سیّدنفیسُ الحسینی رحمہ اﷲ
سید انور حسین نفیس الحسینی (نفیس رقم )المعروف بہ سید نفیس شاہ صاحب (۱)اس عہد میں پاکستان کے بزرگ ترین خطّاط ہیں۔ آپ کا سلسلہٴنسب حضرت خواجہ بندہ نواز گیسودراز تک پہنچتا ہے ۔حضرت گیسو درازکی اولاد میں ایک بزرگ شاہ حفیظ اﷲحسینی ۱۱۳۴ھ میں گلبرگہ شریف سے بغرض تبلیغ اسلام منتقل ہو کر،سیالکوٹ آبسے تھے۔سید نفیسشاہ صاحب انہی بزرگ کی اولاد میں سے ہیں۔شاہ صاحب کے والدگرامی سیّدمحمداشرف علی سیّدالقلم(۲)اورآپ کے سسر،حکیم سیّدنیک عالم (۳)ماہر خطاط گزرے ہیں۔ان دونوں بزرگوں کا کتابتِ قرآن مجید سے خاص تعلق تھااوردونوں نے زندگی بھر سب سے زیادہ کام کتابت قرآن مجیدہی کاکیا۔
سیدنفیس شاہ صاحب۱۱،مارچ۱۹۳۳ءمطابق ۱۳،ذیقعدہ۱۳۵۱ھ کو موضع گھوڑیالہ ،ضلع سیالکوٹ میںپیداہوئے۔(۴)آپ کے عہد طفولیت میں گھوڑیالہ میں آپ کے والد گرامی کے علاوہ حکیم سیّدمحمد عالم اورحکیم سیّدنیک عالم معروف اساتذہٴ خطّاطی موجود تھے۔تقسیم سے کچھ عرصہ قبل آپ گھوڑیالہ سے لائلپور (موجودہ فیصل آباد چلے گئے اور۱۹۴۸ءمیں سٹی مسلم ہائی اسکول ،لائلپورسے فرسٹ ڈویژن میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔اُس سے پہلے بھوپال والا ضلع سیالکوٹ ہائی اسکول سے ہندی زبان کی تعلیم بھی حاصل کی چنانچہ آپ نے ہندی زبان میں خطاّطی بھی سیکھی ۔میٹرک کے بعد آپ نے اپنے والد گرامی کی زیر نگرانی باقاعدہ کتابت کا آغاز کیا اوربقیہ تعلیم کاسلسلہ بھی جاری رکھا(۵)۔۱۹۵۰ء میں آپ نے گورنمنٹ کالج لائلپور میں داخلہ لیا اور یہاں سے ایف اےکاامتحان پاس کیا۔لائلپور سے جب روزنامہ “ انصاف”جاری ہوا تو آپ نے اس کے پہلے شمارے پر پیشانی اور علامہ اقبال کی نظم “لا الہ الا اﷲ” لکھی۔آپ کی کتابت کردہ پہلی کتاب جو زیور ِطباعت سے آراستہ ہوئی، وہ قاضی محمد سلیمان سلمانمنصورپوری کی مشہور کتابِ سیرت“رحمتہ للعالمینﷺ”ہے جسے لاہور کے ایک معروف ناشر نے شائع کیا۔۱۹۵۱ءمیں آپ لائلپور سے لاہور منتقل ہوگئے۔قیامِ لاہور کے ابتدائی عرصے میں آپ نے اورینٹل کالج کے شعبہٴ اردو وفارسی میں تعلیم بھی حاصل کی (۶)اور روزنامہ احسان لاہوراور روزنامہ آزاد لاہور سے بھی کچھ عرصہ منسلک رہے ۱۹۵۲سے ۱۹۵۶ تک آپ نے روزنامہ نوائے وقت لاہور میں بحثیت سرخی نویس کام کیا اس دوران میں چٹان بلڈنگ ایک کمرہ میں کرائے پر کمرہ لے کر دفتر کتابت بنایا ۱۹۷۰ء سے اب تک آپ اپنی قیام گاہ پر خطّاطی کرتے اور طلبہ کو اصلاح دیتے ہیں۔اس دوران سینکڑوں طالب علموں نے آپ سے اکتسابِ فن کیا اور یہ چشمہٴ فیض ہنوز جاری ہے۔ایک اندازے کے مطابق گزشتہ پچاس برسوںمیں برصغیر پاک وہند میں سب سے زیادہ افراد نے آپ ہی سے یہ فن سیکھا ہے۔اس وقت آپ کی شخصیت ایک منارہٴ نور کی حیثیت رکھتی ہے۔دور دور سے لوگ آپ کے پاس یہ فن سیکھنے آتے ہیں اور مطلوبہ استعداد حاصل کرنے کے بعد اپنے اپنے شعبوں میں چلے جاتے ہیں ۔اب چونکہ کمپوٹر کے ذریعےنستعلیق کی کتابت عام ہوچکی ہے اس لیے آپ سب سے پہلے خطِ نسخ کی تعلیم دیتے ہیں ۔اس کی ایک وجہیہ بھی ہے کہ زیادہ سے زیادہ افراد کتابت ِ قرآن مجید کا کام جاننے والے ہوں تاکہ آئندہ اس شعبہ میں ماہر افراد کی قلت کا احساس نہ ہو۔
یوں تو شاہ صاحب نے متعدد کتابوں کی پاکیزہ کتابت اپنے خوبصورت خط میں کی ہے مگر آج کل شدید مصروفیات،مسلسل اسفاراوردیگرکاموں کی وجہ سے صرف ٹائیٹل سازی کا کام ہی کرتے ہیں ۔آپ اب تکبےشمار کتب ورسائل کے ٹائیٹل تیار کرچکے ہیں ۔اس شعبے میں بھی آپ نے کئی اجتہادی تبدیلیاں کی ہیں ۔یوں تو آپ تمام مروجہ خطوط پریکساں عبور رکھتے ہیں مگر ٹائیٹل میں عموماً سب سے زیادہ خط نستعلیق ہی استعمال کرتے ہیں۔اس کی بڑی وجہ ہمارے ہاں خط نستعلیق سے سب سے زیادہ مانوسیت ہے۔نستعلیق کےعلاوہ آپ ثلث ،نسخ،دیوانی،رقعہ،کوفی وغیرہ بھی بڑی مہارت سے لکھتے اورٹائیٹل پر ان خطوط کا مناسبجگہ پر خوبصورتی سے استعمال کرتے ہیں ۔شاہ صاحب کے ہرکام سے آپ کی ذہانت کااظہار ہوتا ہے مثلاًعبارت کے مطابق خط کا استعمال اورہرخط کے لئے مناسب قط کااستعمال تاکہ عبارت واضح اور دلکش نظر آئے۔
(۱) عموماً آپ اردو یافارسی زبان میں خطاطی کے لیے “نفیس رقم”جبکہ عربی میں خطاطی کے لیے“نفیس الحسینی”لکھتے ہیں۔
(۲)سیّد محمد اشرف علی “سیّدالقلم”۱۹۰۷ء میں موضع گھوڑیالہ ضلع سیالکوٹ میں پیداہوئے۔اپنے تایازاد بھائیوں حکیم سیّدمحمد عالم اور حکیم سیّد نیک عالم سے اکتساب فن کیا ۔آپ نے ۱۹۲۲ءمیں کتابت کا آغازکیا۔آپ کا کتابت کردہ پہلا قرآن پاک ۱۹۳۰ء میں مطبع قیوی (کانپور)سے شایع ہوا۔ ابتدامیں آپ زیادہترخطِ نستعلیق لکھتے تھے ۔بعد میں کتابتِ کلام الہیٰ سے آپ کو خاص شغف ہوگیا اور صرف خط نسخ لکھنے لگے ۔آپ کا کتابت کردہ کلام پاک تاج کمپنی نے بھی شائع کیا۔آپ نے زندگی میں سولہ مرتبہ قرآن مجید کی کتابت کی۔آپ کا انتقال ۲۸،اگست ۱۹۹۵ءکو لاہور میں ہوا۔تدفین احاطہ گیسودراز قبرستان میانیصاحب،لاہور میں ہوئی ۔
(۳)حکیم سیّدنیک عالم ۱۸۹۵ءمیں گھوڑیالہ ،ضلع سیالکوٹ میں پیداہوئے ۔اکتساب ِفن ،اپنے بڑے بھائی حکیم سیّدمحمد عالم سے کیا۔تمام عمر قرآن مجید کی کتابت کی۔آپ نہایت زودنویس خطاّط تھے ۔ایک حمائل شریفصرف ۲۳دن میں کتابت کی جو ۱۹۳۳ءمیں شایع ہوئی ۔زندگی میں ۵۹ قرآن مجید تحریر کیے۔زیادہ تر لاہور،دہلی اور کانپور کے اداروں کےلیے کتابتِ قرآن مجید کی ۔اخیزعمر میں لاہور تشریف لے آئےجہاں،دسمبر۱۹۶۷ءکو آپ نے وفات پائی۔گڑھی شاہو،لاہور کے قبرستان میں آسودہ ٴ خاک ہوئے ۔آپ کےصاحبزادے سیّد ثقلین زیدی ایک ماہر خطّاط کی حیثیت سے معروف طباعتی ادارہ پکیچزمیں خدماتانجام دے رہے ہیں انکی وفات محمد صدیق المارس رقم بھی حکیم سیّد نیک عالم کے شاگرد تھے ۔
(۴)“اردو صحافت میں خطاّطی کی تاریخ “ازخالد محمود،غیر مطبوعہ مقالہ برائے ایم اے(صحافت )مخزونہپنچاب یونیورسٹی لائبریری ،ص۱۹۳۔
(۵)حقیقت ہے کہ شاہ صاحب نے فن ِ خطّاطی کی مکمل تعلیم اپنےوالد محترم ہی سے حاصل کی ،البتہ نظریمشق کئی خطاطوں کے کام کو دیکھ کرکی ۔ انہی خطاطوں میں تاج الدین زریں رقم (وفات ۱۳،جون ۱۹۵۵ء)بھی شامل ہیں۔اس بارے میں شاہ صاحب اپنے مضمون “خطاط الملک تاج الدین زریں رقم ”(مشمولہ روزنامہ کو ہستان لاہور بابت ۱۴،جون ۱۹۶۴ء)میں لکھتے ہیں:“اگرچہ حالات نے باقاعدہ مشق واصلاح کا مجھے موقع نہ دیا اور تعلق صرف “نظری استفادہ ”تک محدود رہا لیکن انہوں نے اپنے خاصتلامذہ ہی کی طر ح مجھے عزیز رکھا اور ایک شفیق استاد کی طرح سرپرستی کی۔” (۶)“آہوان ِ صحرا”ازڈاکٹر عبادت بریلوی ،ادارہ ٴ ادب وتنقید لاہور ،۱۹۹۰ءص ۹۳۔
