حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات و نزول
قرآن و حدیث کی روشنی میں
س… کیا قرآن مجید میں کہیں ذکر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے؟ اور وہی آکر امام مہدی ہونے کا دعویٰ کریں گے؟
ج… سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ تشریف آوری کا مضمون قرآن کریم کی کئی آیتوں میں ارشاد ہوا ہے، اور یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ متواتر احادیث جن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی اطلاع دی گئی ہے اور جن پر بقول مرزا صاحب کے “امت کا اعتقادی تعامل چلا آرہا ہے” وہ سب انہی آیات کریمہ کی تفسیر ہیں۔
پہلی آیت:
سورة الصف آیت:۹ میں ارشاد ہے: “وہی ہے جس نے بھیجا اپنا رسول، ہدایت اور دین حق دے کر تاکہ اسے غالب کردے تمام دینوں پر، اگرچہ کتنا ہی ناگوار ہو مشرکوں کو۔”
“یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیش گوئی ہے، اور جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعے سے ظہور میں آئے گا اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دینِ اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا۔ لیکن اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ خاکسار اپنی غربت اور انکسار اور توکل اور ایثار اور آیات اور انوار کے رو سے مسیح کی پہلی زندگی کا نمونہ ہے ․․․․․․ سو چونکہ اس عاجز کو حضرت مسیح سے مشابہت تامہ ہے اس لئے خداوند کریم نے مسیح کی پیش گوئی میں ابتداء سے اس عاجز کو بھی شریک کر رکھا ہے۔ یعنی حضرت مسیح پیش گوئی متذکرہ بالا کا ظاہری اور جسمانی طور پر مصداق ہے اور یہ عاجز روحانی اور معقولی طور پر۔”
(براہین احمدیہ مصنفہ مرزا غلام احمد صاحب ص:۴۹۸، ۴۹۹، روحانی خزائن ج:۱ ص:۵۹۳، ۵۹۴)
“یعنی خدا وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو ایک کامل ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تا اس کو ہر ایک قسم کے دین پر غالب کردے یعنی ایک عالم گیر غلبہ اس کو عطا کرے اور چونکہ وہ عالم گیر غلبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ظہور میں نہیں آیا اور ممکن نہیں کہ خدا کی پیش گوئی میں کچھ تخلف ہو اس لئے آیت کی نسبت ان سب متقدمین کا اتفاق ہے جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں کہ یہ عالمگیر غلبہ مسیح موعود کے وقت میں ظہور میں آئے گا۔” (چشمہ معرفت مصنفہ مرزا غلام احمد صاحب
ص:۸۳، ۹۱، روحانی خزائن ج:۲۳ ص۹۱)
جناب مرزا صاحب کی اس تفسیر سے چند باتیں معلوم ہوئیں:
۱:…اس آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسمانی طور پر دوبارہ آنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
۲:…مرزا صاحب پر بذریعہ الہام خدا تعالیٰ کی طرف سے ظاہر کیا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس آیت کی پیش گوئی کا جسمانی اور ظاہری طور پر مصداق ہیں۔
۳:…امت کے تمام مفسرین اس پر متفق ہیں کہ اسلام کا غلبہ کاملہ حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت میں ہوگا۔
جناب مرزا صاحب کی اس الہامی تفسیر سے جس پر تمام مفسرین کے اتفاق کی مہر بھی ثبت ہے، یہ ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ کے اس قرآنی وعدہ کے مطابق سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ضرور دوبارہ تشریف لائیں گے اور ان کے ہاتھ سے اسلام تمام مذاہب پر غالب آجائے گا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ارشاد ہے کہ: “اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں تمام مذاہب کو مٹادیں گے۔”
(ابوداوٴد، مسند احمد، مستدرک حاکم)
بعد میں جناب مرزا صاحب نے خود مسیحیت کا منصب سنبھال لیا لیکن یہ تو فیصلہ آپ کرسکتے ہیں کہ کیا ان کے زمانے میں اسلام کو غلبہ کاملہ نصیب ہوا؟ نہیں! بلکہ اس کے برعکس یہ ہوا کہ دنیا بھر کے مسلمان جناب مرزا صاحب کو نہ ماننے کی وجہ سے کافر ٹھہرے، ادھر مسلمانوں نے مرزا صاحب اور ان کی جماعت کو اسلام سے الگ ایک فرقہ سمجھا، نتیجہ یہ کہ اسلام کا وہ غلبہ کاملہ ظہور میں نہ آیا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ سے مقدر تھا۔ اس لئے جناب مرزا صاحب کے دعویٴ مسیحیت کے باوجود زمانہ قرآن کے وعدے کا منتظر ہے اور یقین رکھنا چاہئے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اس وعدے کے ایفاء کے لئے خود بنفس نفیس تشریف لائیں گے، کیونکہ بقول مرزا صاحب ․․․ “ممکن نہیں کہ خدا کی پیش گوئی میں کچھ تخلف ہو۔”
