حضرت مہدی کے ظہور کی کیا نشانیاں ہیں؟
س… آپ کے صفحہ “اقرأ” کے مطابق امام مہدی آئیں گے، جب امام مہدی آئیں گے تو ان کی نشانیاں کیا ہوں گی؟ اور اس وقت کیا نشان ظاہر ہوں گے جس سے ظاہر ہو کہ حضرت امام مہدی آگئے ہیں؟ قرآن و حدیث کا حوالہ ضرور دیجئے۔
ج… اس نوعیت کے ایک سوال کا جواب “اقرأ” میں پہلے دے چکا ہوں، مگر جناب کی رعایتِ خاطر کے لئے ایک حدیث لکھتا ہوں۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتی ہیں کہ: “ایک خلیفہ کی موت پر (ان کی جانشینی کے مسئلہ پر) اختلاف ہوگا، تو اہل مدینہ میں سے ایک شخص بھاگ کر مکہ مکرمہ آجائے گا (یہ مہدی ہوں گے اور اس اندیشہ سے بھاگ کر مکہ آجائیں گے کہ کہیں ان کو خلیفہ نہ بنادیا جائے) مگر لوگ ان کے انکار کے باوجود ان کو خلافت کے لئے منتخب کریں گے، چنانچہ حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان (بیت اللہ شریف کے سامنے) ان کے ہاتھ پر لوگ بیعت کریں گے۔”
“پھر ملک شام سے ایک لشکر ان کے مقابلے میں بھیجا جائے گا، لیکن یہ لشکر “بیداء” نامی جگہ میں جو کہ مکہ و مدینہ کے درمیان ہے، زمین میں دھنسادیا جائے گا، پس جب لوگ یہ دیکھیں گے تو (ہر خاص و عام کو دور دور تک معلوم ہوجائے گا کہ یہ مہدی ہیں) چنانچہ ملک شام کے ابدال اور اہل عراق کی جماعتیں آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر آپ سے بیعت کریں گی۔ پھر قریش کا ایک آدمی جس کی ننھیال قبیلہ بنوکلب میں ہوگی آپ کے مقابلہ میں کھڑا ہوگا۔ آپ بنوکلب کے مقابلے میں ایک لشکر بھیجیں گے وہ ان پر غالب آئے گا اور بڑی محرومی ہے اس شخص کے لئے جو بنوکلب کے مالِ غنیمت کی تقسیم کے موقع پر حاضر نہ ہو۔ پس حضرت مہدی خوب مال تقسیم کریں گے اور لوگوں میں ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے موافق عمل کریں گے اور اسلام اپنی گردن زمین پر ڈال دے گا (یعنی اسلام کو استقرار نصیب ہوگا)۔ حضرت مہدی سات سال رہیں گے پھر ان کی وفات ہوگی اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔” (یہ حدیث مشکوٰة شریف ص:۴۷۱ میں ابوداوٴد کے حوالے سے درج ہے، اور امام سیوطینے العرف الوردی فی آثار المہدی ص:۵۹ میں اس کو ابن ابی شیبہ، احمد ابوداوٴد، ابویعلیٰ اور طبری کے حوالے سے نقل کیا ہے)۔
الامام المہدی ․․․ سنی نظریہ
محترم المقام جناب مولانا لدھیانوی صاحب
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ!