سیّد نفیس الحسینی کے قلم سے درود شریف ابراہیمی جس میں علی الترتیب نستعلیق ،ثلث ،نسخ ،کوفی اور جلی دیوانی خوبصورت انداز سے لکھاہے۔
ٹائیٹل کی تیاری میں آپ مناسب رنگوں (Colour Scheme)کابھی خوب استعمال کرتے ہیں ۔جس سے اس کی جاذبیت اور حسن میں بے حد اضافہ ہو جاتا ہے ۔ایک اندازے کے مطابق گزشتہ پچاس برسوںمیں برصغیرپاک وہند میں آپ سے زیادہ کسی دوسرے خطّاط نے ٹائیٹل تیار نہیں کیے ۔ دنیا کی ہرایسیلائبریری میں ،جہاں اردو زبان کی دینی،علمی وادبی کتب رکھی جاتی ہوں ،آپ کے خط کاکوئی نہ کوئی نمونہ ضرور ملےگا ۔اس کا اندازہ راقم کو بعض بیرونی ممالک کے اسفار میں ہوا ۔اب تک پاکستان کے جن معروف علمی،دینی وادبی اداروں کے ٹائیٹل آپ نے تیار کیے ان میں سے چند یہ ہیں :پنجاب یونیورسٹی ،مجلس ترقی ٴ ادب،مرکزی اردوبورڈ(موجودہ اردو سائنس بورڈ)،اقبال اکیڈمی،مرکزتحقیقات فارسی ایران وپاکستان،ادارة القرآن والعلوم الاسلامیہ ،ادارہٴ اسلامیات ،مکتبہ ٴ مدنیہّ،مکتبہٴ رشیدیہ، سیّد احمد شہید،ادارہٴ ادبوتنقید،مرکزی انجمن خدام القرآن ،مکتبہ ٴ بینات،مکتبہ ٴ اہل سنّت وجماعت ،دارالاشاعت مجلس نشریات اسلام مجلس ترقی ادب ۔الفیفل۔مکتبہ قاسمیہ شاہ صاحب کے فنی سفر کا اگر مطالعہ کیاجائے تو یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ ہربڑے خطاط کی طرح،آپ کے خط کے مختلف ادوار ہیں ۔جو رنگ آج سے تقریباً تیس برس قبل تھا وہ آج نہیں ۔آپ کاخط مسلسل ارتقائی منازل طے کرتا رہا ہے ۔آج کل آپ کے خط نستعلیق میں ایرانی نستعلیق کی جھلک واضح ہے جب کہ پہلے جس طرح آپ نستعلیق لکھتے تھے ،اس میں “پروینی نستعلیق ”کا رنگ زیادہ گہرا تھا۔ایک موقع پر آپ نے اس بارے میں ،راقم سے فرمایا کہ آپ نے ہردور میں خوب سے خوب ترکی تلاش جاری رکھی ہے،اسی لیے آپ کے خط میں زمانے کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں نظرآتی ہیں ۔اب جس طرح آپ نستعلیق لکھتے ہیں اس کے جوڑا اورپیوند“پرونیی نستعلیق” کے جوڑا اورپیوندوں سے تپلے اورنازک ہیں۔
شاہ صاحب کافنی سفر تقریباً نصف صدی کے طویل عرصے پرمحیط ہے۔اگرکوشش کی جائے تو شاہ صاحب کے نوادر جمع کرکے ایک عمدہ“مرقّع”کی صورت میں چھاپے جاسکتے ہیں۔راقم الحروف نے اپنی تحقیق کے نتیجے میں جن چند نوادر کی تفصیل حاصل کی وہ یہ ہیں :خط نسخ میں قرآن پاک کے کئی اجزاء کی کتابتکرچکے ہیں اور یہ کام ہنوز جاری ہے ،دیوان ِغالب (مکمل کتابت)جسے پنجاب یونیورسٹی نے غالب صدی کےموقع پر ۱۹۶۹ءمیں شائع کیا ،کلام بلھّے شاہ (مکمل کتابت )جسے معروف طباعتی ادارے پکیجز نے شایعکیا،کلّیاتِ میر مرتبہ ڈاکٹر عبادت بریلوی (کچھ حصہ )،شعر ناب مر تبہ غلام نظام الدین (مکمل کتابت)سیرت سیّد احمد شہید(جلددوم)از مولانا سیّدابوالحسن علی ندوی اورقادیانیت از مولانا سیّدابوالحسن علی ندوی کی مکمل اورخوبصورت کتابت کی۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی کی کتابوں کے سرورق جن معروف کتب کے ٹائیٹل آپ نے تیار کیے ان میں:مولانا ابوالکلام آزاد کے مشہور اخبار “الہلال”تفیسر معارف القرآنازمفتی محمد شفیع صاحب،معارف الحدیث از مولانا محمد منظور نعمانی،سیرت النبیﷺازعلامہ شبلی نعمانی وعلامہسیّد سلیمان ندوی کے علاوہ ماہنامہ البلاغ کراچی کے“مفتی اعظم نمبر”اورماہنامہ سیّارہ ڈائجسٹ لاہور کے “قرآن نمبر”میں بھی آپ کے خط کے عمدہ نمونہ موجود ہیں۔مختلف رسائل و جرائد جن کے آپ نے خوبصورت ٹائیٹل تیار کیے ان میں قومی ڈائجسٹ ،ندائے ملّت ،بادبان،صحافت ،رحیق ،الرّشید،انوارمدنیہ ،البلاغ،بیّنات ،حق چاریارشامل ہیں ۔آپ نے ٹیکسٹ بک بورڈ کی فرمائش پر جماعت نہم ودہم کے طلبہ کے لئے “کتابِ خطّاطی”بھی لکھی ہے جس میں مختلف خطوط سکیھنے کےلئے مشقیں موجود ہیں۔یہ کتاب ہنوز غیرمطبوعہ ہے۔
الحق استقلال پاکستان ۔حفیظ جالندھری ۔شجرة الاشراف ۔روحانی رشتے
پتھروں پر آپ کی خطاّطی کے نمونوں میں :لاہور میں مسجد صلاح الدین ٹمبرمارکیٹ،مسجد حضرت علی چوکموہنی روڈ،مسجدفیض الاسلام گنپت روڈ،مسجدچوہدری ہسپتال شیش محل روڈ،مال روڈلاہور پر سمٹ مینار کا پتھر نیز پروفیسر حمید احمد خاں اور محمد طفیل(مدیر نقوش)کے الواحِ مزار قابل ذکر ہیں ۔اس کے علاوہ علامہاقبال میوزیم (جاوید منزل )کےلیے اسٹیل کی تین پلیٹوں پر خط نستعلیق میں خطّاطی آپ کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔کچھ عرصہ قبل آپ نے ایوان ِ اقبال ،اور مسجد اقبال لاہور میں آویزاں کرنے کے لیے کینوس (Canvas)کی تقریباً پچاس شیٹوں پر نستعلیق جلی میں علامہ اقبال کے متفرق اشعار لکھے ہیں ۔رنگ آمیزی کے بعد یہ خطّاطی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔اسی طرح آپ نے چھ خطوط میں درود شریف بھی لکھا ہے جس میں نہایت عمدگی اورمہارت سے ثلث ،نسخ ،نستعلیق ،کوفی،دیوانی اور رقعہ کا استعمال کیا ہے۔خطِ ثلث جلی میں اسمائے حسنیٰ اوراسمائے نبی پاک ﷺبھی آپ کی خطّاطی کی خوبصورت مثال ہے۔
(۱)اب یہ خطاطی “نفائس اقبال ” کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوچکی ہے ۔خطِ نسخ میں اربعین صلاة وسلام
شاہ صاحب کی شخصیت کی کئی جہات ہیں۔ایک مختصر مضمون میں تمام جہات کا احاطہ ممکن نہیں البتہ کوشش کی گئی ہے کہ آپ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات درج کی جائیں ۔شاہ صاحب ایک نامور خطاط تو ہیں ہی،اس کے علاوہ علم وادب سے بھی آپ کاگہرا تعلق ہے۔آپ کا ذاتی کتب خانہ ہزار ہادینی،علمی وادبیکتب کے علاوہ کئی نایا ب اورغیر مطبوعہ نسخوں پرمشتمل ہے۔آپ ایک عمدہ مضمون نگار کے علاوہ اردواورفارسی کے قادر الکلام شاعر بھی ہیں ۔آپ کا مجموعہ کلام “برگ گل”کے نام سے شائع ہوچکا ہے آپ کے مضامین میں تحقیقی شان پائی جاتی ہے ۔آپ کے فن خطّاطی سے متعلق جو مضامین راقم کی نظر سے گزرے ان میں :“خطّاطی ، تاریخی عظمت کا شاہ کار ایک بے مثال فن ”،“خطاطانِ قرآن ”،“عہدِنبویﷺسے خلافت عباّسیہ تک ”،“خطاط الملک تاج الدین زرّین رقم ”،“اسلامی خطّاطی اوراقسام خط” “ایک خوشنویس خاندان ”اور“حافظ محمد یوسف سدیدی”شامل ہیں“مقالات خطاطی”کتابی شکل میں شائع ہوچکی ہے حقیقت یہ ہے کہ فن خطّاطی کے محققین اورشائقین کے لیے یہ مضامین نہایت پرازمعلومات اور مستندہیں۔گاہے گاہے آپ کی شاعری کےنمونے بھی نظر آجاتے ہیں۔ان میں خوبصورت نعت“تجھ ساکوئی نہیں”اپنے پیرومرشدحضرت شاہ عبدالقادر رائپوری کے وصال پر لکھی گئی نظم “رثا”اپنے والد محترم کے انتقال پر لکھی گئی نظم “یاد”تاج الدین زریں رقم کے انتقال کے بعد ان کے بارے میں لکھی گئی نظماوراپنے قدیم ساتھی اور نامور خطاط حافظ محمد یوسف سدید ی مرحوم کے انتقال پر کہے گے اشعار انتہائیمتاثر کن ہیں۔