دوسری آیت:
سورة النساء آیت:۱۵۹ میں بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ تشریف لانے اور تمام اہل کتاب کے ان پر ایمان لانے کی خبر دی ہے، چنانچہ ارشاد ہے:
“اور نہیں کوئی اہل کتاب سے مگر البتہ ایمان لاوے گا ساتھ اس کے موت اس کی کے پہلے اور دن قیامت کے ہوگا اوپر ان کے گواہ۔”
(فصل الخطاب ج:۲ ص:۸۰ موٴلفہ حکیم نور دین قادیانی)
حکیم صاحب کا ترجمہ بارہویں صدی کے مجدد حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کے فارسی ترجمہ کا گویا اردو ترجمہ ہے۔ شاہ صاحب اس کے حاشیہ میں لکھتے ہیں:
“یعنی یہودی کہ حاضر شوند نزول عیسیٰ را البتہ ایمان آرند۔”
ترجمہ:…”یعنی آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو یہودی نزول عیسیٰ علیہ السلام کے وقت موجود ہوں گے وہ ایمان لائیں گے۔”
اس آیت کے ترجمہ سے معلوم ہوا کہ:
۱:…عیسیٰ علیہ السلام کا آخری زمانے میں دوبارہ تشریف لانا مقدر ہے۔
۲:…تب سارے اہل کتاب ان پر ایمان لائیں گے۔
۳:…اور اس کے بعد ان کی وفات ہوگی۔
پورے قرآن مجید میں صرف اس موقع پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کا ذکر ہے جس سے پہلے تمام اہل کتاب کا ان پر ایمان لانا شرط ہے۔
اب اس آیت کی وہ تفسیر ملاحظہ فرمائیے جو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور اکابر صحابہ و تابعین سے منقول ہے۔
صحیح بخاری ج:۱ ص:۴۹۰ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حالات میں امام بخاری نے ایک باب باندھا ہے: “باب نزول عیسیٰ بن مریم علیہ السلام” اور اس کے تحت یہ حدیث ذکر کی ہے۔
“حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے! البتہ قریب ہے کہ نازل ہوں تم میں ابن مریم حاکمِ عادل کی حیثیت سے، پس توڑدیں گے صلیب کو اور قتل کریں گے خنزیر کو اور موقوف کریں گے لڑائی اور بہ پڑے گا مال، یہاں تک کہ نہیں قبول کرے گا اس کو کوئی شخص، یہاں تک کہ ایک سجدہ بہتر ہوگا دنیا بھر کی دولت سے۔ پھر فرماتے تھے ابوہریرہ کہ پڑھو اگر چاہو قرآن کریم کی آیت: “اور نہیں کوئی اہل کتاب میں سے مگر ضرور ایمان لائے گا حضرت عیسیٰ پر ان کی موت سے پہلے اور ہوں گے عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے دن ان پر گواہ۔”
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی قرآن کی اس آیت کی تفسیر ہے اسی لئے حضرت ابوہریرہنے اس کے لئے آیت کا حوالہ دیا۔ امام محمد بن سیرین کا ارشاد ہے کہ ابوہریرہ کی ہر حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتی ہے۔
(طحاوی شریف ج:۱ ص:۲۱)
بخاری شریف کے اسی صفحہ پر حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے نزول کی خبر دیتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے “وامامکم منکم” فرمایا۔
یہ حدیث بھی حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ دونوں حدیثوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آخری زمانہ میں حاکمِ عادل کی حیثیت سے اس امت میں تشریف لانا۔
۲:…کنز العمال ج:۷ ص:۲۶۷ (حدیث نمبر:۳۹۷۲۶ ص:۲۵۷) میں بروایت ابن عباس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: “میرے بھائی عیسیٰ بن مریم آسمان سے نازل ہوں گے ․․․․․ الخ۔”
۳:…امام بیہقی کی کتاب الاسماء والصفات ص:۴۲۴ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: “تم کیسے ہوگے جب عیسیٰ بن مریم تم میں آسمان سے نازل ہوں گے اور تم میں شامل ہوکر تمہارے امام ہوں گے۔”
۴:…تفسیر در منثور ج:۲ ص:۲۴۲ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: “میرے اور عیسیٰ بن مریم کے درمیان کوئی نبی اور رسول نہیں ہوا، دیکھو! وہ میرے بعد میری امت میں میرے خلیفہ ہوں گے۔”
۵:…ابوداوٴد ص:۵۹۴ اور مسند احمد ج:۲ ص:۴۰۶ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: “انبیاء کرام باپ شریک بھائی ہیں۔ ان کی مائیں (شریعتیں) الگ الگ ہیں اور دین سب کا ایک ہے، اور مجھے سب سے زیادہ تعلق عیسیٰ بن مریم سے ہے کیونکہ میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ہوا۔ اور بے شک وہ تم میں نازل ہوں گے پس جب ان کو دیکھو تو پہچان لینا، ان کا حلیہ یہ ہے قد میانہ، رنگ سرخ و سفید، دو زرد رنگ کی چادریں زیب بدن ہوں گی، سر سے گویا قطرے ٹپک رہے ہوں گے، خواہ ان کو تری نہ پہنچی ہو، پس لوگوں سے اسلام پر قتال کریں گے، پس صلیب کو توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ موقوف کردیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کے زمانے میں تمام مذاہب کو مٹادیں گے اور مسیح دجال کو ہلاک کردیں گے، پس زمین میں چالیس برس ٹھہریں گے، پھر ان کی وفات ہوگی اور مسلمان ان کا جنازہ پڑھیں گے۔”
یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ہیں جن سے آیت زیر بحث کی تشریح ہوجاتی ہے۔
اب چند صحابہ و تابعین کی تفسیر بھی ملاحظہ فرمائیے:
۱:…مستدرک حاکم ج:۲ ص:۳۰۹، در منثور ج:۲ ص:۲۴۱، اور تفسیر ابن جریر ج:۶ ص:۱۴ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تفسیر فرمائی ہے کہ اس آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ تشریف لانے کی خبر دی گئی ہے اور یہ کہ جب وہ تشریف لائیں گے تو ان کی موت سے پہلے سب اہل کتاب ان پر ایمان لائیں گے۔
۲:…ام الموٴمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اس آیت کی تفسیر یہ فرماتی ہیں کہ ہر اہل کتاب اپنی موت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے گا اور جب وہ قیامت سے پہلے آسمان سے نازل ہوں گے تو اس وقت جتنے اہل کتاب ہوں گے آپ کی موت سے پہلے آپ پر ایمان لائیں گے۔ (تفسیر در منثور ج:۲ ص:۲۴۱)
۳:…در منثور کے مذکورہ صفحہ پر یہی تفسیر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے صاحبزادے حضرت محمد بن الحنفیہ سے منقول ہے۔
۴:…اور تفسیر ابن جریر ج:۶ ص:۱۴ میں یہی تفسیر اکابر تابعین حضرت قتادہ، حضرت محمد بن زید مدنی (امام مالک کے استاذ)، حضرت ابومالک غفاری اور حضرت حسن بصری سے منقول ہے۔ حضرت حسن بصری کے الفاظ یہ ہیں: “آیت میں جس ایمان لانے کا ذکر ہے یہ عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے ہوگا۔ اللہ کی قسم! وہ ابھی آسمان پر زندہ ہیں، لیکن آخری زمانے میں جب وہ نازل ہوں گے تو ان پر سب لوگ ایمان لائیں گے۔”
اس آیت کی جو تفسیر میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ و تابعین سے نقل کی ہے بعد کے تمام مفسرین نے اسے نقل کیا ہے اور اس کی صحت کو تسلیم کیا ہے، لہٰذا کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ تشریف آوری کی خبر دی ہے اور دورِ نبوی سے آج تک یہی عقیدہ مسلمانوں میں متواتر چلا آرہا ہے۔
تیسری آیت:
سورہٴ زخرف آیت:۶۱ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد ہے: “اور وہ نشانی ہے قیامت کی، پس تم اس میں مت شک کرو۔”
اس آیت کی تفسیر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور بہت سے صحابہ و تابعین کا ارشاد ہے کہ: عیسیٰ علیہ السلام کا آخری زمانہ میں نازل ہونا قربِ قیامت کی نشانی ہوگی۔
۱:…صحیح ابن حبان میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: “قیامت سے پہلے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا نازل ہونا قیامت کی نشانی ہے۔”
(موارد الظمأن ص:۴۳۵ حدیث:۱۷۵۸)
۲:…حضرت حذیفہ بن اسید الغفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ہم آپس میں مذاکرہ کر رہے تھے، اتنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو فرمایا کہ: کیا مذاکرہ ہو رہا تھا؟ عرض کیا: قیامت کا تذکرہ کر رہے تھے! فرمایا: قیامت نہیں آئے گی جب تک کہ اس سے پہلے دس نشانیاں نہ دیکھ لو! دخان، دجال، دابة الارض، مغرب سے آفتاب کا طلوع ہونا، عیسیٰ بن مریم کا نازل ہونا، یاجوج و ماجوج کا نکلنا․․․․․․ الخ۔” (صحیح مسلم، مشکوٰة ص:۴۷۲)
۳:…اور حدیث معراج جسے میں پہلے بھی کئی بار نقل کرچکا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ: معراج کی رات میری ملاقات حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام سے ہوئی، قیامت کا تذکرہ ہوا کہ کب آئے گی؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا، موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا گیا تو انہوں نے بھی لاعلمی ظاہر کی، پھر عیسیٰ علیہ السلام کی باری آئی تو انہوں نے فرمایا:
“قیامت کا ٹھیک ٹھیک وقت تو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو بھی معلوم نہیں، البتہ مجھ سے میرے رب کا ایک عہد ہے کہ قربِ قیامت میں دجال نکلے گا تو میں اسے قتل کرنے کے لئے نازل ہوں گا۔ (آگے قتل دجال اور یاجوج ماجوج کے نکلنے کی تفصیل ہے، اس کے بعد فرمایا) پس مجھ سے میرے رب کا عہد ہے کہ جب یہ سب کچھ ہوجائے گا تو قیامت کی مثال پورے دنوں کی حاملہ جیسی ہوگی۔”
