Home » » حقانیت اہل السنة والجماعت حنفی دیوبندی

حقانیت اہل السنة والجماعت حنفی دیوبندی


مناظراسلام ترجمانِ اہل سنت وکیل احناف
حضرت مولانامحمد امین صفدر اوکاڑوی
الحمد للہ رب العلمین والصلو ٰة والسلام علی سید المرسلین وعلی الہ و اصحابہ اجمعین اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الر جیم. بسم اللہ الرحمن الرحیم- الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا.
وقال اللہ تعالیٰ فی مقام آخر. ولیمکنن لھم دینھم الذی ارتضیٰ لھم ولیبدلنھم من بعد خوفھم امنا. وقال تعالیٰ فی مقام آخر ہو الذی بعث فی الامیین رسولا من انفسھم یتلوا علیہم اٰیٰتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتٰب والحکمة وان کانوا من قبل لفی ضلال مبین. وآخرین منھم لما یلحقو بھم وہو العزیز الحکیم ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاءواللہ ذو الفضل العظیم صدق اللہ العظیم ۔
جس طرح تمام دینوں میں سے سچا دین صرف اور صرف اسلام ہے ،اسی طرح مسلمان کہلانے والے فرقوں میں سے نجات پانیوالا صرف اور صرف اہل السنة والجماعت ہے, وہ دائر ہ تھا کفر اور اسلام کا یہ دائرہ ہے ، اہل السنة اور اہل بدعت کا وہ عقائد جن پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے ان کو ضروریات دین کہا جاتا ہے اور وہ چیز یں جن پر اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے ان کو ضروریا ت اہل السنة کہا جاتا ہے، وہاں (پہلے سبق میں )مسلم کے مقابلے میں لفظ کا فر تھا یہاں اہل سنت کے مقابلے میں اہل بدعت ہے بدعت سے مراد بدعات اعتقادیہ ہیں جیسے تقدیر کا انکار کر نے والے قدریہ اور اسی طرح جبریہ اور کرامیہ ہیں اہل السنة والجماعت کی صداقت اور حقانیت پر اگرچہ بہت ساری ادلہ قائم کی گئی ہیں لیکن آسانی کے لئے یہاں پر بھی چار ادلہ پیش کی جائیں گی ۔
دلیل اول
اہل سنت والجماعت کی صداقت کی پہلی دلیل یہ ہے اس بات پر تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے اور اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے چنانچہ ارشاد خداوندی ہے انا نحن نزلنا الذکر وانالہ لحفظون اور آج ہمارے پاس ویسے ہی قرآن موجود ہے جس طرح حضور پر نازل ہو ا اور قیامت تک باقی رہے گا حضرت عثمان ؓ نے اس قرآن مجید کو جمع فرمایا لغت قریش کے مطابق اور ہزاروں نسخے دنیا میں پھیلائے اور پھر جن سات قرا ءکے ذریعہ پوری دنیا میں قرآن پڑھا جارہا ہے وہ سب سنی ہیں ۔
قرآن کو حضرت علی ؓ بھی جمع کر سکتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ کام حضرت علی ؓ سے نہیں لیا اگر حضرت علی کر م اللہ وجہہ جمع فرماتے تو جھگڑا پڑجا تا سنی کہتے کہ قرآن سنیوں نے جمع کیا اور شیعہ کہتے کہ قرآن شیعوں نے جمع کیا, ہم جھگڑا نہیں کرتے بلکہ اب ہم شیعوں سے کہتے ہیں کہ تم کہہ دو کہ حضرت عثمان ذوالنورین شیعہ تھے ہم مان لیں گے کہ قرآن شیعوں نے جمع کیا ہے وہ اس بات کا اقرار ہر گز نہیں کر سکتے بلکہ وہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت عثمان ؓ سنی تھے جس سے اتفاقی طور پر یہ بات ثابت ہو گئی جامع القرآن سنی ہیں اس سے کو ئی جھگڑا بھی نہیں پڑتا کیونکہ اہل سنت والجماعت جس طرح حضرت عثان ؓ کی صداقت کے قائل ہیں اسی طرح حضرت علی ؓ کی صداقت کے بھی قائل ہیں بلکہ سنی حضرت علی کر م اللہ وجہہ کو اپنے سروں کا تاج سمجھتے ہیں اپنا پیر اور مرشد مانت ہیں۔
اس سے یہ بات معلوم ہو گئی کہ قرآن کی حفاظت کا سہر ا"سنیوں "کے سر پر سجا ہے جس سے سنیوں کی صداقت روز روشن کی طرح واضح ہو گئی ۔
لطیفہ
ایک دفعہ حضرت مولانا سید عطاءاللہ شاہ بخاری ؒ لا ہور میں قطب الدین ایبک کے مزار والی گلی سے تانگہ پر گزررہے تھے آگے بعض شیعہ لوگ کھڑے تھے انہوں نے نعرے لگا نے شروع کر دئے یا علی مدد جب شا ہ صا حب قر یب پہنچے تو اتر کر ان کو ڈا نٹنا شروع کر دیا کہ تم بھنگ اور شراب پی کر میرے والد کو گالی دیتے ہو تمہارا باپ مر گیا ہے وہ منتیں کر نے لگے کہ جی غلطی ہو گئی شاہ صاحب پھر تانگے پر سوار ہوئے جب تانگہ پر تھوڑا سا آگے گئے شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے کان پیچھے کی طرف رکھے وہ کہنے لگے کہ سنی جل گیا جب یہ بات شاہ صاحب نے سنی تو شاہ صاحب ؒ نے فرمایا کہ آگ پر تو تم بیٹھے ہو اور جل میں گیا جس طرح بازار میں سردیوں کے اندر لکڑیا ں جلا کر اکٹھے ہو کر بیٹھ جاتے ہیں وہ بھی اسی طرح بیٹھے ہوئے تھے ۔
میاں میر حمتہ اللہ علیہ للہ لاہور میں رہتے تھے ،ان کا نام نامی اسم گرامی ہے "میاں میراں حسن زنجانی ؒ "یہ حضرت ہجویری المعروف داتا گنج بخش ؒ سے پہلے لاہور میں تشریف لائے تھے۔ جب ان کے وصال کا وقت قریب ہوا تو فرمایا کہ" مجھے غسل دے کر رکھ دینا جنازے کے لئے اللہ کوئی آدمی بھیج دے گا" چنانچہ ان کی نماز جنازہ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ نے پڑھا ئی تھی ،جب ان کا زمانہ تھا تو اس وقت حکومت جہانگیر کی تھی اور جہانگیر کی بیوی نو ر جہاں شیعہ تھی اس نے بڑی کو شش کی کہ جہانگیر شیعہ ہو جائے۔
چنانچہ اس نے ایر ان خط لکھا کہ "جو سب سے بڑا مناظر ہو اسے بھیج دیا جائے ،میں یہاں پر کہوں گی کہ اس کا کسی سنی سے مناظرہ کر والیا جائے" اور ساتھ ہی سازش یہ کی گئی کہ وہ سیدھا آگرہ میں نہ آئے ،اسوقت دارالحکومت تھا ،پہلے وہ ایک ہفتہ لاہور رہے پھر ایک ہفتہ دہلی رہے پھر آگرہ آئے لاہور اس لئے رہے تا کہ وہاں پر جو بزرگ قسم کے لوگ ہیں جنہوں نے کبھی کسی قسم کا مناظرہ کیا ہی نہیں ان کو مناظرہ کے اصولوں کا علم نہیں ،ان سے کو ئی سوال کرے اس کا جواب ان کو آئے گا نہیں تو اس سے حکومتی سطح پر پروپیگنڈہ اچھی طرح ہوسکے گا کہ ایسا مناظر آرہا ہے کہ فلاں بھی لاجواب ہوگیا فلان بھی لاجواب ہوگیا چونکہ بزرگ ویسے ہی مشہور ہوتے ہیں جب یہ پتہ چلے گا کہ فلاں فلاں لا جو اب ہوگئے تو اس سے سنی مناظر بھی گھبراجائے گا کہ اتنا بڑا مناظر کہاں سے آرہا ہے آگرہ پہنچنے سے پہلے پہلے خوب پر وپیگنڈہ ہوجائے گا یہ اس کا مقصد تھا ۔
چنانچہ جب وہ لاہور پہنچا اس نے پوچھا کہ" یہاں پر کوئی سنی بزرگ ہے جو اب میں کہا گیا کہ آپ نے کیا کر نا ہے اس نے کہا ہم متعصب نہیں ہیں ہم بزرگوں سے ملتے ہیں خواہ وہ سنی ہی کیوں نہ ہو" تو یہ بات سن کر سنی بھی خوش ہوئے کہ بڑا اچھا آدمی ہے۔چنانچہ جب صبح ہوئی تو کچھ سنی اور کچھ شیعہ اس کے ساتھ چل دیے حضرت میاں میراں حسن زنجانی اشراق کی نماز پڑھ کر مسجد کے اندر دھوپ میں ہی بیٹھے تھے کیونکہ سردیوں کا زمانہ تھا ، جب وہ باہر والے گیٹ سے اندر آرہا تھا حضرت موصوف نے جو چند مریدین پاس بیٹھے ہوئے تھے ان سے فرمایا کہ" یہ جو آدمی آگے آگے آرہا ہے اس کا دل سیاہ اور کالا ہے"وہ قریب آکر علیک سلیک کر کے بیٹھ گیا حضرت نے فرمایا کہ" کہاں سے آئے ہیں اور کیا کام کر تے ہیں "اس نے کہا کہ" ایران سے آیا ہوں اورتو کوئی کام نہیں کرتا ہاں صرف رسول ﷺ کے اہل بیت کی شان بیان کر تا ہوں "آپ نے فرمایا" اہل بیت کی شان بڑھے سنی کا ایمان بڑھے تو آج آپ ہمیں بھی اہل بیت کی شان سنائیں" اس نے بیاں کر نی شروع کر دی شان بیان کر تے کر تے یہاں تک پہنچاکہنے لگا کہ" جس جگہ پر حضرت حسینؓ مدفون ہیں وہاں سے چاروں طرف چالیس چالیس میل تک کا جو فاصلہ ہے اس کی حدود کے اندر جیسا بھی گناہ کا ر آدمی مدفون ہو جائے اللہ تعالیٰ اس کی بخشش فرمادیتے ہیں "حضرت نے فرمایا" ماشاءاللہ ماشاءاللہ پھر سناﺅ"اس نے پھر سنایا حضرت موصوف نے پھر کہا" ماشاءاللہ ماشاءاللہ پھر سناﺅ"اس نے پڑھ سنایا" حضرت نے فرمایا چالیس کیا ہے اس سے زیادہ کی بھی بخشش فرماسکتے ہیں آپ مجھے یہ بتائیں کہ حضرت حسین ؓ کو یہ شان کس طرح حاصل ہوئی وہ اس لئے کہ وہ حضور ﷺ کے نواسے تھے جب نواسے کی اتنی شان ہے کہ چالیس میل تک والوں کی بخشش ہو سکتی ہے کیا جو نانا کے ساتھ ارد گرد سوئے ہوئے ہیں ابو بکر صدیق اور عمر بن الخطاب ؓ کیا نانا کی برکت سے ان کی بخشش ہو ئی یا نہیں ؟ چالیس میل تو دور کی بات ہے یہ تو بالکل ساتھ ہی سوئے ہوئے ہیں" اس کے پاس اس کا جواب نہیں تھا اگر کہتا بخشے جائیں گے مذہب شیعہ ختم ہوتا ہے اور اگر وہ کہتا ہے کہ نہیں بخشے جا ئیں گے پھر اس کا فراڈ خراب ہوتا ہے اہل بیت کی محبت والاخاموشی سے اٹھ کر چلاگیا اور کہا "میں آگے نہیں جاں گا ایک درویش آدمی نے مجھے ایسا لاجواب کیا ہے کہ پوری دنیا شیعت کے پاس اس کا جو اب نہیں ہے "۔
چنانچہ وہ واپس چلاگیا پھر نور جہاں نے خط لکھا کہ" نوراللہ شوستری کو بھیجو لیکن اب اسے راستہ میں ہوا بھی نہ لگے سیدھا آگرہ پہنچنا چاہئے "یہ پہنچ گیا سنی علماءکو معلوم تھا کہ حکومت جہانگیرکی تو برائے نام ہے اصل حکومت نورجہاں کی ہے یہ مناظرہ تو ایک لفظ ہی ہے انہوں نے اندازیہ اختیار کیا کہ جب مناظرہ کے لئے کھڑے ہوئے تو سنی عالم نے پوچھا ”درحق سلیم چشتی چہ میگوئی “یعنی سلیم چشتی کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں ؟ سلیم چشتی یہ جہانگیر کا پیر اور مرشد تھااسی کی دعا سے یہ پیدا ہو ا تھا اب شیعہ تو صحابہ کرام کو( نعوذباللہ ) گالیاں دینے سے باز نہیں آتے اس نے سلیم چشتی کو گالیاں دینا شروع کر دیں جہانگیر نے پوچھا کہ" کس کو گالیاں دے رہا ہے کہا کہ سلیم چشتی کو جہانگیر نے کہا کہ یہیں قتل کر دو"اسے وہی قتل کر دیا گیا اس کی قبر آگرہ میں ہے اسے یہ شہید ثالث کہتے ہیں ۔
دلیل ثانی
حضوراکرم  آخری نبی ہیں خاتم النبیین ہیں انبیاءکر ام کے لحاظ سے حضورﷺ آخری امانت ہیں اور آپ سب یہ جانتے ہیں کہ آپ کا مزار پاک مدینة المنورہ میں ہے اور حضرت عائشہؓ کے حجرے میں ہے حضرت فاطمہ ؓ کے حجرے میں بھی بن سکتا تھا۔ آپ  کو اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ ؓ سے اتنا پیار تھا کہ جب کبھی سفر پر جاتے سب سے آخر میں حضرت فاطمہ ؓ سے ملتے جب سفر سے واپس آتے سب سے پہلے حضرت فاطمہ ؓ سے ملتے اتنی محبت اور پیار تھا وہاں پر بھی بن سکتا تھا لیکن بات وہی تھی کہ اگر وہاں بن جاتا توشیعہ کہتے کہ حضور ہمارے گھر آرام کر رہے ہیں اور سنی کہتے ہمارے گھر میں آرام کر رہے ہیں جھگڑا ہو جاتا لیکن اللہ تعالیٰ اہل سنت کی صداقت کو دا غ دار نہیں کر نا چا ہتے ،سب جا نتے ہیں کہ آپ  حضرت عا ئشہ کے حجر ہ میں آ رام فرما ہیں اب ہم انہیں حق دیتے ہیں کہ تم ما ن لو کہ( معا ذ اللہ )عائشہ ؓ شیعہ تھیں لیکن کو ئی شیعہ اس بات کو تسلیم کر نے کے لیے تیار نہیں وہ کہتے ہیں وہ سنیو ں کی ما ں ہیں دیکھو اس سے سنیوں کی صدا قت کیسے واضح ہو گئی کہ منا فق اگر مسجد بھی بنا ئیں مسجد ضرار تو اللہ تعالی نبی کریم  کو اجا ز ت نہیں دے رہے وہاں جا کر قد م بھی رکھیں منا فق جو مسجد کے نا م سے کو ئی مکا ن بنا ئیں پھر وہا ں پر جا نے کاوعدہ بھی فرما لیا تھا لیکن اللہ تعالی نے منافقوں کی مسجد میں بھی جانے کی اجازت نہیں دی تو (نعوذباللہ ) اگر عائشہ صدیقہ ؓ اور سنی اگر منافق ہوتے تو قیامت تک اللہ تعالیٰ اپنے نبی کان کے گھر میں کیوں آرام کر نے دیتے تو اس لئے جب وہ بھی کہتے ہیں کہ عائشہؓ سنی ہے تو ہم کہتے ہیں کہ الحمدللہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے نبی سنیوں کے گھر میں آرام فرماہیں تو کوئی اپنے دشمن کے گھر میں نبی کو نہیں بھیجتا۔معلوم ہو ا کہ اہلسنت کی صداقت دوپہر کے سورج سے بھی زیادہ واضح ہے سنی جب سچے ہونگے تو وہ جس طرح حضرت عائشہ ؓ کو مانتے ہیں اسی طرح حضرت فاطمہؓ کو بھی مانتے ہیں دونوں ہمارے ایمان کی جان ہیں تو حضرت فاطمہؓ کی صداقت بھی برقرار اور سیدہ عائشہؓ کی صداقت بھی بر قرار جب سنی سچے ہوگئے تو ان کا مذہب بھی سچا ہے ۔
دلیل ثالث
یہ بھی آپ کو معلوم ہوگا کہ حضور  کا مزار اکیلانہیں ہے بلکہ ساتھ ابو بکر وعمر ؓ کا مزار بھی ہے وہاں پر حسنین کر یمین کا مزار بھی ہوسکتا تھا لیکن نہیں ہوا کیونکہ اگر ان کا مزار ہوتا تو شیعہ کہتے کہ حضور  کے قیامت تک پہردار ہم ہیں سنی کہتے کہ ہم سنی قیامت تک پہرے دار ہیں اس سے جھگڑا ہوجاتا۔ اب ہم کہتے ہیں کہ تم مان لوکہ ابو بکر شیعہ تھے عمر شیعہ تھے لیکن کوئی شیعہ اسے ماننے کو تیار نہیں بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ابو بکر ؓ سنی تھے عمر ؓ سنی تھے اس سے معلوم ہوا کہ اپنے نبی کی حفاظت جو اللہ تعالیٰ نے کروائی ہے یہ خدمت بھی قیامت تک کے لئے سنیوں سے لی ہے، تو اب جب سنی سچے ہوگئے تو جس طرح یہ شیخین ؓ کو مانتے ہیں اس طرح حسنین کر یمین کو بھی مانتے ہیں ان کی صداقت بھی بر قرار رہی یہ سنیوں کا گھر ہی ہے جسے کہا گیا روضة من ریا ض الجنة.
