سنی – شیعہ تنازعہ کیسے حل ہو؟ علامہ علی شیر حیدری سے گفتگو
بسم الله الرحمن الرحيم
وصل اللهم وبارك وسلم علٰی عبدك ورسولك محمد وعلٰی اٰله وصحبه اجمعين
ساجد نقوی کی گرفتاری کو سیاسی ایشو نہ بنایا جائے
علامہ علی شیر حیدری دامت برکاتہم
ہمارے پاس شواہد موجود ہیں کہ ساجد نقوی مولانا اعظم طارق شہید (رحمہ اللہ) کے قتل میں ملوث ہے…ہم تکے نہیں مارتے، جو بات سامنے ہووہی کرتے ہیں
دہشت گردی کا الزام صرف ہم پر نہیں ان پر بھی ہے…ہم نے جیلوں اور عدالتوں کے دھکے کھائے، ہمارے قائدین اور کارکنوں کے جنازے بھی جیلوں سے نکلے
مجلس عمل سیاست کرے مگر ہمارے زخموں پر نمک نہ چھڑکے…اسے سرحد سے گرفتار ہونے والے مجاہدین اور صوفی محمد کی فکر نہیں، ساجد نقوی کی بہت فکر ہے
تنظیموں پر پابندی مسئلے کا حل نہیں، حکومت فریقین کو مذاکرات کی میز پر لاکر دونوں کا موقف سنے…جب تک کمرہ گرم نہیں ہوگا میدان ٹھنڈا نہیں ہوگا
٭………انٹرویو پینل………٭
ثناء اللہ سعد شجاع آبادی
عبد القیوم حیدری
علامہ علی شیر حیدری خیرپور میرس سندھ سے تعلق رکھتے ہیں۔ کالعدم سپاہ صحابہ رضی اللہ عنہم وکالعدم ملت اسلامیہ کے قائد، خداداد فہم وفراست کے مالک، مولانا اعظم طارق شہید رحمہ اللہ کے رفقاء فکر میں سب سے قدآور اور نہایت مستحکم علمی شخصیت ہیں۔ مولانا محمد اعظم طارق شہید کی شہادت کے بعد ان کے قتل کیس میں کالعدم “تحریک جعفریہ” کے قائد ساجد نقوی کی گرفتاری اور متحدہ مجلس عمل کی طرف سے اس پر احتجاج اور رہائی کے پر زرو مطالبے کے ضمن میں علامہ علی شیر حیدری کا موقف جاننا ضروری تھا۔ اس سلسلہ میں ان سے خیرپور میرس جاکر ملاقات کی گئی جس کی تفصیل قارئین روزنامہ اسلام کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔
پاکستان کی سیاست میں اس وقت «متحدہ مجلس عمل» حزب اختلاف کے طور پر نمایاں ترین کردار ادا کر رہی ہے۔ دیگر مکاتب فکر کے علاوہ مجلس عمل میں (اہل سنت وجماعت) دیوبندی علماء کرام کی سیاست کلیدی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ اس ضمن میں آپ سے سوال یہ ہے کہ متحدہ مجلس عمل کی تشکیل میں آپ کو کیوں شامل نہیں کیا گیا؟
متحدہ مجلس عمل کی تشکیل سے قبل ١٢ جنوری ٢٠٠٢ء کو فوجی حکومت نے جن تنظیموں کو دہشت گردی کے الزام میں «بین» کردیا تھا ان میں ہماری تنظیم سپاہ صحابہ اور ہماری حریف «تحریک جعفریہ» بھی شامل تھیں۔ پابندی لگنے کے ساتھ ہی ہم پر مصائب وآلام کا ایک نیا دور شروع ہوگیا۔ مولانا اعظم طارق شہید کو ایک بار پھر جیل بھیج دیا گیا اور ملک بھر سے ہمارے ہزاروں کارکن گرفتار کرلئے گئے۔ اسی دوران متحدہ محلس عمل تشکیل دی گئی۔ متحدہ مجلس عمل بنانے والوں نے دانستہ طور پر ہمیں نظر انداز کیا، ان کے خیال میں ہمیں ساتھ ملانے سے وہ حکومت کو باور نہیں کرا سکتے تھے کہ وہ فرقہ واریت کے خلاف ہیں۔ دوسری طرف انہوں نے ہمارے حریفوں کو ساتھ ملایا جبکہ فرقہ واریت کا الزام ان پر بھی تھا اور اسی الزام کے تحت ان پر پابندی عائد تھی۔ نیز سیاسی قوت ہم تھے نہ کہ ہمارے حریف، جیسا کہ بعد میں قومی انتخابات نے ثابت کردیا۔ مولانا اعظم طارق شہید نے جیل میں بیٹھ کر انتخاب لڑا اور کامیاب رہے اور متحدہ والوں کا حلیف انہیں ایک سیٹ بھی نہ لاسکا علاوہ ازیں پشاور سے ہمارے ایک ساتھی حکیم ابراہیم قاسمی بھی سرحد اسمبلی میں جاپہنچے۔
مولانا اعظم طارق شہید فتل کیس میں ساجد نقوی کی نامزدگی مخالفت برائے مخالفت کی بناء پر کی گئی ہے یا واقعی آپ کے پاس شواہد موجود ہیں؟
مولانا محمد اعظم طارق کی پالیسیوں سے ساجد نقوی سٹپٹایا ہوا تھا۔ حکومت ہمیں اور اسے مذاکرات کی میز پر لانا چاہتی تھی۔ انہی دنوں چنیوٹ سے وزیر داخلہ کا بیان بھی اخبارات میں شائع ہوا تھا۔ ہم ملکی امن وملامتی کے لئے پہلے بھی کسی بھی حکومت کے دور میں مذاکرات سے نہیں کترائے اور اب بھی ہمہ وقت حاضر ہیں۔ ساجد نقوی کو مذاکرات کی ہمت نہیں ہورہی تھی اس لئے اس نے مولانا کو قتل کروایا۔ ہمارے پاس شواہد موجود ہیں اور وقت آنے پر ہم عدالت میں پیش کریں گے۔
بعض حضرات کا دعوٰی ہے کہ مولانا اعظم طارق شہید رحمہ اللہ کو ایجنسیوں نے قتل کرایا ہے۔ اسی طرح بعض لوگ وزیر داخلہ کو بھی اس قتل میں ملوث قرار دیتے ہیں۔ آپ اس پر کیا تبصرہ فرمائیں گے؟
ایجنسیون پر قتل کا دعوٰی وہ کریں جن کا ایجنسیوں سے تعلق ہو، کیونکہ صاحب الدار ادرى بما في الدار، گھر والے ہی گھر کی باتوں کو جان سکتے ہیں۔ ہمارے پاس ایسے کوئی شواہد نہیں کہ ایجنسیوں نے قتل کرایا۔ ممکن ہے کہ ایجنسیاں اپنے متعلقین سے یہ باتیں کہلوا کر قاتل کو «ریلیف» دینا چاہتی ہوں، اسی طرح ہمارے پاس ایسے کوئی شواہد نہیں کہ وزیر داخلہ نے قتل کرایا۔ ہم تکے نہیں لگاتے، جو بات سامنے ہو وہی کہیں گے۔
کیا یہ درست ہے کہ مولانا کی شہادت کے بعد اسلام آباد میں متحدہ مجلس عمل کے اراکین کو کسی متوقع ناخوشگوار رد عمل کی بناء پر مولانا شہید رحمہ اللہ کی نماز جنازہ میں شرکت سے روک دیا گیا تھا؟
ہم نے نہیں روکا تھا، انہیں ان کے کردار نے روکا تھا اور اس بناء پر اسلام آباد میں ہوتے ہوئے انہوں نے نماز جنازہ میں شرکت نہ کی۔
مولانا اعظم طارق شہید کی آخری تقریروں کے کیسٹ سننے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں اپنے قتل کی سازش کا علم ہوگیا تھا، کیا یہ درست ہے؟
واللہ اعلم! مجھے اس بارے میں انہوں نے کچھ نہیں بتایا البتہ حضرت مولانا عزیز الرحمٰن ہزاروی نے اس سانحہ سے کچھ دن قبل جو خواب دیکھا تھا وہ انہوں نے مولانا شہید کو بتادیا تھا کہ حضرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا انہیں لینے آئی تھیں ممکن ہے وہ اس خواب کی تعبیر کے پیش نظر بار بار یہ جملہ ارشاد فرماتے رہے ہوں کہ «ہوسکتا ہے یہ میری زندگی کی آخری تقریر ہو»۔ واللہ اعلم!
