور طغیان قرار دیتے ہیں۔
دوم:…ایک واقعہ کے متعدد اسباب و علل ہوسکتے ہیں، اور ایک قول کی متعدد توجیہات ہوسکتی ہیں۔ اس لئے ہمیں کسی واقعہ پر گفتگو کرتے ہوئے، یا کسی کے قول کی توجیہ کرتے ہوئے صاحبِ واقعہ کی حیثیت و مرتبہ کو ملحوظ رکھنا لازم ہوگا۔ مثلاً: ایک مسلمان یہ فقرہ کہتا ہے کہ: “مجھے فلاں ڈاکٹر سے شفا ہوئی”، تو قائل کے عقیدہ کے پیش نظر اس کو کلمہٴ کفر نہیں کہا جائے گا۔ لیکن یہی فقرہ اگر کوئی دہریہ کہتا ہے تو یہ کلمہٴ کفر ہوگا۔ یا مثلاً: کسی پیغمبر کی توہین و تذلیل اور اس کی داڑھی نوچنا کفر ہے، لیکن جب ہم یہی واقعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں پڑھتے ہیں تو ان کی شان و حیثیت کے پیش نظر کسی کو اس کا وسوسہ بھی نہیں آتا۔
سوم:…جس چیز کو آدمی اپنا حق سمجھتا ہے، اس کا مطالبہ کرنا، نہ کمال کے منافی ہے اور نہ اسے حرص پر محمول کرنا صحیح ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بڑھ کر کون کامل و مخلص ہوگا؟ لیکن حقوق میں بعض اوقات ان کے درمیان بھی منازعت کی نوبت آتی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان فیصلے فرماتے تھے، مگر اس بات پر نکیر نہیں فرماتے تھے کہ یہ منازعت کیوں ہے؟ اور نہ حق طلبی کو حرص کہا جاتا ہے۔
چہارم:…اجتہادی رائے کی وجہ سے فہم میں خطا ہوجانا لائق موٴاخذہ نہیں، اور نہ یہ کمال و اخلاص کے منافی ہے۔ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام باجماع اہل حق معصوم ہیں، مگر اجتہادی خطا کا صدور ان سے بھی ممکن ہے، لیکن ان پر چونکہ وحیِ الٰہی اور عصمت کا پہرہ رہتا ہے اس لئے انہیں خطاء اجتہادی پر قائم نہیں رہنے دیا جاتا، بلکہ وحی الٰہی فوراً انہیں متنبہ کردیتی ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام کے علاوہ دیگر کاملین معصوم نہیں، ان سے خطائے اجتہادی سرزد ہوسکتی ہے، اور ان کا اس پر برقرار رہنا بھی ممکن ہے، البتہ حق واضح ہوجانے کے بعد وہ حضرات بھی اپنی خطائے اجتہادی پر اصرار نہیں فرماتے بلکہ بغیر جھجک کے اس سے رجوع فرمالیتے ہیں۔
پنجم:…رائے کا اختلاف ایک فطری امر ہے، اور کاملین و مخلصین کے درمیان اختلاف رائے کی وجہ سے کشاکشی اور شکر رنجی پیدا ہوجانا بھی کوئی مستبعد امر نہیں، بلکہ روزمرہ کا مشاہدہ ہے، قیدیانِ بدر کے قتل یا فدیہ کے بارے میں حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے درمیان جو اختلافِ رائے ہوا، وہ کس کو معلوم نہیں؟ لیکن محض اس اختلافِ رائے کی وجہ سے کسی کا نام دفترِ اخلاص و کمال سے نہیں کاٹا گیا۔ باوجودیکہ وحیِ الٰہی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تائید کی، اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رائے پر ․․․ جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید حاصل تھی ․․․ رحیمانہ عتاب بھی ہوا، مگر کون کہہ سکتا ہے کہ اس کی وجہ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے فضل و کمال اور صدیقیتِ کبریٰ میں کوئی ادنیٰ فرق بھی آیا۔ اسی طرح بنوتمیم کا وفد جب بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوا تو اس مسئلہ پر، کہ ان کا رئیس کس کو بنایا جائے، حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کے درمیان اختلافِ رائے ہوا، جس کی بنا پر دونوں کے درمیان تلخ کلامی تک نوبت پہنچی، اور سورہٴ حجرات کی ابتدائی آیات اس سلسلہ میں نازل ہوئیں، اس کے باوجود ان دونوں بزرگوں کے قرب و منزلت اور محبوبیت عنداللہ و عند رسولہ میں کوئی فرق نہیں آیا۔
الغرض اس کی بیسیوں نظیریں مل سکتی ہیں کہ انتظامی امور میں اختلافِ رائے کی بنا پر کشاکشی اور تلخی تک کی نوبت آسکتی ہے، مگر چونکہ ہر شخص اپنی جگہ مخلص ہے، اس لئے یہ کشاکشی ان کے فضل و کمال میں رخنہ انداز نہیں سمجھی جاتی۔
ششم:…حکومت و امارت ایک بھاری ذمہ داری ہے، اور اس سے عہدہ برآ ہونا بہت ہی مشکل اور دشوار ہے، اس لئے جو شخص اپنے بارے میں پورا اطمینان نہ رکھتا ہو کہ وہ اس عظیم ترین ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوسکے گا، اس کے لئے حکومت و امارت کی طلب شرعاً و عرفاً مذموم ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
“انکم ستحرصون علی الامارة وستکون ندامة یوم القیامة فنعم المرضعة وبئست الفاطمة۔”
(صحیح بخاری ج:۲ ص:۱۰۵۸، کتاب الاحکام، باب ما یکرہ من الحرص علی الامارة)
ترجمہ:…”بے شک تم امارت کی حرص کروگے اور عنقریب یہ قیامت کے دن سراپا ندامت ہوگی۔ پس یہ دودھ پلاتی ہے تو خوب پلاتی ہے اور دودھ چھڑاتی ہے تو بری طرح چھڑاتی ہے۔”
لیکن جو شخص اس کے حقوق ادا کرنے کی اہلیت و صلاحیت رکھتا ہو، اس کے لئے اس کا مطالبہ شرعاً و عقلاً جائز ہے، اور اگر وہ کسی خیر کا ذریعہ ہو تو مستحسن ہے، سیدنا یوسف علیہ السلام کا ارشاد قرآن کریم میں نقل کیا ہے کہ انہوں نے شاہ مصر سے فرمایا تھا:
“اجعلنی علی خزائن الارض انی حفیظ علیم۔” (یوسف:۵۵)
ترجمہ:…”ملکی خزانوں پر مجھ کو مامور کردو، میں ان کی حفاظت رکھوں گا، اور خوب واقف ہوں۔”
اور قرآن کریم ہی میں سیدنا سلیمان علیہ الصلوٰة والسلام کی یہ دعا بھی نقل کی گئی ہے:
“رب اغفر لی وھب لی ملکا لا ینبغی لاحد من بعدی، انک انت الوھاب۔” (ص:۳۵)
ترجمہ:…”اے میرے رب! میرا (پچھلا) قصور معاف کر اور (آئندہ کے لئے) مجھ کو ایسی سلطنت دے کہ میرے سوا (میرے زمانہ میں) کسی کو میسر نہ ہو۔” (بیان القرآن)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خلافت و نیابت، جسے اسلام کی اصطلاح میں “خلافت راشدہ” کہا جاتا ہے، ایک عظیم الشان فضیلت و منقبت اور حسب ذیل وعدہٴ الٰہی کی مصداق ہے:
“وعد الله الذین اٰمنوا منکم وعملوا الصلحت لیستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم ولیمکنن لھم دینھم الذی ارتضی لھم ولیبدلنھم من بعد خوفھم امنا یعبدوننی لا یشرکون بی شیئا۔” (النور:۵۵)
ترجمہ:…”(اے مجموعہ امت) تم میں جو لوگ ایمان لاویں اور نیک عمل کریں ان سے اللہ تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ ان کو (اس اتباع کی برکت سے) زمین میں حکومت عطا فرمائے گا، جیسا کہ ان سے پہلے (اہل ہدایت) لوگوں کو حکومت دی تھی، اور جس دین کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے پسند کیا ہے (یعنی اسلام) اس کو ان کے (نفع آخرت) کے لئے قوت دے گا، اور ان کے اس خوف کے بعد اس کو مبدل بامن کردے گا، بشرطیکہ میری عبادت کرتے رہیں اور میرے ساتھ کسی قسم کا شرک نہ کریں۔” (بیان القرآن)
جو شخص اس خلافت کی اہلیت رکھتا ہو، اس کے لئے اس کے حصول کی خواہش مذموم نہیں، بلکہ ایک اعلیٰ درجہ کے فضل و کمال کو حاصل کرنے کی فطری خواہش ہے۔ حدیث میں ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہٴ خیبر میں یہ اعلان فرمایا کہ: “میں یہ جھنڈا کل ایک ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے محبت رکھتا ہے، اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) اس سے محبت رکھتے ہیں۔” تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ہر شخص اس فضیلت کو حاصل کرنے کا خواہش مند تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
“ما احببت الامارة الا یومئذ قال فتساورت لھا رجاء ان ادعیٰ لھا قال فدعا رسول الله صلی الله علیہ وسلم علی بن ابی طالب فاعطاہ ایاھا۔ الحدیث۔”
(صحیح مسلم ج:۲ ص:۲۷۹)
ترجمہ:…”میں نے اس دن کے سوا امارت کو کبھی نہیں چاہا، پس میں اپنے آپ کو نمایاں کر رہا تھا، اس امید پر کہ میں اس کے لئے بلایا جاوٴں۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو طلب فرمایا اور وہ جھنڈا ان کو عنایت فرمایا۔”
ظاہر ہے کہ اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا یہ خواہش کرنا کہ امارت کا جھنڈا انہیں عنایت کیا جائے، اس بشارت اور اس فضیلت کو حاصل کرنے کے لئے تھا۔ شیخ محی الدین نووی اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں:
“انما کانت محبتہ لھا لما دلت علیہ الامارة من محبتہ لله ولرسولہ صلی الله علیہ وسلم ومحبتھما لہ والفتح علیٰ یدیہ۔”(حاشیہ مسلم)
ترجمہ:…”حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اس دن امارت کی محبت و خواہش کرنا اس وجہ سے تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے محب و محبوب ہونے کی دلیل تھی، اور اس شخص کے ہاتھ پر فتح ہونے والی تھی۔”
الغرض خلافتِ نبوت ایک غیرمعمولی شرف، امتیاز اور مجموعہ فضائل و فواضل ہے، جو حضرات اس کے اہل تھے اور انہیں اس کا پورا اطمینان تھا کہ وہ اس کے حقوق انشاء اللہ پورے طور پر ادا کرسکیں گے، ان کے دل میں اگر اس شرف و فضیلت کے حاصل کرنے کی خواہش ہو تو اس کو “خواہش اقتدار” سے تعبیر کرنا جائز نہیں ہوگا، بلکہ یہ کارِ نبوت میں شرکت اور جارحہٴ نبوی بننے کی حرص کہلائے گی، مسند الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں:
“ایام خلافت بقیہ ایام نبوت بودہ است۔ گویا در ایام نبوت حضرت پیغامبر صلی اللہ علیہ وسلم تصریحاً بزبان مے فرمود، و در ایام خلافت ساکت نشستہ بدست و سر اشارہ مے فرماید۔”
(ازالة الخفاء ج:۱ ص:۲۵)
ترجمہ:…”خلافتِ راشدہ کا دور، دورِ نبوت کا بقیہ تھا۔ گویا دورِ نبوت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صراحتاً ارشادات فرماتے تھے، اور دورِ خلافت میں خاموش بیٹھے ہاتھ اور سر کے اشارے سے سمجھاتے تھے۔”
ان مقدمات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینے کے بعد اب اپنے سوالات پر غور فرمائیے:
۱:…حضرت علی رضی اللہ عنہ کا گھر میں بیٹھ جانا:
قاضی ابوبکر بن العربی نے پہلا قاصمہ (کمر توڑ حادثہ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کو قرار دیا ہے، اور اس سلسلہ میں لکھا ہے کہ اس ہوش ربا سانحہ کی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ گھر میں چھپ کر بیٹھ گئے تھے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر سکتہ طاری ہوگیا تھا، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر وارفتگی کی سی کیفیت طاری ہوگئی تھی، وغیرہ وغیرہ۔
اس پوری عبارت سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس قیامت خیز سانحہ کے جو اثرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر مرتب ہوئے، قاضی ابوبکر بن العربی ان اثرات کو ذکر کر رہے ہیں، حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر اس حادثہ کا یہ اثر ہوا تھا کہ وہ گھر میں عزلت نشین ہوگئے تھے۔
آپ نے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہوگا کہ کسی محبوب ترین شخصیت کی رحلت کے بعد جہان ان کے لئے تیرہ و تار ہوجاتا ہے، ان کی طبیعت پر انقباض و افسردگی طاری ہوجاتی ہے، اور دل پر ایک ایسی گرہ بیٹھ جاتی ہے جو کسی طرح نہیں کھلتی، ان کی طبیعت کسی سے ملنے یا بات کرنے پر کسی طرح آمادہ نہیں ہوتی، وہ کسی قسم کا جزع فزع یا بے صبری کا اظہار نہیں کرتے لیکن طبیعت ایسی بجھ جاتی ہے کہ مدتوں تک معمول پر نہیں آتی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی محبوب اس خطہ ارضی پر نہیں ہوا، اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بڑھ کر کوئی عاشق زار اس چشم فلک نے نہیں دیکھا، ہمیں تو ان اکابر کے صبر و تحمل پر تعجب ہے کہ انہوں نے اس عشق و محبت کے باوجود یہ حادثہٴ عظیمہ کیسے برداشت کرلیا؟ لیکن آپ اِنہیں عشاق کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ وہ گھر میں چھپ کر بیٹھ گئے تھے․․․؟
راقم الحروف نے اپنے اکابر کو دیکھا ہے کہ جب درسِ حدیث کے دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے سانحہٴ کبریٰ کا باب شروع ہوتا تو آنکھوں سے اشک ہائے غم کی جھڑی لگ جاتی، آواز گلوگیر ہوجاتی اور بسااوقات رونے کی ہچکیوں سے گھگی بندھ جاتی، جب اہل قلوب پر چودہ سو سال بعد بھی اس حادثہٴ جان کاہ کا یہ اثر ہے تو جن عشاق کی آنکھوں کے سامنے یہ سب کچھ بیت گیا، سوچنا چاہئے کہ ان کا کیا حال ہوا ہوگا؟
رفتم و از رفتن من عالمے ویران شد
من مگر شمعم چوں رفتم بزم برہم ساختم
خاتونِ جنت، جگر گوشہٴ رسول حضرت فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خادمِ خاص حضرت انس رضی اللہ عنہ سے فرماتی تھیں: “انس! تم نے کیسے گوارا کرلیا کہ تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر مٹی ڈالو!”
(صحیح بخاری ج:۲ ص:۶۴۱)
اور مسند احمد کی روایت میں ہے: “تم نے کیسے گوارا کرلیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کرکے خود لوٹ آوٴ!” (حیاة الصحابہ ج:۲ ص:۳۲۸)
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کی خبر ہوئی تو فرمایا: “آہ! میری کمر ٹوٹ گئی۔” صحابہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر مسجد میں پہنچے مگر کسی کو توقع نہ تھی کہ وہ مسجد تک آسکیں گے۔ (حیاة الصحابہ ج:۲ ص:۳۲۳)
اگر ہم درد کی اس لذت اور محبت کی اس کسک سے ناآشنا ہیں تو کیا ہم سے یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ جن حضرات پر یہ قیامت گزرگئی تو ہم ان کو معذور ہی سمجھ لیں․․․!!