(مسند احمد ج:۱ ص:۳۷۵، ابن ماجہ ص:۳۰۹، تفسیر ابن جریر ج:۱۷ ص:۷۲، مستدرک حاکم ج:۴ص:۴۸۸، ۵۴۵، فتح الباری ج:۱۳ ص:۷۹، درمنثور ج:۴ ص:۳۳۶)
ان ارشاداتِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آیت کی تفسیر اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ارشاد جو انہوں نے انبیاء کرام علیہم السلام کے مجمع میں فرمایا اور جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے سامنے نقل کیا، اس سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قیامت کی نشانی کے طور پر دوبارہ تشریف لانا اور آکر دجالِ لعین کو قتل کرنا، اس پر اللہ تعالیٰ کا عہد، انبیاء کرام کا اتفاق اور صحابہ کرام کا اجماع ہے، اور گزشتہ صدیوں کے تمام مجددین اس کو تسلیم کرتے چلے آئے ہیں، کیا اس کے بعد بھی کسی موٴمن کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ آنے میں شک رہ جاتا ہے․․․؟
۴:…اس آیت کی تفسیر بہت سے صحابہ و تابعین سے یہی منقول ہے کہ آخری زمانہ میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا نازل ہونا قربِ قیامت کی نشانی ہے، حافظ ابن کثیر اس آیت کی تحت لکھتے ہیں:
“یعنی قیامت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تشریف لانا قیامت کی نشانی ہے، یہی تفسیر حضرت ابوہریرہ، حضرت ابن عباس، ابوالعالیہ، عکرمہ، حسن بصری، ضحاک اور دوسرے بہت سے حضرات سے مروی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس مضمون کی احادیث متواتر ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تشریف لانے کی خبر دی ہے۔”
(تفسیر ابن کثیر ج:۴ ص:۱۳۲)
چوتھی آیت:
سورہٴ مائدہ کی آیت:۱۱۸ میں ارشاد ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے دن بارگاہِ خداوندی میں اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے عرض کریں گے:
“اے اللہ! اگر آپ ان کو عذاب دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں، اور اگر بخش دیں تو آپ عزیز و حکیم ہیں۔”
سیدنا ابن عباس اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
“عیسیٰ علیہ السلام عرض کریں گے کہ: الٰہی! یہ تیرے بندے ہیں (مگر انہوں نے میری غیرحاضری میں مجھے خدا بنایا اس لئے) واقعی انہوں نے اپنے اس عقیدے کی بنا پر اپنے آپ کو عذاب کا مستحق بنالیا ہے اور اگر آپ بخش دیں، یعنی ان لوگوں کو، جن کو صحیح عقیدے پر چھوڑ کر گیا تھا اور (اسی طرح ان لوگوں کو بھی بخش دیں جنہوں نے اپنے عقیدہ سے رجوع کرلیا، چنانچہ) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عمر لمبی کردی گئی ہے، یہاں تک کہ وہ آخری زمانے میں دجال کو قتل کرنے کے لئے آسمان سے زمین کی طرف اتارے جائیں گے، تب عیسائی لوگ اپنے قول سے رجوع کرلیں گے، تو جن لوگوں نے اپنے قول سے رجوع کیا اور تیری توحید کے قائل ہوگئے اور اقرار کرلیا کہ ہم سب (بشمول عیسیٰ علیہ السلام کے) خدا کے بندے ہیں پس اگر آپ ان کو بخش دیں جبکہ انہوں نے اپنے قول سے رجوع کرلیا ہے تو آپ عزیز و حکیم ہیں۔” (تفسیر در منثور ج:۲ ص:۳۵۰)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اس تفسیر سے واضح ہوا کہ یہ آیت بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ تشریف آوری کی دلیل ہے۔
آپ نے اپنے سوال میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوکر امام مہدی ہونے کا دعویٰ کریں گے؟ اس کے جواب میں صرف اتنا عرض کردینا کافی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر تیرہویں صدی کے آخر تک امتِ اسلامیہ کا یہی عقیدہ رہا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مہدی دو الگ الگ شخصیتیں ہیں، اور یہ کہ نازل ہوکر پہلی نماز حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت مہدی کی اقتداء میں پڑھیں گے۔ جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی پہلے شخص ہیں جنہوں نے عیسیٰ اور مہدی کے ایک ہونے کا عقیدہ ایجاد کیا ہے، اس کی دلیل نہ قرآن کریم میں ہے، نہ کسی صحیح اور مقبول حدیث میں، اور نہ سلف صالحین میں سے کوئی اس کا قائل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متواتر احادیث میں وارد ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت حضرت مہدی اس امت کے امام ہوں گے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کی اقتداء میں نماز پڑھیں گے۔