ساجد نقوی نے جو خط پریس والوں کو بھیجا ہے، اس میں کہا ہے کہ حکومت مجھے دہشت گردوں سے مذاکرات پر مجبور کررہی ہے، اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
یہ بڑی دلچسپ صورتحال ہے، ساجد نقوی کو نواز شریف دور میں ایک مرتبہ میرے سامنے لایا گیا تھا وہاں اسے جس پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، میں نے اسے وہیں کہہ دیا تھا کہ تم میرے سامنے زندگی بھر آنے کی جرأت نہیں کروگے۔ اس شخص کو اپنے آپ پر اعتماد نہیں، ہماری تحریکی زندگی کا اکثر دورانیہ جیلوں اور عدالتوں کے دھکے کھاتے گزرا ہے، ہمارے قائدین کے جنازے بھی جیلوں سے اٹھائے جاچکے ہیں۔ ہماری قید وبند کی پُرصعوبت تاریخ کے سامنے اس کا تجربہ جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں بنتا۔ ہم نے ہر چھوٹے بڑے مقدمے کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا ہے اور تمام مقدمات میں بری قرار دیئے گئے ہیں، اس کے باوجود بھی ہمیں دہشت گرد اور خود کو مقدس گائے سمجھتے ہوئے مذاکرات کی میز پر نہ آنا، تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسے ملکی امن وسلامتی کی کوئی پرواہ نہیں۔ آپ خود اندازہ کریں کہ بی بی سی کو بھیجے گئے خط میں اس نے یہ بھی کہا ہے کہ
«مذاکرات، قانون سازی اور دیگر پابندیاں لگانے کیلئے ضروری ہے کہ حکومت شیعہ فرقے کی دیگر شخصیات اور جماعتوں سے بات کرے جن میں واعظین، ذاکرین، ماتمی انجمنیں اور دیگر شیعہ جماعتیں، تنظیمیں اور فرقے کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ حکومت یہ موضوع ان کے ساتھ زیر بحث لاکر کوئی نتیجہ نکالے»
تو فرمایئے! یہ ان صاحب کے خیالات ہیں جو خود کو «قائد ملت جعفریہ» قرار دیتے ہیں۔ ان خیالات سے صاف ظاہر ہے کہ وہ مسئلہ حل کرنا ہی نہیں چاہتے جبکہ ہمارا دعوٰی ہے کہ گزشتہ ادوار میں بھی ہم پر جو دہشت گردی کے الزامات لگائے گئے سب غلط تھے۔ کالعدم سپاہ صحابہ کے دستور میں یہ بات لکھی ہوئی موجود تھی کہ جو شخص قتل وغارتگری یا ملک دشمنی میں ملوث ہوگا، اس کی رکنیت از خود ختم ہوجائے گی۔ عدالتیں بھی ہم پر کوئی الزام ثابت نہ کرسکیں اس لئے ہم نے پابندی کو چیلنج کیا ہوا تھا۔ پھر جب کالعدم ملت اسلامیہ کا دستور چھپا تو اس میں بھی یہ بات موجود تھی۔ مختصر یہ کہ ہم ہر فورم پر اپنی صفائی دینے کیلئے پہلے بھی تیار تھے اب بھی تیار ہیں۔
متحدہ مجلس عمل ساجد نقوی کی رہائی کا بار بار مطالبہ کررہی ہے اور ١٨ ستمبر سے شروع ہونے والی تحریک میں یہ مطالبہ بھی لے کر چلنا چاہتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ساجد نقوی بے گناہ ہے۔ آپ اس بارے میں کیا فرمائیں گے!