شاہ صاحب کو فن خطّاطی میں نمایاں خدمات کے صلے میں اب تک جو جو اعزازات عطا کیے گئے ان میں حکومت پاکستان کی جانب سے پاکستان کے تمام خطاطوں میں پہلا پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ اورمیڈل ،پاکستا ن نیشنل کونسل آف دی آرٹس کی نمائش خطّاطی ۱۹۸۰ء میں اوّل انعام ،قرآنی خطّاطی کی کل پاکستان نمائش ،زیر اہتمام پاکستان پبلک ریلیشز سوسائٹی ،لاہور منعقدہ ۱۹۸۲ءمیں اوّل انعام شامل ہیں۔اس کے علاوہ شاہ صاحب پاکستان کے واحدخطّاط ہیں۔جنہیں بغداد میں منعقدہ عالمی مقابلہ ٴ خطاّطی اورنمائش ۱۹۸۸ءاور اسلامی ورثہ کے تحفظ کےبین الاقوامی کمیشن (lClPICH)کے تحت یا قوت المستعصمی کے نام پر استنبول میں منعقدہ دوسرے عالمی مقابلہ ٴ خطاطی ۱۹۸۹ءمیں بطور منصف (Member Of jury)مدعو کیا گیا۔
اب تک شاہ صاحب کی شخصیت کا محض ایک پہلو یعنی بحیثیت نامور خطاط پیش کیا گیا ہے ۔مناسب معلومہوتا ہے کہ آپ کی شخصیت کے دوسرے اوراہم پہلو پر کچھ روشنی ڈالی جائے ۔شاہ صاحب ایک ماہر خطاطکے علاوہ ایک بلند پایہ صوفی بزرگ اورشیخ طریقت بھی ہیں ۔آپ مشہور صوفی بزرگ حضرت شاہعبدالقادررائپوری کے خلیفہٴ مجاز ہیں ۔روزانہ بےشمار افراد آپکی محفل میں شرکت کےلیے آتے اورفیضیابہوتے ہیں۔شاہ صاحب ہرایک سے نہایت خندہ پیشانی اورمحبت کابرتاؤ کرتے ہیں ۔ناممکن ہے کہ کوئی ایک مرتبہ آپ سے ملاقات کرے اور آپ کی محبت ،شفقت ،مہمان نوازی اوراخلاقی بلندی کا گہرا تاثر لے کر نہ اٹھے ۔آپ کی شخصیت میں قدرت نے عجب جاذبیت اورکشش رکھی ہے ۔راقم الحروف نے متحمل مزاجیاورنرم کلامی میں شاہ صاحب ساکوئی اورشخص نہیں دیکھا۔بلند اخلاق کایہ عالم ہے کہ گھنٹوں نشست کیجئےکبھی آپ اکتاہٹ یابیزاری کا اظہار نہیں فرماتے ۔نامور خطاط اوراس عہد کے ایک بڑے شیخِ طریقت ہیں مگر خردنوازی کایہ عالم ہے کہ آپ کی محفل میں چھوٹے خود کو بڑا سمجھنے لگتے ہیں۔ خشونت ،درشتی اورتلخی نام کو بھی نہیں ۔آپ کے ہاں دیکھا گیا کہ جدید اور قدیم دونوں طبقوں کے افراد آپ سے یکساں محبتکرتے اور فیضیاب ہوتے ہیں۔اگر دینی طبقے میں مساجد ومدارس سے متعلق حضرات آپ کے ہاں دیکھےگئے تو جدید تعلیم یافتہ طبقے میں یونیورسٹیوں اورکالجوں کے پروفیسر حضرات اورطالب علم بھی ۔ہرایک سے آپ یکساں محبت اورمہمان نوازی سے پیش آتے ہیں۔آخرمیں آپ سے متعلق یہ فارسی اشعار پیش کیے جاتے ہیں جو برسوں پہلے آپ کی شخصیت اورفن سے متعلق غلام نظام الدین نے کہے تھے:
سیّدِ حق شناس کانِ کرم صاحبِ لوح ، شہر یارِ قلم
شاعر با عمل ، حکیم حکم کاتب ِ بے بدل ، نفیس رقم
نامور نعت گوشاعر،صاحبقلم ،اورعہد حاضر کے سب سے بڑے خوش نویس سید انور حسین المعروف بہ نفیسرقم ہمارا یہ مضمون ایک ایسی شخصیت کے حالات اورفنی ارتقاء پر مشتمل ہے جن کا فن اوران کی ذات کسی تعارف یا وضاحت کی محتاج نہیں ہے،ہماری مراد ہمارے مخدوم۔سید السادات سید انور حسین ،المعروف بہ نفیس رقم،سےہے، شاہ صاحب دراز قامت ،خوب صورت ،کتابی چہرہ اور اپنےنام ہی کی طرح اپنی عادات واطوار میں نفاست رکھنے والے بزرگ ہیں،آپ اس بنا پر اس حدیث نبویﷺکا مصداق ہی کہ :اطلبو الخیر عند حسان الوجوہ یعنی حسین چہرہ والے لوگوں کے ہاں خیر اوربھلائی تلاش کرو ۔
لطف کی بات یہ ہے کہ ہمارے مخدوم حسن و جمال کی تمام صفات سے بھی مزین ہیں اورمعنوی حسن وجمال کے اوصاف سے بھی آراستہ ہیں۔
قدرت کے ایسے حسین شاہکار کے متعلق کچھ عرض کرنا ۔۔۔گویا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے،لیکن اگر“اندھیروں بھری رات ”میں ایک چراغ بھی جلتا رہے اوروہ اپنے جیسے کئی چراغ روشن کرلے تو اس سے یقیناً تاریکیوں کا لشکر ضرور شکست کھائے گا،اس لئے سید نفیس رقم کے متعلق چند سطور لکھیجارہی ہیں :
خاندان :
شاہ صاحب کانسبی تعلق خاندان سادات کے اس عظیم خاندان سے ہے ،جس کے بزرگوں کو “خاتم الانبیا”نے اپنی گود میں کھلایا ،خاتون جنت حضرت فاطمہ الزھراء نے دودھ پلایا ،اور مظہر العجائب والغرائبحضرت علی کرم اﷲوجہ نے ان کی سرپرستی اورتربیت فرمائی۔خاندان نبوت کے ان دونوں بزرگوں یعنیحضرت حسن اورحضرت حسین سے جو سلسلہ شروع ہوا ہےوہ “سید” کہلاتا ہے ۔ہمارے مخدوم اسی خاندانکے چشم وچراغ ہیں اس خاندان میں حضرت گیسو درازپیدا ہوئے
(۱)صدر نشین شعبہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ،پنجاب یونیورسٹی ۔لاہور
حضرت خواجہ گیسودراز:
ہندوستان میں سادات کی اس شاخ میں شاہ محمدگیسودرازجیسے نامورچشتی بزرگ پیدا ہوئے۔شاہ صاحب ۱۵واسطوں سے سید محمدگیسودراز تک پہنچتا ہے۔حضرت گیسودراز کا نام محمد لقب صدرالدین ،کنیت ابوالفتح اورعرف گیسودراز تھا ۔آپکے والدمحترم “سیدیوسف عرف سید راجہ ”تھے ،آبائی وطن خراسان اورمسلکحنفی اورمشرب چشتی تھا۔بارہویں پشت کے جدامجدابوالحسن زیدالجندی دہلی کی فتح سے قبل مجاہدین کی ایک جماعت کیساتھ ہرات سے فتح دہلی کے لئے آئے،یہاں آکر آپ ایک معرکے میں شہیدہوگئے ۔شاہ ابوالحسن جندی کے حالات سے پتہ چلتاہے کہ وہ اس زمانے میں ہندوستان میں وارد ہوئےجب ابھی ہندوستان میں سلطان محمود غزنوی کا دور شروع نہیں ہواتھا ۔انکی اس عظیم شہادت سے،فتح ہند سے پہلے کی،ان متفرق کوششوں کا اشارہ ملتاہے ،جن کا ذکر کسی تاریخ کی کسی کتاب میں موجود نہیں ہے
آپ کے والدماجد راجہ “حضرت نظام الدین محبوب الہیٰ کے مرید تھے، وفات ۷۳۱ھ/۱۳۳۰ءمیں دولت آباد میں ہوئی خواجہ محمدگیسودراز دہلی میں ۷۲۱ھ میں پیدا ہوئے،ابتدائی تعلیم اپنے والد اورنانا سید علاؤ الدین سے پائی جو حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کے حلقہ ارادت سے وابسطہ تھے بچپن سے ہی نہایت متقیاورصوم صلوة کے پابند تھے ۔عمر کے سولہویں سال میں خواجہ نصیرالدین روشن چراغ دہلی کے ہاتھ پر بیعت فرمائی اوراپنے پیرکامل کی نگرانی میں تمام ضروری مجاہد ے اورریاضتیں مکمل کیں۔
۱۹سال کی عمر میں نامور علماءاورفقہا سے علوم عصریہ میں تکمیل کی سند حاصل کی اورعلوم باطنی میں مدارجاعلیٰ طے کئےحضرت خواجہ گیسودرازخواجہ روشن چراغ دہلوی نے اپنی وفات سے چند روز قبل ۷۵۷ھ میںخلافت واجازت سے سرفراز ،فرمایا اڑسیٹھ سال رشدو ہدایت کے کام میں بسر فرمانے کے بعد ،۱۶ذیقعدہ۸۲۵ میں انتقال فرمایا اور گلبرگہ میں ،مدفون ہوئے۔