حیاتِ عیسیٰ علیہ السلام پر شبہات
جناب نے یہ بھی دریافت فرمایا ہے کہ کیا “کل نفس ذائقة الموت” کی آیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات پر اثر انداز نہیں ہوتی؟ جواباً گزارش ہے کہ یہ آیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح آپ کو، مجھ کو، زمین کے تمام لوگوں کو، آسمان کے تمام فرشتوں کو، بلکہ ہر ذی روح مخلوق کو شامل ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ ہر متنفس کو ایک نہ ایک دن مرنا ہے، چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی موت آئے گی۔ لیکن کب؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کا وقت بھی بتادیا ہے کہ آخری زمانہ میں نازل ہوکر وہ چالیس برس زمین پر رہیں گے، پھر ان کا انتقال ہوگا، مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے اور میرے روضہ میں ان کو دفن کیا جائے گا۔ (مشکوٰة شریف ص:۴۸۰)
اس لئے آپ نے جو آیت نقل فرمائی ہے وہ اسلامی عقیدہ پر اثر انداز نہیں ہوتی، البتہ یہ عیسائیوں کے عقیدہ کو باطل کرتی ہے۔ اسی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے پادریوں کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا تھا: “کیا تم نہیں جانتے کہ ہمارا رب زندہ ہے، کبھی نہیں مرے گا اور عیسیٰ علیہ السلام کو موت آئے گی۔” یہ نہیں فرمایا کہ: عیسیٰ علیہ السلام مر چکے ہیں۔ (در منثور ج:۲ ص:۳)
آخری گزارش
جیسا کہ میں نے ابتدا میں عرض کیا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات و وفات کا مسئلہ آج پہلی بار میرے آپ کے سامنے پیش نہیں آیا اور نہ قرآن کریم ہی پہلی مرتبہ میرے، آپ کے مطالعہ میں آیا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے قرآن مجید متواتر چلا آتا ہے اور حیاتِ عیسیٰ علیہ السلام کا عقیدہ بھی۔ اس امت میں اہل کشف، ملہم و مجدد بھی گزرے ہیں اور بلند پایہ مفسرین و مجتہدین بھی، مگر ہمیں جناب مرزا صاحب سے پہلے کوئی ملہم، مجدد، صحابی، تابعی اور فقیہ و محدث ایسا نظر نہیں آتا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آخری زمانہ میں دوبارہ تشریف آوری کا منکر ہو۔ قرآن کریم کی جن آیتوں سے جناب مرزا غلام احمد صاحب وفات مسیح ثابت کرتے ہیں، ایک لمحہ کے لئے سوچئے کہ کیا یہ آیات قرآن کریم میں پہلے موجود نہیں تھیں؟ کیا چودہویں صدی میں پہلی بار نازل ہوئی ہیں؟ یا گزشتہ صدیوں کے تمام اکابر․․․ نعوذ باللہ․․․ قرآن کو سمجھنے سے معذور اور عقل و فہم سے عاری تھے؟
“پس اگر اسلام میں بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے معلم نہیں آئے جن میں ظلی طور پر نورِ نبوت تھا تو گویا خدا تعالیٰ نے عمداً قرآن کو ضائع کیا کہ اس کے حقیقی اور واقعی طور پر سمجھنے والے بہت جلد دنیا سے اٹھالئے گئے۔ مگر یہ بات اس کے وعدہ کے برخلاف ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے انا نحن نزلنا الذکر وانہ لہ لحافظون۔ یعنی ہم نے قرآن کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرتے رہیں گے۔ اب میں نہیں سمجھ سکتا کہ اگر قرآن کے سمجھنے والے ہی باقی نہ رہے اور اس پر یقینی اور حالی طور پر ایمان لانے والے زاویہٴ عدم میں مختفی ہوگئے تو پھر قرآن کی حفاظت کیا ہوئی۔ اور اس پر ایک اور آیت بھی بین قرینہ ہے اور وہ یہ ہے بل ھو اٰیات بینات فی صدور الذین اوتوا العلم۔ یعنی قرآن آیات بینات ہیں جو اہل علم کے سینوں میں ہیں۔ یہ آیت بلند آواز سے پکار کر کہہ رہی ہے کہ کوئی حصہ تعلیم قرآن کا برباد اور ضائع نہیں ہوگا اور جس طرح روزِ اول سے اس کا پودا دلوں میں جمایا گیا یہی سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔”
(شہادة القرآن ص:۵۴، ۵۵، موٴلفہ جناب مرزا غلام احمد قادیانی)
بلاشبہ جس شخص کو قرآن کریم پر ایمان لانا ہوگا اسے اس تعلیم پر بھی ایمان لانا ہوگا جو گزشتہ صدیوں کے مجددین اور اکابر امت قرآن کریم سے متواتر سمجھتے چلے آئے ہیں، اور جو شخص قرآن کریم کی آیتیں پڑھ پڑھ کر ائمہ مجددین کے متواتر عقیدہ کے خلاف کوئی عقیدہ پیش کرتا ہے، سمجھنا چاہئے کہ وہ قرآن کریم کی حفاظت کا منکر ہے۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی حیات پر میں نے جو آیات پیش کی ہیں، ان کی تفسیر صحابہ و تابعین کے علاوہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی نقل کی ہے۔ ان کے علاوہ جس صدی کے ائمہ دین اور صاحبِ کشف و الہام مجددین کے بارے میں آپ چاہیں، میں حوالے پیش کردوں گا کہ انہوں نے قرآن کریم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ ہونے اور آخری زمانے میں دوبارہ آنے کو ثابت کیا ہے۔
