رضاخانی تحریف 7
ملفوظات کی اصل عبارت
ایک بار عبد الرحمن قاری کہ کافر تھااپنے ہمراہیوں کے ساتھ حضور اقدس ﷺ کے اونٹوں پر آپڑاچرانے والوں کوقتل کیا اور اونٹ لے گيا اسے قرات سے قاری نہ سمجھ لیں بلکہ قبیلہ بنو قارہ سے تھا ،سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کو خبر ہوئی پہاڑ پر جاکر۔۔۔
اس عبد الرحمن قاری سے پہلے کسی لڑائی میں ان سے وعدہ جنگ ہولیا تھایہ وقت اس کے اس پورا ہونے کا آیا وہ پہلوان تھا اس نے کشتی مانگی ا نھوں نے قبول فرمائی اس محمدی شیر نے خوک شیطان کو دے مارا خنجر لے کر اس کے سےنے پر سوار ہوئے۔الخ
ملفوظات ،حصہ دوم ،ص 164تا166
قارئین کرام اس ملفوظ میں احمد رضاخان نے اسماءالرجال سے جہالت کی بناءپر ایک صحابی رسول ﷺ یعنی عبد الرحمن بن عبد القاری کو کافر خوک اور نہ جانے کیا کیا کہہ دیا حالانکہ جس عبد الرحمن کا اس واقعہ میں ذکر ہے وہ عبد الرحمن فزاری قبیلہ بنو فزارہ کا فرد تھا مگر احمد رضاخان اس کوقبيلہ بنو قارہ جس سے حضرت عبد الرحمن بن عبد القاری رضی اللہ تعالی عنہ کا تعلق تھاباور کراتے ہیں۔اہلسنت کو اس پر شدید اعتراض ہوا کہ اس میں ایک صحابی رسول ﷺکی شدید توہین کی گئی ہے۔بریلویوں نے اس گستاخی پر پردہ ڈالنے کیلئے جوشرمناک حرکت کی آپ حضرات ملاحظہ فرمائیں
بریلوی دعوت اسلامی کے غازيوں کا کارنامہ
ایک بار عبد الرحمن فزاری کہ کافر تھااپنے ہمراہیوں کے ساتھ حضور ﷺاقدس ﷺ کے اونٹوں پر آپڑاچرانے والوں کوقتل کیا اور اونٹ لے گيا،سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کو خبر ہوئی پہاڑ پر جاکر۔۔۔
اس عبد الرحمن فزاری سے پہلے کسی لڑائی میں ان سے وعدہ جنگ ہولیا تھایہ وقت اس کے اس پورا ہونے کا آیا وہ پہلوان تھا اس نے کشتی مانگی ا نھوں نے قبول فرمائی اس محمدی شیر نے خوک شیطان کو دے مارا خنجر لے کر اس کے سينے پر سوار ہوئے۔الخ
﴾ملفوظات ،حصہ دوم ،ص 229،230﴿
غور فرمائیں دونوں جگہ ”قاری“ کو ”فزاری“ سے تبدیل کرکے کس طرح اس گستاخی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی پھر احمد رضاخان کی عبارت”اس کو قرات سے قاری نہ سمجھ لینا بلکہ بنو قارہ سے تھا“ کوبالکل حذف کردیا گيا جس سے تمام باطل تاویلات (مثلاکتابت کی غلطی وغيرہ) کی بيخ کنی ہوجاتی تھی۔ایساکیوں کیا گيا۔۔؟؟فیصلہ آپ حضرات نے کرنا ہے۔
رضاخانی تحریف 8
ملفوظات کی اصل عبارت
حافظ الحديث سےدی احمدسجلماسی کہیں تشریف لے جاتے تھے راہ میں اتفاقا آپ کی نظر ایک نہايت حسينہ عورت پر پڑگئی یہ نظراول تھی بلا قصد تھی دوبارہ پھر آپ کی نظر اٹھ گئی اب دیکھا کہ پہلو میں حضرت سیدی غوث الوقت عبد العزیز دباغ رضی اللہ تعالی عنہ آپ کے پیرو مرشد تشریف فرما ہیں اور فرماتے ہیں احمد عالم ہوکر۔ انھيں سیدی سجلماسی کی دو بيوياں تھيں سيدی عبد العزيز دباغ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ رات کو تم نے ایک بیوی کے جاگتے ہوئے دوسری سے ہمبستری کی یہ نہیں چاہئے،عرض کیا حضور اقدس وہ سوتی تھی فرمایا سوتی نہ تھی سوتی میں جان ڈال لی تھی۔عرض کیا کہ حضور کو کس طرح علم ہوا فرمایا جہاں وہ سو رہی تھی کوئی اور پلنگ بھی تھاعرض کیا ہاں ایک پلنگ خالی تھا فرمایا اس پر میں تھا تو کسی وقت شیخ مرید سے جدا نہیں ہر آن ساتھ ہے۔