حضرت خواجہ محمد گیسودراز کی چالیس کے قریب تصانیف ہیں،جو علوم اسلامیہ کے مختلف موضوعات پر آپ نے تصنیف فرمائیں۔جس میں سے چند طبع ہوچکی ہیں،اوربیشتر ابھی مخطوطات کی شکل میں ہیں ۔
ولادت : شاہ صاحب کے مورث اعلی ٰ شاہ حفیظ اﷲحسینی گلبرگوی ۱۱۳۴ء میں دکن سےنقل مکانی کرکے پنجاب میں وارد ہوئے، وہ سیالکوٹ کے نواح میں مدفون ہیں۔
سیالکوٹ بڑا مردم خیزشہر ہے، اس کی خاک سے ملا عبدالحکیم (استاد اورنگ زیب عالمگیر )مولانا حاجی محمد افضل سیالکوٹی (استاد شاہ ولی اﷲومرزامظہر جانجانان شہید العلوی )اورشاعر مشرق علامہ اقبال جیسے لوگوںنے جنم لیا۔
آپ کے والد محترم سیدمحمد اشرف علی بن سید بڈھن شاہ بن سید محمد شاہ الحسینی الیسالکوٹی تھے ۔
۱۔بحوالہ جوامع الکلم ملفوظات حضرت خواجہ سید محمد گیسودراز مجلس روز یکشنبہ چہاد ہم ماہ محرم الحرام۸۰۳ھ۔
چوالیس سال دہلی میں مسند ارشاد پر متمن رہے پھر ۸۰۱ء میں حملہٴ یتموری کی وجہ سے دہلی کو خیرباد کہااورگجرات سے ہوتے ہوئے۸۰۳میں دکن کے مشہور شہر گلبرگہ پہنچے جہاں بالآخر اڑسیٹھ سال رشدوہدایتکے کا م میں بسر فرمائےکے بعد۱۶ذیقعد ۸۲۵ھ کو اس دارفانی سے رخصت ہوئے۔مخدوم ِ دین و دنیا سے تاریخ وفات نکلتی ہے ۔
آپ اپنے دور میں خط نستعلیق اورخط نسخ کے ماہر خوش نویس تھے آپ کے دست مبارک سے کتابت شدہکئی کتابیں زیور طبع سے آراستہ ہوئیں ، لیکن آخری عمر میں صرف قرآن کریم کی کتابت فرماتے تھے،انہیسید محمد اشرف کے ہاں شاہ صاحب کی ولادت ۱۳ذوالقعدہ۱۳۵۱ھ/۱۱مارچ ۱۹۳۳ء میں ہوئی۔
تعلیم وتربیت:
آپ نے ابتدائی تعلیم وتربیت قصبہ بھوپانوالہ کے ہائی سکول سے اور اپنے والد بزرگوار سے حاصل کی،خالقازل کچھ لوگوں کی فطرت ایسی بناتا ہے کہ تعلیم وتربیت کےلئے“حرف ومعنی”کےپابند نہیں ہوتے یہ لدنی یاوھبی علم کالج یامدرسے یا استاد کی نظر عنایت کامحتاج نہیں ہوتا۔ آپ بھی ایسے ہی بزرگوں میں شاملہیں،اسی لئے اگرچہ آپ کے حصول علم کی راہ سکول وکالج کی تھی ،مگر آپ کارخ “سوئے حرم”ہی تھا۔
بھوپال والا کے تعلیمی اداروں میں میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۱۹۴۷ء میں فیصل آباد میں اپنےماموں کے ہاں چلے گئے جو مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری کے شاگرد اورمشہور فاضل شخص تھے ،وہاں آپ نے “گورنمنٹ کالج”میں سال اول میں داخلہ لیا،یہاں آپ کاقیام محلّہ گجر بستی میں رہا گورنمنٹ کالج ،سے جسے اس وقت یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوچکا ہے،آپ نے ایف ۔اےامتیازی نمبروں میں پاس کیا۔
اس دوران میں انہوں نے اپنے والد سے خوش نویسی کی مشق جاری رکھی ۔بعد ازاں۲۳ستمبر۱۹۵۱ءکو آپ لاہور منتقل ہوگئے۔لاہور میں ابتداً چند ماہ “روزنامہ احسان ”اور پھر“نوائےوقت ”میں بحیثیت سرخی نویسخطاط پانچ برس کام کیا،اورخوشنویسی کو بطور شغل اختیار کرلیا۔اس کے ساتھ ساتھ آپ نے مزید تعلیم کیلئے پنجاب یونیورسٹی “اوری اینٹل کالج لاہور ”میں منشی فاضل اورادیب فاضل کی تعلیم پائی ۔اس زمانے منشیفاضل اورادیب فاضل کی کلاسیں اورینٹل کالج میں ہوتی تھیں اوران کلاسوں کو نامور علماء اورماہرادیبپڑھاتے تھے۔اورینٹل کالج نے آپ کو ایک کم گوخاموش طبع ، محنتی ،ذہین اورکام سے کام رکھنے والا طالب علم پایا ،اس زمانے میں آپ کے اردو کے ایک استاد ڈاکٹر عبادت بریلوی اس زمانے کی یادوں کو تازہ کرتےہوئے لکھتے ہیں:
“قیام پاکستان کے بعد ایک طالب علم اورینٹل کالج میں داخل ہوئے اورانہوں نے باقاعدگی سے اردو زبان وادب کی تعلیم حاصل کرنی شروع کی۔وہ عربی فارسی جانتے تھے،لیکن اردوزبان وادب کاباقاعدہ مطالعہ کرنا چاہتے تھے،مجھ سے کئی دفعہ ملے تو میں نے اندازہ لگایا کہ وہ اردو ادب کے سنجیدہ طالب علم ہیں اور ادب کے مطالعے کا انہیں شوق ہے،یہ تھے سید انورحسین شاہ!خوبصورت ،خوش شکل،درازقد،دبلے پتلے ،کتابی چہرہ، گندمی رنگ، شیروانی اورشلوار میں ملبوس ۔وہ مجھے ایک جاذب نظر اور دل آویز شخصیت کے مالکنظر آئے۔یہ زمانہ ان کی جوانی کا زمانہ تھا،اس وقت ان کی عمر بیس سال سے زیادہ نہیں تھی ،لیکچروں میں باقاعدگی سے آتے تھے،طالب علموں سے زیادہ ملتے جلتے نہیں تھے،عام طور پر خاموش اورسنجیدہ رہتے تھے ، استادوں کی عزت کرتےتھے ،شرم وحیا کا پیکر تھے، دوسرے طالب علموں کی طرح استادوں سے زیادہ ملتے جلتے نہ تھے،لیکچروں میں شریک ہوتے تھے ۔اور اس کے بعد گھر چلے جاتے تھے ۔(آہوان صحرا، ص۹۳۔)
دینی علوم کی تحصیل:
چونکہ آپ کا خاندان مذہبی پس منظر کا حامل ہے،علوم دینیہ آپ کے اجداد میں کئی پشتوں سے متوارث رہا ہے،خود آپ کے والد محترم ایک باعمل صالح بزرگ تھے،اس لئے آپ بھی بچپن سے ہی نیک سیرت ،اور“صاحب خصال حمیدہ” واقع ہوئے ہیں ۔کالج میں آپ کے اساتذہ کا اعتراف حقیقت اس کی بخوبیعکاسی کرتا ہے ۔دینی کتب کے ضمن میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آپ نے باقاعدگی سے کسی دینی مدرسےمیں تعلیم حاصل نہیں کی،بلکہ آپ نے جتہ جتہ کتابیں پڑھی ہیں،جیسا کہ محمد حسین تسبیحی صاحب نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہےبایں ہمہ اﷲتعالیٰ نے آپ کو دینی مسائل میں جو شعور عطا فرمایا ہے وہ آپ کے وسیع علمی مطالعے ،علماء سے ذاتی استفادے کے علاوہ وہ خصوصی عطیہ خداوندی کا مظہر ہے ۔
فیض تربیت باطنی:
شاہ صاحب کی یہ حسن سعادت تھی کہ انہیں قلب وذ ہن کے تزکیے اوران کی تطہیر کے لئے جس شخصیت کی سرپرستی میسر آئی وہ اپنے دور کی ہی نہیں ،بلکہ تاریخ کی ایک قد آوراورعبقری شخصیت ہےجس کی مثالیں بہت کم دیکھنے میں ملتی ہیں”یہ شخصیت شاہ عبدالقادر رائپوری قدس سرہ العزیز کی تھی،جو اپنے عہد کے بلاشبہ قطب دوران تھے،جن کے“فیوض باطنی”نے لاکھوں کی زندگیوں میں صالح انقلاب برپا کیا ۔
قیام پاکستان کے بعد بھی اگرچہ شاہ عبدالقادررائپوری ہندوستان کےقصبے “رائپور”میں ہی رہائش پذیر ہے،لیکن پاکستان میں ان کا دورہ اورقیام اتناطویل ہوتا تھا کہ ایسے لگتا تھا جیسے پاکستان ہی آپ کا “وظن ”ہو چنانچہ شاہ صاحب نے یہیں آپ کے دست حق پرست پر بیعت کی، یہ زمانہ شاہ صاحب کے عینشباب کاتھا ۔
خود شاہ صاحب نے ایک مجلس میں اس کی تفصیل یوں بیان کی:
