عذابِ قبر پر چند اشکالات اور ان کے جوابات
س… جمعہ ایڈیشن میں “عذابِ قبر” کے عنوان سے آپ نے ایک سوال کا جواب دیا ہے، اس میں کئی طرح کے اشکالات ہیں:
۱:…آپ نے ان صاحب کے سوال کا جواب قرآن یا صحیح حدیث کی روشنی میں نہیں دیا۔
۲:…سورہٴ یونس میں اللہ نے فرعون کے متعلق فرمایا ہے کہ اب تو ہم تیرے بدن کو بچائیں گے تاکہ تو اپنے بعد کے آنے والوں کے لئے نشانِ عبرت بنے (سورہٴ یونس:۹۲)۔ اور یہ بات سب ہی کو معلوم ہے کہ فرعون کی ممی آج تک موجود ہے مگر اس فرعون کے متعلق سورة الموٴمن میں اللہ نے فرمایا ہے: “دوزخ کی آگ ہے جس کے سامنے صبح و شام وہ (آل فرعون) پیش کئے جاتے ہیں اور جب قیامت کی گھڑی آجائے گی تو حکم ہوگا کہ آل فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کرو۔” (الموٴمن:۴۶)۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فرعون اور آل فرعون کو عذاب کہاں دیا جارہا ہے؟ پھر ہم اس دنیا میں بھی دیکھتے ہیں کہ ہندو، چینی، اور غالباً روسی بھی اپنے مردے جلادیتے ہیں، اور بہت سے لوگ جو جل کر مرجائیں، فضائی حادثے کا شکار ہوجائیں یا جنہیں سمندر کی مچھلیاں کھاجائیں تو انہیں تو قبر ملتی ہی نہیں، انہیں عذاب کہاں دیا جاتا ہے؟
۳:…قرآن، مردوں کے متعلق یہ بتاتا ہے:
“مردے میں جان کی رمق تک نہیں ہے، انہیں اپنے متعلق یہ تک نہیں معلوم کہ وہ کب (دوبارہ زندہ کر کے) اٹھائے جائیں گے۔” (النحل:۲۱)۔
اور فرمایا:
“(اے نبی) آپ ان لوگوں کو نہیں سناسکتے جو قبروں میں مدفون ہیں۔” (فاطر:۲۲)۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن میں جان کی رمق تک نہیں اور جو سن تک نہیں سکتے، ان کو عذاب کیسے دیا جارہا ہے؟
ج… جناب نے میرے جواب کو یا تو پڑھا نہیں یا پھر سمجھا نہیں، ورنہ آپ نے جتنے شبہات پیش کئے ہیں ان میں ایک شبہ بھی آپ کو پیش نہ آتا، میں نے اپنے جواب میں لکھا تھا:
“اہل سنت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ قبر کا عذاب و ثواب برحق ہے اور یہ مضمون متواتر احادیثِ طیبہ میں وارد ہے۔”
میں “متواتر احادیث” کا حوالہ دے رہا ہوں لیکن آنجناب فرماتے ہیں کہ میں نے یہ جواب قرآن یا صحیح حدیث کی روشنی میں نہیں دیا۔ فرمائیے! کہ “متواتر احادیث” کو “صحیح حدیث” نہیں کہتے؟ اور اس کے بعد آپ نے جو شبہات پیش کئے ہیں میں نے ان کے جواب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا تھا:
“ظاہر ہے کہ برزخ کے حالات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے بہتر جانتے تھے، اس لئے اس عقیدہ پر ایمان لانا ضروری ہے، اور محض شبہات کی بنا پر اس کا انکار درست نہیں۔”
اگر آپ میرے اس فقرے پر غور کرتے تو آپ کے لئے یہ سمجھنا مشکل نہ ہوتا کہ جس عقیدے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شمار احادیث میں بیان فرمایا ہو اور پوری امت کے اکابر جس عقیدے پر متفق چلے آئے ہوں وہ قرآن کریم کے خلاف کیسے ہوسکتا ہے؟ اسی سے آپ یہ بھی سمجھ سکتے تھے کہ عذابِ قبر کی نفی پر آپ نے جن آیات کا حوالہ دیا، آپ نے ان کا مطلب نہیں سمجھا اور غلط فہمی کی بنا پر آپ کو شبہ پیش آیا۔
