حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ
مولانا محمد عبداللہ معتصم حفظہ اللہ
قصبہ نانوتہ،کاندھلہ،دیوبند اور تھانہ بھون مشہور علمی مراکز ہیں۔یہاں خاندانِ شیوخ فاروقی،صدیقی،عثمانی اور انصاری آباد تھے۔ یہ قصبے ہمیشہ سے بزرگوں اور مشائخ کے مسکن رہے ہیں۔حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کا مولد اور وطن عزیز قصبہ نانوتہ ضلع سہارنپور ہے جو دیوبند سے بارہ میل مغربی جانب واقع ہے۔
آپ کا سلسلہ نسب سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے ۔ تاریخی نام خورشید حسین اور تاریخ پیدائش شعبان ۱۲۴۸ھ ہے۔والد کا نام شیخ اسد علی بن غلام شاہ ہے،جونہایت پرہیزگار ،صاحبِ اخلاق اور صوم وصلوۃ کے پابند تھے۔
آپ بچپن ہی سے ذہین،محنتی اور سعادت مند تھے۔تعلیم کے دوران ہمیشہ اپنے ساتھیوں میں نمایاں رہے۔آپ نے قصبہ دیوبند میں فارسی،عربی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعدمولانا مملوک علی نانوتوی ؒ کے ہمراہ دہلی تشریف لے گئے اور محدث حضرت مولانا شاہ عبدالغنی مجددی الحنفی ؒسے حدیث شریف کا دورہ پڑھا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے مولانا احمد علی سہارنپوری الحنفی کے کتب خانے ’’مطبع احمدی‘‘میں کتابت کا کام شروع کردیا ۔ ساتھ ساتھ درس وتدریس کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ، مولانا حکیم محمد صادق مرادآبادیؒ اور مولانا فیض الحسن گنگوہیؒ وغیرہ کو آپ نے زمانہ کتابت میں حدیث کی اکثر کتابیں پڑھائیں۔اسی زمانہ میں مولانا احمد علی سہارنپوریؒ نے بخاری شریف پر حاشیہ لکھنے کا کام شروع کیا تھا۔چوبیس پاروں کا حاشیہ تو حضرت سہارنپوری نے مکمل کیا تھا، آخر کے چھ پارے رہ گئے تھے۔وہ انہوں نے حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے ذمے لگادئے۔مولانا نے ان کو لکھا اور قابل رشک لکھا۔
اس دوران آپ نے شیخ المشائخ،مجاہد کبیر حضرت مولانا حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ کے دستِ حق پرست پر بیعت کرکے تصوف کی راہ اختیار کی ۔ ظاہری علوم کے علاوہ باطنی علوم ومعارف میں وہ مقام حاصل کرلیا جو ان کے زمانے میں واہب حقیقی نے ان کے لئے مخصوص کررکھا تھا۔
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی علمی قابلیت اور تقویٰ بے مثل وبے نظیر تھا۔ آپ کے مرشد حضرت حاجی صاحب ؒنے آپ کے بارے میں فرمایا تھا: ’’ایسے لوگ کبھی پہلے زمانے میں ہوا کرتے تھے، اب مدتوں سے نہیں ہوتے۔‘‘ایک موقع پر حضرت حاجی صاحب نے یہ بھی فرمایا :’’اللہ اپنے بعض بندوں کو ایک لسان عطافرماتے ہیں۔چنانچہ حضرت شمس التبریز کے واسطے مولانا روم کو لسان بنایا تھا اور مجھ کو مولانا محمد قاسم عطا ہوئے جو میرے قلب میں آتا ہے بیان کردیتے ہیں۔‘‘ایک مرید کے لئے مرشد کا یہ خراج تحسین بہت بڑی سعادت کی بات ہے۔
حضرت نانوتوی نے طالب علمی کے زمانے میں بہت سے خواب دیکھے تھے جو آنے والے دور میں ان کی خدمات اور رفع درجات کی طرف مشیر اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشریٰ وخوشخبری تھے۔چنانچہ مولانا محمد یعقوب نانوتوی ؒجو مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے ہم وطن،رفیق درس اور ہم زلف بھائی تھے،فرماتے ہیں:
’’ایام طالب علمی میں مولوی (محمد قاسم)صاحب نے ایک خواب دیکھا کہ میں خانہ کعبہ کی چھت پر کھڑا ہوں اور مجھ سے ہزاروں نہریں جاری ہیں۔انہوں نے یہ خواب جناب والد صاحب(یعنی حضرت مولانا مملوک علیؒ)سے ذکر کیا انہوں نے فرمایا کہ تم سے علم دین کا فیض بکثرت جاری ہوگا ‘‘
(سوانح مولانا قاسم ص۹)
آپ کا یہ خواب ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کی شکل میں شرمندہ تعبیر ہوا۔اور اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ دارالعلوم دیوبند اور اس کی دیگر سینکڑوں شاخوں سے قرآن وحدیث،فقہ اور علم دین کی جو نشرواشاعت ہوئی اس کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی ۔توحید ورسالت،خداخوفی اور فکر آخرت پیدا کرکے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں انسانوں کو باخدا بنا دیا۔ معاشرتی وتمدنی زندگی میں حقوق العباد کا صحیح جذبہ پیدا کیا اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے حال کو ماضی سے جوڑ دیا۔برصغیر پاک وہند میں قدم جمانے کے بعد فرنگیوں نے مختلف ہتھکنڈوں سے دوسرے مذاہب کو پامال کرنے اور عیسائیت کو پھیلانے کے لئے کوششیں شروع کیں تو اس کی مدافعت اور مزاحمت کے لئے مسلمانوں کی ایک انقلابی جماعت تیار ہوگئی ۔ حاجی صاحب کے رفقاء کار میں سے مولانا محمد قاسم نانوتویؒ،مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور حافظ ضامن تھانوی شہیدؒ وغیرہ شامل تھے۔ جہادِ حریت کے کارکن ہونے کی وجہ سے فرنگی حکومت نے حضرت نانوتویؒ کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کردیا۔احباب کے اصرار پر آپ تین دن تک روپوش رہے۔تین دن کے پورے ہوتے ہی یکدم باہر نکل آئے اور آزادانہ چلنے پھرنے لگے ۔ لوگوں نے پھر روپوش ہونے کے لئے عرض کیا تو فرمایا کہ تین دن سے زیادہ روپوش رہنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں کیونکہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غار ثور میں تین دن تک روپوش رہے۔
حضرت نانوتویؒ نے جس طرح دشمنانِ اسلام کے خلاف سیف وسنان سے جہاد کیا، عمر کے آخری دور میں قلم ولسان کے جہاد کا فریضہ بھی اس خوبی کے ساتھ ادا کیا کہ آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے ایک حجت اور دستاویز چھوڑ گئے۔اسی جذبہ جہاد نے ہی حضرت کے ذمے احقاق حق کی ذمہ داری لگائی تھی ۔ اہل تشیع سے مباحثے کئے،دلائل سے لبریز خطوط لکھے ۔ فرقہ اہل حدیث کو راہ راست پر لانے کے جذبے سے ان کو ہر طرح کی فہمائش کی، بریلوی مکتب فکر کے طبقہ کی اصلاح کے لئے سنت وبدعت کی حقیقت واضح فرمائی۔ اس سلسلے کا ایک واقعہ حکیم الاسلام قاری محمدطیب رحمہ اللہ کی زبانی نقل کرنا زیادہ مناسب ہوگاکہ ایک مرتبہ حضرت نانوتوی ؒقاضی پور گاؤں تشریف لے گئے۔ اتفاق سے دس محرم کا دن تھا۔ روافض نے حضرت کو اپنی مجلس میں آنے کی دعوت دی ۔حضرت نے فرمایا کہ منظور ہے مگر اس شرط پر جب آپ مجلس میں وعظ کریں گے تو ہمیں بھی کچھ کہنے کی اجازت ہوگی۔ اس پر وہ آمادہ نہ ہوئے اور وہیں کچھ مذہبی گفتگو کرتے ہوئے حضرت سے مطالبہ کیا کہ اگر آپ بیداری میں ہم کو حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرادیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زبان مبارک سے ارشاد فرمادیں کہ آپ حق پر ہو تو ہم اہل السنۃ والجماعۃ میں داخل ہوجائیں گے۔حضرت نانوتوی نے فرمایا کہ ’’اگر تم اپنی کہی ہوئی بات پر پختہ ہو تو میں بیداری میں زیارت کرانے کے لئے تیار ہوں‘‘مگر روافض حضرت کے اس چیلنج کو قبول نہ کرسکے اور اپنے مطالبہ سے رجوع کرلیا ۔اس قسم کے واقعات ہر مرحلہ پر ملیں گے۔جویقیناً اس حدیث کا مصداق ہیں:
إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ مَنْ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ. ( الصحيح للبخاري رقم الحدیث 2703)
اسلام کے اس جرنیل نے دیگر فتنوں کے تعاقب کےساتھ ساتھ عیسائیت اور آریہ دھرم کے خلاف بھی مناظرانہ جہاد کیا۔۱۸۷۸ ء میں شاہ جہان پور میں عیسائی پادری اسکاٹ اورنولس کے ساتھ دلائل نقلیہ و عقلیہ میں ایسی صحیح اور قطعی دلیلیں پیش کیں کہ ان پادریوں کو بھی تحریف ومنسوخیتِ انجیل کا قائل ہونا پڑا۔ اس موقع پر ہندو رہنما’’ منشی پیارے لال ‘‘نے کہا کہ مولوی محمد قاسم کے کیا کہنے؟ان کے دل پر علم کی سرستی (دیوی) بول رہی تھی۔قلم وقرطاس کی نعمت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حضرت نانوتوی کو انتہاء درجے کے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی نوازا تھا۔چنانچہ مولانا سید مناظر احسن گیلانی ؒ نے لکھا ہےکہ حضرت نانوتوی جب حج کے لئے تشریف لے گئے تو مدینہ طیبہ سے کئی میل دور ہی برہنہ پا چلتے رہے ۔آپ کے دل اور ضمیر نے اجازت نہ دی کہ دیار حبیب میں جوتا پہن کر چلے حالانکہ وہاں سنگریزوں اور نوکیلے پتھروں کی بھرمار تھی۔
(سوانح قاسمی ج۳ ص ۶۱)
درس وتدریس اور تبلیغ وارشاد کے علاوہ آپ نے متعدد کتابیں بھی تحریر فرمائی ہیں۔حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی ؒآپ کی لکھی گئی کتابوں کے متعلق فرمایا کرتے تھےکہ اگر ان کتابوں کا ترجمہ عربی زبان میں کیا جائے اور نام نہ لکھا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ یہ کتابیں امام رازی ؒیا امام غزالیؒ کی لکھی ہوئی ہیں۔
(قصص الاکابر ص۱۵۴)
آپ کی مشہور تصانیف یہ ہیں:
1. تقریر دلپذیر:اسلام کے اصول پر جامع مانع تقریر
2. 3. تحذیر الناس :زمینوں کے سات ہونے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبین ہونے پر عجیب بحث
4. 5. آب حیات :حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نفیس بحث
6. 7. قبلہ نما :جہت کعبہ سے شرک کا ایہام اور اس کا شافی جواب
8. 9. توثیق الکلام :مسئلہ ترک قراءت خلف الامام پرمحققانہ بحث
10. 11. الدلیل المحکم :اجرت تعلیم کے متعلق فتویٰ
12. 13. انتصار االاسلام :آریوں کے مقابلہ میں اسلامی اصول کی فلاسفی
14. 15. ہدیۃ الشیعہ :شیعہ عقائد پر مفصل بحث
16. 17. اجوبہ اربعین:تحذیر الناس پر علماء رامپور کے اعتراضات کا جواب وغیرہ
18. ۴ جمادی الاولیٰ ۱۲۹۷ھ مورخہ اپریل ۱۷۷۹ ء بروز جمعرات بعد از نماز ظہر حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند اس دارفانی سے دار باقی کی طرف رحلت فرما گئے۔اللہ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں نازل ہوں اس ہستی پر جس نے بادہ عرفان مصطفی سے تشنہ لبوں کو سیراب کیا۔