اور پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر میں بیٹھ جانے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ جمعہ، جماعت اور دینی و معاشرتی حقوق و فرائض ہی کو چھوڑ بیٹھے تھے، شیخ محب الدین الخطیب حاشیہ العواصم میں لکھتے ہیں:
“واضاف الحافظ ابن کثیر فی البدایة والنہایة (ج:۵ ص:۲۴۹) ان علیا لم ینقطع عن صلوٰة من الصلوٰت خلف الصدیق وخرج معہ الی ذی القصة لما خرج الصدیق شاھدا سیفہ یرید قتال اھل الردہ۔”
(ص:۳۸)
ترجمہ:…”اور حافظ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ (ج:۵ ص:۲۴۹) میں اس پر اتنا اضافہ کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز پڑھنے کا سلسلہ ترک نہیں فرمایا تھا، نیز جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ مرتدین سے قتال کرنے کے لئے تلوار سونت کر “ذی القصہ” تشریف لے گئے تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی ان کے ساتھ نکلے تھے۔”
پس جب آپ سے نہ دینی و معاشرتی فرائض میں کوتاہی ہوئی اور نہ نصرتِ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ میں ان سے کوئی ادنیٰ تخلف ہوا تو کیا اس بنا پر کہ شدتِ غم کی وجہ سے ان پر خلوت نشینی کا ذوق غالب آگیا تھا، آپ انہیں موردِ الزام ٹھہرائیں گے؟
۲:…طلبِ میراث:
جہاں تک بار بار ترکہ مانگنے کا تعلق ہے، یہ محض غلط فہمی ہے، ایک بار صدیقی دور میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ترکہ ضرور مانگا تھا، اور بلاشبہ یہ ان کی اجتہادی رائے تھی، جس میں وہ معذور تھے، اسے اپنا حق سمجھ کر مانگ رہے تھے، اس وقت نصِ نبوی:
“لا نورث، ما ترکناہ صدقة۔”
ترجمہ:…”ہماری وراثت جاری نہیں ہوتی، جو کچھ ہم چھوڑ کر جائیں، وہ صدقہ ہے۔”
کا یا تو ان کو علم نہیں ہوگا یا ممکن ہے کہ حادثہٴ وصال نبوی کی وجہ سے ان کو ذہول ہو، جس طرح اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو آیت: “وما محمد الا رسول” سے ذہول ہوگیا تھا، اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب یہ آیت دیگر آیات کے ساتھ) برسر منبر تلاوت فرمائی تو انہیں ایسا محسوس ہوا گویا یہ آیت آج ہی نازل ہوئی تھی۔
الغرض ان اکابر کا ترکہ طلب کرنا، نہ مال کی حرص کی بنا پر تھا اور نہ یہ ثابت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے اس ارشادِ نبوی سننے کے بعد انہوں نے دوبارہ کبھی مطالبہ دہرایا ہو، یا انہوں نے اس حدیث میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کوئی منازعت فرمائی ہو۔ قاضی ابوبکر بن العربی لکھتے ہیں:
“وقال لفاطمة وعلی والعباس ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: لا نورث، ما ترکناہ صدقة، فذکر الصحابة ذالک۔” (العواصم ص:۴۸)
ترجمہ:…”اور حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرات فاطمہ، علی اور عباس رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: “ہماری وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔” تب دیگر صحابہ نے بھی یہ حدیث ذکر کی۔”
اس کے حاشیہ میں شیخ محب الدین الخطیب لکھتے ہیں:
“قال شیخ الاسلام ابن تیمیة فی منھاج السنة (ج:۲ ص:۱۵۸) قول النبی صلی الله علیہ وسلم: “لا نورث، ما ترکناہ صدقة۔” رواہ عنہ ابوبکر وعمر وعثمان وعلی وطلحة والزبیر وسعد وعبدالرحمن بن عوف والعباس بن عبدالمطلب وازواج النبی صلی الله علیہ وسلم وابوھریرة والروایة عن ھولاء ثابتة فی الصحاح والمسانید۔”(ص:۴۸)
ترجمہ:…”شیخ الاسلام ابن تیمیہ منہاج السنة (ج:۲ ص:۱۵۸) میں لکھتے ہیں کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ: “ہماری وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔” آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مندرجہ ذیل حضرات روایت کرتے ہیں: حضرات ابوبکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر، سعد، عبدالرحمن بن عوف، عباس بن عبدالمطلب، ازواج مطہرات اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم اور ان حضرات کی احادیث صحاح و مسانید میں ثابت ہیں۔”
اس سے واضح ہے کہ حدیث: “لا نورث، ما ترکناہ صدقة” کہ خود حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما بھی روایت کرتے ہیں، اس لئے یا تو ان کو اس سے پہلے اس حدیث کا علم نہیں ہوگا یا وقتی طور پر ذہول ہوگیا ہوگا۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس حدیث کے مفہوم میں کچھ اشتباہ ہوا ہو، اور وہ اس کو صرف منقولات کے بارے میں سمجھتے ہوں، بہرحال حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متنبہ کردینے کے بعد انہوں نے نہ اس حدیث میں کوئی جرح و قدح فرمائی، نہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے منازعت کی، بلکہ اپنے موقف سے دستبردار ہوگئے۔ اور یہ ان موٴمنین قانتین کی شان ہے جن میں نفسانیت کا کوئی شائبہ نہیں ہوتا۔ الغرض “بار بار ترکہ مانگنے” کی جو نسبت ان اکابر کی طرف سوال میں کی گئی ہے، وہ صحیح نہیں۔ ایک بار انہوں نے مطالبہ ضرور کیا تھا، جس میں معذور تھے، مگر وضوح دلیل کے بعد انہوں نے حق کے آگے سر تسلیم خم کردیا۔ البتہ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دورِ خلافت میں یہ درخواست ضرور کی تھی کہ ان اوقافِ نبویہ کی تولیت ان کے سپرد کردی جائے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اولاً اس میں کچھ تأمل ہوا، لیکن بعد میں ان کی رائے بھی یہی ہوئی، اور یہ اوقاف ان کی تحویل میں دے دئیے گئے۔ بعد میں ان اوقاف کے انتظامی امور میں ان کے درمیان منازعات کی نوبت آئی تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت علی کی شکایت کی (جس کا تذکرہ سوال سوم میں کیا گیا ہے)، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ درخواست کی کہ یہ اوقاف تقسیم کرکے دونوں کی الگ الگ تولیت میں دے دئیے جائیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ درخواست مسترد فرمادی۔ صحیح بخاری میں مالک بن اوس بن حدثان رضی اللہ عنہ کی طویل روایت کئی جگہ ذکر کی گئی ہے، “باب فرض الخمس” میں ان کی روایت کے متعلقہ الفاظ یہ ہیں:
“ثم جئتمانی تکلمانی وکلمتکما واحدة وامرکما واحد جئتنی یا عباس تسالنی نصیبک من ابن اخیک وجائنی ھذا یرید علیاً یرید نصیب امرأتہ من ابیھا، فقلت لکما ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: “لا نورث، ما ترکناہ صدقة۔” فلما بدا لی ان ادفعہ الیکما قلت ان شئتما دفعتھا الیکما علی ان علیکما عھد الله ومیثاقہ لتعملان فیھا بما عمل فیھا رسول الله صلی الله علیہ وسلم وبما عمل فیھا ابوبکر وبما عملت فیھا منذ ولیتھا فقلتما ادفعھا الینا، فبذالک دفعتھا الیکما فانشدکم بالله ھل دفعتھا الیہما بذالک؟ قال الرھط: نعم! ثم اقبل علیٰ علی وعباس فقال انشدکما بالله ھل دفعتھا الیکما بذالک؟ قال: نعم! قال: فتلتمسان منی قضاء غیر ذالک؟ فوالله الذی باذنہ تقوم السماء والارض! لا اقضی فیھا غیر ذالک فان عجزتما عنھا فادفعاھا الیّ، فانی اکیفکماھا۔”
(بخاری باب فرض الخمس ج:۱ ص:۴۳۶)
ترجمہ:…”حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پھر تم دونوں میرے پاس آئے درآنحالیکہ تمہاری بات ایک تھی اور تمہارا معاملہ ایک تھا، اے عباس! تم میرے پاس آئے تم مجھ سے اپنے بھتیجے (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) کے مال سے حصہ مانگ رہے تھے، اور یہ صاحب، یعنی علی اپنی بیوی کا حصہ ان کے والد کے مال سے مانگ رہے تھے۔ پس میں نے تم سے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: “ہماری وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔” پھر میری رائے ہوئی کہ یہ اوقاف تمہارے سپرد کردئیے جائیں، چنانچہ میں نے تم سے کہا کہ: اگر تم چاہو تو میں تمہارے سپرد کئے دیتا ہوں مگر تم پر اللہ تعالیٰ کا عہد و میثاق ہوگا کہ تم ان میں وہی معاملہ کروگے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے، اور جو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا، اور جو میں نے کیا جب سے یہ میری تولیت میں آئے ہیں۔ تم نے کہا کہ: ٹھیک ہے، یہ آپ ہمارے سپرد کردیجئے۔ چنانچہ اسی شرط پر میں نے یہ اوقاف تمہارے سپرد کئے۔ پھر حاضرین سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ: میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا میں نے اسی شرط پر ان کے سپرد کئے تھے یا نہیں؟ سب نے کہا: جی ہاں! پھر حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما سے فرمایا: میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا میں نے یہ اوقاف اسی شرط پر تمہاری تحویل میں دئیے تھے یا نہیں؟ دونوں نے کہا: جی ہاں! اسی شرط پر دئیے تھے۔ فرمایا: اب تم مجھ سے اور فیصلہ چاہتے ہو (کہ دونوں کو الگ الگ حصہ تقسیم کرکے دے دوں)، پس قسم ہے اس اللہ تعالیٰ کی جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں! میں اس کے سوا تمہارے درمیان کوئی فیصلہ نہیں کروں گا، اب اگر تم ان اوقاف کی تولیت سے عاجز آگئے ہو تو میرے سپرد کردو، میں ان کے معاملہ میں تمہاری کفایت کروں گا۔”
اس روایت کے ابتدائی الفاظ سے یہ وہم ہوتا ہے کہ ان دونوں اکابر نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پھر میراث کا مطالبہ کیا تھا، مگر سوال و جواب اور اس روایت کے مختلف ٹکڑوں کو جمع کرنے کے بعد مراد واضح ہوجاتی ہے کہ اس مرتبہ ان کا مطالبہ ترکہ کا نہیں تھا، بلکہ ان کے نزدیک بھی یہ حقیقت مسلّم تھی کہ ان اراضی کی حیثیت وقف کی ہے، اور وقف میں میراث جاری نہیں ہوتی، اس بار ان کا مطالبہ ترکہ کا نہیں تھا، بلکہ وہ چاہتے تھے کہ اس کی تولیت ان کے سپرد کردی جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اولاً اس میں تأمل ہوا کہ کہیں یہ تولیت بھی میراث ہی نہ سمجھ لی جائے، لیکن غور و فکر کے بعد ان حضرات کی درخواست کو آپ نے قبول فرمالیا اور یہ اوقاف ان دونوں حضرات کے سپرد کردئیے گئے۔ پھر جس طرح انتظامی امور میں متولیان وقف میں اختلاف رائے ہوجاتا ہے، ان کے درمیان بھی ہونے لگا، حضرت علی رضی اللہ عنہ علم و فقاہت میں چونکہ فائق تھے اس لئے وہ اپنی رائے کو ترجیح دیتے تھے، گویا عملی طور پر بیشتر تصرف ان اوقاف میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا چلتا تھا، اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے تصرفات مغلوب تھے، اس سے ان کو شکایت پیدا ہوئی اور انہوں نے دوبارہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مطالبہ کیا کہ ان اوقاف کو تقسیم کرکے ہر ایک کا زیر تصرف حصہ الگ کردیا جائے، مگر حضرت عمر نے یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا، بلکہ یہ فرمایا کہ یا تو اتفاقِ رائے سے دونوں اس کا انتظام چلاوٴ، ورنہ مجھے واپس کردو، میں خود ہی اس کا انتظام کرلوں گا۔
اور علیٰ سبیل التنزل یہ فرض کرلیا جائے کہ یہ حضرات، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھی پہلی بار طلبِ ترکہ ہی کے لئے آئے تھے تب بھی ان کے موقف پر کوئی علمی اشکال نہیں، اور نہ ان پر مال و دولت کی حرص کا الزام عائد کرنا ہی درست ہے، بلکہ یوں کہا جائے گا کہ ان کو حدیث کی تاویل میں اختلاف تھا، جیسا کہ بخاری شریف کے حاشیہ میں اس کی تفصیل ذکر کی گئی ہے۔
شرح اس کی یہ ہے کہ حدیث: “لا نورث، ما ترکناہ صدقة” تو ان کے نزدیک مسلّم تھی، مگر وہ اس کو صرف منقولات کے حق میں سمجھتے تھے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کو منقولات و غیرمنقولات سب کے حق میں عام قرار دیا، بلاشبہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حدیث کا جو مطلب سمجھا وہی صحیح تھا، لیکن جب تک ان حضرات کو اس مفہوم پر شرحِ صدر نہ ہوجاتا، ان کو اختلاف کرنے کا حق حاصل تھا، اس کی نظیر مانعینِ زکوٰة کے بارے میں حضراتِ شیخین رضی اللہ عنہما کا مشہور مناظرہ ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے بار بار کہتے تھے:
“کیف تقاتل الناس وقد قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: امرت ان اقاتل الناس حتیٰ یقولوا لا الٰہ الا الله، فمن قالھا فقد عصم منی مالہ ونفسہ الا بحقہ وحسابہ علی الله۔” (صحیح بخاری ج:۱ ص:۱۸۸)
ترجمہ:…”آپ ان لوگوں سے کیسے قتال کرسکتے ہیں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: مجھے حکم ہوا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ “لا الٰہ الا اللہ” کے قائل ہوجائیں، پس جو شخص اس کلمہ کا قائل ہوگیا اس نے مجھ سے اپنا مال اور اپنی جان محفوظ کرلی، مگر حق کے ساتھ اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔”
یہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ایک حدیث کا مفہوم سمجھنے میں دقت پیش آرہی ہے، اور وہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے موقف کو خلافِ حدیث سمجھ کر ان سے بحث و اختلاف کرتے ہیں، تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے ان پر بھی ارشادِ نبوی کا وہ مفہوم کھول دیا جو حضرت صدیق اکبر پر کھلا تھا۔ جب تک انہیں شرحِ صدر نہیں ہوا انہوں نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے نہ صرف اختلاف کیا بلکہ بحث و مناظرہ تک نوبت پہنچی۔ ٹھیک اسی طرح ان حضرات کو بھی حدیث: “لا نورث، ما ترکناہ صدقة۔” میں جب تک شرحِ صدر نہیں ہوا کہ اس کا مفہوم وہی ہے جو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سمجھا، تب تک ان کو اختلاف کا حق تھا، اور ان کا مطالبہ ان کے اپنے اجتہاد کے مطابق بجا اور درست تھا۔ لیکن بعد میں ان کو بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح شرحِ صدر ہوگیا، اور انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے موقف کو صحیح اور درست تسلیم کرلیا، جس کی واضح دلیل یہ ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنے دورِ خلافت میں ان اوقاف کی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں فرمائی، بلکہ ان کی جو حیثیت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ متعین کرگئے تھے اسی کو برقرار رکھا، اگر ان کو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے موقف پر شرحِ صدر نہ ہوا ہوتا تو ان اوقاف کی حیثیت تبدیل کرنے سے انہیں کوئی چیز مانع نہ ہوتی۔
خلاصہ یہ کہ مطالبہٴ ترکہ ان حضرات کی طرف سے ایک بار ہوا، بار بار نہیں، اور اس کو مال و دولت کی حرص سے تعبیر کرنا کسی طرح بھی زیبا نہیں، اس کو اجتہادی رائے کہہ سکتے ہیں اور اگر وہ اس سے رجوع نہ بھی کرتے تب بھی لائق ملامت نہ تھے، اب جبکہ انہوں نے اس سے رجوع بھی کرلیا تو یہ ان کی بے نفسی و للہیت کی ایک اعلیٰ ترین مثال ہے، اس کے بعد بھی ان حضرات پر لب کشائی کرنا نقصِ علم کے علاوہ نقصِ ایمان کی بھی دلیل ہے۔
۳:…حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما کی باہمی منازعت:
اس منازعت کا منشا اوپر ذکر کیا جاچکا ہے، اور اسی سے یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ یہ منازعت کسی نفسانیت کی وجہ سے نہیں تھی، نہ مال و دولت کی حرص سے اس کا تعلق ہے، بلکہ اوقاف کے انتظام و انصرام میں رائے کے اختلاف کی بنا پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے وقتی طور پر شکایت پیدا ہوگئی تھی، اور جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے، ایسا اختلافِ رائے نہ مذموم ہے، نہ فضل و کمال کے منافی ہے۔ جہاں تک حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ کا تعلق ہے جو سوال میں نقل کئے گئے ہیں، اور جن کے حوالے سے نعوذ باللہ! ان پر اخلاقی پستی کا فتویٰ صادر کیا گیا ہے، تو سائل نے یہ الفاظ تو دیکھ لئے مگر یہ نہیں سوچا کہ یہ الفاظ کس نے کہے تھے؟ کس کو کہے تھے؟ اور ان دونوں کے درمیان خوردی و بزرگی کا کیا رشتہ تھا؟ اور عجیب تر یہ کہ قاضی ابوبکر بن العربی کی جس کتاب کے حوالے سے یہ الفاظ نقل کئے گئے ہیں، اسی کتاب میں خود موصوف نے جو جواب دیا ہے، اسے بھی نظرانداز کردیا گیا، ابوبکر بن العربی “العواصم” میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ کو نقل کرکے لکھتے ہیں:
“قلنا اما قول العباس لعلی فقول الاب للابن، وذالک علی الرأس محمول وفی سبیل المغفرة مبذول، وبین الکبار والصغار فکیف الاٰباء والابناء مغفور موصول۔” (ص:۱۹۶)
ترجمہ:…”ہم کہتے ہیں کہ حضرت علی کے بارے میں حضرت عباس کے الفاظ، بیٹے کے حق میں باپ کے الفاظ ہیں، جو سر آنکھوں پر رکھے جاتے ہیں، اور سبیل مغفرت میں صرف کئے جاتے ہیں، بڑے اگر چھوٹوں کے حق میں ایسے الفاظ استعمال کریں تو انہیں لائق مغفرت اور صلہ رحمی پر محمول کیا جاتا ہے، چہ جائیکہ باپ کے الفاظ بیٹے کے حق میں۔”
اور “العواصم” ہی کے حاشیہ میں فتح الباری (ج:۶ ص:۱۲۵) کے حوالے سے لکھا ہے:
“قال الحافظ ولم ار فی شیء من الطرق انہ صدر من علی فی حق العباس شیء بخلاف ما یفھم من قولہ فی روایة عقیل “استبا” واستصواب المازری صنیع من حذف ھذہ الالفاظ من ھذا الحدیث وقال لعل بعض الرواة وھم فیھا وان کانت محفوظة فاجود ما تحمل علیہ ان العباس قالھا ادلالا علیٰ علی لانہ کان عندہ بمنزلة الولد فاراد ردعہ عما یعتقد انہ مخطئی فیہ۔” (ص:۱۹۵)
ترجمہ:…”حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ کسی روایت میں میری نظر سے یہ نہیں گزرا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے حق میں کچھ کہا گیا ہو، بخلاف اس کے جو عقیل کی روایت میں “استبا” کے لفظ سے سمجھا جاتا ہے، اور مازری نے ان راویوں کے طرزِ عمل کو درست قرار دیا ہے جنہوں نے اس حدیث میں ان الفاظ کے ذکر کو حذف کردیا ہے۔ مازری کہتے ہیں: غالباً کسی راوی کو وہم ہوا ہے اور اس نے غلطی سے یہ الفاظ نقل کردئیے ہیں، اور اگر یہ الفاظ محفوظ ہوں تو ان کا عمدہ ترین محمل یہ ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے یہ الفاظ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ناز کی بنا پر کہے، کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حیثیت ان کے نزدیک اولاد کی تھی، اس لئے پُرزور الفاظ میں ان کو ایسی چیز سے روکنا چاہا جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ غلطی پر ہیں۔”
حافظ کی اس عبارت سے مندرجہ ذیل امور منقح ہوگئے:
اول:…حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے حق میں کوئی نامناسب لفظ سرزد نہیں ہوا، اور عقیل کی روایت میں “استبا” کے لفظ سے جو اس کا وہم ہوتا ہے، وہ صحیح نہیں۔
دوم:…حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے جو الفاظ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں نقل کئے گئے ہیں، ان میں بھی راویوں کا اختلاف ہے، بعض ان کو نقل کرتے ہیں اور بعض نقل نہیں کرتے۔ حافظ، مازریکے حوالے سے ان راویوں کی تصویب کرتے ہیں، جنہوں نے یہ الفاظ نقل نہیں کئے، جن راویوں نے نقل کئے ہیں، ان کا تخطیہٴ کرتے ہیں اور اسے کسی راوی کا وہم قرار دیتے ہیں۔
سوم:…بالفرض یہ الفاظ محفوظ بھی ہوں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حیثیت چونکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹے کی ہے، اور والدین، اولاد کے حق میں اگر ازراہِ عتاب ایسے الفاظ استعمال کریں تو ان کو بزرگانہ ناز پر محمول کیا جاتا ہے، نہ کوئی عقلمند ان الفاظ کو ان کی حقیقت پر محمول کیا کرتا ہے اور نہ والدین سے ایسے الفاظ کے صدور کو لائق ملامت تصور کیا جاتا ہے، اس لئے حضرت عباس کے یہ الفاظ بزرگانہ ناز پر محمول ہیں۔
تمہیدی نکات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ کی طرف اشارہ کرچکا ہوں، حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے اس واقعہ کو موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ سے ملاکر دیکھئے! کیا یہ واقعہ اس واقعہ سے بھی زیادہ سنگین ہے؟ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس عتاب و غضب سے ان کے مقام و مرتبہ پر کوئی حرف نہیں آتا، تو اگر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کے حق میں اپنے مقام و مرتبہ کے لحاظ سے کچھ الفاظ استعمال کرلئے تو ان پر (نعوذ باللہ! ثم نعوذ باللہ!) اخلاقی پستی کا فتویٰ صادر کر ڈالنا، میں نہیں سمجھتا کہ دین و ایمان یا عقل و دانش کا کون سا تقاضا ہے؟ بلاشبہ گالی گلوچ شرفاء کا وطیرہ نہیں، مگر یہاں نہ تو بازاری گالیاں دی گئی تھیں، اور نہ کسی غیر کے ساتھ سخت کلامی کی گئی تھی، کیا اپنی اولاد کو سخت الفاظ میں عتاب کرنا بھی وطیرہٴ شرفاء سے خارج ہے؟ اور پھر حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا وارد ہے:
“اللّٰھم انی اتخذ عندک عھدا لن تخلفنیہ فانما انا بشر فای الموٴمنین اٰذیتہ شتمتہ لعنتہ جلدتہ فاجعلھا لہ صلوٰة وزکوٰة وقربة تقربہ بھا الیک یوم القیامة۔” (صحیح مسلم ج:۲ ص:۳۲۴)
ترجمہ:…”اے اللہ! میں آپ سے ایک عہد لینا چاہتا ہوں، آپ میرے حق میں اس کو ضرور پورا کردیجئے، کیونکہ میں بھی انسان ہی ہوں، پس جس موٴمن کو میں نے ستایا ہو، اسے کوئی نامناسب لفظ کہا ہو، اس پر لعنت کی ہو، اس کو مارا ہو، آپ اس کو اس شخص کے حق میں رحمت و پاکیزگی اور قربت کا ذریعہ بنادیجئے کہ اس کی بدولت اس کو قیامت کے دن اپنا قرب عطا فرمائیں۔”
اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سب و شتم کی نسبت فرمائی ہے، جس سے مراد یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان کے حق میں میری زبان سے ایسا لفظ نکل گیا ہو جس کا وہ مستحق نہیں تو آپ اس کو اس کے لئے رحمت و قربت کا ذریعہ بنادیجئے۔ کیا اس کا ترجمہ “گالی گلوچ” کرکے نعوذ باللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اخلاقی پستی کی تہمت دھری جائے گی؟ اور اسے وطیرہٴ شرفاء کے خلاف کہا جائے گا؟ حق تعالیٰ شانہ سخن فہمی اور مرتبہ شناسی کی دولت سے کسی مسلمان کو محروم نہ فرمائے۔
۴:…لاٹھی کی حکومت:
حدیث کے اصل الفاظ یہ ہیں: “انت والله بعد ثلٰث عبد العصا۔” (بخدا! تم تین دن بعد محکوم ہوگے) صحیح بخاری (ج:۲ ص:۶۳۹) کے حاشیہ میں “عبدالعصا” کے تحت لکھا ہے:
“کنایة عن صیرورتہ تابعا لغیرہ، کذا فی التوشیح۔ قال فی الفتح: والمعنی انہ یموت بعد ثلٰث وتصیر انت مامورا علیک وھذا من قوة فراسة العباس۔”
ترجمہ:…”یہ اس سے کنایہ ہے کہ وہ دوسروں کے تابع ہوں گے۔ توشیح میں اسی طرح ہے۔ حافظ فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ: مراد یہ ہے کہ تین دن بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوجائے گا، اور تم پر دوسروں کی امارت ہوگی، اور یہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی قوتِ فراست تھی۔”
خلاصہ یہ کہ “عبدالعصا” جس کا ترجمہ، ترجمہ نگار نے “لاٹھی کی حکومت” کیا ہے، مراد اس سے یہ ہے کہ تم محکوم ہوگے، اور تمہاری حیثیت عام رعایا کی سی ہوگی۔
یہاں یہ عرض کردینا ضروری ہے کہ کنائی الفاظ میں لفظی ترجمہ مراد نہیں ہوتا، اور اگر کہیں لفظی ترجمہ گھسیٹ دیا جائے تو مضمون بھونڈا بن جاتا ہے، اور قائل کی اصل مراد نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے۔ مثلاً: عربوں میں “فلان کثیر الرماد” کا لفظ سخاوت سے کنایہ ہے، اگر اس کا لفظی ترجمہ گھسیٹ دیا جائے کہ: “فلاں کے گھر راکھ کے ڈھیر ہیں” تو جو شخص اصل مراد سے واقف نہیں وہ راکھ کے ڈھیر تلے دب کر رہ جائے گا، اور اسے یہ فقرہ مدح کے بجائے مذمت کا آئینہ دار نظر آئے گا ․․․ یہی حال ․․․ “عبد العصا” کا بھی سمجھنا چاہئے۔ کرنے والے نے اس کا لفظی ترجمہ کرڈالا، اور عام قارئین چونکہ عرب کے محاورات اور لفظ کی اس کنائی مراد سے واقف نہیں اس لئے انہیں لاٹھیوں کی بارش کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا۔
ایک حدیث میں آتا ہے:
“لا ترفع عصاک عن اھلک۔”
ترجمہ:…”اپنے گھر والوں سے کبھی لاٹھی ہٹاکر نہ رکھو۔”
مجمع البحار میں اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
“اي لا تدع تأدیبھم وجمعھم علیٰ طاعة الله تعالیٰ، یقال: “شق العصا”، اي فارق الجماعة، ولم یرد الضرب بالعصا ولٰکنہ مثل ․․․․․․ لیس المراد بالعصا المعروفة بل اراد الادب وذا حاصل بغیر الضرب۔”
ترجمہ:…”یعنی ان کی تادیب اور ان کو اللہ تعالیٰ کی طاعت پر جمع کرنے کا کام کبھی نہ چھوڑو، محاورے میں کہا جاتا ہے کہ فلاں نے “لاٹھی چیر ڈالی” یعنی جماعت سے الگ ہوگیا۔ یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد لاٹھی سے مارنا نہیں، بلکہ یہ ایک ضرب المثل ہے ․․․․․․․ یہاں عصا سے معروف لاٹھی مراد نہیں، بلکہ ادب سکھانا مراد ہے اور یہ مارنے پیٹنے کے بغیر بھی ہوسکتا ہے۔”
اسی طرح “عبدالعصا” میں بھی معروف معنوں میں لاٹھی مراد نہیں، نہ لاٹھی کی حکومت کا یہ مطلب ہے کہ وہ حکومت لاٹھیوں سے قائم ہوگی یا قائم رکھی جائے گی، بلکہ خود حکومت و اقتدار ہی کو “لاٹھی” سے تعبیر کیا گیا ہے، اور مطلب یہ ہے کہ تم دوسروں کی حکومت کے ماتحت ہوگے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیز و خویش اور آپ کے پروردہ تھے، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر سایہ ان کی حیثیت گویا ایک طرح سے شہزادے کی تھی (اگر یہ تعبیر سوءِ ادب نہ ہو)، حضرت عباس رضی اللہ عنہ ان کو جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ تین دن بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہٴ عاطفت اٹھتا محسوس ہو رہا ہے، اس کے بعد تمہاری حیثیت، ملتِ اسلامیہ کے عام افراد کی سی ہوگی۔
۵:…حضرت عباس کا مشورہ:
قاضی ابوبکر کی کتاب “العواصم من القواصم” میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے الفاظ اس طرح نقل کئے گئے ہیں:
“اذھب بنا الی رسول الله صلی الله علیہ وسلم فلنسألہ فیمن یکون ھذا الامر بعدہ، فان کان فینا علمنا ذالک، وان کان فی غیرنا علمنا فاوصیٰ بنا۔”
(ص:۱۸۶)
ترجمہ:…”چلو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چلیں، آپ سے دریافت کریں کہ آپ کے بعد یہ امر خلافت کس کے پاس ہوگا؟ پس اگر ہمارے پاس ہوا تو ہمیں معلوم ہوجائے گا، اور اگر کسی دوسرے کے پاس ہوا تب بھی ہمیں معلوم ہوجائے گا، اس صورت میں آپ ہمارے حق میں وصیت فرمادیں گے۔”
اور یہ بعینہ صحیح بخاری ج:۲ ص:۶۳۹ کے الفاظ ہیں، آپ نے اول تو ان الفاظ کا ترجمہ ہی صحیح نہیں کیا، معلوم نہیں کہ یہ ترجمہ جناب نے خود کیا ہے، یا کسی اور کا ترجمہ نقل کیا ہے۔
دوم:…یہ کہ اہل علم آج تک صحیح بخاری پڑھتے پڑھاتے آئے ہیں، مگر حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے الفاظ میں ان کو کبھی اشکال پیش نہیں آیا۔ خود قاضی ابوبکر بن العربی اس روایت کو نقل کرکے لکھتے ہیں:
“رأی العباس عندی اصح واقرب الی الاٰخرة والتصریح بالتحقیق وھذا یبطل قول مدعی الاشارة باستخلاف علی فکیف ان یدعیٰ فیہ نص۔”
(ص:۱۸۶، ۱۸۷)
ترجمہ:…”حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی رائے میرے نزدیک زیادہ صحیح اور آخرت کے زیادہ قریب ہے۔ اور اس میں تحقیق کی تصریح ہے اور اس سے ان لوگوں کا قول باطل ہوجاتا ہے جو دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بنائے جانے کا اشارہ فرمایا تھا، چہ جائیکہ اس باب میں نص کا دعویٰ کیا جائے۔”
انصاف فرمائیے کہ جس رائے کو ابوبکر بن العربی زیادہ صحیح اور اقرب الی الآخرة فرما رہے ہیں، آپ انہی کی کتاب کے حوالے سے اسے “خلافت کی فکر پڑنے” سے تعبیر کرکے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔
اور آپ کا یہ خیال بھی آپ کا حسن ظن ہے کہ: “نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور وفات کا صدمہ اگر غالب ہوتا تو یہ خیالات اور یہ کاروائیاں کہاں ہوتیں” ․․․․․․ خود آپ نے جو روایت نقل کی ہے اس میں تصریح ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے یہ اندازہ لگایا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحت مایوسی کی حد میں داخل ہوچکی ہے، اور آپ اپنے خدام کو داغِ مفارقت دینے والے ہیں، عین اس حالت میں اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ جو امور اختلاف و نزاع اور امت کے شقاق و افتراق کا موجب ہوسکتے ہیں، ان کا تصفیہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے کرالینا مناسب ہے، تاکہ بعد میں شورش و فتنہ نہ ہو، تو آپ کا خیال ہے کہ وہ بڑا ہی سنگ دل ہے، اس کو ذرا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق و محبت ہے نہ اسے آپ کی بیماری کا صدمہ ہے، اور نہ وفات کا غم ہے ․․․․․․ آپ ہی فرمائیں کہ کیا یہ صحتمندانہ طرزِ فکر ہے؟
آپ کو معلوم ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان ․․․ بنو ہاشم․․․ کے بزرگ ترین فرد تھے، اور یہ بھی آپ کو معلوم ہے کہ خاندان کے بزرگوں کو ایسے موقعوں پر آئندہ پیش آنے والے واقعات کا ہولناک منظر پریشان کیا کرتا ہے، اگر کسی الجھن کا اندیشہ ہو تو وہ وفات پانے والے شخص کی زندگی ہی میں اس کا حل نکالنے کی تدبیر کیا کرتے ہیں۔ یہ روزمرہ کے وہ واقعات ہیں جن سے کم و بیش ہر شخص واقف ہے، ایسے موقعوں پر اس قسم کے سرد و گرم چشیدہ بزرگوں کی راہنمائی کو ان کے حسن تدبر اور دوراندیشی پر محمول کیا جاتا ہے، اور کسی معاشرے میں ان کے اس بزرگانہ مشورے کو سنگدلی پر محمول نہیں کیا جاتا، اور نہ کسی ذہن میں یہ وسوسہ آتا ہے کہ ان بڑے بوڑھوں کو مرحوم سے کوئی تعلق نہیں، مرنے والا مر رہا ہے ان کو ایسی باتوں کی فکر پڑی ہے۔
ٹھیک یہی بزرگانہ حسن تدبر اور دوربینی و دوراندیشی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو اس رائے پر آمادہ کر رہی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا سے تشریف لے جارہے ہیں تو آپ کے بعد آپ کی جانشینی کا مسئلہ خدانخواستہ کوئی پیچیدہ صورت اختیار نہ کرلے، اس لئے اس کا تصفیہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ذریعہ ہوجائے تو بہتر ہے ․․․․․․ اور ان کا یہ اندیشہ محض ایک توہماتی مفروضہ نہیں تھا بلکہ بعد میں یہ واقعہ بن کر سامنے آیا، اور یہ تو حق تعالیٰ شانہ کی عنایتِ خاصہ تھی کہ یہ نزاع فوراً دب گیا، ورنہ خدانخواستہ یہ طول پکڑ جاتا تو سوچئے کہ اس امت کا کیا بنتا؟ اب اگر عین مایوسی کی حالت میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی فہم و فراست سے یہ مشورہ دیا کہ یہ قصہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ ہی میں طے ہوجانا چاہئے، تو فرمائیے کہ انہوں نے کیا برا کیا؟
اوپر میں نے جس عنایتِ خداوندی کا ذکر کیا ہے، غالباً اسی کی طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشاد گرامی: “یأبی الله والموٴمنون الا ابابکر!” میں اشارہ فرمایا تھا، چنانچہ:
“عن عائشة قالت قال لی رسول الله صلی الله علیہ وسلم فی مرضہ ادعی لی ابابکر اباک واخاک حتی اکتب کتابا فانی اخاف ان یتمنیٰ متمن ویقول قائل انا اولیٰ، ویأبی الله والموٴمنون الا ابابکر!”