عذابِ قبر کی نفی وہی شخص کرسکتا ہے جو یہ نہ جانتا ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متواتر ارشادات اس کے بارے میں موجود ہیں، اور اگر اس بات کو جان لینے کے بعد کوئی شخص اس کا قائل نہیں تو اس کے معنی اس کے سوا کیا ہیں کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے، صحابہ کرام سے اور چودہ صدیوں کے اکابر امت سے بڑھ کر قرآن فہمی کا مدعی ہو؟ جو آیات آپ نے عذابِ قبر کی نفی پر پیش کی ہیں اگر ان سے واقعی عذابِ قبر کی نفی ثابت ہوتی تو یہ تمام اکابر عذابِ قبر کے کیسے قائل ہوسکتے تھے؟
چونکہ آپ کو اس اجمالی جواب سے تشفی نہیں ہوئی، اس لئے مناسب ہے کہ آپ کے شبہات کا تفصیلی جواب بھی عرض کیا جائے، آپ نے یہ تسلیم کیا ہے کہ فرعون اور آلِ فرعون کو صبح و شام (علی الدوام) آگ پر پیش کیا جاتا ہے، یہی عذابِ قبر ہے جس کو قرآن کریم میں بھی ذکر کیا گیا ہے۔ رہا یہ شبہ کہ فرعون کی لاش تو محفوظ ہے، اس کو عذاب ہوتا ہوا ہمیں نظر نہیں آتا، پھر فرعون اور آلِ فرعون کو عذاب کہاں ہو رہا ہے؟
اس کو یوں سمجھ لیجئے کہ ایک شخص آپ کے پہلو میں لیٹے ہوئے کوئی مہیب خواب دیکھ رہا ہے، آگ میں جل رہا ہے، پانی میں ڈوب رہا ہے، سانپ اس کے پیچھے دوڑ رہا ہے، درندے اس پر حملہ آور ہو رہے ہیں، اسے پکڑ کر پابندِ سلاسل کردیا جاتا ہے، طرح طرح کی سزائیں اسے دی جارہی ہیں، وہ ایک زور کی چیخ مار کر خواب سے بیدار ہوجاتا ہے، اس کے بدن پر لرزہ طاری ہے، جسم پسینے میں شرابور ہو رہا ہے، آپ اس سے پوچھتے ہیں کیا ہوا؟ وہ اپنا خواب بیان کرتا ہے، آپ اس سے کہتے ہیں کہ: تم بڑے جھوٹے ہو! میں تمہارے پاس بیٹھا ہوا تھا، مجھے تو نہ تمہاری آگ کے شعلے نظر آئے، نہ پانی کی لہریں دکھائی دیں، نہ میں نے تمہارے سانپ کی پھنکار سنی، نہ تمہارے درندوں کی دھاڑیں میرے کان میں پڑیں، نہ میں نے تمہارے طوق و سلاسل کو دیکھا․․․ فرمائیے! کیا آپ کی اس منطق سے وہ اپنے خواب کو جھٹلادے گا؟ نہیں! بلکہ وہ کہے گا کہ تم بیدار تھے، میں خواب کی جس دنیا میں تھا اس میں میرے ساتھ نہیں تھے۔ آپ دونوں کے درمیان صرف بیداری اور خواب کا فاصلہ تھا، اس لئے خواب دیکھنے والے پر خواب میں جو حالات گزرے، آپ پاس بیٹھے ہوئے ان حالات سے بے خبر رہے۔ اس طرح خوب سمجھ لیجئے کہ زندوں اور مردوں کے درمیان دنیا اور برزخ کا فاصلہ حائل ہے، اگر مردوں پر گزرنے والے حالات کا زندہ لوگوں کو احساس و شعور نہ ہو تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ مردوں کو کوئی عذاب و ثواب نہیں ہو رہا، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا اور ان کا جہان الگ الگ ہے، اس لئے ہمیں ان کے حالات کا شعور نہیں، گو ان کے بدن ہمارے سامنے پڑے ہوں۔ آپ جب عالم برزخ میں پہنچیں گے وہاں آپ کو مشاہدہ ہوگا کہ فرعون کے اسی بدن کو عذاب ہو رہا ہے جو ہمارے سامنے پڑا ہے، لیکن یہ عذاب ہمارے مشاہدہ سے ماورا ہے، جس طرح بیدار آدمی سونے والے کے حالات سے واقف نہیں لیکن خواب بیان کرنے والے کے اعتماد پر اس کے خواب کو تسلیم کرتا ہے، اسی طرح اگرچہ ہم قبر اور برزخ کے حالات سے واقف نہیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان پر اعتماد کرتے ہوئے ان پر ایمان لائے ہیں، کسی چیز کا محض اس بنا پر انکار کردینا کہ وہ ہمارے مشاہدہ سے بالاتر چیز ہے، عقلمندی نہیں حماقت ہے!