ملفوظات ،حصہ دوم ،ص169
غور فرمائیں ایسے شرم کامقام جہاں فرشتے بھی الگ ہوجاتے ہیں کس طرح یہ باور کرایا جارہاہے کہ ایک ولی اس مخصوص حالت میں بھی میاں بیوی کے درمیان موجود ہوکر ساری ”کاروائی“ دیکھ رہا ہوتاہے۔اسلام میں تو نامحرم عورت کی طرف قصدا نظر اٹھانا بھی جائز نہیں اور بقول احمد رضاخان میاں بیوی کے جماع کے وقت پیر و مرشد حاضر ہوتے ہیں اور سب کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
بریلوی دعوت اسلامی کے غازيوں کا کارنامہ
موجودہ بریلویوں نے اس پورے واقعہ کو ہی حذف کردیا ہے ۔ملاحظہ ہو ملفوظات حصہ دوم ص ۴۳۲۔ایسا کیوں کيا گيا اس کا فیصلہ آپ نے کرناہے۔
رضاخانی تحریف9
ملفوظات کی اصل عبارت
حضرت سیدی موسی سہاگ رحمة اللہ علیہ مشہور مجاذیب سے تھے احمد آباد میں مزار شريف ہے میں زیارت سے مشرف ہوا ہوں زنانہ وضع رکھتے تھے ایک بار قحط شديد پڑابادشاہ وقاضی واکابر جمع ہوکر حضر ت کے پاس دعا کیلئے گئے انکار فرماتے رہے کہ میں کیا دعا کے قابل ہوں جب لوگوں کی آہ وزاری حد سے گزر ی ایک پتھر اٹھايا اور دوسرے ہاتھ کی چوڑيوں کی طرف لائے اور آسمان کی جانب منہ اٹھا کر فرمایا ”مینہ بھيجئے یا اپنا سہاگ لیجئے“یہ کہنا تھاکہ گھٹائیں پہاڑ کی طرح امڈیں۔۔اور جل تھل بھر دئے ایک دن نماز جمعہ کے وقت بازار میں جارہے تھے ادھر سے قاضی شہر کہ جامع مسجد کوجاتے تھے آئے انھيں دیکھ کر امر بالمعروف کیاکہ یہ وضع مردوں کا حرام ہے مرادنہ لباس پہنئے اور نماز کو چلئے اس پر انکار و مقابلہ نہ کیا چوڑیاں اور زیور اور زنانہ لباس اتارا مسجدکو ہولئے ۔خطبہ سنا۔جب جماعت قائم ہوئی اور امام نے تکیبر تحریمہ کہی اللہ اکبر سنتے ہی ان کی حالت بدلی فرمایا اللہ اکبر میرا خاوند حی لایموت ہے کبھی نہ مرے گا اور یہ مجھے بیوہ کئے ديتے ہیں۔۔﴾ملفوظات ،حصہ دوم، ص208﴿
بریلوی دعوت اسلامی کے غازيوں کا کارنامہ
حضرت سیدی موسی سہاگ رحمة اللہ علیہ مشہور مجاذیب سے تھے احمد آباد میں مزار شريف ہے میں زیارت سے مشرف ہوا ہوں زنانہ وضع رکھتے تھے ایک بار قحط شدےد پڑابادشاہ وقاضی واکابر جمع ہوکر حضر ت کے پاس دعا کیلئے گئے انکار فرماتے رہے کہ میں کیا دعا کے قابل ہوں جب لوگوں کی آہ وزاری حد سے گزر ی ایک پتھر اٹھايا اور دوسرے ہاتھ کی چوڑيوں کی طرف لائے اور آسمان کی جانب منہ اٹھا کر فرمایا ”مینہ بھےجئے “یہ کہنا تھاکہ گھٹائیں پہاڑ کی طرح امڈیں۔۔اور جل تھل بھر دئے۔﴾ملفوظات ،حصہ دوم،ص294﴿
غور فرمائیں ”مینہ بھیجئے“ سے آگے کی عبارت ”یا اپنا سہاگ لیجئے“ کو ہضم کرلیا گيا اور اس سے آگے کی عبارت کو بالکل حذف کردیا گيا کیوں۔۔؟؟؟یہ سوال آپ نے حل کرناہے۔
Post a Comment