دلیل رابع
جس طرح وہ قرآن تھا اور یہ نبی تھے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے دوگھر بھی ہیں بیت المقدس اور بیت اللہ شریف دونوں قبلے ہیں لیکن کعبة ایک ہی ہے کعبہ کہتے ہیں ابھری ہو ئی جگہ کو کعبین بھی اسی سے ہے ۔بیت اللہ کو کعبہ بھی کہا جائے گا بیت المقدس کو کعبہ نہیں کہا جائیگا کیونکہ پہلے سارا پانی تھا یہاں سے ایک بلبلہ اٹھا اسی سے ساری زمین پھیلائی گئی اس لیے سار ی زمین کا مر کز یہی ہے لہذا یہ کعبہ بھی ہے اور قبلہ بھی ہے اور بیت المقد س صر ف قبلہ ہے کعبہ نہیں ہے۔ یہ بیت اللہ ،اللہ تعالیٰ کا دیوان خاص ہے اور وہ دیوان عام ہے اس لئے وہاں پر جو نبی بھیجے ان کو بادشاہی بھی دی جیسے سلیمان علیہ السلام بادشاہ تھے داؤد علیہ السلام بادشاہ تھے یہاں کسی کو بادشاہی نہیں ملی حضور ﷺ کو بھی مدینہ میں آکر بادشاہی ملی ہے وہاں پر کسی کو شاہانہ طور پر آنے کی اجازت نہیں تھوڑی دیر کے لئے فتح مکہ کے موقع پر داخلہ کی اجازت ملی اس کے علاوہ کسی کے لئے شاہانہ داخلہ حلال نہیں کیا گیا چونکہ یہ دیوان خاص ہے اور وہ دیوان عام ہے اس لئے قیامت کے دن تخت عدالت وہیں بیت المقدس میں بچھے گا بیت اللہ میں اللہ کی صفت محبت کی تجلی ہے اور وہاں صفت حکومت کی تجلی ہے اصل قبلہ تجلیات ہیں۔
ایک ہندوں کے رہنما نے شور مچایا کہ مسلمان ہمیں طعنہ دیتے ہیں کہ ہم پتھر کے بتوں کو پو جتے ہیں یہ بھی پتھر کے مکان کو سجدہ کر تے ہیں تو مولانا قاسم نانوتویؒ مناظرہ کے لئے تشریف لے گئے اور فرمایااگر سامنے سے بت اٹھا لیا جائے تو تم سجد ہ کر وگے اس نے کہا نہیں حضرت نے فرمایا اگر بیت اللہ کو تعمیرنو کے لئے گرادیا جائے پھر بھی ہم ادھر ہی منہ کر کے نماز پڑھیں گے اصل میں ہم کعبہ کو سجد ہ نہیں کر تے اگر جہاز میں سفر کر رہے ہوں تو جہاز تو اوپر ہوتا ہے پھر بھی اسی جہت کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے ہیں یہاں اصل میں اللہ کی تجلی ہے یہ تو اس کے لئے کر سی ہے اگر کوئی چوہدری صاحب کے پاس جائے اور وہ کرسی پر بیٹھے ہوں تو سلام کرسی کو ہوگا یا کرسی پر جو بیٹھا ہواہے اس کوہوگا ؟ ظاہر ہے کہ جو کر سی پر بیٹھا ہوا ہے سلام اسی کو ہوگا تو ہمارا سجدہ اس تجلی کو ہے اللہ کی صفت محبت کو سجدہ ہے اس مکان کو سجدہ نہیں کر تے اگر شہید کر دیا جائے پھر بھی سجدہ اسی طرف ہوگا کیونکہ تجلی تو باقی ہے لہذا ہم پتھر کو سجدہ نہیں کر تے۔ اس موضوع  پر حضرت نے کتاب بھی لکھی ہے ”قبلہ نما“شاید اس موضوع پر کوئی اور کتاب نہیں لکھی گئی۔
تو اللہ تعالیٰ کے دوگھر ہیں ایک گھر تو حضور  کے زمانے ہیں ہی فتح ہوگیا تھا دوسرا بیت المقدس تھا ،اس کے بارے میں حضور  نے پیشین گوئی فرمائی تھی کہ وہ بھی فتح ہو گا تو وہ حضرت عمر ؓ کے ہاتھوں سے ہوا جو دلیل ہے اس بات کی کہ وہ آپ کے کامل وارث ہیں اگر حضرت علی کے ہاتھوں سے فتح ہوتا تو شیعہ کہتے کہ فاتح ہم ہیں سنی کہتے فاتح ہم ہیں اس لئے اللہ نے اپنے دونوں گھر سنیوں کو دیے جووہاں خدمت کر تے رہے وہ بھی اہل سنت والجماعت تھے اور یہاں بھی اہل سنت والجماعت خادم رہے ،پہلے خلافت بنوامیہ ختم ہوگئی پھر خلافت عباسیہ آگئی چارسوسال عباسی حکومت رہی ہے سارے قاضی اور امام حنفی ہوتے تھے پھر دوسوسال سلجوقی خاندان حکمران رہا سب حنفی تھے پھر خوارزمی بھی رہے سارے حنفی تھے پھر عثمانی رہے وہ سارے حنفی تھے ،اس طرح بیت المقدس ہمیشہ مسلمانوں کے قبضہ میں رہا البتہ اب بیت المقدس یہودیوں کے قبضہ میں ہے اور بیت اللہ سعودیوں کے پاس ہے اس کا جو ذکر ہوا یہ بھی حدیث میں بطور پیشین گوئی موجود تھا کیونکہ آخری زمانہ میں دجال کا قتل ہونا تھا دجال مسیح دوہیں ایک سچا مسیح اور ایک جھوٹا مسیح دجال کا لقب بھی مسیح ہے اور عیسیٰ علیہ السلام کا لقب بھی مسیح ہے یہودی عیسائی مسلمان یہ سارے مانتے ہیں کہ مسیح دوہیں اور تینوں کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ سچا مسیح قتل نہیں ہوگا جھوٹا مسیح قتل ہوگا اب یہودی کہتے ہیں کہ چونکہ مر یم کے بیٹے عیسیٰ کو ہم نے سولی پر ماردیا ہے اس لئے معاذاللہ وہ جھوٹا مسیح تھا دجال تھا سچا نہیں تھا اب قرب قیامت عیسیٰ نازل ہونگے ایک ہے دلیل سے کسی دین کا سچا ثابت ہونا اور ایک ہے مشاہدہ سے جیسے آپ دیکھتے ہیں کہ فتح مکہ سے پہلے بہت تھوڑے لوگ ایمان لائے تھے فتح مکہ کے بعد ”ورائت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجاً“ کیونکہ بہت سارے مشرکین اس انتظار میں تھے کہ اگر اس نے مکہ فتح کر لیا پھر یہ وہی نبی ہوگا جس کا پہلے ہم تذکر ہ کرتے تھے پھر وہ تقریبا اکثر مسلمان ہوگئے یہ حسی اور مشاہدہ والی نشانی تھی خود آکر اسلام قبول کر تے ہیں اس وقت الیسع کے ۰ ۵ باب میں فتح مکہ کا واقعہ موجود ہے اسی طرح قرب قیامت حسیات سامنے آئیں گی اب ادھر سے اسرائیل کی حکومت بن گئی حضور  نے فرمایا تھا کہ لد کے مقام پر دجال قتل ہوگا پچھلی دوصدیوں سے جب یہ جہاز وغیر ہ بن چکے تو کافر سارے شور مچا رہے تھے کہ اب تو ساری دنیا کے چپے چپے کا علم ہمارے پاس ہے لد نام کا کوئی شہر دنیا میں موجود نہیں ہے یہ مسلمان ایسے لد لد لکھتے آرہے ہیں مرزا کہتا تھا کہ لد سے مراد لدھیانہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی باتیں غلط نہیں ہوتیں اب اسرائیل نے جو اپنا ائیرپورٹ (جہازوں کا اڈہ)بنایا ہے خود اس کا نام لد رکھا ہے تو چودہ سوسال بعد حضور  کا یہ معجزہ ظاہر ہوا اور اسی علاقہ میں بناجہاں دجال نے آنا ہے ۔
یہودیوں کے لئے قتل گاہ تیار ہوچکی ہے
یہ لد شہر ان کی قتل گاہ ہے ،اسی وجہ سے یہودی اِدھر اُدھر سے یہاں جمع ہور ہے ہیں اپنے قتل کے لئےیہ پیشین گوئی بھی باقاعدہ احادیث میں مو جود تھی کہ یہودی آپ خود اپنی قتل گاہ میں پہنچیں گے، یہاں عیسیٰ آئیں گے اور دجال وہیں پہنچے گا تو سب دیکھ رہے ہوں گے کہ وہ سچا مسیح ہے اور یہ جھوٹا مسیح ہے جس کوقتل کر دیا آنکھوں سے دیکھ کر پتہ چل جائے گا تو یہودیوں کا دین بھی غلط ثابت ہوجائے گا کہ مسیح جھوٹے مسیح تھے عیسائیوں کا مذہب بھی جھوٹا ثابت ہو جائے گا کیونکہ کہتے تھے کہ وہ سولی پر مرگئے قادیانی بھی غلط ہوگئے کیونکہ ان کا بہروپیہ مسیح آگیا تھا تو ان تینوں دینوں کا جھوٹا ہونا آنکھوں سے دیکھ کر ثابت ہوجائے گا کہ یہودی بھی جھوٹے عیسائی بھی جھوٹے قادیانی بھی جھوٹے اور مسلمان سچے ،آنکھوں سے دیکھ کراور حواس سے محسوس کرکے پتہ چلے گا کہ سچے ہیں ان تینوں کا جھوٹا ہونا اورواضح ہوگاکا نے کے لئے عیسیٰ کا فی ہیں لیکن مماتیوں کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے دو نبی جمع ہونگے عیسی حج کر نے کے بعد مدینہ منورہ پہنچیں گے وہ سلام پڑھیں گے اور حضور  جواب دیں گے جو حاضرین سنیں گے دونبی گواہی دے رہے ہونگے کہ نبی اسی قبر میں زندہ ہیں اور سلام کا جواب دے رہے ہونگے واضح ہوجائے گا یہ بھی جھوٹے ہیں ۔
دوضدیں :
ایک فریق ضد کر تا ہے کہ ”دم بدم پڑھو درودحضور بھی ہیں یہاں موجود “دوسرا ضد کر تا ہے "روضہ پاک میں بھی موجود نہیں ہیں" یہ دونوں ضدیں ہیں، اصل بات یہ ہے کہ وہاں ہیں یہاں نہیں ہیںحضرت پاک نے خود فرمادیا کہ اگر یہاں آکر پڑھو گے تو خود سنوں گا اگر دور سے پڑھوگے تو پہنچا دیا جائے گا، لہذا دونوں جھوٹے ہیں خواہ وہ احمد سعید کاظمی ہو خواہ احمد سعید بلوچ ہو ۔
خلاصہ کلام :
یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ کے دوگھر ہیں بیت اللہ وبیت المقدس ۔دونوں کی حفاظت اہل سنت والجماعت نے کی ہے اب اگر چہ بیت المقدس پر قبضہ یہودیوں کا ہے چونکہ قبضہ کی دوقسمیں ہیں (۱) قبضہ وارثانہ (۲) قبضہ غاصبانہ ۔وارثانہ قبضہ ہمیشہ سنیوں کا رہا ہے خواہ وہ بصورت حنفی ہوں یا حنبلی وغیر ہ ہوں یہودیوں کا قبضہ بیت المقدس پر غاصبانہ ہے اور اس کی بھی احادیث میں پیشین گوئی ہے یہ ایسا ہونا ہی تھا لہذا گھبرانے کی ضرورت نہیں آخر پھر ہمارے قبضہ میں آئے گا جب عیسیٰ آئیں گے ان شاءاللہ۔
فاتح بیت المقدس
ذلک مثلہم فی التوراة ومثلہم فی الانجیل:
حضور اکر م  کی یہ پیشین گوئی یعنی فتح بیت المقدس کی سید نا فاروق اعظم ؓ کے ہاتھوں پوری ہوئی چنانچہ جب بیت المقدس فتح ہوگیا، حضرت عمر فاروق ؓ نے خطبہ ارشاد فرمایا ، دوران خطبہ ایک آدمی نے آپ کو ایک پرچی دی آپ نے وہ پرچی پڑھ کر فرمایانہ میرا ملک ہے اور نہ ہی میرے باپ کی وراثت ہے" باقی موجود صحابہ کر ام ؓ حیران ہوئے کہ اس جملہ کا کیامطلب ہے چنانچہ خطبہ کے بعد آپ سے دریافت کیا گیا کہ آ پ نے جو جملہ ارشاد فرمایا اس کا کیا مطلب ہے آپ نے جواباًارشاد فرمایا کہ "زمانہ اسلام سے پہلے میں نے اس علاقہ کا ایک مرتبہ بغر ض تجارت سفر کیا تھا میں قافلہ سے جدا ہوگیا جب میں قافلہ سے بچھڑ گیا مجھے پیاس اور بھوک لگی ہوئی تھی اس وقت جو عیسائیوں کے گرجا گھر ہوتے تھے ساتھ ہی لنگر بھی ہوتا تھا تا کہ اگر کوئی مسافر ہوتووہ وہاں سے کھانا کھالے چنانچہ میں بھی چل پڑا آگے ایک گرجا گھر آیا میں نے سوچا کہ یہاں چلتے ہیں کھانا بھی کھائیں گے پیاس بھی بجھائیں گے اور کچھ دیر آرام بھی ہو جائے گا۔
جب میں گرجاگھر میں پہنچا اس گر جاگھر میں ایک پادری بیٹھا تھا اس نے کہا کہ، کھانا تو ضرور ملے گا لیکن پہلے یہ کام کر و اس نے میرے ہاتھ میں کسیّ پکڑادی اور کہا کہ بنیاد کھودو یہاں ایک کمرہ تعمیر کرنا ہے میں نے تھوڑی دیر تو کام کیا گرمی کے دن تھے بھوک اور پیاس کی انتہاہوچکی تھی اوپر سے گرمی تھی مجھے غصہ آیا میں نے کسیّ سے اس کا سراڑا دیا اور اسی گڑھے میں پھینک دیا پھر وہاں سے بھاگا خوف کی حالت میں دوڑ کی کیفیت بھی اور ہوتی ہے چنانچہ بھاگتے بھاگتے کیا دیکھتا ہوں کہ ایک اور گرجاگھر آگے آگیا میں اس میں چلاگیا وہاں کا پادری پہلے کے بر عکس نکلا اس نے بڑے اخلاق پیار سے مجھے بٹھا یا اور اور اندر گیا ایک کاغذ اور قلم لے آیا کہنے لگا آپ اس پر لکھ دیں کہ جب اس علاقہ کا بادشاہ بنوں گا تو یہ گرجا گھر تیرے نام کر دوں میں نے کہا کہ میرے پاس تو اپنا اونٹ بھی نہیں ہے میں تو اونٹ بھی کر ایہ پر لایا ہوں تو کہتا ہے کہ اس علاقہ کا بادشاہ بن گیا تو گرجا گھر میرے نام کر دینا ؟خطاب کے بیٹے کے پاس اپنی سواری نہیں تجارت کے لئے جو سرمایہ لایا ہوں وہ بھی دوسرے کا اس نے کہا لکھنے میں کیا حرج ہے اگر آپ بادشاہ بن گئے تو ٹھیک ہے ورنہ آپ کا کو نسا نقصان ہے میں نے لکھ دیا پھر وہ اندر گیا اور ایک صندوقچہ اٹھا کر لایا اس میں تصویریں تھیں اس میں ایک تصویر تھی جو اس نے دکھائی کہ ایک آدمی کھڑا ہے دوسرا بیٹھا ہوا ہے اور کھڑ ے ہو نے والے کی ایڑ ی پکڑ ے ہوئے ہے اس نے کہا کہ یہ آ پ کے شہر میں نبی پیدا ہوگا میں دیکھ رہا تھا کہ حضور ﷺ  سے شکل ملتی ہے وہ جو ایڑ ی پکڑ کر بیٹھا ہے اس کی شکل سیدنا صدیق اکبر ؓ سے ملتی ہے اس نے کہا کہ اس صدیق کے بعد علاقہ تیرے قبضہ میں آئے گا اور میری بھی باقاعدہ اس نے تصویر دکھائی اور کہا کہ میں جو آپ کو پہچان رہا ہوں ایسے نہیں پہچان رہا میرے پاس آپ کی تصویر ہے اور یہ اس گرجا گھر میں شروع سے آرہی ہے آج وہ آدمی آیا تھا رقعہ لے کر وہی تحریر لے کر آیا تھا کہ آج آپ اس علاقہ کے بادشاہ بن گئے ہیں تو آپ اپنے وعدہ کے مطابق میرے نام کر دیں میں نے کہا کہ عمر کی اگر ملکیت ہوتی تو میں دیتا یہ تو حکومت کی ملکیت ہے نہ یہ میری ملکیت ہے نہ میرے باپ کی وراثت ہے کہ میں تجھے دے دوں اس لئے جس طرح باقی مال فئی اور مال غنیمت تقسیم ہوگا اسی طرح یہ بھی تقسیم ہوگا یہ کسی کا حق نہیں ہے ۔"
یعرفونہ کمایعرفون ابناءسھم ۔
یہ حضور  کو پہلے سے پہچانتے تھے ان کے پاس تصاویر وغیر ہ ہوتی تھیں دیکھوحضور  نے ابھی تک دعویٰ نبوت نہیں کیا لیکن وہ پہلے ہی پہچان رہا ہے کہ وہ آنے والا نبی ہے اسی طریقے سے آپ کو کئی پادریوں نے بچپن میں پہچانا حضور ﷺ کی دعویٰ نبوت سے پہلے ہی بہت تشہیر ہوگئی تھی دیکھواگر کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے زیادہ سے زیادہ محلہ والوں کو پتہ چل جاتا ہے اسٹیشن پر ہزاروں لوگ آتے جاتے ہیں لیکن کسی کا پتہ نہیں کہ کون ہے لیکن اگر کہیں صدر نے کسی جگہ پر آنا ہو تو کئی مہینہ پہلے اعلانا ت شروع ہو جاتے ہیں اسی طرح بچے پیداہوتے ہیں لیکن تشہیر نہیں ہوتی لیکن حضور  کی آمد کے اعلانات پہلے شروع ہوگئے جب نبی نے آنا ہو پہلے اعلانات ہوجاتے ہیں اور اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ جنگلوں تک اور حتی کہ بادشاہوں کے گھروں تک پہنچ جاتے ہیں ۔