قرآن کریم میں ہے کہ ملک الموت روح قبض کرتا ہے، لوگ ہمارے سامنے مرتے ہیں، ہم نے کبھی ملک الموت کو روح قبض کرتے نہیں دیکھا، مگر چونکہ یہ ہمارے مشاہدہ سے بالاتر چیز ہے اس لئے صاحبِ وحی صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتماد کرتے ہوئے مشاہدہ کے بغیر اسے مانتے ہیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لاتے تھے اور گھنٹوں آپ سے گفتگو کرتے لیکن صحابہ کرام کو نہ ان کا سراپا نظر آتا تھا، نہ ان کی بات سنائی دیتی تھی۔ محض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتماد پر نزول جبرائیل علیہ السلام پر ایمان رکھتے تھے۔ پس جب ہم اللہ تعالیٰ کے وجود کو، اس کے فرشتوں کو، انبیاء گزشتہ کو، ان کی کتابوں کو، آخرت کو، حشر و نشر کو، حساب و کتاب کو، جنت و دوزخ کو، الغرض بے شمار غیبی حقائق کو جو ہمارے مشاہدہ سے ماورا ہیں، بے دیکھے محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتماد پر مان سکتے ہیں اور مانتے ہیں تو میں نہیں سمجھتا کہ برزخ اور قبر کے حالات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتماد کرتے ہوئے کیوں نہ مانیں، یہاں اپنے مشاہدہ کا حوالہ کیوں دیں․․․؟
قبر کے حالات کا تعلق عالمِ برزخ سے ہے، جو عالمِ غیب کی چیز ہے، اہل ایمان جس طرح دوسرے غیبی حقائق پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بھروسے ایمان لاتے ہیں اسی طرح قبر اور برزخ کے ان حالات پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے۔
“الذین یوٴمنون بالغیب” اہل ایمان کا پہلا وصف ہے، اور غیب سے مراد وہ حقائق ہیں جو ہماری عقل و مشاہدہ سے ما ورا ہیں، پس ایمان کی پہلی شرط یہ ہے کہ ان غیبی حقائق کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتماد پر مانا جائے۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم (خوف و دہشت کی بنا پر) مردوں کو دفن نہ کرسکوگے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ تمہیں قبر کا وہ عذاب سنادے جو میں سنتا ہوں۔” (مشکوٰة ص:۲۵)
آپ کا دوسرا شبہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ جلادئیے جاتے ہیں، بعض درندوں اور مچھلیوں کا لقمہ بن جاتے ہیں، انہیں قبر میں دفن کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی، انہیں عذاب کہاں دیا جاتا ہے؟
یہ شبہ بھی نہایت سطحی ہے، مرنے والے کے اجزا خواہ کہیں متفرق ہوجائیں وہ علمِ الٰہی سے تو غائب نہیں ہوجاتے۔ صحیح بخاری میں اس شخص کا واقعہ ذکر کیا گیا ہے جس نے مرتے وقت اپنے بیٹوں کو وصیت کی تھی کہ مرنے کے بعد مجھے جلاکر آدھی راکھ ہوا میں اڑادینا اور آدھی دریا میں بہادینا، کیونکہ میں بہت گناہ گار ہوں، اگر اللہ تعالیٰ کے ہاتھ آگیا تو مجھے سخت سزا ملے گی۔ مرنے کے بعد بیٹوں نے اس کی وصیت پر عمل کیا، اللہ تعالیٰ نے بر و بحر کے اجزا کو جمع فرماکر اسے زندہ فرمایا اور اس سے سوال کیا کہ: تو نے یہ وصیت کیوں کی تھی؟