میں اس زمانے (نواح۱۹۵۵)میں نوائےوقت لاہور میں شعبہ خوش نویسی کے ساتھ منسلک تھا،میرے ساتھ ایک دوست بھی کام کرتے تھے، ایک مرتبہ انہوں نے مجھے بتایا کہ لاہور میں ہندوستان کے ایک بڑے بزرگ تشریف لارہے ہیں ،چنانچہ میں نے جاکر حضرت شیخ کی زیارت کی تو دل میں بے پناہ کشش محسوسکی،مگربیعت کا اتفاق۱۹۵۷ء(۱۱جمادی الاولیٰ۱۳۷۷ھ)میں ہوا، جب کہ میں نے نوائے وقت کی ملازمتچھوڑ دی تھی ۔
یہ اس تعلق کی ابتداء تھی،اس کے بعد یہ سلسلہ بڑھتا چلاگیا،اورزندگی کے سارے اطوار بدل گئے،اس زمانےمیں شاہ صاحب کی بیٹھک چٹان کے دفتر میں ہوتی تھی،حضرت شیخ جب بھی یہاں تشریف لاتے آپ زیادہ تر وقت ان کیساتھ بسر کرتے ،اور شیخ کامل کی معیت اورسرپرستی سے مہینوں کے فاصلے دنوں میںاوردنوں کے منٹوں میں بسر ہوتے
بعد ازاں یہ تعلق اتنا بڑھا کہ آپ اپنے مرشدکامل کی نگرانی میں منازل سلوک طے کرنے کیلئے نہ صرف پاکستان میں ان کے ہمراہ رہتے تھے ،بلکہ ہندوستان جاکر بھی “رائپور”میں تادیرقیام پذیر رہے۔
حضرت رائپوری قدس سرہ العزیز کے اس تعلق نے آپ کی ذات کو منبع فیوض وبرکات بنادیااورآپ کی ذات مرجع خلائق بن گئی۔بہت جلد مرشدکامل نے آپ کو “خلافت واجازت ”عطافرمادی،چنانچہ آپ کا شمار حضرت رائپوری کے “بڑے خلفا”میں ہوتا ہے۔
آپ اس تعلق کی بدولت جذب وجنون کی دولت بیش بہا سے مالا مال ہوئے،اس جذب و جنون ہی کی بناپر آپ کو بار بارحرمین کی حاضری ہوچکی ہے۔گئی بار حج کے لئے گئے۔رمضان المبارک کے کئی مہینے آپ نے دیارحبیب ﷺمیں گزارے ۔پاکستان اورہندوستان کے اولیاءاﷲکے مزاروں پر بھی حاضری دی اورکئی دفعہ کچھ وقت انہوں نے حیدرآباد دکن حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو درازکی درگاہ میں بھی گزارااور جب بھی وہاں سے آئے ،تو خواجہ صاحب کی ایسی مطبوعہ اورغیرمطبوعہ تصانیف اپنے ہمراہ لائے جو اب کسی قیمت پردستیاب نہیں ہوتیں ۔(آہوان صحرا،ص۹۸)
شاہ صاحب اسم بامسمٰی ہیں ،آپ نے اپنے نام کی طرح واقعی نفیس طبیعت پائی ہے،اسی لئے جس طرحآپ کا “اشہب قلم ” اردو ،فارسی ،اورعربی کی کتابت میں دوڑتا ہے،اس سے زیادہ آپ کی طبیعت تصوفاورروحانیت کے کاموں میں رواں دواں رہتی ہے،فی الوقت آپ کا شمار حضرت رائپوری قدس سرہ کے جلیل القدر خلفاء میں ہوتا ہے ۔
آپ کی مجلس اہل علم وتحقیق کا مرجع ہے،پاکستان بھر کے محققین مختلف موضوعات پر مواد کی تلاشوجستجو کے لئے آپ کے دردولت پر حاضری دیتے اور شاد کام ہوکر جاتے ہیں۔
شاعری: اوپر گزر چکا ہے کہ اﷲنے آپ کو انتہائی موزوں اورنفیس طبیعت سے مالا مال کیا ہے،اسی لئے آپ دنیا ئے اسلام کے عظیم ترین خوش نویس اوربےمثل وبے عدیل فاضل اورمر بی ِّ کامل ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے شاعر بھی ہیں ،مگر آپ کی شاعری “الشعراء یتبعھم الغاؤن ” کے زمرے میں نہیں آتی بلکہ “الا الذین امنو ا وعملوالصالحات (مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اورانہوں نے نیک اعمال کئے)کا ہی “پر تو ” ہے ۔
عربوں کے ہاں ایک ضرب المثل ہے کہ “الشعراء تلامیذ الرحمان ”(شعراء اﷲتعالیٰ کے شاگرد ہوتے ہیں )اس ضرب المثل کا اور کوئی مصداق ہویا نہ ہو مگر ہم شاہ صاحب کو بدرجہ اتم اس کا مصداق قرار دے سکتے ہیں ،نہ صرف اس لئے کہ آپ کی شاعری “کوچہ یار” کے گردنہیں گھومتی ،بلکہ اس میں عشق حقیقی کی تجلیات اوراسکے جلوے بدرجہ اتم نظرآتے ہیں،بلکہ اس لئے بھی کہ آپ نے شاعری میں کسی“استاد سخن”سے نہ کبھی اصلاح لی اورنہ کسی کے سامنے زانوے تلمذتہہ کئے۔اور نہ کبھی مشاعرہ میں شرکت کی ،بلکہ قدرت نے آپ کو یہ ملکہ عطا فرمایا،کہ آپ براہ راست “منبع صدق وصفا”سے مستفیذ ہوئے ہیں۔غلام نظام الدین آپ کے متعلق لکھتے ہیں:
“نفیس رقم”نے جب سے اپنے آپ کو عام خطاطوں کی جماعت سے نکال کرعارفین سالکین کے مقدسگردہ میں ڈال لیا ہے ،ان کےباطن کو “روح القدس ”کی اعانت وحمایت حاصل ہے،اوران کے ہاں جمالیاتیرسائیوں کا احساس شدید ترہوگیا ہے،اب ان کی نستعلیق میں فن جزالت پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے ۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ حسنِ حقیقی کے جلوے ان کے دائروں میں موج درموج منعکس ہورہے ہیں ۔(غلام نظام الدین :فنکار سےملیے،پندرہ روزہ “نیا پیام ”لاہور (ص۲۴)۱۵ جون ۱۹۸۱)
شاہ صاحب میں شاعری کاجذبہ پیدائشی اورفطری ہے،آپ ابھی انٹرمیڈیٹ کے طالب علم تھے کہ اسی وقت سے آپ نے “سیدانورزیدی”نے نام سے شعر گوئی شروع کردی تھی ،ابھی آپ وہاں سال اول کے طالب علم تھے کہ آپ کا نعتیہ کلام کالج کے ادبی میگزین میں شائع ہوا اس وقت عمرپندرہ برس تھی ۔۔۔۔اس وقت کا کہا ہوا اسلام ۔۔۔۔۔بڑا زوردار اورپرتاثر ہے،ملاحظہ فرمائیے
سلام اےشمع روشن ، چشم عبداﷲکی بینائ زمانہ تجھ پہ قرباں ہے، فرشتے تیرے شیدائی
تیری آمدسے رونق آگئی گلزار ہستی میں عنا دل چہچہا اٹھے بہار آئی بہار آئی
تیری رحمت کے دامن کی ہے لامحدود پہنائی
اس دور میں ،جب آتش جواں تھا ۔زیادہ تر غزلیں کہی گئیں لیکن چونکہ وہ دورابھی شعور میں پختگی کا محتاجتھا،جو وقت کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے پیداہوئی ،اس لئےاس دور کی کہی ہوئی بیشتر ان کے حال ہی میں شائع ہونے والے مجموعے برگ گل میں جگہ نہ پاسکیں ۔
اس دور میں آپ نے کچھ نظمیں بھی کہیں ،جن میں سے بطور مشال ۱۸ستمبر۱۹۵۱ءکو کہی گئی نظم کا ذکر کیا جاسکتا ہے،جو “حکیم مشرق لائلپور کے شمارہ اکتوبر ۱۹۵۱ ءمیں سید انور زیدی کے نام سے طبع ہوئی۔اس میں آپ فرماتے ہیں:
دلوں میں حکمت قرآن لئے ہوئے اٹھو جلال بوُزٴر وسلمان لئے ہوئے اٹھو
وہ ہند دعوت یلغار دے رہا ہے تمہیں رگوں میں خون شہیداں لئے ہوئے اٹھو
تمہارے دین کی عظمت ہے چوٹ کھائے ہوئے جگر پہ داغ نمایا ں لئے ہوئے اٹھو
اٹھو اور اٹھ کے زمانے کو اپنے زیر کرو یہ کام ایسانہیں ہے،کہ اس میں دیر کرو
شاہ صاحب کی شاعری کا کوئی مجموعہ مدتوں شائع نہیں ہوا (برگ گل حال ہی میں طبع ہوا ہے)اس تاخیر کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آپ کی طبیعت میں اسلاف کی طرح “اخفائےحال” کمال درجے کا ہے ، اکثر اوقاتآپ کلام سنانے کے بعد اپنانام بھی نہیں بتاتے ،چنانچہ غلام نظام الدین صاحب بیان فرماتے ہیں :
“ایک مرتبہ لاہور کے ایک کیفے میں شاہ صاحب یوسف سدیدی اورراقم الحروف اکٹھے چائے پی رہے تھے،شاہ صاحب نے مختلف شعراء کاکلام سنایا،پھر ایک رباعی بے حد پسند کی گئی،لیکن فرمائش کے باوجود شاہ صاحب نے شاعر کانام نہ بتایا اوریہی کہتے رہے،بس کسی کی ہوگی ،میں سمجھ گیا کہ اس نکرہ میں انتہائیمعرفہ پن ہے،جب میں نے اصرار سے کہا کہ رباعی یقیناً آپ ہی کی ہے،تو انہوں نے تسلیماً ہلکا ساتبسم کیا اور آپ کی آنکھوں میں ایک پر مسرت چمک آگئی،لیکن خاموش رہے (فنکارسے ملیئے،ص۲۴)