(صحیح مسلم ج:۲ ص:۲۷۳)
ترجمہ:…”حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الوفات میں مجھ سے فرمایا کہ میرے پاس اپنے باپ ابوبکر کو اور اپنے بھائی کو بلاوٴ تاکہ میں ایک تحریر لکھ دوں کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ کوئی تمنا کرنے والا تمنا کرے، اور کوئی کہنے والا کہے کہ میں سب سے بڑھ کر خلافت کا مستحق ہوں، دوسرا نہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان ابوبکر کے سوا کسی اور کا انکار کرتے ہیں۔”
صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے:
“لقد ھممت ․․․․ او اردت ان ارسل الی ابی بکر وابنہ فاعھد ان یقول القائلون او یتمنی المتمنون ثم قلت یأبی الله ویدفع الموٴمنون او یدفع الله ویأبی الموٴمنون۔” (صحیح بخاری ج:۲ ص:۸۲۶، ۱۰۷۲)
ترجمہ:…”میرا ارادہ ہوا تھا کہ میں ابوبکر اور ان کے صاحبزادے کو بلا بھیجوں اور تحریر لکھوادوں، کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہنے والے کہیں گے اور تمنا کرنے والے تمنا کریں گے، لیکن پھر میں نے کہا اللہ تعالیٰ (ابوبکر کے سوا کسی دوسرے کا) انکار کریں گے، اور مسلمان مدافعت کریں گے۔ یا یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مدافعت فرمائیں گے اور اہل اسلام انکار کردیں گے۔”
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس نزاع و اختلاف کا اندیشہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو لاحق تھا، اور جس کا وہ تصفیہ کرالینا چاہتے تھے، اس اندیشے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذہن مبارک بھی خالی نہیں تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی چاہتے تھے کہ اس کا تحریری تصفیہ کر ہی دیا جائے، لیکن پھر آپ نے حق تعالیٰ شانہ کی رحمت و عنایت اور اہل اسلام کے فہم و بصیرت پر اعتماد کرتے ہوئے اس معاملہ کو خدا تعالیٰ کے سپرد فرمادیا کہ انشاء اللہ اس کے لئے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی کا انتخاب ہوگا، اور اختلاف و نزاع کی کوئی ناگفتہ بہ صورت انشاء اللہ پیش نہیں آئے گی۔
الغرض حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا یہ بزرگانہ مشورہ نہایت صائب اور مخلصانہ تھا اور اس میں کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی جس کی صفائی یا معذرت کی ضرورت لاحق ہو۔ رہا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد کہ اگر خلافت ہمارے سوا کسی اور صاحب کو ملے گی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو ہمارے بارے میں وصیت فرمادیں گے، یہ بھی محض اپنے مفادات کا تحفظ نہیں (جیسا کہ سوال میں کہا گیا ہے) بلکہ یہ ایک دقیق حکمت پر مبنی ہے۔ وہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلقین کی عزت و توقیر درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی محبت و عظمت اور عزت و توقیر کا ایک شعبہ ہے، یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام خدام اور متعلقین کے بارے میں مختلف عنوانات سے تاکیدیں اور وصیتیں فرمائی ہیں، کہیں عام صحابہ کرام کے بارے میں، کہیں حضرات خلفائے راشدین کے بارے میں، کہیں حضرات انصار کے بارے میں، کہیں حضرات امہات الموٴمنین کے بارے میں اور کہیں حضرت علی اور حضرات حسنین کے بارے میں جیسا کہ حدیث کے طالب علم ان امور سے بخوبی واقف ہیں۔
حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے مشورہٴ وصیت کا منشا یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعزہ و اقارب کو نہ ملے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عظمت و توقیر کے بارے میں خصوصی وصیت فرماجائیں تاکہ خلافت بلافصل سے ان کی محرومی کو ان کے نقص اور نااہلیت پر محمول نہ کیا جائے اور لوگ ان پر طعن و تشنیع کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جفا و بے مروتی کے مرتکب نہ ہوں، پس حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو فکر اپنے مفادات کی نہیں، بلکہ ان لوگوں کے دین و ایمان کی ہے جو اپنی خام عقلی سے ان کی خلافت سے محرومی کو ان پر لب کشائی کا بہانہ بنالیں۔
اور اگر یہی فرض کرلیا جائے کہ وہ خلافت سے محرومی کی صورت میں اپنے خاندان کے مفاد کے تحفظ کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وصیت کرانا چاہتے تھے، تب بھی سوچنا چاہئے کہ آخر وہ کس کا خاندان ہے؟ کیا خانوادہٴ نبوت کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی کلمہٴ خیر کہلانا جرم ہے؟ حضرت عباس رضی اللہ عنہ اپنے ذاتی مفاد کا تحفظ نہیں کر رہے (حالانکہ عقلاً و شرعاً یہ بھی قابل اعتراض نہیں) وہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے خاندان کے بارے میں کلمہ خیر کہلانا چاہتے ہیں، کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان ایک مسلمان کی نظر میں اس لائق بھی نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بارے میں کوئی کلمہ خیر امت کو ارشاد فرمائیں؟ اور جو شخص ایسا خیال بھی دل میں لائے تو اسے طعن و تشنیع کا نشانہ بنالیا جائے؟ انا لله وانا الیہ راجعون!
کیا اسی مرض الوفات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ․․․ تکلیف کی شدت کے باوجود ․․․ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں وصیتیں نہیں فرمائیں؟ کیا حضرات انصار کے بارے میں وصیت نہیں فرمائی؟ کیا غلاموں اور خادموں کے بارے میں وصیت نہیں فرمائی؟ کیا اہل ذمہ کے بارے میں وصیت نہیں فرمائی؟ ․․․ اگر کسی نیک نفس کے دل میں خیال آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاندانِ نبوت کے بارے میں بھی کوئی وصیت فرمادیں تو اس کو خود غرضی پر محمول کرنا کیا صحیح طرزِ فکر ہے؟
غالباً اسی مرض الوفات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، امہات الموٴمنین سے فرماتے تھے:
“ان امرکن مما یھمنی من بعدی ولن یصبر علیکن الا الصابرون الصدیقون۔”
(ترمذی ج:۲ ص:۲۱۶، مناقب عبدالرحمن بن عوف، مستدرک حاکم ج:۳ ص:۳۱۲، موارد الظمأن ص:۵۴۷حدیث:۲۲۱۶، مشکوٰة ص:۵۶۷)
ترجمہ:…”بے شک میرے بعد تمہاری حالت مجھے فکرمند کر رہی ہے، اور تمہارے (اخراجات برداشت کرنے) پر صبر نہیں کریں گے مگر صابر اور صدیق لوگ۔”
الغرض زندگی سے مایوسی کی حالت میں مرنے والے کے متعلقین کے بارے میں فکرمندی ایک طبعی امر ہے، خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ․․․ توکل علی اللہ اور تعلق مع اللہ کے سب سے بلند ترین مقام پر فائز ہونے کے باوجود ․․․ اپنے بعد اپنے متعلقین کے بارے میں فکرمند ہوئے، اسی کا عکس حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے قلب مبارک پر پڑا اور ان کو خیال ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل خاندان کے بارے میں بھی کچھ ارشاد فرماجائیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل قرابت کے بارے میں بھی بڑی تاکیدی وصیتیں فرمائی ہیں، یہی وجہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام، خصوصاً حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل قرابت کی رعایت کا بہت ہی اہتمام تھا، جس کے بے شمار واقعات پیش نظر ہیں، یہاں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایک فقرہ نقل کرتا ہوں جسے “العواصم” صفحہ:۴۸ کے حاشیہ میں شیخ محب الدین الخطیب نے صحیح بخاری کے حوالے سے نقل کیا ہے:
“والذی نفسی بیدہ! لقرابة رسول الله صلی الله علیہ وسلم احب الی ان اصل من قرابتی۔” (صحیح بخاری ج:۱ص:۵۲۶، باب مناقب قرابت رسول الله صلی الله علیہ وسلم)
ترجمہ:…”اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل قرابت کے ساتھ حسن سلوک کرنا مجھے اپنے اہل قرابت کے ساتھ حسن سلوک سے زیادہ محبوب ہے۔”
بلاشبہ ایک موٴمن مخلص کا یہی ایمانی جذبہ ہونا چاہئے کیونکہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق و محبت کی نمایاں علامت ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
“احبوا الله لما یغذوکم بہ من نعمہ واحبونی لحب الله واحبوا اھل بیتی لحبی۔” (ترمذی ج:۲ ص:۲۲۰، حاکم ج:۳ ص:۱۵۰ عن ابن عباس، حسنہ الترمذی، وصححہ الحاکم ووافقہ الذہبی ورقم لہ السیوطی فی الجامع الصغیر بالصحة ج:۱ ص:۱۱)
ترجمہ:…”اللہ تعالیٰ سے محبت رکھو، کیونکہ اپنی نعمتوں کے ساتھ تمہیں پالتا ہے، اور مجھ سے محبت رکھو اللہ تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے اور میرے اہل بیت سے محبت رکھو میری محبت کی وجہ سے۔”
۶:…حضرت علی رضی اللہ عنہ اور طلبِ خلافت:
حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے اس مشورہ پر کہ چلو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے استصواب کرالیں کہ خلافت ہمارے پاس ہوگی یا کسی اور صاحب کے پاس؟ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا:
“انا والله لئن سألناھا رسول الله صلی الله علیہ وسلم فمنعناھا لا یعطیناھا الناس بعدہ۔
وانی والله لا اسألھا رسول الله صلی الله علیہ وسلم۔” (العواصم ص:۱۸۶، صحیح بخاری ج:۲ ص:۶۳۹)
ترجمہ:…”بخدا! اگر ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو نہ دی تو لوگ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں دیں گے۔
اور بخدا! میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں سوال نہ کروں گا۔”
جس شخص کے ذہن میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف سے میل نہ ہو وہ تو اس فقرہ کا مطلب یہی سمجھے گا کہ ان کا مقصود حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے مشورے کو قبول نہ کرنا تھا، اور اس پر انہوں نے ایک ایسی دلیل بیان کی کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو اس پر خاموش ہونا پڑا، یعنی جب خود آپ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ جس طرح یہ احتمال ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خلافت ہمیں دے جائیں، اسی طرح یہ بھی احتمال ہے کہ کسی اور صاحب کا نام تجویز فرمادیں، اب اگر یہ معاملہ ابہام میں رہے تو اس کی گنجائش ہے کہ مسلمان خلافت کے لئے ہمیں منتخب کرلیں، لیکن اگر سوال کرنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمادیا تو ہمارے انتخاب کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہے گی، اب فرمائیے کہ یہ ابہام کی صورت آپ کے خیال میں ہمارے لئے بہتر ہے یا تعیین کی صورت؟
ظاہر ہے کہ اس تقریر پر دور دور بھی کہیں اس الزام کا شائبہ نظر نہیں آتا جو آپ نے یہ کہہ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ پر عائد کرنا چاہا ہے کہ:
“ان کا ارادہ یہی ظاہر ہوتا ہے کہ خواہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انکار ہی کیوں نہ کردیں انہیں اپنی خلافت درکار ہے، اور یہ بھی کہ انہیں احتمال یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم منع فرمادیں گے، اس لئے انہوں نے کہا میں سوال نہ کروں گا اور بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس خلافت کو حاصل کروں گا۔”
اس الزام کی تردید کے لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا طرزِ عمل ہی کافی ہے، اگر ان کا ارادہ یہی ہوتا کہ انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت کے علی الرغم ․․․ نعوذ باللہ ․․․ اپنی خلافت قائم کرنی ہے تو وہ ضرور ایسا کرتے، لیکن واقعات شاہد ہیں کہ خلفائے ثلاثہ کے دور میں انہوں نے ایک دن بھی خلافت کا دعویٰ نہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ خلافتِ نبوت کا مدار محض نسبی قرابت پر نہیں، بلکہ فضل و کمال اور سوابق اسلامیہ پر ہے، اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ان امور میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سب سے فائق ہیں اور ان کی موجودگی میں کوئی دوسرا شخص خلافت کا مستحق نہیں، صحیح بخاری میں ان کے صاحبزادہ حضرت محمد ابن الحنفیہ سے مروی ہے:
“قلت لابی: من ای الناس خیر بعد النبی صلی الله علیہ وسلم؟ قال: ابوبکر! قال قلت: ثم من؟ قال: عمر! وخشیت ان یقول عثمان، قلت: ثم انت؟ قال: ما انا الا رجل من المسلمین!” (صحیح بخاری ج:۱ ص:۵۱۸)
ترجمہ:…”میں نے اپنے والد ماجد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل و بہتر آدمی کون ہے؟ فرمایا: ابوبکر! میں نے عرض کیا: ان کے بعد؟ فرمایا: عمر!․․․․․․ مجھے اندیشہ ہوا کہ اب پوچھوں گا تو حضرت عثمان کا نام لیں گے، اس لئے میں نے سوال بدل کر کہا کہ: ان کے بعد آپ کا مرتبہ ہے؟ فرمایا: میں تو مسلمانوں کی جماعت کا ایک فرد ہوں۔”
وہ اپنے دورِ خلافت میں برسرمنبر یہ اعلان فرماتے تھے:
“خیر ھذہ الامة بعد نبیھا ابوبکر وبعد ابی بکر عمر رضی الله عنہما، ولو شئت اخبرتکم بالثالث لفعلت۔” (مسند احمد ج:۱ ص:۱۰۶)
ترجمہ:…”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت میں سب سے افضل ابوبکر ہیں، اور ابوبکر کے بعد عمر، رضی اللہ عنہما، اور اگر میں چاہوں تو تیسرے مرتبہ کا آدمی بھی بتاسکتا ہوں۔”
اس سلسلہ کی تمام روایات حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے “ازالة الخفاء” جلد:۱ صفحہ:۶۶ میں جمع کردی ہیں، وہاں ملاحظہ کرلی جائیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ بھی جانتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری ایام میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جو امامتِ صغریٰ تفویض فرمائی ہے، یہ درحقیقت امامتِ کبریٰ کے لئے ان کا استخلاف ہے۔
“اخرج ابوعمرو فی الاستیعاب عن الحسن البصری عن قیس بن عباد قال: قال لی علی بن ابی طالب: ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم مرض لیالی وایاما ینادی بالصلوٰة فیقول: مروا ابابکر یصلی بالناس! فلما قبض رسول الله صلی الله علیہ وسلم نظرت فاذا الصلوٰة علم الاسلام وقوام الدین فرضینا لدنیانا من رضی رسول الله صلی الله علیہ وسلم لدیننا فبایعنا ابابکر رضی الله عنہ۔” (ازالة الخفاء ج:۱ ص:۶۸)
ترجمہ:…”حافظ ابو عمرو ابن عبدالبر الاستیعاب میں حضرت حسن بصری سے اور وہ قیس بن عباد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کئی دن رات بیمار رہے، نماز کی اذان ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ابوبکر کو کہو کہ نماز پڑھائیں۔ پس جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو میں نے دیکھا کہ نماز اسلام کا سب سے بڑا شعار اور دین کا مدار ہے، پس ہم نے اپنی دنیا (کے نظم و نسق) کے لئے اس شخص کو پسند کرلیا جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے دین کے لئے پسند فرمایا تھا، اس لئے ہم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بیعت کی۔”
اس لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی کہ آپ کے بعد خلیفہ کون ہوگا؟ اسی کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ میں بھی خلافتِ نبوت کی صلاحیت و اہلیت بدرجہٴ اتم موجود تھی، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشادات سے انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ اس خلافتِ نبوت میں بھی ان کا حصہ ہے، اور یہ کہ خلافت اپنے وقت موعود پر ان کو ضرور پہنچے گی، ان ارشادات نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تفصیل و تشریح کا یہ موقع نہیں، یہاں صرف ایک حدیث نقل کرتا ہوں:
“عن ابی سعید الخدری رضی الله عنہ قال: کنا جلوسا ننتظر رسول الله صلی الله علیہ وسلم فخرج علینا من بعض بیوت نسائہ، قال: فقمنا معہ فانقطعت نعلہ فتخلف علیھا علی یخصفھا فمضیٰ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ومضینا معہ، ثم قائم ینتظرہ وقمنا معہ، فقال: ان منکم من یقاتل علیٰ تاویل ھذا القراٰن کما قاتلت علیٰ تنزیلہ۔ فاستشرقنا وفینا ابوبکر وعمر رضی الله عنہما، فقال: لا! ولکنہ خاصف النعل۔ قال؛ فجئنا نبشرہ قال وکأنہ قد سمعہ۔” (مسند احمد ج:۳ ص:۸۲، قال الہیثمی رواہ احمد ورجالہ رجال الصحیح غیر فطر بن خلیفہ وھو ثقة۔ مجمع الزوائد ج:۹ ص:۱۳۳)
ترجمہ:…”حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ہم بیٹھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے، پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ازواجِ مطہرات میں سے کسی کے گھر سے باہر تشریف لائے، پس ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانے کے لئے اٹھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نعل مبارک ٹوٹ گیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کی مرمت کے لئے رک گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چل پڑے، ہم لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل پڑے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے انتظار میں کھڑے ہوگئے اور ہم لوگ بھی ٹھہر گئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: بے شک تم میں سے ایک شخص قرآن کی تاویل پر قتال کرے گا، جیسا کہ میں نے اس کی تنزیل پر قتال کیا ہے۔ پس ہم سب اس کے منتظر ہوئے کہ اس کا مصداق کون ہے؟ ہم میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے تم لوگ مراد نہیں ہو، بلکہ وہ جوتا گانٹھنے والا مراد ہے۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم خوشخبری دینے کے لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو ایسا محسوس ہوا گویا انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد پہلے سے سن رکھا ہے۔”
اس تفصیل سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ارشاد کا مطلب واضح ہوجاتا ہے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال نہیں کرتا، اور یہ کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار فرمادیا تو مسلمان ہمیں کبھی نہیں دیں گے، کیونکہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس موقع پر یہ فرماتے (اور یہ فرمانا محض احتمال نہیں تھا بلکہ یقینی تھا) کہ میرے بعد علی کو خلیفہ نہ بنایا جائے بلکہ ابوبکر کو خلیفہ بنایا جائے تو اس کا متبادر مفہوم تو یہی ہوتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ بلافصل حضرت علی رضی اللہ عنہ نہیں، لیکن لوگوں کو یہ غلط فہمی ضرور ہوسکتی تھی کہ علی میں خلافت کی صلاحیت و اہلیت ہی نہیں، یا یہ کہ خلافتِ نبوت میں ان کا سرے سے کوئی حصہ ہی نہیں، اور آپ کے دورہٴ خلافت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی ارشاد کو پیش کرکے لوگوں کو اس غلط فہمی میں ڈالا جاسکتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ: “میرے بعد علی کو خلیفہ نہ بنانا” یہ تھا غلط فہمی کا وہ اندیشہ جس کی بنا پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں روک دیا تو اندیشہ ہے کہ مسلمان اس کو ایک دائمی دستاویز بنالیں گے اور ہمیں خلافت کے لئے نااہل تصور کرلیا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ غلط فہمی، جس کا اندیشہ تھا، نہ صرف منشائے نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہوتی بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کے ساتھ ایک بدترین ظلم بھی ہوتا، جو آپ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں ارشاد فرمائے ہیں۔
ربنا اغفر لنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان ولا تجعل فی قلوبنا غلا للذین آمنوا ربنا انک روٴف رحیم
(سائل کا دوسرا خط)
محترم المقام جناب علامہ محمد یوسف لدھیانوی صاحب!
