Home » » ملالہ کے والد کو جوانی میں ہی کافر قرار دے کر گھر سے نکال دیا تھا۔ بھائی کا انکشاف

ملالہ کے والد کو جوانی میں ہی کافر قرار دے کر گھر سے نکال دیا تھا۔ بھائی کا انکشاف


ملالہ کے والد کو جوانی میں ہی کافر قرار دے کر گھر سے نکال دیا تھا۔ بھائی کا انکشاف




 ملالہ کے والد ضیا الدین کے بھائی نے انکشاف کیا ہے کہ ملالہ کے والدضیا الدین 
یوسف زئی کو ان کے دیندار والد نے   جوانی میں ہی کافر قرار دے کرگھر سے نکال دیا  تھا۔جے یو آئی کے مقامی رہنما، بیٹے کی سیکولر نظریات کی حامل طلبہ تنظیم میں شمولیت پر سخت ناراض تھے۔ اب تک آبائ گھر میں داخلہ بند ہے۔ ملالہ کے والد دور طالب علمی سے ہی شہریت کے بھوکے ہیں۔ ملک میں ماہر ڈاکٹرز اور جدید سہولیات ہونے کے باوجود حکومت نے ملالہ کو بیرون ملکی منتقل کیا۔ ملالہ یوسف زئی کو علاج کیلئے برطانیہ روانہ کر دیا گیا ہے، جبکہ والد، والدہ اور چھوٹے  بھابی کے بھی ساتھ جانے کی  کی اطلاع ہے۔ تاہم پاکستان میں موجود دو بھائی اور دیگر رشتہ دار نا معلوم مقام پر منتقل ہو گئے ہیں۔ اور انہوں نے اپنے ٹیلی فون بھی بند کر رکھے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کی ملالہ پر حملے کی آڑمیں بعض این جی اوز نے اسلامی شعائر پر تنقید اور دینی مدارس اور طالبان کے خلاف ناز یبا کلمات استعمال کر کے پورے واقعہ کو متنازعہ بنا دیا ہے جس کی وجہ لوگ اب ملالہ یوسف زئی کے والد ضیائ الدین کو اس  واقعہ کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ کہ انہوں نے اپنی بیٹی کو اپنے مقاصدکیلئے استعمال  کیا، جس کا نقصان پورے معاشرے کو اٹھانا پرا ہے۔ زرائع کے مطابق ضیاء الدین یوسف زئی کے والد کا تعلق ضلع شانگلہ کے علاقے کا نگڑہ شا پور سے ہے۔ اور ان کے دادا والی سوات کی عدالت میں قاضی تھے۔ ضیاء یوسف  زئی کے دور طالب علمی  میں کمیونسٹ نظریات کی حامل عوامی نیشنل پارٹی کی ذیلی تنظیم پختون اسٹوڈنٹس  فیڈریشن میں شامل ہو گئے تھے. جس پر ان کے والد نے ناراض ہو کر انہیں گھر سے نکال دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ کافر ہو گیا ہے۔ بعدازاں ضیاء الدین نے سوات میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ اس دوران ضیاء الدین کا عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ تعلق تو رہا لیکن وہ انے این پی کی سیاسی سر گرمیوں  میں فعال نہیں رہے، بلکہ اپنے خوشحال پبلک اسکول و کالج کے معاملات کو ہی دیکھتے رہے، یہ اوسط درجے کا ایک پبلک اسکول ہے۔ اس اسکول کو سوات آپریشن تک نہ تو طالبان نے کوئی دھمکی دی اور نہ اسے بند رکھا۔ تاہم بعدازاں آپریشن کے دوران یہ اسکول بند رہا اور ضیاء الدین خاندان سمیت اپنے آبائی گاؤں چلے گئے تھے تاہم وہاں بھی لوگ ان سے زیادہ تعلق نہیں رکھتے اور انہیں ملحد کافر سمجھتے ہیں۔ آپریشن ختم ہونے کے بعد واپس سوات آگئے۔ تاہم بعد کے حالات اور بی بی سی پر ملالہ یوسف زئی کی ڈائریوں  سے ان کی بیٹی کو شہرت ملی اور ضیاء الدین نے اس شہرت کو ہر طرح سے استعمال کرنا شروع کر دیا، جس کے خطرناک نتائج سامنے آئے۔ ذرائع کے مطابق ضیاء الدین کے خاندان کے دیگر افراد کا تعلق آج بھی جے یو آئی کے ساتھ ہے۔اور والد کی جانب سے گھر سے بے دخل کئے جانے کے بعد آج تک ضیاء الدین کا اپنے آبائی گھر میں داخلہ  منع ہے کیونکہ خاندان والے انہیں مسلمان ہیں سمجھتے۔حالا نکہ ان کے والد کا 2007ء میں انتقال ہو چکا ہے۔ ذرائع  کا کہنا ہے۔ کہ ضیاء الدین زمانہ طالب علمی سے ہی شہرت کے بھوکے ہیں۔ اپنے خیالات اور نظریات کی وجہ سے وہ آج    بھی اپنے  سے دور ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے، کہ سوات آپریشن میں 25 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے۔ اپنے گھر بار، کھیت کھلیان اور کاروبار چھوڑ کر مہینوں کیمپوں میں مصیبتیں جھیلیں ، لیکن اپنا دکھ درد پختون روایات کے مطابق  اپنے سینوں میں چھپائے  رکھا، اسے مال منفعت اور شہرت کیلئے استعمال نہیں کیا۔ جبکہ اس کے برعکس ضیاء الدین نے شہریت کے حصول کیلئے اپنی بچی ملالہ یوسف زئی کے ذریعے مختلف اداروں، این جی اوز اور میڈیا تک رسائی حاصل کی لی۔ سوات آپریشن کے خاتمے کے بعد متاثر ین واپس آکر اپنے گھروں کی مرمت اور کاروبار کی بحالی میں مصروف ہو گئے اور ان کے بر عکس ضیاء الدین اپنے اسکول کیلئے فنڈ ز اکٹھے کرنے اور این جی اوز سے پیسے بٹورنے لگے۔ مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ  ضیاء الدین نے محض دولت و شہریت کیلئے اپنی بیٹی کی زندگی داؤ پر لگا دی ہے۔ ضیاء الدین کے ایک  قریبی رشتہ دار کا کہنا ہے کہ ملالہ یوسف زئی کے علاج کیلئے بیرون ملک روانگی کے بعد ضیاء الدین کی فیملی سے ہمارا کوئی رابطہ نہیں ہے۔ کیونکہ ان کے فون نمبر بند مل رہے ہیں۔ شاپور میں مقیم ضیاء الدین کے رشتہ داروں  کا کہنا ہے کہ وہ صرف سوات آپریشن کے دوران یہاں آئے تھے۔ ان کا یہاں آنا جانا نہیں ہے۔ کیونکہ طویل عرصے سے خاندان کے تمام افراد کو ضیاء الدین سے میل جول رکھنے سے سختی سے منع کیا ہو تھا کیونکہ انہیں کوئی بھی مسلمان نہیں سمجھتا۔ دوسری جانب ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملے کے بعد جانبدانہ میڈیا کوریج  پر پاکستان کے سیکولر اور مذہبی طبقات کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی ہے جبکہ جھڑپیں ہونے کی اطلاعات  بھی ملی ہیں۔ ملالہ یوسف کے خلاف بولنے پر جماعت اسلامی اور اے این پی کے کارکنوں میں اس وقت جھڑپ ہو گئی۔ جب جندول لوئر دیر میں ایک جنازے کے موقع پر جماعت اسلامی کے سابق ضلعی امیر مولانہ گلاب نے ملالہ کے ساتھ زخمی ہونے والی بچیوں  کو نظر انداز کرنے پر حکومت تنقید کی تو وہاں موجود اے این پی کے کارکن مشتعل ہو گئے، جس پر اے این پی کے سابق ناظم حاجی عنایت اور تحصیل منڈا کے صدر فضل  محمود نے مولانہ گلاب کو تقریر سے روک دیا۔ اس دوران دونوں  جماعتوں  کے کارکن ایک دوسرے سے لڑ پڑے تھے تاہم علاقے مشران نے معاملہ رفع دفع کر دیا۔ ادھر میڈیا یکطرفہ رپورٹنگ کے حوالے سے طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کی بات سننے کیلئے کوئی تیار ہی نہیں ہے۔ اور جو لوگ اس مسئلے کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یا طالبان ترجمانوں  کی باتیں  شائع یا نشر کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں طالبان کا حامی قرار دیا جا تا ہے۔ ادھر ملالہ  کی بیرون ملک روانگی سے قبل اس کی صحت کے حوالے سے آئی ایس پی  آر کے ذرائع کا کہنا تھا کہ اس کی حالت خطرے سے باہر نہیں تھی۔ اب تک اسے مصنوعی تنفس پر زندہ رکھا گیا تھا۔ ملالہ کو بیرون ملک منتقل کرنے کے اخراجات پاکستان نے برداشت کئے ہیں۔ جانب ملالہ خاندانی  ذرائع کا کہنا ہے۔ کہ جب ملالہ کو سوات سے پشاور  سی ایم ایچ منتقل کیا گیا تو سی ایم ایچ کے ڈاکٹروں ملالہ کو بتایا تھا۔ کہ یہاں بین الا قوامی معیار کی تمام سہولتیں میسر ہیں۔ اب یہ آپ پر منحصر کہ اپنی بیٹی کا علاج یہاں کراتے ہیں یا اسے بیرون ملک لے جاتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق بعض حلقوں کی جانب سے اس وقت بھی ملالہ کے خاندان پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔ کہ ملالہ کا بیرون ملک علاج کروایا جا ئے۔ بھر فوری طور پر ملالہ کو آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی راولپنڈی منتقل کیا گیا۔ جہاں پشاور سے بھی زیادہ جدید سہولیات تھی۔ اور درجنوں ڈاکٹر ز لمحہ بہ لمحہ ملالہ کی حالت کا جائزہ لے رہے تھے۔ اسے احتیاطاً  مصنوعی تنفس  دیکر بے ہوشی کے عالم میں رکھا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق کو ایک مرحلے پر ہوش میں لایا گیا تھا تاکہ اس کی دماغی حالت کا اندازہ لگایا جا سکے، کیونکہ گولی لگنے سے ملالہ سر کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ اور اس کے دماغ میں خراش  آئی تھی۔ ذرائی کے مطابق "ٹمپرول" دماغ کا وہ حصہ ہوتا ہے۔ جو جسمانی حرکات کو کنٹرول کرتا ہے۔ 

Share this article :
 

Copyright © 2011. Al Asir Channel Urdu Islamic Websites Tarjuman Maslak e Deoband - All Rights Reserved
Template Created by piscean Solutions Published by AL Asir Channel
Proudly powered by AL Asir Channel