واقعہ غفیرہ
بادشاہوں کے القابات کا تعارف :
یمن کے بادشاہ کا لقب ہوتاتھا " تُبّہ"، مصر کے بادشاہ کا لقب ہوتاتھا "فرعون "اور حبشہ کے بادشاہ کا لقب ہوتا تھا "نجاشی"۔فرعون نام نہیں بلکہ فرعون لقب ہے ،جس فرعون سے حضرت یو سف کو واسطہ پڑا اس کا نام "ردیون" تھا جو زلیخاکاخاوند تھا اور جس کا موسیٰ سے واسطہ پڑا اس کا نام "محیائی الاول "تھا فرعون لقب ہوتا تھا مصری زبان میں ،"فارا"سورج کو کہتے ہیں چونکہ مصر والے سورج کی پوجا کر تے تھے اس لئے جو بادشاہ ہوتا اسے کہتے کہ "اس پر سورج دیوتا خوش ہوگیا "اس وجہ سے اسے فرعون کہتے ہیں۔ان کا عقیدہ تھا کہ جس پر سورج خوش ہو تا ہے وہی بادشاہ بنتا ہے۔
" تُبّہ" یمن کے بادشاہوں کا لقب ہوتا تھا ایک تبہ کانام "مرس من کلال "تھا اس نے خواب دیکھا ،خواب بڑا پریشان کن تھا اس نے نجومیوں کو بلایا کہ میں نے خواب دیکھا اس کی تعبیردو اگر میں نے کچھ کہا تو تم بول پڑوگے میں تو اس کی تعبیر صحیح مانوں گا جو میرا خواب بھی اپنی تعلیم کے مطابق بتلائے اور اس کی تعبیر بھی دے انہوں نے کہا کہ ایسا تو ہم نہیں کر سکتے اس نے کہا کہ لوگوں کو تم بولتے ہوکہ ہم غائب جانتے ہیں پھر میرے خواب کا علم تمہیں نہیں چنانچہ اس نے ان کو جیل میں ڈال دیا ۔
لطیفہ
یہ جو نجومی ہوتے ہیں ہمسایوں کے بچوں سے پوچھ لیتے ہیں کہ وہاں گھر میں کو ن رہتا ہے اس کا نام کیا ہے اس کے بچے کتنے ہیں ان کے نام کیا کیا ہیں پھر عوام کو دھوکہ دیتے ہیں اسی طرح ایک نجومی عورتوں کو کچھ غائب کی باتیں بتلارہاتھا وہاں ایک طالب علم آیا اس نے کہا کہ تو غائب دان ہے اس نے کہا دیکھا نہیں کتنی باتیں بتلاچکاہوں طالب علم نے جوتا اتار ا اور ہاتھ پکڑ کر کہا اب بتلامیں تجھے ماروں گا یانہیں اب وہ پھنس گیا اگر کہتا ہے کہ نہیں مارے گا تو یہ ماردے گا اور اگر کہوں کہ مارے گا یہ نہیں مارے گا کا فی دیر سوچ بچار کے بعد منت وسماجت کر نے لگا کہ میں غائب نہیں جانتا پھر اس کی جان چھوٹی ۔
لطیفہ
اسی طرح ایک طالب علم جارہاتھا تو راستے میں اس کی ایک دہر یہ سے ملاقات ہوگئی دہریے نے کہا کہ خدانہیں ہے اس نے کہا کہ موجود ہے دہرےے نے کہا اگر ہے تو دکھا کہاں ہے طالب علم نے دہر یے کا تہبند (دھوتی ) کھول دیا اور اسے ننگا کر دیا دہر یے نے کہا تجھے شرم نہیں آتی طالب علم نے کہا دکھلاکہاںشرم ہے اس نے کہا شرم تو نظر نہیں آتی طالب علم نے جواب دیا اسی طرح خدا موجود تو ہے لیکن نظر نہیں آتا جس کا اس کے پاس جو اب نہیں تھا چنانچہ کافی عرصہ کے بعد بادشاہ نے شکاری لباس پہنااور شکار کر نے کے لئے نکلاشکار کے پیچھے ایسے لگے کہ بادشاہ ساتھیوں سے بچھڑ گیا اور ہرن کے پیچھے لگا رہا آخر کا ر دوپہر کے وقت جبکہ ہر ن بھی تھک چکا تھا اس نے اسے شکار کر لیا اور باندھ دیا چونکہ خود بھی تھکاہوا تھا اور بھوک وپیا س بھی لگی ہوئی تھی اس لئے وہ ایک در خت کے نیچے سو گیا تا کہ کچھ دیر آ ر ام کر لیا جائے یہ سویا ہوا تھا کہ ایک بڑ ھیا آ ئی اورا سے جگا کر کہا کہ با دشا ہ سلا مت اٹھیں کھا نا تیا ر ہے کھا نا کھا لیں یہ گھبرا یا کہ اسے کیسے پتہ چل گیا میں با دشا ہ ہوں حا لا نکہ میں نے بادشا ہی لبا س بھی اتا ر اہوا ہے و ہ کہتا ہے کہ مجھے بھو ک بھی لگی ہو ئی تھی اور یہ ڈر بھی تھا کہ کھا نے میں زہر وغیر ہ نہ ملا دیا گیا ہوکیو نکہ با دشا ہ ہو ں کے دشمن بھی عا م ہو تے ہیں آخر کا ر میں سا تھ چل پڑا جب ان کے گھر میں پہنچا تو گھر میں ایک یہ بڑ ھیا رہتی تھی اور ایک لڑ کی تھی جب وہ لڑ کی کھا نا لے کر ا ٓئی اس نے کہا بادشا ہ سلا مت آپ کھا نا کھا ئیں بعد میں آپ کو آپ کا خو اب بھی بتلا ؤ ں گی اور اس کی تعبیر بھی بادشاہ نے کہا کہ وہ خو اب تو بہت پرا نا ہے لڑکی نے کہا میں بتلاؤ ں گی جب کھا نا کھا لیا تو با دشا ہ نے کہا کہ بتلاؤ لڑ کی نے کہا کہ آپ نے خواب یہ دیکھا ہے کہ رات کا وقت ہے با دل چھا ئے ہوئے ہیں آ ند ھی چل رہی ہے مٹی یا ریت نہیں اڑ رہی بلکہ آ گ کے انگا رے ہیں کہیں کوئی نظر نہیں آ تا لیکن چیخ وپکار کی آواز ہر طرف سے آ رہی ہے بادشا ہ نے کہا کہ ایسے ہی ہے لڑ کی نے کہاا س کے بعد آپ نے دیکھا کہ کہ پا نی کا ایک تالاب ہے اور اس کے پاس ایک آ دمی سفید لبا س میں کھڑا ہے وہ پا نی کے چھینٹے جس طر ف ما رتا ہے اس طر ف نہ آ گ رہتی ہے اور نہ چیخ وپکا ر کی آ واز با دشا ہ نے کہاخواب تو ایسے ہی ہے اب اس کی تعبیر بھی بتلا دیں لڑ کی نے کہا اس کی تعبیر یہ ہے را ت کے وقت جو بادل چھا ئے ہو ئے ہیں یہ تو دنیا میں کفر کی تا ریکی اور اند ھیرا ہے اور جو آ گ کے انگا ر ے اڑ رہے ہیں یہ امیروں کا غریبوں پر ظلم ہے اور جو چیخ وپکار ہے یہ مظلوم غریبوں کی آواز یں ہیں اور جو آدمی سفید لباس میں کھڑا ہے یہ ایک نبی آنے والا ہے محمد رسول اللہ ﷺ  اور جو تالاب ہے یہ اس پر نازل ہونے والی کتاب قرآن ہے جب وہ نبی آئے گا تو اس قرآن کے ذریعہ وہ کفر کی تاریکی کو ختم کر دے گا اور امیروں کے غریبوں پر ظلم ختم کر دے گا بادشاہ نے کہا کہ یہ میری زندگی میں ہی ہوگا لڑکی نے کہا کہ نہیں بلکہ تیری نسل میں سے چودہ آدمی تیرے بعد حکومت کریں گے پھر یہ نبی آئے گا اور جو چودہواں حکمران ہوگا اس وقت یمن کو وہ فتح کریں گے پھر ان کی حکومت قائم ہو جائے گی تو دیکھوابھی چودہ نسلیں باقی ہیں حضور ﷺ  کی آمد کے اعلانات پہلے ہی سے ہورہے ہیں اور جنگلوں میں بھی ہورہے ہیں کہ آنے والا آرہاہے-
مرزا قا دیا نی :
کی طر ح نہیں کہ میر ے پر اور بیس سا ل وحی آتی رہی لیکن میں تر دد میں تھا کہ آیا کہ میں نبی ہوں یا نہیں پھر جب وحی بارش کی طر ح شروع ہوئی پھر اس بارش میں میرا پاؤ ں پھسلا تب میں نے نبو ت کا دعو یٰ کیا با قی انبیا ءکرا م پر ان کی اپنی زبا ن میں وحی آ تی تھی لیکن مرزا پر تین زبا نوں میں وحی آ تی تھی کبھی انگر یز ی میں اور کبھی عر بی میں اور کبھی اردو میں اور پنجا بی میں یہ بیچا ر ہ آ ٹھ جما عتیں پڑھا ہو اتھا کہ انگر یز ی آ تی نہیں تھی تو اس انگر یز ی وحی کا تر جمہ ایک ہندو لڑ کی سے کرواتا تھا ایک پنچا بی شا عر نے خو ب کہا کہ :
پنچابی نبی تے وحی انگریزی وچ
ہر کم اس اوت دے اوت دا اے
دیسی ٹٹو دلیتاں خراساں دیں
لتاں دھیریک دیاں ئیں سر توت دا اے
لطیفہ :
ہندستا ن سے میا ں بیو ی حج کر نے کے لئے گئے وہا ں دو نوں آپس میں لڑ پڑ ے مقد مہ عدالت میں در ج ہوگیا چو نکہ گوا ہ پنچا بی تھے اب وکیل ان کو گو اہی کے لیے تیا ر کر رہا ہے اس عورت کو ہذہ کہنا اور مر دکو ہذا کہنا اس نے چار مکے مارے ہیں چا ر کو اربعہ کہنا اور پا نچ لا تیں بھی ماریں ہیں تو پا نچ کو خمسہ کہنا یہ وکیل نے گوا ہوں کوعر بی سکھلا ئی جب جج کے سا منے پیش ہو ئے مقد مے کی سماعت شرو ع ہو ئی جج نے کہا شا ہد یعنی گو اہ کہاں ہیں جو اب ملا نعم یعنی لبیک حا ضر ہے اب وکیل نے ان سے کہا کہ گو اہی دو گواہ صاحب بو لا ہذ ا ما رے اس ہذ ہ کو اربعہ مکے وخمسہ لتا ں جج نے وکیل سے پو چھا یہ کیا کہہ رہا ہے حج کیو نکہ حج عر بی تھا اس کو سمجھ نہیں لگی وکیل نے کہا حج صا حب یہ اس ملک کا با شند ہ ہے جس ملک کے نبی پر تین زبا نوں میں وحی آ تی ہے ۔
لطیفہ :
یہ لطیفہ پچھلے سے ملتا جلتا ہے جس طرح اس میں کئی زبا نیں جمع ہو گئیں اسی طر ح اس میں بھی ہندوستا ن میں ایک سکھ ریلو ے اسٹیشن پر گا دڑ تھا پہلے ز ما نہ میں رات کے وقت پھاٹکوں وغیر ہ پر بتیا ں جلا کر رکھتے تھے آج کل ایسا ہوتا ہے تو رات کے وقت سخت آندھی چل پڑ ی جس سے بتیا ں بجھ گئیں اب یہ پچھلے اسٹیشن والو ں کو فو ن کر کے صورت حا ل بتلا رہا ہے نھیر ی ذمہ دار لہذا گا دڑ بجھنگ بتیاں یعنی دی نھیر ی از کمنگ اینڈ دی بتیاں آربجھنگ اینڈ لہذا گا دڑ نا ٹ از ذمہ دار یہا ں پر اس نے انگر یز ی پنچا بی ار دو کو جمع کر دیا مرزا بھی ایسا ہی تھا کہ کبھی کسی زبا ن میں اس پر وحی آ تی کبھی کسی میں جو نبی اپنی وحی نہ سمجھ سکتا ہو تر جمہ کے لیے ہندو لڑ کی منتخب کی ہو یہ کیسا نبی ہے جھوٹا اور کذا ب ہی ہو سکتا ہے سچا نہیں ہو سکتا ۔
کا مل اہلسنت والجماعت کو ن ہیں :
مسلمان کہلا نے وا لے فر قو ں میں سے نجا ت پا نے والا فر قہ اہلسنت والجماعت ہے کیو نکہ اللہ تعالی نے اپنی کتا ب اور حضورﷺ  کی تعلیما ت اور پیشین گو ئی کا محافظ ا نہیں کو بنا یا ہے کو ئی اور فرقہ محا فظ نہیں اب سوا ل یہ ہوتا ہے کہ یہاں پا ک وہند میں دیو بند ی بھی اپنے آپ کو اہلسنت والجماعت کہلوا تے ہیں اور بریلوی بھی اپنے آپ کو اہلسنت والجماعت کہلواتے ہیں حا لا نکہ ان کے نظر یا ت میں کا فی اختلاف دیکھنے میں آتا ہے اب ان دو نوں میںسے کو ن سا فریق سچا ہے اور کو ن سا فریق جھوٹا ہے ؟کو نسا فریق اہل سنت والجماعت ہے کو نسا نا قص ہے ہم اس کا جوا ب یہ دیتے ہیں کہ سنت میں دو پہلو ہیں ایک فعل کا یعنی کر نے کا پہلو اور دو سرا تر ک کا یعنی نہ کر نے کا پہلو جو حضور اکر م ﷺ  نے کیا ہے اس کا کر نا سنت ہے اور جو نہیں کیاا س کا نہ کر نا سنت ہے جیسے آپ دیکھیں پا نچ نماز وں کے شروع میں اذا ن بھی دی جا تی ہے اور اقامت بھی کہی جاتی ہے اور جمعہ ایک ہفتہ کے بعد آتا ہے اس میں دواذانیں دی جاتی ہےں عید سال کے بعد آ تی ہے اس میںنہ کو ئی اذا ن ہے اور نہ اقامت اگر یہاں اذا ن اور اقا مت کہہ لی جائے تو کیا کوئی گناہ کا کا م ہے بیا ن تو اس میں توحید ہی ہوگی رسالت کا بیا ن ہو گا حی علی الصلو ٰة ہی کہیں گے نماز کی طر ف بلا نا کو ئی گنا ہ ہے اسی طرح اذا ن کے آخر میں اگر لا الہ الا اللہ کے سا تھ محمد رسول اللہ کہیں گے تو کیا محمدرسول اللہ ﷺ  ناراض ہو جا ئیں گے کیو نکہ حضور نے ایسا نہیں کیا پس معلوم ہوا کہ جہاں کر نا ثا بت ہے وہاں کر نا سنت ہے جہا ں تر ک ثا بت ہے وہا ں چھو ڑ نا سنت ہے۔
اسی طر ح درودو سلا م کا مسئلہ ہے جہا ں ثا بت ہے وہا ں پڑ ھنا سنت جہا ں پڑ ھنا ثا بت نہیں ہے وہا ں چھو ڑ نا سنت ہے چو نکہ اذا ن کے شروع میں درود نہ پڑھنا ثا بت ہے تو دور دنہ پڑ ھنا سنت ہے نماز میں اور روضہ پا ک پر کھڑے ہو کر دورد پڑ ھنا ثا بت ہے لہذا وہا ں پڑھنا سنت ہے عید سے پہلے اذا ن نہ دینا ثا بت ہے وہا ںتو یہ سنت ہے کہ اذا ن نہ دی جائے بچہ پیدا ہوتا ہے اس کے کا ن میں اذان دینا ثا بت نماز سے پہلے اذا ن دینا اور اقامت کہنا ثا بت تو یہاں پڑ ھنا سنت ہے اب جو دو نوںپہلوں کو اختیار کر ے گا وہ کامل اہلسنت والجماعت ہو گا اوروہ دیو بندی ہیں الحمد للہ لہذا یہ کا مل اہل سنت والجماعت ہو ئے بر یلو ی کہتے ہیں جو حضور ﷺ  نے کیا ہے اگر وہ نہ ہو سکے توکو ئی حر ج نہیں جو نہیں کیا اس کاکرنا ضرو ری ہے جیسے کوئی شخص متقی پر ہیز گار اپنے ما ل کی پو ری زکو ٰہ ادا کر دیتا ہے ایک پیسے کی خیا نت نہیں کرتا اور دوسرا شخص زکو ٰة تو نہیں دیتا لیکن گیا ریں شر یف کا ختم جمعرا ت کا ختم تیجہ چا لیسوا ں کا ختم دیتا ہے یہ قضا نہیں ہوتے لیکن زکو ٰة کا پتہ نہیں کہ یہ بھی فرض ہے تو ان کے ہاں پہلا شخص جس نے وقت پر زکوٰة ادا کر دی وہ تو گستا خ رسول ہے اور گستاخ اولیاءاللہ بن جا ئے گا اور دوسرا شخص جس نے زکوٰة تو نہیں دی لیکن گیا رہو یں شریف کا ختم فو ت نہیں ہوا یہ بڑا عا شق رسول ہے اور محب اولیا ءاللہ کہلا ئے گا تو انہوں نے اس کا م کو تر جیح دی جو حضور ﷺ  نے نہیں کیا جسے حضور ﷺ  نے تر ک فرمایا انہوں نے اس کے کر نے کو ثواب سمجھا اور جس کا حضورﷺ  نے حکم فرمایا اس کے نہ کر نے میں کوئی حر ج نہیں سمجھا تو معلوم ہوا انہوں نے دونوں پہلو ں کا خیا ل نہیں رکھا اس لئے یہ ناقص اہل سنت والجماعت ہو ئے اور دیو بند ی اللہ تعالی کے فضل وکر م سے کا مل ومکمل اہل سنت والجماعت ہو ئے کیو نکہ انہو ں نے ہمیشہ دونوں پہلو  ں کو مد نظر رکھا ہے آ ئند ہ بھی انشاءاللہ دو نوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اتبا ع سنت میں زند گی گزاریں گے اللہ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلتے رہنے کی تو فیق عطا فرمائے آ مین ۔