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ، وبعد!
جناب کا محبت نامہ ملا، یہ ایک حقیقت ہے کہ تحریر میں بہت وقت صرف ہوتا ہے، پھر آپ جیسے مصروف آدمی کے لئے اور بھی مشکل ہے، لیکن جیسا کہ جناب نے تحریر فرمایا ہے کہ: “رفع التباس” کو الگ سے شائع کرانے کا ارادہ ہے، اس لئے کچھ وضاحت طلب باتیں تحریر کرنے کی جرأت کر رہا ہوں۔ کیونکہ یہ باتیں ہماری اعلیٰ درجہ کی کتابوں میں درج ہیں۔ مترجمین حضرات نے ترجمہ کرتے وقت بریکٹس کے اندر فاضل الفاظ کا اضافہ کرکے پیچیدگیاں پیدا کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کیا، لہٰذا عوام کو دو طرح سے نقصان میں مبتلا کیا، ایک تو لوگ شک میں مبتلا ہوتے ہیں اور اس شک کا فائدہ امامیہ حضرات اٹھاتے ہیں کہ اہل سنت کے مذہب پر طعن کرتے ہیں، اور اپنے باطل عقائد کی اشاعت شروع کردیتے ہیں، ایک عامی سنی مسلمان جس کا مذہب سنی سنائی باتوں اور کچھ معاشرتی رسموں پر (جو اسے ورثے میں ملتی ہیں) مبنی ہوتا ہے، اگر امامیہ نہ بھی بنے تو ان سے متأثر ہوجاتا ہے اور خود اپنے اکابر سے بدگمان۔
اور تمام باتیں میں انشاء اللہ ملاقات پر ہی عرض کروں گا، لیکن فی الحال چند وہ باتیں تحریر کرتا ہوں کہ اگر ان کی صفائی ہوجائے تو جناب کی یہ تحریر ایک مقدس تحقیق کا مرتبہ پائے گی (انشاء اللہ)۔
جناب نے تحریر فرمایا ہے: “بہرحال حضرت ابوبکر کے متنبہ کردینے کے بعد انہوں نے اس حدیث میں نہ کوئی جرح اور قدح فرمائی نہ منازعت کی، بلکہ اپنے موقف سے دستبردار ہوگئے اور یہ ان موٴمنین قانتین کی شان ہے جن میں نفسانیت کا کوئی شائبہ نہیں ہوتا۔” اس تحریر کو دیکھنے کے بعد اگر یہ تسلیم کیا جائے گا کہ حضرت علی نے حضرت ابوبکر صدیق کا فیصلہ خلوص نیت سے تسلیم کیا اور اپنے موقف سے دستبردار ہوگئے تو پھر شکوہ و شکایت کا کیا معنی؟ جناب نے اس بیان کے بعد “باب فرض الخمس” کی جس حدیث کا حوالہ دیا ہے اسے “ثم جئتمانی” سے آگے ٹکڑا نقل فرمایا ہے خود اس حدیث میں اس سے پہلے بیان ہے خود حضرت عمر کا کہ ان کو اس فیصلہ پر شکایت تھی۔ حضرت عمر مخاطب کرکے کہہ رہے ہیں: “اور تم اس وقت سے اس مسئلہ میں شکوہ کرتے تھے” لیکن حقیقت میں بات شکوہ و شکایت تک ہی محدود نہ تھی، اسی بخاری کی یحییٰ بن بکیر والی روایت کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ اس مسئلہ میں حضرت ابوبکر سے ناراض ہوگئیں بلکہ اپنی وفات تک ان سے بات نہیں کی۔ “فتح الباری” لابن حجر الجزء التاسع میں تحریر ہے کہ ان کو بھیجا گیا تھا (بھیجنے والے حضرت علی تھے) “ان فاطمة ارسلت الی ابی بکر تسألہ میراثھا۔” غور فرمائیں۔ اس شخص سے ناراض، جس نے اپنا ذاتی مال سارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تصدق کردیا تھا، کیا معنی رکھتی ہے؟ ابن حجر نے جلد نمبر:۷ کے حاشیہ میں جو بحث کی ہے، وہاں تحریر فرماتے ہیں کہ: “یہ جدائی نتیجہ تھی غصہ کی وراثت کے نہ ملنے پر۔” اس مضمون کو میں نے تیسیرالباری میں بھی دیکھا، علامہ وحید الزمان نے صفحہ: ۲۸۱، ۲۸۰ پر تحریر فرمایا ہے: “فاطمہ کی ناراضگی بمقتضائے صاحبزادگی تھی، اس کا کوئی علاج نہ تھا۔” یہ عبارت میں نہیں سمجھا کہ جناب کیا کہنا چاہتے ہیں۔ اس کے آگے انہوں نے طویل کلام کیا ہے جو کہ غیرمتعلق اور بے معنی ہے، چونکہ ابوبکر نے فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق کیا، یہ فیصلہ ان کا اپنا نہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ تھا، پھر ابوبکر سے ناراضگی کیا معنی؟ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی، اسی حدیث میں آگے دیکھیں: “حضرت فاطمہ کی حیات میں حضرت علی کو لوگوں میں وجاہت حاصل تھی، جب حضرت فاطمہ کا انتقال ہوگیا، حضرت علی نے لوگوں کا رخ پھرا ہوا پایا تو حضرت ابوبکر سے صلح اور بیعت کی درخواست کی۔” گویا یہ صلح اور بیعت بحالت مجبوری قبول فرمائی اور جو مقام حضرت علی کو صحابہ کے درمیان حاصل تھا وہ جناب کی ذاتی وجاہت و لیاقت کی وجہ سے نہ تھا بلکہ صحابہ حضرت فاطمہ کا لحاظ کرتے ہوئے ان کو اہمیت دیتے تھے۔ ان کی وفات پر حضرت علی نے وہ مقام کھودیا، جب تک لوگوں نے نگاہیں نہ پھیریں وہ نہ تو صلح پر آمادہ ہوئے اور نہ بیعت پر، انا لله وانا الیہ راجعون! پھر راضی بھی ہوئے تو شرائط لگاتے ہیں کہ تنہا آئیے، آخر عمر کیا کوئی مقام نہیں رکھتے تھے؟ کیا عمر کوئی کم حیثیت کے آدمی تھے؟ ابوبکر کی افضلیت تسلیم، کیا عمر کی خدمات، ان کا ایمان، ان کا اسلام کوئی اور مثال آپ پیش کرسکتے ہیں؟ جو کچھ اسلام کے لئے عمر نے کیا، کیا آپ ایک دوسرا نام لے سکتے ہیں؟ خود اسی حدیث میں حضرت علی اس بات کا اقرار فرما رہے ہیں کہ: “قرابت کی وجہ سے وہ خلافت کو اپنا حق سمجھتے رہے ہیں۔”
کیا اس مقصد کے حصول کے لئے جنگِ صفین برپا نہیں کی گئی؟ “عراقی” اور “عجمی” جو کہ شیعانِ علی کہلائے “شامیوں” اور عربوں سے کس لئے دست و گریباں کئے گئے؟ وہ بھی ایسے وقت میں جبکہ حضرت امیرمعاویہ کو رومیوں سے جنگ درپیش تھی، کیا حضرت علی کے یہ عجمی اور عراقی شیعان وہی لوگ نہیں تھے جو قتل عثمان کے ہیرو ہونے پر ناز کرتے تھے، ان ہی لوگوں نے حضرت علی کو خلافت دلوائی اور مجبور کیا کہ مسلمانوں کی صفوں کو درہم برہم کریں، مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنے کا پہلا کامیاب کارنامہ یہی انجام دیا گیا، آخر چنگیزخان، نپولین اور اس قبیل کے اور لوگوں کے حالات بھی تو ہیں، حالانکہ یہ لوگ کافر تھے پھر بھی ایسے غافل اور بے بس نہ تھے کہ کسی اہم شخصیت کے قتل کے سلسلہ میں یہ نہ معلوم کرسکیں کہ قاتل کون ہے؟ خود جن سپاہیوں کے ساتھ میدانِ کارزار میں مصروف ہوں ان کے متعلق ہی نہ جانتے ہوں کہ کس قماش کے لوگ ہیں؟ انگریزوں اور فرانسیسیوں کی صدیوں پرانی دشمنی کسی سے پوشیدہ نہیں، لائف آف نپولین کا مصنف ایک انگریز ہے، جس نے اعتراف کیا ہے کہ اسے اپنے ایک ایک سپاہی کا نام یاد رہتا تھا، اور صرف ایک نپولین ہی نہیں، بے شمار مشاہیر ایسے گزرے ہیں، اور آپ بھی بخوبی علم رکھتے ہیں کہ اپنی سلطنت کے گوشے گوشے کے حالات سے کیسے باخبر رہتے تھے، وقتی ذہول اور اجتہادی غلطی آخر کہاں کہاں اور کب تک ساتھ دے گی؟ جس شخص کے تدبر کا یہ عالم ہو کہ اپنے حقیقی بھائی تک کو اپنا موافق نہ بناسکے اور جب حضرت عقیل ان سے ناراض ہوکر معاویہ کے پاس گئے تو کیا ہوا؟ اور یہ سلسلہ کب صفین کے بعد ختم ہوگیا تھا؟ “بنو امیہ” اور “بنو عباس” کے ادوار میں “علوی” اور “عباسی” خروج ایک دو تو نہیں کہ کسی سے پوشیدہ ہوں، ایک خط میں یہ سب بیان غیرممکن ہے۔
اس میں شک نہیں کہ شاہ ولی اللہ نے ازالة الخفاء میں حضرت علی کے مناقب بے شمار بیان کئے ہیں (حالانکہ ابوبکر، عمر، عثمان کے دورِ خلافت میں اسلام کو جو فروغ حاصل ہوا، طرزِ حکومت، معاشرت غرضیکہ ہر قسم کی تفصیل ہے جو انہوں نے لکھی) اس کے علاوہ اور لکھ بھی کیا سکتے تھے؟ پھر شاہ ولی اللہکا ماخذ زیادہ تر “ریاض النضرة للمحب الطبری” ہی رہا، نہایت کثرت سے موضوع اور ضعیف روایتیں مذکور ہیں، اور جہاں تک میرا حافظہ کام کرتا ہے ان صاحب نے اور تاریخ اسلام کے موٴلف نجیب خیرآبادی نے بھی حضرت علی کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا بلکہ تینوں کی خلافت کے حالات تحریر کرنے کے بعد باب اس عنوان سے قائم کیا ہے: “حضرت علی بحیثیت گورنر کوفہ”۔
میرا خیال تھا کہ عمر کی تقریر پر علامہ عینی کا خیال بھی دیکھوں، لیکن گناہ گار ابھی تک ایسا نہ کرسکا، ہاں فتح الباری کی ۷ویں جلد کے ۱۴، ۱۵ صفحہ پر یہ بحث ہے، وہاں تین احادیث کا حوالہ موجود ہے:
۱:…عمر بن شبة من طریق ابی البختری علی سبیل المیراث (نسائی)۔
۲:…بلکہ نسائی میں بھی من طریق عکرمہ علی سبیل الولایة کا حوالہ ہے۔
۳:…اور بطور والی کے مطالبہ کے، سلسلہ ابوداوٴد کی حدیث کا بھی ذکر ہے، بہرحال نسائی جیسا کہ آپ کے بھی علم میں ہے حدیث کے معاملہ میں بخاری سے بھی سخت تھے، ان تینوں احادیث کی روشنی میں ہی کوئی رائے درست ہوسکتی ہے۔ اس سلسلہ میں ایک بات یہ واضح فرمادیں کہ کیا بات مانع تھی کہ حضرت علینے کسبِ معاش کی طرف کوئی توجہ نہ دی، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرف امت کو راغب فرماتے تھے، جب مطالبہ نکاح کا فرمایا تو کچھ نہ تھا کہ زرہ بیچ دی گئی، آگے فاطمہ کو ہی نہیں، رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اذیت دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن کی بیٹی سے نکاح فرمانے کا ارادہ کرتے ہیں، نکاح تو خیر چار تک ہوسکتے ہیں لیکن ایسا شخص جو ایک بیوی کی کفالت اور خود اپنی کفالت نہ کرسکے کیا اسے بھی اجازت ہے کہ نکاح پر نکاح کرتا چلا جائے؟ کتب احادیث میں وقتی طور پر صرف دو کام کرتے نظر آتے ہیں، یہودی کے باغ میں پانی دینا یا پھر ایک مرتبہ گھاس کاٹنا ․․․․․
والسلام، محمد ظہور الاسلام
الجواب
بسم الله الرحمن الرحیم
الحمدلله وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی
مخدم و مکرم، زیدت عنایاتہم، السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ!
