اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو سزا کیوں دیتے ہیں؟
جبکہ وہ والدین سے زیادہ شفیق ہیں
س… جب بھی سزا و جزا کا خیال آتا ہے میں سوچتی ہوں کہ ہم تو اللہ کے بندے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اتنا چاہتا ہے کہ والدین جو کہ اولاد سے محبت کرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ۔ اگر یہ مان لیا جائے تو ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ والدین اولاد کی معمولی پریشانی اور تکلیف پر تڑپ اٹھتے ہیں، اولاد کتنی ہی سرکش و نافرمان ہو، والدین ان کے لئے دعا ہی کرتے ہیں، تکلیف اولاد کو ہو، دکھ ماں محسوس کرتی ہے، والدین اولاد کو دکھی کبھی نہیں دیکھ سکتے۔ آپ نے یہ واقعہ ضرور پڑھا ہوگا کہ ایک شخص اپنی محبوبہ کے کہنے پر اپنی ماں کو قتل کرکے اس کا دل لے جارہا تھا، راہ میں اسے ٹھوکر لگی ماں کا دل بولا: بیٹا! کہیں چوٹ تو نہیں لگی؟ یہ واقعہ اولاد کی محبت کی پوری عکاسی ہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں اللہ تعالیٰ نے دنیا بنائی جس میں امیر، غریب، خوبصورت، بدصورت، اپاہج و معذور ہر قسم کے لوگ بنائے، لوگوں کو خوشیاں اور دکھ بھی دئیے، چند احکامات بھی دئیے، کچھ کو مسلمانوں میں پیدا کیا، کچھ کو کفار میں، مرنے کے بعد عذاب و ثواب رکھا، جزا جتنی خوبصورت، سزا اتنی ہی خطرناک، رونگٹے کھڑے کردینے والی، مسلسل اذیت دینے والی سزائیں جن کی تلافی بھی اس وقت ناممکن ہوگی، جاں کنی، قبر و حشر، غرض ہر جگہ عذاب و ثواب کا چکر․․․ مجھے تو یہ دنیا بھی عذاب ہی لگتی ہے، میں جب بھی یہ کچھ سوچتی ہوں مجھے ایسا لگتا ہے اللہ نے انسانوں کو کھلونوں کی مانند بنایا ہے جن سے وہ کھیلتا ہے اور کھیل کے انجام کے بعد سزا و جزا۔
آپ دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ ہر کوئی دنیا کو سرائے سمجھ سکتا ہے؟ دنیا کی رنگینی کو چھوڑ کر زندگی کون گزارسکتا ہے؟ پھر جو انسان کو بنایا اور اتنی پابندی کے ساتھ دنیا میں بھیجا، علاوہ ازیں دکھ سکھ دئیے، اگر والدین سے زیادہ اللہ محبت کرنے والے ہیں تو وہ بندوں کے دکھ پر کیوں نہیں تڑپتے؟ والدین جو سکھ دے سکتے ہیں دیتے ہیں، کیا اللہ تعالیٰ کا دل نہیں تڑپتا جب وہ دکھ دیتے ہیں بندوں کو؟ عذاب دے کر وہ خوش کیسے رہ سکتا ہے؟ جو کفار کے گھر پیدا ہوئے انہیں کس جرم کی سزا ملے گی؟ ہر شخص تو مذہب کا علم نہیں رکھتا۔ جب بھی عذاب کے بارے میں سوچتی ہوں میرے ذہن میں یہ سب کچھ ضرور آتا ہے، للہ! مجھے سمجھائیے کہیں یہ میری سوچ میرے لئے تباہ کن ثابت نہ ہو۔ (ایک خاتون)
ج… آپ کے سوال کا جواب اتنا تفصیل طلب ہے کہ میں کئی دن اس پر تقریر کروں تب بھی بات تشنہ رہے گی۔ اس لئے مختصراً اتنا سمجھ لیجئے کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر والدین سے زیادہ رحیم و شفیق ہے۔ حدیث میں ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنی رحمت کے سو حصے کئے، ایک حصہ دنیا میں نازل فرمایا، حیوانات اور درندے تک جو اپنی اولاد پر رحم کرتے ہیں وہ اسی رحمتِ الٰہی کے سو میں سے ایک حصے کا اثر ہے، اور یہ حصہ بھی ختم نہیں ہوا، بلکہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس حصہ رحمت کو بھی باقی ننانوے حصوں کے ساتھ ملاکر اپنے بندوں پر کامل رحمت فرمائیں گے۔