ہم اہل سنت والجماعت کیوں ہیں :
پہلا درس اس بات پر ہوا تھا کہ اسلا م ہی دین برحق ہے اور درس ثا نی اس پر ہوا تھا کہ جب اسلا م کے دائر ہ میں آ جا تے ہیں تو نجات پا نے والی جماعت کا نا م اہل سنت و الجماعت ہے جس طرح ہم میں سے ہر ایک کا کوئی نہ کوئی نا م ہے اسی طرح ہمار ی جماعت کا نا م اہل سنت والجماعت ہے جس طر ح ہمیں خو شی ہوتی ہے کہ ہمیں اپنے نا م کے معنی کا پتہ چل جائے ز اہد کا معنی کیا ہے امین کا معنی کیا ہے انور کا معنی کیا اسی طرح ہمیں یہ بھی معلو م ہو ناچا ہیے کہ ہمار ی جماعت کے معنی کیا ہیں ۔
اہل سنت :
پہلا لفظ اہل سنت ہے اب آپ اس کا مطلب اور معنی سمجھیں گے اس سے پہلے یہ سمجھیں کہ ہمارا عقید ہ ہے کہ قرآن پا ل اللہ تعالی کی آ خر ی کتا ب ہے اور کا مل کتا ب ہے قرآن مجید یہ الفا ظ میں ہے اور الفا ظ میں لو گ اختلاف کر تے رہتے ہیں یہاں معنی حقیقی مراد ہے یہاںپر معنی مجا ز ی مراد ہے اللہ تعالی نے اس قسم کے جھگڑ وں سے بچا نے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا کہ اللہ تعالی کے آ خر ی پیغمبر اور رسول حضرت محمد مصطفی ﷺ  اس پر عمل کرکے بھی دکھا دیں تا کہ عمل سے قرآن پا ک کا معنی اور مطلب متعین ہو جائے تو اب ہمارا عقید ہ ہے کہ یہ قرآن لفظی قرآن ہے اور حضرت محمد ﷺ  اسی قرآن کی چلتی پھر تی عملی تفسیر تھے ۔
حضرت نماز ادا فرماتے ہیں تو آیات نما ز کی تفسیر ہو رہی ہے ۔
حضرت حج ادا فرمارہے ہیں تو آیا ت حج کی تفسیر بیا ن ہو رہی ہے ۔
اور اگر میدا ن کا رزار میں جہا د فرمارہے ہیں تو آیات جہاد کی تفسیر ہو رہی ہے۔
حضرت تبلیغ فرمار ہے ہیں تو آیات تبلیغ کی تفسیر ہو رہی ہے۔
اگر صلح فرمار ہے ہیں تو آیا ت صلح کی تفسیر ہو رہی ہے۔
تو ہمارا عقید ہ وہی ہے جو حضرت عا ئشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا جب ان سے پو چھا گیا کہ آپ کے اخلاق وعا دات کیا ہیں؟تو آپ نے فرمایا کہ قرآن آپ ﷺ  کا اخلاق ہے جو قرآن میں لفظو ں میں لکھا ہوا ہے وہ حضور پا ک ﷺ  کی ادا ں میںڈھلا ہوا تھا۔ اس لئے حضور ﷺ  کی ہر عا دت ہر عبا دت قرآن کی تفسیر ہے تو یہ چلتے پھر تے قرآن تھے تو آپ نے جو قرآ ن پر عمل کر کے عملی نمو نہ دیکھا یا اسی عملی نمو نہ کو سنت کہا جاتا ہے تو اب اہل سنت کا معنی بھی سمجھ آ گیا اہل سنت وہ لوگ ہیں جو قرآن پر عمل کر تے ہیں لیکن قادیانی پرویز اور مودودی کی طرح اپنی طرف سے قرآن کا مطلب نہیں نکا لتے بلکہ حضور ﷺ  کے پیش کر دہ عملی نمو نہ کو سا منے رکھ کر قرآن پر عمل کر نے والے اہل سنت کہلا تے ہیں۔اللہ تعالی نے ہمیں صرف الفاظ کا محتا ج نہیں رکھا بلکہ عملی نمو نہ حضور کا سا منے ہو ا۔پھرآ پ نے بھی اپنی ایک جماعت تیار کر دی صحا بہ کر ام ؓ کی جوا ٓپ کے عملی نمو نہ پر عمل کر نے والے تھے حضور ﷺ  نے قرآن کا عملی نمو نہ کر کے دکھلارہے تھے تو اللہ تعالی کی پو ری نگرا نی تھی یہ تشریح سب کچھ اللہ تعالی کی جانب سے آ تی ہے چنا نچہ فرمایا کہ ان علینا جمعہ وقرانہ فاذا قرانہ فا تبع قرآ نہ ثم ان علینا بیا نہ جس طر ح الفا ظ قرآن من جا نب اللہ ہیں اسی طرح بیان قرآن بھی من جانب اللہ چنا نچہ فرما یا الر حمن علم القرآن پھر آپ نے آ گے صحا بہ کرام کو سکھا یا لیعلمہم الکتب والحکمة ۔
تعلیم کے تین طریقے ہیں قول ، فعل ، تقریر ،
)۱زبا ن کے ذریعہ سمجھنا اور بتا نا جیسے ہم نے کسی کو وضو کا طریقہ بتا نا ہو تو ہم اسے کہیں گے کہ پہلے نیت کرو پھر تین مر تبہ ہا تھ دھو  پھر کلی کرو.... الخ ۔اسے قو ل کہتے ہیں ۔
)۲فعل سے یعنی ہم خو د وضو کر کے دکھا ئیں کہ میر ی طر ف دیکھتے رہو جیسے وضو کر رہا ہوں ایسے ہی وضو کیا جاتا ہے اسے فعل کہتے ہیں ۔
)۳دو چا ر آ دمیوں سے کہا جائے کہ تم وضو کرو جو غلطی ہو ئی میں اسے بتلا دو ںگااسے تقریر کہتے ہیں ۔
والجماعت :
حضور اکر م ﷺ  نے صحا بہ کرام ؓ کو قرآن کی تعلیم مذ کورہ تینوںطر یقو ں سے دی حضو ر نے صحا بہ سے عمل کروا کر بھی دیکھا جب صحا بہ کرا م ؓکو قرآن وسنت کا عملی نمو نہ بنا یا جا رہا تھا تو دو نگرا نیاں تھیں ایک اللہ تعالی کی دوسر ی حضور ﷺ  کی اللہ تعالی نے جب رزلٹ سنا یا تو فرما یا رضی اللہ عنہم ورضو عنہ اورجب حضور ﷺ  نے رزلٹ سنا یا تو فرمایا اصحا بی کا لنجوم بابھم اقتد یتم اھتد یتم گو یا کہ نتیجہ سوفیصد نکلا سا رے کے سا رے صحا بہ کا میاب قرار دیے گئے تو جو صحا بہ کرا م صورت میں عملی نمو نے تیا ر کئے گئے انہی کو والجماعت کہا جاتا ہے تو اب اہل سنت کا معنی یہ سمجھ میں آ یا قرآن پراس طر یقہ سے عمل کر نا جو حضور ﷺ  نے کر کے دکھا یا صحا بہ کرا م نے اسے اپنا یا اسی کو مزید سمجھنے کے لیے ایک لطیفہ حا ضر خد مت ہے ۔
انعا م یافتہ چار جماعتیں ہیں :
(۱) انبیا ءکرا م علیہم السلا م (۲)صدیقین (۳)شہدا (۴)صا لحین ۔جو بڑ ے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم نبی کے علا وہ کسی کو نہیں مانتے وہ تو قرآ ن کی سور ہ فا تحہ کے بھی منکر ہو ئے ۔صد یقین بھی ہمارے لیے عملی نمو نہ ہیں شہدا و صا لحین بھی ہمار ے لئے عملی نمو نہ ہیں اس لئے اللہ تعالی نے ترا جم پر بنیا د نہیں رکھی وہ صحا بہ کرا م جن کی ما در ی زبا ن عر بی تھی قرآن عر بی میں نا زل ہوا وہ بھی قرآن کو سمجھنے میں حضور ﷺ  کے محتا ج تھے اگر آ ج کوئی لغت کی ایک آ دھ کتاب لے کر بیٹھ جائے اور کہے کہ میں قرآن کو سمجھ جاتا ہوں یہ بات با لکل غلط ہے لغت دیکھنے میں سے مسئلہ حل نہیں ہوتا ایک لفظ کے معا نی مو قع کے اعتبا ر سے بد لتے رہتے ہیں جیسے انگلش کا لفظ بر یک ”اس کا معنی ہوتا ہے “توڑنا اس کی جتنی پر پیو یشن بد لتی جا ئے گی اس کا معنی بد لتا جائے گا بر یک اپ کا معنی اور ہے بر یک ان کا معنی اور ہے اوربریک روف کا معنی اور ہے بریک اوٹ کا معنی اورہے جس کو انگر یز ی مین پر پیو زیشن کہتے ہیں عر بی میں اسے صلا ت کہتے ہیں تو لفظ کا صلہ بد لنے سے معنی بد لتا جا تا ہے مثا ل کے طو ر پر صلو ٰة کا معنی نماز دیکھ کر لیا لغت میں تو آپ معنی یہ کر یں گے کہ اللہ بھی اور فرشتے بھی حضور ﷺ  پر نماز پڑ ھتے ہیں اسی طرح ولکن شبہ لھم اس میں شبہ کا صلہ لا م ہے مرز نے یہی دھو کہ دیا کہ ان البقر تشابہ علینا وہا ں صلہ علی تھاکہ گائے ہم پر مشتبہ ہو گئی مرزا بھی کہتا ہے کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ صلیب پر عیسی کی حالت مردو ں جیسی ہو گئی تھی صلیب پر چڑ ھائے گئے لیکن مر ے نہیں غلطی اس نے یہ کی کہ صلہ کااس نے لحا ظ نہیں کیا۔ لہذا جو صرف لغت پر اکتفا کر تا ہے وہ گمرا ہ ہوتا ہے قرآن نے خود کہا کہ بعض اس سے ہدا یت پا تے ہیں اور بعض گمرا ہ ہو تے ہیں لیکن گمرا ہوں کی نشانی بتلا دی وما یضل بہ الا الفا سقین ،
فاسق کون : حضرت نے فرمایا غیر مقلدفاسق ہے کیو نکہ فسق کا لغت عر بی میں معنی ہے وہ جانور جورسی تڑواکر بھا گ جائے کبھی اسے سینگ ما رتا ہے ،کبھی اسے کبھی ،کھیتی خرا ب کرتا ہے ہر روز لڑا ئی کا سبب بنتا ہے اسے فا سق کو ن ہیں آ گے فرمایاومایضل بہ الاالفاسقین اب فاسق کو ن ہے آگے فرمایا الذ ین ینقضو ن عہد اللہ من بعد میثا قہ ویقطعون ما امر اللہ بہ یعنی جن سے اللہ نے ملنے کا حکم فرمایا نبیو ں سے صدیقین سے شہدا ءسے صالحین سے ان کی تقلید سے جو نکل کر بھا گے وہ فاسق ہے تومعلوم ہوا کہ جو رجا ل اللہ کی صحبت اور تقلید میں رہ کر قرآن سمجھے گا اس کے لیے ہدا یت ہی ہد ایت ہے جوا ن سے بھا گ کر سمجھنا چا ہے گا اس کے لئے گمرا ئی ہی گمرا ہی ہے اب دیکھئے کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی کو عملی نمو نہ بنایا پھر صحا بہ عملی نمو نہ ہیں ان کے بعد صدیقین عملی نمو نہ ہیں شہدا اور صالحین عملی نمو نہ ہیں قیا مت تک رہیں گے ہم نے قرآن سے صرف الفا ظ دیکھنے میں مفہو م متعین کر نا ہے رجال اللہ کو دیکھ کر یہ کس طرح نماز پڑ ھ رہے ہیں متو اتر نمازکس طرح آ رہی ہے۔ جس طرح حج کے الفا ظ ہم تک تو اتر سے پہنچ چکے ہیں اسی طرح عملا حج بھی ہم تک تواتر سے پہنچ چکا ہے تو جو اس نمو نہ کو سا منے رکھ کر قرآن پر عمل کر تے ہیں ان کو کہتے ہیں اہلسنت ۔
لطیفہ :
گند م کی کٹا ئی کامو سم تھا تین چا ر آ دمی تھے تیتر کے بو لنے کی آواز آ رہی تھی آپس میں کہنے لگے یہ کیا کہہ رہا ہے تو ایک ان میں مو لوی صا حب بھی تھے وہ کہنے لگے یہ کہہ رہا ہے سبحان تیری قدرت باقیوں نے اعتراض کر دیا مولوی صاحب آ پ کو کچھ بھی آ تا ہے مسجد میں ہو ں تب با ہر ہوں تب سبحا ن اللہ تو سبحا ن اللہ آپ کو ذہن میں ایسی رچ بس گئی ہے کہ جو بھی آ واز آ ئے آپ کہتے ہیں سبحا ن اللہ کہہ رہا ہے تو یہ آ واز کا مطلب نہیں بلکہ آپ کے ذ ہن کا مطلب ہے تو دوسرا قصا ئی تھا وہ کہنے لگا یہ کہہ رہا ہے سر ی پا ئے ڈھک رکھ آوازایک تھی ذہن دو ہو گئے تیسرا تھا سبز ی بیچنے والا کہتا تھا کہ وہ تو صا ف کہہ رہا ہے آ لو ،میتھی ،ادرک آواز ایک تھی ذہن تین ہو ئے ، چو تھا پہلو ان تھا اس نے کہا واہ بھئی واہ سا رے اپنے اپنے ہانکے لگا رہے ہیں وہ توانسا ن کا بڑا ہمد رد پر ند ہ ہے وہ صحت کے اصو ل سمجھا رہا ہے وہ کہہ رہا ہے کہ گھی کھا کر اچھا کھا نا کھاکر ورزش کر یں تو صحت بنتی ہے اب چاروں لڑ رہے ہیں ایک کہتا ہے میں یہ سمجھا وہ کہتا ہے میں یہ سمجھا تیسرا کہتا ہے کہ ۔
میں یہ سمجھا یا د رکھو ساری لڑ ا ئی کی بنیا د ”میں“ہے شیطا ن اسی میں کی وجہ سے ز ند ہ در گا ہ ہوا ہے ، انا خیر منہ ہم اہل سنت والجماعت نے اللہ کے پیغمبر سے سیکھاہے کہ ”میں “ماردو میں کی جگہ ہے والجماعت ۔
فرق ضالہ کا مریض بہتر ( ۲ ۷) فرقے ہیں ان کے پاس میں میں ہے قرآن پڑ ھے گا مطلب میں سمجھا حدیث پڑ ھے گا مطلب میں سمجھا وہ سب میں میں بتائیں گے لیکن اہل سنت والجماعت کہے گی کہ حدیث نبی پاک کی سمجھ صدیق اکبر ؓ کی علی ہذا القیاس آتک فرما ن نبی پا ک ﷺ  کا ہے سمجھنافاروق اعظم ؓ کا ہے ذ ولنور ین کا ہے علی المر تضی کا ہے عشر مبشر ہ ہے بد روالوں کا ہے احد والوں کا ہے بیعت رضوا ن والو ں کا ہے ان سب کو کہتے ہیں والجماعت ۔
اس دنیا نے آ ج تک کسی کو معاف نہیں کیا اگر ایک طرف علما ءخیر ہیں مقابلے میں علماءسو ہیں اگر ایک طرف صو فیا ءکرا م ہیں تو مقا بلے میں ملنگ وغیر ہ بھی ننگے بیٹھے ہو تے ہیں اگر ایک طر ف سچے نبی ہیں تومقا بلے میں جھو ٹے نبی بھی ہیں دنیا نے خدا کو معاف نہیں کیا خدا کے مقا بلے میں جھو ٹے خدا بنا لئے جب دنیا نے کسی کو معا ف نہیں کیا تو اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ میر ی سنت کو بھی معاف نہیں کریں گے ایک سنت کی بہتر نقلیں بنیں گی اور سا رے میرا نا م لیں گے کہ ہم نبی کو ما نتے ہیں جس طرح سارے کہتے ہیں کہ ہم خد اکو مانتے ہیں لیکن صحیح طریقہ وہی ہے خد اکو ماننے کا جس طر ح نبی نے مانا اسی طرح سا رے دعو یٰ کرتے ہیں کہ ہم نبی کو ما نتے ہیں لیکن صحیح طریقہ وہی ہے جس طر ح صحا بہ کرام نے ما نا ما انا علیہ واصحا بی اس لئے اہلسنت والجماعت صرف ہمارے نام میں ہے کسی کے نام میں نہیں ہے ۔کبھی کسی نے نہیں کہا کہ
میں اہل اعتزا ل والجماعت ہوں
میں اہل شیعہ والجماعت ہو ں
میں اہل قرآن والجماعت ہوں
میں اہل حدیث والجماعت ہوں
کیو نکہ سب کے ہاں میں ہے اپنی طر ف سے مطلب بیا ن کر تے ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ نہیں بلکہ ہم الفاظ کو دیکھ کرصحا بہ کے عملی نمو نہ کودیکھیں گے اسی وجہ سے ہم اہل سنت والجماعت ہیں ۔
سوال :جب قرآن کا مل کتا ب نا قص نہیں ہے اس کا عملی نمو نہ سنت یہ بھی کا مل ہے ناقص نہیں پھر اہلسنت بھی نا م کا مل ہوا نہ کہ نا قص پھر سا تھ والجماعت کیو ں جو ڑا ہوا ہے بہتر (۲ ۷) فرقوں کا اس نام پر اعترا ض ہے ۔
جو اب :والجماعت سے مراد ہمارا کوئی مطلب نہیں اس کا مطلب وہی ہے جو آ پ دوکانوں پر لکھاہواپڑ ھتے ہیں نقالوں سے ہو شیا ر اصل چیز صحا بہ کرام کے پاس ہے جو صحابہ کے واسطے سے نہیں سمجھتا اس کے پاس کا مل چیز نہیں بلکہ ناقص ہے وہ نقال ہیں اصل صحا بہ کے پاس ہے اس لئے والجماعت کا یہی مطلب ہے جو ہم نے بیا ن کر دیا فلا اشکا ل علیہ ۔
ہم حنفی کیوں ہیں :
