Home » » عقیدہٴ ختم نبوت نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام

عقیدہٴ ختم نبوت نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام


عقیدہٴ ختم نبوت
نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام
س… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کب آسمان سے نازل ہوں گے؟
ج… قرآن کریم اور احادیث طیبہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری کو قیامت کی بڑی نشانیوں میں شمار کیا گیا ہے اور قیامت سے ذرا پہلے ان کے تشریف لانے کی خبر دی ہے۔ لیکن جس طرح قیامت کا معین وقت نہیں بتایا گیا کہ فلاں صدی میں آئے گی، اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا وقت بھی معین نہیں کیا گیا کہ وہ فلاں صدی میں تشریف لائیں گے۔
قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: “اور بے شک وہ نشانی ہے قیامت کی، پس تم اس میں ذرا بھی شک مت کرو۔” (سورہٴ زخرف)۔ بہت سے اکابر صحابہ و تابعین نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نازل ہونا قربِ قیامت کی نشانی ہے، حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں:
“یہ تفسیر حضرت ابوہریرہ، ابن عباس، ابوالعالیہ، ابومالک، عکرمہ، حسن بصری، قتادہ، ضحاک اور دیگر حضرات سے مروی ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس مضمون کی متواتر احادیث وارد ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسیٰ علیہ السلام کے قیامت سے قبل تشریف لانے کی خبر دی ہے۔”
(تفسیر ابن کثیر ج:۴ ص:۱۳۲)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ:
“شب معراج میں میری ملاقات حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہم الصلوٰت والتسلیمات) سے ہوئی تو آپس میں قیامت کا تذکرہ ہونے لگا کہ کب آئے گی؟ پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے دریافت کیا گیا، انہوں نے فرمایا کہ: مجھے اس کا علم نہیں۔ پھر موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا گیا، انہوں نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی باری آئی تو انہوں نے فرمایا کہ: قیامت کے وقوع کا ٹھیک وقت تو خدا تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں، البتہ میرے رب کا مجھ سے ایک عہد ہے کہ قیامت سے پہلے جب دجال نکلے گا تو میں اس کو قتل کرنے کے لئے نازل ہوں گا، وہ مجھے دیکھ کر اس طرح پگھلنے لگے گا جیسے سیسہ پگھلتا ہے، پس اللہ تعالیٰ اس کو میرے ہاتھ سے ہلاک کردیں گے، یہاں تک شجر و حجر بھی پکار اٹھیں گے کہ اے مسلم! میرے پیچھے کافر چھپا ہوا ہے، اس کو قتل کردے۔
قتل دجال کے بعد لوگ اپنے اپنے علاقے اور ملک کو لوٹ جائیں گے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد یاجوج ماجوج نکلیں گے، وہ جس چیز پر سے گزریں گے اسے تباہ کردیں گے، تب لوگ میرے پاس ان کی شکایت کریں گے، پس میں اللہ تعالیٰ سے ان کے حق میں بددعا کروں گا، پس اللہ تعالیٰ ان پر یکبارگی موت طاری کردیں گے، یہاں تک کہ زمین ان کی بدبو سے متعفن ہوجائے گی، پس اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائیں گے جو ان کے اجسام کو بہاکر سمندر میں ڈال دے گی، پس میرے رب کا مجھ سے یہ عہد ہے کہ جب ایسا ہوگا تو قیامت کی مثال پورے دنوں کی حاملہ کی سی ہوگی، جس کے بارے میں اس کے مالک نہیں جانتے کہ اچانک دن میں یا رات میں کسی وقت اس کا وضع حمل ہوجائے۔” (مسند احمد، ابن ماجہ، مستدرک حاکم، ابن جریر)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس ارشاد سے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نقل کیا ہے، معلوم ہوا کہ ان کی تشریف آوری بالکل قربِ قیامت میں ہوگی۔
س… نیز آ پ کی کیا کیا نشانیاں دنیا پر ظاہر ہوں گی؟
ج… آپ کے زمانہ کے جو واقعات، احادیث طیبہ میں ذکر کئے گئے ہیں ان کی فہرست خاصی طویل ہے، مختصراً:
a:…آپ سے پہلے حضرت مہدی کا آنا۔
a:…آپ کا عین نماز فجر کے وقت اترنا۔
a:…حضرت مہدی کا آپ کو نماز کے لئے آگے کرنا اور آپ کا انکار فرمانا۔
a:…نماز میں آپ کا قنوتِ نازلہ کے طور پر یہ دعا پڑھنا: “قتل الله الدجال۔”
a:…نماز سے فارغ ہوکر آپ کا قتل دجال کے لئے نکلنا۔