ابتدائی دور میں شاہ صاحب اس موقع پر شاعری کرتے جب کوئی خوشگوار یا ناخوش گوار موقع آپ کے خیالات میں تموج یا تہیج پیدا کردیتا تو آپ کے اندرموجود بحرمعانی اشعار کر روپ دھار نے کیلئے بیتاب ہو کر باہر نکل پڑتا ،مثال کے طور پر ۱۹۶۲ ءمیں آپ کے پیرومرشد شاہ عبدالقادر رائپوری قدس سرہ کا وصالہواتو آپ کے جذبات میں ہلچل پیدا ہوگئی اوراس موقع پر آپ نے ایک پر درد اور سوز المیہ نظم کہی،جسے عرف عام میں مرثیہ کہا جاتا ہے اس میں آپ نے چھوٹی بحر منتخب کی ہے اور حروف علت (ا،و،ر)کا تکرارملتا ہے،جس سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے غم ایک ایک قطرہ بن کر ٹپک رہا ہو اور آہوں اورسسکیوں کا ایک دھواں فضا کو مرتعش کررہاہو،آپ فرماتے ہیں :
اے غم جاناں اے غم جانم دل ہے پر خون آنکھیں پرنم اﷲ اﷲان کا عالم عشق سراپا حسن مجسم
قطب زمانہ غوث یگانہ رشک جنید وشبلی وادھم لاکھوں دلبر لیکن پھر بھی تیرا عالم ، تیرا عالم
فانی فی اﷲباقی باﷲ ختم انہی پران کا عالم جامع سنت قاطع بدعت نائب حضرت فخر دو عالم
عسکری اصحاب محمد لشکر ی پیغمبر خاتم تجھ سا نہ دیکھا تجھ سا نہ پایا اتردکھن ،پورپ ،پچھّم
حسن ِ تکلم ، رنگ تبسم غم کا مداوا زخم کامرہم گاہ اشارہ گاہ کنایہ مجمل مجمل، مبہم مبہم
نورشریعت فیض طریقت جاری ساری باہم باہم سوز مروت لحظ لحظ درد محبت پیہم پیہم
دنیا دنیا ،عقبی عقبی عالم عالم تیرا ماتم
(فنکار سے ملئے ص۲۵)
آپ کے دوسرے مضمون اورغزلیات پر بھی یہی رنگ غالب ہے۔
شاعروں میں شاہ صاحب بہت تیزی سے منزلیں طے کررہے تھے اوردل کی وارداتیں حسیّن الفاظ سے مجسمہوکر سننے والوں کے دل موہ رہی تھیں،کہ اسی اثنا میں شاعرانہ جذبات پر مہر وشفقت کا سایہلہراگیا،اورجذبات کی رو کے ساتھ آگے بڑھنے والی شاعری کو بریک سالگ گیا۔
ہوا یوں کہ جب شاہ صاحب ۔۔۔۔۔شاہ عبدالقادر رائپوری کے حلقہ ارادت میں داخل ہوئے تو ایک روزحضرت رائپوری نے فرمایا :شعر کاذوق بھی ہے؟عرض کیا حضرت بہت زیادہ ذوق وشوق ہے۔فرمایا :جب کسی کی شادی ہوتی ہے تو اس کا جی چاہتا ہے کہ خوب رونق اورچہل پہل ہو،مگر جب وصال کا لمحہ آپہنچتا ہے،تو اپنے اورمحبوب کے درمیان کسی غیرکا وجود برداشت نہیں کرسکتا ۔شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ سنتے ہی میری ذہنی کیفیت ہی بدل گئی۔طبیعت میں وہ جوش وخروش نہ رہے ،اب شعر گوئی کاذوق تو باقی رہ گیا ہے ،مگرشوق بالکل جاتا رہا اورشاید ہی کوئی نعت یا نظم موزوں ہوتی ہے ۔اﷲتعالیٰ نے آپ کو جوذوق شعری بخشا ہے،آپ نے اس کا بھر پور استعمال نعت گوئی اور منقبت گوئی میں کیا ہے،آپکی شاعریکامن پسند موضوع نعت رسول مقبول ہے ۔مثلا ًایک نعت میں آپ فرماتے ہیں :
عطا قدموں میں ہو دائم حضوری یارسول اﷲہے اب ناقابل برداشت دوری یارسول اﷲ
عنایت ہو اگر اک لمحہ اپنی خاص خلوت کا مجھے اک عرض کرنی ہے ضروری یا رسول اﷲ
اجازت ہو تو کچھ چشمان ترسے بھی بیان کرلوں ابھی ہے داستان غم ادھوری یا رسول ا ﷲ
میری غایت تمنا ہے درِ اقدس کی دربانی زہے عزت اگرہو جائے پوری یارسول اﷲ
مدنیے میں ہی آکر راحت وتسکین پاتی ہے دل فرقت زدہ کی ناصبوری،یا رسول اﷲ
دم رخصت نفیس اشکون سے ترہے رحم فرماؤ خدارا اک جھلک ہلکی سی نوری یا رسول اﷲ
یہ نعت شائع ہوئی تو اس کے ساتھ چوکھٹے میں یہ سطور بھی تھیں ۔
“یہ درماندہ مواجہ شریف پر حاضر خدمت اقدس ہوا فوراً ہی ایک شعر واردہوگیا بعد میں تدریجاً مدینہ منورہہی میں اورشعر بھی ہوگئے ،آخری شعر رخصت کے وقت ہوا ۔(نفیس )
مندرجہ بالا نعت جس پس منظر میں کہی گئی وہ جاننے کے بعد یقیناً اس کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے ،آپ یہ نعت ایک بار پھرپڑھ لیجئے،(پروفیسر خالدبزمی : سید نفیس الحسینی ،درسالنامہ محفل ،لاہور ۱۹۸۹ءص ۶۵)
شاہ صاحب سید نفیس الحسینی مدظلہ العالی کی بعض نعتوں کا مجموعہ “برگ گل”کے عنوان سے طبع ہوچکا ہے۔اس مجموعے کی رو سے آپ نے حمدباری ، نفائس النبی ﷺ،مناقب ،شعرالفراق ،اذان جہاد ،مینائے غزل،نفائس اورصریر قلم کے عنوان سے بہت عمدہ اورخوب صورت نظمیں اورنعتیں کہی ہیں ۔خصوصاً نعتوں میں آپ کا اسلوب ایسا ہے کہ ہرنعت بار با ر پڑھنے اورگنگنائے کو جی چاہتا ہے مثلاً ایک نعت ملاحظہفرمائیے ۔
چھارہی ہے گھٹا مدنیے کی آگئی رت پلانے پینے کی زندگی اس کی ،موت اس کی ہے خاک ہوجائے جومدنیےکی مئے افرنگ میں وہ بات کہاں لامرے واسطے مدنیے کی ختم ہے سلسلہ نبوت کا مہرہے ہاشمی نگینے کی ہفت قلزم کے موتیوں سے گراں بونداک اک ترےپسینے کی ملائکہ ساتھ ہیں دامن سنبھالے حراسے آرہے ہیں کملی والے چہار آفاق مجھ پر ہوگئے تنگ مجھے تو اپنے کملی میں چھپالے زہے چشم فسوں ساز محبت پرائے کو بھی جو اپنا بنا لے بہار آئی ہے غنچے کھل رہے ہیں مرے دل تو بھی دو دن مسکرائےنفیس صاحب کی نعتوںمیں اس انداز کے اشعار بھی ملتے ہیں جس کا اپنا ایک لطف ہے ہاں ! ساقی کوثر سے صبا! عرض یہ کرناایک رندسیہ مست بہت یاد کرے ہے یہ عاشق بے نام ہے مشتاق زیارت دن رات ترے ہجرمیں فریاد کرے ہےاے باد صبا! راہ تیری دیکھ رہا ہوں اب آکے سنا جو بھی وہ ارشاد کرے ہے
آپ کی بعض نعتوں میں جو آمد،اورداروات قلبیہ کی جس طرح عکاسی ہوتی ہے ،وہ اپنی مثال آپ ہے ،
دنیا سیپ محمد موتی ﷺ اس بن دنیا کیسی ہوتی ﷺ
مقصودِکونین محمدﷺم طلوب دارین محمدﷺ اس بن دنیا کی کیسے ہوتی ﷺ
کاش مرے محبوب کی دھرتی مجھ پہ نفیس یہ شفقت کرتی اپنے اندر مجھ کو سموتی ﷺ
آپ نے فراق ،غزل اوردوسرے عنوانات پر بھی بڑی عمد ہ شاعری کی ہے،جس سے بلاشبہ دل ودماغ معطراورمنور ہوجاتے ہیں،آپ کی شاعری شاہدوشراب کی شاعری نہیں ہے ،آپ کی شاعری سچے اور سچے لفظوں اور انسانی زندگی کے گہرے سمندروں کی شاعری ہے۔آپکی شاعری کے سوتے آپ کے دل ودماغاورآپ کے حالات و واقعات سے پھوٹتے ہیں،آپ نے اپنے جذبوں کو زبان عطا کی ہے،اوراپنی سوچوں کو شاعری کا رخ عطا کیا ہے۔
شاعری زیادہ تر آمد پرمشتمل ہے،کسی کسی جگہ البتہ آورد بھی ہے،لیکن بہت کم ہے،جن جن موقعوںپراشعار کہے گئے ہیں وہ سب تاریخی موقع ہیں،سکردو کے سفرمیں مضمون نگار آپ کے ہمراہ تھا،ہوائی جہاز راولپنڈی سےاُبھرا۔راستے میں جب کوہ ودَمن کے اوپر سے گزرا،تو آپ پر کیفیت طاری ہوگئی، اور آپ نے یہ اشعار نظم کہے:
دریا جو بہہ رہا ہے سبحان تیری قدرت ہر قطرہ کہہ رہا ہے سبحان تیری قدرت
جوبار اٹھاسکے نہ ارض وجبال وافلاک انسان ۔۔۔رہا ہے سبحان تیری قدرت (سفر،۱۴۱۷ھ ،۱۹۹۲)
پہلی مرتبہ مدنیہ طیبہ میں حاضری ہوئی مواجہہ شریف پر ،جذبات نے نعت کی صورت اختیار کرنا شروع کی اور“عطا قدموں میں ہودائم حضوری یارسول اﷲ”نظم ہوگئی،اسی طرح ۱۹۹۱ء میں دوبارہ حاضری ہوئیتو“اﷲاﷲمحمد ترا نام اے ساقی ”نظم ہوئی،اسی طرح مختلف بزرگوں اوراپنے شیخ کی وفات پر درد نظمیں کہی گئیں ہیں ۔یہ سب سچے جذبوں کی داستانیں ہیں ۔
خوش نویسی اوراس میں آپ کامقام :
شاہ صاحب کے والد محترم سید محمد اشرف علی اپنے وقت کے خط نستعلیق کے نامور خطاط اورخوش نویس تھے،ان کے کتابت کردہ قرآن مجیداوردینی کتب کے نسخے اس زمانے میں سنگی طباعت سے آراستہ ہوئے اورچند کتب کو جدید اشاعت کے طریقے پر بھی شائع کیاگیا ۔
اس طرح ،کتابت کا فن آپ کی خاندانی میراث ہے،آپ نے اسی فن کی گود میں آنکھ کھولی ،اسی نے آپ کی پرورش کی،اسی کی چھاؤں آپ پر سایہ پدری بن کر ضوء فگن رہی ،جن دونوں آپ اورینٹل کالجمیں زیر تعلیم تھے ۔ان دنوں میں بھی آپ ایک پختہ فکر “کاتب ”تھے اور آپ کے ہم سبق اور آپ کے اساتذہ اس پر متعجب ہوتے تھے ،چنانچہ ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں :
یہ حسن وجمال ان کے پاس کہاں “میں ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا کہ وہ کون ہیں،کہاں رہتے ہیں،اورکیا کرتے ہیں۔لیکن جب دسمبر امتحان ہوا اورمیں نے ان کی امتحان کی کاپی دیکھی تو میں ان کے خط کی خوبصورتی دیکھ کر حیران رہ گیا۔میرے دل میں یہ معلوم کرنے کی خواہش پیدا ہوئی کہ خط میں یہ حسن وجمال ان کے پاس کہاں سے آیا ہے اورفن انہوں نے کن سے سیکھا ہے ،چنانچہ ایک دن میں نے انہیں اپنے پاس بلایا اوران کی امتحان کی کاپی انہیں دکھا کر پوچھا،ایک طالب علم کا خط اتنا خوبصورت نہیں ہوسکتا ۔یہ فن آپ نے کس سے سیکھا ہے؟کہنے لگے میرے خط میں کوئی خاص بات نہیں ہے،آپ کا حسن ذوق اورحسن نظر ہے،ویسے میں پیشے کے اعتبار سے خوش نویس ہوں ،کتابت کرتا ہوں ،میرے والد بھی کلام پاک کی کتابت کرتے ہیں ،وہی میرے استاد ہیں۔میں نے انہی سے سب کچھ سیکھا ہے میں نے کہا : اﷲتعالیٰ نے آپ کے ہاتھ میں تخلیق کی ایسی صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں جو کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہیں۔میں آپ کے فن سے بہت متاثرہوا ہوں یہ کہہ کر میں نے دوسروں کو ان کی کاپی دکھائی اوراس طرح سارے کالج کو اس کا علم ہوگیا کہ ایک ماہرفن ان کے کالج کا طالب علم ہے۔(آھوان صحرا،ص۹۴)
جیساکہ اوپر ذکر ہوا،شاہ صاحب نے کسی بھی نامور خطاط کی شاگردی اختیار نہیں کی،بلکہ جو کچھ سیکھا،اپنے والد محترم سے سیکھا اوراس فن میں اپنے پیرو مرشد شاہ عبدالقادررائپوری کے روحانی فیوض وبرکات نے روحانی اثرونفوذ پیداکی،اسی لئےان کے خط میں ظاہری حسن وجمال کے ساتھ ساتھ ایک معنوی اورروحانیحسن وجمال بدرجہ اتم موجود،اسی لئےآپ کے خط کی کشش دوآتشہ بلکہ سہ آتشہ ہوکر اپنا اثر دکھاتی ہے۔
شاہ صاحب کی کتابت پر نصف صدی کازمانہ گزرنے والا ہے،اس عرصے میں ملکی میدان سیاست سے لے کر آپ کی اپنی زندگی میں کئی تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں۔آپ شروع میں نوائے وقت میں ملازم ہوئے اوربانی نوائےوقت حمیدنظامی کے زمانے میں کام کیا۔آپ نے ایک مرتبہ بتایا کہ آپ نوائے وقت کے موجودہ چیف ایڈیٹرمجیدنظامی کے نکاح میں شریک تھے،جو مفتی محمد حسین بانی جامعہ اشرفیہ نے پڑھایا تھا۔بعدازاں آپ نے یہ ملازمت چھوڑ دی ۔پھرایک زمانے تک شورش کاشمیری کے ہفت روزہ چٹان کے دفتر کی بالائی منزل پر کرایہ پر کمرہ لے کر اس میں بیٹھتے رہے ،اسی زمانے میں آپ نے روحانی منازل کی تکمیلفرمائی اورآپ کی کتابت کے حسن و جمال کی شہرت ملک میں چار سوپھیلی اورآپ کی خوش نویسی کا شہر دور دور تک پھیلا ۔
بعدازاں مولانا حامدمیاں مرحوم نے جو راقم الحروف کے استاد اوروقت کے ایک جید عالم دین تھے،آپ کو “جامعہ مدنیہ”کریم پارک میں ایک کمرہ دے دیا،اوراس طرح یہاں ایک عرصہ تک محفل سجتی اورروحانیتبٹتی رہی ۔اس کے بعد آپ نے اپنے دولت خانے نفیس منزل (کریم پارک )میں فیوضات ظاہری اورباطنیکیلئےبیٹھنا شروع کردیا اوربحمداﷲیہ سلسلہ اب تک جاری وساری ہے،حال ہی میں “سبزہ زار”کےحافظ ٹاؤنمیں شاہ صاحب کے ایک خانقاہ کی تاسیس کی گئی ہے،جس میں آپ ہرجمعرات کی رات سے جمعہ کی تماز تک قیام کرتے ہیں۔
آپ کے فن کتابت کے متعلق کچھ عرض کرنا اگرچہ سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے،لیکن رسم زمانہ کو نبھاہنے کےلئے کچھ نہ کچھ عرض کرنا پڑ رہا ہے ،ورنہ حقیقت وہی ہے جسے یوں بیان کیاگیا ہے:
مشک آنست کہ خودببویدنہ کہ عطا ربگوید (خوشبو وہ ہے جو خود مہکے وہ نہیں جسے عطا بتلائے کہ یہ خوشبو ہے)
شاہ صاحب کے تحریر ی شہ پارے اپنی داستاں آپ کو خود سنائیں گے،آپ کے فن پارے ان کے نوک پلک درست کرنے والی شخصیت کی مہارت ومزاولت کی حقیقت خود بیان کریں گے ۔البتہ نامناسب نہ ہوگا اگرہم آپ کے فن کے متعلق چند اہل قلم کی آراء پیش کریں ۔
نامور ادیب اور فاضل محمد حسین تسبیحی لکھتے ہیں :
ہرکس کہ انتشارات مرکز تحقیقات فارسی ایران وپاکستان رامطالعہ میکند بانام مولانا سیدانور حسین نفیس رقمآشنااست ،آقائی نفیس رقم یکے ازخوشنویسان وخطاطا ن مشہور وماہروزریں دست وخوش قلم است” استاد نفیس رقم بالکلیہ اقلام خطوط اسلامی کہ ازصدراسلام تاامروزبہ وجودآمدہ است میتواندخوشنویسی میکند وہرگاہ بہ وقت درخوشنویسی آقای ایشان رایک نفاش ماہر وچرب دست بہ حساب برآوردیم ۔(مضمون “استاد نفیس رقم ” درپارس شمار۳۹۵۵،دوشنبہ بیت ونہم دی ،۱۳۴۵ھ،ش)
خط نستعلیق کے متعلق حافظ محمد یوسف سدیدی اورصوفی مخمورسدیدی صاحب سے اکثر بات چیت رہتی تھی ۔کثرت محنت کی وجہ سے ان حضرات نے اپنے اپنے اسلوب میں جو انفرادی حسن پیدا کرلیاتھا،اس کا کسے اعتراف نہیں اوران کی عہد آفریں عظمت سے بھی کسے انکار ہوسکتاہے ،لیکن میرا طریقہ یہ تھاکہ اچھے سے اچھے نستعلیق کو میں کئی مرتبہ دیکھا کرتا تھا اورہرمرتبہ تادیر دیکھتا رہتا تھا ،پھر مجھے خیا ل آتا کہ یہ لفظ اگریوں ہوتا تو بہترہوتا،وہ لفظ اگریوں ہوتا تو کتنا اچھا لگتا ،یوں اصلاح وترمیم سوچتے میرے اندر ایک تنقیدی ملکہ پیدا ہوگیا،صوفی مخمورسدیدی گواہ ہیں کہ میں نے کوئی چیز لکھوائی ہوتی تو جو سیٹنگ میں اپنے قلم سے دے بھیجتا ،اکثروبیشتر صوفی صاحب وہی سیٹنگ قبول فرماتے اوراسی طرح لکھ دیتے ،حافظ صاحبمیری سیٹنگ میں بعض مرتبہ ترمیم کرتے اورخوب کرتے ،لیکن عام طور پر وہ بھی میری سیٹنگ قبول کرلیتے تھے،اسی طرح میری حوصلہ افزائی ہوجاتی اور مجھے نستعلیق کے بارے میں اپنے حسن نظر پر بھروسہساہونے لگا اگرچہ یہ سب کچھ حافظ یوسف سدیدی اورصوفی مخمورسدیدی صاحب کی خدمت میں چند گھڑیاں بیٹھنے ہی کا نتیجہ تھا۔