ہم اہل سنت والجماعت ہو نے کے سا تھ حنفی بھی ہیں وہ اس لئے کہ ہمیں اللہ کے نبی ﷺ کی سنت اور صحا بہ کرا م کا فہم چاہیے دین کے لیے اب وہ کہاں سے ملے گا ہم میں سے کوئی صحا بی نہیں اور تا بعی بھی نہیں ہے کہ ہم برا ہ راست نبیﷺ  سے نماز وغیر ہ حا صل کریں امام ابو حنیفہ ؒنے ہمارے لئے نبیﷺ  کی سنت اور صحا بہؓ کے فہم کو ہمارے لئے آ سا ن کر دیا اس وجہ سے ہمیں امام صا حبؒ کی ضرورت ہے تا کہ ہم صحیح معنو ں میں سنت پر عمل پیرا ہو سکیں اہل سنت میں ہما ری نسبت خدا کے آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ  کی طرف ہے تو جو لوگ قرآن آگے رکھ کر درس دیتے ہیں اور جھوٹ بو لتے ہیں کہ حنفی نبی کو نہیں ما نتے ان کو یہ نظر نہیں آ تا کہ اہلسنت تو ہے ہی وہی جو نبی پا ک ﷺ  کے طریقہ پر چلتا ہے پھر لوگوں کو دھو کہ دیتے ہیں کہ اگر نبی کے بعد کسی کو ما ننا ہی تھا تو ابو بکر صدیق کو ما ن لیتے ابو حنیفہ کو ضروری ہی مانناتھا ان کو یہ نظرنہیں آتا کہ ہم جب اہل سنت والجماعت بھی ہیں تو سب سے پہلے ابو بکر مانے جاتے ہیں ابو بکر صدیق اس جماعت کے سرادر ہیں ہم نے تو تما م صحا بہ کو ما نا ہے اسی وجہ سے ہم اہل سنت والجماعت کہلو اتے ہیں عجیب با ت ہے کہ جن کی جماعت میں الجماعت کا لفظ نہیں وہ تو صحابہ کو ما ننے والے بن بیٹھے اور جن کا نا م اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتا ان کو کہتے ہیں یہ تو امام ابوحنیفہ کو مانتے ہیں ابو بکر کو نہیں مانتے ۔
ہمار ے نبی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ  آخری نبی ہیں :
کو ئی مو لوی صا حب اگر ۴ گھنٹے بھی تقریر کر ے آ خر میں یہی کہتا ہے باقی پھر سہی کبھی مولوی صاحب کی تقریر پو ر ی نہیں ہو ئی ، یہی حا ل پہلے انبیا ءکرام کا تھا کہ باقی پھر سہی ایک ہی نبی ہیں جو بات کو پوارا کر کے گئے ہیں وہ ہیں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعلا ن فرمادیا الیو م اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الا سلا م دینا ، جس نے بھی انبیا ءکی سیر ت کا معمو لی سا بھی مطا لعہ کیا ہو اس کو آپ کے نبی ﷺ ہو نے میں کو ئی شک نہیں ہو سکتا ، ایک آ دمی ابرا ہیم علیہ السلا م کو نبی ما نتا ہے کہ آپؑ کا معجز ہ تھا آ گ نے آپؑ کو نہیں جلایا واقعةً بڑا معجزة ہے جس سے ابرا ہیم علیہ السلا م کا نبی ہو نا ثا بت ہوتا ہے لیکن حضور ﷺ  کے جسم مبا رک کی بات نہیں کر تے ہم کہتے ہیں کہ جس رو ما ل سے آ پ کا پسینہ مبا ر ک لگا ہے اس پر آ گ نے اثر نہیں کیا مراد حضرت انس کا روٹیوں والا روما ل ہے جسے آ گ میں ڈالااور اجلا ہوکر نکلا اسی طرح ایک ہے آ گ کا اثر نہ کر نا اور ایک ہے الٹا اثر کر نایہ بڑ امعجز ہ ہے اگر آ پ دیگچی میں پا نی ڈال کر آ گ پر رکھیں گے تو تھوڑی دیر بعد پا نی کم ہوجائےگا لیکن اگر حضور ﷺ  حضرت جا بر ؓ کی ہا نڈ ی میں لعا ب مبا رک ڈالیں تو سالن بڑ ھنا شروع ہو جاتا ہے ایک دو کا کھا نا ہز اروں کھا تے ہیں اگر مو سی علیہ والسلا م زمین پر عصا ما رنے سے چشمہ جا ری کرتے ہیں تو حضور ﷺ  نے آ سما نوں پر چا ندکے ٹکڑ ے کر دئےے اگر سور ج کو ٹکڑ ے کرتے وہ بھی کرسکتے تھے لیکن پھر سا ئنسدا نو ں کی زبا نیں نہ رکتی وہ کہتے ہیں کہ یہ گرم کرہ ہے گرم چیز پھٹ ہی جا تی ہے جیسے بلب ٹیو ب پٹا خہ ما رجا ئیں اسی طرح یہ بھی ہو گیا لیکن چا ند تو کرہ ماءہے یعنی پا نی کا کر ہ ہے پانی کی اصل میں ملنا ہے نہ پھٹنا اس کو ٹکڑ ے کر نا بڑا معجز ہ ہے عیسیٰؑ اگر اندھے کی آ نکھیں ٹھیک کر دیں جبکہ اس کے سا رے کنکشن ملے ہو ئے ہیں یہ بھی معجز ہے لیکن اس سے بڑا معجز ہ یہ ہے کہ حضرت قتا دةؓ کی آ نکھ جو با ہر نکل کر گر گئی سا ر ے کنکشن ٹوٹ گئے اسے جو ڑ دینا اور اس کی خو بصورتی میں کمی نہ آ نے دینا یہ بڑا معجز ہ ہے میدا ن احد کا واقعہ ہے جس وقت حضور ﷺ  کی حفاظت کر تے ہو ئے کنپٹی پر تیر لگا اور آ نکھ نکل گئی تھی ۔
تو اہل سنت میں ہماری نسبت نبی ﷺ  کی طر ف ہے جن کے ذ ریعہ دین کو تکمیل نصیب ہو ئی والجماعت میں ہماری نسبت صحا بہ کرا م کی طر ف ہے جن سے دین کو تمکین حاصل ہو ئی لیمکنن لہم دینہم الذ ی ارتضی لہم اللہ کا دین دنیا میں مضبو طی سے جم گیا عجیب بات تھی کہ اللہ کا دین اللہ کی زمین ہے لیکن اللہ کے پیغمبر کو زمین پر چار انچ جگہ نہیں ملتی جہاں وہ اپنے رب کے سا منے سجد کرے کا فر مارتے ہیں پتھرو ں کی پو جا جا ئز ہے لیکن خد اکے نبی کو خد اکی زمین پر خد اکے سا منے پیشا نی رکھنے کی اجا ز ت نہیں ہے بالآخر ہجر ت کر نا پڑ ی وہا ں ایک دشمن تھا یہاں تین دشمن ہو گئے کیونکہ ابھی تک تمکین حاصل نہیں ہو یہودی مستقل دشمن منافق مستقل دشمن اور مکہ والے بھی پیچھا نہیں چھوڑ تے صحا بہ کہ کہتے ہیں کہ ہم سو چتے تھے کہ مدینہ میں چین ہوگا لیکن ہم اور پریشا ن کہ حضورﷺ  کو کوئی نقصا ن نہ پہنچے رات کو بستروں پر لیٹتے تو خیا ل آتاکہ یہاں بھی لیٹنا ہے کیو ں نہ جا کر حضور ﷺ  کا پہرہ دیں تو آ کر حضورﷺ  کے دروازے سے دو ربیٹھتے تا کہ وہاں باتیں کر تے رہیں نیند نہ آئے اور حضور ﷺ  تک با توں کی آ واز نہ پہنچے تا کہ آپ کی نیند میں خلل نہ ہو ، ایک دن ہم آپس میں باتیں کررہے ہیں کہ اللہ کادین سچا ہے لیکن اسے ابھی مکا ن حا صل نہیں ہو امکہ سے یہاں آ ئے یہاں سے پتہ نہیں کہا ں جانا پڑ ے ہم یہ باتیں کررہے تھے کہ حضور ﷺ  گھر سے نکلے آد ھی رات کا وقت تھا فرمایا جا سارے اپنے اپنے گھر وں میں جا کر سو جاؤ ۔
واللہ یعصمک من الناس
اللہ نے وعدہ فرمایا کہ آپ کی حفاظت کروں گا لوگوں سے اب تمہا رے پہر ے کی ضرورت نہیں ہے جا جا کر آ رام فرما  ساتھ فرمایا کہ اللہ نے خو شخبر ی بھی بھیجی ہے
لیظھر ہ علی الدین کلہ ۔
یہ دین سا ری دنیا میں پھیلے گا ہر جگہ پہنچ کر رہے گا سا رے دینوں پر غا لب آجائے گا گو یا کہ دین کو دنیا میں تمکین حا صل ہو گی خو شی خو شی صحا بہ گھرو ں کو لوٹے اور صبح کو جو صحا بہ وہا ں نہیں تھے ان کو مبا رک با ددے رہے ہیں منا فق دیکھ کر ہنس رہے ہیں کہ دیکھو ان کو اپنے نبی پر کتنا یقین ہے ان کے پاس کھا نے کو کچھ نہیں انصا ر کھا نے کو دیتے ہیں اور اپنے پاس مکا ن نہیں لیکن یقین دیکھو ان کو یہ معلو م نہیں کہ آ ج ان کو یہاں سے نکا ل دیا جائے کل نکا ل دیا جائے ہر وقت دشمن ان کی گھا ت میں ہے لیکن اللہ کے نبی کی یہ پیشین گو ئی پو ری ہو چکی ہے ایسی پو ری ہو ئی کہ مسلما ن تو کجا کا فر بھی انکار نہیں کر سکتا ابھی صبح بستر پر انگڑائیا ں لے رہا ہوتا ہے کہ سب سے پہلے اللہ کی تو حید کا نوں میں سنا ئی دیتی ہے نبی کی رسالت کی آواز آتی ہے کو ئی کا فر بھی اپنے کا نو ں کو اس آواز سے بچا نہیں سکتا اب اس کے انکار کی کو ئی گنجائش باقی نہیں رہی یہ ہے دین کی تمکین تو الجماعت یعنی صحابہ کر ام ؓ کے ذریعے دین کو جما نصیب ہوا چنانچہ خلفاءراشدین کے زمانہ میں دین کو مکمل تمکین حاصل ہو چکی لہذا نبی ﷺ  کے ذریعے دین کی تکمیل ہوئی صحابہ ؓ کے ذریعہ دین کو تمکین حاصل ہوئی اور اب ہم حنفی بھی ہیں تو امام صاحب سے دین کو تدوین حاصل ہوئی ۔
تدوین دین :
صحابہ کر ام ؓ وضو کر تے تھے، نمازپڑھتے تھے لیکن آسان ترتیب سے لکھی ہوئی پوری نماز ہو ایک ایک فرض الگ الگ سمجھا دیا گیا ہو، ایک ایک واجب ایک ایک سنت الگ الگ لکھی جا چکی ہویہ تدوین نہیں ہوئی تھی کیونکہ صحابہ کر ام ؓ کی زندگیوں کا اکثر حصہ میدان جہاد میں گزار،ا قرآن پاک تو انہوں نے جمع کر لیا لیکن قوانین سنت وقوانین فقہ جمع نہیں کیے البتہ انکا متواتر عمل تھا ہر روز پانچ مرتبہ نماز بھی پڑھتے تھے جب سید نا امام اعظم ابو حنفیہ ؒ نے علم حاصل کر لیا تو پختہ ارادہ کر لیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون بندہ کا مقصد ہی بندگی ہے لہذا اب میں دن بھر روزہ رکھوں گا اور رات کو نوافل پڑھوں گا اس مقصد کے لئے ایک حجرہ کا انتخاب بھی ہوگیا چنانچہ آپ نے دن کو روزہ رکھا رات کو کچھ نو افل ادا کیے چونکہ ابھی پہلی رات تھی جاگنے کی عادت نہیں تھی نیند آگئی اور سوگئے تو خواب میں حضورﷺ  کی زیارت ہوئی آپ ﷺ  نے فرمایا اے ابو حنیفہ ؒ میری امت میں ہزاروں لوگ روزے رکھ رہے ہیں ہزاروں نوافل پڑھ رہے ہیں ایک اہم کام ہے کہ میری سنت کی تدوین ہوجائے تا کہ قیامت تک آنے والوں کو میری سنت پر عمل کر نا آسان ہو جائے یہ کام ہے کر نیکا امام صاحب فرماتے ہیں کہ میری خوشی سے آنکھ کھل گئی وضو کیا اور نوافل پڑھے لیکن دن بھر یہ سوچتارہا کہ میرے سامنے کو ئی نمونہ ہوتا وضو پر بھی کو ئی رسالہ ہوتاتو اسے سامنے رکھ لیتا کہ یہ ترتیب ہو نی چاہئے۔
سارا دن اسی سوچ وبچار میں گزرا اگلی رات پھر کچھ نو افل پڑھے پھر نیند آگئی پھر سوگیا پھر خواب دیکھتا ہوں کہ میں حج پر گیا ہوں پھر مدینہ شریف پہنچ کر حضور ﷺ  کے روضہ پر حاضری دی کیا دیکھتا ہوں کہ روضہ پاک کے چاروں طرف لوگ بیٹھے صلوٰة وسلام عرض کر رہے ہیں کو ئی کھڑا ہے کو ئی بیٹھا ہے میں بھی صلوٰة وسلام عرض کر تا رہا اچانک دیکھتا ہوں کہ روضہ پاک کھل گیا باقی سارے باہر کھڑے ہیں میں اند ر چلا گیا اور حضرت پاک کے جسم کی ہڈیاں بکھری پڑی ہیں کو ئی وہاں کو ئی وہاں میں ان کو اٹھا کر جوڑ تارہاہوں کہ یہ یہاں ہونی چاہئے یہ یہاں آپ کی خاک مبارک کو میں نے پھونک ماری وہ دور اڑتی ہوئی چلی گئی پہلی رات خوشی سے آنکھ کھلی تھی اب چیخ ماری اور آنکھ کھل گئی اب بڑے پریشان کہ یااللہ میرے اوپر کون سابڑا امتحان آنے والا ہے چنانچہ ابن سیرین کے پاس آدمی بھیجا کہ خواب بتلانا لیکن میرا نام نہ بتلانا تعبیر پوچھ کرکے آؤ کو ئی صدقہ خیرات کر یں اور تو بہ واستغفار کر یں وہ آدمی گیا اور ابن سیرین کو خواب سنا یا ۔
خواب کی تعبیر عن ابن سیرین ؒ :
ابن سیرین ؒ نے دوتین دفعہ اس آدمی کی طرف غور سے دیکھافرمایا تیرا چہرا تو نظر نہیں آتا کہ تویہ خواب دیکھ لے اس نے کہا کہ میرا خواب تو نہیں ہے آپ نے پوچھا کہاں سے آیا ہے اس نے کہا کہ کوفہ سے تو آپ نے فرمایا علم غیب تو اللہ ہی کو معلوم ہے لیکن میں اپنی فراست سے کہتا ہوں کہ یہ خواب کو فہ میں ابو حنیفہ ؒ کے علاوہ کسی کو نہیں آسکتا اس نے کہا حضرت اس کی تعبیر کیا ہے آپ نے فرمایا اس کی تعبیر یہی ہے کہ حضرت پاک ﷺ  کا جسم تو ویسے ہی الان کماکان معطر ہے یہ جو آپ کو بکھرا نظر آیا یہ آپ کی سنت بکھری ہوئی ہے تو جس شخص نے یہ خواب دیکھا ہے وہ آپ کی سنت کو ترتیب دے گا تو جس طرح جسم میں ساری چیزیں آجاتی ہیں اس طرح اس میں سارے فرض سنن مستحبات جمع ہوجائیں گے جس شخص نے یہ خواب دیکھا ہے اللہ اس سے تدوین سنت کا کا م لیں گے اور جو آپ کی خاک مبارک کو پھونک ماری ہے اس کی تعبیر یہ ہے کہ یہ سنت دنیا کے کو نے کو نے تک پہنچے گی ۔
ابن سیرین اس فن کے امام تھے چنانچہ ایک آدمی آیا اس نے کہا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں انڈہ توڑ کر اس کے اندر جو باریک سی جھلی ہوتی ہے اسے اتار کر جارہاہوں حضرت نے فرمایا تیرا خواب ہے اس نے کہا جی تو نے دیکھا ہے جی ،فرمایا شاگردوں کو اس کی پٹائی کرو چنانچہ اس کی مرمت شروع ہوگئی کہنے لگا حضرت کیا بات ہے فرمایا تو کفن چور ہے وہ واقعی کفن چور تھا ۔
ایک اور آدمی آیا اس نے آکر کہا کہ میں نے خواب دیکھاہے کہ میری دیوار پر مرغ کھڑا ہو کر آذان دے رہا ہے تو آپ نے فرمایا تجھے اس سال حج نصیب ہوگا ۔
ابھی یہ بیٹھا تھا کہ ایک اور آ دمی آیا اس نے کہا میں نے خواب دیکھا ہے کہ ایک مرغ میری دیوار پر پھر رہاہے فرمایا تیری چوری ہوئی ہے اس نے کہا ہاں فرمایا موذن چور ہے چنانچہ اس سے چوری مل گئی ۔
تیسرے نے کہا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ مرغ میری دیوار پر پھر رہا ہے کبھی ادھر اذان دیتا ہے اور کبھی ادھر اذان دیتاہے فرمایا اسے پکڑلو یہ خود چو ر ہے وہ چور نکلا۔