“جنگ” جمعہ ایڈیشن میں کسی سوال کے جواب میں آپ نے مہدی منتظر کی “مفروضہ پیدائش” پر روشنی ڈالتے ہوئے “امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ” کے پُرشکوہ الفاظ استعمال کئے ہیں جو صرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لئے مخصوص ہیں۔ دوسرے، قرآن مقدس اور حدیث مطہرہ سے “امامت” کا کوئی تصور نہیں ملتا، علاوہ ازیں اس سلسلہ میں جو روایات ہیں وہ معتبر نہیں کیونکہ ہر سلسلہٴ رواة میں قیس بن عامر شامل ہے، جو متفقہ طور پر کاذب اور من گھڑت احادیث کے لئے مشہور ہے۔
ابن خلدون نے اس بارے میں جن موافق و مخالف احادیث کو یکجا کرنے پر اکتفا کیا ہے ان میں کوئی بھی سلسلہٴ تواتر کو نہیں پہنچتی، اور ان کا انداز بھی بڑا مشتبہ ہے۔
لہٰذا میں حق و صداقت کے نام پر درخواست کروں گا کہ مہدی منتظر کی شرعی حیثیت قرآن عظیم اور صحیح احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں بذریعہ “جنگ” مطلع فرمائیں، تاکہ اصل حقیقت ابھر کر سامنے آجائے، اس سلسلہ میں مصلحت اندیشی یا کسی قسم کا ابہام یقینا قیامت میں قابل موٴاخذہ ہوگا۔
شیعہ عقیدہ کے مطابق مہدی منتظر کی ۲۵۵ھ میں جناب حسن عسکری کے یہاں نرجس خاتون کے بطن سے ولادت ہوچکی ہے اور وہ حسن عسکری کی رحلت کے فوراً بعد ۵ سال کی عمر میں حکمتِ خداوندی سے غائب ہوگئے اور اس غیبت میں اپنے نائبین، حاجزین، سفرا اور وکلاء کے ذریعہ خمس وصول کرتے، لوگوں کے احوال دریافت کرکے حسبِ ضرورت ہدایات، احکامات دیتے رہتے ہیں، اور انہیں کے ذریعہ اس دنیا میں اصلاح و خیر کا عمل جاری ہے، اس کی تائید میں لٹریچر کا طویل سلسلہ موجود ہے۔
میرے خیال میں علمائے اہل سنت نے اس ضمن میں اپنے اردگرد پائی جانے والی مشہور روایات ہی کو نقل کردیا ہے، مزید تاریخی یا شرعی حیثیت و تحقیق سے کام نہیں لیا، اور اغلباً اسی اتباع میں آپ نے بھی اس “مفروضہ” کو بیان کر ڈالا ہے، کیا یہ درست ہے؟
ج… حضرت مہدی علیہ الرضوان کے لئے “رضی اللہ عنہ” کے “پُرشکوہ الفاظ” پہلی بار میں نے استعمال نہیں کئے، بلکہ اگر آپ نے مکتوبات امامِ ربانی کا مطالعہ کیا ہے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ مکتوبات شریفہ میں امام ربانی مجدد الف ثانی نے حضرت مہدی کو انہیں الفاظ سے یاد کیا ہے۔ پس اگر یہ آپ کے نزدیک غلطی ہے تو میں یہی عرض کرسکتا ہوں کہ اکابرِ امت اور مجددینِ ملت کی پیروی میں غلطی:
ایں خطا از صد صواب اولیٰ تر است
کی مصداق ہے۔ غالباً کسی ایسے ہی موقع پر امام شافعی نے فرمایا تھا:
ان کان رفضاً حُب اٰل محمد
فلیشھد الثقلان انی رافضیاً
ترجمہ:…”اگر آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا نام رافضیت ہے، تو جن و انس گواہ رہیں کہ میں پکا رافضی ہوں۔”
آپ نے حضرت مہدی کو “رضی اللہ عنہ” کہنے پر جو اعتراض کیا ہے، اگر آپ نے غور و تأمل سے کام لیا ہوتا تو آپ کے اعتراض کا جواب خود آپ کی عبارت میں موجود ہے۔ کیونکہ آپ نے تسلیم کیا ہے کہ “رضی اللہ عنہ” کے الفاظ صرف صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے لئے مخصوص رہے ہیں، آپ کو معلوم ہوگا کہ حضرت مہدی علیہ الرضوان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفیق و مصاحب ہوں گے، پس جب میں نے ایک “مصاحبِ رسول” ہی کے لئے “رضی اللہ عنہ” کے الفاظ استعمال کئے ہیں تو آپ کو کیا اعتراض ہے؟ عام طور پر حضرت مہدی کے لئے “علیہ السلام” کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، جو لغوی معنی کے لحاظ سے بالکل صحیح ہے، اور مسلمانوں میں “السلام علیکم، وعلیکم السلام” یا “وعلیکم وعلیہ السلام” کے الفاظ روزمرہ استعمال ہوتے ہیں، مگر کسی کے نام کے ساتھ یہ الفاظ چونکہ انبیاء کرام یا ملائکہ عظام کے لئے استعمال ہوتے ہیں، اس لئے میں نے حضرت مہدی کے لئے کبھی یہ الفاظ استعمال نہیں کئے، کیونکہ حضرت مہدی نبی نہیں ہوں گے۔