ساجد نقوی مولانا شہید کے مقدمۂ قتل کا نامزد ملزم ہے۔ اس کی گرفتاری سیاسی ایشو نہیں، ظالم اور مظلوم کا مسئلہ ہے۔ مجلس عمل اگر ظالموں کی مدد کیلئے بنائی گئی ہے پھر ان کی جدوجہد ٹھیک ہے ورنہ انہیں اپنی سیاست سے کام رکھتے ہوئے ہم مظلوموں کے زخموں پر نمک پاشی نہیں کرنا چاہئے۔ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ ان حضرات کو دین، جہاد اور طالبان کے نام پر کامیاب ہونے کے باوجود سینکڑوں بے گناہ گرفتار ہونے والوں کی تو کوئی فکر نہیں ہے، وہاں طالبان کے حامیوں کو گرفتار کیا جارہا ہے یہاں ساجد نقوی کی گرفتاری برداشت نہیں ہورہی۔ دین داروں سے وفاداری کی حقیقت تو یہی ہے کہ ساٹھ ٦٠ کے قریب علماء ملک کی تاریخ میں پہلی بار اسمبلی میں پہنچے تھے، انہیں دین کا کوئی کام کرنا چاہئے تھا لیکن انہیں «لفو» ایل ایف او ہی لے کر بیٹھ گئی۔
ساجد نقوی کی گرفتاری کے تناظر میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ حکومت بہت جلد اسے پاک صاف قرار دے کر رہا کردے گی اور اس پر بیسیوں مقدمات میں ملوث ہونے کا الزام دھل جائے گا؟
ہمارے مہربان بھی اسی مشن پر لگے ہوئے ہیں۔
حکومت پاکستان نے فرقہ واریت کے مسئلے پر قابو پانے کیلئے تنظیموں پر پابندی عائد کردی ہے آپ کا کیا خیال ہے کہ اس سے یہ مسئلہ حل ہوجائے گا؟
تنظیموں پر پابندی یا اندھادھند گرفتاریاں مسئلے کا حل نہیں، حکومت اگر مسئلہ حل کرنا چاہتی ہے تو اپنے طریق کار کی اصلاح کرے ملک میں جب بھی حکومتی سطح پر امن کمیٹی کا اجلاس ہوتا ہے اس میں غیر متعلقہ افراد کی بھرمار ہوتی ہے جو سرے سے مسئلے کی وجوہ کو بھی نہیں جانتے بس وہ حکومتی بلاوے پر پھول جاتے ہیں اور اجلاس میں شرکت ہی کو اعزاز تصور کرتے ہیں، دوران اجلاس وہ کوئی بھی ایسی بات زبان سے نہیں نکالتے جس سے انہیں اندیشہ ہو کہ آئندہ انہیں نہیں بلایا جائے گا چنانچہ کسی بھی اجلاس میں مسئلے کا اصل حل سامنے نہیں آتا اور اجلاس «آمدند، نشستند، خوردند، برخواستند» کا شکار ہوجاتا ہے۔ حقیقت ہے کہ جب تک فریقین اجلاس میں کھل کر باتیں نہ کریں کوئی فیصلہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی متنازعہ (مسئلہ) حل ہوسکتا ہے۔ اجلاس میں افسروں کا رویہ بھی یہی ہوتا ہے کہ کوئی بات کسی نے کھل کر کہہ دی تو اگلی دفعہ اس کو بلایا ہی نہیں جاتا۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر ملک کو ٹھنڈا کرنا ہے تو اجلاس میں گرماگرمی اور کڑوی باتیں سننی پڑیں گی اور کھل کر فساد کی وجوہ اور ان کے سدباب پر تفصیلی مذاکرہ کرنا ہوگا ورنہ میٹنگ میں «یس مین» [Yes Men] ہونگے، جب تک کمرہ گرم نہیں ہوگا میدان ٹھنڈا نہیں ہوسکتا اور اگر کمرے ٹھنڈے رکھنے ہیں تو میدان گرم ہی رہے گا۔ اجلاسوں میں شریک ہونے والے شیوخ اور مشائخ وہاں افسروں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں حالانکہ یہی لوگ فتوے دینے والے ہیں اور انہی کے فتوے پر ساری بنیاد ہے۔
ممنوعہ سنی تنظیم انجمن سپاہ صحابہ پاکستان کے سرپرست علامہ علی شیر حیدری دامت برکاتہم کی روزنامہ اسلام سے یہ گفتگو جمعہ ٢٤ شوال ١٤٢٤هـ مطابق ١٩ ستمبر ٢٠٠٣ء کو شائع ہوئی
Post a Comment