رضاخانی تحریف 16
اصل ملفوظات کی عبارت
میں نے خود دیکھا گاؤں میں ایک لڑکی18 یا 20 برس کی تھی ماں اس کی ضعیفہ تھی اس کا دودھ اس وقت تک نہ چھڑايا تھا ماں ہر چند منع کرتی وہ زور آور تھی بچھاڑتی اور سينے پر چڑھ کر دود ھ پینے لگتی ۔﴾ملفوظات حصہ دوم ص311﴿
احمد رضاخان کے اس ملفوظات کو پڑھ کر ایک عام قاری کے ذہن میں یقینا یہ سوالات آئیں گے کہ:
(۱) آخر ایک ضعیف عورت کواٹھارہ بيس سال تک دود ھ کیسے آتا رہا؟۔
(۲) اٹھارہ بيس برس کی لڑکی کیا کسی کی گود میں بيٹھ کر دودھ پی سکتی ہے وہ بھی ایک ضعیف عورت کی گود میں؟۔
(۳) احمد رضاخان کے اس گھرانے سے ايسے کیا تعلقات تھے کہ ان کے بارے میں اس قدر معلومات؟۔
(۴) کیا ان غير محرمات کے اس لڑائی جھگڑے کو دیکھنا شرعا جائز تھا؟۔
(۵) کیا شرعی طور پر احمد رضاخان کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ ایک نامحرم عورت کے سينے کودود ھ پلاتے ہوئے دیکھے؟۔
غرض اس قسم کے بہت سے سوالات احمد رضاخان صاحب کی ”پاکیزہ زندگی“ کی حقيقت کھولنے کیلئے ایک عام قاری کے ذہن میں آسکتے تھے ۔موجودہ بریلوی حضرات نے احمدرضاخان کی اس غير شرعی شرمناک اور بد نظری پر مشتمل واقعہ پر اس طرح پردہ ڈالا کہ اس عبارت کو ہی ختم کردیا گيا۔تاکہ نہ رہے عبارت اور نہ رہے یہ سوال۔
بریلوی دعوت اسلامی کے غازيوں کا کارنامہ
موجودہ ایڈیشن حصہ دوم ص 405 سے اس شرمناک عبارت کو ختم کردیا گيا۔۔کیوں۔۔؟؟؟
رضاخانی تحریف17
ملفوظات کی اصل عبارت
ایک صاحب اولیائے کرام میں سے تھے آپ کی خدمت میں بادشاہ وقت قدم بوسی کیلے حاضر ہوا حضور کے پاس کچھ سب نذر میں آئے تھے۔حضور نے ایک سیب ديا اور کہا کھاؤ عرض کی حضور بھی نوش فرمائیں آپ نے بھی کھائے اور بادشاہ نے بھی ۔اسوقت بادشاہ کے دل خطرہ آیا کہ یہ جو سب سے بڑا اچھا سيب ہے اگر اپنے ہاتھ سے اٹھا کر مجھ کو ديدیں گے تو جان لوں گا کہ ولی ہیں۔آپ نے وہی سیب اٹھا کر فرمایا ہم مصر گئے تھے وہاں ایک جلسہ بڑا بھاری تھا دیکھا ایک شخص ہے اس کے پاس ایک گدھا ہے اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے ایک چیز ایک شخص کی ایک دوسرے کے پاس رکھ دی جاتی ہے۔اس گدھے سے پوچھا جاتا ہے گدھا ساری مجلس میں دورہ کرتا ہے جس کے پاس ہوتی ہے سامنے جاکر سر ٹيک ديتا ہے ۔یہ حکایت ہم نے اس لئے بيان کی کہ اگر یہ سيب ہم نہ دیں تو ولی ہی نہیں اور اگر ديديں تو اس گدھے سے بڑھ کر کیا کمال دکھايا ۔یہ فرماکر سيب بادشاہ کی طرف پھینک دیا۔بس یہ سمجھ گئے کہ وہ صفت جوغير انسان کیلئے ہوسکتی ہے انسان کیلئے کمال نہیں اور جو غير مسلم کیلئے ہوسکتی ہے مسلم کیلئے کمال نہیں۔﴾ملفوظات حصہ چہارم،ص342،343﴿
مولوی احمد رضاخان صاحب کے اس ملفوظ سے چند باتيں معلوم ہوئیں اول یہ کہ بریلویوں کے گدھے کو بھی علم غيب ہوتا ہے ،دوم مولوی احمد رضاخان صاحب اس میں فرماتے ہیں کہ علم غيب اور غيب کی باتيں تو جانوروں اور غير مسلموں کو بھی ہوجاتی ہیں۔
اگر ایسا ہی ہے تو نہ معلوم بریلوی حضرات اولیائے کرام اور انبياءعظام علیہم الصلوة والسلام کو ”غيب دان “ مان کر کون سے عشق کا ثبوت دے رہے ہیں؟؟؟ اور نہ ماننے والوں پر طرح طرح کے فتوے لگاتے ہیں۔یہ کونسی فضیلت ہے جس میں کافر تو کیا حيوان بھی برابر ہيں؟؟؟۔
بریلوی دعوت اسلامی کے غازيوں کا کارنامہ
شائد اسی وجہ سے بریلوی حضرات کو اپنے ”آلہ حضرت“ کایہ ملفوظ کچھ پسند نہ آیا اور جدید ایڈیشن میں اس ملفوظ کو ”ہضم “ کرگئے ۔ ملاحظہ ہو ملفوظات حصہ چہارم ص 441۔
رضاخانی تحریف 18
احمد رضاخان کے خلیفہ مولوی ابو الحسنات قادری اپنی کتاب اوراق غم میں ایک جگہ حضرت آدم علیہ السلام کی توہین کرتے ہوئے لکھتاہے کہ :
وہ آدم جو سلطان مملکت بہشت تھے وہ آدم جو متوج بتاج عزت تھے آج شکار تےر مذلت ہیں۔
(اوراق غم ،ص ۲ ،طبع اول 1348 ھ مطبوعہ منظور عام سٹيم پریس بازار پیسہ اخبار سٹريٹ لاہور)
چونکہ بریلوی حضرات کے نزدیک کسی بھی قسم کی تاویل جائز نہیں اور الفاظ کا جو ظاہر مفہوم ہوگا وہی معنی مراد لیا جائے گا اور یہاں حضرت آدم علیہ السلام کیلئے ”مذلت“ کا لفظ استعمال کیا گیا جو بریلوی مذہب میں انبياءکی شدید گستاخی پر مبنی ہے لہٰذا س گستاخی کی بنیاد پر بجائے پیر حسنات پر کفر کافتوی لگانے کے بریلویوں نے اس پوری عبارت میں تحریف کردی اور ضیاء القرآن کے غازیوں نے جو اوراق غم شائع کی اس میں یہ عبارت اس طرح نقل کی:
وہ آدم جو سلطان مملکت بہشت تھے وہ آدم جو متوج بتاج عزت تھے آج مصائب میں مبتلاہیں ۔ (اوراق غم، ص 11،ضیاءالقرآن پبلیکیشنز لاہور،جنوری 2008
Post a Comment