اس کے بعد آپ کے دو سوال ہیں۔ ایک یہ کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں پر تکلیفیں اور سختیاں کیوں آتی ہیں؟ اور دوم یہ کہ آخرت میں گناہ گاروں کو عذاب کیوں ہوگا؟
جہاں تک دنیا کی سختیوں اور تکلیفوں کا تعلق ہے یہ بھی حق تعالیٰ شانہ کی سراپا رحمت ہیں۔ حضرات عارفین اس کو خوب سمجھتے ہیں۔ ہم اگر ان پریشانیوں اور تکلیفوں سے نالاں ہیں تو محض اس لئے کہ ہم اصل حقیقت سے آگاہ نہیں، بچہ اگر پڑھنے لکھنے میں کوتاہی کرتا ہے تو والدین اس کی تأدیب کرتے ہیں، وہ نادان سمجھتا ہے کہ ماں باپ بڑا ظلم کر رہے ہیں۔ اگر کسی بیماری میں مبتلا ہو تو والدین اس سے پرہیز کراتے ہیں، اگر خدانخواستہ اس کے پھوڑا نکل آئے تو والدین اس کا آپریشن کراتے ہیں، وہ چیختا ہے اور اس کو ظلم سمجھتا ہے، بعض اوقات اپنی نادانی سے والدین کو برا بھلا کہنے لگتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح حق تعالیٰ کی جو عنایتیں بندے پر اس رنگ میں ہوتی ہیں بہت سے کم عقل ان کو نہیں سمجھتے، بلکہ حرفِ شکایت زبان پر لاتے ہیں، لیکن جن لوگوں کی نظرِ بصیرت صحیح ہے وہ ان کو الطافِ بے پایاں سمجھتے ہیں، چنانچہ حدیث میں ہے کہ: “جب اہل مصائب کو ان کی تکالیف و مصائب کا اجر قیامت کے دن دیا جائے گا تو لوگ تمنا کریں گے کہ کاش! یہ اجر ہمیں عطا کیا جاتا، خواہ دنیا میں ہمارے جسم قینچیوں سے کاٹے جاتے۔” (ترمذی ج:۱ ص:۶۲)۔ لہٰذا بندہٴ موٴمن کو حق تعالیٰ شانہ کی رحیمی و کریمی پر نظر رکھنی چاہئے، دنیا کے آلام و مصائب سے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ یوں سمجھنا چاہئے کہ یہ داروئے تلخ ہماری صحت و شفا کے لئے تجویز کیا گیا ہے۔ اگر بالفرض ان آلام و مصائب کا کوئی اور فائدہ نہ بھی ہوتا، نہ ان سے ہمارے گناہوں کا کفارہ ہوتا، نہ یہ ہماری ترقیٴ درجات کا موجب ہوتے اور نہ ان پر اجر و ثواب عطا کیا جاتا تب بھی ان کا یہی فائدہ کیا کم تھا کہ ان سے ہماری اصل حقیقت کھلتی ہے، کہ ہم بندے ہیں، خدا نہیں! خدانخواستہ ان تکالیف و مصائب کا سلسلہ نہ ہوتا تو یہ دنیا بندوں سے زیادہ خدا کہلانے والے فرعونوں سے بھری ہوئی ہوتی۔ یہی مصائب و آلام ہیں جو ہمیں جادہٴ عبدیت پر قائم رکھتے ہیں اور ہماری غفلت و مستی کے لئے تازیانہٴ عبرت بن جاتے ہیں اور پھر حق تعالیٰ تو محبوبِ حقیقی ہیں اور ہم ان سے محبت کے دعویدار․․․! کیا محبوبِ حقیقی کو اس ذرا سے امتحان کی بھی اجازت نہیں، جس سے محب صادق اور غلط مدعی کے درمیان امتیاز ہوسکے․․․؟ اور پھر اس پر بھی نظر رکھنی چاہئے کہ حق تعالیٰ شانہ کا کوئی فعل خالی از حکمت نہیں ہوتا، اب جو ناگوار حالات ہمیں پیش آتے ہیں ضرور ان میں بھی کوئی حکمت ہوگی اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ان میں حق تعالیٰ شانہ کا کوئی نفع نہیں، بلکہ صرف اور صرف بندوں کا نفع ہے، گو اپنے ناقص علم و فہم سے ہم اس نفع کو محسوس نہ کرسکیں۔ الغرض ان مصائب و آلام میں حق تعالیٰ شانہ کی ہزاروں حکمتیں اور رحمتیں پوشیدہ ہیں اور جس کے ساتھ جو معاملہ کیا جارہا ہے وہ عین رحمت و حکمت ہے۔