جناب کو حضرت مہدی کے لئے “امام” کا لفظ استعمال کرنے پر بھی اعتراض ہے، اور آپ تحریر فرماتے ہیں کہ: “قرآن مقدس اور حدیث مطہرہ سے امامت کا کوئی تصور نہیں ملتا” اگر اس سے مراد ایک خاص گروہ کا نظریہ امامت ہے تو آپ کی یہ بات صحیح ہے۔ مگر جناب کو یہ بدگمانی نہیں ہونی چاہئے تھی کہ میں نے بھی “امام” کا لفظ اسی اصطلاحی مفہوم میں استعمال کیا ہوگا، کم سے کم امام مہدی کے ساتھ “رضی اللہ عنہ” کے الفاظ کا استعمال ہی اس امر کی شہادت کے لئے کافی ہے کہ “امام” سے یہاں ایک خاص گروہ کا اصطلاحی “امام” مراد نہیں۔
اور اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کسی شخص کو امام بمعنی مقتدا، پیشوا، پیش رو کہنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی تو آپ کا یہ ارشاد بجائے خود ایک عجوبہ ہے۔ قرآن کریم، حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور اکابر امت کے ارشادات میں یہ لفظ اس کثرت سے واقع ہوا ہے کہ عورتیں اور بچے تک بھی اس سے نامانوس نہیں۔ آپ کو “واجعلنا للمتقین اماما” کی آیت اور “من بایع اماما” کی حدیث تو یاد ہوگی اور پھر امت محمدیہ (علیٰ صاحبہا الصلوٰة والسلام) کے ہزاروں افراد ہیں جن کو ہم “امام” کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ فقہ و کلام کی اصطلاح میں “امام” مسلمانوں کے سربراہ مملکت کو کہا جاتا ہے (جیسا کہ حدیث: “من بایع اماما” میں وارد ہوا ہے)۔
حضرت مہدی کا ہدایت یافتہ اور مقتدا و پیشوا ہونا تو لفظ “مہدی” ہی سے واضح ہے اور وہ مسلمانوں کے سربراہ بھی ہوں گے، اس لئے ان کے لئے “امام” کے لفظ کا استعمال قرآن و حدیث اور فقہ و کلام کے لحاظ سے کسی طرح بھی محل اعتراض نہیں۔
ظہورِ مہدی کے سلسلہ کی روایات کے بارے میں آپ کا یہ ارشاد کہ:
“اس سلسلہ میں جو روایات ہیں وہ معتبر نہیں، کیونکہ ہر سلسلہٴ رواة میں قیس بن عامر شامل ہے، جو متفقہ طور پر کاذب اور من گھڑت احادیث کے لئے مشہور ہے۔”
بہت ہی عجیب ہے! معلوم نہیں جناب نے یہ روایات کہاں دیکھی ہیں جن میں سے ہر روایت میں قیس بن عامر کذاب آگھستا ہے؟
میرے سامنے ابوداوٴد (ج:۲ ص:۵۸۸، ۵۸۹) کھلی ہوئی ہے، جس میں حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت علی، حضرت ام سلمہ، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہم کی روایت سے احادیث ذکر کی گئی ہیں، ان میں سے کسی سند میں مجھے قیس بن عامر نظر نہیں آیا۔
جامع ترمذی (ج:۲ ص:۴۶) میں حضرت ابوہریرہ، حضرت ابن مسعود اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہم کی احادیث ہیں، ان میں سے اول الذکر دونوں احادیث کو امام ترمذی نے “صحیح” کہا ہے، اور آخر الذکر کو “حسن”، ان میں بھی کہیں قیس بن عامر نظر نہیں آیا۔
سنن ابن ماجہ میں یہ احادیث حضرات عبداللہ بن مسعود، ابو سعید خدری، ثوبان، علی، ام سلمہ، انس بن مالک، عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہم کی روایت سے مروی ہیں۔ ان میں بھی کسی سند میں قیس بن عامر کا نام نہیں آتا۔
مجمع الزوائد (ج:۷ ص:۳۱۵ تا ۳۱۸) میں مندرجہ ذیل صحابہ کرام سے اکیس روایات نقل کی ہیں:
۱:…حضرت ابوسعید خدری: ۴
۲:…حضرت ام سلمہ: ۴
۳:…حضرت ابوہریرہ: ۳
۴:…حضرت ام حبیبہ: ۱
۵:…حضرت عائشہ: ۱