جن آیتوں کو آپ کی جماعت کے حضرات، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کی دلیل میں پیش کرتے ہیں، من گھڑت تفسیر کے بجائے ان سے کہئے کہ ان میں ایک ہی آیت کی تفسیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے، صحابہ کرام سے، تابعین سے یا بعد کے کسی صدی کے مجدد کے حوالے سے پیش کردیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مرچکے ہیں، وہ آخری زمانہ میں نہیں آئیں گے، بلکہ ان کی جگہ ان کا کوئی مثیل آئے گا۔ کیا یہ ظلم و ستم کی انتہا نہیں کہ جو مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ و تابعین اور ائمہ مجددین کے عقیدے پر قائم ہیں ان کو تو “فیج اعوج” (یعنی گمراہ اور کجرو لوگ) کہا جائے، اور جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام اکابرِ امت کے خلاف قرآن کی تفسیر کریں اور ان تمام بزرگوں کو “مشرک” ٹھہرائیں، ان کو حق پر مانا جائے۔
میرے دل میں دو تین سوال آئے ہیں، جن کے جواب چاہتا ہوں، اور یہ جواب قرآن مجید کے ذریعہ دئیے جائیں، اور میں آپ کو یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ میں “احمدی” ہوں، اگر آپ نے میرے سوالوں کے جواب صحیح دئیے تو ہوسکتا ہے کہ میں آپ کے قریب زیادہ آجاوٴں۔
س:۱:… کیا آپ قرآن مجید کے ذریعہ یہ بتاسکتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر موجود ہیں اور اس جہان میں فوت نہیں ہوئے؟
س:۲:… کیا قرآن مجید میں کہیں ذکر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے؟ اور وہ آکر امام مہدی کا دعویٰ کریں گے؟
س:۳:… “کل نفس ذائقة الموت” کا لفظی معنی کیا ہے؟ اور کیا اس سے آپ کے دوبارہ آنے پر کوئی اثر نہیں پڑتا؟
ج… جہاں تک آپ کے اس ارشاد کا تعلق ہے کہ: “اگر آپ نے میرے سوالات کے جواب صحیح دئیے تو ہوسکتا ہے کہ میں آپ کے قریب آجاوٴں” یہ تو محض حق تعالیٰ کی توفیق و ہدایت پر منحصر ہے۔ تاہم جناب نے جو سوالات کئے ہیں، میں ان کا جواب پیش کر رہا ہوں اور یہ فیصلہ کرنا آپ کا اور دیگر قارئین کا کام ہے کہ میں جواب صحیح دے رہا ہوں یا نہیں؟ اگر میرے جواب میں کسی جگہ لغزش ہو تو آپ اس پر گرفت کرسکتے ہیں، وبالله التوفیق!
اصل سوالات پر بحث کرنے سے پہلے میں اجازت چاہوں گا کہ ایک اصولی بات پیش خدمت کروں۔ وہ یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور ان کی دوبارہ تشریف آوری کا مسئلہ آج پہلی بار میرے اور آپ کے سامنے نہیں آیا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور سے لے کر آج تک یہ امتِ اسلامیہ کا متواتر اور قطعی عقیدہ چلا آتا ہے، امت کا کوئی دور ایسا نہیں گزرا جس میں مسلمانوں کا یہ عقیدہ نہ رہا ہو، اور امت کے اکابر صحابہ کرام، تابعین اور ائمہ مجددین میں سے ایک فرد بھی ایسا نہیں جو اس عقیدے کا قائل نہ ہو۔ جس طرح نمازوں کی تعداد رکعات قطعی ہے، اسی طرح اسلام میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور آمد کا عقیدہ بھی قطعی ہے، خود جناب مرزا صاحب کو بھی اس کا اقرار ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:
“مسیح ابن مریم کے آنے کی پیش گوئی ایک اول درجے کی پیش گوئی ہے، جس کو سب نے بالاتفاق قبول کر لیا ہے اور جس قدر صحاح میں پیش گوئیاں لکھی گئی ہیں کوئی پیش گوئی اس کے ہم پہلو اور ہم وزن ثابت نہیں ہوتی، تواتر کا اول درجہ اس کو حاصل ہے۔” (ازالہ اوہام، روحانی خزائن ج:۳ ص:۴۰۰)
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
“اس امر سے دنیا میں کسی کو بھی انکار نہیں کہ احادیث میں مسیح موعود کی کھلی کھلی پیش گوئی موجود ہے، بلکہ قریباً تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ احادیث کی رو سے ضرور ایک شخص آنے والا ہے جس کا نام عیسیٰ بن مریم ہوگا، اور یہ پیش گوئی بخاری اور مسلم اور ترمذی وغیرہ کتب حدیث میں اس کثرت سے پائی جاتی ہے جو ایک منصف مزاج کی تسلی کے لئے کافی ہے۔”
“یہ خبر مسیح موعود کے آنے کی اس قدر زور کے ساتھ ہر ایک زمانے میں پھیلی ہوئی معلوم ہوتی ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی جہالت نہ ہوگی کہ اس کے تواتر سے انکار کیا جائے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر اسلام کی وہ کتابیں جن کی رو سے یہ خبر سلسلہ وار شائع ہوتی چلی آئی ہے صدی وار مرتب کرکے اکٹھی کی جائیں تو ایسی کتابیں ہزارہا سے کچھ کم نہ ہوں گی۔ ہاں یہ بات اس شخص کو سمجھانا مشکل ہے جو اسلامی کتابوں سے بالکل بے خبر ہے۔” (شہادة القرآن ص:۲، روحانی خزائن ج:۶ ص:۲۹۸)