ایک آدمی بڑا پریشان حال آیا کہ حضرت میں خواب دیکھتا ہوں بڑی پریشانی ہے کئی دفعہ دیکھ چکا ہوں کہ مرد اور عورتیں بالکل ننگے لیٹے ہوئے ہیں اور میں ان کے منہ پر اور شرمگاہوں پر کوڑے لگا رہاہوں فرمایا تو موذن ہے کہا جی ہاں فرمایا تو وقت سے پہلے اذان دے دیتا ہے زبیدہ کو خواب آیا بڑی نیک عورت تھی خواب میں دیکھتی ہے کہ وہ بالکل ننگی لیٹی ہوئی ہے کوئی انسان گزرتا ہے وہ بدکاری کر تا ہے کوئی جانور گزرتا ہے وہ بدکاری کر تا ہے کو ئی پرندہ آتا ہے وہ بدکاری کرتا ہے بہت پریشان ہوئی لونڈی کو بھیجا ابن سیرین کے پاس کہ میرا نام نہ لیناتوتعبیر پوچھ کر آؤ یہ بیچاری بیٹھی رورہی ہے جب خواب سنا فرمایا یہ تیر ا خواب تو نہیں ہے یہ تو زبیدہ کا خواب ہے اس کی تعبیر کیا ہے فرمایا کہ وہ دنیا میں ایسام کام کر جائے گی جس سے انسان بھی حیوان پرندے بھی فائدہ اٹھائیں گے چنانچہ اس نے نہر زبیدہ کھدوائی جس سے حاجی بھی پانی پیتے تھے جانور بھی پرندے بھی ۔
بہر حال امام صاحب کا حوصلہ بڑھا کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے تدوین کی خدمت لیں گے ۔
چنانچہ:
آپ نے پہلے چالیس مجتہد ین کی جماعت تیار کی پھر ان کے ساتھ بیٹھ کر دین کی تدوین کی اور الحمد للہ پیدائش سے لے کر موت تک زندگی کا کو ئی فرض نہیں واجب نہیں سنت ومستحب نہیں بلکہ مباح بھی ضائع نہیں ہونے دیا ۔ایک ایک چیز آج محفوظ ہے تو امام صاحب ؒکوسے دین کی تدوین حاصل ہو ئی اسی وجہ سے ہم اہلسنت والجماعت حنفی ہیں یہ ہماری متصل سندبھی ہے اہلسنت میں نسبت نبی کے ساتھ جن سے دین کی تکمیل ہوئی والجماعت میں نسبت صحابہ کی طرف جن سے تمکین دین ہوا اور حنفی میں نسبت امام اعظم ؒ کی طرف جن سے دین کی تدوین ہوئی ۔
امام ابو حنیفہ ؒ تابعی ہیں :
امام صاحبؒ نے صحابہ ؓ کا زمانہ پا یا ہے صحابہ ؓ کا دور ۰ ۲ ۱ھ تک ہے صحیح بخاری ص۲ ۶ ۳ج۱،کا پہلا حاشیہ وہاں خیرالقرون کی حدیث ہے وہاں پر ابن حجر ؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ صحابہؓ کا دور ۰ ۲ ۱ھ تک تابعین کا ۰ ۷ اھ تک اور تبع تابعین کا ۰ ۲ ۲ھ تک یہ زمانہ خیرالقرون کا ہے تو آپ بھی خیرالقرون میں ہوئے اور آپ نے خیرالقرون میں دین کی تدوین فرمائی تو سچاسنی بننے کے لئے صحابہ کو ماننا ضروری ہے امام صاحب ؒ صحابہؓ سے ملے ہیں امام صاحب ؒکی تاریخ پیدائش میں اختلاف ہے کیونکہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے معلوم نہیں ہوتا یہ بڑا ہو کر کیا بنے گا اس وجہ سے تاریخ پیدائش کا اہتمام نہیں کیا جاتا ایک قول یہ ہے کہ امام صاحب ؒ کی پیدائش ۱ ۶ھ ہے اگر تاریخ پیدا ئش ۱ ۶ھ مانی جائے تو امام صاحب ؒ نے ۹۵سال زمانہ پایا ہے صحابہ کر ام ؓکا دوسرا قول یہ ہے ۰ ۷ھ میں پیدائش ہے آپ کی اس قول کے مطابق ۰ ۵سال صحابہ کا زمانہ پایا ہے اور تیسرا قول ۰ ۸ھ کا ہے یہ زیادہ مشہور ہے یہ اس لئے کہ تاریخ کی کتابیں زیادہ شوافع نے لکھی ہیں انہوں نے اسی قول کو زیادہ لیاہے کہ ہمارے اماموں نے تو زمانہ نہیں پایا چلو یہاں کچھ کمی تو ہواس لحاظ سے ۰ ۴سال زمانہ پایا اصول کے مطابق زیادہ ۰ ۴والا معتبر ہونا چاہئے لیکن اگر اسی (۰ ۸) والا قول بھی مانا جائے پھر بھی امام صاحب نے ۰ ۴سا ل صحابہ کا زمانہ پایا ہے ۔
احناف کی متصل سند:
حضرت بابا فریدالدین گنج شکر ؒ پاکپتن شریف والے ان کے ملفوظا ت کی کتاب ہے راحت القلوب اس میں لکھا ہوا ہے کہ حضرت بابا فریدالدین گنج شکر ؒنے چند مریدین سے جو پاس بیٹھے ہوئے تھے ان میں سے ہر ایک سے باپ داد ا کا نام پوچھا آپ نے فرمایا جس طرح تمہیں اپنے نسب کی سند یا د ہے اپنے دین کی سند بھی یا د کر لو مریدین نے عرض کیا کہ یا د کر و ادو آپ نے فرمایا کہ امام اعظم ابو حنیفہ ؒ شاگرد ہیں حضرت انس بن مالکؓ کے اور حضرت انس بن مالک ؓ شاگرد ہیں حضور ﷺ  کے امام ابو حنیفہ ؒ خود سند کے ساتھ مناقب صیمری میں فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک ؓ کو دیکھا رایت انس بن مالک یصلی چنانچہ نماز کے بعد میں نے آپ ؓ سے سجدہ سہوکا مسئلہ پو چھا آپ کی داڑھی مبارک کو مہند ی لگی ہوئی تھی آ پ نے فرمایا کہ ایک طرف سلام پھیر کر تشہد کے بعد دوسجد ے کئے جائیں پھر تشہد پڑھ کر سلام پھیر ا جائے وہی طریقہ بتلایا جو حضرت حماد ؓ نے بتلایا تھا۔
فضائل امام ابو حنیفہؒ ؒ:
مریدین نے عرض کیا کہ حضرت پھر آپ امام صاحب کے کچھ فضائل بھی بیان فرمادیں تو حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒ نے فرمایا فن والا فن کو جانتا ہے وہی تعریف کر سکتا ہے کہاں فرید اور کہاں امام اعظم ابو حنیفہ ؒ ڈاکٹر کی تعریف ڈاکٹر ہی کر سکتا ہے میں اور کچھ نہیں صرف اتنا جانتا ہوں کہ جب امام صاحب ؒ کے چھوٹے شاگردامام محمد ؒ گھوڑے پر سوا ر ہوکر جاتے تھے تو امام شافعی ؒ رکا ب پکڑ کر ساتھ بھاگتے تھے مجتہد ہی مجتہد کے بارے میں رائے دے سکتا ہے امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ قیامت تک آنے والے فقہاءامام صاحب ؒ کی عیال ہیں جب تک امام صاحب ؒ کو ابو نہیں مانو گے توفقہ حاصل نہیں کر سکتے ۔
حنفی نماز کی تصدیق صحابہؓ نے کی :
اگر امام صاحب ؒ نے سات سال کی عمر میں بھی نماز پڑھنی شروع کی ہو پھر بھی ۳۳سال صحابہ کر ام ؓ کے سامنے امام صاحب نے نماز پڑھی صحابہ کونماز پڑھتے ہوئے امام صاحب نے دیکھا اور صحابہ نے امام صاحب کو دیکھا اگر امام صاحب کی نماز صحیح نہ ہوتی تو صحابہ کر ام درست کر واتے آج چودہ سوسال کے بعد اگر بچہ غلط نماز پڑھتا ہے تو مسلمان ٹھیک کر واتا ہے اگر وہ بچہ سرپر ہاتھ باندھے تو ٹھیک کر واتے ہیں اگر امام صاحب کی نماز غلط ہوتی تو کیا صحابہ کر ام ؓ ،تابعین ٹھیک نہ کر واتے وہ سنت پر زیادہ عمل کر نے والے تھے یا آج چودہ سو سال بعد والے صحابہ کر ام ؓ امام صاحب کے استادہیں تابعین ساتھی ہیں اور تبع تابعین شاگرد ہیں ۔امام صاحب نے۵۵ پچپن حج کئے ہیں ہر سال حج پر جاتے تھے کیا وہاں پر جاکر نماز نہیں پڑھتے تھے اگر آج کل کو ئی ایک حج کر لے نماز ی بن جاتا ہے اگر یہاں نہ پڑھے وہاں ضرور پڑھتا ہے اگر امام صاحب کی نماز غلط ہوتی تو مکہ والے بتلاتے یہ ٹھیک نہیں ہے بلکہ مکہ والوں نے امام صاحب کی نماز کی تعریف کی ہے وہ کہتے ہیں ماراینااحسن من صلوٰة ابی حنیفةؒ حافظ ابن حجر شافعی ؒ نقل کر رہے ہیں اس عبارت کو اور حقیقت بھی یہی ہے کہ جتنا خشوع وخضوع حنفیوں کی نماز میں ہے کسی اور نماز میں نہیں ہے جیسا کہ کثیر کا واضح مفہوم احناف نے بیان کیا ہے باقیوںمیں نہیں ہے مشاہد ہ سے معلوم کیا جاسکتا ہے حضرت مولانا محمد امین صاحب فرماتے ہیں کہ یہ بات میں نے ایک دفعہ گجرانوالہ میں کہی ایک غیر مقلد نے کہا کہ ہماری نماز کی تصدیق بھی ہوئی ہے حکیم صادق نے صلوٰة الرسول کتاب لکھی ہے اس کی تصدیق جنگ اخبارنے کی ہے اور نوائے وقت نے اور قادیانیون کے شہاب رسالہ نے کی ہے میں نے کہا کہ جنہوں نے ہماری تصدیق کی ہے ان کی تصدیق عرش والے نے کی ہے رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ اور تم بھی قرآن کی کوئی آیت پڑھوجس میں عرش والے نے جنگ اخبار کی تصدیق کی ہونوائے وقت کی کی ہو اگر یہ ماننے پر آئیں تو قادیانیوں کے شہاب رسالہ کی تصدیق کومان لیتے ہیں نہ مانیں تو صحابہ کی تصدیق نہیں مانتے ۔
واقعہ :
ایک دفعہ مولانا محمد علی جالندھر یؒ شیخوپورہ میں ختم نبوت کے موضوع پر تقریر کر رہے تھے دوران تقریرایک غیر مقلد کھڑا ہوا کہ حضرت عائشہؓ کی حدیث میں آٹھ رکعات تراویح کا بیان ہے حضرت نے فرمایا کہ بیٹھ جا تقریر ختم نبوت پر ہورہی ہے یہ دوسرے سوال کر رہا ہے تھوڑی دیر بعد جب پتہ چلا کہ اب سامعین کو بات بھو ل گئی ہوگی فرمایا سنت پر عمل کر نے والی حضرت عائشہؓ بھی تھیں یا یہ غیر مقلد ہیں سامعین نے کہا حضرت عائشہؓ تو آپ نے فرمایا کہ حضرت عائشہؓ کے حجرہ کے ساتھ چھیالیس سال تک بیس رکعات تراویح ہوتی رہیں انہوں نے تو کبھی بھی نہیں کہا کہ ایک روایت میرے پاس تمہارے خلاف ہے جس میں آٹھ رکعات ہیں اگر آٹھ والی روایت سے مراد آٹھ رکعات تراویح ہوتی تو وہ ضرور کہتیں جبکہ انہوں نے یہ کہا نہیں۔ معلوم ہوا اس روایت کا مصداق نماز تراویح نہیں ہم تو امی عائشہؓ کی بات مانتے ہیں نہ کہ تمہاری دوسرا کھڑا ہوگیا کہ کیا حضور ﷺ  حاضر وناظر ہیں تا کہ ہماری جان چھوٹے بریلویوں کے پیچھے پڑجائیں آپ نے اسے بھی بٹھا دیا کہ تقریر ختم نبوت کے موضوع پر ہورہی ہے پھر تھوڑی دیر بعد فرمایا کہ یہ جو سامنے پلاٹ ہے میرا ارادہ ہے کہ یہاں پر آدھے پلاٹ میں مسجد بنالی جائے اور آدھے میں روضہ پاک بنالیا جائے پوچھا کہ شہر میں کتنی مسجد یں ہیں جو اب ملا بہت ساری ہیں فرمایا روضہ پاک بھی ہے کو ئی جواب ملا نہیں آپ نے فرمایا چلو ایک روضہ تو ہونا چاہئے انہوں نے کہا روضہ تو نہیں بن سکتا آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہیں لہذا اس کا گھر ہر جگہ بن سکتا ہے حضور ﷺ  ہر جگہ موجود نہیں ہیں لہذا ان کاروضہ ہر جگہ نہیں بنایا جاسکتا وہ مدینہ میں ہیں انکا روضہ مبارک بھی مدینہ میں ہے ۔
سچاسنی کون ہے :
سچاسنی ہونے کے لئے صحابہ کوماننا ضروری ہے بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہم محمدی ہیں ابو بکر ی نہیں ہم نے حضور ﷺ  کا کلمہ پڑھا ہے ابو بکر ؓ کا نہیں لیکن اہلسنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے وہ سچا محمد ی بن سکتا ہی نہیں جو ابو بکری نہ ہو جو عمر ی نہ ہو جو عثمانی نہ ہو جو علوی نہ ہو جو صحابہ کو نہ مانے وہ عبداللہ ابن ابی جیسا، یزید جیسا ،محمدی تو بن سکتا ہے عبداللہ بن مسعودجیسا امام ابو حنیفہ جیسا محمد ی نہیں بن سکتا تو سچا محمدی بننے کے لئے صحابہ ؓ کو ماننا ضروری ہے تو صحابہ کے ذریعہ سے جس دین کو تمکین حاصل ہوئی اس کے لئے ہمیں ائمہ اربعہ کی ضرورت ہے اس دین کی تدوین امام ابو حنفیہ ؓ نے کی اس کو مزید سمجھنے کے لئے قرآن پاک کی طرف رجو ع کر تے ہیں قرآن پاک نے عجیب انداز اختیار کیا ہے
للفقراءالمھاجر ین (سورة حشر)
امام باقر ؒ ان کا نام محمد تھا محمد بن علی بن حسین بن علی ان کا لقب باقر تھا یہ بہت بڑے عالم بیٹھے تھے عراق کے کچھ شیعہ آئے کہ اگر اپنی تلوار پر سونے کا پانی پھیر لیا جائے تو یہ جا ئز ہے فرمایا جائزہے اس کی دلیل کیاہے ؟فرمایا اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے اپنی تلوار پر سونے کا پانی پھیرا تھا وہ تو عراقی شیعہ تھے ان کو تو آگ لگ گئی کہنے لگے کہ آپ ان کو صدیق کہتے ہیں فرمایا وہ صدیق ہیں ،وہ صدیق ہیں، وہ صدیق ہیں، جو ان کو صدیق نہیں مانتا وہ دنیا میں بھی جھوٹا ہے اور آخرت میں بھی جھوٹا ہے چنانچہ آپ نے قرآن مجید سے سورة حشر کھولی اور یہ آیت پڑھی اور فرمایا تم میں سے کو ئی شخص ایسا ہے جو مہاجرین میں سے ہوجن کے بارے میں یہ آیت ناز ل ہوئی ہے انہوں نے کہا نہیں جی پھر انصاروالی آیت پڑھی والذین تبووا الداروالایمان الایة فرمایا تم میں سے کوئی انصاری بیٹھا ہے جس نے آنے والے صحابہ ؓ کو سنبھالاہو صرف انہوں نے صحابہ جو نہیں بلکہ ایمان کو گھر دیا ہے تم میں سے کو ئی ہے کہنے لگے نہیں نیز اللہ نے فرمایا ان سے محبت رکھنا بھی مستقل نیکی ہے جب تم میں سے کو ئی ایسا نہیں تو دیکھوتم نے خود کہا کہ ان دوآیتوں میں سے کسی میں بھی تم شامل نہیں میں قسم کھا کر کہتاہوں کہ تم تیسری آیت میں بھی داخل نہیں اگلی آیت یہ ہے والذین جاوامن بعد ھم یقولون ربنا اغفرلنا ولاخوانناالذین سبقونا بالایمان الایة کہ دعا کر نی ہے کہ اے اللہ جو پہلے مومن گزرے ہیں ان کے بارے میں دل میں میل نہ آئے ۔
نجات پانے والی تین جماعتیں :
مہاجرین وانصار اور تیسری وہ جماعت جن کا دل ان کے بارے میں میل کچیل سے پاک اور صاف ہو وہ ان پر تبرانہیں بلکہ ان کے لئے دعا ئیں مانگتے ہیں تو یہ تین جماعتیں نجات پانے والی ہیں میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تم تیسری جماعت میں بھی نہیں ہو بلکہ تم چوتھی جماعت میں ہوتو آگے منافقوں کا ذکر ہے لہذ اتم منافق ہوئے اگر کو ئی یہ
سوال : کر ے کہ حضور ﷺ  کے زمانے میں منافق بھی تھے اب کیا معلوم کہ جسے ہم منافق سمجھ رہے ہوں وہ صحابی ہو اور صحابی کو نعوذ باللہ منافق سمجھ لیں ۔امام ابو حنیفہ ؒ ایک دفعہ حج کر نے کے لئے گئے امام مالک ؒ سے ملاقات ہوئی امام مالک ؒ نے کہا من این انت فرمایا من العراق امام امالک ؒ نے کہا العرق ادارالنفاق امام صاحب تھوڑی دیر خاموش رہے پھر فرمایا میں قرآن پاک کی آیت سناناچاہتا ہوں آپ سن لیں اگر کوئی غلطی ہوتو بتلادینا فرمایا سناسنایا ومن اھل لعراق مردوا علی النفاق فرمایا نہیں ومن اھل المدینة جب دوبارہ پڑھا ومن اھل العراق تو امام مالک ؒ سمجھ گئے کہ میری بات کا جواب ہو رہا ہے کہ قرآن نے اہل مدینہ کو منافق کہا اہل عراق کو منافق نہیں کہا امام مالک ؒ امام ابو حنیفہ ؒ کے استدلال پر بڑے حیران ہوئے۔