۶:…حضرت قرة بن ایاس: ۱
۷:…حضرت انس: ۱
۸:…حضرت عبداللہ بن مسعود: ۱
۹:…حضرت جابر: ۱
۱۰:…حضرت طلحہ: ۱
۱۱:…حضرت علی: ۱
۱۲:…حضرت ابن عمر: ۱
۱۳:…حضرت عبداللہ بن حارث: ۱
ان میں سے بعض روایات کے راویوں کی تضعیف کی ہے اور دو روایتوں میں دو کذاب راویوں کی بھی نشاندہی کی ہے، مگر کسی روایت میں قیس بن عامر کا نام ذکر نہیں کیا، اس لئے آپ کا یہ کہنا کہ ہر روایت کے سلسلہٴ رواة میں قیس بن عامر شامل ہے، محض غلط ہے۔
آپ نے موٴرخ ابن خلدون کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے اس سلسلہ میں موافق اور مخالف احادیث کو یکجا کرنے پر اکتفا کیا ہے، ان میں کوئی بھی سلسلہٴ تواتر کو نہیں پہنچتی اور ان کا انداز بھی بڑا مشتبہ ہے۔
اس سلسلہ میں یہ عرض ہے کہ آخری زمانے میں ایک خلیفہ عادل کے ظہور کی احادیث صحیح مسلم، ابوداوٴد، ترمذی، ابن ماجہ اور دیگر کتب احادیث میں مختلف طرق سے موجود ہیں۔ یہ احادیث اگرچہ فرداً فرداً آحاد ہیں مگر ان کا قدر مشترک متواتر ہے۔ آخری زمانے کے اسی خلیفہ عادل کو احادیثِ طیبہ میں “مہدی” کہا گیا ہے، جن کے زمانے میں دجال اعور کا خروج ہوگا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوکر اسے قتل کریں گے۔ بہت سے اکابر امت نے احادیثِ مہدی کو نہ صرف صحیح بلکہ متواتر فرمایا ہے اور انہی متواتر احادیث کی بنا پر امتِ اسلامیہ ہر دور میں آخری زمانے میں ظہورِ مہدی کی قائل رہی ہے، خود ابن خلدون کا اعتراف ہے:
“اعلم ان المشہور بین الکافة من اھل الاسلام علی ممر الاعصار انہ لا بد فی آخر الزمان من ظھور رجل من اھل البیت یوٴید الدین ویظھر العدل ویتبعہ المسلمون ویستولی علی الممالک الاسلامیة ویسمی بالمھدی ویکون خروج الدجال وما بعدہ من اشراط الساعة الثابتة فی الصحیح علی اثرہ وان عیسیٰ ینزل من بعدہ فیقتل الدجال او ینزل معہ فیساعدہ علیٰ قتلہ ویأتم بالمھدی فی صلاتہ۔”(مقدمہ ابن خلدون ص:۳۱۱)
ترجمہ:…”جاننا چاہئے کہ تمام اہل اسلام کے درمیان ہر دور میں یہ بات مشہور رہی ہے کہ آخری زمانے میں اہل بیت میں سے ایک شخص کا ظہور ضروری ہے جو دین کی تائید کرے گا، اس کا نام مہدی ہے اور دجال کا خروج اور اس کے بعد کی وہ علاماتِ قیامت جن کا احادیث صحیحہ میں ذکر ہے ظہورِ مہدی کے بعد ہوں گی۔ اور عیسیٰ علیہ السلام مہدی کے بعد نازل ہوں گے، پس دجال کو قتل کریں گے۔ یا مہدی کے زمانے میں نازل ہوں گے، پس حضرت مہدی قتل دجال میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفیق ہوں گے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نماز میں حضرت مہدی کی اقتدا کریں گے۔”
اور یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کے عقائد پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں بھی “علاماتِ قیامت” کے ذیل میں ظہورِ مہدی کا عقیدہ ذکر کیا گیا ہے، اور اہل علم نے اس موضوع پر مستقل رسائل بھی تالیف فرمائے ہیں۔ پس ایک ایسی خبر جو احادیث متواترہ میں ذکر کی گئی ہو، جسے ہر دور اور ہر زمانے میں تمام مسلمان ہمیشہ مانتے چلے آئے ہوں، اور جسے اہل سنت کے عقائد میں جگہ دی گئی ہو، اس پر جرح کرنا یا اس کی تخفیف کرنا، پوری امتِ اسلامیہ کو گمراہ اور جاہل قرار دینے کے مترادف ہے۔ جیسا کہ آپ نے اپنے خط کے آخر میں مہدی کے بارے میں ایک مخصوص فرقہ کا نظریہ ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے:
“میرے خیال میں علماء اہل سنت نے اس ضمن میں اپنے اردگرد پائی جانے والی مشہور روایات ہی کو نقل کردیا ہے۔ مزید تاریخی یا شرعی حیثیت و تحقیق سے کام نہیں لیا اور اغلباً اسی اتباع میں آپ نے بھی اس “مفروضہ” کو بیان کر ڈالا، کیا یہ درست ہے؟”