جمال ہمنشین درمن اثر کر و وگرنہ من ہمان خاکم کہ ہستم وگر نہ من ہمان خاکم کہ ہستم
دسمبر ۱۹۶۲ء کی بات ہے کہ گڑھی شاہولاہور میں ،حافظ یوسف صاحب کے مکان پر،ان کے فرزند بہار مصطفیٰ کی پیدائش کی تقریب میں بہت سے مہمان جمع تھے کہ ایک دیوار پرایک کیلنڈر دکھائی دیا ،جس پر غالب کایہ شعر لکھا تھا :
نغمہ ہائے غم کو بھی اےدل غنیمت جانئے
بےصد ا ہوجائےگا یہ ساز ہستی ایک دن
میں نے حافظ صاحب سے پوچھا ،“یہ شعر کس کا لکھا ہوا ہے ؟“
حافظ صاحب نے کہا “کیاوجہ ہے ؟”
میں نے کہا “اس میں غضب کی کشش ہے اورقلم کی گرفت مضبوط اورزور داراسلوب لفظی کی ترتیب،حروف کی کرسی،دائروں کی لطیف ساختیں ، مدوں کی روانی ،پیوندوں کی موزونیت اورنوک پلک کی تیزیحسن ،نہ صرف ابھررہا ہے ،بلکہ اچھل اچھل رہا ہے”۔
حافظ صاحب نے کہا “یہ نستعلیق کا استاد اجل اورعالم بے بدل ہے، میں جب اس کا لکھا ہوا دیکھتا ہوں اور حظ سے حیرت حسن کے مقام میں کھو جاتا ہوں ،ایک نشہ سامجھ پر چھا جاتا ہے ،میرا نیس کی شاعری میں سلاست اور فصاحت کاجو مقام ہے وہی کیفیت اس شخص کے زور قلم میں ہے اوراس کے لکھے ہوئے نستعلیق میں دریا کے مستانہ ٹھاٹ کی طرح ،ایک بے تحاشہ فطری سلاست اورزور دار بہاؤ ہے ۔وہ نہ صرف سریع القلم اورنفیس القلم ہے،بلکہ بدیع القلم بھی ہے ۔میں نے کہا “آپ میرے محسوسات کی موُ بموُ ترجمانی کرتے ہیں ۔
میں یہ کہنے والا تھا کہ“میں اپنے حسن خیال کی بنا پر نستعلیق میں ترمیم واصلاح کا جو نیا دائرہ لگاتا ہوں ،یہ شخص اپنے بدیع اسلوب کی بنا پر بہت سے مقامات پر اس دائرے پرچل رہا ہے،گویا یہ شخص تخیل کافاتحہے اوریہی علامت نابغہ ہونے کی ہے کہ اس نے حقیقت موجود کو کھینچ تا ن کر یا مرکز سےحظِ محیط کو ہرنقطے سے چھو کرتمام امکانی عظمتوں اوررفعتوں کو تسخیرکرلیا ہے۔
حافظ صاحب نے کہا :“بالکل ایسا ہی ہے اوراس شخص کے کلمات آئندہ زمانے میں آسمانی کو اکب کی طرحجگمگ جگمگ فروزاں ہوں گئے ۔ایک نادر قسم کی عظمت اورایک جادوانی شہرت اس شخص کے قلم سے اپنی بیعت ارادت محکم واستوار کرچکی ہے،لوگ اس تجارتی دورکی عاجلانہ ضروریات کے تحت اس شخص کے جمال وکمال فن اوراس کے درخشند ہ انداز کو ھنو زبخوبی تشخیص نہیں کرسکے ،ورنہ یہ شخص وہ کہ ۔۔۔خط نستعلیق خود اس کے قلم سے منسوب ہورکر اپنے مقدر پرفخر وناز کیا کرے گا ”میں نے کہا “آخر! یہ شخص ہے کون ؟”
حافظ صاحب نے کہا “میں جلد ہی ملاقات کا انتظام کرادوں گا اور یہ ہیں شاہ صاحب ”میں نے پوچھا:“شاہ صاحب کون سے؟ ”میں نے کہا“بہت خوب اتنے بلند انسان کو دیکھنے کی سعادت میں ضرور حاصل کروں گا ”
چند روز بعد بیٹھک کاتباں میں،جناب مخمورسدیدی صاحب نے کچھ لوگوں کو بلایا ، مجھے حافظ صاحب لے گئے،وہاں تھوڑی دیر کے بعد شاہ صاحب تشریف لائے ،بہت مختصر سی ملاقات رہی ،ایک اثر عظیم اپنی جامع الحیثیات اورمتنوع الصفات شخصیت کایاد گار اثر چھوڑ کر،حضرت شاہ صاحب جلد رخصت ہوئے ۔
۱۹۶۲ءسے حضرت شاہ صاحب کے(خط)نستعلیق کو میں بہت شوق سے دیکھتا رہا ہوں اوراپنے ذہن ہی ذہنمیں ان کے خط کو نمبر بھی دیتا رہا ہوں ،بہت عام یہ اتفاق ہوا ہے کہ میرا ذہن انتہائی دقیق منہاج پر چل کر پروینی نستعلیق کو نفیس تربنانے کیلئے جو چند تجویزیں بمشکل فراہم کرتا، شاہ صاحب کا خط بسہولت ہی حسنوجمال کی ان ہی نادیدہ کیفیات کو حروف کے پیکر وں میں چھلکا دیتا ،بعض مقامات پرتو اعتراف ہے کہ شاہ صاحب کا خط میرے دائرہ خیال کو عبور کرکے نئی سرحدوں کی نشاندہی کر نے لگتا ،ایسے مقامات پر میں شاہ صاحب کے خط کو نمبر دینے کی بجائے حیرت ِجمال کے نشے میں تادیر محظوظ ہوتا،ایک طرف اپنے خیال کی نارسائی ،دوسری طرف شاہ صاحب کی بلاغت فکر! دونوں کے موازنہ سے لطف ولذت میں اوربھی اضافہہوجاتا،نستعلیق کے بارے میں اکثر میں سوچا کرتا تھا کہ جس طرح ایک فن پارے کی سیٹنگ میرے ذہنمیں ہے ،ایسے شاید ہی کوئی لکھے گا! میرے اس پندارکو شکست شاہ صاحب طرح ایک فن پارے کی سیٹنگمیرے ذہن میں ہے ،ایسے شاید ہی کوئی لکھے گا! میرے اس پندار کو شکست شاہ صاحب کے قلم سے ہوئی(غلام نظام الدین فنکار سے ملئے ،درپندرہ روز پیام ،ص۲۴،۱۵جون ۱۹۷۱ء)
شاہ صاحب کے لکھے ہوئے نستعلیق کے بہت سے نمونے دیکھ چکنے کے بعد ،میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ شاہ صاحب نستعلیق کے مجدداعظم ہیں ،ان کی سع بلیغ اورفکر بلند نے پروینی نستعلیق میں اصلاح وترمیم کی اتنی مہم چلائی ہے کہ اب ہم نستعلیق کو طرز نفیس سے نامزد کرنے پرمجبور ہیں،شاہ صاحب کی لکھی ہوئی تحریر ایک مکمل کاروان جمال اور جنبت نگاہ ہے،جو ہے جہاں ہے وہیں حرف آخر ہے،(غلام نظام الدین )
ہمارے مخدوم نفیس رقم کے خط کی نفاستیں اوراس کی عمدگی کی جہات یا اس کے جلال وجمال کےپہلوہرشخص پر،اس کی اپنی حیثیت اور اُسکی ذہنی وقلبی استعداد کے مطابق کھلتے ہیں، راقم اس سلسلے میں اپنی بے بضاعتی کاپہلے بھی اعتراف کرچکا ہے ،بایں ہمہ شاہ صاحب کے خط میں حسب ذیل خوبیاں میرے جیسےایک عام قاری کو بھی نظر آئی ہیں:
۱۔ آپ کے کتابت کردہ قطعات میں فن “خطاطی ”اپنی انتہائی بلندی پر پہنچا ہوا محسوس ہوتا ہے،کہ اس سے اوپر اس کے لے اڑنا شاید ممکن نہ ہو، فنی اورتکنیکی اعتبار سے آپ کا فن اس وقت ثریا کی بلندیوں پرپرواز کررہا ہے ۔
۲۔ آپ کے خط میں ایک شائستگی ،ایک نفاست اورایک حسن اعتدال وتوازن نظرآتا ہے جو آپ کے باکمال خطاط کی عکاسی کرتاہے ۔
۳۔ آپ کے خط حسب حال ہونے کی بناپر،قاری میں حسب موقع خوشی یا رنج کے جذبات واحساسات پیدا کرتا ہے،جو آپ کی روحانی وذہنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار وابلاغ ہے۔
۴۔آپ کی خطاطی اپنے قاری میں غیر محسوس اورناشعوری طور مضمون کے مطابق اپنی تاثیر ظاہرکرتی ہے۔
شاہ صاحب کی خطاطی کےحسین شاہ پاروں پرمشتمل ایک مجموعہ محترم راشد صاحب نے کراچی سے شائعکردیا ہے،اورآپ کےکچھ حسین مرقع برگ گل میں بھی شامل ہیں۔