a:…دجال کا آپ کو دیکھ کر سیسے کی طرح پگھلنے لگنا۔
a:…”باب لُدّ” نامی جگہ پر (جو فلسطین شام میں ہے) آپ کا دجال کو قتل کرنا، اور اپنے نیزے پر لگا ہوا دجال کا خون مسلمانوں کو دکھانا۔
a:…قتل دجال کے بعد تمام دنیا کا مسلمان ہوجانا، صلیب کے توڑنے اور خنزیر کو قتل کرنے کا عام حکم دینا۔
a:…آپ کے زمانہ میں امن و امان کا یہاں تک پھیل جانا کہ بھیڑئیے، بکریوں کے ساتھ اور چیتے گائے بیلوں کے ساتھ چرنے لگیں اور بچے سانپوں کے ساتھ کھیلنے لگیں۔
a:…کچھ عرصہ بعد یاجوج ماجوج کا نکلنا اور چارسو فساد پھیلانا۔
a:…ان دنوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اپنے رفقاء سمیت کوہ طور پر تشریف لے جانا اور وہاں خوراک کی تنگی پیش آنا۔
a:…بالآخر آپ کی بددعا سے یاجوج ماجوج کا یکدم ہلاک ہوجانا اور بڑے بڑے پرندوں کا ان کی لاشوں کو اٹھاکر سمندر میں پھینکنا۔
a:…اور پھر زور کی بارش ہونا اور یاجوج ماجوج کے بقیہ اجسام اور تعفن کو بہاکر سمندر میں ڈال دینا۔
a:…حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا عرب کے ایک قبیلہ بنوکلب میں نکاح کرنا اور اس سے آپ کی اولاد ہونا۔
a:…”فج الروحا” نامی جگہ پہنچ کر حج و عمرہ کا احرام باندھنا۔
a:…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہٴ اطہر پر حاضری دینا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہٴ اطہر کے اندر سے جواب دینا۔
a:…وفات کے بعد روضہٴ اطہر میں آپ کا دفن ہونا وغیرہ وغیرہ۔
a:…آپ کے بعد “مقعد” نامی شخص کو آپ کے حکم سے خلیفہ بنایا جانا اور مقعد کی وفات کے بعد قرآن کریم کا سینوں اور صحیفوں سے اٹھ جانا۔
a:…اس کے بعد آفتاب کا مغرب سے نکلنا، نیز دابة الارض کا نکلنا اور موٴمن و کافر کے درمیان امتیازی نشان لگانا وغیرہ وغیرہ۔
س… یہ کس طرح ظاہر ہوگا کہ آپ ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں؟
ج… آپ کا یہ سوال عجیب دلچسپ سوال ہے، اس کو سمجھنے کے لئے آپ صرف دو باتیں پیش نظر رکھیں:
اول:…کتب سابقہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پیش گوئی کی گئی تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات و علامات ذکر کی گئی تھیں، جو لوگ ان علامات سے واقف تھے ان کے بارے میں قرآن کریم کا بیان ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا پہچانتے ہیں جیسا اپنے لڑکوں کو پہچانتے ہیں۔ اگر کوئی آپ سے دریافت کرے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے پہچانا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم ہیں؟ تو اس کے جواب میں آپ کیا فرمائیں گے؟ یہی نا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات جو کتب سابقہ میں مذکور تھیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس پر منطبق کرنے کے بعد ہر شخص کو فوراً یقین آجاتا تھا کہ آپ وہی نبی آخر الزمان ہیں (صلی اللہ علیہ وسلم)۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جو صفات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کی ہیں ان کو سامنے رکھ کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شخصیت کی تعیین میں کسی کو ادنیٰ سا شبہ بھی نہیں ہوسکتا۔ ہاں! کوئی شخص ان ارشاداتِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ناواقف ہو یا کج فطری کی بنا پر ان کے چسپاں کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو، یا محض ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس سے پہلوتہی کرے تو اس کا مرض لاعلاج ہے۔
دوم:…بعض قرائن ایسے ہوا کرتے ہیں کہ ان کی موجودگی میں آدمی یقین لانے پر مجبور ہوجاتا ہے اور اسے مزید دلیل کی احتیاج نہیں رہ جاتی، مثلاً آپ دیکھتے ہیں کہ کسی مکان کے سامنے محلے بھر کے لوگ جمع ہیں، پورا مجمع افسردہ ہے، گھر کے اندر کہرام مچا ہوا ہے، درزی کفن سی رہا ہے، کچھ لوگ پانی گرم کر رہے ہیں، کچھ قبر کھودنے جارہے ہیں، اس منظر کو دیکھنے کے بعد آپ کو یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں رہے گی کہ کیا یہاں کسی کا انتقال ہوگیا ہے؟ اور اگر آپ کو یہ بھی معلوم ہو کہ فلاں صاحب کافی مدت سے صاحبِ فراش تھے اور ان کی حالت نازک تر تھی تو آپ کو یہ منظر دیکھ کر فوراً یقین آجائے گا کہ ان صاحب کا انتقال ہوگیا ہے۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری کی خاص کیفیت، خاص وقت، خاص ماحول اور خاص حالات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے، جب وہ پورا نقشہ اور سارا منظر سامنے آئے گا تو کسی کو یہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی کہ یہ واقعی عیسیٰ علیہ السلام ہیں یا نہیں؟