یہ ناکارہ قریباً دو مہینے کے بعد اپنے دفتر میں حاضر ہوسکا، پھر جمع شدہ کام کے ہجوم نے جناب کا گرامی نامہ اٹھاکر دیکھنے کی بھی مہلت نہ دی، آج ذرا سانس لینے کا موقع ملا تو آپ کا خط لے کر بیٹھ گیا ہوں، تفصیل سے لکھنے کا موقع اب بھی نہیں، تاہم مختصراً لکھتا ہوں۔
خط کے مندرجات پر غور کرنے سے پہلے بلاتکلف مگر خیرخواہانہ عرض کرتا ہوں کہ روافض کی چیرہ دستیوں کے ردعمل کے طور پر ہمارے بہت سے نوجوان، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے نقائص و عیوب تلاش کرنے لگے ہیں، اور چونکہ علمی اشکالات تو ہر جگہ پیش آتے ہیں، اس لئے جس طرح روافض حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کے بارے میں کچھ نہ کچھ تلاش کرتے رہتے ہیں، اسی طرح ہمارا یہ نوجوان طبقہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ ڈھونڈتا رہتا ہے، اور چونکہ دل میں کدورت و نفرت کی گرہ بیٹھ گئی ہے، اس لئے انہیں ان اشکالات کے علمی جواب سے بھی شفا نہیں ہوتی․․․ حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ باتفاق اہل سنت خلیفہ راشد ہیں، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بے شمار فضائل بیان فرمائے ہیں، علاوہ ازیں خود حضرات شیخین رضی اللہ عنہما نے مدة العمر ان سے محبت و اکرام کا برتاوٴ کیا ہے، گویا ہمارے جوشیلے نوجوان، رفض کے ردعمل کے طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جو نقائص چن چن کر جمع کرتے ہیں، وہ نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک لائق توجہ تھے، نہ حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کی نظر میں، اور نہ اکابر اہل سنت کی نظر میں۔ اب ان اشکالات کے حل کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ ان مزعومہ نقائص کا ایک ایک کرکے جواب دیا جائے، یہ طریقہ طویل بھی اور پھر شفا بخش بھی نہیں، کیونکہ فطری بات ہے کہ جس شخص سے نفرت و عداوت کی گرہ بیٹھ جائے اس کی طرف سے خواہ کتنی ہی صفائی پیش کی جائے، تکدر نہیں جاتا۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرات شیخین رضی اللہ عنہما اور اکابر اہل سنت رحمہم اللہ پر اعتماد کرکے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اپنا محبوب و مطاع سمجھا جائے، اور ان کے بارے میں جو اشکالات پیش آئیں انہیں اپنے فہم کا قصور سمجھا جائے، بلکہ ان اشکالات پر حتی الوسع توجہ ہی نہ کی جائے۔ اس ناکارہ کے نزدیک یہی آخر الذکر طریق پسندیدہ اور اسلم ہے، ان دونوں صورتوں کی مثال ایسی ہے کہ گھر کے صحن میں خس و خاشاک پڑے ہوں اور آدمی ان سے گھر کی صفائی کرنا چاہتا ہو تو ایک صورت تو یہ ہے کہ ایک ایک تنکے کو اٹھاکر باہر پھینکے، ظاہر ہے اس میں وقت بھی زیادہ صرف ہوگا مگر پوری صفائی پھر بھی نہیں ہوگی، اور دوسری صورت یہ ہے کہ جھاڑو لے کر تمام صحن کو صاف کردے، اس میں وقت بھی زیادہ نہیں لگے گا اور صفائی بھی دیدہ زیب ہوجائے گی۔ پس میرے نزدیک موٴخر الذکر طریق ہی ایسی جھاڑو ہے جس سے شکوک و شبہات کے تمام خس و خاشاک سے سینہٴ موٴمن کو پاک و صاف کیا جاتا ہے۔ یہ روایات جن کی بنیاد پر اشکالات کئے جارہے ہیں، ہمارے اکابر اہل سنت کی نظروں سے اوجھل نہیں تھیں، لیکن ان کے سینہٴ بے کینہ میں حضرت علی یا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کی جانب سے کبھی میل نہیں آیا، اور نہ کسی نے ان بزرگوں پر زبانِ طعن کھولی، جی چاہتا ہے کہ ہم آپ بھی بس یہی طریق اپنائیں۔
اسی ضمن میں ایک اور ضروری گزارش کرنے کو بھی جی چاہتا ہے، وہ یہ کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو جو زمانہ ملا وہ احادیثِ طیبہ کی اصطلاح میں “فتنہ کا دور” کہلاتا ہے، اور “فتنہ” کی تعریف ہی یہ ہے کہ اس میں صورت حال مشتبہ ہوجاتی ہے اور کسی ایک جانب فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہی اشکال پیش آیا، کچھ حضرات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، کچھ ان کے مقابل، کچھ غیرجانبدار، اپنے فہم و اجتہاد کے مطابق جس فریق نے جس پہلو کو راجح اور قرب الی الصواب سمجھا، اسے اختیار فرمایا، اور ہر فریق اپنے اجتہاد پر عنداللہ ماجور ٹھہرا۔ کیونکہ ان میں سے ہر شخص عنداللہ اپنے اجتہاد پر عمل کرنے کا مکلف تھا اور ہر ایک رضائے الٰہی میں کوشاں تھا۔ جب فتنہ کا یہ غبار بیٹھ گیا تو اکابر اہل سنت نے اس فتنہ کی تفصیلات میں غور و فکر اور کرید کرنے کو پسند نہیں فرمایا، بلکہ ایک مختصر سا فیصلہ محفوظ کردیا کہ اس دور میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ خلیفہ راشد تھے اور وہ حق پر تھے، باقی حضرات اپنے اپنے اجتہاد کی بنا پر معذور و ماجور ہیں ․․․․․․ اب ہمارے نوجوان نئے سرے سے اس دور کی تفصیلات کو کھنگال کر ان اکابر کے بارے میں “بے لاگ فیصلے” فرمانے بیٹھے ہیں، خود ہی انصاف کیجئے کہ جن اکابر کے سر سے یہ سارے واقعات گزرے، جب وہی اس میں چکرا گئے تھے اور ان کو صورت حال کا تجزیہ کرکے فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا تھا تو آج چودہ صدیوں کے بعد میں اور آپ، کتابیں پڑھ پڑھ کر فیصلے کرنے بیٹھ جائیں تو کیا کسی صحیح نتیجہ پر پہنچنے کی توقع کی جاسکتی ہے․․․؟ کم از کم اس ناکارہ کی نظر میں تو یہ بالکل ناممکن ہے اور اس سے سوائے فکری انتشار اور دلوں کی کجی کے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ پھر یہ کارِ عبث بھی ہے، نہ تو قبر میں ہم سے یہ پوچھا جائے گا کہ تم نے ایامِ فتنہ کے واقعات میں کیوں غور و خوض نہیں کیا تھا؟ اور نہ حشر میں ہمیں یہ زحمت دی جائے گی کہ تم ان اکابر کے درمیان فیصلہ کرو اور ہر ایک کی فرد جرم (نعوذ باللہ!) مرتب کرو۔ پس ایک ایسی عبث چیز جس میں بحث و تمحیص کا کوئی نتیجہ متوقع نہ ہو بلکہ اس سے دامنِ ایمان کے تار تار ہونے کا خطرہ لاحق ہو، اس میں وقتِ عزیز کو کھونا اور اپنی توانائیاں صرف کرنا کہاں تک صحیح ہوگا؟ اس لئے میرا ذوق یہ ہے اور اسی کا آپ کو بلاتکلف مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ ان چیزوں میں اپنا وقت ضائع نہ کیا جائے، بلکہ اہل سنت کے عقیدہ کے مطابق تمام اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کا احترام ملحوظ رکھا جائے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو ان کے دورِ خلافت میں تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا سرتاج سمجھا جائے اور اس سلسلہ میں اگر کوئی اشکال سامنے آئے تو اسے اپنے فہم کا قصور تصور کیا جائے۔ ان اکابر کے حق میں لب کشائی نہ کی جائے․․․ ہاں! اگر کوئی شخص روافض و خوارج کی طرح، اہل سنت کی تحقیق ہی کو صحیح نہیں سمجھتا اور بزعم خود گزشتہ تمام اکابر سے بڑھ کر اپنے آپ کو محقق سمجھتا ہے، اس کے لئے یہ تقریر کافی نہیں، مگر خدا نہ کرے کہ ہم آپ یہ راستہ اختیار کریں، اس بے تکلف گزارش کے بعد اب میں جناب کے خط کے مندرجات پر بہت اختصار کے ساتھ کچھ لکھتا ہوں۔
۱:…طلبِ میراث کے سلسلہ میں میں نے دو جواب دئیے تھے۔ ایک یہ کہ یہ حضرات، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے فیصلے سے مطمئن ہوگئے تھے، جس کا قرینہ یہ ہے کہ وہ خود بھی حدیث: “لا نورث، ما ترکناہ صدقة” کو روایت فرماتے ہیں۔ میرے نزدیک یہی توجیہ راجح ہے اور روایات کے جن الفاظ سے اس کے خلاف کا وہم ہوتا ہے، وہ لائق تأویل ہیں۔ دوسرا جواب میں نے حاشیہ بخاری کے حوالے سے دیا تھا کہ اگر فرض کرلیا جائے کہ یہ حضرات، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رائے سے متفق نہیں ہوئے، تب بھی ان کے موقف میں کوئی علمی اشکال نہیں، بلکہ یہ حدیث کی توجیہ و تأویل کا اختلاف ہے، اور یہ محل طعن نہیں۔ قرآن و حدیث کے فہم میں مجتہدین کا اختلافِ رائے کبھی محل طعن نہیں سمجھا گیا، پس حدیث کی مراد میں اگر ان حضرات کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اختلاف ہوا اور اس ضمن میں شکوہ و شکایت کی نوبت بھی آئی ہو تو یہ ان حضرات کا آپس کا معاملہ تھا، مجھے اور آپ کو ان میں سے کسی ایک فریق سے شکوہ و شکایت کرنے کا کیا حق ہے جبکہ وہ آپس میں شیر وشکر تھے۔
۳:…علمائے اہل سنت کے نزدیک حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ناراض ہونے کی روایت راوی کی تعبیر ہے۔ حافظ نے عمر بن شبہ کی روایت نقل کی ہے: “فلم تکلمہ فی ذالک المال۔” کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے اس مال کے بارے میں پھر گفتگو نہیں کی۔ اس عدمِ تکلم کو ناراضی سمجھ لیا گیا اور پھر بیہقی رحمة اللہ علیہ نے امام شعبی رحمة اللہ علیہ سے بہ سند صحیح نقل کیا ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عیادت کے لئے تشریف لائے اور ان کو راضی کرلیا۔ پس یہ دونوں حضرات تو باہم راضی ہوگئے اور حق تعالیٰ شانہ بھی دونوں سے راضی ہوگئے۔ رضی اللہ عنہما۔ اب اگر روافض اس رضامندی کو تسلیم نہ کرکے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے راضی نہ ہوں یا ہم آپ جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ناراض ہوں تو اس سے نقصان کس کا ہوگا؟ ہمارا یا ان بزرگوں کا؟ اور اگر یہی فرض کرلیا جائے کہ وہ مرتے دم تک ناراض رہیں تو ان کی یہ ناراضی بھی للہ فی اللہ تھی، ان کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تاویل سے اختلاف تھا، گو ان کی رائے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں مرجوح ہو، مگر یہ ان کا اجتہاد تھا۔ اور انہوں نے جو کچھ کیا محض رضائے الٰہی کے لئے کیا۔ ادھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی جو موقف اختیار کیا محض رضائے الٰہی کے لئے، اور میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ اختلافِ رائے مخلصین کے درمیان بھی ہوسکتا ہے، اور ہوتا رہا ہے۔
۳:…”ان فاطمة ارسلت ․․․․․ الخ۔” میں “ارسلت” کا لفظ بصیغہ معروف پڑھا جائے، یعنی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیجا۔
۴:…حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ذاتی وجاہت بھی حاصل تھی، مگر وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سامنے مغلوب تھی، جس طرح چاند کے سامنے ستارے مغلوب ہوتے ہیں، لیکن حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی حیات میں ان کو دوہری وجاہت حاصل تھی، ان کے وصال کے بعد یہ دوسری وجاہت نہیں رہی۔ اور قدرتی طور پر حضرات شیخین کی موجودگی میں ان کی طرف لوگوں کا رجوع کم تھا، اس سے یہ سمجھ لینا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی نظر میں ان کی کوئی وقعت نہیں تھی، غیرمنطقی بات ہے۔ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ خود چل کر ان کے درِ دولت پر تشریف لے جاتے ہیں تو ان کی عظمت و وجاہت کے لئے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں، کیا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے اس طرز عمل کے بعد بھی مجھے اور آپ کو حق پہنچتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی حمایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بے وقعتی کریں؟
۵:…حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بیعتِ خلافت ثقیفہ بنی ساعدہ میں اچانک ہوئی تھی اور اس سلسلہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور دیگر اکابر بنوہاشم کو شریکِ مشورہ کرنے کا موقع نہیں ملا تھا، جس کا انہیں طبعی رنج تھا، ان اکابر کو اس پر اعتراض نہیں تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کیوں خلیفہ بنایا گیا؟ البتہ انہیں دوستانہ شکوہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کو اتنا غیراہم کیوں سمجھ لیا گیا کہ ان سے مشورہ بھی نہ لیا جائے۔ پس ایک تو صدمہ سانحہٴ نبوی کی وجہ سے، دوسرے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مرض کی وجہ سے اور تیسرے اس رنج کی وجہ سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ اکثر گوشہ گیر رہتے تھے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کچھ کھنچے کھنچے سے رہتے تھے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی حیات میں بھی لوگ اس کھنچاوٴ کو محسوس کرتے تھے، مگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے صدمہ، ان کے مرض اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مشغولی کے پیش نظر لوگوں کی ہمدردیاں ان کے ساتھ تھیں، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سانحہٴ وصال کے بعد اس صورت حال میں تبدیلی ناگزیر تھی۔ دوسرے حضرات کی بھی خواہش تھی کہ اس کھنچاوٴ کی سی کیفیت کو ختم کردیا جائے، اور خود حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی یہی چاہتے تھے، مگر شاید وہ منتظر تھے کہ روٹھے ہووٴں کو منانے میں پہل دوسری طرف سے ہو، بالآخر حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فیصلہ کرلیا کہ اس جمود کی سی کیفیت کو ختم کرنے میں وہ خود پہل کریں گے۔ اس کے لئے انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلابھیجا، جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے، کم از کم اس ناکارہ کو تو اس میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آتی جسے لائق اعتراض قرار دیا جائے۔ انسانی نفسیات کا مطالعہ واضح کرتا ہے کہ ایسے طبعی امور میں رنج و شکوہ ایک فطری بات ہے، اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا اس صورت حال کو ختم کرنے میں پہل کرنا اس ناکارہ کے نزدیک تو ان کی بہت بڑی منقبت ہے، اور خود حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی ان کو “مجبوری” کا طعنہ نہیں دیا، جو آپ دے رہے ہیں، بلکہ جیسا کہ اسی روایت میں ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تقریر سن کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رونے لگے، گویا ان کے طبعی شکوہ و رنج کو قبول فرمایا، اس کے بعد کیا میرے، آپ کے لئے رَوا ہوگا کہ اس واقعہ کو بھی نعوذ باللہ! ان اکابر کے جرائم و عیوب کی فہرست میں شامل کرکے ان پر لب کشائی کریں؟ نہیں! بلکہ ہمارا فرض تو یہ بتایا گیا ہے کہ ہم یہ کہیں: “ربنا اغفر لنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان ولا تجعل فی قلوبنا غلا للذین اٰمنوا، ربنا انک روٴف رحیم۔”