گویا حفاظِ حدیث سے لے کر مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ دہلوی تک وہ تمام اکابرِ امت اور مجددینِ ملت نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کر دکھایا، آپ کے خیال میں سب دودھ پیتے بچے تھے کہ وہ تاریخی و شرعی تحقیق کے بغیر گرد و پیش میں پھیلے ہوئے افسانوں کو اپنی اسانید سے نقل کردیتے اور انہیں اپنے عقائد میں ٹانک لیتے تھے؟ غور فرمائیے کہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم: “ولعن آخر ھذہ الامة اولھا” کی کیسی شہادت آپ کے قلم نے پیش کردی․․․! میں نہیں سمجھتا کہ احساسِ کمتری کا یہ عارضہ ہمیں کیوں لاحق ہوجاتا ہے کہ ہم اپنے گھر کی ہر چیز کو “آوردہٴ اغیار” تصور کرنے لگتے ہیں۔ آپ علمائے اہل سنت پر یہ الزام لگانے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے کہ انہوں نے ملاحدہ کی پھیلائی ہوئی روایات کو تاریخی و شرعی معیار پر پرکھے بغیر اپنے عقائد میں شامل کرلیا ہوگا (جس سے اہل سنت کے تمام عقائد و روایات کی حیثیت مشکوک ہوجاتی ہے، اور اسی کو میں “احساسِ کمتری” سے تعبیر کر رہا ہوں)، حالانکہ اسی مسئلہ کا جائزہ آپ دوسرے نقطہ نظر سے بھی لے سکتے تھے کہ آخری زمانے میں ایک خلیفہ عادل حضرت مہدیکے ظہور کے بارے میں احادیث و روایات اہل حق کے درمیان متواتر چلی آتی تھیں۔ گمراہ فرقوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے اسی عقیدہ کو لے کر اپنے انداز میں ڈھالا اور اس میں موضوع اور من گھڑت روایات کی بھی آمیزش کرلی۔ جس سے ان کا مطمع نظر ایک تو اپنے سیاسی مقاصد کو بروئے کار لانا تھا، اور دوسرا مقصد مسلمانوں کو اس عقیدے ہی سے بدظن کرنا تھا، تاکہ مختلف قسم کی روایات کو دیکھ کر لوگ الجھن میں مبتلا ہوجائیں اور ظہورِ مہدی کے عقیدے ہی سے دستبردار ہوجائیں۔ ہر دور میں جھوٹے مدعیان مہدویت کے پیش نظر بھی یہی دو مقصد رہے، چنانچہ گزشتہ صدی کے آغاز میں پنجاب کے جھوٹے مہدی نے جو دعویٰ کیا اس میں بھی یہی دونوں مقصد کارفرما نظر آتے ہیں۔ الغرض سلامتیٴ فکر کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم اس امر کا یقین رکھیں کہ اہل حق نے اصل حق کو جوں کا توں محفوظ رکھا اور اہل باطل نے اسے غلط تعبیرات کے ذریعہ کچھ کا کچھ بنادیا، حتیٰ کہ جب کچھ نہ بن آئی تو امام مہدی کو ایک غار میں چھپاکر پہلے غیبتِ صغریٰ کا اور پھر غیبتِ کبریٰ کا پردہ اس پر تان دیا، لیکن آخر یہ کیا اندازِ فکر ہے کہ تمام اہل حق کے بارے میں یہ تصور کرلیا جائے کہ وہ اغیار کے مالِ مستعار پر جیا کرتے تھے!
جہاں تک ابن خلدون کی رائے کا تعلق ہے، وہ ایک موٴرخ ہیں، اگرچہ تاریخ میں بھی ان سے مسامحات ہوئے ہیں، فقہ و عقائد اور حدیث میں ابن خلدون کو کسی نے سند اور حجت نہیں مانا، اور یہ مسئلہ تاریخ کا نہیں بلکہ حدیث و عقائد کا ہے، اس بارے میں محدثین و متکلمین اور اکابر امت کی رائے قابل اعتناء ہوسکتی ہے۔
امداد الفتاویٰ جلد ششم میں صفحہ: ۲۵۹ سے صفحہ:۲۶۷ تک “موخذة الظنون عن ابن خلدون” کے عنوان سے حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ نے ابن خلدون کے شبہات کا شافی جواب تحریر فرمایا ہے، اسے ملاحظہ فرمالیا جائے۔
خلاصہ یہ کہ “مسئلہ مہدی” کے بارے میں اہل حق کا نظریہ بالکل صحیح اور متواتر ہے اور اہل باطل نے اس سلسلہ میں تعبیرات و حکایات کا جو انبار لگایا ہے نہ وہ لائق التفات ہے اور نہ اہل حق کو اس سے مرعوب ہونے کی ضرورت ہے۔