اسلام آباد : قائد جمعیت علماء اسلام مولانا فضل الرحمان نے جمعۃ الوداع سے مساجد کھولنے سے اجماعات منعقد کرنے کا اعلان کردیا ۔ مولانا فضل الرحمن نے اعلان کیا ہے کہ ہم نے پہلے دن ہی سیاست سے ہٹ کر حکومتی اقدام کی حمایت کا اعلان انسانیت کے خاطر کیا تھا ۔
ہم نے نہ صرف مدارس کو بند کیا بلکہ جمعیت کے جلسے اجلاس تک ملتوی کئے اور اپنے رضاکار خدمت کے لئے پیش کئے ۔ تاہم اب ہم مساجد میں جمعۃ الوداع کے اجتماعات ، رمضان میں ختم القرآن کی تقاریب اور عید کے اجتماعات کرنے کا اعلان کرتے ہیں ۔ حکومتی رویہ مجبور کررہا ہے کہ ایسا اقدام اٹھائیں
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ مساجد کے ساتھ ایک رویہ اور بازاروں ، مارکیٹوں ، منڈیوں کے ساتھ دوسرا رویہ قابل تشویش ہے ، ایسا لگ رہا ہیکہ کورونا کو بہانہ بناکر مذھب کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ، مساجد میں مکمل احتیاطی تدابیر بہر صورت اختیار کی جائیں گی ۔ عید پر کارکنان اپنے گھروں تک محدود رہیں ۔ اس بار عید کی مبارک باد کے لئے کہیں سفر نہ کریں ۔
دوسری جانب اہلسنت والجماعت دیوبند مکتب فکر کے چوٹی کے عالم دین مفتی تقی عثمانی نے ایک اہم بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ کورونا کی وبا اندازے سے زیادہ طویل ہوتی جارہی ہے ۔ اور نہ جانے کب ختم ہو ، ان حالات میں غیر معینہ مدت تک نہ کاروبار زندگی کو بالکل روکا جاسکتا ہے نہ اب اجتماعی عبادتوں کو بند رکھا جا سکتا ہے ۔
لہذاہ تمام مسلمانوں سے درخواست ہے کہ رمضان المبارک اور آخری عشرے کے باقی لمحات کو غنیمت سمجھ کر عبادتوں اور دعائوں کا خاص اہتمام کریں ۔ مساجد کو جماعت کی نمازوں سے آباد کریں ۔ جمعہ بے خوف و خطر مگر احتیاطی تدابیر کے ساتھ مسجدوں میں ادا کریں ۔ حکومت سے بھی امید ہے کہ وہ اپنی دینی ذمہ داری اور مسلمانوں کے جذبات کے احترام میں ان کی عبادات کی ادائیگی میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گی ۔
ملک و ملت کی بہتری ، وبا کے خاتمے ،ملک سے انتشار و فرقہ واریت کے خاتمے کے لئے حکومت اور شہری اپنا کردار اد اکریں ۔ اور سب ان مقاصد کے لئے خصوصی دعائیں کریں ۔
معلوم رہے کپہ ایک روز قبل اہلحدیث مکتب فکر کے جید عالم دین مولانا ابتسام الہی ظہئر نے بھی ایک ٹویٹ کیا تھا کہ ہم جمعۃ الوداع سے مساجد میں کھلے عام بھر پور جمعہ کے اجماعات کریں گے ، دعائیہ تقریبات و ختم القرآن کی تقریبات کریں گے اور اس کے بعد عید کے اجماعات بھی بڑے کھلے مراکز میں کریں گے ۔ اور میری دیوبند اور بریلوی مکتب فکر سے بھی درخواست ہے کہ وہ بھی ایسا ہی کریں ۔