۶:…جہاں تک آپ کے اس اعتراض کا تعلق ہے کہ اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کیوں ساتھ آنے سے منع کیا؟ اس کے بارے میں گزارش ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ، مجھ، آپ سے زیادہ جانتے تھے، کتبِ حدیث میں حضرت عمر کے جو فضائل و مناقب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی روایت سے مروی ہیں، اس سلسلہ میں ان کا مطالعہ کافی ہے۔
اس موقع پر چونکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اپنے رنج و شکوہ کا اظہار کرنا تھا، وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے تحمل و بردباری سے واقف تھے، اس لئے ان کو یقین تھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تو ان کے شکوہ شکایت کو سن کر تحمل و متانت سے جواب دے دیں گے، اور اشک شوئی فرمائیں گے، کوئی اور ساتھ ہوا تو ایسا نہ ہو کہ شکووں کے جواب میں وہ بھی شکوہ و شکایت کا دفتر کھول بیٹھے، اور نوبت تو تو میں میں تک آپہنچے۔ اس لئے انہوں نے درخواست کی کہ تنہا تشریف لائیے تاکہ جن دو شخصوں کا معاملہ ہے وہ اندرون خانہ بیٹھ کر تنہا ہی نمٹالیں، کسی تیسرے کو مداخلت کی ضرورت نہ پڑے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو آنے سے انہوں نے منع نہیں کیا، بلکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے تنہا تشریف لانے کی درخواست کی، اور ان دونوں تعبیروں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اور اگر بالفرض وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ساتھ لانے سے منع کردیتے تب بھی کوئی اعتراض کی بات نہیں تھی، نہ اس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت و منقبت اور اہمیت کا انکار لازم آتا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت و اہمیت مسلّم، لیکن جب ان سے کوئی گلہ شکوہ ہی نہیں، نہ کوئی جھگڑا، تو اگر ان کی مداخلت کو بھی قرین مصلحت نہ سمجھا گیا ہو تو مجھے، آپ کو کیوں شکایت ہو؟ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سختی تو ضرب المثل ہے، اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف فرما ہوتے تو ممکن تھا کہ ان کے کسی شکوہ کو نادرست سمجھتے ہوئے سختی سے اس کی تردید فرماتے، اور گفتگو بجائے مصالحت کے مناظرہ کا پہلو اختیار کرجاتی۔ اس لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بلیغ اصرار کے باوجود حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کا ساتھ جانا قرین مصلحت نہیں سمجھا، اور اسی کی نظیر ثقیفہ بنی ساعدہ کا واقعہ ہے کہ وہاں بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خود تقریر فرمانا بہتر سمجھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تقریر کی اجازت نہیں دی۔ بعض دفعہ ایک بات بالکل حق ہوتی ہے لیکن انداز بیان میں سختی آجانے سے اس کی افادیت کم ہوجاتی ہے، مصالحت کے مواقع میں اگر آدمی پورا تولنے بیٹھ جائے تو کبھی صلح نہیں ہوپاتی، بلکہ بعض اوقات معمولی بات سے بنا بنایا کھیل بگڑ جاتا ہے۔ بہرحال اس مصالحتی موقع پر کسی تیسرے کا آنا نہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قرین مصلحت سمجھا، اور نہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے۔ اس سے اگر ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے بیٹھ جائیں تو یہ ہماری خوش فہمی ہوگی کہ ان اکابر کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے نفرت تھی، یا ان کی نظر میں ان کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔
۷:…آپ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ: “قرابت کی وجہ سے وہ خلافت کو اپنا حق سمجھتے رہے ہیں۔” یہ فقرہ شاید جناب نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اس تقریر سے اخذ کیا ہے جو انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سامنے کی تھی، اس کا پورا متن حسبِ ذیل ہے:
“فتشھد علی بن ابی طالب ثم قال: انا قد عرفنا یا ابابکر فضیلتک وما اعطاک الله ولم ننفس علیک خیرا ساقہ الله الیک ولٰکنک استبددت علینا بالامر وکنا نحن نری لنا حقا لقرابتنا من رسول الله صلی الله علیہ وسلم فلم یزل یکلم ابابکر حتی فاضت عینا ابی بکر۔” (صحیح مسلم ج:۲ ص:۹۱)
ترجمہ:…”حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حمد و صلوٰة کے بعد کہا کہ: اے ابوبکر! ہم آپ کی فضیلت کے اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا ہے، اس کے معترف ہیں۔ اور اس خیر پر ہمیں کوئی رشک و حسد نہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے حوالے کردی ہے، لیکن ہمیں شکوہ ہے کہ آپ نے معاملہ ہم سے بالا بالا طے کرلیا جبکہ ہمارا خیال یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت کی بنا پر ہم بھی اس معاملہ میں کچھ حق رکھتے تھے۔ پس حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے آنسو بہ نکلے۔”
حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے اس خطبہ میں کوئی ایسی بات نہیں جس کا یہ مفہوم ہو کہ وہ خلافت کو اپنا حق سمجھتے تھے، بلکہ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ہمارا خیال تھا کہ یہ معاملہ ہمارے بغیر طے نہیں ہوگا، قرابتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے اس سلسلہ میں ہم سے مشورہ ضرور لیا جائے گا، لیکن آپ حضرات نے معاملہ بالا بالا ہی طے فرمالیا اور ہمیں حق رائے دہی کا موقع ہی نہیں دیا، چنانچہ امام نووی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
“وکان سبب العتب انہ مع وجاھتہ وفضیلتہ فی نفسہ فی کل شیء وقربہ من النبی صلی الله علیہ وسلم وغیر ذالک رأی انہ لا یستبدا بامر الا بمشورتہ وحضورہ وکان عذر ابی بکر وعمر وسائر الصحابة واضحا لانھم راوٴا المبادرة بالبیعة من اعظم مصالح المسلمین وخافوا من تأخیرھا حصول خلاف ونزاع تترتب علیہ مفاسد عظیمة ․․․․․الخ۔”
(شرح مسلم ج:۲ ص:۹۱)
ترجمہ:…”حضرت علی رضی اللہ عنہ کے رنج و شکوہ کا سبب یہ تھا کہ اپنی ذاتی وجاہت اور ہر معاملہ میں اپنی فضیلت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی قرابت اور دیگر امور کی بنا پر یہ سمجھتے تھے کہ امرِ خلافت ان کے مشورہ و حاضری کے بغیر طے نہیں ہوگا۔ ادھر حضرت ابوبکر و عمر اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عذر واضح ہے کہ انہوں نے بیعت کے معاملہ میں جلدی کو مسلمانوں کی سب سے بڑی مصلحت سمجھا، اور اس کی تأخیر میں خلاف و نزاع کے اٹھ کھڑے ہونے کا اندیشہ کیا، جس پر مفاسدِ عظیمہ مرتب ہوسکتے تھے۔”
الغرض حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی تقریر میں جس حق کو ذکر فرما رہے ہیں، اس سے یہ مراد نہیں کہ وہ اپنے تئیں خلافت کا ابوبکر سے زیادہ مستحق سمجھتے تھے، بلکہ اس حق سے مراد حق رائے دہی ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ اپنی حیثیت و مرتبہ کے پیش نظر وہ امرِ خلافت میں رائے دہی کے سب سے زیادہ مستحق تھے اور ان کا یہ شکوہ اپنی جگہ درست اور بجا تھا کہ ان سے کیوں مشورہ نہیں لیا گیا، یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کے اس شکوہ کی تردید نہیں فرمائی، بلکہ اپنا عذر پیش کیا۔ بہرحال حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس فقرہ سے استحقاقِ خلافت کا دعویٰ یا تو روافض نے سمجھا اور اس کی بنیاد پر حضراتِ شیخین اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو نشانہٴ طعن بنایا، یا پھر آنجناب نے اسی نظریہ کو لے کر الٹا استعمال کیا، اور اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عیوب میں شامل کرلیا، اہل سنت اس فقرے کا وہی مطلب سمجھتے ہیں جو اوپر امام نووی کی عبارت میں گزر چکا ہے۔
۸:…جناب کا فقرہ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ:
“کیا اس مقصد کے حصول کے لئے “جنگِ صفین” برپا نہیں کی گئی؟ عراقی اور عجمی جو کہ شیعانِ علی کہلائے، شامیوں اور عربوں سے کس لئے دست و گریباں کئے گئے؟ وہ بھی ایسے وقت میں جبکہ حضرت امیر معاویہ کو رومیوں سے جنگ درپیش تھی ․․․․․․․
اہل حق نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان کے دورِ خلافت میں خلیفہ برحق اور خلیفہ راشد سمجھا ہے، اور یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے ارشادات کی بنا پر اہل سنت کے عقائد میں داخل ہے، اس لئے ہمیشہ حضراتِ اہل سنت نے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عذر کو واضح کیا ہے جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بالمقابل صف آراء ہوئے، لیکن جناب کی تحریر سے مترشح ہوتا ہے کہ نعوذ باللہ! حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ جائر تھے، جنہوں نے ہوسِ اقتدار کی خاطر ہزاروں مسلمانوں کو کٹوادیا۔ گویا جناب کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت سے بھی انکار ہے، جس کی آگے چل کر جناب نے یہ کہہ کر قریب قریب تصریح کردی ہے کہ:
“جہاں تک میرا حافظہ کام کرتا ہے ان صاحب نے اور تاریخ اسلام کے موٴلف نجیب خیرآبادی نے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا، بلکہ تینوں کی خلافت کے حالات تحریر کرنے کے بعد باب اس عنوان سے قائم کیا ہے: حضرت علی بحیثیت گورنر کوفہ۔”
اگر جناب اہل سنت کے عقیدہ کے علی الرغم حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو خلیفہ راشد ہی تسلیم نہیں کرتے تو مجھے جنگِ صفین وغیرہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے موقف کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہئے، بلکہ خود اسی مسئلہ پر گفتگو ہونی چاہئے کہ اہل سنت کا عقیدہ و نظریہ صحیح ہے یا نعوذ باللہ! غلط؟ لیکن اگر آپ اہل سنت کے عقائد و نظریات کو برحق سمجھتے ہیں اور ان کے مطابق حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو خلیفہ راشد جانتے ہیں تو آپ خود ہی انصاف کیجئے کہ خلیفہ راشد کو بغاوت رونما ہونے کی صورت میں کیا کرنا چاہئے تھا․․․؟
جہاں تک عراقیوں اور عجمیوں کو شامیوں اور عربوں سے دست و گریباں کرانے کا تعلق ہے، یہ عراقی و شامی اور عربی و شامی کی تفریق حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ذہن میں نہیں تھی، ان کے سامنے صرف مطیع و غیرمطیع کا سوال تھا، خواہ کوئی ہو، انہیں نہ شامیوں کے شامی اور عربوں کے عرب ہونے کی وجہ سے ان سے کوئی پرخاش تھی، اور نہ عراقیوں اور عجمیوں سے محض ان کے عراقی یا عجمی ہونے کی بنا پر کوئی انس تھا۔ یہ تفریق ہی “عصبیتِ جاہلیت” ہے، جو میرے، آپ کے ذہن میں تو آسکتی ہے، لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا دامنِ ذہن ان داغ دھبوں سے آلودہ نہیں تھا، وہ واقعتا خلیفہ راشد تھے، ان کی حمایت میں صحابہ بھی تھے اور تابعین بھی، عرب بھی تھے اور عجمی بھی، “شیعانِ علی” کی اصطلاح ان کے زمانہ کی نہیں تھی، بلکہ بعد کی پیداوار ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ جاکر وہاں کی گورنری کا منصب نہیں سنبھالا تھا، بلکہ مدینہ طیبہ سے خلیفہ بن کر گئے تھے، اور مہاجرین و انصار نے ان سے بیعتِ خلافت کی تھی، بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جن چھ اکابر کو خلافت کے لئے نامزد کیا تھا، ان میں صرف حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما ہی کا نام باقی رہ گیا تھا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد وہ خودبخود مستحقِ خلافت رہ گئے تھے، اس لئے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی کے نامزد کردہ خلیفہ تھے۔
۹:…آپ نے یہ شبہ بھی کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قاتلینِ عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص کیوں نہیں لیا؟ اور آپ نے ان کو مغفل ثابت کرنے کے لئے خاصا زورِ قلم صرف کیا ہے، یہ شبہ آج کل بہت سے عنوانات سے بار بار دہرایا جاتا ہے۔ مجھے صفائی سے یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ ایک عرصہ تک میں خود بھی اس وسوسہ کا مریض رہا ہوں، مگربحمداللہ! یہ وسوسہ محض وسوسے کی حد تک رہا۔ میں نے کبھی اس وسوسہ کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر نکتہ چینی کا ذریعہ نہیں بنایا اور نہ اس کی وجہ سے حضرت موصوف سے محبت و عقیدت میں رتی برابر کوئی فرق آیا، بلکہ جب بھی یہ وسوسہ آیا فوراً یہ خیال آتا رہا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ جنہوں نے تیٴس برس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی ہے، جنہیں لسانِ نبوت نے: “یحب الله ورسولہ ویحبہ الله ورسولہ۔” (صحیح بخاری و مسلم و ترمذی، مشکوٰة ص:۵۶۶) کا اعلیٰ ترین تمغہ مرحمت فرمایا، جنہیں پیچیدہ ترین مسائل میں صحیح فیصلہ کرنے کی سند: “اقضاھم علی” (ترمذی، مشکوٰة ص:۵۶۶) کہہ کر عطا فرمائی اور ․․․ “اللّٰھم ادر الحق معہ حیث دار” (ترمذی، مشکوٰة ص:۵۶۷) کی دعا دے کر حق کو ان کے ساتھ اور ان کو حق کے ساتھ دائر و سائر کردیا، وہ علم و دانش، دیانت و امانت، طہارت و تقویٰ اور مقاصدِ شریعت کے فہم و بصیرت میں مجھ نالائق و بدکار سے تو بہرحال فائق ہی تھے۔
(واقعہ یہ ہے کہ یہ ناکارہ اب تو اس خیال کو بھی گستاخی اور سوءِ ادب سمجھتا ہے اور اس پر سو بار استغفار کرتا ہے، کہاں حضرت علی اور کہاں مجھ ایسے ٹٹ پونجیے: “چہ نسبت خاک را با عالم پاک۔”)
پس انہوں نے وفورِ علم و تقویٰ، کمالِ خشیت و انابت اور خدا اور رسول سے محبت و محبوبیت کے باوصف جو کچھ کیا وہ عین تقاضائے شریعت و تقویٰ ہوگا۔ اور اگر ان کا موقف مجھ نالائق کو سمجھ میں نہ آئے تو ان پر اعتراض کا موجب نہیں بلکہ اپنی بدفہمی لائقِ ماتم ہے۔ الغرض اس وسوسہ کو ہمیشہ اپنی نالائقی و کم فہمی پر محمول کیا، تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے دستگیری فرمائی اور اس وسوسے سے نجات دلائی، فلہ الحمد ولہ الشکر!