اگر اللہ تعالیٰ کی یہ قدرت مسلّم ہے کہ وہ ہوا میں اڑائے ہوئے اور دریا میں بہائے ہوئے اجزا کو جمع کرسکتے ہیں تو یقین رکھئے کہ وہ ایسے شخص کو برزخ میں ثواب و عذاب دینے پر بھی قادر ہیں۔ ہاں! اگر کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پے در پے متواتر ارشادات پر بھی ایمان نہ رکھتا ہو، صحابہ کرامسے لے کر آج تک کے تمام اکابر امت کے اجماعی عقیدے کو بھی لغو سمجھتا ہو اور اسے اللہ تعالیٰ کے علمِ محیط اور قدرتِ کاملہ میں بھی شک و شبہ ہو، اسے اختیار ہے کہ قبر اور برزخ کے عذاب و ثواب کا شوق سے انکار کرے، جب وہ خود اس منزل سے گزرے گا تب یہ غیبی حقائق اس کے سامنے کھل جائیں گے مگر اس وقت کا ماننا بیکار ہوگا․․․!
اس میں کیا شبہ ہے کہ مردے اس جہان والوں کے حق میں واقعی مردہ ہیں، لیکن اس سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ ان میں برزخ کے عذاب و ثواب کا بھی شعور نہیں؟ جب ہم اسی دنیا میں دیکھتے ہیں کہ جاگنے والوں کو سونے والوں کے حالات کا شعور نہیں اور سونے والا بیداری کے حالات سے لاشعوری کے عالم میں چلا جاتا ہے، لیکن خواب کے حالات سے وہ بے شعور نہیں، تو اسی طرح کیوں نہ سمجھا جائے کہ مرنے والوں کو برزخی احوال کا پورا شعور ہے، اگرچہ ہمیں ان کے شعور کا شعور نہیں “ولٰکن لا تشعرون” میں اسی حقیقت کی طرف رہنمائی فرمائی گئی ہے۔
آپ کا چوتھا شبہ یہ تھا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ آپ ان لوگوں کو نہیں سناسکتے جو قبروں میں ہیں، بالکل بجا اور صحیح ہے۔ مگر اس آیتِ کریمہ میں تویہ فرمایا گیا ہے کہ قبر والوں کو سنانا ہماری قدرت سے خارج ہے، یہ تو نہیں کہ یہ بات اللہ تعالیٰ کی قدرت سے بھی خارج ہے، نہ یہ کہ مرنے والوں میں کسی چیز کے سننے کی صلاحیت ہی نہیں ہے، قبر کے مردے دنیا والوں کی بات سنتے ہیں یا نہیں؟ اس مسئلہ میں اہل علم کا اختلاف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور سے آج تک چلا آیا ہے، لیکن اس آیتِ کریمہ سے یہ سمجھنا کہ مردوں کو برزخ اور قبر کے حالات کا بھی شعور نہیں اہل حق میں اس کا کوئی بھی قائل نہیں۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ “الفقہ الاکبر” میں فرماتے ہیں:
“اور قبر میں منکر نکیر کا سوال کرنا حق ہے اور بندہ کی طرف روح کا لوٹایا جانا حق ہے اور قبر کا بھینچنا حق ہے اور اس کا عذاب تمام کافروں کے لئے اور بعض مسلمانوں کے لئے حق ہے ضرور ہوگا۔” (شرح فقہ اکبر ص:۱۲۱، ۱۲۲)