مرزا صاحب، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کی احادیث کو متواتر اور امت کے اعتقادی عقائد کا مظہر قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
“پھر ایسی احادیث جو تعامل اعتقادی یا عملی میں آکر اسلام کے مختلف گروہوں کا ایک شعار ٹھہر گئی تھیں، ان کو قطعیت اور تواتر کی نسبت کلام کرنا تو درحقیقت جنون اور دیوانگی کا ایک شعبہ ہے۔” (شہادة القرآن ص:۵، روحانی خزائن ج:۶ ص:۳۰۱)
جناب مرزا صاحب کے یہ ارشادات مزید تشریح و وضاحت کے محتاج نہیں، تاہم اس پر اتنا اضافہ ضرور کروں گا کہ:
۱:…احادیثِ نبویہ میں (جن کو مرزا صاحب قطعی متواتر تسلیم فرماتے ہیں)، کسی گمنام “مسیح موعود” کے آنے کی پیش گوئی نہیں کی گئی، بلکہ پوری وضاحت و صراحت کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قربِ قیامت میں دوبارہ نازل ہونے کی خبر دی گئی ہے۔ پوری امتِ اسلامیہ کا ایک ایک فرد قرآن کریم اور احادیث کی روشنی میں صرف ایک ہی شخصیت کو “عیسیٰ علیہ السلام” کے نام سے جانتا پہچانتا ہے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بنی اسرائیل میں آئے تھے، اس ایک شخصیت کے علاوہ کسی اور کے لئے “عیسیٰ بن مریم علیہ السلام” کا لفظ اسلامی ڈکشنری میں کبھی استعمال نہیں ہوا۔
۲:…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر آج تک امتِ اسلامیہ میں جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کا عقیدہ متواتر رہا ہے، اس طرح ان کی حیات اور رفع آسمانی کا عقیدہ بھی متواتر رہا ہے، اور یہ دونوں عقیدے ہمیشہ لازم و ملزوم رہے ہیں۔
۳:…جن ہزارہا کتابوں میں صدی وار حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آنا لکھا ہے، ان ہی کتابوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ وہ آسمان پر زندہ ہیں اور قربِ قیامت میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔ پس اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کا انکار مرزا صاحب کے بقول “دیوانگی اور جنون کا ایک شعبہ ہے” تو ان کی حیات کے انکار کا بھی یقینا یہی حکم ہوگا۔ ان تمہیدی معروضات کے بعد اب آپ کے سوالوں کا جواب پیش خدمت ہے۔
۱:…حیاتِ عیسیٰ علیہ السلام:
آپ نے دریافت کیا تھا کہ کیا قرآن کریم سے یہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت نہیں بلکہ وہ زندہ ہیں؟ جواباً گزارش ہے کہ قرآن کریم کی متعدد آیتوں سے یہ عقیدہ ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہود کی گرفت سے بچاکر آسمان پر زندہ اٹھالیا۔
پہلی آیت:… سورة النساء آیت:۱۵۷، ۱۵۸ میں یہود کا یہ دعویٰ نقل کیا ہے کہ: “ہم نے مسیح بن مریم رسول اللہ کو قتل کردیا۔” اللہ تعالیٰ ان کے اس ملعون دعویٰ کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: “انہوں نے نہ تو عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کیا، نہ انہیں سولی دی، بلکہ ان کو اشتباہ ہوا ․․․․․․ اور انہوں نے آپ کو یقینا قتل نہیں کیا، بلکہ ہوا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی طرف اٹھالیا اور اللہ تعالیٰ زبردست ہے بڑی حکمت والا ہے۔”
یہاں جناب کو چند چیزوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں:
۱:…یہود کے دعویٰ کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قتل اور صلب (سولی دئیے جانے) کی تردید فرمائی، بعد ازاں قتل اور رفع کے درمیان مقابلہ کرکے قتل کی نفی کی اور اس کی جگہ رفع کو ثابت فرمایا۔
۲:…جہاں قتل اور رفع کے درمیان اس طرح کا مقابلہ ہو جیسا کہ اس آیت میں ہے، وہاں رفع سے روح اور جسم دونوں کا رفع مراد ہوسکتا ہے، یعنی زندہ اٹھالینا صرف روح کا رفع مراد نہیں ہوسکتا اور نہ رفع درجات مراد ہوسکتا ہے۔ قرآن کریم، حدیث نبوی اور محاورات عرب میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملے گی کہ کسی جگہ قتل کی نفی کرکے اس کی جگہ رفع کو ثابت کیا گیا ہو، اور وہاں صرف روح کا رفع یا درجات کا رفع مراد لیا گیا ہو، اور نہ یہ عربیت کے لحاظ سے ہی صحیح ہے۔