جو اب :
یہ ہے کہ یہ علیٰحدہ گروپ تھا سورة حشر اور سورة توبہ کی ترتیب سے پتہ چلتا ہے کہ یہ علیٰحدہ تھے کو ئی مہاجر کوئی انصاری منافق نہیں تھا متبعین بالاحسان میں کو ئی منافق نہیں تھا یہ الگ ٹولہ تھا یہی وہ جماعت ہے جو ہمارے نام میں شامل ہے یعنی صحابہ کرام ؓ کی جماعت۔
صحابی کی شان :
بعض صحابی ایسے بھی گزرے ہیں کہ نما ز پڑھنے کا موقع بھی نہیں ملا لیکن پھر بھی صحابی ہیں جیسے حجة الوداع کے موقع پر ایک آدمی اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور پو چھا کہ محمد ﷺ  کون ہیں صحابہ ؓ نے بتلایا اس نے آپ سے پوچھا کہ آپ اللہ کے پیغمبر ہیں آپ نے فرمایا ہاں وہ مسلمان ہوگیا اور پیچھے ہٹا اس کی اونٹنی کا پاؤں گھڑے میں اٹکا گرا اور مرگیا حضور ﷺ  جلدی سے اس کے پاس آئے اسے دیکھا پھر دوسری طرف منہ کر لیا صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ  آپ نے ایسا کیوں کیا فرمایا اس کی بیویاں حوریں اس کے منہ میں سیب نچوڑ رہی ہیں جبرائیل امینؑ نے بتلا یا ہے کہ اس نے نذر مانی ہوئی تھی کہ جب تک حضورﷺ  کی زیارت نہیں کروں گا کچھ کھاں پیوں گا نہیں تین دن سے بھوکا تھا صحابی کے لئے بالاحسان کی شرط نہیں لیکن تابعی کے لئے بالاحسان کی شرط ہے لہذا یزیدکو تابعی نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ شرط اس میں مفقود ہے ۔

ھو الذی بعث فی الامیین رسولامنھم:

رسول تو کل تین سو تیرہ ہیں لیکن یہاں بالاتفاق مر اد حضورﷺ  ہیں کیو نکہ آیافی الامیین یعنی ام القر یٰ میں آیا کہ میں مکہ میں صرف ایک ہی نبی آیا لہذا جب بھی نبی امی کہا جائے گا تو اس سے مرا د حضور ﷺ  ہو ں گے اسی آیت میں صحا بہ کا ذکر بھی آگیا ویز کیہم ان کو پاک کیا کفروا لے کفر سے پا ک ہو گئے شر ک والے شر ک سے پا ک ہو گئے یہ والجماعت ہو گئے۔
فضیلت فقہ حنفی قرآن سے ثا بت ہے :
آ خر ین منہم لما یلحقو ابھم (سو رة جمعہ )
اس میں حنفیت کا ذکر امیین سے مراد تو عرب ہیں”آخر ین سے مرا د بہر حا ل عجم ہوگا کیو نکہ اس کے مقا بلے میں لفظ ہے معلو م ہوا کہ ایسے شخص کی پیشین گو ئی ہے جو اہل عجم میں سے ہوگاا س سے بھی دین کی خد مت لیں گے لما یلحقوا بھم اس سے معلو م ہوتا ہے کہ ابھی تک آیا نہیں لیکن صحا بہ سے ملے گا ضرور ، اب دیکھئے اللہ کے نبی کے دین کی تد وین چا ر اماموں نے کی ہے امام ابو حنیفہؒ ، امام ما لکؒ ، اما م شا فعیؒ ، اور امام احمد بن حنبل ؒ بھی عربی تھے عر ب کے شیبا نی قبیلہ سے ہیں لہذا یہ آخر ین میں شا مل نہیں کیا جا سکتا امام شا فعی ہیں یہ عر ب کے مطلبی قبیلہ سے ہیں ان کو بھی آ خر ین میں شا مل نہیں کیا جا سکتا ، امام ما لک یہ عرب کے اصبحی قبیلہ سے ہے ان کو بھی آخرین میں شامل نہیں کیا جا سکتا ۔ایک ہی امام ابو حنیفہ ہیں جو اہل فا رس میں سے ہیں اہل عجم میں سے ہیں اتنی بات تو قرآن سے معلو م ہو گئی وہ عجمی ہو گا بخا ری شر یف میں سور ة جمعہ کی تفسیر میں مذ کور ہے کہ حضور ﷺ  نے حضرت سلمان فارسی کے کند ھے پر ہا تھ رکھا اور فرمایا کہ لو کا ن الدین عند الثر یا لنا ولہ رجل من اہوءلاءفارس او کما قال پہلے دین فر قہ فر قہ ہو کر ختم ہو جا تے ہیں کوئی بھی صحیح نہ رہتا پھر نئے نبی کی ضرورت پڑ تی لیکن اس دین کے سا تھ ایسا نہیں ہو گا اگر دین اٹھ کر ثر یا ستا رہ تک بھی پہنچ جا ئے ایک آ د می آ ئے گا جو وہاں سے بھی لے آئے گا یہاں حدیث میں تناول کا لفظ آیا ہے تناول اس وقت بو لا جا تا ہے جب کھا نا ممکن طور پر تیا ر ہو صرف کھا نا با قی ہو تو وہ آ دمی بھی اتنی تشر یح کر دے گا ہر چیز پر صرف عمل کر نا با قی ہو گا کسی تحقیق کی ضرورت نہیں رہے گی تو یہاں دین کا لفظ آ یا ہے بعض میں ایما ن کا لفظ آ یا ہے دین کہتے ہیں جو پیدا ئش سے لیکر مرنے تک کے لیے ہو ایما ن عقا ئد کو کہتے ہیں سب سے پہلے عقا ئد پر کتا ب امام ابو حنفیہ ؒ نے لکھی ہے اس وقت ایما ن کی حقیقت پر بھی لڑ ا ئی جھگڑ ے ہو رہے تھے امام صا حب نے اس لڑ ا ئی کو ختم کیا ایما ن کی جامع ما نع تعریف کی ایما ن کا مل اورا یما ن نا قص یعنی تصدیق تو ہو اعما ل نہ ہوں مو من کا مل مو من فا سق یہ امام صا حب کا کما ل تھا ۔
بھٹو دور میں گر فتا ری کی کہا نی ....خو د ان کی زبا نی :
حضرت مو لا نا محمد امین صاحب اوکا ڑ وی رحمة اللہ علیہ فر ما تے ہیں کہ جس دن میری گر فتا ری ہو ئی اسی دن ۵ ۲ مو دودی بھی گر فتار ہوئے جب سا ہیوا ل جیل میں پہنچے تو ہماری بیر میں سا رے وکیل ہی تھے سا رے پڑ ھے لکھے تھے تو میں فجر کے بعد قرآن مجید کا درس دیتا ظہر کے بعد حدیث کا اور عصرکے بعد والی بال کھیلتے تھے مغر ب کے بعد فقہ کا درس دیتا ، عشاءکے بعد تصوف کا پھر کچھ ذکر اذکا ر ہو تا اور سو جا تے ، ایک دن مودودیوں کے امیر نے کہا کہ مولوی صاحب ہماری جماعت اوکاڑا کا جنرل سیکرٹر ی یہ شیعہ ہے ذاکر حسین اس کا نا م ہے بڑا نیک آدمی ہے ضد ی نہیں ہم نے آپ کے در س سنے ہیں امید ہے کہ اگر آپ اسے سمجھا ئیں تو یہ سمجھ جائےگا بز ر گو ں کی صحبت کا اثر ضرور ہو تا ہے میں نے کہا کہ جو مودودیوں کودوست بنا لے اسے کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہو تی یہ دو ست بن کر ایسی دشمنی کر تے ہیں کہ بڑ سے بڑا دشمن بھی ایسا نہیں کر تا اب مجھے یہ مشور ہ دے رہے ہیں با ہر جا کر پر وپیگنڈہ کر یں گے کہ مو لو ی اند ر جا کر بھی لڑ ائی کروا تا ہے کہا یہاں منا سب نہیں ہے اگر ضرور ی ہے تو ہم رات کو جب سارے سو جا ئیں گے چھ سات آ دمی بیٹھ کر بات کر لیں گے چنا نچہ رات کو ایک بجے ہم بیٹھ گئے وہ مجھے کہتا ہے کہ آپ کی تحقیق میں سب سے بڑا اختلاف شیعہ سنی کے در میان کو نسا ہے میں نے کہا کہ تحر یف قرآن کا کہنے لگا جی نہیں امامت کا امامت کا میں نے کہا میری اور آپ کی بات میں تطبیق ہو سکتی ہے اختلاف نہیں ہے اصل اختلاف وہی تھا جو آ پ بتلا رہے ہیں لیکن جب اہلسنت کی جانب سے سوالا ت شروع ہوئے کہ جو اصول دین ہیں وہ قرآن میں اتنی وضا حت کے ساتھ ذکر ہو تے ہیں کہ قرآن کی وہ آیا ت جن میں تو حید کاذکر ہے دو نوں کے ہاں اصو ل دین میں سے ہیں اگرکافر عربی دان کے سامنے رکھ دیں وہ بھی اس سے توحید ہی سمجھے گا اور کچھ نہیں سمجھے گا اسی طرح رسالت والی جو آیات جو کہ اصول دین میں سے ہیں اگر کافر عربی دان کے سامنے رکھ دیں وہ بھی رسا لت ہی سمجھے گا کچھ اور نہیں اسی طرح قیا مت کے متعلق جو آیا ت ہیں ان سے قیا مت ہی سجھے گا اگر امامت کا مسئلہ تو حید ورسالت اور قیامت کی طرح اصول دین کا مسئلہ ہے توآ پ قرآن سے وہ آیا ت پیش کر یں جن میں امامت کا مسئلہ بھی اسی طرح صراحت سے ثا بت ہو یا با رہ امامو ں کا نام بھی ہو تا ہے تاکہ کسی شک وشبہ کی گنجا ئش نہ رہے اب اہلسنت والجماعت کا یہ سوال بڑا معقول تھا اس کے جو اب ہی ہو سکتے تھے یا تو وہ آیات دکھا دیں یا اسے اصو ل دین میں سے نہ ماناجاتا لیکن شیعو ں نے تیسرا راستہ اختیار کیا اور کہا کہ امامت کا مسئلہ تو قرآن میں صرا حةً مذکور تھا تحر یف کر کے ان آ یا ت کو نکا ل دیا گیا اس لئے اب انہوں نے اپنا عقید ہ امامت کو بچا نے کے لیے تحر یف قرآن کا عقیدہ گھڑا ، اب اصل اختلا ف تحر یف پر ہے اگر قرآن محر ف ہو گیا ہے پھر تو امامت پر بحث کی ضرورت ہے کہ شا ید کچھ آیات کہیں سے مل جائیں غا ر سے نکل آ ئیں کسی زما نے میںاس کا انتظا ر کریں علامہ خا لد محمود صاحب نے بڑ اچھی بات کی ہے کہ انہوں نے فرمایا ہم صلح کرنے والے لو گو ں سے لڑا ئی جھگڑا نہیں کرتے جب تک تمہارا امام نہیں آ تا تم غا ئب رہوہم سے لکھوا لو کہ جب وہ آ جائے گا ہم اسے ما ن لیں گے ان شا اللہ چا ہے غا ر سے نکل آ ئے یا کہیں اور سے اس میں لڑ ائی نہیں ہو گی ، لہذا آپ بھی اس وقت تک غا ئب ہو جا ئیں میں تو ہمیشہ صلح کی بات کرتا ہوں اس پر حضرت علا مہ خالد محمو د صاحب نے ایک واقعہ سنا یا جو کہ حا ضر خدمت ہے ملا حظہ ہو ۔
غیر مقلدوں کامنا ظرہ بمقا بلہ قا دیا نی :
مناظر ہ شروع ہوا توشرط میں لکھا گیا تھا کہ قرآن وحدیث کے سو ا کو ئی بات پیش نہیں کی جائے گی عبد اللہ روپڑ ی غیر مقلدوں کی طر ف سے منا ظر تھا جس کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ جنہو ں نے علا مہ انو ر شا ہ کشمیر یؒ کی عربی عبا ر ت کی غلطیا ں نکا لی تھیں وہ منا ظر تھا جب وہ مرزا کی کتا ب اٹھا ئے وہ قا دیا نی منا ظر شور مچا دے یہ کو ئی حدیث کی کتاب ہے ہے رکھ دے اسے وہ رکھ دیتا اسی طرح ہو تے ہو تے دن کے با رہ بج گئے اب انہو ں نے کہا ہم سے تو قا بو نہیں آتے علا مہ خا لد محمو د دیو بند ی کو بلاؤ ۔
غیر مقلدین دیو بندی کے در وازے پر :
علا مہ خا لد محمو د صاحب کے پاس گئے صورت حال بتلا ئی چنا نچہ علا مہ صاحب تشریف لے آ ئے ، اب قا دیا نی منا ظر نے دیکھا کہ اب دیو بندی آ گیا ہے کہنے لگا علا مہ صاحب پہلے شر طیں پڑ ھ لیں شرطیں،فرمایا سنا ، سنا دی گئیں علا مہ صاحب نے مرزا کی کتاب اٹھا ئی قا دیا نی منا ظر کہتا ہے کس کی کتاب اٹھا ئی ہے فرمایا مرزا کی کہنے لگا آپ نے شر طیں نہیں سنی فرمایا سنی ہے ایک مرتبہ پھر سناؤ دوبارہ پھر سنائی کہ قرآن وحدیث کے سوا کو ئی بات نہیں کر نی تو آپ نے فرمایا میں تو سمجھا تھا کہ تو بڑھا لکھا ہے تو تو بڑا جا ہل معلو م ہوتا ہے نبی کی بات کو حدیث کہتے ہیں میں تیر ے نبی کی بات سنا رہا ہو ں تو نے اس کو نبی ماننے سے انکار کر دیا ہے تیرے نبی کی حدیث ہے سن ، جب بات مرزا کی کتاب پر آ جا ئے تو قا دیا نی نہیں چل سکتا ، اب انکا مقصد تھا کہ کو ئی لڑا ئی جھگڑا ہو جائے ہمار ی جا ن چھوٹے ، مناظر ہ غیر مقلد و ں اور قا دیا نیو ں کا تھا مسجد بر یلو یو ں کی تھی اس میںلکھا ہوا تھا کہ یا اللہ یامحمد اس نے کہا علامہ صاحب یہ جو لکھا ہوا ہے یا اللہ یا محمد کیا یہ لکھنا جا ئز ہے علا مہ صاحب نے فرمایا مسلما نوں کے پا س دو ہی تو دولتیں ہیں یا اللہ اور یا محمد اور ہمارے پا س کیا ہے اب اس کا مقصد پورا نہ ہوا کہا علا مہ صاحب یہ عر بی الفا ظ میں آپ نے پنجا بی مطلب بیا ن کر دیا ہے علا مہ صاحب نے فرمایا یہ پنچا ب کی مسجد میں لکھا ہوا کہ پنچا بی میں ہی تر جمہ ہو گا جب عرب کی مسجد میں ہوگا اس وقت دیکھا جائے گا ، اب جنا ب قا دیا نی منا ظر جما ل الدین شمس کتابیں اٹھا کر بھا گ گیا ادھر نماز کا وقت ہو گیا عبد اللہ روپڑ ی پہلے مصلے پر جا بیٹھا جماعت کرو انے کے لیے علا مہ صا حب نے فرما یا کہ جماعت میں کراؤ ں گا اس نے کہا نہیں نہیں میں جماعت کرواؤں گا علا مہ صا حب فر ما تے ہیں کہ میں نے کہا کہ اگر تیری وجہ سے ایک آ دمی کی نماز ٹھیک ہو جائے تو کتنی بڑ ی ثوا ب کی بات ہے دیکھو آ پ آگے کھڑ ے ہو ں گے پیچھے میں کھڑا ہو ں گا میں نے فا تحہ نہیں پڑھنی آ پ کہیں گے تیر ی نماز نہیں ہو ئی اگر میں آ گے ہوا امام بن کر میں بھی پڑ ھو ں گا آپ پیچھے پڑ ھ لیں گے میر ی بھی نماز ہو جائے گی آپ کی بھی تو یہ خیال رکھا کریں جہاں حنفی اور غیر مقلد جمع ہو جا ئیں وہا ں مقلد کو امام بنا یا کریں اس کے پاس اس کا جوا ب نہیں تھاوہ اٹھ کر پیچھے ہو گیا ، اور میں نے جماعت کر وائی اسی طر ایک دفعہ تقریر فرما رہے تھے ، ایک آ د می نے چٹ بھیجی کہ صحا بہ کرا م آپس میں لڑ تے تھے آپ نے فرمایا کو ن کہتا ہے کہ لڑا ئی با قی رہی انہوں نے تو صلح کر لی تھی یہ شیطا ن بیٹھے ہیںجو ابھی بھی لڑ ائی کی با تیں کر تے ہیں حضور ﷺ  کی پیشین گو ئی تھی کہ صلح ہو جائے گی اور صلح ہو بھی گئی تھی لہذا اب صلح کی باتیں کیا کریں لڑ ائی کی باتیں نہ کیا کریں۔
اسی طرح مو لا نا رومؒ لکھتے ہیں کہ ایک کُردی ایر ان پہنچا دس محرم تھی۔ لوگ پیٹ رہے تھے ۔وہ کبھی ادھر دیکھتا ہے کبھی اُدھر دیکھتا ہے کہ یہاں کیا ہوگیا ہے ؟لو گوں نے کہا شایدکہ آپ کو معلوم نہیں کہ امام حسین ؓ شہید ہو گئے ۔اس نے کہا اچھا یہاں آج اطلاع آئی ہے ....