اس شبہ کا حل یہ ہے کہ جن لوگوں نے خلیفہٴ مظلوم حضرت عثمان شہید رضی اللہ عنہ و ارضاہ کے خلاف یورش کی اور آپ کے مکان کا محاصرہ کیا، فقہ اسلامی کی رو سے ان کی حیثیت باغی کی تھی، پھر ان کی دو قسمیں تھیں، ایک وہ لوگ جنہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کرکے اپنی دنیا و عاقبت برباد کی، اور دوسرے وہ لوگ جن کا عمل صرف محاصرے تک محدود رہا۔ اول الذکر فریق میں چھ نام ذکر کئے جاتے ہیں: ۱:محمد بن ابی بکر۔ ۲:عمرو بن حمق۔ ۳:کنانہ بن بشیر۔ ۴:غافقی۔ ۵:سوران بن حمران۔۶:کلثوم بن تجیب۔ مگر قاتلینِ عثمان میں اول الذکر دونوں صاحبوں کا نام لینا قطعاً غلط ہے، کیونکہ محمد بن ابی بکر کے بارے میں تو تصریح موجود ہے کہ جب انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی داڑھی پر ہاتھ ڈالا اور حضرت نے یہ فرمایا کہ: “بھتیجے! اگر تمہارے والد زندہ ہوتے اور وہ اس حرکت کو دیکھتے تو پسند نہ کرتے۔” تو یہ شرمندہ ہوکر پیچھے ہٹ گئے، اس کے بعد نہ صرف یہ کہ خود قتل میں شریک نہیں ہوئے، بلکہ دوسروں کو بھی روکنے کی کوشش کی، اور حضرت عمرو بن حمق رضی اللہ عنہ صحابی ہیں اور علمائے اہل سنت نے تصریح کی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کوئی اس گناہ میں شریک نہیں ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ محمد بن ابی بکر اور عمرو بن حمق کو قاتلینِ عثمان کی فہرست میں ذکر کرنا صحیح نہیں۔ رہے باقی چار اشخاص! ان میں سے موٴخر الذکر دونوں شخص موقع ہی پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے غلاموں کے ہاتھوں مارے گئے، اب صرف دو شخص رہ گئے! کنانہ بن بشیر اور غافقی، یہ دونوں موقع سے فرار ہوگئے، بعد میں یہ بھی مارے گئے۔ اس طرح قاتلینِ عثمان میں سے کوئی شخص ہلاکت سے نہیں بچا۔ رہا وہ فریق جس کا عمل محاصرے تک محدود رہا، اور انہوں نے خونِ عثمان سے ہاتھ رنگین نہیں کئے، ان کی حیثیت باغی کی تھی، خود حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی آخری لمحہ تک ان کے خلاف تلوار اٹھانے کی اجازت نہیں دی، اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے نئے خلیفہ کی اطاعت کرلی، انقیاد و اطاعت کے بعد محض بغاوت کے جرم میں کسی کو قتل کرنے کا کوئی شرعی جواز نہیں۔ بحرالرائق (ج:۵ ص:۱۵۳) میں ہے:
“وفی المحیط قال الباغی تبت والقی السلاح کف عنہ لان توبة الباغی بمنزلة الاسلام من الحربی فی افادة العصمة والحرمة۔”
ترجمہ:…”اور محیط میں ہے جب باغی کہے کہ میں توبہ کرتا ہوں اور ہتھیار ڈال دے تو اس سے ہاتھ روک لیا جائے گا، کیونکہ جس طرح حربی کافر اسلام لانے کے بعد معصوم الدم ہوجاتا ہے، اسی طرح باغی کے توبہ کرنے کے بعد اس کی جان و مال محفوظ ہوجاتے ہیں۔”
پس اطاعت و انقیاد کے بعد اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان باغیوں سے تعرض نہیں کیا تو یہ قواعدِ شرعیہ کے عین مطابق تھا۔
(یاد رہے کہ یہاں صرف حضرت علی کے موقف کی وضاحت کر رہا ہوں، جو اکابر صحابہ قصاص کا مطالبہ فرماتے تھے، وہ بھی اپنے علم و اجتہاد اور فہم و بصیرت کے مطابق اپنے موقف کو برحق سمجھتے تھے، اور وہ عنداللہ اپنے اجتہاد پر عمل کرنے کے مکلف تھے، ان کے موقف کی وضاحت کا یہ موقع نہیں۔)
اور ان پر ہماری نکتہ چینی دراصل باغیوں کے احکام کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے، اور جناب کا یہ فقرہ کہ: “وقتی ذہول اور اجتہادی غلطی آخر کہاں کہاں اور کب تک ساتھ دے گی؟” اس موقع پر قطعاً بے محل ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس سلسلہ میں نہ کوئی ذہول ہوا اور نہ انہوں نے یہاں کوئی اجتہادی غلطی کی، بلکہ پوری بیدار مغزی کے ساتھ اس پیچیدہ ترین مسئلہ میں ٹھیک منشائے شریعت کی تعمیل کی۔
۱۰:…جناب نے حضرت عقیل رضی اللہ عنہ کے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جاملنے کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عدمِ تدبر کی دلیل قرار دیا ہے، اور اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ جو شخص اپنے سگے بھائی کو اپنے موقف کا قائل نہ کرسکے اس کی بے تدبیری کا کیا ٹھکانا ہے․․․! جناب نے یہ لطیفہ سنا ہوگا کہ ایک صاحب (مجھے نام میں تردد ہے، کتاب اس وقت سامنے نہیں) کھانا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دسترخوان پر کھاتے تھے اور نماز حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پیچھے پڑھتے تھے، وجہ پوچھی گئی تو فرمایا: “کھانا ان کا لذیذ ہوتا ہے، اور نماز ان کی۔” واقعہ یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بیت المال کے معاملہ میں بہت ہی محتاط تھے، ان کے ہاں داد و دہش کی کوئی مد نہیں تھی، جبکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اس سلسلہ میں خاصے فراخ دل تھے، حضرت علی رضی اللہ عنہ زہد و تقویٰ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اور حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کے نقش قدم پر تھے، اور ان کے بلند ترین معیار پر پورا اترنا کسی اور کے بس کی بات نہ تھی، اس لئے حضرت عقیل رضی اللہ عنہ کا اپنے ماں جائے کو چھوڑ کر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس چلے جانا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب میں شمار کئے جانے کی چیز ہے کہ ان کے اعلیٰ ترین معیارِ تقویٰ کا ساتھ دینے سے ان کے سگے بھائی بھی قاصر تھے۔ لیکن کیا کیجئے! جس شخصیت سے الفت و محبت کا رشتہ نہ رہے اس کے محاسن بھی عیوب نظر آیا کرتے ہیں، عربی شاعر نے صحیح کہا ہے:
وعین الرضا عن کل عیب کلیلة
ولکن عین السخط تبدی المساویا
۱۱:…اموی اور عباسی دور میں وقتاً فوقتاً جو علوی و عباسی خروج ہوتے رہے، جناب نے ان کو بھی “عیوبِ علی” کے ضمن میں ذکر فرمایا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ ان “خروجوں” کا منشا کیا تھا؟ ان میں سے کون سے حق بجانب تھے اور کون سے ناحق؟ اور یہ کہ اس وقت کے اکابر امت نے ان خروجوں کے بارے میں کیا اظہارِ خیال فرمایا؟ میں آپ سے یہ دریافت کرنے کی گستاخی کروں گا کہ آپ نے ان خروجوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف مرتب کردہ “فردِ جرم” میں کیسے شامل فرمالیا؟ کیا بعد کے لوگوں کے قول و فعل کی، اگر وہ ناحق ہوں، ذمہ داری بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہی پر عائد ہوتی ہے؟ اگر کسی شخصیت کی طرف سے ہمارے دل میں خدانخواستہ میل ہے تو کیا ناکردہ گناہوں کو بھی اس کے کھاتے میں ڈال دینا چاہئے․․․؟
۱۲:…آنجناب لکھتے ہیں:
“اس میں شک نہیں کہ شاہ ولی اللہ نے ازالة الخفا میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مناقب بے شمار بیان کئے ہیں۔ حالانکہ ابوبکر و عمر و عثمان کے دورِ خلافت میں اسلام کو جو فروغ حاصل ہوا، طرزِ حکومت، معاشرت غرضیکہ ہر چیز کی تفصیل ہے، جو انہوں نے لکھی ہے ․․․․ کہ اس کے علاوہ اور لکھ بھی کیا سکتے تھے؟ پھر شاہ ولی اللہ کا مأخذ زیادہ تر “ریاض النضرة للمحب الطبری” رہا، جہاں نہایت کثرت سے موضوع اور ضعیف روایتیں مذکور ہیں۔”
یہ ناکارہ کند ذہن، جناب کے اس فقرے کا مدعا سمجھنے سے قاصر ہے، شاید آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حضرات خلفائے ثلاثہ (رضی اللہ عنہم) کے دور تو خدماتِ اسلامیہ سے بھرپور ہیں، مگر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا خانہ خدمات سے یکسر خالی ہے، ان کے پلّے فضائل و مناقب کے سوا کچھ نہیں، اور ان کے فضائل و مناقب کی روایتیں بھی چونکہ بیشتر محب طبری سے نقل کی گئی ہیں، اس لئے وہ من گھڑت اور ناقابل اعتبار حد تک ضعیف ہیں۔ گویا ان کے مناقب کی گاڑی بھی موضوع و منکر روایتوں ہی سے چلتی ہے، ورنہ وہ اس میدان میں بھی قریباً صفر ہیں۔ جہاں تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمات کا تعلق ہے (ان خدمات سے قطع نظر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کے دورِ مسعود میں ان سے ظہور پذیر ہوئیں) ان کے زمانہٴ خلافت کی خدمات بھی امت کے لئے مایہٴ صد سعادت ہیں۔ البتہ زمانے کے الوان مختلف ہونے کی وجہ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمات کا رنگ اور ہے، حضرات عمر و عثمان رضی اللہ عنہما کی خدمات کا اور، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمات کا اور․․․ ان امور کی تفصیل کے لئے حجة الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہ کے رسالہ “انتباہ الموٴمنین” کا مطالعہ مفید ہوگا۔ جس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ حق تعالیٰ شانہ نے خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم میں سے ہر ایک میں وہ خصوصیات ودیعت فرمائی تھیں جن کی ان کے دورِ خلافت میں ضرورت تھی۔ اس ناکارہ کا احساس یہ ہے․․․ اور انشاء اللہ یہ احساس غلط نہ ہوگا․․․ کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ملتا تو ان سے وہی کچھ ظہور پذیر ہوتا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر ہوا، اور اگر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا زمانہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیا جاتا تو وہ وہی کرتے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کیا۔ فتنوں کے پُرآشوب زمانے میں انہوں نے جس استقامت کا مظاہرہ کیا، اور قدم قدم پر مشکلات اور کانٹوں کے باوجود جادہٴ شریعت پر جس طرح مضبوطی کے ساتھ گامزن رہے، بعد کا کوئی شخص اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ یہ ان کا وہ کمال ہے جو ہزار خوبیوں پر بھاری ہے۔ پھر اہل فتنہ سے کیا معاملہ کیا جانا چاہئے؟ یہ علم صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ذریعہ امت کو حاصل ہوا، بلاشبہ ان کی خدمات فتنوں کے گرد و غبار میں دب کر رہ گئی ہیں، اس لئے ظاہر بینوں کو وہ نظر نہیں آتیں، لیکن یہ بھی اپنی بصیرت کا قصور ہے، نہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا۔ قاضی ابوبکر ابن العربی کا وہ فقرہ پھر دیکھ لیا جائے جسے اس سلسلہ میں پہلے نقل کرچکا ہوں۔
اور اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ ان کے پاس صرف “بے شمار فضائل و مناقب” ہیں اور بس! تب بھی میں آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ “خدمات” سے مقصد قرب عنداللہ کے سوا کیا ہے؟ اور جب ان کا مقرب بارگاہِ الٰہی ہونا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماچکے ہیں تو آپ خدمات کو دیکھیں گے، یا ان کے اعلیٰ ترین مدارجِ قرب و رضا کو، جو نصِ نبوی سے ثابت ہیں؟ الغرض جب خدمات کا مقصد و مدعا اور غرض و غایت ان کو حاصل ہے تو آپ خدمات کی تلاش کی فکر میں کیوں پڑتے ہیں․․․؟
رہا آپ کا یہ ارشاد کہ مناقب کی روایات جو ازالة الخفاء میں ذکر کی گئی ہیں، موضوع یا ضعیف ہیں! اول تو یہ بات خود حضرت شاہ صاحب کی تصریح کے خلاف ہے، وہ فرماتے ہیں:
“بالجملہ ما از ایراد احادیث موضوعہ و احادیث شدیدة الضعف کہ بکار متابعات و شواہد نمی آید تحاشی داریم وآنچہ در مرتبہٴ صحت و حسن است یا ضعف متحمل دارد آں را روایت کنیم۔”
(ج:۲ ص:۲۶۰)
ترجمہ:…”ہم موضوع احادیث اور ایسی شدید ضعیف احادیث، جو متابعات و شواہد کے کام نہیں آتیں، ان کے ذکر کرنے سے پرہیز کریں گے، اور جو صحت و حسن کے مرتبہ میں ہیں، یا قابل تحمل ضعف رکھتی ہیں ان کو روایت کریں گے۔”
اس کے بعد حضرت شاہ صاحب نے “من المتواتر” کہہ کر متعدد احادیث ذکر کی ہیں۔ اور اس سے بھی قطع نظر کیجئے تو مناقبِ علی کے لئے ہمیں محب طبری کی “الریاض النضرہ” پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں، صحاحِ ستہ اور دیگر مسانید و معاجم میں جو روایات منقول ہیں ان میں صحیح، حسن اور مقبول احادیث بھی کچھ کم نہیں، بشرطیکہ ہمارا دل اس پر راضی بھی ہو، اور احادیث کے علاوہ صحابہ کرام کے عموماً اور حضراتِ مہاجرین و انصار کے خصوصاً جو فضائل قرآنِ کریم میں مذکور ہیں، کیا آپ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو ان سے مستثنیٰ سمجھتے ہیں؟ پھر جس شخص کے فضائل و مناقب خدا تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرماتے ہوں، اس پر خردہ گیری کیوں کر روا ہوسکتی ہے؟
۱۳:…جناب نے دریافت فرمایا ہے کہ: “حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کسبِ معاش پر کیوں توجہ نہیں دی، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو اس طرف راغب فرمایا ہے۔” حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو فقر و افلاس کے طعنے دینا بھی آج کل کچھ لوگوں کا لذیذ مشغلہ ہے، جناب کا یہ سوال بھی غالباً انہی اصحاب سے تأثر کا نتیجہ ہے، اس پر تفصیل سے لکھنے کی ضرورت تھی، مگر فرصت اس کی متحمل نہیں! مختصر یہ کہ کسبِ معاش ہر ایک کے لئے یکساں حکم نہیں رکھتا، کسی کے لئے ضروری ہے، اور کسی کے لئے غیرضروری۔ اس کے لئے مراتب و درجات کی تفصیل امام غزالی اور دیگر اکابر کی تصنیفات میں مل جائے گی۔ جو حضرات دینی خدمات کے لئے وقف ہوں اور کسبِ معاش میں مشغول ہونے سے ان خدمات میں حرج ہوتا ہو ان کا کسبِ معاش میں مشغول ہونا صحیح نہیں۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہٴ حسنہ ہمارے سامنے ہے کہ ۲، ۲ مہینے تک گھر میں چولہا گرم نہیں ہوتا تھا، اس کے باوجود منصبِ نبوت پر فائز ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسبِ معاش کا کوئی شغل اختیار نہیں فرمایا، اب اگر کوئی شخص آپ کا پورا فقرہ نقل کرکے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بجائے اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی لکھ دے اور جناب سے یہی سوال کر ڈالے جو آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیا ہے، تو فرمائیے! آپ کا جواب کیا ہوگا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب ․․․بقول آپ کے ․․․ امت کو کسبِ معاش کی طرف راغب فرماتے تھے تو خود کون سا کسب فرماتے تھے؟ اور اسی سوال میں اگر جناب کا یہ فقرہ بھی نقل کردیا جائے کہ: “جو شخص ایک بیوی کی بھی کفالت نہ کرسکتا ہو، اور خود اپنی کفالت نہ کرسکے تو اسے بھی اجازت ہے کہ نکاح پر نکاح کرتا چلا جائے؟” تو سوچئے کہ معاملہ کتنا نازک اور سنگین ہوجائے گا، خصوصاً جب یہ بھی پیش نظر رہے کہ امہات الموٴمنینکے نان و نفقہ کے مطالبہ کا واقعہ نہ صرف صحیح احادیث میں بلکہ قرآن کریم میں بھی مذکور ہے۔
کسبِ معاش تو اپنی یا اپنے عیال کی ضرورت کی بنا پر ایک مجبوری ہے، نہ کہ بذاتِ خود کوئی کمال۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اگر کچھ نہیں کماتے تھے تو وہ خود یا ان کے اہل خانہ کسی کے دروازے پر بھیک مانگنے تو نہیں گئے تھے کہ انہیں نہ کمانے کا طعنہ دیا جائے؟ اور اگر وہ اپنے فقر و فاقہ، زہد و قناعت اور تبتل عن الدنیا کے باوجود، بقول آپ کے نکاح پر نکاح کئے چلے جاتے تھے تو لوگ انہیں لڑکیوں پر لڑکیاں نہ دیتے؟ کیسی عجیب بات ہے کہ فقر و فاقہ اور زہد و قناعت کی صفت، جو بھلے زمانوں میں مایہٴ صد فخر سمجھی جاتی تھی اور جسے اعلیٰ ترین فضیلت تصور کیا جاتا تھا، آج اسی پر طعنہ زنی ہورہی ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بقول آپ کے: “یہودی کے باغ کو پانی دینے یا گھاس کاٹنے” کے سوا کوئی ہنر نہیں آتا تھا، تو اس کے لئے مجھے اور آپ کو پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ اس کی فکر اگر ہوتی تو اس مقدس ہستی کو ہوتی جس نے اپنی چہیتی بیٹی “خاتونِ جنت” ان کو بیاہ دی (صلی اللہ علیہ وسلم و رضی اللہ عنہا)، کتنی عجیب بات ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کسبِ معاش کی نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شکایت ہے، نہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ کو، لیکن آج حضرت علی رضی اللہ عنہ پر یہ طعن بھی کیا جارہا ہے کہ وہ کچھ کماتے نہیں تھے، انا لله وانا الیہ راجعون!
۱۴:…آنجناب نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ابوجہل کی بیٹی سے ارادہٴ نکاح کے واقعہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ: “آگے فاطمہ ہی کو نہیں، رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اذیت دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن کی بیٹی سے نکاح فرمانے کا ارادہ کرتے ہیں۔” حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نہ تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اذیت دینے کا قصد کیا، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو، انہوں نے ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کا ارادہ ضرور کیا تھا، لیکن یہ بات ان کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں تھی کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ناگواریٴ خاطر کی موجب ہوسکتی ہے، ورنہ اس نکاح کا انہیں وسوسہ بھی نہ آتا، پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ناگواری کا اظہار فرمایا تو انہوں نے اپنا ارادہ فوراً ترک کردیا۔ اگر وہ یہ نکاح کرتے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اور ان کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت ہوتی لیکن نہ انہوں نے نکاح کیا اور نہ ان حضرات کو اذیت ہوئی، بلکہ ان کے ارادہ ملتوی کردینے پر ان حضرات کو یقینا مسرت ہوئی ہوگی۔ لیکن آنجناب ان پر یہ الزام دھرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچائی اور الزام بھی ایسا سنگین جس پر قرآن کریم میں لعنت آئی ہے، آپ کچھ تو انصاف کیجئے کہ اگر حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دی ہوتی تو وہ “رجل یحب الله ورسولہ ویحبہ الله ورسولہ” اور “رضی الله عنہ” کی بشارتوں سے سرفراز ہوتے یا “ان الذین یوٴذون الله ورسولہ لعنھم الله فی الدنیا والاٰخرة واعد لھم عذابا مھینا۔” (الاحزاب:۵۷) کے زمرے میں آتے؟
جناب نے مقطع سخن پر اذیتِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بات چھیڑی ہے تو یہ ناکارہ بھی جناب سے ایک بات پوچھنے کی جرأت کرتا ہے، وہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا جو تعلق تھا وہ بھی آپ کو معلوم ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ان کے “بے شمار مناقب” بیان فرمائے ہیں، وہ بھی جناب کے سامنے ہیں، سوال یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین شخصیت کے نقائص و عیوب تلاش کرنا، اس کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرنا، اس کی تحقیر کے پہلو کرید کرید کر نکالنا، اس سے خود نفرت رکھنا اور دوسروں کو متنفر کرنے کی کوشش کرنا، کیا ان ساری باتوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت نہیں ہوتی ہوگی؟ اب جو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عیوب اچھال رہے ہیں، کیا ان کا یہ فعل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں لائقِ ستائش ہے؟ اور کیا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب ترین عزیز کی تنقیص کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذادہی کے مرتکب اور دنیا و آخرت میں خسرانِ عظیم کے مستوجب نہیں؟ روافض خذلھم الله! سے ہمیں یہی تو شکایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوبوں کی تنقیص کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دیتے ہیں، اگر یہی کام ہم بھی کرنے لگیں تو ان میں اور ہم میں کتنا فاصلہ رہ جاتا ہے․․․؟ حق تعالیٰ شانہ ہمیں اس بلا سے محفوظ رکھے، والسلام!
Share this article :
 

Copyright © 2011. Al Asir Channel Urdu Islamic Websites Tarjuman Maslak e Deoband - All Rights Reserved
Template Created by piscean Solutions Published by AL Asir Channel
Proudly powered by AL Asir Channel