رہا آخرت میں مجرموں کو سزا دینا! تو اول تو ان کا مجرم ہونا ہی سزا کے لئے کافی ہے، حق تعالیٰ شانہ نے تو اپنی رحمت کے دروازے کھلے رکھے تھے، اس کے لئے انبیاء کرام علیہم السلام کو بھیجا تھا، اپنی کتابیں نازل کی تھیں اور انسان کو بھلے برے کی تمیز کے لئے عقل و شعور اور ارادہ و اختیار کی نعمتیں دی تھیں۔ تو جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کی بغاوت، انبیاء کرام علیہم السلام کی مخالفت، کتبِ الٰہیہ کی تکذیب اور اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کے مقابلہ میں خرچ کیا، انہوں نے رحمت کے دروازے خود اپنے ہاتھ سے اپنے اوپر بند کرلئے، آپ کو ان پر کیوں ترس آتا ہے․․․؟
علاوہ ازیں اگر ان مجرموں کو سزا نہ دی جائے تو اس کے معنی اس کے سوا اور کیا ہیں کہ خدا کی بارگاہ میں موٴمن و کافر، نیک و بد، فرمانبردار و نافرمان، مطیع اور عاصی ایک ہی پلے میں تلتے ہیں، یہ تو خدائی نہ ہوئی اندھیر نگری ہوئی! الغرض آخرت میں مجرموں کو سزا اس لئے بھی قرینِ رحمت ہوئی کہ اس کے بغیر مطیع اور فرمانبردار بندوں سے انصاف نہیں ہوسکتا۔
یہ نکتہ بھی ذہن میں رہنا چاہئے کہ آخرت کا عذاب کفار کو تو بطورِ سزا ہوگا، لیکن گناہ گار مسلمانوں کو بطورِ سزا نہیں بلکہ بطورِ تطہیر ہوگا، جس طرح کپڑے کو میل کچیل دور کرنے کے لئے بھٹی میں ڈالا جاتا ہے، اسی طرح گناہ گاروں کی آلائشیں دور کرنے کے لئے بھٹی میں ڈالا جائے گا، اور جس طرح ڈاکٹر لوگ آپریشن کرنے کے لئے بدن کو سن کرنے والے انجکشن لگادیتے ہیں کہ اس کے بعد مریض کو چیرپھاڑ کا احساس تک نہیں ہوتا، بہت ممکن ہے کہ حق تعالیٰ شانہ گناہ گار مسلمانوں پر ایسی کیفیت طاری فرمادیں کہ ان کو درد و الم کا احساس نہ ہو، اور بہت سے گناہ گار ایسے ہوں گے کہ حق تعالیٰ شانہ کی رحمت ان کے گناہوں اور سیاہ کاریوں کے دفتر کو دھوڈالے گی اور بغیر عذاب کے انہیں معاف کردیا جائے گا۔ الغرض جنت پاک جگہ ہے اور پاک لوگوں ہی کے شایانِ شان ہے، جب تک گناہوں کی گندگی اور آلائش سے صفائی نہ ہو وہاں کا داخلہ میسر نہیں آئے گا، اور پاک صاف کرنے کی مختلف صورتیں ہوں گی، جس کے لئے جو صورت تقاضائے رحمت ہوگی وہ اس کے لئے تجویز کردی جائے گی۔ اس لئے اکابر مشائخ کا ارشاد ہے کہ آدمی کو ہمیشہ ظاہری و باطنی طہارت کا اہتمام رکھنا چاہئے اور گناہوں سے ندامت کے ساتھ توبہ و استغفار کرتے رہنا چاہئے۔ حق تعالیٰ شانہ محض اپنے لطف و کرم سے اس ناکارہ کی، آپ کی اور تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کی بخشش فرمائیں۔