تصور کیجئے! حضرت مہدی عیسائیوں کے خلاف مصروفِ جہاد ہیں، اتنے میں اطلاع آتی ہے کہ دجال نکل آیا ہے، آپ اپنے لشکر سمیت بہ عجلت بیت المقدس کی طرف لوٹتے ہیں، اور دجال کے مقابلے میں صف آراء ہوجاتے ہیں، دجال کی فوجیں اسلامی لشکر کا محاصرہ کرلیتی ہیں، مسلمان انتہائی تنگی اور سراسیمگی کی حالت میں محصور ہیں، اتنے میں سحر کے وقت ایک آواز آتی ہے: “قد اتاکم الغوث!” (تمہارے پاس مددگار آپہنچا!)، اپنی زبوں حالی کو دیکھ کر ایک شخص کے منہ سے بے ساختہ نکل جاتا ہے کہ: “یہ کسی پیٹ بھرے کی آواز معلوم ہوتی ہے۔” پھر اچانک حضرت عیسیٰ علیہ السلام دو فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے سفید منارہ کے پاس نزول فرماتے ہیں اور عین اس وقت لشکر میں پہنچتے ہیں جبکہ صبح کی اقامت ہوچکی ہے اور امام مصلیٰ پر جاچکا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
یہ تمام کوائف جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے ہیں جب وہ ایک ایک کرکے لوگوں کی آنکھوں کے سامنے آئیں گے تو کون ہوگا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شناخت سے محروم رہ جائے گا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی صفات و علامات، ان کا حلیہ اور ناک نقشہ، ان کے زمانہٴ نزول کے سیاسی حالات اور ان کے کارناموں کی جزئیات اس قدر تفصیل سے بیان فرمائی ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ جب یہ پورا نقشہ لوگوں کے سامنے آئے گا تو ایک لمحہ کے لئے کسی کو ان کی شناخت میں تردد نہیں ہوگا۔ چنانچہ کسی کمزور سے کمزور روایت میں بھی یہ نہیں آتا کہ ان کی تشریف آوری پر لوگوں کو ان کے پہچاننے میں دقت پیش آئے گی، یا یہ کہ ان کے بارے میں لوگوں میں اختلاف ہوجائے گا، کوئی ان کو مانے گا اور کوئی نہیں مانے گا، اس کے برعکس یہ آتا ہے کہ مسلمان تو مسلمان، دجال کے لشکر سے نمٹنے کے بعد غیرمذاہب کے لوگ بھی سب کے سب مسلمان ہوجائیں گے اور دنیا پر صرف اسلام کی حکمرانی ہوگی۔
یہ بھی عرض کردینا مناسب ہوگا کہ گزشتہ صدیوں سے لے کر اس رواں صدی تک بہت سے لوگوں نے مسیحیت کے دعوے کئے اور بہت سے لوگ اصل و نقل کے درمیان تمیز نہ کرسکے، اور ناواقفی کی بنا پر ان کے گرویدہ ہوگئے، لیکن چونکہ وہ واقعتا “مسیح” نہیں تھے، اس لئے وہ دنیا کو اسلام پر جمع کرنے کے بجائے مسلمانوں کو کافر بناکر اور ان کے درمیان اختلاف و تفرقہ ڈال کر چلتے بنے۔ ان کے آنے سے نہ فتنہ و فساد میں کمی ہوئی، نہ کفر و فسق کی ترقی رک سکی، آج زمانے کے حالات ببانگ دہل اعلان کر رہے ہیں کہ وہ اس تاریک ماحول میں اتنی روشنی بھی نہ کرسکے جتنی کہ رات کی تاریکی میں جگنو روشنی کرتا ہے۔ وہ یہ سمجھے کہ ان کی من مانی تاویلات کے ذریعہ ان کی مسیحیت کا سکہ چل نکلے گا، لیکن افسوس کہ ان پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرمودہ علامات اتنی بھی چسپاں نہ ہوئیں جتنی کہ ماش کے دانے پر سفیدی، کسی کو اس میں شک ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد فرمودہ نقشہ کو سامنے رکھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ارشاد فرمودہ ایک ایک علامت کو ان مدعیوں پر چسپاں کرکے دیکھے، اونٹ سوئی کے ناکے سے گزرسکتا ہے مگر ان مدعیوں پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صفات و علامات منطبق نہیں ہوسکتیں۔ کاش! ان لوگوں نے بزرگوں کی یہ نصیحت یاد رکھی ہوتی:
بصاحب نظرے بنما گوہر خود را
عیسیٰ نتواں گشت بہ تصدیق خرے چند
Share this article :
 

Copyright © 2011. Al Asir Channel Urdu Islamic Websites Tarjuman Maslak e Deoband - All Rights Reserved
Template Created by piscean Solutions Published by AL Asir Channel
Proudly powered by AL Asir Channel