۳:…حق تعالیٰ شانہ جہت اور مکان سے پاک ہیں، مگر آسمان چونکہ بلندی کی جانب ہے اور بلندی حق تعالیٰ کی شان کے لائق ہے، اس لئے قرآن کریم کی زبان میں “رفع الی اللہ” کے معنی ہیں آسمان کی طرف اٹھایا جانا۔
۴:…حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہود کی دستبرد سے بچاکر صحیح سالم آسمان پر اٹھالیا جانا آپ کی قدر و منزلت کی دلیل ہے، اس لئے یہ رفع جسمانی بھی ہے اور روحانی اور مرتبی بھی۔ اس کو صرف رفع جسمانی کہہ کر اس کو رفع روحانی کے مقابل سمجھنا غلط ہے، ظاہر ہے کہ اگر صرف “روح کا رفع” عزت و کرامت ہے تو “روح اور جسم دونوں کا رفع” اس سے بڑھ کر موجب عزت و کرامت ہے۔
۵:…چونکہ آپ کے آسمان پر اٹھائے جانے کا واقعہ عام لوگوں کی عقل سے بالاتر تھا اور اس بات کا احتمال تھا کہ لوگ اس بارے میں چہ میگوئیاں کریں گے کہ ان کو آسمان پر کیسے اٹھالیا؟ اس کی کیا ضرورت تھی؟ کیا اللہ تعالیٰ زمین پر ان کی حفاظت نہیں کرسکتا تھا؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے علاوہ کسی اور نبی کو کیوں نہیں اٹھایا گیا؟ وغیرہ وغیرہ۔
ان تمام شبہات کا جواب “وکان الله عزیزا حکیما۔” میں دے دیا گیا۔ یعنی اللہ تعالیٰ زبردست ہے، پوری کائنات اس کے قبضہ قدرت میں ہے، اس لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صحیح سالم اٹھالینا اس کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں اور ان کے ہاں زندہ رہنے کی استعداد پیدا کردینا بھی اس کی قدرت میں ہے، کائنات کی کوئی چیز اس کے ارادے کے درمیان حائل نہیں ہوسکتی اور پھر وہ حکیم مطلق بھی ہے، اگر تمہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اٹھائے جانے کی حکمت سمجھ میں نہ آئے تو تمہیں اجمالی طور پر یہ ایمان رکھنا چاہئے کہ اس حکیم مطلق کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالینا بھی خالی از حکمت نہیں ہوگا، اس لئے تمہیں چون و چرا کی بجائے اللہ تعالیٰ کی حکمتِ بالغہ پر یقین رکھنا چاہئے۔
۶:…اس آیت کی تفسیر میں پہلی صدی سے لے کر تیرہویں صدی تک کے تمام مفسرین نے لکھا ہے کہ: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر زندہ اٹھایا گیا اور وہی قربِ قیامت میں آسمان سے نزول اجلال فرمائیں گے۔ چونکہ تمام بزرگوں کے حوالے دینا ممکن نہیں اس لئے میں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابن عباس کی تفسیر پر اکتفا کرتا ہوں۔ “جو قرآن کریم کے سمجھنے میں اول نمبر والوں میں سے ہیں اور اس بارے میں ان کے حق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا بھی ہے۔”(ازالہ اوہام ص:۲۴۷، روحانی خزائن ج:۳ ص:۲۲۵)
تفسیر در منثور (ج:۲ ص:۳۶)، تفسیر ابن کثیر (ج:۱ ص:۳۶۶)، تفسیر ابن جریر (ج:۳ ص:۲۰۲) میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ آپ نے یہودیوں سے فرمایا: “بے شک عیسیٰ علیہ السلام مرے نہیں اور بے شک وہ تمہاری طرف دوبارہ آئیں گے۔”
تفسیر در منثور (ج:۲ ص:۳) میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسائیوں کے وفد سے مباحثہ کرتے ہوئے فرمایا: “کیا تم نہیں جانتے کہ ہمارا رب زندہ ہے، کبھی نہیں مرے گا، اور عیسیٰ علیہ السلام پر موت آئے گی؟”
تفسیر ابن کثیر (ج:۱ ص:۵۷۴)، تفسیر درمنثور (ج:۲ ص:۲۳۸) میں حضرت ابن عباس سے بہ سند صحیح منقول ہے کہ: “جب یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پکڑنے کے لئے آئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی شباہت ایک شخص پر ڈال دی، یہود نے اسی “مثیلِ مسیح” کو مسیح سمجھ کر صلیب پر لٹکادیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مکان کے اوپر سے زندہ آسمان پر اٹھالیا۔”
جیسا کہ اوپر عرض کرچکا ہوں امت کے تمام اکابر مفسرین و مجددین متفق اللفظ ہیں کہ اس آیت کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صحیح سالم زندہ آسمان پر اٹھالیا گیا، اور سوائے فلاسفہ اور زنادقہ کے سلف میں سے کوئی قابل ذکر شخص اس کا منکر نہیں ہوا، اور نہ کوئی شخص اس بات کا قائل ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سولی چڑھنے اور پھر صلیبی زخموں سے شفایاب ہونے کے بعد کشمیر چلے گئے اور وہاں ۷۳ برس بعد ان کی وفات ہوئی۔
اب آپ خود ہی انصاف فرماسکتے ہیں کہ امت کے اس اعتقادی تعامل کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع آسمانی میں شک کرنا اور اس کی قطعیت اور تواتر میں کلام کرنا جناب مرزا صاحب کے بقول “درحقیقت جنون اور دیوانگی کا ایک شعبہ” ہے یا نہیں․․․؟