لمایلحقوا بھم عرض کر رہا تھا کہ یہ امام صاحب کی پیشین گوئی کا ذکرہے اگر سوال کر ے کہ یہ تو جمع کا صیغہ ہے حدیث میں کہیں رجل واحد کا صیغہ ہے کہیں رجال جمع کا صیغہ ہے
جو اب : یا د رکھیں جمع کا صیغہ صرف یہیں آسکتا ہے کہیں اور نہیں آسکتا ۔کیونکہ امام مالک ؒ نے فقہ اکیلے بیٹھ کر مرتب کی کو ئی جماعت ساتھ نہیں تھی ۔اما م شافعیؒ نے اکیلے بیٹھ کر مرتب کی ہے اور اسی طرح امام احمد بن حنبل ؒ نے بھی اکیلے بیٹھ کر مر تب کی ہے ایک ہی امام ہے جس نے پہلے شوریٰ بنائی ہے اور اس شوریٰ میں بیٹھ کر فقہ مر تب کی ہے ۔جہاں واحد کا صیغہ آتا ہے وہاں سردار مرا د ہے جہاں جمع کا صیغہ آتا ہے وہا ںسارے مر اد ہیں ۔
وھوالعزیز الحکیم :
اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کا صحابہؓ کا امام صاحب ؒکا ذکر فرمانے کے بعد دوصفتیں بیان فرمائیں عزیز،حکیم کہ اللہ ان کو قیامت تک غالب رکھیں گے ۔نبی کی سنت بھی صحابہ کی عظمت بھی حنفیت بھی غالب رہے گی ۔
ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشآء:
یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتے ہیں دیتے ہیں آمنہ کے لال ﷺ  نے درخواست نہیں دی تھی کہ یااللہ ختم نبو ت کا تاج میرے سر پر رکھ دے صدیق نے درخواست نہیں دی کہ صداقت کا تاج میرے سر پر سجا دے امام صاحب نے درخواست نہیں دی کہ تدوین کا صلہ میرے سرپر سجا دے بلکہ ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشآء واللہ ذوالفضل العظیم :
جس پر فضل عظیم ہو امام کا لقب اسے ہی فٹ آتا ہے۔ جس پر فضل عظیم ہو گا اسے ہی امام اعظم کہا جائے گا۔ چنا نچہ اپنے بھی کہتے ہیں بیگانے بھی کہتے ہیں ۔چنانچہ اہل سنت والجماعت اور حنفیوں کا تذکر ہ آگیا ماقبل میں جو آیات گزریں ان میں پہلے مہاجرین کا ذکر پھر انصار کا پھر متبعین کا تھا چو تھے نمبر پر منافقین کا تھایہاں پر چوتھے نمبر پر گدھو ں کا ذکر ہے- کمثل الحمار یحمل اسفاراً- ترتیب ہے اہل سنت ،پھر والجماعت ،پھر حنفی ،پھر چوتھے نمبر پر گدھے ۔یہ تینوں کا م دین کے تعمیری کا م تھے تکمیل دین تمکین دین تدوین دین ۔عوام کو سمجھانے کے لئے یو ں تعبیر اختیار کیجئے کہ اللہ کے نبی دین کو لانے والے صحابہ کر ام دین کو پھیلا نے والے ائمہ دین اسکو لکھوانے والے یہ تینوں کا م جو تعمیراتی تھے یہ خیرالقرون میں مکمل ہو گئے ۔اب تخریب کا روں کی باری آگئی تو پھر کچھ گدھے بھی ہو گئے جو کتابوں کا بوجھ اٹھا یا کر یں گے الفاظ پر مدار رکھیں گے رجال اللہ پر دین کا مدار نہیں رکھیں گے ترجمہ دیکھ کر کوئی کچھ مطلب بیان کر رہاہے کو ئی کچھ تو پھر گدھے بھی آجائیں گے -ایک مولوی صاحب مجھ سے کہنے لگے کہ قرآن کی تفسیر حدیث سے چا ہئے۔ میں نے کہا کہ صحاح ستہ کی ہر کتاب میں حدیث ہے کہ جو امام سے پہلے رکوع وسجدہ میں چلا جائے خطرہ ہے کہ اس کا سرگدھے جیسا نہ بن جا ئے -  تو امام کی مخالفت کر نے والے کو اللہ کے نبی گدھا فرماتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ ایک اس مسجد کے امام کی مخالفت کر رہے وہ چھوٹا گدھا ہوگا اور ایک پوری دنیا کے امام اعظم کی مخالفت کر تا ہے وہ اتنا ہی بڑا گدھا ہوگا ۔گدھے میں جو اس کا سب سے بڑا وصف ہے وہ ہے ضد غیر مقلدوں میں بھی ضد بہت ہوتی ہے یہ تو اس کیااصلی وصف ہے اور اس کے علاوہ آپ نے دیکھاہوگا کہ اس کی کمر پر دوتین من بوجھ رکھ دیں وہ برداشت کر لیتا ہے لیکن سر پر کپڑا بر اداشت نہیں کر تا وہ ننگے سر رہتا ہے اب کچھ گدھے سنت سے ضد کر یں گے کچھ گدھے صحابہ ؓ سے ضد کر یں گے کچھ گدھے امام اعظم ابو حنیفہ ؒ سے ضدکر یں گے ۔تو ہیں یہ سارے درجہ بدرجہ گدھے یحمل اسفارا ۔جو کتابیں خوب ہوتی ہیں کمر ہ بھرا ہوا ہوتا ہے لیکن تکبیر تحریمہ کا مسئلہ نہیں آتا تو اللہ تعالیٰ نے کیسی اچھی ترتیب رکھی ہے اب ان گدھوں کے علاج کے لئے اللہ تعالیٰ نے علماءدیوبند کو ہمت دی تو نبی پاک سے دین کو تکمیل حاصل ہوئی صحابہ سے تمکین حاصل ہو ئی امام ابو حنیفہ سے دین کو تدوین حاصل ہو ئی
ہم دیوبندی کیوں ہیں ؟
علماءدیوبند سے اللہ تعالیٰ نے تطہیر دین کی خدمت لی جب اس سچے دین میں بدعات اور الحاد ملنے لگا تو ان علماءدیو بند نے قربانیاں دے کر سنت اور دین کے چہرے کو نکھار کر سامنے کر دیا تو انکے ذریعہ دین کو تطہیر دین حاصل ہوئی اس وجہ سے ہم علماءدیوبند سے عقید ت ومحبت رکھتے ہیں جو انکا عقیدہ ہے وہی ہمارا عقیدہ ہے اب ترتیب یوں ہوگی کہ اللہ کے نبی کر یم ﷺ  سے دین کو تکمیل نصیب ہوئی اور صحابہ کر ام ؓ سے تمکین اور ائمہ سے تدوین دین اور علماءدیوبند سے تطہیر دین حاصل ہو ئی -عام فہم ترتیب یو ں ہو گی نبی کر یم ﷺ  دین کو لانے والے صحابہ کر ام ؓ دین کو پھیلانے والے ائمہ دین کو لکھوانے والے اور علماءدیوبند دین کو بچانے والے ہمارے نام کے ایک ایک لفظ کا الگ الگ مقصد ہے ۔
لطیفہ :
مو لانا محمد انو ر صاحب مہتمم جامعہ دارالعلوم کبیر والہ انہوں نے سنایا کہ ایک درزی ہے وہ نماز تو اپنے محلہ کی مسجد میں پڑھتا ہے لیکن جمعة المبارک دارالعلوم میں پڑھتا ہے اس نے کہا کہ ایک اسکول میں عربی ٹیچر ہے وہ مجھ سے کا فی کپڑے سلواتا ہے جتنے میں پیسے مانگوں اس سے دس روپے زیادہ دیتا ہے اب وہ مجھے یہ اشتہار دے گیا ہے وہ کہتا ہے کہ میں اہل حدیث ہوں میں نے اسے کہا کہ تیرا کپڑوں والا کام خراب ہوجائے گا اس نے کہا کہ بے شک ہوجائے تو میں نے کہا کہ جب وہ آئے مجھے بلا لینا جب وہ آیا تو درزی نے لڑکا بھیجا جب مولانا صاحب وہاں پہنچے تو درزی کھڑا ہو کر ملا اور وہ بھی ملا درزی نے کہا یہ حضرت بڑے نیک آدمی ہیں عربی ٹیچر ہیں اور اہل حدیث ہیں ، میں نے حیرا ن ہو کر کہا کہ یہ اہل حدیث ہے ، اہل حدیث ؟اس نے کہا کہ سن کر حیرا ن کیوں ہو گئے ہو میں نے کہ اہل حدیث کا لفظ تو اسلا می کتا بوں میں محد ث کے معنی میں آ تا ہے جس کو حدیث کی سند کاایک ایک راوی یا د ہو اس کی تا ریخ پیدا ئش اور تاریح وفات یاد ہو استاذو ں کے نام یا د ہوں شاگردوں کے نام یا د ہوں اگر آپ بھی وہی اہل حدیث ہیں تو آپ بھی ایک دو حدیثیں سنائیں اور راویوں کے حا لا ت سنائیں کہنے لگا میں وہ اہل حدیث نہیں ہوں میں نے کہااچھا آپ پھر دوسر ے اہل حدیث ہیں اس نے کہا کہ دوسرے کو ن ہو تے ہیں میں نے کہا کہ کچھ لوگ ہو تے ہیں جن کوکپور ے خصیے کھا نے کا شوق ہوتا ہے کیو نکہ حنفی کہتے ہیں کہ یہ نہیں کھا نے چا ہئیں حنفیوں کے نزدیک خصیو ں کا کھا نا مکر وہ تحریمی ہے تو یہ ضد میں آ کر کھا تے ہیں اور کپورا اہل حدیث بن جاتے ہیں ان کی دوپکی نشانیاں ہوتی ہیں کیونکہ کپور ے گر م ہوتے ہیں یہ خو د ٹا نگیں چو ڑ ی کر کے کھڑ ے ہو تے ہیں تا کہ جو پسینہ وغیرہ آ یا ہوا ہے وہ خشک ہو جائے اور دوسری نشا نی یہ ہے کہ جب گر می کا ابالااٹھتا ہے تو سرپر کپڑا نہیں لیتے اور اوپر کپڑا نہیں رکھ سکتے جب خصیوں کی گرمی کا غبارہ اوپر جاتا ہے تو سر برداشت نہیں کر سکتا یہ انکی دو پکی نشا نیا ں ہیں اس لئے وہ محد ث اہل حدیث نہیں ہوتے بلکہ کپور ے اہل حدیث ہو تے ہیں وہ اٹھ کر وہاں سے بھاگا جب جمعہ کو درزی آیا میں نے پو چھا سناؤاب آیا وہ اس نے کہا اب وہ دو با رہ نہیں آیا میں نے کہا اب وہ آ ئے گا بھی نہیں ۔
امام اعظم ابو حنیفہ چرا غ ہد ایت ہیں :
ہما ری متصل سند کو دوسرے طریقے سے سمجھیں اہل سنت میں ہمار ی نسبت آفتاب نبوت کی طرف ہے وہ سراًجا منیراً ہے والجماعت میں نسبت صحا بہ کرا م کی طرف ہے ج جو نجو م ہد ایت ہیں حنفی ہو نے کی نسبت امام اعظم کی طرف ہے جو نجو م تک پہنچے کا ذریعہ ہے جیسا کہ فرمایا لو کا ن الدین عندا لثر یا یعنی جو چرا غ ہد ایت ہے۔ چرا غ کی ضرورت وہا ں ہوتی ہے جہا ں سورج کی رو شنی نہ آرہی ہو جہاں پر سور ج کی رو شنی ہو ں وہاں چرا غ کی ضرورت نہیں ہوتی چو نکہ چرا غ ہر جگہ نہیں جلا یا جا تا بلکہ وہاں جلا یا جا تا ہے جہا ں چراغ کی ضرورت ہو ، اسی اجتہاد کی ضرورت وہا ں ہو تی جہاں قرآن وحدیث کی صراحت نہ ہو چرا غ کا کا م رو شنی کر نا اور صرف چیز کو ظاہر کر ناہوتا ہے جیسے آپ اند ھیر ے میں چرا غ جلا ئیں اور کتا ب دیکھیں تو میں صفحہ پر جتنی سطور ہیں جتنے الفا ظ اور حروف ہو تے ہیں انتے ہر چراغ دکھلا تا ہے ایک نقطہ میں بھی کمی بیشی نہیں کرتا نہ کوئی نقطہ کم کر تا ہے اور نہ ہی بڑ ھا تا ہے اسی طرح مجتہد نہ کوئی مسئلہ دین میں بڑھا تا ہے اور نہ ہی کوئی مسئلہ کم کر تا ہے ہاں دین کے وہ مسا ئل جو بغیر روشنی کے نظر نہیں آ تے وہ دکھلادیتا ہے امام صاحب چرا غ ہدایت ہیں صحا بہ کرا م نجو م ہد ایت ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم آفتا ب ہدا یت میں علماءدیو بند محافظ ہدا یت ہیں ۔
لطیفہ :
ایک آ دمی انگلینڈ چلا گیا کما ئی وغیر ہ کر نے کے لئے ایک دن وہ بازار ہیں ایک طر ف بیٹھ کر رو نے لگ گیا لوگ اس سے پو چھتے ہیں کہ بھا ئی کیا ہواکیوں روتے ہو وہ بتلاتا کچھ نہیں رورہا ہے لوگوں نے کہا کہ اس کے ساتھیوں کو بلا  وہ پو چھیں اس سے ،کہ رو نے کیاوجہ کیا ہے جب سا تھی اس کے پاس آ ئے ایک نے پو چھا کیوں رو رہا ہے اس نے جواب دیا کہ بس تو بھی رو وہ بھی رو نے لگ گیا دوسراآ یا اس نے پو چھا اس سے کہا بس رو وہ بھی لگ گیا ، اسی طرح پا نچ چھ سا تھی رو رہے تھے لوگوں نے پوچھا کہ کیوں رووہے ہو ایک نے کہا یہ رو رہے تھے میں بھی رو نے لگ گیا دو سرے سے پو چھا تو کیو ں روتا ہے اس نے کہا یہ رو رہے تھے میں بھی رو نے لگ گیا آخر کار با ت اسی پر آ گئی اس سے پو چھا بات تو بتلا اس نے کہا بات بتلا نے والی ہو تو بتلا  ں لوگوں نے کہا آخر بات کیا ہے اس نے کہا کہ ہمارے گاؤ ں سے نا ئی خبر لے کر آ یا ہے کہ تیر ی بیوی بیو ہ ہو گئی ہے لوگو ں نے کہا کہ تو یہاں بیٹھا ہو ا ہے تیری بیو ی کیسے ہو گئی اس نے کہا سمجھ تو مجھے بھی یہ با ت نہیں آ ئی لیکن نا ئی ہے بڑا معتبر اس کی بات پر یقین ہے وہ نہا یت ہی معتبر اور سچا ہے ۔
یہی حا ل غیر مقلد ین کا ہے کہ ان کو بات سمجھ میں آ ئے یا نہ آ ئے کہتے ہیں کہ روپڑ سے جو نا ئی ( عبداللہ رو پڑ ی ) آ یا ہے وہ ہے معتبر ۔
حنفیوں کی نماز خشو ع وخضوع والی ہے :
اہل مکہ نے امام اعظم ابو حنیفہ کی نماز نماز دیکھ کر کہمارینا احسن من صلو ة ابی حنیفة رحمہ اللہ ، مو لا نا محمد امین صاحب رحمة اللہ علیہ فر ماتے ہیں کہ میں پہلے صرف یہ چھ کتا بو ں میں پڑ ھتا تھاماراینااحسن من صلو ہ ابی احنیفة ، جب عمرہ پر گیا ، پھر آ نکھو ں سے مشا ہد ہ ہوا کہ جو نماز امام صاحب نے ہمیں دی ہیں اس سے پیاری اور کو ئی نماز نہیں کیونکہ باقیوں کے ہاں عمل کثیر کی کو ئی واضح تعریف نہیں کیونکہ دیکھا ہے کہ نماز شروع کی بٹن کھول رہا ہے پرھ بند کر رہا ہے دوسرے کو دیکھا اللہ اکبرکہا جیب سے مسواک نکالی مسواک شروع کر دی امام نے یہا ں اللہ اکبر کہا جب رکو ع جا نا ہے تو سپیکر دور ہے وہاں جا کر اللہ اکبر پھر یہاں آ کر رکوع میں جاتا ہے تقا بل کے وقت پتہ چلتا ہے کہ کو نسی نماز میں سکو ن زیا دہ ہے حنفیو ں کی نماز سے زیا دہ سکو ن کسی کی نماز میں نہیں۔
غیر مقلدوں کی نماز میں سکون ہوتا :
اللہ اکبر کہیں گے خا رش شروع کر دیں گے جب تک نماز پڑ ھتے رہتے ہیں ان کی خارش ختم نہیں ہوتی نہ نماز سے پہلے ان کو خا رش ہو تی ہے نہ نماز کے بعد ایک مو لوی صاحب فرما رہے تھے کہ اللہ نے ان کو عذا ب دیا ہے کہ ان کی نماز میں خا رش پیدا کردی ہے- غیرمقلدوں کے آ دمی میں محمد اسحق بھٹی صاحب زند ہ ہیں انہوں نے ایک کتا ب لکھی “نقو ش عظمت رفتہ “کے نا م سے اس میں بز رگو ں کے حا لا ت لکھے ہیں اس میں ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ ۔
علما ءدیو بند ادب کمال در جہ کا پایا جاتا ہے :
ایک دفعہ مو لا نا عبیدا للہ سند ھیؒ صاحب بیٹھے ہو ئے تھے وہ تین عا لم دین آ ئے مولا نانے ان کو گالیا ں دینی شروع کر دیں مو لا نا گا لیاں دے رہے ہیں وہ آ گے سے جی جی کر رہے ہیں اور زبا نیں خشک ہو ر ہی ہیں ذرا بھر ادب میں فر ق نہیں آ یا ،میں بیٹھا دیکھ رہا تھا میں نے سو چا کہ یہ ہے علماءدیو بند کا حا ل ۔
غیر مقلدین انتہائی درجہ کے بے ادب ہیں :
محمد اسحق بھٹی صاحب لکھتے ہیں کہ ہمارا یہ حا ل ہے کہ جو ہم سے چھ مہینے پڑ ھ لے وہ سب سے پہلے ہمارا مقا بلہ کرتا ہے ہماری غلطیا ں نکا لتا ہے اور کہتا ہے کہ میرا ستا ذ جہنمی ہے یہ با لکل غلط بات ہے، معلو م ہوا کہ غیر مقلداپنے استا ذوں کابھی ادب نہیں رکھتے ۔
اور لکھتے ہیں کہ ہمارے اندر نیا رواج پیدا ہو گیا ہے نماز کے بعد دعا ما نگنا بد عت ہے میں نے اس پر بڑا سو چا کہ آ خرکیا وجہ ہے حا لا نکہ پہلے تو اہل حدیث دعا ما ناگا کرتے تھے میاں نذ یر حسین نے بھی فتا ویٰ نذ یر یہ میں لکھا ہے کہ نماز کے بعد دعا مانگنا سنت ہے فر ضوں کے بعد بھی -فتا ویٰ ثنا ئیہ میں اور فتا ویٰ اہل حدیث میں لکھا کہ آ ج کل کیا ہو گیاہے میں سوچتا رہاپہلے اہل حدیث غریب ہو تے تھے وہ اللہ سے مانگتے تھے نماز کے اند ر بھی اور بعد میں بھی اور ہا تھ اٹھا کر بھی اور بغیر ہا تھ اٹھا ئے بھی اب یہ لوگ لا کھو ں میں کھیلتے ہیں کروڑں کے خواب دیکھتے ہیں ان کو کیا ضرورت ہے اللہ سے ما نگنے کی لکھتے ہیں کہ میں یہ بھی غنیمت سمجھتا ہوں کہ بیچا رے وقت نکا ل کر دو رکعت نماز پڑ ھ لیتے ہیں اور مصروفیات کا یہ حا ل ہے کہ جسم پر خا رش کر نے کا مو قع نماز میں ملتا ہے نماز کے اندر جسم ایک ایک حصہ پر خا رش کی جا تی خو د لکھتا ہے کہ کھرک فی الصلوۃ یہ آ ج کل ہمارے ہا ں مستقل مسئلہ بن چکا ہے ۔
خلاصہ کلا م :
حضور صلی اللہ علیہ وسلم آفتاب ہدایت ہیں اور صحا بہ نجوم ہدایت ہیں اور امام اعظم ابو حنیفہ چرا غ ہد ایت یہ ہماری متصل سند ہے اور غیر مقلدین بے سند ے ہیں ان کی کوئی سند نہیں لہذا جب کسی غیر مقلد سے ملاقات ہو تو کہنا چا ہئے کہ بے سند آ گیا ہے ۔
آ خر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین ۔

Share this article :
 

Copyright © 2011. Al Asir Channel Urdu Islamic Websites Tarjuman Maslak e Deoband - All Rights Reserved
Template Created by piscean Solutions Published by AL Asir Channel
Proudly powered by AL Asir Channel