رہا آپ کا یہ شبہ کہ دنیا کو کون سرائے سمجھ سکتا ہے اور دنیا کی رنگینی کو چھوڑ کر کون زندگی گزار سکتا ہے؟ میری بہن! یہ ہم لوگوں کے لئے جن کی آنکھوں پر غفلت کی سیاہ پٹیاں بندھی ہیں، واقعی بہت مشکل ہے، اپنے مشاہدہ کو جھٹلانا اور حق تعالیٰ شانہ کے وعدوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر اپنے مشاہدہ سے بڑھ کر یقین لانا خاص توفیق و سعادت کے ذریعہ ہی میسر آسکتا ہے۔ لیکن کم سے کم اتنا تو ہونا چاہئے کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کی بات پر جتنا یقین و اعتماد رکھتے ہیں کم سے کم اتنا ہی یقین و اعتماد اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر رکھیں۔ دیکھئے! اگر کوئی معتبر آدمی ہمیں یہ خبر دیتا ہے کہ فلاں کھانے میں زہر ملا ہوا ہے، تو ہم اس شخص پر اعتماد کرتے ہوئے اس زہر آمیز کھانے کے قریب نہیں پھٹکیں گے، اور بھوکوں مرنے کو زہر کھانے پر ترجیح دیں گے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دنیا کو یکسر چھوڑنے کی تعلیم نہیں فرماتے، بلکہ صرف دو چیزوں کی تعلیم فرماتے ہیں۔ ایک یہ کہ دنیا میں رہتے ہوئے کسبِ حلال کرو، جن جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے حرام اور ناجائز قرار دیا ہے ان سے پرہیز کرو، کیونکہ یہ زہر ہے جو تمہاری دنیا و آخرت کو برباد کردے گا اور اگر غفلت سے اس زہر کو کھاچکے ہو تو فوراً توبہ و ندامت اور استغفار کے تریاق سے اس کا تدارک کرو۔
اور دوسری تعلیم یہ ہے کہ دنیا میں اتنا انہماک نہ کرو کہ آخرت اور ما بعد الموت کی تیاری سے غافل ہوجاوٴ، دنیا کے لئے محنت ضرور کرو، مگر صرف اتنی جس قدر کہ دنیا میں رہنا ہے، اور آخرت کے لئے اس قدر محنت کرو جتنا کہ آخرت میں تمہیں رہنا ہے۔ دنیا کی مثال شیرے کی ہے، جس کو شیریں اور لذیذ سمجھ کر مکھی اس پر جابیٹھتی ہے، لیکن پھر اس سے اٹھ نہیں سکتی، تمہیں شیرہٴ دنیا کی مکھی نہیں بننا چاہئے۔
اور آپ کا یہ شبہ کہ جو لوگ کافروں کے گھر میں پیدا ہوئے انہیں کس جرم کی سزا ملے گی؟ اس کا جواب میں اوپر عرض کرچکا ہوں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے سیاہ و سفید کی تمیز کرنے کے لئے بینائی عطا فرمائی ہے، اسی طرح صحیح اور غلط کے درمیان امتیاز کرنے کے لئے عقل و فہم اور شعور کی دولت بخشی ہے، پھر صحیح اور غلط کے درمیان امتیاز کرنے کے لئے انبیاء کرام علیہم السلام کو بھیجا ہے، کتابیں نازل فرمائی ہیں، شریعت عطا فرمائی ہے، یہ سب کچھ اس لئے ہے تاکہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کی حجت پوری ہوجائے، اور وہ کل عذر نہ کرسکیں کہ ہم نے کافر باپ دادا کے گھر جنم لیا تھا اور ہم آنکھیں بند کرکے انہی گمراہوں کے نقش قدم پر چلتے رہے۔
اس مختصر سی تقریر کے بعد میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ بندے کا کام بندگی کرنا ہے، خدائی کرنا یا خدا تعالیٰ کو مشورے دینا نہیں! آپ اس کام میں لگیں جو ہمارے سپرد کیا گیا ہے، اور ان معاملات میں نہ سوچیں جو ہمارے سپرد نہیں۔ ایک گھسیارہ اگر رموزِ مملکت و جہاں بانی کو نہیں سمجھتا تو یہ مشتِ خاک اور قطرہٴ ناپاک رموزِ خداوندی کو کیا سمجھے گا․․․؟ پس اس دیوار سے سر پھوڑنے کا کیا فائدہ، جس میں ہم سوراخ نہیں کرسکتے اور جس کے پار جھانک کر نہیں دیکھ سکتے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سلامتیٴ فہم نصیب فرمائیں اور اپنی رحمت کا مورد بنائیں۔